پہلا خطبہ :
یقیناً تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں، ہم اُسی سے مدد مانگتے ہیں اوراُسی سے بخشش طلب کرتے ہیں۔ ہم اپنے نفس کی بُرائی اور اپنے بُرے اعمال سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے اُسے گمراہ کرنے والا کوئی نہیں اور جسے وہ گمراہ کردے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ،وہ تنہا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اکرم محمد ﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں۔
اے اللہ ! دُرود و سلام اور برکتیں نازل فرما آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کی آل اور اصحابِ کرام پر۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ
آل عمران – 102
اے ایمان والوں ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو جیسے کہ اُس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم ہرگز نہ مرو اِس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا
النساء – 1
اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کرکے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں، اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو بے شک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ﴿٧٠﴾ يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا
الاحزاب – 70/71
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی (سچی) باتیں کیا کرو۔ تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے اور تمہارے گناه معاف فرما دے، اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پالی۔
اما بعد !
اللہ تعالیٰ کے بندو! جس طرح خورد و نوش والی غذا کےبغیر تم زندہ نہیں رہ سکتے اُسی طرح بغیر غذا کے روحیں بھی زندہ نہیں رہ سکتیں اور اُن کی غذا یہ ہے کہ وہ اپنے رب کا ذکر کریں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے جلیل القدر صحابی ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے رب کا ذکر کرنے والے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے۔ اور اپنے رب کے ذکر سے معمور زندگی ہی حقیقی زندگی ہے۔ کیوں کہ جب روحیں پرواز کرجائیں گی اور جسم فنا ہوجائیں گےتو یہی زندگی باقی رہے کیونکہ روحیں فنا نہیں ہوتیں بلکہ وہ قفسِ عنصری سے نکل کر عالم برزخ کی طرف منتقل ہوجاتی ہیں۔
مسلمانو! دل کے لئے ذکرِ الٰہی کی وہی حیثیت ہےجو کسی کھیت کے لئے پانی کی ہوتی ہے۔ اگر انسان کی زندگی ذکرِ الٰہی سے خالی ہوتواُس کے دل اور زندگی میں اورجانوروں کے دل و زندگی میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔اسی حقیقت کو اللہ عزوجل نے اپنے اِس فرمان میں واضح کیا ہے:
وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ
محمد – 12
اللہ کےبندو! گناہوں اور لاپرواہی سے دل زنگ آلود ہوجاتے ہیں اور استغفار و اذکار سے اُنہیں جلا ملتی ہے چنانچہ ذکرِ الٰہی کے ذریعے غم و اندوہ کو دور کیا جاتا ہے ،مصائب کو ٹالا جاتاہے اور مشکلات کو ہلکا کیا جاتا ہے۔ ذکرِ الٰہی دلوں کو جلا بخشتا ہے ،اُنہیں ثقیل کرتا ہے اور اُن کی بیماری میں دوا کا کام کرتاہے ۔ اور ذکر و اذکار میں سب سے عظیم ذکررب العالمین کی تسبیح ہے کیونکہ کہ یہ کائنات میں سب سے معزز مقام کے حامل فرشتوں کا ذکر ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يُسَبِّحُونَ لَهُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَهُمْ لَا يَسْأَمُونَ
فصلت – 37
وه دن رات تسبیح بیان کرتے ہیں اور ذرا سی بھی سستی نہیں کرتے۔
اور یہ تمام چھوٹی اور بڑی مخلوق کا ذکر ہے ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ۗ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا
الاسراء – 44
یہ بندے کے لئے سخت حالات اور تکلیف کا سامنا کرنے کے لئےبہترین ہتھیار ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿٨٧﴾ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ
الانبیاء – 87/88
ایک جگہ ارشاد فریاما:
فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ ﴿١٤٣﴾ لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ
الصافات – 143/144
جلیل القدر صحابی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: جب کسی نبی پر کوئی مصیبت آتی توتسبیح کو لازم پکڑتے۔ تسبیح سجدہ کرنے والوں کا سب سے افضل ذکر ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّدًا وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ
السجدۃ – 15
یہ ذکر اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔ اس سے نامہ اعمال اس سے وزنی ہوتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: دو کلمے ایسے ہیں جو اعمال میں ہلکے ہیں اور نامہ اعمال میں بہت بھاری ہیں اور رحمان کو بہت پسند ہیں۔ اور وہ دونوں کلمیں یہ ہیں:
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ
یہ ذکر تمام اذکار پر فضیلت رکھتا ہے۔ اُم المؤمنین جویریہ بنتِ حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ صبح کی نماز پڑھنے کے بعد صبح سویرے کے یہاں سے کہیں اور تشریف لے گئے،اُس وقت وہ اپنی نماز پڑھنے والی جگہ میں تھیں، پھردن چڑھنے کے بعد رسول اکرم ﷺ اُن کے پاس تشریف لائے تو وہ اُسی طرح بیٹھی ہوئیں تھیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم اب تک اِسی حالت میں بیٹھی ہوئی ہو جس پر میں تمہیں چھوڑ کر گیا تھا۔ تواُنہوں نے عرض کیا جی ہاں رسول اللہ ﷺ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارے یہاں سے جانے کے بعد میں نے چار کلمے تین بار کہے ہیں،اگر اُن کے ساتھ اُن اعمال کو تولا جائے تو تم نے آج کے دن جو کچھ اب تک کہا ہے یہ اُ ن سے وزن میں بڑھ جائیں۔ وہ کلمات یہ ہیں:
سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ عَدَدَ خَلْقِهِ وَرِضَا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ
پاک ہے اللہ تعالیٰ کی ذات ،اور اُس کے لئے ہی تمام تعریف ہے، اُس کی مخلوق کی تعداد کے برابر اُس کی ذات کی خوشنودی کے برابر، اُس کے عرش کے وزن کےبرابر اور اُس کے کلمات کی سیاہی کے برابر۔
اور تسبیح کے فضائل میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ عزوجل اُس کو جنت میں اہلِ جنت کا ذکر بنائے گا اور جس طرح اس دنیا میں اللہ کی طرف سے وہ سانس لیتے رہتے ہیں تو اِسی طرح وہ ذکر میں وہاں مشغول ہوا کریں گے۔ ارشادِ نبوی ﷺ ہے:
اہلِ جنت جنت میں کھائیں گے اور پئیں گے، نہ قضائے حاجت کی ضرورت پڑے گی اور نہ کھکھار لیں گے اور نہ پیشاب کریں گے، لیکن کھانے کی وجہ سے ایک ڈکار آئے گی جو مشکِ امبر کی طرح ہوگی اور جیسا کہ تم اِس دنیا میں سانس لیتے ہو ویسے ہی وہ رب کی تحلیل و تسبیح بیان کریں گے۔ صحیح مسلم
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے: اہلِ جنت جب کسی چیز کا ارادہ کریں گے تو تسبیح کے ذریعے اُس چیز کی فرامائش کریں گے اور وہ چیز اُن کے پاس آجائے گی، جیسا کہ اللہ رب العالمین نے اہلِ جنت کا حال بیان کرتے ہوئے کہا:
دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ ۚ وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
یونس – 10
ان کے منھ سے یہ بات نکلے گی سبحان اللہ اور ان کا باہمی سلام یہ ہوگا السلام علیکم اور ان کی اخیر بات یہ ہوگی تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو سارے جہان کا رب ہے۔
امام سفیان الثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اہلِ جنت کو جب کسی خاص چیز کی رغبت ہوگی تو وہ کہیں گے ، سبحانک اللھم ۔۔ ہمارے رب ! ہم تیری تسبیح بیان کرتے ہیں۔ تووہ چیز اُن کے پاس آجائےگی۔اسی معنی کا قول جریج بن مسعود سے بھی منقول ہے۔
تسبیح مؤمنین کے لئے صبح و شام کی دُعا ہے ۔
تسبیح اہلِ ایمان کے اجروثواب کی زیادتی اور گناہوں کے کفارے کا سبب ہے۔ جلیل القدر صحابی رسول ﷺ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جنہیں دنیا ہی میں جنت کی بشارت مل چکی تھی کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھےتو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم اِس بات سے عاجز ہو کہ ہر روز ایک ہزار نیکیاں کماؤ۔ تو اہلِ مجلس میں سے ایک شخص نے پوچھا کہ روزانہ ایک ہزار نیکیاں کیسے کمائی جاسکتی ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: سو دفعہ سبحان اللہ کہنے سے ایک ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور ایک ہزار نیکیاں مٹادی جاتی ہیں۔ صحیح مسلم
اسی طرح نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جو شخص بھی صبح شام سو مرتبہ سبحان اللہ وبحمدہ پڑھے گا تو قیامت کے دن اُس سے افضل عمل کسی کا نہیں ہوگا سوائے اُس شخص کے جس نے اُس کے برابر یا اس سے زیادہ اُن کلمات کو پڑھا ہوگا۔ صحیح مسلم۔
آپ ﷺ نے مزید فرمایا: جو شخص سو مرتبہ سبحان اللہ وبحمدہ پڑھتا ہے اُس کے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں خواہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔ متفق علیہ
تسبیح بندے کے اپنے رب سے راضی ہونے، اُس کے شرعی احکام سے مطمئن ہونے اور اُس کے اوامر کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا ذریعہ ہے۔ اشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَىٰ
طه – 130
رات کے مختلف وقتوں میں بھی اور دن کے حصوں میں بھی تسبیح کرتا ره، بہت ممکن ہے کہ تو راضی ہو جائے۔
اسی طرح تسبیح شرح صدراور دل کی گٹھن اور ازالے کا سبب ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ ﴿٩٧﴾ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ
الحجر – 97/98
ہمیں خوب علم ہے کہ ان کی باتوں سے آپ کا دل تنگ ہوتا ہے۔ آپ اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بیان کرتے رہیں اور سجده کرنے والوں میں شامل ہو جائیں۔
اللہ تعالیٰ کے بندو! تسبیح کا مطلب اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی بیان کرنا اور اُن کو اُن تمام طرح کی صفاتِ نفس سے منزہ کرنا جو اُس کے شایانِ شان نہیں ہے اور جنہیں اہلِ شرک نے اُس کی ذات پر چسپاں کردیا ہے۔اسی طرح جو لوگ اللہ تعالیٰ کی عظمت و وقار کا پاس و لحاظ نہیں رکھتے اور نہ اُس سے ڈرتے ہیں،اُن کی نافرمانیوں اور سرکشیوں سے اللہ تعالیٰ کو بے عیب و پاک ماننا ہے۔ اور تسبیح بندے کی ذلت و پستی و نامرادی کا اقرار ہے۔ اسی طرح رب العالمین کے سامنے تسلیم خم کرنا اور اس کے کمالِ علم و حکمت کا اعتراف کرنا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَٰؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿٣١﴾ قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
البقرۃ – 31/32
قرآنِ کریم کی اکثر آیتوں میں تسبیح و ذکر کو ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ
الحجر – 98
آپ اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بیان کرتے رہیں۔
وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا
طه – 130
اور اپنے پروردگار کی تسبیح اور تعریف بیان کرتا ره، سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے۔
چنانچہ نبی اکرم ﷺ قرآنِ مجید کی اِن آیتوں کی تفسیر کرتے ہوئےاکثر رب کی تسبیح و تقدیس، اُس کی حمد و ثنا کے ساتھ بیان کرتے۔ اور اِس وجہ سے بھی کہ تسبیح میں نقائص وعیوب کی نفی ہے اور حمد و ثنا میں اُن اوصاف کا کمال ہے کہ جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی تعریف کی جاتی ہے۔
اللہ کے بندو! کثرت کے ساتھ رب کی تسبیح و تقدیس بیان کرنے کی توفیق ملنا یہ اللہ تعالیٰ کا بندے پر بہت بڑا احسان ہے اور اُس کے لئے بڑے شرف و فضیلت کی بات ہے۔ اوراِن دو اُمور کی وجہ سے اِن کی توفیق ملتی ہے۔ پہلا تسبیح و تقدیس پر ملنے والے اجرِعظیم سے بندہ واقف ہو۔ دوسرا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عظیم مخلوقات ،اُس کی تدبیر ،اُس کی نعمتوں اور دنیا و آخرت میں اُس کے افعال پر بندہ غور و فکر کرتا رہے۔
مسلمانو! ہمیں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہم اپنے پالنے والے رب کی ہمیشہ تسبیح بیان کرتے رہیں،اُس کے معانی سے واقفیت حاصل کریں، اُس کے فضائل کو جانیں اور اُس پر رب سے اجر کی اُمید رکھیں تاکہ ہماری روحیں اُس سے شاد کام ہوں ہمیں شرح صدر حاصل ہو اور بُلند و بالا ذات کے نزدیک ہمارے درجات بُلند ہوں۔
اللہ تعالیٰ میرے لئے اور آپ سب کے لئے اپنی کتابِ ہدایت اور نبی اکرم ﷺ کی سنت کو نفع بخش بنائے۔میں اپنی بات کو مکمل کرتا ہوں۔ اپنے لئے اور آپ سب کے لئے اللہ تعالیٰ سے ہر گناہ کی مغفرت طلب کرتاہوں، آپ بھی اُسی سے مغفرت طلب کیجئے، یقیناً وہ بہت زیادہ بخشنے والا مہربان ہے۔
دوسرا خطبہ :
تمام تعریفیں اُس اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے اپنے ذکر کو دلوں کے لئے جامِ حیات، مصیبتوں کے ازالے اور مطلوب و مقصود کے حصول کا ذریعہ بنایا۔ اور میں اُس کے بندے اور رسول ﷺ اپنے سردار و پیش وامحمد بن عبد اللہ ﷺ پر دُرود وسلام بھیجتا ہوں جو بندوں میں سب سے زیادہ اپنے پروردگار کا ذکر کرنے والے تھے۔ رتبے اور شرف کے لحاظ سے سب سے بُلند و برتر تھے۔
حمد و ثنا کے بعد !
