آج کل دنیا بھر میں مغربی ثقافت اور معاشرتی رجحانات نے تیزی سے پھیلنا شروع کر دیا ہے، جس کے تحت مختلف قسم کی محفلوں اور تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان محفلوں میں بعض اوقات ایسی تقریبات بھی شامل ہوتی ہیں جو اسلامی تعلیمات اور اخلاقی اقدار کے خلاف ہیں۔ انہی میں سے ایک “شیطانی پارٹی”کا انعقاد ہے ۔
حالیہ دنوں کراچی کے ایک نجی تعلیمی ادارے انڈس یونیورسٹی، جو نارتھ کراچی کے ایک پوش علاقے میں واقع ہے، میں 19 اکتوبر 2024 کو نئے طلباء کے لیے استقبالیہ تقریب منعقد کی گئی۔ اس تقریب میں ایلومیناتی اور شیطانی علامات اور سجاوٹ کا استعمال نمایاں تھا۔ سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تصاویر اور ویڈیوز میں طلباء کو ایلومیناتی (Illuminati) کی علامت کے ساتھ پوز کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ پروجیکٹر کے ذریعے شیطان کی نمائندگی کرنے والے بافومیٹ (Baphomet) کی تصاویر بھی دکھائی گئیں۔ اس کے علاوہ ایک نیون لائٹ پوسٹر بھی موجود تھا جس پر لکھا ہوا تھا کہ:
Satan is happy with your progress
شیطان تمہاری کارکردگی سے خوش ہے ۔
یہ جملہ یقینا شیطان نے یونیورسٹی انتظامیہ اور اُن اساتذہ کے لیے کہا ہوگا جنہوں نے حیاء باختہ شیطانی اجتماع کروایا۔ کالجز اور یونیورسٹیز کا ماحول اب نئی نسل کے لیے زہر بن چکا ہے ، جو نئی نسل کو پہلی فرصت میں اسلامی اقدار سے آزاد کروا رہا ہے ۔
بافومیٹ (Baphomet) کیا ہے ؟
بافومیٹ کو ایک بت کے طور پر جانا جاتا ہے، جسے قدیم مذہبی اور باطنی روایات میں ایک پر اسرار اور علامتی کردار کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔ بافومیٹ کی شبیہہ کو زیادہ معروف بنانے میں الیفس لیوی (Eliphas Levi) کا بڑا کردار ہے، جنہوں نے 19ویں صدی میں اسے ایک بکرے کے سر اور انسانی جسم والی علامت کے طور پر تخلیق کیا۔ اس شبیہہ میں بافومیٹ کے ایک ہاتھ کا اشارہ اوپر اور دوسرے کا نیچے ہوتا ہے، جو باطنی فلسفے میں “جیسے اوپر ویسے نیچے” کی تعلیمات کی نمائندگی کرتا ہے۔
مقامِ افسوس
یہ شیطانی پارٹی کسی یورپین ملک میں منعقد نہیں ہوئی بلکہ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ایک “علمی” ادارے میں منعقد ہوئی ہے جہاں اسٹوڈنٹس کو ویلکم پارٹی کے نام پر شیطانی علامات سے متعارف کروایا گیا ، مطلب لوگوں کو شیطان کی پیروی و عبادت پر ابھارا گیا۔ کتنی افسوس کی بات ہے کہ ایک اسلامی ملک جو صرف اسلام کے نام پر وجود میں آیا ، ایک ایسا اسلامی ملک جس کی بنیادوں میں شہیدوں کا لہو ہے۔ ایک ایسا ملک جس کے آئین میں اسلام کو مرکزی اہمیت حاصل ہے ۔ اس کے شہر “کراچی” کے ایک تعلیمی ادارے میں (جہاں ہم اپنے بچوں کو بھاری فیسیں ادا کرکے بھیجتے ہیں) ایک شیطانی پارٹی منعقد ہوتی ہے ، طلبہ شیطان بن کر شرکت کرتے ہیں ۔ اور پھر اس پارٹی میں بالکل وہی کچھ ہوتا ہے جس سے شیطان خوش ہوتا ہے ۔ بے حیائی اور فحاشی کے مناظر دکھائے جاتے ہیں ۔ بچے اور بچیاں ڈانس کرتے ہیں ۔ طلبہ و طالبات شیطان کو ہیرو سمجھتے ہوئے اس کی علامات کے سامنے آکر اپنی تصویر بناتے ہیں اور اس کو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرتے ہیں ۔ یعنی شیطان ان کا دوست ہے اور وہ شیطان کے پجاری بن چکے ہیں ۔ شیطان کو خوش کرنا ان کی زندگی کا مقصد بن چکا ہے اور یہ ہمارے مسلمان بچے ہیں ، کوئی امریکی اور یورپی بچے نہیں ہیں۔ ہمارے ملک کی یونیورسٹیز دراصل نئی نسل کو بگاڑنے کا سب سے گرما گرم اڈے ہیں ، جہاں نوخیز بچوں کو کلچر اور فیسٹول کے نام پر بے حیاء بنایا جاتا ہے ، اس ملک کے تعلیمی ادارے اپنی حیثیت و کارکردگی میں صفر ہو چکے ہیں جہاں تعلیم کے علاوہ سب کچھ ہے ۔
منتظم کا انکشاف
جب یہ خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو انڈس یونیورسٹی کے خلاف لوگوں کا شدید ردِّ عمل سامنے آیا جس کے نتیجے میں یونیورسٹی انتظامیہ نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے معذرت کی ۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ در اصل ہم نے یہ تھرڈ پارٹی کو اس پروگرام کی ذمہ داری سونپی تھی جس نے یہ انتظامات کرنے تھے تو اس میں ہم دونوں سے غلطی ہوئی ہے ۔ جب منتظم سے رابطہ کیا گیا تو اس نے ہوش ربا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی طرف سے کوئی شیطانی پارٹی کا انعقاد نہیں کرتا ۔ میں تو پارٹی والوں کی خواہش، مطالبے اور ان کی ہدایت کے مطابق پارٹی کا انتظام کرتا ہوں ۔ وہ شیطانی علامات اور شیطانی چیزیں جو دکھائی گئی ہیں، جو شیطان کا جملہ لکھا گیا ہے وہ پارٹی والوں کے کہنے پر دکھائی ہیں اور مجھے ایسا کرنے کے لئے کہا گیا تھا ۔
غلطی نہیں بلکہ منصوبہ بندی
حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو یہ غلطی نہیں بلکہ مکمل منصوبہ بندی ہے۔ ملکِ پاکستان میں ہمارے وکلاء کو، ہمارے عوام کو، ہمارے اساتذہ کو، ہمارے یونیورسٹی کے عملے کو خاص کر اس پر نوٹس لینا چاہیے اور محض معذرت کافی نہیں ہے کہ فیس بک پر آپ نے لکھ دیا کہ ہم سے غلطی ہوگئی ۔ یہ غلطی نہیں بلکہ مکمل منصوبہ بندی ہے۔ یہ ہمارے بچوں کو شیطانی چیزیں دکھانے کی منصوبہ بندی ہے ۔ یہ پورا منظم گینگ بھی ہے، منظم تنظیم بھی ہے۔ جو ملک کلمہ کی بنیاد پر بنا تھا آج اس کی یہ حالت ہے کہ اس ارضِ مقدس کی نئی نسل میں شیطانی گند بھرا جا رہا ہے۔ ایسے ادارے ایک دن بھی کھلنے کے قابل نہیں ، ایسے اداروں کو فی الفور بند کرنا چاہیئے۔
شیطانی تنظیم کا وجود
یہ تنظیم 244 سال پہلے یعنی سال 1776ء میں وجود میں آئی تھی اور اس کی پیدائش کی جگہ یورپ ہے جہاں سے اب یہ پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑ چکی ہے۔ ذرائع کے مطابق “الومناتی” تنظیم اس حد تک مضبوط ہوگئی ہے کہ بڑے ملکوں کے حکومتی فیصلے بھی اس تنظیم کی مرضی پر ہوتے ہیں اور اس وقت دنیا بھر کی زیادہ تر معشیت بھی یہی تنظیم کنٹرول کر رہی ہے۔
شیطانی تنظیم کی علامت
اس تنظیم کا نشان ایک آنکھ ہے، جسے اکثر “دجالی” یا “شیطانی” آنکھ کہا جاتا ہے۔ ان کے عبادت گاہوں میں شیطان کا مجسمہ نصب ہوتا ہے جس کی باقاعدگی سے عبادت کی جاتی ہے۔ اس عبادت کے دوران انسانی جانیں قربان کی جاتی ہیں اور خون پیش کیا جاتا ہے تاکہ شیطان ان سے خوش ہو اور ان پر اپنی غیر معمولی طاقتیں اور دولت نچھاور کرے۔
شیطانی تنظیم کا نظریہ
الومناتی نامی شیطانی تنظیم تمام مذاہب کی منکر ہے۔ یہ صرف شیطان کو ہی اپنا حاکم ، رہنما اور آقا مانتی ہے اور اس کے پیروکاروں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ماضی میں ایسی کئی خبریں سامنے آئیں جن سے اشارہ ملتا ہے کہ اس تنظیم نے پاکستان میں بھی اپنا نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے اور ملک کے مختلف شہروں کے پوش علاقوں میں ان کے خفیہ عبادت خانے موجود ہیں۔ یہ تنظیم اپنی سرگرمیوں کو انتہائی خفیہ رکھتی ہے۔
شیطانی عبادت گاہ کا قیام
دنیا کے تقریباً تمام مذاہب میں کسی نہ کسی طرح شیطان سے نفرت کی جاتی ہے لیکن اس دنیا میں ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو شیطان کی پوجا کرتا ہے۔ اس طبقے نے شیطان کی عبادت کے لیے باقاعدہ مندر قائم کیے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں شیطان کے ان پیروکاروں نے ایک بڑی عبادت گاہ تعمیر کر رکھی ہے جہاں وقتاً فوقتاً بڑے اجتماعات ہوتے ہیں اور لوگ اکٹھے ہو کر شیطان کی پوجا کرتے ہیں۔ حال ہی میں لاس اینجلس میں ان کے ایک بڑے اجتماع کی تصاویر اور تفصیلات پہلی بار منظرِ عام پر آئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سرگرمیاں دنیا بھر میں موجود ہیں۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جو کچھ ہمارے ملک اور تعلیمی اداروں میں ہو رہا ہے وہ بے سبب نہیں بلکہ ان واقعات کے اثرات بھی اس عالمی نیٹ ورک سے جڑے ہو سکتے ہیں۔
شیطانی پارٹی کی شرعی و معاشرتی قباحتیں
1۔ شیطان کی عبادت اور پیروی
اسلامی شریعت میں شیطان کی عبادت کو نہایت شدید گناہ، کفر اور شرک قرار دیا گیا ہے اور یہ عمل اللہ کی وحدانیت کے سراسر منافی ہے۔ اللہ تعالی نے شیطان کی پیروی اور عبادت کو قرآن اور حدیث میں انتہائی سختی کے ساتھ منع کیا ہے۔ شیطانی پارٹی میں شرکت یا اس کا انعقاد درحقیقت شیطان کی عبادت اور شیطانی پیروی کی علامت ہے اور اللہ کے احکام کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
ارشادِ باری تعالی ہے:
أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ1
ترجمہ: اے اولادِ آدم! کیا میں نے تم سے یہ عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا؟ بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔”
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شیطان کو انسانوں کا دشمن قرار دیا ہے اور اس کی عبادت سے منع کیا ہے۔ اللہ کی اس ہدایت کو نظر انداز کرکے شیطان کی عبادت کرنا کفر ہے۔
2۔ شرکیہ اور کفریہ عمل
شیطان کی پوجا شرکیہ اور کفریہ عمل ہے۔ ایسی پارٹی جس میں شیطان کی پوجا کی جائے یا شرکیہ اعمال پر مبنی ہو، اس میں شریک ہونا دراصل اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کرنے کے مترادف ہے۔ اور شرک سب سے بڑا گناہ ہے ۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:
قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللہِ أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ؟ قَالَ: أَنْ تَجْعَلَ لِلہِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ2
میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول(ﷺ)! سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: “یہ کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اسی نے تجھے پیدا کیا ہے۔”
3۔ آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی
شیطانی پارٹی کا انعقاد آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی ہے ۔ ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی متعدد شقیں فحاشی و عریانی کی نفی، بیہودہ فرسودہ رسومات کا تدارک، فحش مواد دکھانے، عریاں و نیم عریاں لباس زیب تن کرکے معاشرے میں بیہودگی پھیلانے کے خلاف ایک بند ہے اور لاء کمیشن آف پاکستان کے تحت منظور قوانین موجود ہیں کہ فحاشی و عریانی کا سبب بننے والے لوازمات حتی کہ لباس کی حدود و قیود کی خلاف ورزی کے مرتکب ہونے والوں کے خلاف قانونی کاروائی، سزا اور جرمانوں کا قانون موجود ہے۔ چنانچہ دستورِ پاکستان کے آرٹیکل 31 (1) کے مطابق ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی طرزِ زندگی کو ملک میں فروغ دے، فحاشی اور بے حیائی کو ختم کرے، سماجی برائیوں کا خاتمہ کرے، جہالت ختم کرے۔ اس طرح پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 294 کے تحت فحاشی کو عوامی مقامات پر پھیلانے کی سزا موجود ہے۔ لہذا شیطانی پارٹی منعقد کرانے پر کیس ہونا چاہیے تاکہ آئندہ کے لئے شیطانی پارٹی کا انعقاد بند ہو جائے ۔ شیطان کے تمام کارندوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے تاکہ بھاری فیسوں کے عوض ہمارے بچوں کو شیطانیت سکھانا ، شیطان کی پوجا سکھانا ، شیطان کو خوش کرنا سکھانا بند کر دے ۔
4۔ موسیقی اور ناچ گانے کا فروغ
شیطانی پارٹی کا انعقاد موسیقی، ناچ گانے، اور دیگر غیر اخلاقی سرگرمیوں کے فروغ کا ذریعہ ہیں۔ ایسی تقریبات کو جو فسق و فجور، عریانی، بے حیائی، موسیقی، اور نشے جیسی حرکات پر مشتمل ہوں، اسلام میں واضح طور پر ناپسندیدہ اور حرام قرار دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللہِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ3
ترجمہ: اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو بے ہودہ باتیں خریدتے ہیں تاکہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں، اور وہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں، انہی کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔”
اس آیت کی تفسیر میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: قسم اللہ کی! اس (لَهْوَ الْحَدِيث) سے مراد گانا اور راگ ہے۔4
حضرت ابو مالک اشعري رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا :
لَيَكونَنَّ مِن أُمَّتي أقْوامٌ يَسْتَحِلُّونَ الحِرَ والحَرِيرَ، والخَمْرَ والمَعازِفَ5
”میری امت میں ایسی قومیں ہوں گی جو زنا ، ریشم، شراب اور باجے گاجے حلال سمجھیں گی۔”
یعنی زنا ، ریشم ، شراب اور باجے گاجے جن کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے، بعض لوگ انہیں حلال سمجھیں گے۔ اور آج وہ قومیں اکثر پائی جاتی ہیں جو گانا بجانا شراب وغیرہ کوئی عیب نہیں سمجھتیں بلکہ گانے بجانے کے آلات، ٹی وی ، وی سی آر اور گانوں کی کیسٹوں کی صورت میں ان کے گھروں میں موجود ہیں بلکہ شیطانیت اس قدر ترقی کر رہی ہے کہ ڈش انٹینا کی صورت میں اس برائی کو دن رات پھیلایا جا رہا ہے اور مسلمانانِ عالم کی ذلت کا سبب بھی یہی ہے کہ انہوں نے اپنی اسلامی تہذیب ترک کر کے غیر مسلموں اور ہندوؤں وغیرہ کی تہذیب و تمدن کو اپنا لیا ہے اور ان کی پیروی میں گانا بجانا اور رقص وغیرہ کو اپنا لیا۔
5۔ شراب اور منشیات کا استعمال
شیطانی پارٹی میں عموماً شراب نوشی اور منشیات کا استعمال کثرت سے ہوتا ہے ۔ شریعتِ اسلامیہ میں شراب اور منشیات کا استعمال حرام ہے۔ قرآن و حدیث میں واضح دلائل موجود ہیں جو شراب اور منشیات کے استعمال کی مذمت اور ممانعت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأَنْصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ6
ترجمہ: اے ایمان والو! شراب، جوا، بتوں کے پاس تھمے ہوئے پانسے، سب گندے ہیں، شیطان کے کاموں میں سے ہیں، سو ان سے بچو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شراب کو “رجس” (گندگی) اور “شیطان کا عمل” قرار دیا ہے اور مسلمانوں کو اس سے بچنے کا حکم دیا ہے تاکہ کامیاب ہو سکیں۔ یہ آیت شراب اور دیگر منشیات کی حرمت کی واضح دلیل ہے۔
(الف) شراب برائیوں کی جڑ ہے
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اجتنِبوا الخمرَ فإنها أمُّ الخبائثَ7
ترجمہ: “شراب سے بچو، یہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔”
اس حدیث میں شراب کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے کیونکہ انسان شراب کے نشے میں اخلاقی اور سماجی حدود کو توڑ دیتا ہے، جس سے معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
(ب) شراب کا عادی بتوں کا پجاری ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مُدْمِنُ الْخَمْرِ كَعَابِدِ وَثَنٍ8
شراب کا عادی ایسے ہی ہے جیسے بتوں کا پجاری۔
حالانکہ بت کی پوجا کرنا شرک ہے لیکن چونکہ شراب بھی ایسا گناہ ہے جو ہمیشہ کرنے سے وہ شرک کی طرح ہو جاتا ہے جیسے صغیرہ گناہ ہمیشہ کرنے سے کبیرہ ہو جاتا ہے، اس لئے شراب نوشی کو بت پرستی سے تشبیہ دی گئی ہے۔
(ج) شراب پینے والے پر لعنت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَعنَ اللهُ الخمرَ ، وشاربَها ، وساقِيها ، وبائِعَها ، ومبتاعَها ، وعاصِرَها ، ومعتصِرَها ، وحامِلَها ، والمحمولةَ إليه9
ترجمہ: اللہ نے شراب پر، اس کے پینے والے، پلانے والے، بیچنے والے، خریدنے والے، نچوڑنے والے، نچڑوانے والے، اس کو لے جانے والے اور جس کے پاس لے جائی جائے اس پر لعنت بھیجی ہے۔”
اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے شراب کے پینے والے اور اس کے متعلق تمام امور سے وابستہ افراد پر لعنت بھیجی ہے، جو اس کے حرام ہونے کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔
6۔ فحاشی اور بیہودگی
شیطانی پارٹی کا انعقاد فحاشی، بیہودگی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ فحاشی اور بے حیائی کے افعال سے اجتناب کا حکم دیتا ہے۔
ارشادِ باری تعالی ہے :
وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ10
ترجمہ: اور تم فحش باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ، جو ان میں ظاہر ہیں اور جو پوشیدہ ہیں
7۔ بے پردگی
شیطانی پارٹی کا انعقاد معاشرے میں بے پردگی اور بے حیائی پھیلانا ہے ۔ جبکہ اسلام میں حیا اور پردے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا:
الإيمانُ بضعٌ وسبعون شعبةً، والْحَياءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإيمانِ11
ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔
(الف)بے غیرتی كا كام
بے حیائی بے غیرتی كا كام ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ما مِن أحَدٍ أغْيَرُ مِنَ اللہِ فَلِذلكَ حَرَّمَ الفَوَاحِشَ ما ظَهَرَ منها وما بَطَنَ12
ترجمہ: ﷲ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی غیرت والا نہیں، اسی لیے اس نے بے حیائی کی ظاہر اور پوشیدہ تمام شکلوں کو حرام قرار دیا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللہَ يَغَارُ وَغَيْرَةُ اللہِ أَنْ يَأْتِيَ الْمُؤْمِنُ مَا حَرَّمَ اللہُ13
ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ غیرت والا ہے اور اللہ کی غیرت یہ ہے کہ کوئی مؤمن اس چیز کا ارتکاب کرے جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔”
(ب)جنسی ہارمونز میں اضافہ
بے حیائی جنسی ہارمونز میں اضافے کا سبب ہے۔ یعنی جب انسان کسی بے حیائی کی چیز کو دیکھتا ہے تو اس کے جسم میں مختلف ہارمونز پیدا ہوتے ہیں جو نفسیاتی اور جنسی خواہشات میں اضافہ کرتے ہیں ۔آج کل ہر طرف جنسی زیادتی کی خبریں عام ہیں جسکی بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ جنسی ہارمونز میں اضافہ ہے۔
ان هارمونز میں ڈوپامین (Dopamine) ۔اوکسیٹوسن (Oxytocin) ۔ اینڈورفنز یہ کیمیکل (Endorphins) ٹیسٹوسٹیرون :(Testosterone) نمایاں ہیں ۔ یہ تمام ہارمونز مل کر انسان کو جنسی خواہشات کی جانب مائل کرتے ہیں اور پھر یہ خطرناک نتائج پیدا کرتی ہیں جو آئے روز جنسی زیادتی کے واقعات کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ جنسی زیادتی کی وجہ بے حیائی ہے۔ اسی لئے اللہ پاک نے مردوں کو اپنی نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا۔
ارشادِ باری تعالی ہے :
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ14
ترجمہ: مسلمان مردوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔
8۔ مردوں اور عورتوں کا اختلاط
مردوں کے لیے عورتوں سے بڑا فتنہ کوئی نہیں جبکہ شیطانی پارٹیوں میں مرد و زن کا اختلاط کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَا تَرَكْتُ بَعْدِيْ فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ15
ترجمہ: میں نے اپنے بعد مردوں پر کوئی فتنہ عورتوں سے زیادہ نقصان پہنچانے والا نہیں چھوڑا۔
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَأَنْ يُطْعَنَ فِي رَأْسِ أَحَدِكُمْ بِمِخْيَطٍ مِنْ حَدِيدٍ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمَسَّ امْرَأَةً لَا تَحِلُّ لَهُ16
ترجمہ: اگر تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی سوئی مار دی جائے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے بنسبت اس کے کہ وہ ایسی عورت کو چھوئے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے۔
9۔ شیطان کو خوش کرنا
شیطانی پارٹی میں شیطان سے دوستی اور محبت میں وہ تمام کام کیے جاتے ہیں جس سے واقعی شیطان خوش ہوتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے شیطان کو خوش کرنا اور اس کی پیروی کرنا حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر شیطان کو انسان کا کھلا دشمن قرار دیا ہے اور اس سے دوستی کرنے اور اس کو خوش کرنے سے روکا ہے۔
ارشادِ باری تعالی ہے :
إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ17
ترجمہ: شیطان یقیناً تمہارا دشمن ہے۔ لہٰذا اسے دشمن ہی سمجھو۔ وہ تو اپنے پیروکاروں کو صرف اس لئے بلاتا ہے کہ وہ دوزخی بن جائیں۔
ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالی ہے :
وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا18
ترجمہ: جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا دوست بنا لے تو وہ کھلی گمراہی میں ہے۔
یعنی جب شیطان تمهارا دشمن ہے تو تم بھی ہمیشہ اسے دشمن ہی سمجھو، وہ کبھی تمهارا خیر خواہ یا دوست نہیں ہو سکتا، اپنے عقائد و اعمال اور اپنے اقوال و افعال اور احوال، غرض ہر چیز میں اسکی مخالفت کرو اور مرتے دم تک یہ عداوت قائم رکھو۔
10۔ شیطان کی پیروی کی ترغیب
شیطانی پارٹی میں شیطان کی پیروی کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ قرآن و سنت میں بارہا شیطان کی پیروی اور اس کی ترغیب سے منع کیا گیا ہے ۔
ارشادِ باری تعالی ہے :
“يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ۔ إِنَّمَا يَأْمُرُكُم بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللہِ مَا لَا تَعْلَمُونَ19
اے لوگو! زمین میں جو کچھ حلال و پاکیزہ ہے اسے کھاؤ اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تمہیں صرف برائی اور بے حیائی کا اور اللہ تعالیٰ پر ان باتوں کے کہنے کا حکم دیتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالی فرماتا ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ وَمَن يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ20
ترجمہ: اے ایمان والوں! شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو اور جو شخص شیطان کے نقشِ قدم پر چلے گا تو (شیطان) اسے بے حیائی اور برائی کا ہی حکم دے گا۔”
11۔ گمراہ قوموں کی پیروی
شیطانی پارٹی وہ محفل ہے جو تاریخی اعتبار سے بت پرستی سے جا ملتی ہے جو گمراہ قوم ہے۔ اسلام گمراہ قوموں کے جشن منانے کو جائز نہیں سمجھتا ۔ شیطانی پارٹی میں انسان خود کو شیاطین کی صورت میں پیش کرتے ہیں اور ایسی ایسی چیزوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں جو اسلامی شریعت کے خلاف ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ21
ترجمہ: جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے ہے
12۔ دین میں نئی ایجاد
شیطانی پارٹی دینِ اسلام میں ایک نئی ایجاد ہے اور دین میں نئی ایجاد بدعت کہلاتا ہے اور نبی کریم ﷺ نے بدعت کے متعلق ارشاد فرمایا :
عليكم بسنتي وسنةِ الخلفاءِ المهديّين الراشدين تمسّكوا بها، وعَضّوا عليها بالنواجذِ، و إياكم ومحدثاتِ الأمورِ فإنَّ كلَّ محدثةٍ بدعةٌ، وكلَّ بدعةٍ ضلالةٌ22
ترجمہ: تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھنا اور گمراہ نہ ہونا، یاد رکھو! دین میں ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے “
13۔اسراف و فضول خرچی
شیطانی پارٹی میں مال و دولت کی بے انتہا فضول خرچی ہے جبکہ اسلام میں اسراف اور فضول خرچی منع ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ23
فضول خرچی نہ کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا ۔
ایک مقام پر ارشاد فرمایا کہ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔
وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ، إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ24
ترجمہ: اور بے جا اسراف اور فضول خرچی نہ کرو ، بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔
اہلِ علم کی ذمہ داری
اہلِ علم کی ذمہ داری یہ ہے کہ دین میں داخل ہونے والی خرافات، بدعات اور شرکیات سے عوام کو آگاہ کریں اور قرآن و حدیث کی روشنی میں ان چیزوں کے مفاسد اور نقصانات سے متنبہ کریں ۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
مُروا بالمعروفِ، وانهوا عَنِ المنكرِ، قبلَ أن تَدعوا فلا يُستجابَ لَكُم25
نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو ، قبل اس کے کہ تم دعائیں مانگو اور تمہاری دعائیں قبول نہ کی جائیں ۔‘‘
حضرت حذیفہ بن یمان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
والَّذي نَفسي بيدِهِ لتأمُرُنَّ بالمعروفِ ولتَنهوُنَّ عنِ المنكرِ أو ليوشِكَنَّ اللہُ أن يبعثَ عليكُم عقابًا منهُ ثمَّ تَدعونَهُ فلا يَستجيبُ لَكُم26
ترجمہ: اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم یا تو ضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرو گے یا قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے تم پر عذاب بھیجے، پھر تم اس سے دعا مانگو گے مگر تمہاری دعا قبول نہ ہوگی۔
ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اس شیطانی پارٹی کا مقصد سراسر ہمارے ایمان پہ حملہ ہے۔ اگر ہمارا ایمان متاثر ہوا تو ہماری پہچان اور ساری شناخت ختم ہو جائے گی ۔ آج امت کے نوجوانوں کو اپنی ذمہ داری کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہیں اس دنیا میں کھو جانے کے بجائے شیطان کی چالوں کو سمجھ کر خود بھی اس سے بچنے کی ضرورت ہے اور دوسروں کو بھی اس سے بچانے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم امتِ وسط ہیں جسے بھلائی کا حکم دینے اور برائیوں سے روکنے کے لیے نکالا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رکھے ۔ آمین۔
___________________________________________________________________________________________________________________________
- (یٰس: 60)
- (صحیح بخاری: 4477)
- (لقمان: آیت 6)
- (تفسیر ابن جریر الطبری: 20 /127)
- (صحيح البخاري : 5590)
- (المائدۃ: 90)
- (5682 :صحيح النسائي)
- (حسّنه الألباني في سنن ابن ماجه: 2720)
- (صححه الألباني في سنن أبي داود: 3674)
- (الانعام: 151)
- (صحيح مسلم: 152)
- (صحیح بخاری: 4634)
- (رواه البخاري : 4925، ومسلم : 2761)
- (النور: 30)
- (صحیح البخاري: 5096)
- (المعجم الکبیر للطبرانی: 486، وسندہ جید)
- (فاطر: 6)
- (النساء: 119)
- (البقرۃ: 168-169)
- (النور: 21)
- (سنن أبي داود: 4031)
- (سنن أبي داود: 4607)
- (الأعراف: 31)
- (الإسراء: 26، 27 )
- (سنن ابن ماجہ: 3251)
- (صحيح الترمذي: 2169)