انعامی اسکیموں کی مختلف صورتوں کی وضاحت :
آج کل ایک نیا رجحان پیدا ہوا ہے کہ لوگ خریداری کے لئے بڑے شاپنگ ما لز یا اسٹورز میں جاتے ہیں جیسے “امتیاز سپر اسٹور”یا دیگر شاپنگ مالز۔ لوگوں کے اِس رجحان کو دیکھتے ہوئے کچھ کمپنیاں اپنی پروڈکٹ کی طرف صارف کو راغب کرنے کے لئے اُس پروڈکٹ کے ساتھ کوئی انعامی کوپن یا کوئی اور انعامی چیز منسلک کردیتے ہیں ۔ یہ طریقہ پہلے بھی استعمال ہوتا تھا اور محلے کی دکانوں پر بھی وہ کمپنیاں اپنی پروڈکٹ رکھواتی ہیں پر مالز یا اسٹورز میں اس کے لئے باقاعدہ اسٹال یا کاؤنٹر بنادئیے جاتے ہیں ۔
یا پھر شاپنگ مالز اور سپر اسٹورز خود اس طرح کی اسکیم متعارف کرواتے ہیں کہ اگر آپ پانچ ہزار یا دس ہزار روپے تک کی خریداری کرتے ہیں تو آپ کسی انعام(عمرے کا ٹکٹ یا گاڑی)کی قرعہ اندازی میں شامل ہوجائیں گے۔تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شریعت کی نظر میں اِس کا کیا حکم ہے؟
مذکورہ انعامی اسکیموں میں موجود قباحتیں:
پہلی قباحت :
سب سے پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شریعت میں ایک چیز کا ذکر ہے جسے عربی زبان میں “قمار” کہا جاتا ہے اور یہی لفظ اُردو زبان میں جسے عام طور پر جوا کہتے ہیں ۔جس میں دو فریق کسی طرح کے لین دین میں شامل ہوتے ہیں یا کسی ایسے معاہدے کا حصہ بنتے ہیں جس میں دونوں پارٹیز کو یہ معلوم نہیں ہوتا ہے کہ منافع میں کون رہے گا اور نقصان میں کون رہےگا پھر یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا انجام یا اختتام کیا ہوگا۔
یہ بنیادی طور پر جوئے کی ایک صورت ہے جس کے بارے میں علماء نے یہ کہا ہے کہ’’ مستور العاقبة ‘‘ یعنی ایسی چیز جس کے انجام کا علم نہ ہو کہ کون منافع حاصل کرے گا اور کون نقصان اٹھائے گا۔
دوسری قباحت :
دوسری طرف سپر اسٹور ز (Super Stores) جیسے امتیا ز سپر اسٹور ز کی طرف سے کوئی انعامی اسکیم متعارف ہوتی ہے اور اس میں شامل ہونے کے لئے ان کی طرف سے ایک شرط یہ ہوتی ہے کہ اگر آپ پانچ ہزار یا اس سے زائد رقم کی خریداری کرتے ہیں تو آپ اِس اسکیم کا حصہ بن سکتے ہیں ۔پھر جب صارف اُس شرط کو مکمل کرلیتا ہے تو اسٹور کی جانب سے اُس صارف کا انعام یقینی ہونا چاہیئے ۔اگر ایسا نہیں ہے اور آپ وہ مخصوص رقم خرچ کرنے کے بعدقرعہ اندازی میں شامل ہوتے ہیں تو آپ کو انعام کا ملنا یا نہ ملنا غیر یقینی ہوتا ہےجو کہ صراحتا ً جوا ہے۔
مثال کے طور پر :
” ایوری ڈے ” (Every day)ایک پروڈکٹ ہے جو کہ خشک دددھ ہے اور چائے وغیرہ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اب اگر کمپنی ایک پیکٹ کے ساتھ ایک چائے کا کپ انعام کے طور پر رکھ دیتی ہے تو یہ ایک یقینی انعام ہے۔لیکن دوسری طرف اگر کمپنی کہتی ہے کہ اِس طرح کے پانچ یا دس پیکٹ خریدنے پر آپ ایک انعامی قرعہ اندازی میں شامل ہوجائیں گے۔پھر صارف اس انعام کو حاصل کرنے کے لئے وہ پیکٹس خریدلیتا ہے تو یہ جوا ہوجائے گا۔یا اسی طرح اگر “یو فون”یا “جیز” کی طرف سے صارف کے لئے یہ آفر آتی ہے کہ اگر وہ 200 روپے کا بیلنس تین دن میں استعمال کرے گا تو اسے عمرے کے ٹکٹ کی قرعہ اندازی میں شامل کر لیا جائے گا تو یہ طریقہ کار بھی جوا بن جائےگا۔کیونکہ اس میں صارف کو انعام کا ملنا یا نہ ملنا غیر یقینی ہے۔
اس کے برعکس اگر “Jazz”کمپنی کہے کہ ہم اپنے تمام کسٹمرز کو عمرے کی قرعہ اندازی میں شامل کرتے ہیں یا “امتیاز سپر اسٹورز”والے کہیں کہ ہم اپنے تمام صارفین کو گاڑی کی قرعہ اندازی میں شامل کرتے ہیں اور اس کے لئے کسٹمر پر کوئی شرط نہیں ہوگی، پھر چاہے کوئی پانچ روپے کی خریداری کرے یا پانچ ہزار کی، سب اس قرعہ اندازی میں شامل ہوں گے۔ اِسی طرح جیز کمپنی کے صارفین پر بھی بیلنس کی مد میں کوئی رقم خرچ کرنے کی پابندی نہ ہو گی تو یہ جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔
خلاصہ :
مختصراً یہ کہ اگر کسی انعامی اسکیم میں شامل ہونے کےلئے آپ کو کوئی مخصوص رقم خرچ کرنی پڑتی ہے اور اس کے بعد بھی آپ کو انعام کا ملنا یقین نہیں ہوتا تو وہ جوا ہے جو کہ حرام ہے ۔ البتہ اگر آپ بنا رقم خرچ کئے کسی ایسی اسکیم میں شامل کئے جارہے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں یا قرعہ اندازی میں انعام نکل آنے کی صورت میں انعام کو حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں یہ جائز ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو حلال اختیار کرنے کی اور حرام سے بچنے کی توفیق عطا ء فرمائے ۔ آمین