تہمت اور تمسخر کے ہتھیار! آخر کب تک؟

ہمارے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر آپ ہمارا موقف اپنی مرضی سے بیان کریں گے تو نہ صرف یہ نا انصافی ہو گی بلکہ یوں اختلاف وتشتت میں بھی اضافہ ہو گا اور جو اختلاف جلد ختم ہو سکتا ہے، وہ کبھی ختم ہونے کا نام نہیں لے گا۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ آپ ہمارا موقف ہمیں سے سنیے اور اس کے دلائل بھی، پھر فیصلہ آپ کیجیے کہ اس میں غلط کیا ہے اور صحيح کس قدر۔

مگر آج عوام کیا خواص کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ ایک تو دوسرے کا موقف نہ صرف دیانت داری سے بیان نہیں کرتے بلکہ اس میں حسب خواہش تہمت اور تمسخر کا تڑکا لگا کر اسے خوب اچھالا جاتا ہے جس سے سوائے پروپیگنڈے کے اور کوئی مقصد معلوم نہیں ہوتا۔

یاد رکھنا چاہیے کہ قولِ حق کی ترغیب دینے والوں کو بدنام کرنے کے لیے تہمت تراشی کی تاریخ بڑی پرانی ہے، اس کا تذکرہ کرتے ہوئے شیخ عبد الرحمن بن یحیی المعلمی رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز کتاب “التنكيل” کے آغاز میں لکھا ہے کہ جب نصاری میں سیدنا عیسی علیہ السلام کی الوہیت کا عقیدہ رائج کیا جانے لگا تو جو حق پرست ایسا شرکیہ عقیدہ پھیلانے والوں کو سمجھاتا، اس پر تہمت لگا دی جاتی کہ یہ عیسی علیہ السلام سے بغض رکھتا اور ان کا گستاخ ہے۔ بے چارہ یہ خطرناک تہمت سن کر چپ سادھ لیتا اور یوں وہ شرکیہ عقیدہ آہستہ آہستہ عیسائیوں میں پھیلتا گیا۔

مزید لکھتے ہیں کہ یہی طریقہ کار آج کے غالی مقلدین کا ہے کہ جب ان کو اپنے پیشواؤں کے متعلق غلو سے روکا جاتا ہے تو وہ سمجھانے والے پر ائمہ کا گستاخ ہونے کی تہمت لگا کر اسے چپ کروانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔

معلوم ہوا کہ تہمت طرازی کا مشغلہ کبھی ایسے لوگوں کا طریق نہیں رہا جو حق سے محبت رکھنے والے اور اس کو قبول کرنے والے ہوں، بلکہ یہ ہمیشہ سے ایسے لوگوں کا وتیرہ رہا ہے جو درست بات کو قبول کرنے کے بجائے چاہتے ہیں کہ اسے الجھا دیا جائے اور راہ حق کی دعوت دینے والوں کو بھی تہمت تراشیوں کے ذریعے سے بدنام یا چپ کروا دیا جائے

مگر اس امت پر اللہ کا احسان ہے کہ یہاں نصاری کی طرح تہمتوں کے جواب میں چپ رہنا معیوب سمجھا جاتا ہے اور اظہار حق کو لازمی شرعی فریضہ بنا دیا گیا ہے۔

اسی طرح اگر آپ داعیان حق کا تمسخر اڑانے والوں کی تاریخ دیکھیں گے تو وہاں بھی آپ کو اسی قماش کے لوگ نظر آئیں گے جن کا مقصد یہی رہا کہ کس طرح سے لوگوں کی نظروں میں انھیں بے وقعت کر دیا جائے کہ ان کی بات پر کوئی سنجیدگی سے غور نہ کر سکے۔

مگر کیا ایسا ہو پایا؟!۔۔۔۔کبھی نہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ حق میں اللہ تعالٰی نے ایسا نور رکھا ہے کہ وہ خود ہی اپنا راستہ ڈھونڈتا اور دل ودماغ میں جگہ بنا لیتا ہے۔

آپ وہ لمحات یاد کیجیے جب داعیان حق کو پاگل، احمق اور مجنوں کہا جاتا تھا تاکہ کوئی ان کے قریب بیٹھنا بھی گوارا نہ کرے، مگر نتیجہ کیا نکلتا تھا؟ یہی کہ دنیا میں ہر کوئی اتنا بے وقوف نہیں ہوتا کہ صرف تہمت اور تمسخر کے سبب مسخروں ہی کی سننے ماننے لگے، بلکہ ایک باشعور انسان اپنے دماغ سے سوچتا اور ضمیر کی سنتا ہے۔ اور اس کا زیادہ دیر پروپیگنڈے کے زیر اثر رہنا ممکن نہیں ہوتا۔ افسوس کہ تہمت اور تمسخر کے جو ہتھیار کبھی دشمنان حق اور اہل بدعہ کے ہوا کرتے تھے، آج ان کی سنگت اور صحبت بد کے نتیجے میں یہی ہتھیار سنت کے نام لیوا اپنے ہی لوگوں کے خلاف برت کر سمجھتے ہیں کہ شاید ہم نے بڑا کمال کر دیا ہے۔

لیکن یاد رکھیے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بات میں وزن پیدا ہو اور وہ دل ودماغ میں اپنی جگہ بنائے، تو اس کے لیے ایسے غلط کار ہتھیاروں کے بجائے اپنے مدعا کو دلائل وبراہین کے ساتھ پیش کرنے کی عادت ڈالیے۔ وگرنہ خود کو خواہشات اور ضد وعناد کا اسیر بنانے کے بجائے وحی الہی کے آگے سپر ڈالنے کا خوگر بنا لیں، ان شاء اللہ دنیوی واخروی رفعتیں آپ کا مقدر ہوں گی۔ واللہ الموفق

حافظ شاہد رفیق: