وہ عبادات جن میں جلدی کرنا قابلِ تعریف ہے

وہ عبادات جن میں جلدی کرنا قابل تعریف ہے

اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف صفات اور خصوصیات کے ساتھ پیدا کیا ہے جن میں سے ایک صفت جلد بازی بھی ہے، یعنی انسان کی جبلی ساخت میں عجلت کا مادہ رکھا گیا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے :

خُلِقَ الْإِنسَانُ مِنْ عَجَلٍ1

ترجمہ: انسان کو عجلت سے پیدا کیا گیا ہے۔

ایک مقام پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَيَدْعُ الْإِنسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَيْرِ وَكَانَ الْإِنسَانُ عَجُولًا2

ترجمہ : انسان برائی کے لئے بھی ایسے ہی دعا کرتا ہے جیسے بھلائی کے لئے کرتا ہے دراصل انسان بڑا جلد باز واقع ہوا ہے۔

یعنی انسان چونکہ جلد باز اور بے حوصلہ ہے اس لیے جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو اپنی ہلاکت کے لیے اسی طرح بد دعا کرتا ہے جس طرح بھلائی کے لیے اپنے رب سے دعائیں کرتا ہے یہ تو رب کا فضل و کرم ہے کہ وہ اس کی اچھی دعا کو تو قبول کرلیتا ہے اور اس کی بد دعاؤں کو قبول نہیں کرتا اگر وہ قبول کرے تو انسان تباہ و برباد ہو جائے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے ۔

وَلَوْ يُعَجِّلُ اللہُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُم بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ3

ترجمہ: اور اگر اللہ بھی لوگوں کو برائی پہنچانے میں ایسے ہی جلدی کرتا جیسے وہ بھلائی کو جلد از جلد چاہتے ہیں تو اب تک ان کی مدت (موت) پوری ہو چکی ہوتی (مگر اللہ کا یہ دستور نہیں)

اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

لا تدْعوا على أنفسِكم ، ولا تدْعوا على أولادِكم ، ولا تدْعوا على خَدَمِكم ، ولا تدْعوا على أموالِكم ، لا تُوافقوا من اللهِ ساعةَ نيْلٍ فيها عطاءٌ فَيَسْتَجِيْبَ لَكُمْ4

ترجمہ: تم لوگ نہ اپنے لیے بد دعا کرو اور نہ اپنی اولاد کے لیے، نہ اپنے خادموں کے لیے اور نہ ہی اپنے اموال کے لیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ گھڑی ایسی ہو جس میں دعا قبول ہوتی ہو اور اللہ تمہاری بد دعا قبول کرلے۔

قابلِ مذمت جلد بازی

عام طور پر جلد بازی کا منفی تصور اور اس کے منفی پہلو ذہن میں آتے ہیں کیونکہ احادیث میں اس کی مذمت بیان کی گئی ہے ۔ جیسا کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

التَّأَنِّي من اللهِ والعجلَةُ من الشيطانِ5

ترجمہ: تاخیر، آہستگی، ٹھہراؤ اور عدمِ عجلت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔

دعاؤں کی قبولیت سے محرومی

جلد بازی کی وجہ سے انسان دعاؤں کی قبولیت سے محروم ہو جاتا ہے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

يُسْتَجابُ لأحَدِكُمْ ما لَمْ يَعْجَلْ، يقولُ: دَعَوْتُ فَلَمْ يُسْتَجَبْ لِي6

ترجمہ: بندے کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک وہ جلدی نہ کرے، کہنے لگے کہ میں نے دعا کی تھی اور میری دعا قبول نہیں ہوئی۔

جلد بازی شیطانی کام

جلد بازی شیطانی کام ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

التَّأَنِّي من اللهِ والعجلَةُ من الشيطانِ7

ترجمہ: ٹھہراؤ اور عدمِ عجلت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔“

اسی طرح حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

الأَناةُ منَ اللہِ والعجلةُ منَ الشَّيطانِ8

ترجمہ: ٹھہراؤ اور عدمِ عجلت اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔

یہ روایت سنداً ضعیف ہے تاہم جلد بازی قابلِ مذمت حرکت ہے، اس لیے کہ ایسا کرنے سے امور کے انجام پر غور و فکر کرنے اور ان میں خوب چھان بین کرنے کا موقع نہیں ملتا اور اسی کے نتیجے میں انسان ہلاکت کے کنارے پر پہنچ جاتا ہے۔ آہستہ روی اور سوچ سمجھ کر کام کرنے کی فضیلت میں دوسری صحیح احادیث بھی موجود ہیں۔

اہلِ عرب کا مقولہ

اسی طرح اہلِ عرب کا مقولہ ہے:

 العجلة أمَّ الندامات9

ترجمہ: جلد بازی شرمندگی کی ماں ہے۔

عربی محاروہ

اسی طرح ایک عربی کا محاورہ ہے:

في التأنِّي السلامة، وفي العجَلة الندامة10

ترجمہ: ٹھہر ٹھہر کر کام کرنے میں سلامتی ہے اور جلد بازی میں ندامت ہے۔

مہلب بن ابی صفرہ کہتے ہیں:

 أناة في عواقبها درك، خير من عجلة في عواقبها فوت11

ترجمہ: ٹھہر ٹھہر کر اور آہستگی کے ساتھ کیا گیا کام جس کے انجام میں کامیابی ہو، اس کام سے بہتر ہے جو جلد بازی میں کیا جائے اور جس کا انجام ناکامی ہو۔”

اناة کا معنی

اصطلاحاََ: کسی کام کی ابتداء کرنے میں جلد بازی نہ کرنا بلکہ کچھ وقت لینا تاکہ سوچنے سمجھنے کا موقع مل سکے۔

ٹھہراؤ اور عدمِ عجلت کے فضائل

جلد بازی كے مقابلے میں ٹھہراؤ اور عدمِ عجلت پسندیده عمل ہے کیونکہ احادیث میں اس کی تعریف بیان کی گئی ہے۔

محبت اور خوشنودی کا ذریعہ

ٹھہراؤ اور عدمِ عجلت اللہ کی محبت اور خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اشج عبد القيس سے کہا :

 إن فيك لخَصْلَتين يُحِبُّهما الله: الحِلْمُ و الأناةُ12

ترجمہ: تمہارے اندر دو خوبیاں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں: بُردباری اور جلد بازی نہ کرنا۔

نبوت کا چوبیسواں حصہ

ٹھہراؤ اور عدمِ عجلت نبوت کا چوبیسواں حصہ ہے۔ عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

السَّمْتُ الحَسَنُ والتُّؤَدَةُ والاقتصادُ جزءٌ من أربعةٍ وعشرينَ جُزءًا من النبوةِ13

ترجمہ: اچھی سیرت، تحمل و عدمِ عجلت اور میانہ روی نبوت کا چوبیسواں حصہ ہے۔

گمراہی اور غلطی سے حفاظت

شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

الأناةُ: التَّأنِّي في الأمورِ وعَدَمُ التَّسرُّعِ، وما أكثَرَ ما يَهلِكُ الإنسانُ ويَزِلُّ بسبَبِ التَّعجُّلِ في الأمورِ، وسواءٌ في نقلِ الأخبارِ أو في الحُكمِ على ما سَمِع، أو في غيرِ ذلك. فمن النَّاسِ -مثلًا- من يتخطَّفُ الأخبارَ، بمجَرَّدِ ما يسمَعُ الخبَرَ يحَدَّثُ به ينقُلُه،.. ومن النَّاسِ من يتسَرَّعُ في الحُكمِ، سمِعَ عن شخصٍ شيئًا من الأشياءِ، ويتأكَّدُ أنَّه قاله، أو أنَّه فعَلَه، ثمَّ يتسَرَّعُ في الحُكمِ عليه، أنَّه أخطأ أو ضلَّ أو ما أشبَهَ ذلك، وهذا غَلَطٌ. التَّأنِّي في الأمورِ كُلُّه خيرٌ14

ترجمہ: “اَناة” کا مطلب ہے معاملات میں احتیاط سے کام لینا اور جلد بازی سے گریز کرنا۔ انسان اکثر معاملات میں عجلت پسندی کے سبب نقصان اٹھاتا ہے، چاہے وہ خبروں کو فوراً آگے پہنچانا ہو، سنی ہوئی بات پر فیصلہ سنانا ہو یا کوئی اور معاملہ۔ کچھ لوگ مثلاً جیسے ہی کوئی بات سنتے ہیں، بغیر تحقیق کے اسے دوسروں تک پہنچا دیتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ بغیر تصدیق کیے سنی سنائی باتوں پر دوسروں کے بارے میں رائے قائم کر لیتے ہیں کہ انہوں نے غلطی کی یا گمراہ ہوئے۔ یہ رویہ درست نہیں۔ معاملات میں تحمل اور سکون اختیار کرنا ہر صورت میں بہتر ہے۔

برے اخلاق سے حفاظت

امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

إذا انحرفت عن خُلُق الأناة والرِّفق انحرفت: إمَّا إلى عَجَلة وطيش وعنف، وإمَّا إلى تفريط وإضاعة، والرِّفق والأناة بينهما15

ترجمہ: اگر آپ عدمِ عجلت اور نرمی کی صفت سے منحرف ہو جاتے ہیں تو آپ یا تو جلد بازی، طیش اور تشدد کی طرف مائل ہو جائیں گے یا پھر لاپرواہی اور ضیاع کی طرف۔ لہذا نرمی اور عدمِ عجلت ان دونوں کے مابین معتدل راستہ ہے۔

شیطان کے فریب اور تسلط سے بچاؤ

امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

الأعمالُ ينبغي أن تكونَ بعدَ التَّبصِرةِ والمعرفةِ، والتَّبصِرةُ تحتاجُ إلى تأمُّلٍ وتمهُّلٍ، والعَجَلةُ تمنَعُ من ذلك، وعندَ الاستِعجالِ يُرَوِّجُ الشَّيطانُ شَرَّه على الإنسانِ من حيثُ لا يدري16

ترجمہ: اعمال کو بصیرت اور سمجھ بوجھ کے بعد انجام دینا چاہیے اور بصیرت کے لیے غور و فکر اور توقف ضروری ہے جبکہ جلد بازی اس عمل میں رکاوٹ بنتی ہے۔ جب انسان جلد بازی کرتا ہے تو شیطان اپنی برائی کو اس پر اس طرح مسلط کرتا ہے کہ وہ خود بھی نہیں سمجھ پاتا۔”

خلاصہ

درج بالا احادیث اور اقوالِ ائمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ جلد بازی قابلِ مذمت ہے جبکہ عدمِ عجلت، ٹھہراؤ، آہستگی اور صبر و تحمل قابلِ تعریف عمل ہے۔

قابلِ تعریف جلد بازی

مگر قرآن و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض شرعی امور میں جلد بازی کو قابلِ تعریف اور مستحسن سمجھا گیا ہے بلکہ اس کی ترغیب بھی دی گئی ہے خواہ ان امور کا تعلق رب العزت کی عبادت سے ہو یا حقوق العباد کی ادائیگی سے ہو۔

جلد بازی قرآنِ کریم کی روشنی میں

قرآنِ کریم میں چند مقامات پر جلد بازی اور عجلت کی تعریف کی گئی ہے اور اسکی ترغیب اور حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ یعنی انسان ہر اس کام میں جلدی کرے جو نیکی، خیر اور اللہ کی رضا کے حصول کا سبب ہو جبکہ برائی، ظلم یا ایسے کاموں میں جلد بازی سے پرہیز کرے جو نقصان دہ یا شریعت کے خلاف ہوں۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے نیکی کے کاموں میں سبقت اور جلدی کرنے کا حکم دیا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:

فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَات17

ترجمہ: پس نیکی کے کاموں میں سبقت کرو۔

ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالی ہے:

أُولَٰئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ18

ترجمہ: یہی لوگ ہیں جو نیک کاموں میں جلدی کرنے اور ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

  اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعے میں ارشاد فرمایا:

وَمَا أَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ يَا مُوسَى19

ترجمہ: موسیٰ تجھے کس بات نے اپنی قوم کے پاس سے جلدی آنے پر آمادہ کیا؟

 حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا:

قَالَ هُمْ أُولَاءِ عَلَى أَثَرِي وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضَى20

 ترجمہ: وہ میرے پیچھے آ رہے ہیں اور میں نے تیرے لیے جلدی کی تاکہ تُو راضی ہو۔

یہاں پر جلدی کے الفاظ تعریف کے لئے آئے ہیں۔

جلد بازی حدیث کی روشنی میں

وہ جلد بازی جو شریعت کے مقاصد، حکمتوں اور احکام کے خلاف ہو اور جس کے نتیجے میں بُرے اثرات مرتب ہوں اور جس کی بنیاد محض بے قابو جوش و جذبہ ہو تو شریعت اسے ناپسند کرتی ہے اور اس پر سزا بھی ہو سکتی ہے۔ شریعت کی نظر میں ایسی تعجیل قابلِ مذمت ہے۔ چنانچہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

التَّأَنِّي مِنَ اللهِ والعَجَلَةُ مِنَ الشيطانِ، وما أحدٌ أكثرُ مَعَاذِيرَ مِنَ اللهِ، وما من شيءٍ أحبَّ إلى اللهِ مِنَ الحَمْدِ21

ترجمہ: ٹھہراؤ اور آہستگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جلد بازی اور عجلت شیطان کی طرف سے ہے۔ اور اللہ سے بڑھ کر کوئی معذرت اور معافی دینے والا نہیں، اور حمد سے زیاده پسندیده اللہ کے ہاں کوئی اور چیز نہیں۔”

حضرت عباس بن مطلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

لايتم المعروف إلابثلاث خصال : تعجيله وتصغيره وستره ، فإذاعجلته هنيته وإذا صغرته عظمته وإذا سترته أتممته22

ترجمہ: نیکی اُس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں تین خصوصیات نہ ہوں: اسے جلدی کرنا، اسے چھوٹا سمجھنا اور اسے پوشیدہ رکھنا۔ جب تم نیکی کو جلدی ادا کرتے ہو تو اسے خوشگوار بنا دیتے ہو، جب اسے چھوٹا سمجھتے ہو تو دراصل اس کی عظمت بڑھا دیتے ہو اور جب اسے چُھپاتے ہو تو اسے کامل بنا دیتے ہو۔”

 نیکی میں جلدی کرنا:

 نیکی کرنے میں تاخیر نہ کی جائے بلکہ اسے جلدی اور بغیر کسی تردد کے کر دیا جائے۔ اس سے نیکی کا اثر زیادہ خوشگوار اور کارگر ہوتا ہے۔ جب نیکی بروقت کی جاتی ہے تو اسے قبولیت کا شرف بھی حاصل ہوتا ہے۔

تصغیر (نیکی کو چھوٹا سمجھنا):

 نیکی کرتے وقت اپنے دل میں یہ نہ سوچیں کہ آپ نے بہت بڑا کام کیا ہے بلکہ اسے معمولی سمجھیں۔ یہ عاجزی کی علامت ہے اور اس سے نیکی کی عظمت مزید بڑھ جاتی ہے۔ چھوٹا سمجھنے سے نیکی میں خلوص اور انکساری شامل ہو جاتی ہے۔

ستر (نیکی کو چھپانا):

نیکی کو دوسروں کے سامنے ظاہر نہ کیا جائے۔ اگر اسے پوشیدہ رکھا جائے تو نیکی کی روح برقرار رہتی ہے اور یہ عمل صرف اللہ کی رضا کے لیے ہوتا ہے۔ نیکی کو چھپانے سے وہ کامل اور خالص ہو جاتی ہے۔ یہ تین خصوصیات نیکی کو باوقار، مؤثر اور خالص بناتی ہیں۔

نیکی میں جلد بازی

اگر جلد بازی شریعت کی منشا اور پسند کے مطابق ہو اور اس کے اچھے اثرات بندے کی عبادات اور معاملات پر مرتب ہوں تو اسلام اسے پسند کرتا ہے بلکہ اس کے کرنے والے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

التُؤْدَةُ في كلِّ شيءٍ ، إلا في عملِ الآخرةِ23

ترجمہ: تاخیر اور آہستگی ہر چیز میں (بہتر) ہے، سوائے آخرت کے عمل میں۔

یعنی ہر کام میں تاخیر، صبر اور التواء پسندیدہ عمل ہے لیکن تقرب الی اللہ اور آخرت کے کاموں میں تاخیر اور التواء پسندیدہ عمل نہیں ہے کیونکہ نیک کاموں میں تاخیر اور التواء «سارعوا إلى مغفرة من ربكم» کے منافی ہے کیونکہ انسان نہیں جانتا کہ اس کی زندگی کب ختم ہو جائے اور اس کی موت کا وقت کب آ جائے۔

عبادات میں تعجیلِ محمود کی مثالیں

درج ذیل سطور میں ان عبادات کی نشاندہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں تعجیل یا جلدی کو قابلِ تعریف بتایا گیا ہے تاکہ لوگوں میں اللہ کی عبادت اور نیکی کی مزید رغبت پیدا ہو اور عبادات میں سستی، کاہلی اور تاخیر کرنے والوں کو معلوم ہو جائے کہ عبادات کی ادائیگی میں سستی کا انجام کیا ہے اور یہ کس سزا کا حقدار بنا دیتی ہے؟ عبادات میں قابلِ تعریف جلد بازی کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:

1۔ جماعت کی نماز کے لیے جلدی جانا

نماز کی پہلی صف میں شامل ہونے، تکبیرِ احرام پانے اور نماز کے پہلے وقت میں حاضر ہونے کے لیے جلدی کرنا مستحب ہے اور اس عمل کی تعریف کی گئی ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ ما في النِّدَاءِ وَالصَّفِّ الأوَّلِ، ثُمَّ لَمْ يَجِدُوا إِلَّا أَنْ يَسْتَهِمُوا عليه لَاسْتَهَمُوا، ولو يَعْلَمُونَ ما في التَّهْجِيرِ لَاسْتَبَقُوا إِلَيْهِ، ولو يَعْلَمُونَ ما في العَتَمَةِ وَالصُّبْحِ لَأَتَوْهُما ولو حَبْوًا24

ترجمہ: اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اذان اور صفِ اول میں کتنا ثواب ہے اور پھر (انہیں اس کے حاصل کرنے کے لیے) قرعہ اندازی کرنی پڑتی تو وہ قرعہ اندازی بھی کرتے اور اگر انہیں معلوم ہو جائے کہ نماز کے لیے جلدی آنے میں کتنا اجر و ثواب ملتا ہے تو لوگ ایک دوسرے سے سبقت کرنے لگیں اور اگر انہیں معلوم ہو جائے کہ عشاء اور صبح کی کتنی فضیلتیں ہیں تو اگر گھٹنوں کے بل آنا پڑتا تو پھر بھی آتے۔

امام ابنِ بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ويدخل في معنى التهجير المسارعة إلى الصلوات كلها قبل دخول أوقاتها؛ ليحصل له فضل الانتظار قبل الصلاۃ25

ترجمہ: حدیث میں وارد  لفظ “تهجير” کا مطلب ہے تمام نمازوں میں وقت سے پہلے پہنچنے کے لئے جلدی کرنا تاکہ نماز سے پہلے انتظار کرنے کا ثواب حاصل ہو۔

2۔ نمازِ جمعہ کے لئے جلدی جانا

نمازِ جمعہ کے لیے جلدی جانا قابلِ تعریف جلد بازی میں شامل ہے اور اس کے کئی فضائل ہیں جیسے صفِ اول میں شامل ہونا، ذکر میں مشغول ہونا اور نفلی نماز ادا کرنا۔ نمازِ جمعہ کے لیے آنے والوں کے مختلف درجات اور مراتب ہیں، سب سے افضل وہ ہیں جو جمعہ کے لیے سب سے پہلے پہنچتے ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنِ اغْتَسَلَ يَومَ الجُمُعَةِ غُسْلَ الجَنَابَةِ ثُمَّ رَاحَ، فَكَأنَّما قَرَّبَ بَدَنَةً، ومَن رَاحَ في السَّاعَةِ الثَّانِيَةِ، فَكَأنَّما قَرَّبَ بَقَرَةً، ومَن رَاحَ في السَّاعَةِ الثَّالِثَةِ، فَكَأنَّما قَرَّبَ كَبْشًا أقْرَنَ، ومَن رَاحَ في السَّاعَةِ الرَّابِعَةِ، فَكَأنَّما قَرَّبَ دَجَاجَةً، ومَن رَاحَ في السَّاعَةِ الخَامِسَةِ، فَكَأنَّما قَرَّبَ بَيْضَةً، فَإِذَا خَرَجَ الإمَامُ حَضَرَتِ المَلَائِكَةُ يَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ26

ترجمہ: جس نے جمعہ کے دن غسلِ جنابت کے مانند (خوب اہتمام سے) غسل کیا، پھر وہ (جمعہ میں شریک ہونے کے لیے) پہلی ساعت (گھڑی) میں مسجد گیا تو گویا اس نے ایک اونٹ اللہ کی راہ میں پیش کیا اور جو شخص اس کے بعد والی گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک گائے پیش کی اور جو تیسری گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک مینڈھا پیش کیا اور جو چوتھی گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک مرغی پیش کی اور جو پانچویں گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک انڈہ پیش کیا اور جب امام (خطبہ دینے کے لیے) نکل آتا ہے تو فرشتے مسجد کے اندر آ جاتے ہیں اور خطبہ سننے لگتے ہیں“

3۔ نمازِ مغرب کو جلدی ادا کرنا

نمازِ مغرب کو اولین وقت میں ادا کرنا اور اس میں جلدی کرنا تاخیر سے پڑھنے سے افضل ہے کیونکہ اس کا وقت مختصر ہوتا ہے۔

اور سنتِ عملی و قولی دونوں سے اس کی تاکید ملتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز کو ہمیشہ پہلے وقت میں ادا کرتے تھے۔ حضرت سلمہ بن الأكوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

كانَ يُصَلِّي المَغْرِبَ إذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَتَوَارَتْ بالحِجَابِ27

 ترجمہ: رسول اللہ ﷺ مغرب کی نماز سورج غروب ہونے کے فوراً بعد پڑھتے تھے، جب کہ سورج پردے میں چھپ چکا ہوتا تھا۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

معناه أنه يبكر بها في أول وقتها بمجرد غروب الشمس28

ترجمہ: اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کو فوراً غروبِ شمس کے بعد پڑھتے تھے

سنتِ قولی سےدلیل

سنتِ قولی سے بھی پہلے وقت میں جلدی نماز ادا کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا:

صلوا صلاة المغرب مع سقوط الشمس، بادروا بها طلوع النجم29

سورج غروب ہوتے ہی اور ستاروں کے ظہور سے قبل مغرب کی نماز پڑھ لیا کرو۔

نمازِ مغرب میں جلدی بھلائی کی علامت

جناب مرثد بن عبداللہ کہتے ہیں:

لما قَدِمَ علينا أبو أيوبَ غازيًا وعقبةُ بنُ عامرٍ يومئذٍ على مصرَ فأخَّرَ المغربَ فقام إليه أبو أيوبَ فقال له: ما هذهِ الصلاةُ يا عقبةُ؟ فقال: شُغِلنا, قال أما سمعتَ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم يقولُ لا تزالُ أمتي بخيرٍ أو قال على الفطرةِ ما لم يؤخِّروا المغربَ إلى أن تشتَبِكَ النجومُ30

ترجمہ: جب ابو ایوب رضی اللہ عنہ ہمارے پاس جہاد کے ارادے سے آئے، ان دنوں عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ مصر کے حاکم تھے، تو عقبہ نے مغرب میں دیر کی، ابو ایوب نے کھڑے ہو کر ان سے کہا: عقبہ! بھلا یہ کیا نماز ہے؟ عقبہ نے کہا: ہم مشغول رہے، انہوں نے کہا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہیں سنا کہ: ”میری امت ہمیشہ بھلائی یا فطرت پر رہے گی جب تک وہ مغرب میں اتنی تاخیر نہ کرے گی کہ ستارے چمکنے لگ جائیں“۔

امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

اتَّفقتِ الأمَّة فيها -أي صلاة المغرب- على تعجيلِها والمبادرةِ إليها في حينِ غُروبِ الشَّمسِ31

فقہاء نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ مغرب کی نماز کو سورج غروب ہوتے ہی جلدی ادا کرنا چاہیے ۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

 المغربُ تُعجَّل عقبَ غروبِ الشَّمْسِ، وهذا مُجمَعٌ عليه32

مغرب کی نماز سورج غروب ہونے کے فوراً بعد جلدی ادا کی جائے گی اور اس پر سب کا اتفاق ہے۔

معلوم ہوا کہ سورج غروب ہونے کے فوراً بعد مغرب کی نماز میں جلدی کرنی چاہیے، قبل اس کے کہ ستارے نظر آئیں اور اس میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے ۔

4۔ حج کی ادائیگی میں جلدی کرنا

حج صرف ان لوگوں پر فرض ہے جو مالی استطاعت رکھتے ہیں اور جو شخص اس کی شرائط پر پورا اُترتا ہو اس کے لیے جلدی حج کرنا مستحب ہے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے راستے میں کیا پریشانیاں، بیماریاں یا رکاوٹیں آ سکتی ہیں۔ حج کے لیے جلدی کرنا قابلِ تعریف ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تَعَجَّلُوا إلى الحَجِّ ، فإنَّ أحَدَكُمْ لا يَدرِي ما يَعرِضُ لَهُ33

“حج میں جلدی کرو، کیونکہ تمہیں نہیں پتہ کہ تمہیں کیا پیش آ سکتا ہے”

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے ہی ایک اور روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

من أراد الحجَّ فليتعجَّلْ فإنَّهُ قد يمرضُ المريضُ وتضلُّ الضالَّةُ وتعرِضُ الحاجَةُ34

“جو شخص حج کرنے کا ارادہ رکھے اسے جلدی کرنا چاہیے کیونکہ کبھی سفر کے دوران آدمی بیمار پڑ سکتا ہے، کبھی اونٹ گم ہو سکتا ہے یا کبھی کوئی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔

امام مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

فالسنة تعجيله خوفا من هجوم الآفات القاطعة والعوارض المعوقة35

سنت کے مطابق حج میں جلدی کرنا سنت ہے تاکہ انسان کو کسی اچانک بیماری یا رکاوٹ کا سامنا نہ ہو ۔

5۔ افطار میں جلدی کرنا

افطار میں جلدی کرنا بھی ایک قابلِ تعریف جلدی ہے بشرطیکہ سورج غروب ہونے کا یقین ہو اور اس میں بلا عذر تاخیر نہ کی جائے۔ یہ عمل اچھائی کی علامت ہے۔ جیسا کہ سنتِ نبویہ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس میں اہلِ کتاب کی مشابہت سے اجتناب مقصود ہے۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ36

ترجمہ: لوگ ہمیشہ بھلائی کے ساتھ رہیں گے جب تک جلد افطار کرتے رہیں گے۔

جلدی افطاری میں دین کا غلبہ

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا يَزَالُ الدِّينُ ظَاهِرًا مَا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ، لِأَنَّ الْيَهُودَ، وَالنَّصَارَى يُؤَخِّرُونَ37

ترجمہ: دین برابر غالب رہے گا جب تک کہ لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے، کیونکہ یہود و نصاری اس میں تاخیر کرتے ہیں ‘‘

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

فيه الحث على تعجيله بعد تحقق غروب الشمس، ومعناه لا يزال أمر الأمة منتظمًا وهم بخير ما داموا محافظين على هذه السُنَّة، وإذا أخروه كان ذلك علامة على فساد يقعون فيه38

ترجمہ: اس میں غروبِ آفتاب کے فورا بعد افطار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ امت کے معاملات ٹھیک رہیں گے اور امت میں اس وقت تک خیر باقی رہے گی جب تک وہ اس سنت پر عمل پیرا رہیں گے اور اگر اس میں تاخیر کریں گے تو یہ امت میں فساد کی علامت بن سکتی ہے ۔

امام مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

«لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ» أي: ما داوموا على هذه السنة؛ لأن تعجيله بعد تيقن الغروب من سنن المرسلين، فمن حافظ عليه تخلق بأخلاقهم؛ ولأن فيه مخالفة أهل الكتاب في تأخيرهم إلى اشتباك النجوم وفي ملتنا شعار أهل البدع فمن خالفهم واتبع السنة لم يزل بخير39

ترجمہ: “لوگ ہمیشہ خیر میں رہیں گے” کا مطلب یہ ہے کہ یعنی جب تک وہ اس سنت پر عمل کرتے رہیں گے، کیونکہ غروبِ آفتاب کا یقین ہو جانے کے بعد جلدی افطار کرنا انبیاء کی سنت ہے۔ جو شخص اس سنت کو اپنائے گا، وہ انبیاء کی سنت کو اپنائے گا۔ جلدی افطاری میں یہود و نصاری کی مخالفت بھی ہے، جو افطار کو ستاروں کے نکلنے تک مؤخر کرتے ہیں اور ہمارے دین میں یہ بدعتی لوگوں کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ تو جو شخص اہلِ کتاب کی مخالفت کرے اور سنت کی پیروی کرے، وہ ہمیشہ خیر میں رہے گا۔”

6۔ صدقات کی تقسیم میں جلدی کرنا

عبادت میں جلدی کرنے کی ایک پسندیدہ صورت صدقات کی تقسیم میں جلدی کرنا اور اسے مستحقین تک فوراً پہنچانا ہے۔ کیونکہ صدقات کو دیر سے تقسیم کیا جائے تو یہ قیامت کے دن انسان کے لیے دخولِ جنت کے لیے رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:

صَلَّيْتُ ورَاءَ النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ بالمَدِينَةِ العَصْرَ، فَسَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ مُسْرِعًا، فَتَخَطَّى رِقَابَ النَّاسِ إلى بَعْضِ حُجَرِ نِسَائِهِ، فَفَزِعَ النَّاسُ مِن سُرْعَتِهِ، فَخَرَجَ عليهم، فَرَأَى أنَّهُمْ عَجِبُوا مِن سُرْعَتِهِ، فَقالَ: ذَكَرْتُ شيئًا مِن تِبْرٍ عِنْدَنَا، فَكَرِهْتُ أنْ يَحْبِسَنِي، فأمَرْتُ بقِسْمَتِهِ40

ترجمہ: میں نے مدینہ میں نبی کریم ﷺ کی اقتداء میں ایک مرتبہ عصر کی نماز پڑھی۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ ﷺ جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے آپ ﷺ اپنی کسی بیوی کے حجرہ میں گئے۔ لوگ آپ ﷺ کی اس تیزی کی وجہ سے گھبرا گئے۔ پھر جب آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور جلدی کی وجہ سے لوگوں کے تعجب کو محسوس فرمایا تو فرمایا کہ ہمارے پاس ایک سونے کا ڈلا (تقسیم کرنے سے) بچ گیا تھا مجھے اس میں دل لگا رہنا برا معلوم ہوا، میں نے اس کے بانٹ دینے کا حکم دے دیا۔

اللہ تعالی ہم سب کو نیک کاموں میں جلدی اور سبقت لے جانے کی توفیق عطا فرمائے ۔

__________________________________________________________________________________________________________

  1. (الأنبياء: 37)
  2. (الإسراء: 11)
  3. (یونس : 11)
  4. (سنن أبي داود: 1532)
  5. (السلسلة الصحیحة، کتاب الآداب والاستئذان: 2780)
  6. ( صحیح البخاري: 6340، و مسلم: 2735)
  7. (السلسلة الصحیحة، کتاب الآداب والاستئذان: 2780)
  8. ( ضعیف الترمذي للألباني: 2012)
  9. (حلية الأولياء: 2/ 337)
  10. (كلیلة و دمنة ، لعبد الله بن المقفع)
  11. (المستطرف في كل فن مستطرف ، شهاب الدين الأبشيهي ، ج: 1/ 309)
  12. (صحيح مسلم، کتاب الإیمان: 117)
  13. (رواه الترمذي: 2010)
  14. (شرح رياض الصالحين، لابن عثيمين: 3/ 577 – 578)
  15. (مدارج السالكين: 2/296)
  16. (إحياء علوم الدين، للغزالي: 3/ 33)
  17. (البقرہ: 148)
  18. (المؤمنون : 61)
  19. (طہ: 83)
  20. (طہ: 84)
  21. (حسّنه الألباني في صحيح الترغيب: 2677)
  22. (تفسیر القرطبی: 362/4)
  23. (صحيح أبي داود : 4810، و صحیح الترغیب: 3356)
  24. (أخرجه البخاري: 652، و مسلم: 1914)
  25. (شرح صحيح البخاری، لابن بطال :2/ 280)
  26. (أخرجه البخاري: 881، و مسلم: 850)
  27. (صحيح مسلم: 636)
  28. (شرح مسلم – للنووي – ج: 5، ص: 136)
  29. (السلسلة الصحيحة للألباني : 1915 ، و صحیح الجامع: 3780)
  30. (سنن أبي داود: 418)
  31. (تفسير القرطبي : 10/305)
  32. (شرح النووي على مسلم: 2/426)
  33. (صححه في صحيح الجامع: 2957)
  34. (حسنّه الألباني في صحيح ابن ماجه: 2349)
  35. (فيض القدير: 3/329)
  36. (صحيح البخاري: 1957، و مسلم :1098)
  37. (حسنه الألباني في صحيح أبي داود: 2353)
  38. (شرح صحيح مسلم: 7 /208)
  39. (فيض القدير، للمناوي: 6/ 450)
  40. ( صحيح البخاري: 851)
الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ: