ایمان وعقائد

یوم ِ آخرت پر ایمان

پہلا خطبہ:

ہر طرح کی تعریف اللہ تعالی ٰ کے لئے ہے ،جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا اور اُن کی گنتی شمار کی اور اُنہیں آج آزمایا تاکہ کل بدلہ دے۔اُ س نے اُن کے گھوڑوں کو وقت ِ مقررہ تک میدانوں میں ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی کے لئے جوڑ دیا۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ،وہ یکتا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ۔ ایسے شخص کی گواہی جو اپنے رب پر ایمان لایا اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں جو مخلوق میں سب سے زیادہ سخی اور اخلاق و نسب کے اعتبار سے سب سے اعلیٰ ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا درود و برکت نازل ہوآ پ ﷺ پر اور درود نازل ہوں آپ ﷺ کی آل پر ،بلند پایا اصحاب پر جو دین کے لئے ستون اور ساز و سامان تھے، آپ ﷺ کی پکار پر سخی و مددگار تھے ،پھر تابعین پر اور پھر عمدہ طریقے سے اُن کی پیروی کرنے والوں پر جب تک رات کا تاریک ہونا اور صبح کا نمودار ہونا طے ہے۔

اما بعد!

میں آپ کو اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کی نصیحت کرتا ہوں۔ خوش نصیب وہ  ہے جس نے تقویٰ و ہدایت کو اختیار کیا اور بدنصیب وہ ہے جس نے سرکشی کی اور حد سے نکل گیا۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا ۚ

الاعراف – 58

اور جو ستھری سرزمین ہوتی ہے اس کی پیداوار تو اللہ کے حکم سے خوب نکلتی ہے اور ج خراب ہے اس کی پیداوار بہت کم نکلتی ہے۔


یہ بھی پڑھیں: روزِ برحق


مؤمنوں مسلمہ حقیقت ،پختہ یقین اورایمان کے ستونوں میں سے ایک یومِ آخرت پر ایمان ہے۔اُن تمام چیزوں پر ایمان رکھنا ہے جن پر اللہ اور اُس کے رسول ﷺ نے خبر دی ہے کہ وہ موت کے بعد پیش آئیں گی ۔اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اطاعت کرنے والوں کے لئے جو اجر اور نافرمانوں کے لئے جس طرح کا عذاب تیار کررکھا ہے اُس پر ایمان رکھا جائے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ

البقرۃ – 177

ساری اچھائی مشرق ومغرب کی طرف منھ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقتاً اچھا وه شخص ہے جو اللہ تعالی پر، قیامت کے دن پر

ایک اور جگہ پر فرمایا:

وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا

النساء – 136

جو شخص اللہ تعالیٰ سے اور اس کے فرشتوں سے اور اس کی کتابوں سے اور اس کے رسولوں سے اور قیامت کے دن سے کفر کرے وه تو بہت بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا۔

جبریل علیہ السلام نے اللہ کے نبی کریم ﷺ سے ایمان کے بارےمیں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم اللہ اور اُس کےفرشتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے رسولوں ،آخرت کے دن اور تقدیر کے خیر و شر ہونے پر ایمان رکھو۔صحیح مسلم

آخرت پر ایمان کی وجہ سے سچا مؤمن جھوٹے کافر سے جدا ہوتاہے۔اس لئے کہ یہ غیب پر ایمان میں سے ہے اور شکوک و شبہات کو زائل کرتا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:

الم ‎﴿١﴾‏ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ‎﴿٢﴾‏ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ

البقرۃ – 1/2/3

الم۔اس کتاب (کے اللہ کی کتاب ہونے) میں کوئی شک نہیں پرہیزگاروں کو راه دکھانے والی ہے۔جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔

اور جب مشرکین نے یوم ِ آخرت کا انکار کیا اور اس میں شک کیا تو کہا:

أَيَعِدُكُمْ أَنَّكُمْ إِذَا مِتُّمْ وَكُنتُمْ تُرَابًا وَعِظَامًا أَنَّكُم مُّخْرَجُونَ ‎﴿٣٥﴾‏ ۞ هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ ‎﴿٣٦﴾‏ إِنْ هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ

المؤمنون – 35/36/37

کیا یہ تمہیں اس بات کا وعده کرتا ہے کہ جب تم مرکر صرف خاک اور ہڈی ره جاؤ گے تو تم پھر زنده کئے جاؤ گے۔نہیں نہیں دور اور بہت دور ہے وه جس کا تم وعده دیئے جاتے ہو۔(زندگی) تو صرف دنیا کی زندگی ہے ہم مرتے جیتے رہتے ہیں اور یہ نہیں کہ ہم پھر اٹھائے جائیں گے۔

اللہ تعالیٰ نے اُن کا جواب دیا اور اُن کی گمراہی کو واضح کیا ،آخرت کے دن کے آنے کی اُن پر حجت قائم کی اور اِس دن کی حکمت کو واضح کیا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ ‎﴿١١٥﴾‏ فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ

المؤمنون – 115/116

کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے۔اللہ تعالیٰ سچا بادشاه ہے وه بڑی بلندی والاہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی بزرگ عرش کا مالک ہے۔

ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ۚ وَذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ

التغابن – 7

 آپ کہہ دیجئے کہ کیوں نہیں اللہ کی قسم! تم ضرور دوباره اٹھائے جاؤ گے پھر جو تم نے کیا ہے اس کی خبر دیئے جاؤ گے اور اللہ پر یہ بالکل ہی آسان ہے۔

اور فرمایا:

وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ ۙ لَا يَبْعَثُ اللَّهُ مَن يَمُوتُ ۚ بَلَىٰ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ‎﴿٣٨﴾‏ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّهُمْ كَانُوا كَاذِبِينَ ‎﴿٣٩﴾‏ إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَن نَّقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ

النحل – 38/39/40

وه لوگ بڑی سخت سخت قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ مردوں کو اللہ تعالیٰ زنده نہیں کرے گا۔ کیوں نہیں ضرور زنده کرے گا یہ تو اس کا برحق لازمی وعده ہے، لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں اس لیے بھی کہ یہ لوگ جس چیز میں اختلاف کرتے تھے اسے اللہ تعالیٰ صاف بیان کر دے اور اس لیے بھی کہ خود کافر اپنا جھوٹا ہونا جان لیں۔ہم جب کسی چیز کا اراده کرتے ہیں تو صرف ہمارا یہ کہہ دینا ہوتا ہے کہ ہوجا، پس وه ہوجاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اُن کے اس دن کو بھول جانے کی مذمت کی ۔ چنانچہ اس دن کو بھول جانے کی اُن کو سزادے گا اور اُن کو آگ میں ڈالے گا اور اُن کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کہے گا:

الْيَوْمَ نَنسَاكُمْ كَمَا نَسِيتُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن نَّاصِرِينَ

الجاثیة – 34

 آج ہم تمہیں بھلا دیں گے جیسے کہ تم نے اپنے اس دن سے ملنے کو بھلا دیا تھا تمہارا ٹھکانا جہنم ہے اور تمہارا مددگار کوئی نہیں۔

آخرت کو دن وہ دن ہوگا جس دن بندے کے دل میں گھبراہٹ ہوگی،اُس کے پہلؤوں میں خوف ہوگا۔وہ چیخ و پکار کا دن ہوگا،حسرت و افسوس کا دن ہوگا،ہار جیت کا دن ہوگا۔اُس دن سارے جہانوں کے رب کے سامنے لوگ کھڑے ہوں گے۔ قبروں سےنکالے جانے کا دن ہوگا۔ دلوں کے بھید کھلنے کا دن ہوگا۔جس دن زمین پوری شدت سے جھنجوڑ دی جائے گی اور اپنے بوج نکال باہر پھینکے گی۔

اللہ کے بندو! قوم کے تئیں انبیاء علیہ السلام کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک یہ تھی کہ لوگوں کو یوم ِ آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دیں۔اوراُس کے حالات اور ہولناکیوں کو بیان کریں۔ اس لئے کہ اس دن کی یاد دہانی نیکی اور ہدایت کی طرف لے جانے والی ہے اور اِس سے غفلت بُرائی اور ہلاکت کی علامت ہے۔آخرت کے دن کی طرف بندہ جو پہلا قدم رکھتا ہے وہ اُس کی موت ہے،پھر اُس کی قبر ہے۔اور قبر میں اُس کا امتحان اور آزمائش ہوتی ہے،چنانچہ وہاں اُس کو یا تواعزاز بخشا جاتاہے یا عذاب دیا جاتا ہے ۔مؤمن یامیابی و توقیرسے نوازا جاتاہے اور کافر کو ناکامی و سزا ملتی ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ تمہارا مسیح دجال کے فتنے کی طرح یا اُس کےقریب قریب قبروں میں امتحان لیا جائےگا۔ چنانچہ تم میں سے ہر ایک کے پاس فرشتہ آئے گا اور ہر ایک سے پوچھا جائےگا کہ اُس شخصیت کے متعلق تم کیا جانتے ہو؟ تو جو شخص ایمان و یقین والا ہوگا تو وہ کہے گا کہ یہ اللہ کے رسول جناب محمد ﷺ ہیں جو ہمارے پاس ہدایت کی باتیں اور کھلی دلیلیں لے کرآئے۔ہم نے اُن کی دعوت کو قبول کیا اور اُن کی اطاعت کی ، وہ یہ تین بار کہے گا۔پھر اُس شخص سے کہا جائےگا: تو اطمنان و سکون سے سوجا،ہم جانتے تھے کہ تو یقین وایمان والا تھا۔اورجو شخص منافق ہوگا تو کہے گا کہ میں تو کچھ نہیں جانتا ،لوگوں سے ایک بات سنتا تھاتو میں بھی ویسے ہی کہ دیتا تھا۔ متفق علیہ

ایک اور حدیث میں رسول کریم ﷺ نے فرمایا: پھر اُسی کے لئے جنت کی ایک دروازہ کھولا جاتا ہے ،فرشتہ کہتا ہے کہ اگر تو اپنے رب پر ایمان لاتاتو یہ تیرا ٹھکانہ تھا۔ اب چونکہ تم نے اللہ تعالیٰ کا انکار کیا ہےتو اللہ تعالیٰ نے اُس کےبدلے تیرا ٹھکانہ یہ بنایا ہے ۔اور اُس کے لیے جھنم کا ایک دروازہ کھول دیا جائےگا۔پھر فرشتہ اُسے ہتھوڑے کی ایک ضرب لگاتاہے جسے جن و انس کے علاوہ ہر مخلوق سنتی ہے ۔مسند احمد

قبر یا تو نعمت والی ہوگی یا عذاب والی۔ اس کے بعد قیامت کے دن ہر شخص کو دوبارہ زندہ کیا جائےگا۔

وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيهَا وَأَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَن فِي الْقُبُورِ

الحج – 7

اور یہ کہ قیامت قطعاً آنے والی ہے جس میں کوئی شک وشبہ نہیں اور یقیناً اللہ تعالیٰ قبروں والوں کو دوباره زنده فرمائے گا۔

پھر روحوں کو جسموں میں لوٹا دیا جائے گا اور زمین اُن کےلئے اس طرح پھٹ جائے گی جیسے پودے کے لئے پھٹتی ہے۔

يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِرَاعًا ۚ ذَٰلِكَ حَشْرٌ عَلَيْنَا يَسِيرٌ

قٓ – 44

جس دن زمین پھٹ جائے گی اور یہ دوڑتے ہوئے (نکل پڑیں گے) یہ جمع کر لینا ہم پر بہت ہی آسان ہے۔

وَمِنْ آيَاتِهِ أَنَّكَ تَرَى الْأَرْضَ خَاشِعَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ ۚ إِنَّ الَّذِي أَحْيَاهَا لَمُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۚ إِنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

فصلت – 39

اس اللہ کی نشانیوں میں سے (یہ بھی) ہے کہ تو زمین کو دبی دبائی دیکھتا ہے پھر جب ہم اس پر مینہ برساتے ہیں تو وه تر وتازه ہوکر ابھرنے لگتی ہے جس نے اسے زنده کیا وہی یقینی طور پر مُردوں کو بھی زنده کرنے والاہے، بیشک وه ہر (ہر) چیز پر قادر ہے۔

اُس دن قیامتِ کبریٰ واقع ہوگی،لوگ اپنی قبروں سے نگے پاؤں، نگے بدن ،غیر مختون حالت میں اپنے رب العالمین کی طرف نکلیں گے ،سورج اُن کےقریب ہوگا۔ وہ پسینے سے تربتر ہوں گے اور اعمال کو تولنے کے لئے میزان قائم کیا جائے گا۔

فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ‎﴿١٠٢﴾‏ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فِي جَهَنَّمَ خَالِدُونَ

المؤمنون – 102/103

جن کے ترازوں کا پلڑا بھاری ہوگیا وہ تو نجات پانے والے ہوگئے۔اور جن کے ترازوں کا پلڑا ہلکا ہوگا یہ وہ ہے جنہوں نے اپنا نقصان آپ کرلیا،جو ہمیشہ کے لئے جہنم واصل ہوئے۔

نامہ اعمال تقسیم کیا جائے گا تو کوئی اپنے نامہ اعمال کو داہنے ہاتھ سے لے گا تو کوئی بائیں ہاتھ سے یا اپنی پیٹھ کے پیچھے سے لے گا۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ۖ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنشُورًا ‎﴿١٣﴾‏ اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا

الاسراء – 13/14

ہم نے ہر انسان کی برائی بھلائی کو اس کے گلے لگا دیا ہے اور بروز قیامت ہم اس کے سامنے اس کا نامہٴ اعمال نکالیں گے جسے وه اپنے اوپر کھلا ہوا پالے گا۔ لے! خود ہی اپنی کتاب آپ پڑھ لے۔ آج تو تو آپ ہی اپنا خود حساب لینے کو کافی ہے۔

اُس کے بعد اللہ تعالیٰ مخلوق کا حساب لے گا۔اپنے مؤمن بندے سے تنہائی میں اُس کے گناہ کا اقرار کرائے گا تومؤمن بندہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید کرتے ہوئے اپنے گناہ کا اقرار کرےگا۔جہاں تک کافر و منافق کی بات ہے تو کبھی ایسا ہوگا کہ وہ اقرار کریں گے اور کبھی بحث ومبا حثہ کریں گے چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اُس کی کان آنکھ اور اعضاء سے اُن گناہوں کو بلوائےگا جو اُس نے انجام دیئے اور جن کا ارتکاب کیا۔

وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدتُّمْ عَلَيْنَا ۖ قَالُوا أَنطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ خَلَقَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ‎﴿٢١﴾‏ وَمَا كُنتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَن يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ وَلَٰكِن ظَنَنتُمْ أَنَّ اللَّهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيرًا مِّمَّا تَعْمَلُونَ ‎﴿٢٢﴾‏ وَذَٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنتُم بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَ ‎﴿٢٣﴾‏ فَإِن يَصْبِرُوا فَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ ۖ وَإِن يَسْتَعْتِبُوا فَمَا هُم مِّنَ الْمُعْتَبِينَ

فصلت – 21/22/23/24

 یہ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں دی ؟ تو وہ جواب دیں گے کہ ہمیں اُس اللہ نے قوت ِ گویائی عطا فرمائی جس نے ہر چیز کو بولنے کی طاقت بخشی ہے۔ اُس نے تمہیں اول مرتبہ پیدا کیا اور اُسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤگے ۔ اور تم (اپنی بداعمالیاں) اس وجہ سے پوشیده رکھتے ہی نہ تھے کہ تم پر تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں گواہی دیں گی، ہاں تم یہ سمجھتے رہے کہ تم جو کچھ بھی کر رہے ہو اس میں سے بہت سےاعمال سے اللہ بےخبر ہے۔ تمہاری اسی بدگمانی نےجو تم نے اپنے رب سے کر رکھی تھی تمہیں ہلاک کر دیا اور بالآخر تم زیاں کاروں میں ہو گئے۔ اب اگر یہ صبر کریں تو بھی ان کا ٹھکانا جہنم ہی ہے۔ اور اگر یہ (عذر اور) معافی کےخواستگار ہوں تو بھی (معذور اور) معاف نہیں رکھے جائیں گے۔

پھر اُن کے لئے آگ بھڑکائی جائے گی،چنانچہ وہ اس آگ کی جانب ہانکے جائیں گے اوراُس میں گر پڑیں گے ۔ مؤمن تاخیر کریں گے تاکہ وہ معزز حوض سے پانی پئیں۔ہمارے نبی کریم محمد ﷺ کے حوض سے ،جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہوگا، اُس حوض پر برتنوں کی تعداد ستاروں کے برابر ہو گی ۔اُس کی لمبائی اور چوڑائی ایک مہینے کی مسافت کے برابر ہوگی۔ جو اُس میں سے ایک بار پی لے گا تواُسے کبھی بیاس نہیں لگے گی۔

اس کے بعد جنت اور جہنم کے درمیان پل صراط نصب کیا جائےگا جسے لوگ اپنے اعمال کے بقدر پار کریں گے ۔لوگوں  میں سب سے پہلے انبیاء اور رسول اسے پار کریں گے  جو اُس کی ہولناکی اور اور سختی کی وجہ سے کہیں گے : اے اللہ ! مجھ کو محفوظ رکھ ، اے اللہ ! مجھ کو محفوظ رکھ ۔پھر جنت و جہنم کے درمیان ایک پل پر انہیں روک لیا جائےگا۔ اور پھر آپس میں ایک کے ذریعے دوسرے پر ہوئے مظالم کا بدلہ لیا جائےگایہاں تک کہ جب وہ پاک و صاف ہوجائیں گےتواُنہیں جنت میں جانے کی اجازت ہوگی۔

وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ ‎﴿٧٣﴾‏ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقَنَا وَعْدَهُ وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَاءُ ۖ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ ‎﴿٧٤﴾‏ وَتَرَى الْمَلَائِكَةَ حَافِّينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ ۖ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَقِيلَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

الزمر – 43/44/45

وہاں کے نگہبان اُن سے کہیں گےتم پر سلام ہو ،تم خوشحال رہو،تم اس میں ہمیشہ کے لئے چلے جاؤاور یہ کہیں گے اللہ کا شکر ہے کہ جس نے ہم سے اپنا وعدہ پورا کیا۔ اور ہمیں اس زمین کا وارث بنا دیا کہ جنت میں جہاں چاہیں مقام کریں۔ پس عمل کرنے والوں کا کیا ہی اچھا بدلہ ہے۔ اور تو فرشتوں کو اللہ کے عرش کے اردگرد حلقہ باندھے ہوئے اپنے رب کی حمد و تسبیح کرتے ہوئے دیکھے گا اور ان میں انصاف کا فیصلہ کیا جائے گا اور کہہ دیا جائے گا کہ ساری خوبی اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنہار ہے۔

اللہ تعالیٰ مجھے اورآپ کو قرآن کریم میں برکت دے اور مجھے اور آپ کو نبی کریم ﷺ کے طریقے سے فائدہ پہنچائے ۔ میں وہ کہ رہا ہوں جو آپ نے سنا۔ میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اپنے لئے ،آپ کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے ہر طرح کے گناہوں اور خطاؤں سے ۔ تو تم بھی اُسی سے مغفرت طلب کرو، بے شک وہ توبہ کرنے والوں کو معاف کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

ہر طرح کی حمد اللہ تعالیٰ کے لئےہے جو تمام طرح کی حمد کا اہل اور مستحق ہے ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ،وہ یکتا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، ایسی گواہی جو اس کے شایانِ شان ہے۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں۔آپ ﷺ کے سچے ہونے میں کوئی شک نہیں۔اللہ تعالیٰ کا درود وسلام اور برکت نازل ہو آپ ﷺ پر ،آ پ ﷺ کے آل و اصحاب پر ،اور آپ ﷺ کی اچھی طرح پیروی کرنے والوں پر کہ جب تک بادل بارش برساتا رہےگا اور اُس کی بجلی کڑکتی رہے گی۔

اما بعد!

