پہلا خطبہ :
ہر قسم کی تعریف و توصیف اللہ عزوجل کے لیے ہے اور درود و سلام نازل ہوں اللہ کے رسول ﷺپر، ان کی آل و عیال اور صحابہ کرام پر ، اور ان کے ساتھ دوستی و محبت رکھنے والوں پر۔
حمد و صلاۃ کے بعد!
انبیاء کرام کی سیرتوں سے بہت سے اسباق اور نصیحتیں ملتی ہیں اور جناب ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی سیرت کے کچھ پہلوؤں کا موسم حج اور بیت اللہ شریف کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے۔
جناب ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے اسماعیل اور اس کی ماں کو ساتھ لے کر مسجد کے بالائی حصے کی طرف تقریباز مزم کے اوپر والی جانب گھنے سائے والی جگہ چھوڑ آئے جہاں بعد میں جا کر بیت اللہ تعمیر ہوا، جہاں دور دور تک زندگی کی گزر بسر کے آثار و نشانات تک دکھائی نہ دے رہے تھے ، نہ تو پانی کا انتظام اور نہ ہی وہاں کسی آدم زادے کا وجود تھا، جناب ابراہیم علیہ السلام نے ان کے پاس ایک تھیلی رکھ دی جس میں کچھ کھجوریں اور پانی کا ایک برتن تھا اور خود رخت سفر باندھا اور جہاں سے آئے تھے وہیں واپس پلٹ گئے، اسماعیل علیہ السلام کی ماں ان کے پیچھے دوڑیں اور پوچھنے لگیں اے ابراہیم ! اس وادی میں ہمیں تنہا چھوڑ کر کہاں جارہے ہیں جہاں نہ کوئی غمگسار و مدد گار ہے اور نہ ہی کوئی اور چیز؟ بار بار یہی سوال کرتی جارہی تھیں اور ابراہیم علیہ السلام نے پیچھے مڑ کر جواب دینا بھی گوارا نہ کیا، آخر کار جب انہوں نے یہ پوچھا کہ مجھے بس اتنا بتادیجیے کہ اللہ تعالی نے آپ کو اس کام کا حکم دیا ہے؟ تو جواب میں ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: جی ہاں، تو کہنے لگیں پھر وہ تو کبھی ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔
یہ ایک تعجب خیز اور حیرت انگیز واقعہ ہے جو کہ آزمائش کی گھڑیوں میں ثابت قدمی کی ایک اعلی ترین مثال ہے جس تک رسائی صرف ایسے عظیم لوگوں کے حصے میں آتی ہے جو ایمان، یقین اور توکل میں اعلی وارفع مقام رکھتے ہیں۔ یہ کلمات اپنے ساخت کے لحاظ سے تو معمولی محسوس ہوتے ہیں، لیکن معنی و مفہوم کے اعتبار سے انتہائی گہرے اور عمیق ہیں، جب اسمعیل علیہ السلام کی والدہ نے یہ پوچھا کہ اللہ تعالی نے آپ کو اس کام کا حکم دیا ہے؟ (تو جواب سن کر اُنہوں نے کہا کہ) پھر وہ اللہ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ یہ کلمات اس وقت کہے جب انہیں بالکل یقین ہو چکا تھا کہ اب ان کا خاوند انہیں ویران چٹیل صحرا میں چھوڑ کر جارہا ہے نہ کوئی غمگسار و مددگار ہے اور نہ ہی کوئی اور چیز، اس قصے کو اگر کوئی غیر مسلم پڑھے تو وہ اسے حقیقت کے بر خلاف ایک خیالی کہانی سمجھے گا، عقلیں اس کا ادراک کرنے سے عاجز و بے بس ہیں، لیکن ایمان سے لبریز دل ( آسانی سے) اس کا احاطہ کرسکتے ہیں کہ جو اللہ تعالی پر کما حقہ تو کل کرتا ہے تو اللہ سبحانہ اس کی حفاظتیں کرتا ہے، اس کے لیے کافی وافی ہو جاتا ہے، اس کی رکھوالی کرتا ہے اور اس کے رزق کا بھی بندوبست کرتا ہے۔
عملی اسباق اور یقین سے لبالب اس عبارت سے ہم آگے نہیں بڑھیں گے جب تک اس سے کچھ اسباق اخذ کر کے اطمینان حاصل نہ کرلیں، ہمیں جان لینا چاہیے کہ اللہ سبحانہ اپنے بندوں اور دوستوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا، اپنے خالق پر یقین اور اس کے وعدوں کی تصدیق سے بھرے ہوئے ایسے دل کی اپنے خالق کے ساتھ بے پایاں اور گہری تاریخ ہوتی ہے، اس نے خوشحالی کے وقت اللہ کے حقوق کی حفاظت کی تو اللہ عزوجل نے تکلیف و پریشانی کے وقت اس کا خیال رکھا اور اس کے دل میں یہ بات گھر کر گئی کہ اگر اللہ کی انسیت حاصل ہو جائے اور خالق کائنات اور آسمانوں وزمین کے خزانوں کے مالک پر تو کل ہو تو صحرا کی وحشت ناکی اور ویرانی کا احساس بالکل نہیں رہتا۔ اس نے تنگدستی اور سختی کے وقت اسے پہچانا ہوتا ہے تو خوشحالی کے وقت بھی اسے پہچانتا ہے، اس کے دل میں مانوسیت الہی کا قرار موجزن رہتا ہے جو صحرا کی وحشت کا احساس اس کے دل میں نہیں ہونے دیتا، اور اسے چٹیل میدان بھی خوف میں مبتلا نہیں کر سکتا کیوں کہ خالق کائنات پر اس کا تو کل ہوتا ہے، جس کے ہاتھ میں آسمانوں اور زمین کے خزانے ہیں۔
اپنے پروردگار کے متعلق اور اپنے بیٹے کے متعلق حسن ظن رکھنے کی وجہ سے اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ماجدہ کو ایسا صلہ ملاجو تمام لوگوں کے لیے یکساں مفید ہے، چنانچہ اس کے سامنے زمزم کا چشمہ پھوٹا، جو کھانے کا کھانا اور بیماریوں کی شفا ہے ، جس کا تذکرہ رہتی دنیا تک اللہ تعالی سدار کھے گا۔ جب تک لوگ عبادت اور مناسک حج و عمرہ کے طور پر صفا و مروہ کی سعی کرتے رہیں گے یہ ام اسماعیل کی عزت اور رفعت شان کے طور پر یہ قصہ ان کے سامنے تازہ ہو تا رہے گا۔
آپ ام اسماعیل کے اس قصے پر اور ان کے اپنے رب پر پختہ اعتماد و یقین پر ذرا غور کیجیے کہ ایسی وحشت ناک جگہ جہاں کھانے پینے کے علاوہ کسی انسان تک کا وجود نہیں وہاں اس کے دل میں ذرا برابر بھی خوف سرایت نہیں کر سکا، اگر آپ اس کا تقابل آج کے زمانے کے ساتھ کیجیے جب ہمارے ارد گرد سب کچھ موجود و مہیا ہوتا ہے تعجب کی بات ہے کہ پھر بھی ہمیں اپنے رزق، اولاد، بیماری، آئندہ آنے والے مجہول کل ور مستقبل سے متعلق اضطراب اور ڈر لاحق رہتا ہے، جس کا سب اللہ تعالی پر یقین اور توکل میں کمی اور کمزوری ہے۔ اور
اللہ تعالی نے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کو بیت اللہ شریف تعمیر کرنے کا حکم دیا، ان کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام پتھر اٹھا اٹھا کرلا رہے تھے اور ابراہیم علیہ السلام گھر تعمیر کر رہے تھے ، خانہ کعبہ کی تعمیر صرف پتھروں سے ہوئی ہے جو نہ نفع دے سکتے ہیں اور نہ نقصان دے سکتے ہیں، اس کی مشروعیت شریعت الہی سے ماخوذ ہے اور حکم الہی سے ہی اس گھر کی تعظیم کی جاتی ہے اور ہمارے نبی محمد ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ہمیں اس گھر کے طواف کا حکم ہے ، اگر تعلیم نبویﷺ کے مطابق حجر اسود کو بوسہ دینا اللہ تعالی نے مشروع نہ کیا ہوتا تو ہم اسے کبھی نہ چومتے۔ کیوں کہ پتھر نہ نفع دے سکتا ہے اور نہ ہی نقصان دے سکتا ہے اور نہ ہی وہ عبادت کے ہی لائق ہے، جیسا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: ”یقینا میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ تو نفع کا مالک ہے اور نہ ہی نقصان کا مالک ہے اگر میں نے رسول اللہ ﷺکو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔ “ (بخاری و مسلم)۔
اسی طرح باقی تمام زیارت والی جگہوں کا معاملہ ہے خواہ وہ مساجد ہوں یا قبریں، خاص جگہیں ہوں یا غزوات والے مقامات، ان کی زیارت کرتے وقت عبرت ، پند و نصیحت اور وعظ و تذکیر جیسی ان حدود کو تجاوز کرنا درست نہ ہو گا جن کی وجہ سے ان کی زیارت مشروع کی گئی ہے، ان کی حیثیت پتھروں اور مٹی سے زیادہ کچھ نہیں ہے ان میں نہ کوئی نفع ہے اور نہ ہی نقصان ہے۔
بیت اللہ شریف کی تعمیر ایک عظیم الشان عمل، بلند و بر تر منصب، نیک وصالح کام اور ایسا بے مثال شرف تھا جسے ابراہیم اور ان کے بیٹے اسماعیل علیہما السلام نے حاصل کیا، دونوں اس کی تعمیر کے دوران اور اسے مکمل کرنے کے بعد مسلسل یہ دعا کرتے رہے ، ارشادِ باری تعالی ہے:
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
البقرۃ – 127
اے ہمارے رب! ہم سے قبول فرما، بیشک تو ہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
نیکی کے جلیل القدر کام انجام دے کر بھی عاجزی و انکساری اختیار کرنا، یہی اہل ایمان اور اہل تقوی کی کیفیت و حالت ہوتی ہے وہ اپنے اعمال کے ذریعے اور اطاعت والے کاموں کے ذریعے اللہ تعالی پر احسان نہیں جتاتے اور نہ ہی حج ، عمرہ ، نماز ، صدقہ و خیرات جیسے اعمال اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار پر احسان کریں، بلکہ مومن کی حالت یہ ہونی چاہیے کہ رضائے الہی کی خاطر کیسے ہوئے ہر عمل کو معمولی اور بالکل چھوٹا شمار کرے۔
نیک اعمال کا دارو مدار قبولیت پر ہوتا ہے ، یہی اعمال کا مقصود اور یہی غرض وغایت ہوتی ہے ، وہ شخص جو نیک اعمال کرتے ہوئے ریاکاری کو در آنے کی اجازت دیتا ہے تو ایسا شخص دھو کے میں ہے، ریاکاری اعمال کے اجر و ثواب کو سرے سے ہی ختم دیتی ہے اور انہیں بکھرے ہوئے گردو غبار کی طرح بنادیتی ہے، ایسے لوگ جن کے اعمال میں عجب و ریا کاری سرایت کر جاتی ہے انہیں کے متعلق نبی ﷺنے ارشاد فرمایا: کہ کل بروز قیامت انہیں لوگوں سے جہنم کو بھڑ کا یا جائے گا حالانکہ انہوں نے جلیل القدر اعمال انجام دیے ہوں گے ،ان میں سے ایک قاری قرآن ہو گا جس نے اس لیے قرآن پڑھا ہو گا کہ اسے قاری کہا جائے، اور دوسرا مال و دولت خرچ کرنے والا ہو گا جس نے اس لیے مال بہایا ہو گا کہ اسے سخی اور کریم کہا جائے، اور تیسرا جہاد و قتال کرنے والا ہو گا جس نے اپنی جان کی بازی صرف اس لیے لگادی کہ اسے بہادر اور شجاع کہا جائے۔
مکہ مکرمہ اور بیت اللہ شریف کے لیے جناب خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام نے بہت سی دعائیں کیں ، جن سے اس کی شان ورفعت میں اضافہ ہوا، مقام و مرتبہ بلند ہوا اور اسے ایک عظیم کام کے لیے تیار کر دیا جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ
ابراھیم – 37
اے ہمارے رب! میں نے اپنی بعض اولاد کو تیرے بیت حرام کے پاس ایک وادی میں بسایا ہے جہاں کوئی کھیتی نہیں ہے، اے ہمارے رب ! میں نے ایسا اس لیے کیا ہے تاکہ وہ نماز قائم کریں، اس لیے تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف پھیر دے، اور بطور روزی انہیں انواع و اقسام کے پھل عطا کر، تاکہ وہ تیرا شکر یہ ادا کریں۔
یہ ایسی دعا تھی جو آسمانوں، فضاؤں اور بادلوں کو چیرتی ہوئی قدرت والے بادشاہ کے پاس جا ٹھہری، اب جسموں سے پہلے دلوں کی حسرت و بے قراری سبقت لے جاتی ہے، قدموں سے پہلے شوق و ذوق آگے نکل جاتے ہیں، دلوں میں محبت سموئے ہوئے لوگ فوج در فوج ہر اونچی نیچی جگہ سے ہر طرح کی مشقت برداشت کرتے ہوئے اس کی طرف لپکتے ہیں، ایسی لذت محسوس کرتے ہیں کہ جس کے آگے کو صعوبتیں اور مشکلات کوئی معنی نہیں رکھتیں، آخر ایک اسلامی اجتماع میں آملتے ہیں جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی، جہاں سب فرق مٹ جاتے ہیں، تعصب پرستی دم تو ڑ جاتی ہے، قسمہ قسم کے لوگ باہم ملتے ہیں، مختلف زبانوں اور لہجوں والے ایک ہی زبان میں اپنے پروردگار کو یوں پکار رہے ہوتے ہیں: لبیک اللھم لبیک ”ہم حاضر ہیں اے اللہ ہم حاضر ہیں۔ “ اور تاکہ یہ بابرکت اجتماع اپنے مقاصد کی تکمیل کر سکے اور اپنے حج و عمرہ کے مناسک ادا کر سکے ، جیسا کہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے رب سے مانگتے ہوئے کہا، ارشادِ باری تعالی ہے:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ
البقرۃ – 126
اور (یاد کرو) جب ابراہیم نے کہا کہ اے میرے رب، تو اس شہر کو پر امن بنا دے، اور یہاں کے رہنے والوں میں سے جو لوگ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائیں، انہیں مختلف قسم کے میوے عطا فرما ۔
پس اللہ نے ان کی دعا کو شرف قبولیت بخشی اور مکہ مکرمہ کو لوگوں کی جائے قرار بنا دیا، جہاں لوگ قلبی راحت و سکون محسوس کرتے ہیں اور ہر طرح کے خوف و خطر اور مصائب و آفات سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں، اس مقدس سر زمین کی طرف جس ظالم و جابر نے بھی ناپاک عزائم کے ساتھ پہنچنے کی کوشش کی اللہ نے اس کو ہلاک کر دیا، کیوں کہ امن وامان بڑی عظیم چیز ہے، اگر امن ہی غارت ہو جائے تو دینی اور دنیوی مصلحتیں معطل ہو کر رہ جاتی ہیں۔
اللہ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام اللہ کی توحید کا پیغام لوگوں تک پہنچانے اور ان کے دلوں میں عقیدہ توحید کو راسخ کرنے کے لیے اللہ کی وسیع و عریض زمین کے بار بار چکر کاٹتے رہے، آپ علیہ السلام نے نمرود کے ساتھ سوال وجواب کیے جس نے اس وقت الوہیت کا دعوی کر رکھا تھا، ارشادِ باری تعالی ہے:
قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ
البقرۃ – 258
کہ اس نے کہا میں زندگی بخشا اور موت دیتا ہوں۔
اسی طرح آپ نے اپنے مشرک باپ کے ساتھ بحث و مباحثہ کیا اور اس کے ساتھ نرم زبان استعمال کی، اسے ”اے میرے ابا جان“ کہہ کر مخاطب کیا اور اپنی قوم کے ساتھ مکالمہ کیا اور ان کو مختلف انداز سے مخاطب کیا، اور بحث و مباحثہ میں ان کے ساتھ مناسب اسلوب اختیار کیا تا کہ آپ ان کے اندر اللہ کی وحدانیت کے عقیدے کو جاگزیں کر سکیں اور اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اس پورے مباحثے کو پوری تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے ، اب وہ تلاوت کی جانے والی آیات بیان کیے جانے والے قصے اور عبرت پذیر دروس کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔
ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ دعوت جس کی تائید قران کریم نے بھی کی ہے اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مکالمہ اور بحث و مباحثہ ہی غیر مسلموں کو دین کی طرف دعوت دینے کا سب سے کامیاب طریقہ ہے، اور اگر باصلاحیت و اہمیت لوگ اسلام کا پیغام پھیلانے اور اس کے ریخ انور سے شکوک و شبہات کے گردو غبار کو صاف کرنے کے لیے کوشاں ہو جائیں تو اس کی شان و عظمت ہی کچھ اور ہو گی۔
