سورہ اخلاص4 آیتیں16 فضیلتیں

ویسے تو قرآن کریم مکمل طور پر انسانیت کیلئے باعثِ ہدایت، رحمت اور شفاء ہے ، قرآن مجید کی ہر آیت کی تلاوت باعثِ خیر وبرکت ہے، اس کے ہر ہر حرف پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں ۔ لیکن احادیث میں قرآن کی بعض مخصوص آیتوں اور سورتوں کے خاص فضائل بیان ہوئے ہیں ، انہی خاص سورتوں میں سے ایک سورت سورہ اخلاص ہے ۔اس سورت میں اللہ تعالی کی بے شمار برکتیں ، رحمتیں اوربے شمار عطیات پوشیدہ ہیں ۔جو انسانوں کے دینی ودنیاوی حالات اور معاملات کو بہتر بنانے اور سدھارنے میں مؤثر طاقت رکھتے ہیں ، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان فضیلتوں ،رحمتوں اوربرکتوں سے بہت سے لوگ ناوقف ہیں۔ چارآیات پر مشتمل مختصر سورت اپنے اندر کس قدربے شمار فضائل لئے ہوئے ہے، اس تحریر میں ان فضائل کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

شانِ نزول

اس سورت کے شانِ نزول کے بارے میں حدیث میں آتا ہے  :

أنَّ المشرِكينَ قالوا لرسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ : انسِب لَنا ربَّكَ ، فأَنزلَ اللَّهُ تعالى : قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَدُ

(صحيح الترمذي : 3364)

 كہ مشرکین نے نبی رحمت ﷺ سے کہا کہ اپنےرب کے اوصاف بیان کریں ۔تو الله تعالیٰ نے یہ سورت نازل کردی ۔

وجہ تسمیہ

اس سورت کو دو بنیادی وجوہات کی بنا پر سورہ اخلاص کہا گیا ہے ۔

پہلی وجہ :

اس سورت کو اللہ نے اپنے لئے خاص کیا ہے، کیونکہ اس میں اللہ کی شان اور اس کی صفات کے سوا اورکچھ بیان نہیں ہواہے۔ یعنی اسے اللہ تعالیٰ کی صفات کے بیان کے لیے خالص کیا گیا ہے۔

دوسری وجہ :

اس سورت کویہ نام اِس کے معنی کے لحاظ سے دیا گیا ہے۔ یعنی جوبھی شخص اس کے معانی ومفہوم پر یقین رکھتے ہوئے پڑھے گا یا اس کو سمجھ کر اِس کی تعلیم پر ایمان لے آئے گا وہ شرک سے خلاصی پا جائے گا۔

پہلی فضیلت:دروس عقیدہ توحید

سورہ اخلاص میں اللہ تعالیٰ کی توحید کا ایسا جامع درس دیا گیا ہے جو قرآن حکیم میں کسی اور مقام پر نہیں دیا گیا ہے۔  چنانچہ توحید کی تینوں قسمیں توحید الوہیت ،توحید ربوبیت اور توحید اسماء وصفات اسی ایک ہی سورت میں بیان ہوئی ہیں۔اس کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے ۔

توحید الوہیت :

قُلْ هُوَ اللہُ

(سورۃ الاخلاص:1)

جب ہم کہتے ہیں کہ وہ اللہ ہے، اس کا مطلب ہے کہ وہ حقیقی معبود ہے اور اس کے سوا کوئی اورعبادت کا مستحق نہیں، اور جب ہم کہتے ہیں کہ

هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ

اللہ ایک ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہیں کرتے۔یہی توحید الوہیت ہے۔

توحید ربوبیت وتوحید اسماء وصفات :

توحید کی یہ دونوں قسمیں آیت﴿ اللَّهُ الصَّمَدُ﴾ میں موجود ہے’’  اللہ بے نیاز ہے ‘‘  اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں سے کسی کی محتاج نہیں ہے بلکہ وہ اپنی صفات میں کامل ہے ایسا کامل کہ تمام مخلوقات اس کی محتاج ہے کیونکہ وہی ایک رب ہے ۔اور جس کی طرف تمام مخلوق اپنی خواہشات اور ضروریات کی تکمیل کے لیے رجوع کرتی ہے۔ پس جہاں ساری دنیا اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے اللہ پر منحصر ہے وہیں وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔ اسی کوتوحید ربوبیت وتوحید اسماء وصفات کہتے ہیں۔

لفظ أحد اور صمد:

یہ اللہ تعالیٰ کے دو نام ہیں جو پورے قرآن میں کہیں دوسرے مقام پر ذکر نہیں ہوئے ہیں۔ اور یہ دو نام ایسے ہیں جو سارے اسماء وصفات کے عقیدے کی بنیاد ہے۔ احد کا معنی اکیلا اور یکتا ۔  یعنی اللہ تعالی ٰ رحمن ہونے میں ، رحیم ہونے میں ، عالم الغیب ہونے میں رزاق ہونے میں اور حی وقیوم ہونے میں یعنی سارے ناموں میں اکیلا و یکتا ہے ۔

لفظ الصمد  میں کمال کا معنی ہے ۔ یعنی ایسا سردار جو اپنی سرداری میں کامل ہے ۔ کسی قسم کی کوئی نقص اور کمی نہیں ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ رحمن ہونے میں ، رحیم ہونے میں ، عالم الغیب ہونے میں رزاق ہونے میں، حی وقیوم ہونے میں یعنی ساری صفات میں کامل ہے ۔

الا حد اور الصمد اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ نہ اس سے کوئی پیدا ہو اور نہ وہ کسی سے پیدا ہو ا اور نہ کوئی اس کے برابر کا ہے، کیونکہ الصمد وہ ہوتا ہے جس کا نہ جوف(پیٹ) ہو اور نہ احشاء (انتڑیاں وغیرہ) ہوں، اس میں کوئی چیز داخل نہیں ہو سکتی۔ وہ نہ کھا تا ہے نہ پیتا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ

سورۃ الانعام:14

آپ ان سے کہئے :’’کیا میں اس اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کودوست بناؤں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور جو سب کو کھانا کھلاتا ہے لیکن کسی سے کھانا لیتا نہیں؟‘‘

دوسری فضیلت:محبتِ الہی کا حصول

محبتِ الہی ایمان کے لوازمات میں سے ہے اورکسی بھی انسان کا عقیدہ توحید اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک انسان اپنے خالق حقیقی کودنیا کی ہر چیز سے محبوب نہ بنا لے ۔ اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے کئی ذرائع ہیں جنہیں اختیار کرکے انسان اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کر سکتا ہے  انہی ذرائع میں ایک آسان ذریعہ سورہ اخلاص کی مستقل مزاجی کے ساتھ تلاوت ہے ۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے:

أنَّ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ بَعَثَ رَجُلًا علَى سَرِيَّةٍ، وكانَ يَقْرَأُ لأصْحَابِهِ في صَلَاتِهِمْ فَيَخْتِمُ بقُلْ هو اللَّهُ أحَدٌ، فَلَمَّا رَجَعُوا ذَكَرُوا ذلكَ للنبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، فَقالَ: سَلُوهُ لأيِّ شيءٍ يَصْنَعُ ذلكَ؟، فَسَأَلُوهُ، فَقالَ: لأنَّهَا صِفَةُ الرَّحْمَنِ، وأَنَا أُحِبُّ أنْ أقْرَأَ بهَا، فَقالَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: أخْبِرُوهُ أنَّ اللَّهَ يُحِبُّهُ.  

(صحيح البخاري: 7375)

کہ نبی ﷺ نے ایک چھوٹا سا لشکر کہیں بھیجا اور صحابی كو اس لشكر قائد مقرركردیا ،  جب وه لشكر واپس پهنچا تو انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے ہم پر جس شخص کو سردار بنایا تھا وہ ہر نماز کی قرأت کے خاتمہ پر سورۃ «قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ» پڑھا کرتے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”ان سے پوچھو کہ وہ ایسا کیوں کرتے تھے“، پوچھنے پر اس نے کہا کہ یہ سورت رحمان کی صفت ہے مجھے اس کا پڑھنا بہت ہی پسند ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”انہیں خبر دو کہ اللہ بھی اس سے محبت رکھتا ہے‏‏‏‏۔‏‏‏‏“

معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا آسان اور تیز ترین طریقہ سورہ اخلاص کی مستقل مزاجی کے ساتھ تلاوت ہے ۔

شيخ الإسلام ابن تيميہ رحمہ الله کا قول

وهذا يقتضي أن ما كان صفة لله من الآيات فإنه يستحب قراءته، والله يحب ذلك، ويحب من يحب ذلك

(الفتاوى الكبرى:6/328)

یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ آیات جس میں ا للہ کی صفت کا تذکرہ ہے، اس کا پڑھنا مستحب ہے،کیونکہ ایسی آیات کا پڑھنا اللہ کو محبوب ہے اورجو اللہ تعالیٰ کی صفات والی آیات سے محبت کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی ایسے لوگوں سے محبت کرتا ہے۔

تیسری فضیلت:لوگوں میں مقبولیت

جو شخص سورہ اخلاص کی تلاوت پر مداومت اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے دنیا کے اندر لوگوں میں محبوب اور مقبول بنا دیتا ہے،وہ ہر ایک کی آنکھ کا تارا بن جاتا ہے چنانچہ لوگ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ، اسے دیکھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں ۔لوگوں میں مقبولیت ایک ایسی صفت ہے جس سے بہت سے لوگ محروم ہوتے ہیں لیکن اگرکوئی دن رات اور صبح وشام سورہ اخلاص کی تلاوت کو معمول بنا لیں تو اللہ تعالیٰ اس سورت کی برکت سے اسے لوگوں کا محبوب ومقبول ترین انسان بنا دے گا ۔ چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان كرتے هیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

إِذَا أحَبَّ اللہُ العَبْدَ نَادَى جِبْرِيلَ: إنَّ اللہَ يُحِبُّ فُلَانًا فأحْبِبْهُ، فيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ، فيُنَادِي جِبْرِيلُ في أهْلِ السَّمَاءِ: إنَّ اللہَ يُحِبُّ فُلَانًا فأحِبُّوهُ، فيُحِبُّهُ أهْلُ السَّمَاءِ، ثُمَّ يُوضَعُ له القَبُولُ في الأرْضِ.

صحیح البخاری:3209

جب اللہ کسی بندہ سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام کو آواز دیتا ہے کہ اللہ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو۔ جبرائیل علیہ السلام بھی اس  بندےسے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر وہ تمام آسمان والوں میں آواز دیتے ہیں کہ اللہ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے۔ تم بھی اس سے محبت کرو۔ پھر تمام آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد وہ زمین میں بھی (اللہ کے بندوں کا) مقبول اور محبوب بن جاتا ہے۔

یعنی جب اللہ تعالیٰ کی محبت کسی کے ساتھ شامل حال ہوگی تبھی وہ لوگوں کے دلوں میں قابلِ عزت واحترام انسان بنے گا  اور اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا آسان ترین طریقہ سورہ اخلاص کی مستقل تلاوت ہے ۔کیونکہ نبی کریم ﷺ نے اُس شخص کو جوسورہ اخلاص سےحد درجہ محبت کی وجہ سےاپنی ہر نماز میں پڑھتا تھا یہ خوشخبری سنائی کہ انہیں خبر دو کہ اللہ بھی اس سے محبت رکھتا ہے ۔

چوتھی فضیلت:اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ

جو شخص سورہ اخلاص کی تلاوت پر مداومت اختیار کرتا ہے ،اللہ تعالیٰ اُس کے ہرعضو کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔چنانچہ حدیث میں آتا ہےکہ :

وما يَزالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إلَيَّ بالنَّوافِلِ حتَّى أُحِبَّهُ، فإذا أحْبَبْتُهُ، كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذي يَسْمَعُ به، وبَصَرَهُ الَّذي يُبْصِرُ به، ويَدَهُ الَّتي يَبْطِشُ بها، ورِجْلَهُ الَّتي يَمْشِي بها، وإنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، ولَئِنِ اسْتَعاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ، وما تَرَدَّدْتُ عن شَيءٍ أنا فاعِلُهُ تَرَدُّدِي عن نَفْسِ المُؤْمِنِ؛ يَكْرَهُ المَوْتَ، وأنا أكْرَهُ مَساءَتَهُ.

(صحيح البخاري: 6502)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتا ہے۔

امام ابن رجب رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں :

أن العبد المؤمن إذا اجتهد بالتقرب إلى الله بالفرائض ، ثم بالنوافل قرّبه ربه إليه ، ورقّاه من درجة الإيمان إلى درجة الإحسان ، فيصير يعبد الله كأنه يراه ، فيمتلئ قلبه بمعرفة ربه، ومحبته ، وتعظيمه ، وخوفه ومهابته ، وإجلاله ، فإذا امتلأ القلب بذلك زال منه كل تعلق بكل ما سوى الله ، ولم يبق للعبد تعلق بشيء من هواه . ولا إرادة إلا ما يريده منه ربه ومولاه ، فحينئذ لا ينطق العبد  إلا بذكره ، ولا يتحرك إلا بأمره ، فإن نطق نطق بالله ، وإن سمع سمع بالله وإن نظر نظر بالله ، أي بتوفيق الله له في هذه الأمور فلا يسمع إلا ما يحبه الله ، ولا يبصر إلا ما يرضي الله ، ولا يبطش بيده ، ولا يمشي برجله إلا فيما يرضي ربه ومولاه، وليس المعنى : أن الله هو سمعه ، وأن الله هو بصره ، وأن الله هو يده ورجله . ـ تعالى الله ـ فإنه سبحانه فوق العرش ، وهو العالي على جميع خلقه ، ولكن مراده سبحانه : أنه يوفقه في سمعه وبصره ومشيه وبطشه ۔

( جامع العلوم والحكم ، للإمام ابن رجب: 2 / 347)

حدیث کے اس جزء کا معنی یہ ہے کہ بندہ جب فرائض سے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر اس کے بعد نوافل کے ساتھ بھی قرب چاہتا ہے تو اللہ سبحانہ وتعالی اسے اپنا مقرب بنا کر اسے ایمان کے درجہ سے احسان کے درجہ پر فائز کر دیتا ہے تو بندہ اس طرح ہوتا ہے جس طرح کہ وہ اللہ تعالی کو دیکھ رہا ہو۔ جس کی بنا پر اس کا دل اللہ تعالی کی محبت ، معرفت ، تعظیم ، اس کے خوف وڈر اور عظمت وجلال سے بھر جاتا ہے ۔جب دل ن چیزوں سے بھر جائے تو اللہ تعالی کے علاوہ ہر چیز سے تعلق منقطع ہو جاتا ہےاور بندے کا اس کی خواہشات سے تعلق باقی نہیں رہتا اور نہ ہی وہ اپنے ارادے سے کچھ کرتا ہے بلکہ وہ اپنے مولا اور رب کی چاہت پر عمل کرتا ہے۔ اور اس کی زبان سے اللہ تعالی کے ذکر کے علاوہ کچھ نکلتا ہی نہیں ہے ۔ اس کی حرکات وسکنات اللہ تعالی کے حکم سے ہوتی ہیں اور اس کا بولنا اور سننا اور نظر کے ساتھ دیکھنا یہ سب کچھ اللہ تعالی کی توفیق سے ہے ۔تو پھر بندہ  وہی کچھ سنتا ہے جو کہ اس کے رب اور مولا کو پسند ہے اور اسی چیز کودیکھتاہےجو اللہ کو راضی کرے اور ہاتھ سے وہی چیز پکڑتا اور پاؤں سے اسی سمت جاتا ہے جس میں اس کے رب اور مولا کی خوشنودی پنہاں ہوتی ہے ۔

اس حدیث کا یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالی ہی اس کا ہاتھ اور پاؤں اور اس کی آنکھ اور کان ہے – اللہ سبحانہ وتعالی اپنے عرش پر مستوی اور اپنی ساری مخلوق سے بلند وبالا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی اس کے دیکھنے ، سننے اور پکڑنے اور چلنے میں اسے یہ توفیق دیتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کے پسندیدہ کاموں کے علاوہ کچھ نہیں کرتا۔

علامہ خطابی رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں :

کہ اللہ تعالیٰ کا کسی کیلئے کان، آنکھ ،  ہاتھ اور پاؤں بننے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندہ پر ان افعال واعمال کو آسان کر دیتا ہےجن کا تعلق ان اعضاء سے ہے اور اس کو ان اعمال وافعال کے کرنے کی توفیق دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسندیدہ ہوتے ہیں ۔

بریلوی مکتبہ فکر کےعالم مفتی احمدیارخان نعیمی اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:

