احکام و مسائل

توبہ و استغفار کی فضیلت اور ضرورت

خطبہ اول:

ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے، وہ گناہ بخشنے والا، توبہ قبول کرنے والا، سخت عذاب والا، قدرت والا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، اسی کی طرف واپس لوٹنا ہے۔ اور درود و سلام نازل ہو خوشخبری سنانے والے، ڈرانے والے، روشن چراغ ہمارے نبی محمد پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑی فضیلت والے آل و اصحاب پر۔

امابعد:

اللہ کی اطاعت اور اس کے تقویٰ کے مثل بندے نے کسی چیز سے اپنے نفس کو نہ معزز کیا، نہ اس کے ساتھ بھلائی کی اور نہ اسے مشرف کیا۔ اور نہ اپنے رب و آقا کی معصیت کے مثل کسی چیز سے اپنے نفس کو ذلیل کیا، اس کے ساتھ برائی کی اور اسے پست و خوار کیا۔

اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ کی طرف چلنے اور اس کی مغفرت تک پہنچنے کی راہ میں سب سے سخت رکاوٹ گناہ میں لگے رہنا اور اس پر اصرار کرنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور جنت کے وعدے اور تقویٰ سے متصف ہونے کو اس صفت، یعنی معصیت پر اصرار کی نفی سے معلق کیا ہے۔

 اور یہ بات اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس قول میں ہے:

 وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ1

 “اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔

جو لوگ آسانی میں، سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے۔ جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فوراً اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ فی الواقع اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟ اور وہ لوگ باوجود علم کے کسی برے کام پر اصرار نہیں کرتے۔”

اللہ کے بندو! دل کی درستی اور بڑے گناہوں پر قائم رہنا باہم ایسی متضاد چیزیں ہیں جو مل نہیں سکتیں۔ بندۂ بیدار، اپنے نفس پر احسان کرنے والا وہ ہے جو اللہ کی طرف چلتے ہوئے راستے میں اس چیز کو ٹٹول لے جو اسے اللہ تک پہنچنے سے روکتی ہے یا اسے پیچھے لے جاتی ہے۔

یاد رہے کہ مسلمان کے دل میں امید کی چمک اور ایمان کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ جب گناہ میں پڑ جائے تو اس کا احساس کرے، اس کی خطا اس کے فکر و خیال کو الجھائے رکھے اور وہ گناہوں اور نافرمانیوں کے کیچڑ سے نجات کی تلاش میں لگا رہے۔ کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بھرے ہوئے ہیں کہ اگر بندہ انہیں مضبوط تھام لے تو وہ ان کے ذریعے معصیت کی تاریکی سے طاعت کے نور میں اور برائی کی الجھن سے نیکی کے سکون میں پہنچ جائے گا۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے، گناہ گار بندوں کو رحمت و محبت والی پکار لگاتے ہوئے کہا:

 قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ2

کہہ دے اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوجاؤ، بے شک اللہ سب کے سب گناہ بخش دیتا ہے۔ بے شک وہی تو بے حدبخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

وَأَنِيبُوا إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ3

تم سب اپنے پروردگار کی طرف جھک پڑو اور اس کی حکم برداری کیے جاؤ، اس سے قبل کہ تمہارے پاس عذاب آ جائے اور پھر تمہاری مدد نہ کی جائے،۔

وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ4

اور پیروی کرو اس بہترین چیز کی جو تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل کی گئی ہے، اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آ جائے اور تمہیں اطلاع بھی نہ ہو۔۔

یہ عظیم آیتیں ہیں، یہ اصرار و تکرار کے ساتھ گناہ کرنے والوں اور اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والوں کے لیے امید کے دروازے کھولتی ہیں۔ گویا کہ جب انہوں نے اپنے رب کی آواز سنی، اپنے خالق و رازق سے غفلت و اعراض برت کر تنبیہ کی نیند میں پڑے رہنے سے بیدار ہو گئے، تو وہ اللہ جو اپنے بندوں سے بے نیاز ہے، ان سے کہہ رہا ہے، بعد اس کے کہ اپنے رب سے منہ پھیرے ہوئے رہے، اس کی طرف آ جائیں۔ وہ انہیں اپنی رحمت کی طرف بلا رہا ہے، بعد اس کے کہ لگتا تھا کہ مایوسی انہیں اپنے رب سے پھیر دے گی۔ اس پاداش میں کہ انہوں نے اپنے گناہوں پر اصرار کیا اور اپنے رب کی نافرمانی میں حد سے تجاوز کیا، تو وہ پاک رب جو کہ بہت زیادہ رحم کرنے والا، بہت محبت کرنے والا ہے، ان پر مہربانی کرتا ہے، یہ بتاتے ہوئے کہ وہ تمام گناہوں کو بخش دے گا، یعنی گناہ چاہے جتنے زیادہ ہوں اور جتنے بڑے ہوں، اس لیے کہ وہ بہت بخشنے والا ہے جو گناہوں پر پردہ ڈالتا ہے، بہت رحم کرنے والا ہے جو جلد سزا نہیں دیتا، اور وہ توبہ و انابت قبول کرتا ہے۔

 پھر اللہ پاک نے انہیں حکم دیا کہ وہ اس کی طرف لوٹیں اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کریں، موت سے پہلے اور عذاب کے نازل ہونے سے قبل جب تک وہ مہلت کی مدت میں ہیں۔ پھر انہیں حکم دیا کہ وہ اس کی اطاعت کی پابندی کریں اور اس کی نافرمانی سے بچیں، قبل اس کے کہ اللہ کا عذاب اچانک آ لے اور انہیں پتہ بھی نہ چلے۔

مسلمانو! اللہ کی مہربانی اور رحمت میں سے یہ ہے کہ اس نے اپنے گناہگار بندوں کے لیے ایسے راستے اور ذرائع آسان کیے کہ اگر وہ ان پر چلیں اور انہیں اختیار کریں تو اللہ کی نافرمانی چھوڑنے کے خوگر ہو جائیں گے، پھر اس کے بعد اس سے نفرت کرنے اور اسے ناپسند کرنے پر ثواب سے نوازے جائیں گے، چنانچہ جسے اپنے رب سے ملاقات کی امید ہو، اسے ان ذرائع کو لازم پکڑنا چاہیے۔

 ان میں سے بعض یہ ہیں: یہ کہ گناہگار اپنے نفس کو استغفار اور توبہ کا عادی بنائے، چاہے گناہ جتنی بار دہرایا گیا ہو، اس لیے کہ ایک دن اللہ کی رحمت سے وہ اسے چھوڑنے والا ہے۔

اللہ کا فرمان ہے:

 وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَّحِيمًا5

“جو شخص کوئی برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے، پھر اللہ سے استغفار کرے تو وہ اللہ کو بخشنے والا، مہربانی کرنے والا پائے گا۔

 متقیوں کے امام آپ صلی اللہ علیہ وسلم، جب کہ آپ معصوم عن الخطا ہیں، ہر دن اپنے رب کی بارگاہ میں سو مرتبہ توبہ کرتے تھے، پھر سوچیے اس کی کیا کیفیت ہونی چاہیے جو ان سے کمتر ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ تُوبُوا إِلَى اللَّهِ فَإِنِّي أَتُوبُ فِي الْيَوْمِ إِلَيْهِ مِائَةَ مَرَّةٍ6

“اے لوگو! اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو، میں اس کی بارگاہ میں دن میں سو بار توبہ کرتا ہوں”۔

نبیﷺ نے فرمایا:

 رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «وَاللَّهِ إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ فِي اليَوْمِ أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِينَ مَرَّةً7

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اللہ کی قسم میں دن میں اللہ سے ستر مرتبہ سے زیادہ مغفرت طلب کرتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں۔

 اور امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز نے کہا: “اے لوگو! جس نے گناہ کیا، اسے اللہ سے مغفرت طلب کرنی چاہیے اور توبہ کرنی چاہیے، اگر پھر گناہ کیا تو مغفرت طلب کرے اور توبہ کرے، اگر پھر گناہ کیا تو مغفرت طلب کرے اور توبہ کرے، اس لیے کہ یہ خطائیں لوگوں کے گلوں کا طوق ہیں اور ہلاکت ان پر اصرار کرنے میں ہے۔

بندے کی توبہ اور اس کا مغفرت طلب کرنا اس کی عظیم ترین نیکیوں، سب سے بڑی اطاعتوں اور اہم ترین عبادتوں میں سے ہے، جس کے ذریعے وہ سب سے اچھا ثواب پاتا ہے اور اس کے ذریعے اس سے عذاب دور ہوتا ہے۔ گناہوں سے رکنے کے سب سے کارگر وسائل میں سے یہ ہے کہ بندہ اپنے نفس کو حق میں لگائے،

 جیسا کہ اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے:

فَإِذَا فَرَغْتَ فَانصَبْ8

 “پس جب تو فارغ ہو تو عبادت میں محنت کر”۔

 اس لیے کہ نفس فکرمند اور متحرک ہے، اس کے لیے عمل ضروری ہے، اگر اسے حق میں نہ لگایا جائے تو وہ باطل میں لگ جائے گا اور اگر اسے اللہ کی اطاعت میں نہ استعمال کیا جائے تو شیطان کی اطاعت میں استعمال ہو جائے گا اور اگر نیکیوں میں سرگرم نہ کیا جائے تو برائیوں میں سرگرم ہو جائے گا۔ یہ اللہ کا عدل ہے، اسے اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ وہ گناہوں کا حکم دیتا ہے، شر کی طرف مائل رہتا ہے اور بربادیوں کی طرف بلاتا ہے، اگر بندے نے نفس کو ڈھیل دے دی تو وہ آوارہ ہو جائے گا اور پھر اس کے بعد وہ اس پر قابو نہیں پا سکے گا۔

گناہوں پر اصرار سے باز آنے کے کامل ترین ذرائع میں سے یہ ہے کہ بندہ فتنوں کی جگہوں اور ان کے راستوں سے اپنے دین کے ساتھ نکل جائے، اس لیے کہ جو فتنوں سے بچنے کے لیے اپنے دین کے ساتھ فرار ہو، اللہ نے اسے بچایا، جو عافیت کا حریص ہوا، اللہ نے اسے عافیت دی، اور جو اللہ کی پناہ میں آیا، اللہ نے اسے پناہ دی۔ ان ذرائع میں سے یہ ہے کہ بندہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے، چنانچہ جب اس سے گناہ ہو جائے تو اپنے نفس کو ڈھیل نہ دے بلکہ جلدی سے توبہ و استغفار کرے، کیونکہ ایسا کرنے سے اس کے لیے گناہ چھوڑنا اور اس سے علیحدگی اختیار کرنا آسان ہو جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دل پر گناہ کا اثر کپڑے پر تیل کے گرنے جیسا ہے، یا تو جلد اسے دھویا جائے، نہیں تو پھیل جائے گا۔

نفس کے محاسبے میں سے یہ ہے کہ بندہ گناہ کرنے کے بعد نفس کو نیکی کرنے کا عادی بنائے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول پر عمل کرتے ہوئے: “جہاں رہو اللہ کا تقویٰ اختیار کیے رہو اور برائی کے بعد بھلائی کرو، بھلائی برائی کو مٹا دے گی۔” جب برائی بھلائی سے مٹا دی جائے تو اللہ اس پر بندے کو یہ بدلہ دے گا کہ بھلائی کو اس کے لیے مانوس کر دے گا اور برائی کو اس کے لیے مبغوض کر دے گا۔

 تابعی جلیل امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا: “پرانی برائیوں پر نئی نیکیوں سے مدد طلب کرو، تم کسی چیز کو نہ پاؤ گے کہ وہ نئی نیکی سے زیادہ پرانی برائی کو ختم کرنے والی ہے”۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ9

 “یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔”

نفس پر جن چیزوں سے مدد لی جاتی ہے، ان میں اسے سلف و خلف میں ان لوگوں کے واقعات سنانا ہے جو اللہ کی اطاعت میں محنت و لگن سے کام لینے والے تھے، اور ان میں جو زندہ ہیں ان سے ملا جلا جائے تاکہ ان کی اچھی خصلتیں نفس میں سرایت کر سکیں۔

اللہ تبارک و تعالی اسی کی طرف اس قول میں اشارہ کر رہا ہے:

وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ10

“اور اپنے آپ کو انہی کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پروردگار کو صبح و شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے ہیں” (یعنی اسی کی رضامندی چاہتے ہیں)۔

اللہ مجھے اور آپ کو اپنی اس کتاب سے جسے اس نے متقیوں کی ہدایت بنا کر بھیجا ہے، اور اپنے صادق و امین نبی کی سنت سے فائدہ پہنچائے۔ میں یہ بات کہہ رہا ہوں اور اللہ سے اپنے لیے اور تمہارے لیے، اللہ کی مغفرت طلب کرتا ہوں۔

ٰخطبہ ثانی:

تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے، برائیوں سے درگزر کرتا ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے جانتا ہے۔ درود و سلام ہو ہمارے نبی محمد پر جو رحمت و توبہ والے، سچے اور امانت دار نبی ہیں۔

اما بعد!

