1600ء میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کو جنوبی ایشیا میں تجارت کی اجازت ملی تھی اور پھر تجارت کا سلسلہ شروع ہوگیا ، بعد ازاں دیکھتے ہی دیکھتے کمپنی کی نظریں تخت وتاج پر آٹھہریں اور پھر ایک طویل داستان ہے کہ کس طرح کمپنی تخت و تاج پر براجمان ہوئی، کس طرح ہندوستان کی معیشت پر کنٹرول کیا گیا اور پھر ہندوستانی لگان دے کر رہنے لگے بلکہ قحط کے دنوں میں یہ لگان دگنا کردیا جاتا۔ 1857ء میں جنگ آزادی کا معاملہ رو نما ہوا تو اس کے بعد براہ راست ہندوستان برطانوی راج کے زیرنگیں آگیا ۔پھر تو انگریزوں کے مظالم کی نہ ختم ہونے والی داستان تھی ، جو ظلم و جبر اور سفاکیت کی بھیانک مثال تھی، یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا حتی کہ برطانوی راج تقسیم ہند کی صورت میں ختم ہوا اور بھارت و پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔
ہندوستان کے موجودہ احوال جو مسلمانوں کے ساتھ رونما ہونے والے مظالم کی منہ بولتی تصاویر ہیں ، یہ حقائق اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کا اکٹھے گزارہ مشکل ہی نہیں ناممکن تھابنابریں قیام ِپاکستان سے قبل مسلمانانِ ہند مختلف النوع مشکلات کا شکار تھے ، ایک طرف بیان کردہ انگریزوں کی روش تھی تو دوسری طرف اسی دور میں مسلمانوں کے لیے مزید تکلیف دہ معاملہ ہندوؤں کی اسلام دشمنی تھی ، جو کبھی لسانی تحریک کی صورت میں نظر آتی ہے جس کا مقصد ہندی کو سرکاری اور عدالتی زبان کے طور پر رائج کرنا تھا، کبھی سیاسی میدانوں میں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ہندوؤں کا انگریزوں کے ساتھ روابط مضبوط بنانا اور سیاسی فوائد اٹھانا، مسلمانوں کا سیاسی طور پر نظر انداز کیا جانا، متعصب ہندو لیڈروں کی متعصبانہ سرگرمیاں ، انتہا پسند ہندو تحریکیں نتیجتاً مسلم ، ہندو فسادات وجود میں آئے ، اس قسم کے واقعات سے دو قومی نظریہ کھل کر واضح ہوگیا اور پھر آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاست کا مرکزی نکتہ دو قومی نظریہ ہی رہا جو آگے چل کر تحریک پاکستان کی صورت اختیار کرگیا۔ پھر وہ دن بھی مسلمانوں نے دیکھا کہ لاکھوں قربانیاں دے کر ایک آزاد ریاست وجود میں آئی جس میں صرف اللہ رب العالمین کی حاکمیت کو بنیاد بنایاگیا، جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کہتے ہیں۔
آج اللہ رب العالمین کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ آج ہم ایک آزاد اور اسلامی ریاست میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ خود احتسابی کی بات کی جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارا اس ملک سے تعلق اس قدر رسمی و سطحی ہے کہ 14 اگست کو چند جذباتی کاموں ، نعروں کو عین ذمہ داری سمجھتے ہوئے بجالاتے ہیں اور پھر پورا سال ہر طبقہ ملک کو اپنے حصے کا نقصان پہنچانے پھر نقصان کی ذمہ داری کسی اور پر ڈالنےکی ’’ذمہ دارانہ ‘‘ روش میں مصروف رہتا ہے ، اس لیے راقم بنیتِ اصلاح و خیر خواہی یوم ِ آزادی کے موقع پر اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہے کہ ہم فرق کریں کہ ہمارے کرنے کے کام کون سے ہیں اور چھوڑ دینے کے کام کون سے ہیں ؟