’’ اس عبارت کا یہ مطلب نہیں کہ خدا تعالیٰ ،ولی میں حُلُول کرجاتا ہے ،جیسے کوئلہ میں آگ یا پُھول میں رنگ و بُو، کہ خدا تعالیٰ حُلُول سے پاک ہے اور یہ عقیدہ کفر ہے بلکہ اس کے چند مطلب ہیں ایک یہ کہ وَلیُ اﷲ کے یہ اَعْضاء، گُناہ کے لائق نہیں رہتے، ہمیشہ ان سے نیک کام ہی سرزد ہوتے ہیں، اس پر عبادات آسان ہوتی ہیں‘‘( اللہ کی محبت کیسے حاصل ہو ، ص : 10 )

پانچویں فضیلت:ایک تہائی قرآن کا اجر

سورہ اخلاص ایک تہائی قرآن یعنی دس پاروں کے برابر ہے اگر کوئی ایک دفعہ پڑھےتوگویا اس نے دس پارےقرآن پڑھا اور اگر کوئی اسے تین مرتبہ پڑھے تو گویا اس نے پورا قرآن پڑھ لیا ۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

أنَّ رَجُلًا سَمِعَ رَجُلًا يَقْرَأُ {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ} يُرَدِّدُها، فَلَمَّا أصْبَحَ جاءَ إلى رَسولِ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم، فَذَكَرَ ذلكَ له، وكَأنَّ الرَّجُلَ يَتَقالُّها، فقالَ رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: والذي نَفْسِي بيَدِهِ، إنَّها لَتَعْدِلُ ثُلُثَ القُرْآنِ

(صحيح البخاري: 5013)

ایک شخص نے کسی کو اس سورت کو پڑھتے ہوئے رات کے وقت سنا کہ وہ بار بار اسی کو دوہرا رہا ہے۔ صبح کے وقت آ کر اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا گویا کہ وہ اسے ہلکے ثواب کا کام جانتا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ سورت مثل تہائی قرآن کے ہے ۔

صحیح بخاری کے اندر آتا ہے کہ نبی كریم ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا:

قالَ النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم لأصْحابِهِ: أيَعْجِزُ أحَدُكُمْ أنْ يَقْرَأَ ثُلُثَ القُرْآنِ في لَيْلَةٍ؟ فَشَقَّ ذلكَ عليهم وقالوا: أيُّنا يُطِيقُ ذلكَ يا رَسولَ اللَّهِ؟! فقالَ: اللَّهُ الواحِدُ الصَّمَدُ؛ ثُلُثُ القُرْآنِ.

( صحيح البخاري: 5015)

کیا تم لوگوں سے یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک رات میں ایک تہائی قرآن پڑھ لو، تو یہ صحابہ بھاری پڑا اور کہنے لگے، بھلا اتنی طاقت تو ہر ایک میں نہیں، آپ نے فرمایا: ” الله الواحد الصمد یعنی سورۃ اخلاص ایک تہائی قرآن ہے۔

سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

  إنَّ اللَّهَ جَزَّأَ القُرْآنَ ثَلاثَةَ أجْزاءٍ، فَجَعَلَ {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ} جُزْءًا مِن أجْزاءِ القُرْآنِ.

( صحيح مسلم : 811)

اللہ تعالیٰ نے قرآن کے تین حصے کیے ہیں «قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ»  قرآن کا تیسرا حصہ ہے ۔

چھٹی فضیلت:ہر قسم کی شر سے حفاظت اور بچاؤ

خرجنا في ليلةِ مَطَرٍ وظُلْمَةٍ شديدةٍ نطلبُ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم لِيُصليَ لنا ، فأدركناه ، فقال : أصليتم ؟ فلم أقلْ شيئًا ، فقال : قلْ . فلم أقلْ شيئًا ، ثم قال : قلْ. فلم أقلْ شيئًا ، ثم قال : قلْ : فقلتُ : يا رسولَ اللهِ، ما أقولُ ؟ قال : قل هو الله أحد والمُعَوِّذَتين حينَ تُمسي وحينَ تُصبحُ ثلاثَ مراتٍ تُكفيك مِن كلِّ شيءٍ.

( صحيح أبي داود: 5082)

سیدنا عبداللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم پیاسے تھے رات اندھیری تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار تھا کہ آپ تشریف لائیں اور نماز پڑھائیں۔ آپ آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر فرمانے لگے پڑھ۔ میں چپکا رہا، آپ نے پھر فرمایا پڑھ۔ میں نے کہا کیا پڑھوں؟ آپ نے فرمایا ہر صبح شام تین تین مرتبہ سورۃ «قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ»، «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ» اور «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ» ۔ یہ سورتیں تمہارے لیے ہر تکلیف و مصیبت میں کافی ہوں گی ۔

سیدنا عبداللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم پیاسے تھے رات اندھیری تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار تھا کہ آپ تشریف لائیں اور نماز پڑھائیں۔ آپ آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر فرمانے لگے پڑھ۔ میں چپکا رہا، آپ نے پھر فرمایا پڑھ۔ میں نے کہا کیا پڑھوں؟ آپ نے فرمایا ہر صبح شام تین تین مرتبہ سورۃ «قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ»، «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ» اور «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ» ۔ یہ سورتیں تمہارے لیے ہر تکلیف و مصیبت میں کافی ہوں گی ۔

یعنی یہ سورت آپ کو ہر قسم کی شرسے محفوظ رکھے گا اور ہر قسم کی برائی اور نقصان سے بچاکر رکھے گا ۔

ساتویں فضیلت:سبب دخول ِجنت

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص (کلثوم بن ہدم) قباء کی مسجد میں لوگوں کی امامت کیا کرتا تھا۔ وہ جب بھی (سورہ فاتحہ کے بعد) کوئی سورت شروع کرتا تو پہلے «قل هو الله أحد‏» پڑھ لیتا۔ پھر کوئی دوسری سورت پڑھتا۔ ہر رکعت میں اس کا یہی عمل تھا۔ اس کے ساتھیوں نے اس سلسلے میں اس پر اعتراض کیا اور کہا کہ تم پہلے یہ سورت پڑھتے ہو اور صرف اسی کو کافی خیال نہیں کرتے بلکہ دوسری سورت بھی ضرور پڑھتے ہو۔ یا تو تمہیں صرف اسی کو پڑھنا چاہئے ورنہ اسے چھوڑ دینا چاہئے اور کوئی دوسری سورت پڑھنی چاہئے۔ اس شخص نے کہا کہ میں اسے نہیں چھوڑ سکتا اب اگر تمہیں پسند ہے کہ میں تمہیں نماز پڑھاؤں تو برابر پڑھتا رہوں گا ورنہ میں نماز پڑھانا چھوڑ دوں گا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ ان سب سے افضل ہیں اس لیے وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے علاوہ کوئی اور شخص نماز پڑھائے۔ جب نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو ان لوگوں نے آپ کو واقعہ کی خبر دی۔ آپ ﷺ نے ان کو بلا کر پوچھا کہ اے فلاں! تمہارے ساتھی جس طرح کہتے ہیں اس پر عمل کرنے سے تم کو کون سی رکاوٹ ہے اور ہر رکعت میں اس سورت کو ضروری قرار دینے کا سبب کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں اس سورۃ سے محبت رکھتا ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس سورۃ کی محبت تمہیں جنت میں لے جائے گی۔ (صحيح البخاري: 775 )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان كرتے هیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ كهیں سے آ رہا تھاتو آپﷺ نے ایک آدمی کو یہ سورت پڑھتے ہوئے سنا : 

فقالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ : وجبَتْ. قلتُ : ما وجبَتْ ؟ قالَ : الجنَّةُ

(صحيح الترمذي: 2897، والنسائي :994)

 تو رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا :’’ واجب ہو گئی ۔‘‘ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! کیا واجب ہو گئی  ؟ آپﷺ نے فرمایا :’’ جنت‘‘ ۔

مسند احمد كی ایك حدیث میں هے كه حضرت انس  رضی الله عنه بیان کرتے ہیں كه ایک آدمی رسول كریم ﷺ كے پاس آكر عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں سورۂ اخلاص سے محبت رکھتا ہوں ، آپﷺ نے فرمایا :’’ اس کی محبت نے تجھے جنت میں پہنچا دیا ۔‘‘ .( صححه شعيب الأرناؤوط في تخريج المسند : 12432)

آٹھویں فضیلت :دعائے مستجاب

حضرت محجن بن ادرع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں داخل ہوئے جب کہ ایک آدمی اپنی نماز مکمل کر چکا تھا اور تشہد کی حالت میں تھا ۔

فقالَ: اللَّهمَّ إنِّي أسألُكَ يا اللَّهُ بأنَّكَ الواحدُ الأحدُ الصَّمدُ ، الَّذي لم يَلِدْ ولم يولَدْ ولم يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ ، أن تغفِرَ لي ذُنوبي ، إنَّكَ أنتَ الغَفورُ الرَّحيمُ ، فقالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ: قَد غَفرَ اللَّهُ لَهُ ، ثلاثًا

(صحيح النسائي: 1302)

تو اس نے دعا کرتے ہوئے کہا : اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس بنا پر کہ تو اكیلا ہے ۔ یکتا اور بے نیاز ہے ، جس نے نہ کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا ، اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے ، کہ تو میرے گناہ معاف فرما دے ۔ بلاشبہ تو ہی بہت زیادہ بخشنے والا ، نہایت رحم کرنے والا ہے ۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا :’’ تحقیق الله تعالیٰ نے اسےمعاف کر دیا ہے۔

نویں فضیلت:بیماریوں سے شفاء

سورہ اخلاص مختلف بیماریوں کیلئے شفاہے۔ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ :

أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم كانَ يَنْفِثُ علَى نَفْسِهِ في مَرَضِهِ الذي مَاتَ فيهِ بالمُعَوِّذَاتِ، فَلَمَّا ثَقُلَ كُنْتُ أنَا أنْفِثُ عليه بهِنَّ، فأمْسَحُ بيَدِ نَفْسِهِ لِبَرَكَتِهَا،

(صحيح البخاري:5735 )

نبی کریم ﷺ اپنے مرض الوفات میں اپنے اوپر معوذات (سورۃ الاخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) پڑھ کردم کیا کرتے تھے۔ پھر جب آپ کے لیے پڑھنادشوار ہو گیا تو میں ان کا دم آپﷺ پر کیا کرتی تھی اور برکت کے لیے نبی کریم ﷺ کا ہاتھ آپ کے جسم مبارک پر بھی پھیر لیتی تھی۔

دسویں فضیلت:دنیاوی آفات سے حفاظت کا ذریعہ

اس سورت کوصبح و شام تین تین بار پڑھنے والا إن شاء اللہ مختلف قسم کی بلاؤں اور آفتوں سے محفوظ رہے گا۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہابیان کرتی ہیں کہ :

أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم كانَ إذا أوَى إلى فِراشِهِ كُلَّ لَيْلَةٍ جَمَع كَفَّيْهِ، ثُمَّ نَفَثَ فِيهِما، فَقَرَأَ فِيهِما: {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ}، و{قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ}، و{قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ}، ثُمَّ يَمْسَحُ بهِما ما اسْتَطاعَ مِن جَسَدِهِ، يَبْدَأُ بهِما علَى رَأْسِهِ ووَجْهِهِ وما أقْبَلَ مِن جَسَدِهِ، يَفْعَلُ ذلكَ ثَلاثَ مَرَّاتٍ.