 ان چیزوں میں سے جو بندے کے لیے اس گناہ کو چھوڑنے کے عزم کو مضبوط کرتی ہیں، جسے وہ مدتوں سے کرتا آ رہا ہو، یہ ہے کہ بندہ اس گناہ اور اللہ سے ناطہ توڑنے کے اثرات پر غور و فکر کرے، یقیناً بار بار گناہ کرنے سے سینہ تنگ ہو جاتا ہے، غم گھر کر لیتا ہے، ہمت کمزور پڑ جاتی ہے، نفس بگڑ جاتا ہے، دل ویران ہو جاتا ہے، معاملات مشکل ہو جاتے ہیں، رزق کی برکت ختم ہو جاتی ہے، اور بدن نڈھال ہو جاتا ہے۔

جبکہ گناہوں کو چھوڑنے اور خواہشات نفس کی مخالفت سے جسم پرسکون ہوتا ہے، دل کو قوت و تازگی اور روشنی حاصل ہوتی ہے، فکرمندی، دکھ اور غم کم ہوتے ہیں، نفس کو قوت ملتی ہے، رزق میں آسانی آتی ہے، دعا قبول ہوتی ہے، طاعت کی آسانی کے بعد اس کی حلاوت کا احساس ہوتا ہے اور ذکر خیر حاصل ہوتا ہے۔

 ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “خواہش نفس کی مخالفت بندے کو ایسے مقام پر فائز کر دیتی ہے کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لے تو اللہ اس کی قسم پوری کر دے، اور اس کی خواہشات میں سے جو کچھ اس سے فوت ہو، اس سے اس سے کئی گنا بڑھا کر اس کی ضرورتیں پوری کر دے۔

اور گناہ سے باز آنے میں سب سے بڑا معاون یہ ہے کہ گناہ چھوڑنے کے سلسلے میں بندہ اپنے رب کے ساتھ سچا ہو، اپنے خالق کے سامنے بچھ جائے، اس کے لیے خشوع و خضوع، یکسوئی اور انکساری اختیار کرے، اس سے مدد طلب کرے، توبہ کی پناہ گاہ میں آئے، رات کے آخری وقت میں قبولیت کا دروازہ کھٹکھٹائے، اپنے رب سے دعا کرے کہ وہ اس کے نفس کو ہدایت دے جس کو سیدھا بنایا اور اسے تقویٰ عطا کرے۔

 اور بندہ اپنے نفس کی برائیوں سے اللہ کی پناہ طلب کرے، کیونکہ زیادہ تر برائی اسے نفس سے آتی ہے اور حالات کو بدل دینے والے اس عظیم کلمہ یعنی “لا حول ولا قوة إلا بالله” کا ورد کرتا رہے، کیونکہ کسی سچے کو لوٹایا نہیں جاتا اور نہ ہی کسی مخلص پر دروازہ بند کیا جاتا ہے۔

ابو سلیمان الدارانی کہتے ہیں: “خواہشات نفس کو چھوڑنے کے سلسلے میں جو شخص سچا ہو تو اللہ ان خواہشات کو اس کے دل سے نکال دیتا ہے، اور اللہ اس سے کہیں زیادہ کریم ہے کہ وہ کسی شخص کو اس شہوت کی وجہ سے عذاب دے جو اللہ کی خاطر چھوڑ دی گئی ہو”۔

 ابن تیمیہ کہتے ہیں: “جس شخص کے دل میں کسی گناہ کا خیال آیا اور اس نے اسے ناپسند کیا، اسے خود سے دور رکھا، اور اللہ کی خاطر اس سے باز رہا تو اس شخص کی نیکی، درستی اور تقویٰ میں اضافہ ہوا”۔

جو چیزیں گناہوں کو ترک کرنے میں معاون ہوتی ہیں، ان میں سے ہے اللہ سبحانہ و تعالی کی نوازش و احسان اور اس کی صفات کمال کو یاد رکھنا، کیونکہ یہ اللہ کی محبت، اس سے لگاؤ اور اس سے حیا کا ایک عظیم ترین دروازہ ہے۔ اور جب دل کا تعلق اللہ سے جڑ جاتا ہے تو اس کے لیے دل پر گناہوں کو چھوڑنا آسان ہو جاتا ہے۔

مسلمانو! اپنے اس دن میں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کی پابندی کرو کیونکہ اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے، وہ اس کی زبان پر کثرت درود و سلام کو آسان کر دیتا ہے۔ وہ اجر عظیم پاتا ہے اور کریمانہ وعدے سے شادکام ہوتا ہے۔

اے اللہ! درود و سلام اور برکت نازل فرما ہمارے سردار، پیشوا اور رہنما، اپنے بندے اور رسول اور آخری نبی محمد بن عبداللہ پر۔ اور اے اللہ! ان کے چاروں خلفاء، سنت کے پیروکار ابوبکر، عمر، عثمان، علی اور تمام صحابہ کرام اور تابعین سے راضی ہو جا، اور ان لوگوں سے بھی جو قیامت تک اچھے سے ان کی پیروی کریں، ان سے بھی راضی ہوجا، اور اپنے کرم اور احسان اور سخاوت سے ان کے ساتھ ہم سے بھی راضی ہو جا، اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے! اے اللہ! اے توبہ قبول فرمانے والے! اے نہایت مہربان! ہم تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ تو ہمیں ایسی توبہ نصیب فرما جو ہماری برائیوں کو مٹا دے اور جس سے تو ہمارے گناہوں کو بخش دے، اور ہمارے دل میں اپنی طاعت کی محبت ڈال دے اور ہمارے لیے اپنی نافرمانی کو ناگوار بنا دے۔ اے اللہ! ہم تجھ سے ہدایت، پرہیزگاری، پاکدامنی اور بے نیازی کی دعا کرتے ہیں۔ اے اللہ! ہمیں ایمان کی زینت سے آراستہ فرما اور ہمیں ہدایت پانے والا اور دوسروں کو ہدایت دینے والا بنا۔

اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، شرک اور مشرکوں کو ذلیل کر اور اپنے دین کے دشمنوں کو تباہ و برباد کر اور اپنے مومن بندوں کی مدد فرما، اے سب سے طاقتور، اے غلبہ والے! اے اللہ! اپنے کمزور بندوں کا تو ہر جگہ معین و مددگار اور مؤید و ناصر بن جا۔

 اے اللہ! انہیں فلسطین میں قابض صیہونیوں پر فتح فرما۔ اے اللہ! ان کے بھوکوں کو کھانا کھلا، ان کے خوفزدوں کو امان دے، ان کے بے گھروں کو پناہ دے، ان کے زخمیوں کا علاج کر، ان کے مقتولین پر رحم فرما، ان کے بیماروں کو شفا عطا فرما۔

اے اللہ! ہمیں ہمارے وطنوں اور گھروں میں امن عطا فرما۔ اے اللہ! ہمارے سربراہوں اور حکمرانوں کو توفیق یاب کر۔ اے اللہ! ہمارے حکمران خادم حرمین شریفین کو اس کام کی توفیق عطا فرما جو تجھے پسند ہے اور جس سے تو راضی ہو، انہیں نیکی اور پرہیزگاری کی راہ پر چلا، اے اللہ! انہیں اور ان کے ولی عہد کو ملک و بندوں کی بہتری کے کاموں میں مدد فرما، اے رب ذوالجلال والاکرام!

ہمارا رب عزت والا ہے، ہر اس چیز سے پاک ہے جو لوگ بیان کرتے ہیں، اور تمام رسولوں پر سلام ہو اور تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔

خطبہ جمعہ مسجد نبوی

تاریخ 18 ربیع الثانی 1447 ہجری بمطابق 10 October 2025 عیسوی

موضوع :توبہ و استغفار کی فضیلت اور ضرورت

خطیب شیخ خالد المہنا  حفظہ اللہ :

_________________________________________________________________________________________


  1. (سورۃ آل عمران:133)
  2. (سورۃ الزمر:53)
  3. (سورۃ الزمر:54)
  4. (سورۃ الزمر:55)
  5. (سورۃ النساء:110)
  6. (صحیح مسلم:6859)
  7. (صحیح بخاری:6307)
  8. (سوئۃ الشرح:07)
  9. (سورۃ ھود:114)
  10. (سورۃ الکھف:28)
فضیلۃ الشیخ خالد المُھنا حفظہ اللہ

Recent Posts

کیا اسلام سزاؤں کا دین ہے؟

کیا اسلام کا مقصد لوگوں کو سزائیں دینا ہے؟ اسلام کے تفتیشی نظام میں سخت…

3 days ago

کیا حدیث قرآن اور عقل کے خلاف ہو سکتی ہے؟

حدیث کو قبول کرنے کے لیے عقل کو معیار بنانا عقلمندی ہے یا بےوقوفی؟ غامدی…

5 days ago

“کرپٹو کرنسی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟”

کرپٹو کرنسی کے حوالے سے علما کی اکثریت کا موقف کیا ہے؟ کرپٹو کرنسی کو…

6 days ago

اللہ تعالیٰ کی رحمت کتنی وسیع ہے؟

جو شخص گناہ کا ارادہ کرتا ہے، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرشتے کو…

1 week ago

مصیبتوں پر صبر اور استقامت

زندگی میں آزمائشیں ایمان کا حصہ ہیں۔ جو بندہ صبر اور استقامت سے کام لیتا…

1 week ago

“Theory of Evolutionکی حقیقت؟

کیا انسان ایک ذرے (ایٹم) سے پیدا ہوا؟ کیا واقعی انسان پہلے بندر تھا؟ نظریۂ…

1 week ago