اے اللہ کے بندو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔

وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ۖ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

البقرۃ – 281

اور اس دن سے ڈرو جس میں تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤگے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

مسلمانو! یومِ آخرت اور اُس ہولناکیوں  اوراحوال پر ایمان بندے کے عمل کی دُرستگی اُس کے نفس کی پاکیزگی اور سیرت کے استقامت کا سبب بنتا ہے ۔چنانچہ وہ نہ تو محرمات میں پڑتاہے اور نہ گناہوں کا ارکتاب کرتاہے اور نہ آخرت کی دائمی سعادت کو حاصل کرنے میں کوتاہی کرتاہے۔اور نہ اُسے کرمی کے بادل نہ مجنوں کے خیال جیسے کم تر درجے کی لذت سے بدلتا ہے ۔نیند کا خواب ہو یا ڈھلتا سایا ،عقلمند اُس سے دھوکہ نہیں کھاتا۔

دنیا گزرنے والی ہے اور آخرت آنے والی ہے۔ مؤمن جس بلند ترین مقام کی تمنا کرتاہے وہ یہ ہے کہ آخرت کے دن اُس کے میزان کا پلڑا بھاری ہو ،اور اُس دن اُسے خوشخبری دی جائےاور مشکلات سے گلو خلاصی پر حمد بیان کرے ۔پھر اُس کا ٹھکانہ سخاوت والے محسن کریم کی نوازش سے ہمیشگی اور نعمت والے گھر میں ہو۔

درود و سلام نازل ہو  ہدایت دینے والے رحمت پر ،توفیق یافتہ نعمت پر،آپ کے نبی کریم محمد رسول اللہ  ﷺ پر ۔

اے اللہ ! درود و سلام و برکت نازل ہو آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کے پاک باز و نیک و کاراہلِ بیت پر ،آپ ﷺ کی بیویوں پر جو مؤمنوں کی مائیں ہیں ۔ اے اللہ ! تو راضی ہوجا چاروں خلفاء آئمہ مسلمین ابو بکر ،عمر،عثمان  ،علی  رضی اللہ عنہم اجمعین سے ،تمام صحابہ و آل سے اور قیامت تک اُن کی اچھی طرح پیروی کرنے والوں سے ۔اور اِن کے ساتھ تو اپنے جود و کرم سے ہم سے بھی راضی ہوجا۔اے کریم و متعال۔

اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو عزت و عظمت عطا فرما۔

اے اللہ ! تو اسلام کو غالب کردے اور مسلمانوں کی مدد فرما۔اور شرک و مشرکین کو ذلیل و رسوا کردے اور دین ِ اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔

اے اللہ ! تو اس ملک کو امن و اطمنان ، ہمدردی و سخاوت  ، اتحاد و بھائی چارے سے بھر دے اور اسی طرح باقی تمام مسلم ممالک کو بھی ۔

اے اللہ ! ہم تجھ سے سوائے خیر کے اورکسی چیز کا سوال نہیں کرے تو ہمیں خیر عطا فرما۔اور جس چیز کا تجھ سے سوال نہیں کرتے اس کی ابتلاء سے محفوظ فرما۔

اے اللہ ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجاے۔اےاللہ ! تو اُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اور اپنی خوشنودی کے کاموں  کی توفیق عطا فرما اور اُ ن پر استقامت دے۔

اے اللہ ! تو فلسطین کی اور  اہلِ فلسطین کی کی مدد فرما ان کی نصرت فرما ان کی حفاظت فرما۔

اے اللہ ! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔ اللہ کے بندوں ! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے عدل و انصاف کا اور قریبی رشتہ داروں  سے صلہ رحمی کا اور ہر قسم کی بے حیائی اور نافرمانی سے بچنے کا ۔

خطبة الجمعة مسجد الحرام: فضیلة الشیخ  بندر بلیلة حفظه اللہ
4 جمادي الآخر 1443 ھ بمطابق 07 جنوری 2022

فضیلۃ الشیخ بندر بلیلۃ حفظہ اللہ

Recent Posts

منہجِ سلف سے کیا مراد ہے؟

منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…

5 hours ago

یا محمد ﷺ کہنا یا لکھنا کیسا ہے؟

کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…

1 day ago

ستاروں کی تخلیق کے تین مقاصد!؟

اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…

4 days ago

داتا اور مشکل کشا کون؟

اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…

4 days ago

مشکلات اور پریشانیوں کےحل کےلیے نسخہ؟

قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…

1 week ago

جنتی فرقہ کونسا ہے؟

فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…

1 week ago