( صحيح البخاري: 5017)

نبی کریم ﷺرات کے وقت جب بستر پر جاتے تو ہر رات تینوں سورتوں کو پڑھ کر اپنی دونوں ہتھیلیاں ملا کر ان پر دم کر کے اپنے جسم مبارک پر پھیر لیا کرتے جہاں تک ہاتھ پہنچتے پہنچاتے، پہلے سر پر، پھر منہ پر، پھر اپنے سامنے کے جسم پر، اس طرح تین مرتبہ کرتے۔

گیارہویں فضیلت:اسم اعظم

سمعَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ رجلًا يدعو وَهوَ يقولُ: اللَّهمَّ إنِّي أسألُكَ بأنِّي أشهدُ أنَّكَ أنتَ اللَّهُ لا إلَهَ إلَّا أنتَ الأحدُ الصَّمدُ، الَّذي لم يلِدْ ولم يولَدْ ولم يَكُن لَهُ كفوًا أحدٌ، قالَ: فقالَ: والَّذي نَفسي بيدِهِ لقد سألَ اللَّهَ باسمِهِ الأعظمِ الَّذي إذا دُعِيَ بِهِ أجابَ، وإذا سُئِلَ بِهِ أعطى ‏‏‏‏

(صحيح الترمذي: 3475، وصحیح ابوداود:1493)

نبی ﷺ نے ایک شخص کودعا مانگتے ہوئے سنا ، وہ کہہ رہا تھا «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلك بِأَنِّي أَشْهَد أَنْ لَا إِلَه إِلَّا أَنْتَ الْأَحَد الصَّمَد الَّذِي لَمْ يَلِد وَلَمْ يُولَد وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَد» یعنی اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس بات کی گواہی دے کر کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو اکیلا ہے بےنیاز ہے نہ اس کے ماں باپ نہ اولاد نہ ہمسر اور ساتھی کوئی اور۔ آپ ﷺیہ سن کر فرمانے لگے ”اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس نے اسم اعظم کے ساتھ دعا مانگی ہے اللہ کے اس بڑے نام کے ساتھ کہ جب کبھی اس نام کے ساتھ سوال کیا جائے تو عطا ہو اور جب کبھی اس نام کے ساتھ دعا کی جائے تو قبول ہو۔‏‏‏‏“

بارہویں فضیلت:افضل ترین سورت

حدیث میں آتاہے کہ رسول كریم ﷺ سورہ اخلاص اور سورہ کافرون کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ :

نعمَ السورتانِ هما تُقْرآنِ في الركعتينِ قبلَ الفجرِ : قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ، وَ قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ 

(2461:صحيح الجامع: 6773،وصححه شعيب الأرناؤوط في تخريج صحيح ابن حبان)

یعنی وہ دو سورتیں کتنی اچھی ہیں ، جو فجر کی سنتوں میں پڑھی جاتی ہیں : « قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ » اور « قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ »

تیرہویں فضیلت:سورہ اخلاص جیسی کوئی سورت نہیں

 سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

يا عقبةُ أَلا أُعَلِّمُكَ سوَرًا ما أُنْزِلَتْ في التوراةِ و لا في الزَّبُورِ و لا في الإنْجِيلِ و لا في الفرقانِ مثلهُنَّ ، لا يأْتِيَنَّ عليكَ لَيْلَةٌ إلَّا قرأْتَهُنَّ فيها ، قُلْ هُوَاللهُ أحدٌ و قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ و قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ

(السلسلة الصحيحة : 2861)

اے عقبہ بن عامر! کیا میں تمہیں ایسی سورتیں نہ سکھاؤں جو نہ تورات میں ہیں، نہ زبورمیں، نہ انجیل میں اور نہ قرآن میں ان جیسی سورتیں نازل ہوئی ہیں۔ تم ہر رات اس تینوں سورتوں، (سورۃ الاخلاص، سورۃ الفلق، سورۃ الناس) کو پڑھ لیا کرو۔

دوسری روایت میں آتا ہے :

ثمَّ قال: يا عُقْبةُ، لا تَنْساهُنَّ، ولا تَبِتْ لَيلةً حتى تَقرأَهُنَّ. قال: فما نَسِيتُهُنَّ قَطُّ مُنذُ قال: لا تَنساهُنَّ، وما بِتُّ لَيلةً قَطُّ حتى أَقرأَهُنَّ.

(حسّنه شعيب الأرناؤوط في تخريج المسند : 17334 )

 پھر آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: ”دیکھو عقبہ! انہیں نہ بھولنا اور ہر رات انہیں پڑھ لیا کرو۔‏‏‏‏“ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کہ میں نہ کبھی ان سورتوں کو بھولا اور نہ کوئی رات ان کے پڑھے بغیر گزاری۔‏‏‏‏“

چودہویں فضیلت:نبی کریم ﷺ کی پسندیدہ سورت

دو سورتیں یعنی سورہ اخلاص اور سورہ کافرون نبی کریم ﷺ کو اس قدر پسند تھیں کہ آپ ﷺ ان دونوں سورتوں کو صبح شام نمازوں میں، وتر کی نماز میں اور طواف کی نماز میں پڑھا کرتے تھے ۔

فجر کی سنت نماز میں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

قَرَأَ فِي رَكعَتَي الفَجرِ “قُلْ يَا أَيُّهَا الكَافِرُونَ ” و ” قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ” ۔

( صحیح مسلم :726)

کہ نبی ﷺنےفجر کی سنت نماز میں “قُلْ يَا أَيُّهَا الكَافِرُونَ ” اور ” قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ” کی قرات کی ۔

مغرب کی سنت نماز میں

حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:

: رَمَقتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ عِشرِينَ مَرَّةً يَقرَأُ فَي الرَّكعَتَينِ بَعدَ المَغرِبِ ، وَفِي الرَّكعَتَينِ قَبلَ الفَجرِ ” قُلْ يَا أَيُّهَا الكَافِرُونَ ” و ” قُلْ هُوَ اللہُ أَحَدٌ ” ۔