یوم آزادی اور کرنے کے کام
بحیثیت مسلمان اور سچا محبِ پاکستان اور ذمہ دار شہری کے کچھ کام بالخصوص یوم آزادی کے موقع پر کرنے چاہییں جنہیں یہاں بیان کیا جارہا ہے۔
۱۔اللہ تعالیٰ کا شکر :
سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے کہ خالصتاً اس کی توفیق اور مدد کے ساتھ ہی ایسا ممکن ہوا کہ آج ہم دین اسلام کے احکام کو مکمل طور پر آزادانہ انداز میں اپنا سکتے ہیں اور اس ملک میں رہنے والے کسی پاکستانی کو کوئی غیر مسلم ہندو یا انگریز اپنے تعصب کا نشانہ نہیں بناسکتا، یہاں ہماری عورتوں کے حجاب نہیں چھینے جاسکتے ، ہماری مساجد کو نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا ، محض اس قصور میں کہ وہ مسلمان ہے اس کی جان نہیں لی جاسکتی۔ پھر یہ مملکت ہر قسم کی خداداد نعمتوں اور صلاحیتوں کی حامل ہے ، اس عظیم نعمت پر ہم اپنے رب کا شکر ادا نہ کریں یہ انتہا درجے کی ناشکری ہے جو ایک مسلمان کے شایان ِ شان نہیں۔
۲۔ دعائیں
اللہ تعالیٰ سے خوب دعائیں التجائیں کی جائیں کہ اللہ اس ملک کو تا قیامت خوشحال رکھے اور ہر قسم کی سازش و حسد اور دشمنی سے محفوظ رکھے۔ اللہ رب العالمین اس ملک کے محافظوں کی مدد فرمائے اور اس کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے اور دنیا کے لیے عبرت بنادے۔ اس ملک کو صنعت و حرفت اور زراعت سمیت ہر قسم کی دولت سے مالا مال فرمادے۔ ہمارا ملک اس وقت جس قسم کی مشکلات میں گھرا ہو ہے ، یااللہ خصوصی مدد فرما کہ ان مشکلات سے کلی طور پر نجات حاصل ہو۔ ا ٓمین
۳۔ خود احتسابی
ہر شخص ذمہ دارشہری ہونے کی حیثیت سے اپنا جائزہ لے کہ اس کا طرزِ زندگی اور معاملاتِ زندگی ملک کے مفاد میں ہیں ، یا نقصان دہ ہیں۔ اس ملک کی تعلیم ، معاشرت ، معیشت و اقتصاد ، عائلی زندگی ، اجتماعی زندگی ، قانون کی بالادستی ، میڈیا کی آزادی ، عوام کی فلاح و بہبود ، زراعت ، صنعت و حرفت سمیت ان تمام میدانوں سے جڑے میرے معاملات ملکی مفادات و ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے مترادف ہیں یا ملک کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہیں؟؟؟
۴۔ درست سمت کا تعین
خود احتسابی کے بعد درست سمت کا تعین کیا جائے اور نئے عزم کے ساتھ اپنی ذات سے ملکی بہتری میں اپنے حصے کا کام کیا جائے ۔
۵۔ اچھا مسلمان ہی اچھا شہری ہے
جب درست سمت کے تعین اور ملکی بہبود میں ذاتی حصہ ڈالنے کی بات آتی ہے تو اس کا سب سے اہم اور سب سے مرکزی اصول یہ ہے کہ ہم اچھے مسلمان بن جائیں ، اس لیے کہ ایک اچھا مسلمان ہی اچھا پاکستانی اور ملکی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرسکتا ہے کیونکہ اس ملک کی اساس اسلام ہے ، کوئی اسلام دشمن اس کے لیے نمایاں کردار ادا کرجائے یہ نہیں ہوسکتا ممکن ہے کہ اس کی ظاہر سے لوگ یہ سمجھ بیٹھیں مگر وہ نظر کا دھوکہ ، کم علمی تو ہوسکتا ہے حقیقت نہیں ہوسکتا۔
یوم آزادی کے موقع پر یہ کام نہ کریں
کچھ لوگ یا نوجوان یوم آزادی کے موقع پر جو کام کرتے ہیں ان کی یوم استقلال سے کوئی مناسبت نہیں ہوتی بلکہ وہ تو ملکی نظریہ اور مفاد کے بالکل خلاف ہوتے ہیں، ان میں سے چند ایک ملاحظہ فرمائیں۔
۱۔ فضول خرچی
اس موقع پر فضول خرچی کی جاتی ہے ، مختلف قسم کے غیر ضروری ملبوسات وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے ، اس موقع پر اگر خواہش ہے ہی تو ایک لباس پر اکتفاء کریں اور وہی روپے پیسے کسی کی مدد میں صرف کریں بلا شک و ریب فضول خرچی و اسراف سے کہیں بہتر اسی موقع پر کسی پاکستانی ضرورت مند کی ضرورت کو پورا کیا جائے ، کیونکہ تعمیر انسانیت تعمیر مملکت کا اہم جزء ہے۔
۲۔ بے پردگی ، فحاشی ملکی نظریہ کے خلاف
یہ بڑےتعجب خیز بات ہے کہ جو ملک لاالہ الا اللہ کے نام پر وجود میں آیا ، جس ملک کے آئین میں یہ بات موجود ہے کہ اس میں صرف اللہ تعالیٰ کی حاکمیت ہوگی ، اسی ملک کے یوم آزادی کے موقع پر فحاشی و عریانیت کو عام کیا جائے جوکہ سراسر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ احکام کی خلاف ورزی ہے، اس لحاظ سے نظریہ پاکستان اور آئین پاکستان کے بھی خلاف ہے۔ اس کے برعکس اسی موقع پر اسلامی لباس پہن کر دنیا کو اچھوتا پیغام دیں کہ یہ ملک نظریاتی اور عملی طور پر اسلامی ملک ہے۔
۳۔ رقص و سرور کی محفلیں
بعض رقص و سرور کے شیدائی ، جنہیں صرف سرور و کیف کی لذت سے غرض ہے ، جس کے حصول کے لیے بہانہ چاہے کوئی بنالیں۔ بقول کسے ! خوئے بد را بہانہ بسیار بلکہ امجد اسلام امجد نے شاید ایسے ہی کسی موقع کی ترجمانی یوں کی :
کوئی آہٹ تھی نہ سایا تھا
دل تو رُکنے کا بہانہ چاہے
ان محفلوں کا ملک کے نظریہ سے تعلق ہے نا مفاد سے یہ تو شبِ آتشِ شوق ہے جس کے لیے اس قماش کے لوگ کوئی موقع ہاتھ سے خالی نہیں جانے دیتے، سال بھر کسی بھی رسم و تہوار کو وہ اس قسم کی محفلوں کے ذریعے آتش قلب بجھانے میں خوب استعمال کرتے ہیں۔
ہمیں ملک سے حقیقی محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اس قسم کے لوگوں کی نا کہ صرف مذمت کرنی چاہیے بلکہ اس کی روک تھام میں بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
۴۔ تکلیف پہنچانا
اس موقع پر نوجوان بہت سے ایسے کام کرتے ہیں جن سے دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہے ، مثال کے طور پر سائلنسر نکال کر موٹر سائیکلیں چلانا، جس کے باعث سینکڑوں جانیں زندگی سے محروم ہوجاتی ہیں ، بلکہ اس کا کم سے کم نقصان اس آواز سے بیماروں ، بچوں اور بوڑھوں کو تکلیف پہنچانا ہے ۔ جو اپنی ذات میں بہت بڑا ہے ، پیٹرول جیسی مہنگی نعمت کا ضائع ہونا بھی اپنی جگہ ایک بڑا نقصان ہے۔ ایسے نوجوانوں کی بھی اصلاح کی ضرورت ہے کہ تفریح ، خوشی منانے کا یہ انداز غیر فطری ، غیر اسلامی ، ملکی مفاد میں نقصان سے بھرپور ہے۔ کیا ہی اچھا ہو یوم آزادی پر یہی نوجوان ایک جمعیت کی صورت میں نکلیں اور علامتی طور پر ایسے اقدام کریں جن سے دنیا کو مثبت پیغام جائے ۔
شہرِ دل کی بھیڑ سے منتخب سخنِ چند حوالۂ قرطاس کیے ہیں ، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عظیم مملکت کی صورت میں عظیم نعمت کی کما حقہ قدر کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
الفاظ میں بند ہیں معانی
عنوان کتاب دل کھلا ہے