سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ

نام و نسب :

آپ کا نام محمد داؤد بن سید عبد الجبار بن سید عبداللہ غزنوی ہے۔
آپ کے والد محترم اور دادا افغانستان کے شہر “غزنی “سے ہجرت کر کے امرتسر آئےتھے ، اسی مناسبت سے آپ کا سارا خاندان “غزنوی “کہلاتا ہے ۔

پیدائش و ابتدائی تعلیم و تربیت :

سید داؤد غزنوی کے والد نامدار سید عبد الجبار غزنوی اور دادا سید عبداللہ غزنوی کا شمار ان اولیاء اللہ میں ہوتا ہے جن کے علم و فضل اور ورع و تقوی کا زمانہ معترف ہے ، سید داؤد غزنوی 1312ھ کو امرتسر میں پیدا ہوئے، حصول علم کے لیے امرتسر سے نکل کر دہلی کا سفر کیا ۔

اساتذہ :

آپ کے اساتذہ میں :
سید عبد الجبار غزنوی رحمہ اللہ ) آپ کے والد گرامی )
سید عبد الاول غزنوی ( یہ چچا زاد بھائی بھی تھے )
مولانا سیف الرحمن کابلی رحمہ اللہ
اور حافظ عبداللہ غازی پوری وغیرہ کے اسماء گرامی ملتے ہیں۔

خدمات :

تعلیم سے فراغت پاکر کچھ عرصہ اپنی آبائی درس گاہ “مدرسہ غزنویہ “امرتسر میں پڑھاتے رہے، بعد ازاں سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا، اس وقت ہندوستان پر انگریز کی حکومت تھی، آپ نے ہر محاذ پر حکومت وقت کو للکارا جس کے نتیجے میں کئی دفعہ جیل بھی جانا پڑا،جمعیت علماء ہند کی تاسیس میں آپ کا بڑا اہم کردار تھا، ابتدا میں اس کے رکن تھے پھر عرصہ دراز تک نائب صدارت کے عہدے پر فائز رہے۔

آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ 1346ھ میں اپنے چچا زاد بھائی سید اسماعیل غزنوی کے ساتھ مل کر غلاف کعبہ تیار کروایا ،جسے كعبة اللہ کی زینت بنایا گیا تھا ۔
آپ امرتسر سے ایک ہفت روزہ میگزین “توحید “بھی جاری کرتے تھے ،جس میں ممتاز اہل علم کے مضامین شائع ہوتے تھے۔
مدارس کی پہلی کلاس میں پڑھائی جانے والی کتاب “نخبۃ الاحادیث “بھی آپ ہی کی تالیف ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اگر آپ نے سیاست کے ہنگاموں میں دامن نہ الجھایا ہوتا اور اپنی سرگرمیاں صرف علمی حد تک محدود رکھتے تو بلاشبہ آپ کے فیوض و کمالات لازوال صورت اختیار کر لیتے لیکن یہ بہرحال اس دور کی ضرورت تھی جس میں آپ نے حصہ لینا ضروری سمجھا قیام پاکستان کے بعد منتشر اہل حدیث کو جمیعت اہل حدیث کی لڑی میں پرونا آپ ہی کا کارنامہ ہے۔

وفات:

1383ھ ماہ رجب کے آخر میں بمطابق 16دسمبر 1963ء پیر کے دن لاہور میں صبح نو بجے ہارٹ اٹیک ہوا جس کے نتیجے میں اللہ تعالی کو پیارے ہو گئے، اگلے روز یونیورسٹی گراونڈ میں جنازہ ہوا، جنازہ کی امامت مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے کی، بعد ازاں لاہور کے معروف قبرستان “میانی صاحب “میں سپردخاک کر دیے گئے رحمہ اللہ رحمۃ واسعا.

الشیخ محمد ارشد کمال حفظہ اللہ: آپ جوان مگر متحرک اور درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں ، ابھی آُ پ نے ایک علمی رسالہ بھی جاری کیا ہے جس کا نام نور الحدیث ہے ، جو بہت کم عرصے میں اہل علم سے داد تحسین وصول کرچکا ہے ۔