(صحيح النسائي: 991)

کہ میں نے نبی ﷺ کو بیس مرتبہ دیکھا کہ آپ مغرب کی فرض نماز کے بعد دورکعت سنت نماز میں اور فجر کی فرض نماز سے پہلے دورکعت سنت نماز میں ” قُلْ يَا أَيُّهَا الكَافِرُونَ ” اور ” قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ “تلاوت کرتے تھے ۔

اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ:

ما أُحصي ما سمِعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : يقرأُ في الرَّكعتَيْن بعد المغربِ ، وفي الرَّكعتَيْن قبل صلاةِ الفجرِ ب قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ و قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ

(صحيح الترمذي : 431)

میں شمار نہیں کر سکتا کہ میں نے کتنی بار رسول اللہ ﷺ کو مغرب کے بعد کی دونوں رکعتوں میں اور فجر سے پہلے کی دونوں رکعتوں میں «قل يا أيها الكافرون» اور «‏‏قل هو الله أحد» پڑھتے سنا۔

وتر کی نماز میں

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ :

يوترُ  بسبِّحِ اسمَ ربِّكَ الأعلى ، وقل يا أيُّها الْكافرون ، وقل هوَ اللَّهُ أحدٌ.(صحيح ابن ماجه: 969)

(صحيح ابن ماجه: 969)

وتر میں: «سبح اسم ربك الأعلى»، «قل يا أيها الكافرون»  اور «قل هو الله أحد»  پڑھتے تھے۔

طواف کی دو رکعت نماز میں

آپﷺ طواف کے بعد دو رکعتوں میں بھی یہ سورت تلاوت فرمایاکرتے تھے۔ چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ:

أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَرَأَ فِي رَكْعَتَيِ الطَّوَافِ بِسُورَتَيِ الْإِخْلَاصِ: قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ، وَقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ

(صحيح ابن ماجة: 3074)

رسول اللہ ﷺ نے طواف کی دو رکعت میں اخلاص کی دونوں سورتیں یعنی «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو الله أحد» پڑھیں ۔

سوتے وقت

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺجب اپنے بستر پر تشریف لے جاتےتو ”سورۃ الاخلاص“، ”سورۃ الفلق“ اور ”سورۃ الناس“ پڑھ کر اپنی ہتھیلیوں پر دم کرتے۔ پھر انہیں اپنے چہرہ پر ملتے اور جہاں تک جسمِ اطہر پر ہاتھ پہنچتے وہاں تک ہاتھ پھیرتے۔ (صحيح البخاري: 5748)

پندرہویں فضیلت:پناہ مانگنے کی بہترین دعا

حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں ایک جنگی سفر میں آپ کی سواری کی مہار پکڑ کر آگے آگے چل رہا تھاتو آپ ﷺ نے فرمایا:

يا عقبةُ قُل فاستمعتُ ثمَّ قالَ يا عقبةُ قل فاستمعتُ ، ثمَّ قالَ : يا عقبةُ قل فاستمعتُ فقالَها الثَّالثةَ ، فقلتُ : ما أقولُ ؟ فقالَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ فقرأَ السُّورةَ حتَّى ختمَها ثمَّ قرأَ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ وقرأتُ معَهُ حتَّى ختمَها ثمَّ قرأَ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ فقرأتُ معَهُ حتَّى ختمَها ثمَّ قالَ ما تعوَّذَ بمثلِهنَّ أحدٌ

(صحيح النسائي: 5445)

اےعقبہ! کہو“، میں آپ کی طرف متوجہ ہوا، پھر آپﷺ نے فرمایا: ”عقبہ! کہو“، میں پھر متوجہ ہوا۔ پھر آپﷺ نے تیسری بار فرمایا تو میں نے عرض کیا: کیا کہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: «قل هو اللہ أحد» پھر پوری سورت پڑھی، اس کے بعد «قل أعوذ برب الفلق‏» پوری پڑھی، میں نے بھی آپﷺ کے ساتھ پڑھی، پھر آپﷺ نے «قل أعوذ برب الناس» پوری پڑھی اور میں نے بھی آپ کے ساتھ پڑھی، اور پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ” کسی شخص نے ان جیسی سورتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل نہیں کی ۔‘‘ 

سولہویں فضیلت:ادیانِ باطلہ کا رد

سورہ اخلاص میں تمام ادیانِ باطلہ یعنی یہودیت،عیسائیت ، مجوسیت ،مشرکین،مجسمہ ، مشبہہ ،حلولیہ اور اتحادیہ کا رد ہے ۔

﴿قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ﴾ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے وجود کے منکرین کا رد ہے کیونکہ لفط ’’ ھو ‘‘ ذات پر دلالات کرتا ہے۔یعنی وہ ہستی جسے قرآن ’’ اللہ ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے وہ حقیقت میں بھی موجود ہے ،اس ذات کا وجود وہمی اور خیالی نہیں ہے ۔

﴿قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ﴾ اسی آیت میں ان لوگوں کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ بندہ جب زیادہ عبادت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس میں اتر آتا ہے، پھر وہ اللہ ہی بن جاتاہے۔ حالانکہ بخاری شریف میں حدیث کے واضح الفاظ ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرا  بندہ اگر مجھ سے مانگے تو میں اسے دوں گا اور اگر مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں اسے پناہ دوں گا۔اگراللہ اور بندہ ایک ہوگئے تو پھر مانگنے والا کون ہوگا اوردینے والا کون ہوگا ؟ اسی طرح پناہ مانگنے والا کون ہوگا اور پناہ دینے والا کون ہوگا؟

﴿قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ﴾  اس آیت کے لفط ’’ أحد ‘‘ میں مشرکوں کا رد ہے یعنی اللہ ایسا’’ ایک‘‘ ہے ، کہ اس جیسا کوئی دوسرا نہیں ہے یعنی یکتا  لا نظیر لہ  ولا مثیل لہ ولا شریک لہ ہے ۔