اسلام ایک فطری دین ہے اور اللہ سبحانہ کی وحدانیت کے عقلی و نقلی دلائل اور آثار کتاب الہی میں اور کائنات میں پھیلے ہوئے ہیں، اس کے دلائل وبراہین انتہائی واضح اور روشن ہیں، ضرورت صرف بچے اور علم سے لیس افراد کی ہے جو ان ٹھوس دلائل کو اخذ کریں اور حکمت عملی کے ساتھ مستحکم انداز میں مکالمہ کر سکیں، جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے ان کے ساتھ پُر وقار زبان، بلیغ الفاظ اور عقلی و علمی دلائل کی روشنی میں گفتگوی۔
آج دنیا جنگ و جدال، لڑائی و جھگڑے اور قتل و غارت گری اور تخریب کاری کی تباہیوں سے کراہ رہی ہے اور اب اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ دنیا کو دین اسلام سے متعارف کرایا جائے جو امن و سلامتی، رحمت و رافت اور محبت والفت کا دین ہے ، جو انسان کو اس کے حقوق اور اس کا صحیح مقام و مرتبہ عطا کرتا ہے، بلکہ اسے اس کائنات کا محور و مرکز قرار دیتا ہے اور امن و امان کو وسیع پیمانے پر مستحکم اور مضبوط کرتا ہے پھر اس سے تعمیر و ترقی، خوشحالی و فارغ البالی، سعادت اور بہترین زندگی میسر آتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گفتگو اور بحث و مباحثے کی زبان سے دوری غیر مسلموں کے اسلام سے دور ہونے کا ایک اہم سبب ہے۔
ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی اور فرزند ارجمند اسماعیل علیہ السلام سے بھی مکالمہ کر کے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ باہم بات چیت اور گفتگو ہی زندگی گزارنے کا منہج اور دستور ہے، یہ ایک تازہ غذا ہے جو میاں بیوی کے باہمی تعلق کو مضبوط کرتی ہے والدین اور اولاد کے درمیان تعلق کی بنیاد اور اساس ہے، سنجیدہ، باوقار ، اور نرم گفتگو کے فقدان کی وجہ سے تکلیف دہ صور تحال کا سامنا کرنا پڑا ہے، اولاد میں سرکشی ، پیدا ہوئی ہے، طلاق و خلع کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، شاید یہ صورت حال ہی اہل حل و عقد کو اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ میدان میں اتریں اور خاندانی خلفشار کے اثرات سے سماج و معاشرے، قوم وملت اور وطن کو بچانے کے لیے مہار اپنے ہاتھوں میں سنبھالیں۔
ابراہیم علیہ السلام کا دین تمام انبیا والا دین ہی ہے، جو یکسوئی والا، فطری اور خالص توحید پر مبنی دین ہے، ارشاد باری تعالی ہے:
مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَكِنْ كَانَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
آل عمران – 27
ابراہیم نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ موحد مسلمان تھے ، اور وہ مشرکین میں سے نہیں تھے۔
دوسرا خطبہ :
یہ وہ عظیم اوصاف ہیں جنہیں تاریخ نے حلیم و بردبار اور نرم دل والے جناب ابراہیم علیہ السلام کی حیات طیبہ سے متعلق قلمبند کر رکھا ہے جن کی سیرت مطہرہ سخاوت و فیاضی، ایثار و قربانی اور اطاعت و فرمانبرداری سے لبریز ہے اس سب کے باوجود وہ بھی اپنے رب سے صالحین کی صف میں شامل ہونے کی التجا کر رہے ہیں، ارشاد باری تعالی ہے:
رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا وَأَلْحِفْنِي بِالصَّالِحِينَ
الشعراء – 83
اے میرے رب! مجھے حکم عطا کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا۔
اپنے عمل کو کم تر سمجھ رہے ہیں ، تواضع و انکساری میں اپنی ذات کو فراموش کر رہے ہیں، اپنے رب کے ساتھ ادب و احترام کے ساتھ پیش آرہے ہیں جبکہ ہمارے اندر اپنی نادانی اور اعمال کی کمزوری کے باوجود اطاعت والے کام انجام دینے کے بعد تکبر و گھمنڈ پیدا ہو جاتا ہے، نیک عمل کے بعد خود پسندی آجاتی ہے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بعد کبر و غرور پیدا ہو جاتا ہے۔
جب کہ اللہ والے نیک اور صالح لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ جس قدر اطاعت الہیہ کے زینے طے کرتے ہیں، انہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق نصیب ہوتی ہے ، ان پر نعمتوں کی بارش ہوتی ہے اور وہ بلند عہدوں پر فائز ہوتے ہیں تو ان کے اندر مزید رب کے لیے تواضع و انکساری اور عاجزی و فروتنی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
اے اللہ! اسلام کی حالت میں ہمیں موت دینا اور نیکو کار لوگوں کا ہمیں ساتھ نصیب کر دینا۔
اے اللہ! ہم تجھ سے جنت کا سوال کرتے ہیں، اور ایسے قول و فعل کی توفیق کا سوال کرتے ہیں جو ہمیں جنت سے قریب کر دے۔
یا اللہ! ہم جہنم کی آگ سے تیری پناہ چاہتے ہیں، اور ہر ایسے قول و فعل سے بھی جو ہمیں جہنم کے قریب کر دے۔
اے اللہ! ہم تجھ سے ہر بھلائی کا سوال کرتے ہیں خواہ وہ جلد ملنے والی ہے یا دیر سے، اسے ہم جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔ اور ہر اس برائی سے تیری پناہ مانگتے ہیں ، جو جلدی آنے والی ہے یا دیر سے ، اسے ہم جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔
اے اللہ! ہم تجھ سے خیر و بھلائی کی ابتد او انتہا، اس کی جامع چیزیں، اور اس کے اول و آخر ، ظاہر وباطن کا سوال کرتے ہیں اور جنت میں بلند درجات کا سوال کرتے ہیں۔
اے میرے رب! ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ کرنا، ہماری تائید و نصرت فرما، ہمارے خلاف کسی کی تائید و نصرت نہ کرنا، ہمارے حق میں تدبیر فرما، ہمارے خلاف تدبیر نہ کرنا۔ ہماری رہنمائی فرما اور ہدایت کو ہمارے لیے آسان کر دے۔ اور جو ہمارے خلاف بغاوت کرے اس کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔
اے اللہ! ہماری توبہ قبول فرما، ہمارے گناہ معاف فرما، ہماری حجت کو ثابت کر دے، ہماری زبانوں کو سیدھار کھو اور ہمارے دلوں سے کینہ کپٹ کو نکال دے۔
اے اللہ! تو بہت بخشنے والا ہے، معافی کو پسند کرتا ہے، لہذا ہمیں معاف فرما۔
اے اللہ! ہم تیری نعمت کے زائل ہونے سے، تیری دی ہوئی عافیت کے پھر جانے سے، تیری ناگہانی گرفت سے ، اور تیری ہر قسم کی ناراضی سے پناہ مانگتے ہیں۔
اے اللہ! ہم عاجزی و کاہلی سے، کنجوسی و بزدلی سے ، بڑھاپے سے ، قرض کے بوجھ سے اور لوگوں کے غالب آنے سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔
اے ہمیشہ سے زندہ رہنے والی ذات! اے ہر چیز کو قائم رکھنے والی ذات! ہم تجھ سے تیری ہی رحمت کا واسطہ دے کر مدد طلب کرتے ہیں، ہمارے سارے معاملات سنوار دے، اور آنکھ جھپکنے کے برابر بھی ہمیں اپنے نفسوں کے سپرد نہ کرنا۔
اے اللہ! ہمارے امام خادم حرمین شریفین کو اپنے پسندیدہ کاموں کی توفیق عطا فرما، ان کے ولی عہد کو ہر خیر کی توفیق عطا فرما۔
اے ہمارے پروردگار ہمیں دنیا و آخرت میں خیر و بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔
خطبة الجمعة مسجدالنبوي: فضیلة الشیخ الدکتورعبدالباري بن عواض الثبيتي حفظه اللہ
20ذوالقعدۃ بتاریخ 09 جون 2023