کثرت کے ساتھ ذکر الٰہی سے بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں اُن میں سب سے عظیم القدر فائدہ یہ ہے کہ ذکرِ الٰہی عذابِ الٰہی سے نجات کا سبب ہے۔ جیساکہ جلیل القدر صحابی رسول ﷺ ابو عبدالرحمٰن معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: عذابِ الٰہی سے نجات کے لئے بنی آدم کے پاس ذکرالٰہی سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں ہے۔ کثرت کے ساتھ ذکرِالٰہی کا ایک فائدہ یہ بھی ہےکہ ذکر کرنے والے انسان کو معیتِ الٰہی نصیب ہوتی ہے۔اُسی کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشادِ ہے:
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ
البقرۃ – 152
اور حدیثِ قدسی میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے: میرا بندہ میرے بارے میں جو گمان کرتاہے میں اُس کے مطابق معاملہ کرتاہوں اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اُس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ جو بندہ تکبیر و تحلیل کا ذکر کرتا ہے، رب کی تسبیح بیان کرتا ہے اُس کی تعریف و توصیف کرتا ہے اور استغفار کرتا ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ ایسے بندے کے ساتھ ہوتا ہے۔ اُس کی حفاظت و تائید کرتاہے اور اُس کے لئے کافی ہوتاہے۔ اور جس قدر وہ کثرت سے ذکر کرتاہے اُسی قدر اُس کو ربانی تائید اور نصرت حاصل ہوتی ہے ۔اور انسان جس قدر ذکرِ الٰہی سے وابستہ ہوتاہے اُسی قدر ربِ ذوالجال بھی اُس کو یاد کرتاہے۔
اللہ کے بندو! جمعے کا دن باقی دنوں میں سب سے افضل دن ہے۔ اس دن نبی اکرم ﷺ اپنے اوپر بکثرت درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا ہے۔
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔
اے اللہ! دُرود و سلام نازل فرما، آپ ﷺ پر، خلفائے راشدین ،ہدایت یافتہ آئمہ اور قیامت تک احسان و بھلائی کے ساتھ اُن کی پیروی کرنے والوں پر۔
اے اللہ! مسلمان مرد اور عورتوں کو معاف فرما۔
اے اللہ! اپنے نبی اکرم ﷺ کی سنت کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرما۔
اے اللہ! دنیا و آخرت میں ہمیں خیر و بھلائی عطا فرما اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔
اے اللہ! تو ہمارے امام خادمِ حرمین شریفین کو اپنے پسندیدہ اُمور کی توفیق عطا فرما۔اور اُن کے ولی عہد کو بھی ہر طرح کی خیر کی توفیق عطافرما۔
اے اللہ! تو ہمیں دنیا و آخرت میں خیر و بھلائی عطا فرما۔ اور جہنم کے عذاب سے ہمیں بچالے۔
اےاللہ! تو ہم پر رحمت کی بارش نازل فرما، ہم تیری رحمت کا سوال کرتے ہیں۔ یا رب العالمین
اےاللہ ! تو ہمیں دنیا و آخرت میں ہر طرح کی خیر و بھلائی سے نواز۔
خطبه جمعه مسجدِ نبویﷺ: فضیلة الشیخ د۔ خالد بن سلیمان المہنا حفظه اللہ
22جمادی الاول 1444 ھ بمطابق 16 دسمبر 2022