﴿قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ﴾  اسی آیت میں مجوسیوں کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ خدا دو ہیں ، ایک خیر کا خالق ہے اور دوسرا شر کا خالق ہے ۔

﴿قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ﴾  اسی آیت میں عیسائیوں کا بھی رد ہے جو تین خداؤں یعنی عقیدہ تثلیث کے قائل ہیں ۔

﴿قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ﴾  اسی آیت میں ہندؤوں کا بھی رد ہے جو کروڑوں دیوتاؤں کو خدائی میں حصہ دار مانتے ہیں ۔

﴿قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ﴾  اس آیت میں ان لوگوں کا بھی رد ہے جو عقیدہ وحدت الوجود کے قائل ہیں ،جوہر چیز کو اللہ مانتے ہیں ۔کیونکہ اگر ہر چیز اللہ ہے یا ہر چیز میں اللہ ہے تو اللہ ایک تو نہیں رہا  ، جبکہ اللہ تو ایک ہے ، اس میں تعدد اور کثرت نہیں ہے۔

﴿اللَّہُ الصَّمَد﴾ عربی میں ’’ صمد ‘‘ اس کو کہتے ہیں جس سے سب لوگ اپنی مشکلات میں مدد لینے کے لیے رجوع کرتے ہوں، اور سب اس کے محتاج ہوں، اور وہ خود کسی کا محتاج نہ ہو۔ اس آیت میں اُن لوگوں ردہے جو اللہ تعالیٰ کو ماننے کے باوجود کسی اور کو اپنا مشکل کشا اور حاجت روا کار ساز قرار دیتے ہیں۔

﴿لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ﴾ اس آیت میں یہودیوں، عیسائیوں اور مشرکوں کا رد ہے ۔ یہودی کہتے ہیں کہ عزیر علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں ۔ عیسائی کہتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں ۔ مشرکینِ مکہ کہتے تھے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں ۔ اسی طرح ان لوگوں کا بھی رد ہے جو کہتے ہیں محمد ﷺ  اللہ کے نور سے پیدا ہوئے ہیں ۔ کیونکہ ان تمام صورتوں میں کوئی نہ کوئی ہستی اللہ تعالیٰ کی شریک ٹھہرتی ہے اور اللہ ایک نہیں رہتا  ۔

چنانچہ حدیث قدسی میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

قالَ اللَّهُ: كَذَّبَنِي ابنُ آدَمَ ولَمْ يَكُنْ له ذلكَ، وشَتَمَنِي ولَمْ يَكُنْ له ذلكَ، فأمَّا تَكْذِيبُهُ إيَّايَ فَقَوْلُهُ: لَنْ يُعِيدَنِي، كما بَدَأَنِي، وليسَ أوَّلُ الخَلْقِ بأَهْوَنَ عَلَيَّ مِن إعادَتِهِ، وأَمَّا شَتْمُهُ إيَّايَ فَقَوْلُهُ: اتَّخَذَ اللَّهُ ولَدًا وأنا الأحَدُ الصَّمَدُ، لَمْ ألِدْ ولَمْ أُولَدْ، ولَمْ يَكُنْ لي كُفْئًا أحَدٌ.

( صحيح البخاري: 4974)

’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ اس کے لیے یہ مناسب نہ تھا۔ اس نے مجھے گالی دی حالانکہ یہ اس کا حق نہیں تھا۔ مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ (ابن آدم) کہتا ہے کہ میں اسے دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا جیسا کہ میں نے اسے پہلی دفعہ پیدا کیا تھا۔ حالانکہ میرے لیے دوبارہ پیدا کرنا اس کے پہلی مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ مشکل نہیں ہے ۔ اس کا گالی دینا یہ ہے کہ ابن آدم کہتا ہے کہ اللہ نے اپنا بیٹا بنایا ہے حالانکہ میں ایک ہوں۔ بےنیاز ہوں نہ میرے لیے کوئی اولاد ہے اور نہ میں کسی کی اولاد ہوں اور نہ کوئی میرے برابر ہے۔

﴿وَلَمْ یَکُن لَّہُ کُفُوًا أَحَدٌ﴾ کفو کے لفظی معنی مثل اور مماثل کے ہیں۔ یعنی نہ کوئی اس کا مثل ہے اور نہ کوئی اس سے مشابہت رکھتا ہے۔اس آیت میں اُن لوگوں کا رد ہے جو اللہ تعالی کی کسی بھی صفت میں کسی اور کی برابری کے قائل ہیں ۔  جیسےبعض مجوسیوں کا کہنا یہ تھا کہ روشنی کا خالق کوئی اور ہے اور اندھیرا کا خالق کوئی اور ہے۔

الغرض:  یہ ایسی مبارک سورت ہے کہ اللہ کی توحید کے خلاف جتنے عقیدے ہیں ، اس مختصر سی سورت نے ان تمام باطل عقیدوں اور شرک کی تمام صورتوں کو باطل قرار دے کر خالص توحید ثابت کی ہے۔

خلاصہ کلام

مذکورہ احادیث سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سورہ اخلاص کی کتنی فضیلتوں اور عظمتوں والی ہے اور اس کی تلاوت کے کس قدر فوائد اور برکات ہیں۔ان فضائل وبرکات کا حصول ہر مسلمان مردوزن کے لیے آسان ہے،کیونکہ بحمد الله! یہ سورت ہر کسی کو یاد ہے ۔لہذا اس سورت کو ہمہ وقت پڑھنے کی عادت ڈالیں جس طرح نبی کریم ﷺ کا روزانہ کا معمول تھا ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن پاک کی تلاوت کرنے ، اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔

الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ: