پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، جس نے اپنے بندوں پر فضل کرتے ہوئے حقوق و واجبات کی تفصیلات سے انہیں آگاہ فرمایا، اور ان کے لئے نیک اعمال پسندیدہ قرار دیتے ہوئے، گناہوں کو ناپسند قرار دیا، اور نیک لوگوں کے ساتھ بھلائی کا وعدہ فرمایا، اور میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، وہی دعائیں قبول کرتا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ کی معجزوں کے ذریعے تائید کی گئی، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد ، آپ کی اولاد اور جہاد و دلائل کے ذریعے دین کو غالب کرنے والے صحابہ کرام پر اپنی رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
تقوی الہی اختیار کرو، اللہ کے فرض کردہ احکامات کو ضائع مت کرو، اور اسکی حدود سے تجاوز مت کرو، بیشک متقی با مراد، اور خواہش پرست نا مراد ہوں گے۔
اللہ کے بندوں!
ذہن نشین کر لو کہ! بندوں کے اعمال کا نفع و نقصان انہی کو ہو گا، چنانچہ اطاعت گزاری اللہ کا کچھ سنوار نہیں سکتی اور نا فرمانی اسکا کچھ بگاڑ نہیں سکتی، فرمان باری تعالی ہے:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ
الجاثیة – 15
جو کوئی بھی نیک عمل کرے گا اپنے لیے کرے گا، اور جو گناہ کرے گا، اس کا [خمیازہ]اسی پر ہو گا، پھر تم سب اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
اسی طرح فرمایا:
مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزَى إِلَّا مِثْلَهَا وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ
غافر – 40
اور حدیث قدسی میں ہے کہ : (میرے بندو! تم میرا کچھ بگاڑنے کی حد تک نہیں پہنچ سکتے، اور نہ مجھے نفع پہنچا سکتے ہو، میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہی ہیں جنہیں میں تمہارے لئے محفوظ کرتا ہوں، پھر تمہیں پورا پورا [بدلہ] دونگا، چنانچہ جو شخص اچھائی پائے تو وہ اللہ کی حمد خوانی کرے، اور بصورتِ دیگر اپنے آپ کو ہی ملامت کرے) مسلم نے اسے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
واجب حقوق کی ادائیگی کا فائدہ آخر کار بندے کو ہی ہوگا، اسے انسان دنیا و آخرت میں ثواب کی صورت میں وصول کریگا، جیسے کہ فرمان باری تعالی ہے:
فَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِهِ وَإِنَّا لَهُ كَاتِبُونَ
الأنبیاء – 95
جو کوئی بھی ایمان کی حالت میں نیکیاں کمائے، تو اسکی جد وجہد کا انکار نہیں ہوگا، اور بیشک ہم اسکے [اعمال] لکھ رہے ہیں۔
ایسے ہی فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا
الکھف – 30
بلاشبہ جو لوگ ایمان لا کر نیک عمل کرتے رہیں، یقیناً ہم اچھے عمل کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرینگے۔
اسی طرح واجب حقوق میں کلی یا جزوی کمی کرنے کی سزا شرعی حقوق ضائع کرنے والے انسان پر ہی ہوگی، کیونکہ اس نے اللہ رب العالمین کے حقوق ضائع کر کے دنیا اور آخرت میں اپنا ہی نقصان کیا ہے، اللہ تعالی تو سب سے بے نیاز ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ وَلَا يَرْضَى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ
الزمر – 7
اگر تم کفر کرو تو بلاشبہ اللہ تعالی تم سے بے نیاز ہے، وہ اپنے بندوں سے کفر پسند نہیں کرتا، اور اگر تم اسکا شکر کرو، تو یہ اسکے ہاں پسندیدہ ہے۔
اور فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ
فاطر – 15
اے لوگو! تم ہی اللہ کے محتاج ہو، جبکہ اللہ تعالی بے نیاز، اور قابل ستائش ہے۔
ایسے ہی فرمایا:
هَا أَنْتُمْ هَؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمِنْكُمْ مَنْ يَبْخَلُ وَمَنْ يَبْخَلْ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَفْسِهِ
محمد – 38
یہ تم ہی ہو جنہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کیلیے بلایا جاتا ہے، چنانچہ کچھ لوگ بخیلی کرتے ہیں، اور جو کوئی بخیلی کرے گا، وہ اپنے آپ سے بخیلی کر رہا ہے۔
اسی طرح فرمایا:
وَمَنْ يَكْسِبْ إِثْمًا فَإِنَّمَا يَكْسِبُهُ عَلَى نَفْسِهِ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
النساء – 111
اور جو شخص گناہ کمائے بیشک وہ اپنی جان پر ہی گناہ کماتا ہے، اور اللہ تعالی خوب جاننے والا، اور حکمت والا ہے۔
اور عقیدہ توحید اللہ تعالی کا واجب حق ہے اس کی ادائیگی ضروری ہے، اور اسکی حفاظت پر اللہ تعالی نے عظیم ثوب کا وعدہ بھی کیا ہے، فرمایا:
وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ غَيْرَ بَعِيدٍ [ 31] هَذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ
ق – 31/32
اور جنت کو پرہیز گاروں کے قریب کر دیا جائے گا وہ کچھ دور نہ ہوگی [ 31] یہ ہے جس کا تم [جنتیوں ]سے وعدہ کیا جاتا تھا، یہ ہر رجوع کرنے والے اور [حقوق الہی]کی حفاظت کرنے والے کیلیے ہے۔
اور جس شخص نے اللہ کے حقوق ضائع کرتے ہوئے شرک کیا ، غیر اللہ کو واسطہ بنا کر اس کی عبادت کی، ان سے فریاد رسی ، مشکل کشائی ، اور حاجت روائی کا مطالبہ کیا، اور انہی پر توکل رکھا تو وہ ناکام و نا مراد ہونے کے ساتھ شرک کا مرتکب بھی ہوا، اس کی تمام جد و جہد غارت ہو گئی ، اللہ تعالی اس سے کوئی نفل یا فرض عبادت قبول نہیں کریگا، اور اسے کہا جائے گا: جہنم میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی جہنم رسید ہو جاؤ، اِلّا کہ وہ شرک سے توبہ کر لے، ایک حدیث میں ہے کہ: (ایک جہنمی آدمی کو قیامت کے دن کہا جائے گا: اگر تمہارے پاس زمین کی ساری دولت آ جائے تو کیا آگ سے بچنے کیلئے اسے فدیہ میں دے دو گے؟ تو وہ کہے گا: ہاں، پھر اسے کہا جائے گا: “تمہیں اس سے بھی آسان کام کا حکم دیا گیا تھا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہرانا، [لیکن تم شرک سے بالکل باز نہ آئے]”)بخاری و مسلم نے اسے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
اور مکلف بندہ مخلوق کے واجب حقوق ضائع کر کے اپنے آپ کو ہی دنیا و آخرت میں ثواب سے محروم کرتا ہے اور عذاب کا مستحق بنتا ہے، اور اگر حقوق العباد کی ادائیگی میں کمی ہوئی تو اسی کے مطابق ثواب میں بھی کمی ہو گی۔
روکھی سوکھی اور تنگی ترشی میں انسان کی زندگی تو گزر ہی جاتی ہے، اس لیے انسان کی زندگی واجب حقوق پورے ملنے پر موقوف نہیں ؛ کیونکہ [اگر کوئی حق رہ بھی گیا تو]اللہ کے ہاں اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والے سب جمع ہو جائیں گے، اور اللہ تعالی مظلوم کو ظالم اور غاصب سے حق لیکر دے گا، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: (قیامت کے دن تم مستحق افراد کو ان کے حقوق ضرور ادا کرو گے، حتی کہ سینگ والی بکری سے بغیر سینگ والی بکری کا بدلہ لیا جائے گا)مسلم
اللہ تعالی اور رسول ﷺ کے حقوق کے بعد والدین کے حقوق ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہیں اللہ نے اپنے حقوق کیساتھ بیان کیا اور فرمایا:
وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا[ 23] وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
الاسراء – 23/24
اور آپ کے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اسکے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو، والدین کیساتھ اچھا برتاؤ کرو، اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ ہی انہیں جھڑکو اور ان سے بات کرو تو ادب سے کرو۔ اور ان پر رحم کرتے ہوئے انکساری سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ: پروردگار! ان پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپنے میں مجھے [محبت و شفقت]سے پالا تھا۔
ایسے ہی فرمایا:
وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ
لقمان – 14
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین سے [نیک سلوک کرنے کا] تاکیدی حکم دیا ، اس کی ماں نے اسے کمزوری پر کمزوری سہتے ہوئے پیٹ میں اٹھائے رکھا اور دو سال اس کے دودھ چھڑانے میں لگے [اسی لئے یہ حکم دیا کہ] میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا بھی [آخر] میرے پاس ہی [تجھے] لوٹ کر آنا ہے۔
اللہ تعالی نے والدین کے حق کو اتنا بڑا مقام اس لئے دیا ہے کہ اللہ تعالی نے تمہیں انہی کی وجہ سے وجود بخشا اور پیدا کیا، ماں نے دوران حمل بہت بڑی بڑی مشقتیں برداشت کیں، اور دوران زچگی زندگی و موت کی کشمکش بھی دیکھی، فرمان الہی ہے:
وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا
الاحقاف – 15
ہم نے انسان کو حکم دیا کہ وہ اپنے والدین سے اچھا سلوک کرے، اس کی ماں نے مشقت اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور مشقت اٹھا کر ہی جنم دیا۔
ماں کا دودھ پلانا بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، جبکہ والد اولاد کی تربیت، اور رزق کی تلاش میں تگ و دو کرتا ہے، والدین مل کر بیماری کا علاج کرتے ہیں، بچوں کی نیند کی خاطر خود جاگتے ہیں، بچوں کے آرام کیلیے اپنی جان جوکھوں میں ڈالتے ہیں، انکی خوشحالی کیلیے خود تنگی برداشت کرتے ہیں، بچوں کے بول و براز کو برداشت کرتے ہیں تا کہ اولاد سُکھ میں رہے، وہ اسے سکھاتے بھی ہیں تاکہ بچہ مکمل اور مہذب انسان بنے، انکی دلی خواہش ہوتی ہے کہ انکی اولاد ان سے بھی آگے بڑھے، اس لئے بچو! والدین کے بارے میں کثرت سے وصیت کے متعلق تعجب مت کرو، اور نہ ہی انکی نافرمانی کی وجہ سے کثرتِ وعید پر حیرانگی کوئی معنی نہیں رکھتی ۔
اولاد جتنی مرضی جد و جہد کر لے اپنے والد کیساتھ نیکی کا حق ادا نہیں کر سکتی، صرف ایک صورت ہے جسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: (اولاد کسی صورت میں بھی اپنے والد کا حق ادا نہیں کر سکتی ، اِلّا کہ والد کسی کا غلام ہو تو اسے خرید کر آزاد کر دے۔) مسلم ، ابو داود، ترمذی
والدین جنت کا دروازہ ہیں، چنانچہ والدین کیساتھ حسن سلوک کرنے والا جنت میں داخل ہو گا؛ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (اسکی ناک خاک آلود ہو، اسکی ناک خاک آلود ہو، اسکی ناک خاک آلود ہو) کہا گیا: اللہ کے رسول! کس کی؟! آپ ﷺ نے فرمایا: (جس شخص نے اپنے والدین کو یا کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور جنت میں داخل نہ ہوا)مسلم
اے مسلمان!
اگر تمہارے والدین تم سے راضی ہیں تو اللہ بھی تم سے راضی ہے، چنانچہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (اللہ کی رضا والد کی رضا مندی میں ہے، اور اللہ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے)یہ حدیث صحیح ہے، اسے ترمذی نے روایت کیا ہے، اور حاکم نے مستدرک میں اسے صحیح کہا ہے۔
والدین کیساتھ حسن سلوک یہ ہے کہ گناہ کے علاوہ ہر کام میں انکی فرمانبرداری کریں، ان کی وصیت اور حکم کی تعمیل کریں، انکے ساتھ نرم برتاؤ رکھیں، انہیں خوش رکھیں، ان پر خرچہ کرتے ہوئے فراخ دلی سے کام لیں، شفقت و رحمت کیساتھ پیش آئیں، انکے دکھ کو اپنا دکھ جانیں، ان کے ساتھ مانوس ہو کر رہیں، انکے ساتھیوں اور دوستوں کیساتھ اچھا سلوک کریں، انکے رشتہ داروں کیساتھ تعلقات بنائیں، اور ان سے ہر قسم کی تکلیف کو دور رکھیں، جن چیزوں سے وہ روک دیں ان سے رک جائیں، انکی لمبی زندگی کی چاہت رکھیں، انکی زندگی میں اور انکے چلے جانے کے بعد کثرت سے انکے لیے استغفار کریں۔
جبکہ والدین کے ساتھ بد سلوکی گزشتہ تمام چیزوں سے کنارہ کشی کا نام ہے۔
معاشرے میں والدین کے ساتھ بد سلوکی کا بڑھ جانا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے؛ حدیث ہے کہ : (قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ : بے وقت بارشیں ہونگی، اولاد نافرمان ہوگی، برے لوگ بڑھتے چلے جائیں گے، اور اچھے لوگ کم ہوتے جائیں گے)
والدین کے ساتھ سب سے بڑی بد سلوکی یہ ہے کہ دونوں کو یا ان میں سے کسی ایک کو اولاد کی خدمت سے نکال کر اولڈ ایج ہاؤس میں منتقل کر دیا جائے -اللہ کی پناہ- اس کام کا اسلامی یا انسانی اخلاقیات سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے!
اسی طرح والدین پر رعب جھاڑنا ، ان پر ہاتھ اٹھانا! انہیں زد و کوب کرنا ! گالی گلوچ کا نشانہ بنانا! اور انہیں انکے حقوق سے محروم کرنا بہت بڑی بد سلوکی ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: (جنت کی خوشبو پانچ سو سال کی مسافت سے سونگھی جاسکتی ہے، لیکن والدین سے بد سلوکی کرنے والا جنت کی خوشبو بھی نہیں پا سکے گا!)طبرانی
فرمان باری تعالی ہے:
وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا
النساء – 36
اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، والدین سے اچھا سلوک کرو، نیز قریبی رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، رشتہ دار ہمسائے ، اجنبی ہمسائے اپنے ہم نشین اور مسافر ان سب سے اچھا سلوک کرو، نیز ان غلاموں سے بھی جو تمہاری ملکیت میں ہیں ۔ اللہ تعالی یقیناً مغرور اور خود پسند بننے والے کو پسند نہیں کرتا۔
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین ﷺ کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو ۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کیلیے ہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، وہی قوی اور مضبوط ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد ﷺ اس کے بندے اور صادق و امین رسول ہیں، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ، انکی آل اور تمام صحابہ کرام پر رحمت ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
اللہ سے ایسے ڈرو جیسے ڈرنے کا حق ہے، اور اسلام کے مضبوط کڑے کو تھام لو۔
اللہ کے بندوں!
والدین کے حقوق ادا کرنے میں جہاں عظیم اجر و ثواب اور برکت ہے، وہیں پر یہ ایسے لوگوں کی بلند صفات میں شامل ہے جن کا باطن پاک ہو ، مقام و مرتبہ بلند ہو، اور پاکیزہ اخلاق کے مالک ہوں۔
نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہوتا ہے، اور کسی کی نیکی یاد رکھنا، اور نیکی کا صلہ دینا نیکی کا حق ہے، حسن سلوک کا بدلہ حسن سلوک سے ہی دیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نیکی کا منکر وہی شخص ہوتا ہے، جو انتہائی بد اخلاق اور بے مروّت ہو، اور اس کے باطن میں بھی خباثت بھری ہو، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
البقرۃ – 237
اور ایک دوسرے کے احسانات کو مت بھولو ، اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو یقیناً اللہ اسے دیکھ رہا ہے ۔
اور اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا
مریم – 32
میں اپنی والدہ کیساتھ بہتر سلوک کرنے والا ہوں، اللہ نے مجھے جابر اور بدبخت نہیں بنایا۔
اور یحیی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُنْ جَبَّارًا عَصِيًّا
مریم – 14
وہ اپنے والدین سے ہمیشہ اچھا سلوک کرتے تھے اور کسی وقت بھی جابر اور نافرمان نہ ہوئے۔
اور ایک تباہ و برباد ہونے والے بد بخت کے بارے میں فرمایا:
وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي أَنْ أُخْرَجَ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُونُ مِنْ قَبْلِي وَهُمَا يَسْتَغِيثَانِ اللَّهَ وَيْلَكَ آمِنْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَيَقُولُ مَا هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ
الاحقاف – 17
اور جس شخص نے اپنے والدین سے کہا :”تف ہو تم پر، تم مجھے اس بات سے ڈراتے ہو کہ میں [زندہ کر کے زمین سے] نکالا جاؤں گا حالانکہ مجھ سے پہلے بہت سی نسلیں گزر چکی ہیں” اور وہ دونوں اللہ کی دہائی دے کر اسے کہتے: “تیرا ستیاناس!! ہماری بات مان جا کیونکہ اللہ کا وعدہ سچا ہے” تو وہ کہتا ہے: “یہ تو صرف پہلے لوگوں کے قصے اور کہانیاں ہیں۔!!
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا، اور کہا: اللہ کے رسول! لوگوں میں سے کون میرے حسن سلوک کا زیادہ حقدار ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: (تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہارا باپ، اسکے بعد جو بھی قریب ترین رشتہ دار ہو)بخاری و مسلم
اللہ کے بندوں!
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
یقیناً اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو۔
اور آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ: (جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا)اس لیے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو۔
اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، وسلم تسليما كثيراً۔
یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان ، علی اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، تابعین کرام اور قیامت تک انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہو جا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنے رحم و کرم اور جود و سخا کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنے رحم و کرم اور جود و سخا کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا اکرم الاکرمین!
یا اللہ اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! تیرے اور تیرے دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما دے، یا رب العالمین!
یا اللہ! اپنے دین، کتاب اور سنت نبوی کا بول بالا فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! تمام ادیان پر اپنے پسندیدہ دین کا غلبہ فرما چاہے مشرکوں کو یہ بات ناگوار لگے، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہمیں ان لوگوں میں سے بنا جو تیرے نبی محمد ﷺ کی سنت پر کار بند رہتے ہیں، یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولادوں کو ان لوگوں میں سے بنا جو تیرے نبی محمد ﷺ کی سنت پر کار بند رہتے ہیں، یا اللہ! ہمیں ہماری آخری سانس تک سنتوں پر عمل پیرا رکھ اور ہم سے راضی ہو کر ہماری روح قبض فرما، یا اللہ! تمام مسلمانوں کو ان لوگوں میں سے بنا جو تیرے نبی محمد ﷺ کی سنت پر کار بند رہتے ہیں، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہم تجھ سے تیری رحمت کے صدقے ہدایت، تقوی، عفت اور تونگری کا سوال کرتے ہیں، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! تو ہمارے اگلے پچھلے، خفیہ اعلانیہ، اور جنہیں تو ہم سے بہتر جانتا ہے سب گناہ معاف فرما دے، تو ہی ترقی و تنزلی دینے والا ہے ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔
یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان ، شیطانی چیلوں ، لشکروں، اور شیطان کے ہمنواؤں سے محفوظ فرما، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے تمام مسلمانوں اور ان کی اولادوں کو شیطان مردود سے، شیطانی چیلوں ، لشکروں، اور شیطان کے ہمنواؤں سے محفوظ فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تمام مقروض مسلمانوں کے قرضے چکا دے، یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تمام مقروض مسلمانوں کے قرضے چکا دے۔
یا اللہ! تمام مسلمان بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! تمام مسلمان بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! تمام مسلمان بیماروں کو شفا یاب فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! تمام معاملات کا انجام ہمارے لیے بہتر فرما، اور ہمیں دنیاوی رسوائی اور اخروی عذاب سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! ہمیں ہمارے نفسوں اور بد اعمالیوں کے شر سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! ہمیں ایک لمحے کیلیے بھی تنہا مت چھوڑنا، یا اللہ! ہمارے تمام امور سنوار دے، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ اپنے کلمے کا بول بالا فرما، یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ اپنے کلمے کا بول بالا فرما، یا اللہ! اپنے نبی محمد ﷺ کے طریقے کو غالب فرما، یا اللہ! کفر اور کافروں کو ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! روزِ قیامت تک بدعات کو رسوا فرما، یا اللہ! روزِ قیامت تک بدعات کو رسوا فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! خادم حرمین شریفین کو تیری مرضی کے کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! انہیں تیری مرضی کے مطابق توفیق عطا فرما، یا اللہ! ان کی تمام تر کاوشیں تیری رضا کیلیے مختص فرما ، یا رب العالمین! یا اللہ! ان کی ہر اچھے کام کیلیے مدد فرما، یا اللہ! ان کی ہر اچھے کام کیلیے مدد فرما، یا اللہ! انہیں صحت و عافیت سے نواز، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ یا اللہ! ان کے دونوں نائبوں کو تیری مرضی اور تیری رہنمائی کے مطابق ایسے کام کرنے کی توفیق عطا فرما جن میں اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی ہو، یا ذو الجلال والاکرام!
یا اللہ! ہمارے ملک کی کسی بھی منفی سرگرمی سے حفاظت فرما، یا اللہ! فتنوں کا خاتمہ فرما دے، یا اللہ! مسلم خطوں میں بپا ہونے والے فتنوں کا خاتمہ فرما دے، یا ذو الجلال والاکرام!
یا اللہ! ایمان کو ہمارے دلوں کی پسندیدہ چیز بنا دے، یا اللہ! ایمان ہمارے دلوں میں مزین فرما دے، اور کفر ،فسق اور گناہوں سے ہمارے دلوں میں نفرت پیدا فرما دے، اور ہمیں ہدایت یافتہ بنا دے، یا اللہ! تمام مومن مرد و خواتین کے معاملات کو سنوار دے، تمام مسلمان مرد و خواتین کے معاملات سنوار دے۔
یا اللہ! کمزور اور مظلوم مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! ان پر اسلام کی وجہ سے ظلم ڈھانے والوں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ اپنی رحمت کے صدقے قرآن و سنت کے جلد از جلد غلبے اور مومن بندوں کا بول بالا کرنا کیلیے اپنی مدد نازل فرما۔ یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت کی بھلائیاں عطا فرما، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔
اللہ کے بندوں!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
النحل – 90
اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو۔
عظمت والے اور جلیل القدر پروردگار کو خوب یاد رکھو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ تعالی کی یاد بہت بڑی عبادت ، اللہ تعالی تمہارے تمام کاموں سے باخبر ہے۔