شرعی عدالت کے ریٹائرڈچیف جسٹس کے ریمار کس انسداد سود مشیر وفاقی شرعی عدالت پاکستان،نگران شعبہ تحقیق وتصنیف المدینہ اسلامک ریسرج سینٹر کراچی کی کوششوں کی ناکامی کی المناک کہانی
10 اپریل 2017 کی اخبارات میں وفاقی شرعی عدالت کے موجودہ چیف جسٹس جناب ریاض احمد خاں کے یہ ریمارکس شائع ہوئے ہیں کہ’’سود کی ممانعت کے وقت کی معیشت اورآج کی معیشت میں فرق ہے۔اس وقت کے نظام کو آج کے وقت میں کیسے نافذ کیا جاسکتا ہے؟‘‘۔
موصوف نے یہ ریمارکس ملک بھر میں سودی نظام کے خاتمے سے متعلق شرعی عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران میں دیئے۔
اس مقدمے کی سماعت چار رکنی بنچ نے کی،اس موقع پر چیف جسٹس نےیہ بھی کہا کہ’’ربا،سود اور انٹرسٹ تین مختلف لفظ ہیں۔کیا یہ تینوں ہم معنیٰ ہیں یا ان میں فرق ہے؟اس سوال سے موصوف کا مقصد ان تینوں الفاظ کا مفہوم و معنی ایک دوسرے سے مختلف باورکرانا تھا۔چنانچہ انہوں نے یہ کہہ کر کہ ’’موجودہ دور میں انٹرسٹ کی تعریف سود نہیں بلکہ نقصان کا ازالہ ہے‘‘۔ اس کی طرف واضح اشارہ بھی فرمادیا ۔ یہ وہ مختصر تفصیل ہے جو اس مقدمےکی اخبارات میں شائع ہوئی ہے،اس سماعت کے بعد اس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دی گئی ہے۔
یہ مقدمہ کیا ہے؟
اس سے قبل کہ ہم اس مقدمے کی ابتدائی سماعت کے وقت محترم چیف جسٹس صاحب کے ریمارکس پر کچھ عرض کریں،مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم قارئین کو یہ بتلائیں کہ یہ مقدمہ ہے کیا؟
اس مقدمے کا پس منظرا اور اس کی ضروری روداد بیان کرنا اس لئے ضروری ہے کہ اس کے بغیر حکومت کی وہ بدنیتی یا عدم دلچسپی واضح نہیں ہوسکتی جو پاکستانی حکومت خاتمۂ سود کے لئے اپنی آئینی اورشرعی ذمہ داری کی ادئیگی میں مسلسل پہلو تہی اختیار کرتی آرہی ہےاور اس کی یہ کوتاہی تاحال جاری ہے۔
حکومت کی یہ آئینی اورشرعی ذمہ داری کیوں ہے؟
سود کا خاتمہ،حکومت کی آئینی ذمہ داری اس لئے ہے کہ پاکستان کے تینوں آئینوں میں ،پہلے آئین 1956ء،دوسرے ایوب خان کے آئین 1962ء،اورتیسرے آئین 1973ء میں اس بات کی ضمانت دی گئی اور اس بات کا عزم ظاہر کیا گیا تھا کہ حکومت پاکستان نظام معیشت سے سود کی لعنت کو ختم کرنے کے لئے بھرپور کوشش کرےگی،حکومت جس قدر جلدممکن ہوسکے،ربا کو ختم کرےگی۔
شرعی ذمہ داری یہ ہے کہ قرآن کریم میں سودی نظام پر اصرار اور تسلسل کو اللہ اور اس کےرسول ﷺکے ساتھ جنگ قراردیا گیاہے۔بنا بریں کسی بھی مسلمان حکمران کے لئےانسداد سود کی کوششوں سے بے اعتنائی کا کوئی جواز نہیں ہے۔
غفلت اور بے اعتنائی کی المناک روداد
مستند علمائے کرام کو نمائندگی دی گئی۔اس ادارے کے منصبی فرائض میں یہ بات شامل کی گئی کہ یہ ادارہ ایسی تجاویز مرتب کرے گاجن پر عمل کر کے پاکستان کے عوام کی زندگیوں کو اسلامی سانچے میں ڈھالا جاسکے۔چنانچہ 3 دسمبر 1969ء کو اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی آئینی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے ایک رپورٹ تیار کی جس میںاتفاق رائےسے اس امر کا اظہارکیا گیا کہ’’ربا اپنی ہر صورت میں حرام ہے اور شرح سود کی کمی بیشی سود کی حرمت پر اثر انداز نہیں ہوتی۔مزید یہ کہ موجودہ بینکاری نظام کے تحت افراد،اداروں اور حکومتوں کے درمیان قرضوں اور کاروباری لین دین میں اصل رقم پرجو اضافہ یابڑھوتری لی یا دی جاتی ہے،وہ ربا کی تعریف میں آتی ہے۔سیونگ سرٹیفیکیٹس میں جو اضافہ دیا جاتا ہے،وہ بھی ربا میں شامل ہے اور اس کے ساتھ صوبوں،مقامی اداروں اور سرکاری ملازمین کو دیئے گئے قرضوں پر اضافہ بھی سود ہی کی ایک قسم ہے۔لہذایہ تمام صورتیں حرام ہیں اور ممنوع ہیں‘‘۔
نظریاتی کونسل کی یہ سفارشات سودی نظام کے خاتمے کے لئےنہایت جامع تھیں اور ایک آئینی ادارہ ہونے کے اعتبار سے یہ ضروری تھاکہ ان سفارشات کو پارلیمنٹ میں پیش کیاجاتااور اس کے مطابق انسداد سود کے لئے مناسب قانون سازی کی جاتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
کونسل کی مرتب کردہ اس رپورٹ کے8 سال بعد 1977ء میں صدر جنرل ضیاءالحق نے کونسل کو ہدایت کی کہ وہ ضروری تحقیق اور تفتیش کے بعد ایسے طریقے بھی تجویز کرے کہ جن کو اپنا کر سود جیسی لعنت کا خاتمہ کیا جاسکے۔
حالانکہ اصولی طور پر یہ کام پارلیمنٹ کا تھا،کونسل نے تو نہایت جامع انداز سے ایک رپورٹ مرتب کر کے ساری صورت حال واضح کردی تھی۔بہرحال کونسل نے مزید اتمام حجت کے لئے بنک کے ماہرین،اقتصادیات کے ماہرین اور علماء سے طویل گفتگو اور بحث و مباحثہ کے بعد 25 جون 1980ء کو اپنی رپورٹ صدر ضیاء الحق کے سامنے پیش کردی ۔اس رپورٹ میں سود کو ختم کر کے اس کے متبادل نظام کی جملہ تفصیلات درج تھیں اور کہاگیا کہ ان تجاویز پر عمل درآمد سے دو سال کے اندر اندر پاکستان کی معیشت سود سےمکمل پاک ہوسکتی ہےلیکن حکومت اوراس پر مسلط کردہ بیورو کریسی نے صدق دلانہ طور پر کونسل کے بتلائے ہوئے طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا،البتہ اپنے طور پرکچھ ایسے نیم دلانہ اقدامات کیے جس سے یہ تاثر یا مغالطہ دیا جاسکے کہ حکومت نےاس کام کا آغاز کردیا ۔اور یہ اقدامات وہی تھےجو بینکوں میں غیر سودی کھاتوں کےنام سے بھی ایک ایک شعبہ کھول دیا گیا۔اول تو یہ سودی کھاتوں کے ساتھ ساتھ ایک غیر سودی کھاتےکانظام بھی،سودی نظام کے خاتمے کے لئے متبادل نظام نہیں تھا۔دوسرے غیرضروری کھاتے میںنئی اصطلاحات متعارف کرائی گئیں،مثلاََ مضاربہ،مشارکہ، مرابحہ اور بیع موجل وغیرہ۔یہ اصطلاحات بظاہر شرعی اور فقہی تھیں جس سےیہ تاثر دیا گیا کہ سودی صورتوں کے مقابلے میں غیر سودی طریقے اختیار کر لئے گئے ہیں،تاہم حقیقت اس کے برعکس تھی،یہ صرف ناموں اور اصطلاحات کا ہیر پھیر تھا اور ان کھاتوں کے اندر بھی سودی روح ہی کار فرما تھی۔چنانچہ نظریاتی کونسل نے ،جس نے بڑی محنت سے سودسے بچاؤ کے طریقےتجویزکر کےحکومت کو دئیےتھے،صورتحال کو دیکھتے ہوئے کہ بقول فیض
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
ایک نئی رپورٹ تیار کی گئی جس میں اپنی رپورٹ کی پامالی اور ناقدری پر اظہار افسوس کرتے ہوئےکہا گیا :
کونسل نے 81-1980ء میں کئےجانےوالے ان اقدامات کاجائزہ لیا جوحکومت نے اسلامی نظام معیشت کے نفاذ کے سلسلے میں انجام دئے ہیں۔ان میں خاتمہ ٔ سود کے لئے کئے جانے والے اقدامات ان سفارشات کے بالکل برعکس ہیںجوکونسل نے تجویز کئے۔۔۔۔حکومت نے وہ طریق استعمال کیا کو مقصد کو فوت کرنے کاسبب بن گیا ہے‘‘۔
اس وقت کے بعض ممبران کونسل نے راقم جو بتلایا کہ جب صدر جنرل ضیاء الحق صاحب کے سامنے بعض حضرات نے شکوہ کیا تو موصوف نے کہا کہ وہ کوششیں کریں گےکہ بینکاروںاور سودی خاتمے کی رپورٹ تیار کرنے والوںکی باہم ملاقات کروائیں تاکہ باہم تبادلہ خیالات سےکوئی بہتر صورت نکل سکےلیکن مرحوم صدر کی طرف سے اس تجویز پر عمل در آمد کی کوئی صورت سامنے نہیں آئی۔اور سودی نظام اپنی جدیداور قدیم صورتوں کے ساتھ جاری و ساری رہا۔اور کونسل کی ساری محنت بھی رائیگاںہی گئی۔
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
عدالت کے ذریعے دوسری کوشش اور حکومت کی وہی’’نہ مانوں‘‘کی پالیسی
1990ء میں ایک شخص محمودالرحمٰن فیصل نے وفاقی شرعی عدالت میں ایک درخواست دی کہ رائج الوقت سودی نظام معیشت کو غیر اسلامی قرار دے کر اس پر پابندی عائد کی جائے اور حکومت کو ہدایت کی جائے کہ پاکستان کے معاشی نظام سے سود جیسی لعنت کا خاتمہ کیا جائے۔عدالت نے اس کیس سے ملتے جلتے114دیگر کیسوں کی مشترکہ سماعت کی۔اس مقدمے میں شرعی عدالت نے بینکاروں،ماہرین اقتصادیات،حکومتی نمائندں اور علماء کو تفصیلی طور پر سنا اور موضوع سے متعلقہ تمام اہم مباحث کو زیر غور لایا گیا اور تحریری اور زبانی بیانات حاصل کئے اور اکتوبر 1991ء میں 157 صفحات پر مشتمل اپنا تاریخی فیصلہ سنایا۔فیصلہ کرنے والے اس میں جسٹس تنزیل الرحمٰن بطور چیف جسٹس،جسٹس فدا محمد خان اور جسٹس عبید اللہ خاں شامل تھے۔
شرعی عدالت نےاپنے فیصلے میں نہ صرف یہ کہ سود کہ ایسی تعریف متعین کی جسے معیار بنا کرمروجہ نظام معیشت میں پائے جانے والےسودی معاملات اورآئین اور دستور میں مذکور سودی دفعات کا جائزہ لیا جاسکتاتھا بلکہ رائج تمام سودی قوانین(22 قوانین)کاجائزہ لے کر بینکنگ سمیت تمام سودی لین دین کو حرام قرار دیااور وفاقی حکومت اور تمام صوبوں سے بھی کہا کہ وہ30 جون 1992ء تک متعلقہ قوانین میں تبدیلی کرلیںاور یہ بھی کہا کہ یکم جولائی 1992 ء سےتمام سودی قوانین غیر آئینی ہوجائیں گےاور تمام سودی کاروبار غیر اسلامی ہونے کی بنا پر ممنوع قرار پائے گا۔
یہ تاریخ ساز فیصلہ دستوراور آئین کے تقاضوں کے مطابق بھی تھااورعوام کی خواہشات کے مطابق بھی۔اس لئے اس فیصلے کو ہر سطح پر سرا ہا گیااور عوام کی امنگوں کا مظہر قرار دیا گیا۔لیکن ظاہر بات کہ حکومت جو اندرونی اور بیرونی قرضوں میںبری طرح جکڑی ہوئی ہےاور اس سے نکلنے کی آرزو اور خواہش بھی نہیں رکھتی،علاوہ ازیں اس ظالمانہ نظام سے اس کےاوراسی کےحوالی موالیوں کے بہت سے مفادات بھی وابستہ ہیں،اس کے لئے یہ فیصلہ قطعاََ ناقابل قبول تھا اور اس نے حیلہ پرویزی کے ذریعے سے اس کو سبوتاژکرنے کی کوشش کی۔
چنانچہ 30جون 1992ء کے آنےسےپہلے پہلےمالیاتی اداروں،بینکوں اور بعض افرادنے سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بینچ میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلےکے خلاف اپیلیں دائر کردیں۔یہ اپیلیں شرعی عدالت کے فیصلےکے نفاذ میں بڑی رکاوٹ بن گئیں۔چنانچہ حکومت اپنی اس سازش میں کامیاب رہی اور سات سال تک یہ اپیلیں شریعت اپیلیٹ بینچ کے سردخانے میں پڑی رہیں۔بالآخر 1999 ء کے اوائل میںسپریم کورٹ میں ایک شریعت اپیلیٹ بینچ تشکیل دیاگیا۔اس بینچ نے کئی ماہ تک مسلسل ان اپیلوں کی سماعت کی۔
اس پانچ رکنی بینچ میں جسٹس خلیل الرحمٰن صاحب،(بطور چیئرمین)جسٹس وجیہہ الدین صاحب،جسٹس منیر اے شیخ،جسٹس مفتی مولانا تقی عثمانی صاحب اور جسٹس ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب شامل تھے۔
معزز عدالت نے سماعت کےدوران مقدمہ میں زیر بحث آنے والےاہم فقہی مباحث،معاشی معاشرتی،قانونی اور آئینی معاملات(ایشوز)پر رہنمائی حاصل کرنے کے لئے فریقین کے وکلاء حضرات کے علاوہ ماہرین علم و فن سے بھی اپیل کی کہ وہ زیر بحث مسئلے کے حوالے سے عدالت کی معاونت کریں۔اس سلسلے میں بینچ نے دس سوالات بھی مرتب کر کےمختلف علماء کو بھیجے،راقم نے بھی ان سوالات کا جواب لکھ کر عدالت عظمیٰ کو ارسال کیا تھا،راقم کےیہ جوابات مضمون کے آخر میں قارئین ملاحظہ فرمائیں گے۔صوبہ خیبر پختون خواہ کے مولانا گوہر رحمان مرحوم نے بھی ان سوالات کے جواب تحریر فرمائے تھے۔یہ دس سوال نہایت اہمیت کے حامل تھے جس سے مسئلہ زیر بحث کے اہم گوشے واضح ہوجاتے ہیں اور صحیح رہنمائی بھی حاصل ہوجاتی ہے۔علاوہ ازیں پاکستان کے علاوہ اسلامی دنیا کے متعدد نامور محققین اورقانون دان حضرات نے فاضل عدالت کی رہنمائی کرتے ہوئے اپنی آراء اور تجاویزسے تحریری طور پراور زبانی بھی مستفید کیااور جدید و قدیم معاشی کتب و جرائدکے علمی ذخیرے سے اہم اقتباسات کی نقول عدالت کے روبرو پیش کیں۔
اس سارے مواد کی چھان پھٹک اور علماء وکلاء کی بحثوں کی سماعت کرنے کے بعد سپریم کورٹ کےمذکورہ بینچ نے وفاقی شرعی عدالت کےفیصلے کو عمومی طور پر درست قراردیتےہوئے جدید بینکاری سمیت تمام دیگر سودی قوانین کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ممنوع اور حرام قرار دے دیا اور حکومت کو مزید مہلت دیتے ہوئے ہدایت جاری کی کہ وہ جون 2001ء تک تمام غیر اسلامی قوانین کونئےقوانین سے بدل کر بینکنگ اور دیگر معاشی معاملات کو سود پاک کردے۔
وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے بعد، جو اکتوبر1991ء میں منظر عام پر آیا تھا،یہ دوسرا نہایت اہم فیصلہ تھا جو آٹھ سال کے بعد سامنے آیا۔دونوں موقعوں پر علماء اور صحیح الفکر وکلاء کی طرف سے بھرپور دلائل پیش کئےگئےاور فاضل عدالت کی طرف سے کیے گئے سوالات کے مدلل جوابات دیئےگئےجن سے مزید بہت سے پہلو منقح اور واضح ہوئےاور پہلے مقدمے کی طرح اس دوسرے مقدمے میں بھی فاضل عدالت کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہ رہا کہ وہ سود کی ممانعت کا قطعی فیصلہ صادر کردے۔
حکومت کی بدنیتی اور گریز پائی
لیکن بدنیتی اور گریز پائی کا کسی کے پاس علاج نہیں ہےاور جب ایک فریق یہ تہیہ ہی کر لے کہ اس نےکسی صورت بھی موجودہ ظالمانہ نظام کو بدلنا نہیں ہے تو عدالتی فیصلےاس کے لئے کیا حیثیت رکھتے ہیں جبکہ یہ فریق ہمہ مقتدر بھی ہے۔
چنانچہ اس دوسرے نہایت اہم فیصلےکے بعد اس کوبھی تارپیڈو کرنے کی سازش تیار کر لی گئی۔اور جون 2001ء آنے سے پہلےپہلےحکومت نے ایک درخواست شریعت بینچ کے سامنے دائر کی جس میں یہ استدعا کی گئی کہ سودی نظام کو ختم کرنے کے لئےمزید دو سال کی مہلت دی جائے۔عدالت نے اس درخواست کی بنیاد پر مزید ایک سال کی مہلت دیتےہوئے کہا کہ وہ جون 2002ء تک مطلوبہ آئینی و انتظامی اقدامات مکمل کرلے۔
اگرحکومت انسدادسود کے لئے عملی اقدامات کرنے کی خواہشمند ہوتی تووہ یقیناََ اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئےعملی اقدامات بروئے کار لانے کا اہتمام کرتی لیکن اس نے اس کی طرف ایک قدم بھی نہیں اٹھایا بلکہ عدالت کی دی ہوئی مہلت ختم ہونے کے قریب آئی تو ایک نجی بینک(UBL)کی جانب سے نظر ثانی کی ایک درخواست عدالت میں پیش کردی گئی۔
انہی ایام میں یہ المیہ بھی ہوا یا عمداََ ایسا کیا گیا کہ شریعت اپیلیٹ بینچ کے جن ارکان نے فیصلہ دیاتھا۔ان میں سے چار جج فارغ کردیے گئے اور صرف ایک جج جسٹس منیر اے شیخ باقی رہ گئے۔اب نظر ثانی کی اپیل کی سماعت جس بینچ نے کرنی تھی وہ حسب ذیل ارکان پر مشتمل تھی۔
جسٹس شیخ ریاض احمد(بطور چیئر مین)جسٹس قاضی محمد فاروق،جسٹس ڈاکٹر خالد محمود اور جسٹس رشید احمد جالندھری۔
آخر الذکر دو فاضل جج، جو علماء کی نشست پر براجمان کئے گئے تھےان کااسلامی کردار ہر دور میں محل نظرہی رہا ہے،اس کی تفصیل کا یہ محل نہیں،تاہم واقف الحال حضرات سے مخفی نہیں۔بہرحال اس بینچ نے مقدمے کی از سر نوع سماعت کی اور وہ تمام مباحث جن پر پہلے تفصیلی بحث ہوچکی تھی اور وہ گویا طے شدہ تھے،دوبارہ زیر غور لائے گئے اور بینک کے وکلاءاور سرکاری وکلاء کو خلط مبحث کا پورا موقع دیا گیاتاکہ بحث کاوہ رخ ،جو اس سے پہلے دو مقدموںمیں واضح طور پر متعین ہوچکا تھا،اس کو غلط رخ پر موڑا جاسکے اور ڈور کے سلجھے ہوئے سرے کو الجھا دیا جائے کہ اس کا سرا ہاتھ ہی نہ آئے،یا صحیح رخ پر جاتی گاڑہ کی پٹڑی بدل دی جائے تاکہ وہ پٹڑی سے ہی اتر جائے یا اپنی اصل منزل مقصود پر نہ پہنچ پائے۔
اگر چہ صحیح الفکر علماء اور وکلاء نے بھی عدالت کے سامنے اپنے دلائل پیش کئے۔انہوں نے بالخصوص حسب ذیل امور پر زور دیا:
موجودہ بینچ کی تشکیل آئین کے ضوابط کے مطابق نہیں۔
نظر ثانی کے معاملےمیں عدالت کے اختیاربہت محدود ہوتے ہیں۔
جن قوانین،ضوابط اور حقائق کا جائزہ ،فیصلہ دینے والی عدالت عظمیٰ تفصیل سےلے چکی ہو،انہیں نظر ثانی کی آڑ میں دوبارہ نہیں اٹھا یا جاسکتا۔
مذکورہ فیصلہ کے مخالف وکلاء نےجن امور کو نظر ثانی کی بنیاد بنایا ہے۔ان سب پر تفصیلی بحث ہوچکی ہےاور تمام بحث کے بعد ہی سابقہ فیصلےصادر کیے گئے تھے۔
یہ دلیل بھی پیش کی گئی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر جزوی عمل ہوچکا ہے،اب قانون اس پر نظر ثانی کی اجازت نہیں دیتا۔
یہ پانچ نکتے جو اسلامی ذہن رکھنےوالےوکلاء نےاٹھائے،نہایت اہمیت کے حامل تھے،اگر نظر ثانی کی اپیل ایک سازش نہیں ہوتی اور بینچ کی تشکیل میں بھی خفیہ مقاصد کارفرما نہ ہوتے تو ان نکتوں کی بنیاد پر نئی بحثوں کو کالعدم قرارد ے کر اور سابقہ دوفیصلوں کے طے شدہ امور کو تسلیم کرکے بجا طور پرنظر ثانی کی اپیل کو نامنظور اور سابقہ فیصلوں کی بحالی کا فیصلہ کیا جاسکتا تھا لیکن یہ سارا ڈرامہ رچایا ہی اس لئے گیا تھا کہ حکومت سود کے ظالمانہ نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا ہی نہیں چاہتی۔چاہے فوجی حکومت ہو یا سویلین حکومت۔دونوں ہی قسم کے حکمران اغیار کے کسے ہوئے شکنجے سے نکلنے کا کوئی عزم نہیں رکھتے۔
1991ء میں جب پہلا فیصلہ آیاتھا نواز شریف وزارت عظمیٰ پر براجمان تھے۔اس کے بعد یہ فیصلہ تعطل کا شکار رہا، یہ دور بینظیر کی وزات عظمیٰ کا تھا ،1999 ء میں جب دوسرا فیصلہ آیا تو پرویز مشرف کی فوجی حکومت تھی۔
اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی گزر گئے
بہرحال چند دن کی سماعت کے بعدنظر ثانی کے لئے تشکیل کردہ بینچ نے انتہائی عجلت میں24 جون 2002ء کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے شریعت اپیلیٹ بینچ کا فیصلہ منسوخ کر دیا اور مقدمے کو از سر نوع سماعت کےلئےدوبارہ وفاقی شرعی عدالت میں بھیجنے کے احکامات صادر کر دئےاس طرح اس عدالت نے طویل کوششوںاور جاں گسل محنتوں پر پانی پھیر دیا اور انسداد سود کا یہ دوسرا فیصلہ بھی کالعدم قرار دپاگیا۔
شرعی عدالت کا سرد خانہ
اب تیسری مرتبہ یہ کیس پھر شرعی عدالت کے سپرد ہوگیا۔پہلا فیصلہ جو1991ء میں شرعی عدالت کی طرف سے آیا تھا،جسے تسلیم نہیں کیا گیا۔ وہ 1999ء تک سپریم کورٹ کے سر د خانہ میں پڑا رہا،جب اس کی طرف سے دوسری مرتبہ فیصلہ آیا جس سے پہلے فیصلے ہی کی توثیق کی گئی تھی، اسے بھی نظر ثانی کے نام پر سبوتاژ کردیا گیا۔اور اسے پھر شرعی عدالت میں بھیج دیاگیا ۔اس کیس کو پھر سردخانےکی نذر کر دیا گیا۔بالآخر بعض حضرات کی کوششوں سے 22 اکتوبر 2013ءسے اس مقدمے کی سماعت کا آغاز کیا گیا۔
پہلی سماعت کے بعد دوسری سماعت پر شرعی عدالت نے بتا یا کہ ایک سوال نامہ تمام درخواست گزاروں،ماہرین قانون،علماء اور ماہرین اقتصادیات کو ارسال کیا جائے گاجس کی روشنی میں ڈیمانڈ کردہ اس کیس پر بحث کی جائے گی۔چنانچہ 16 سوالوں پر مشتمل ایک سوال نامہ شرعی عدالت کی طرف سے بذریعہ مراسلہ واخباری اطلاعات بھیجا گیا اورکہا گیا کہ اس کا جواب تیارکر کے 5 نومبر تک شرعی عدالت کے رجسٹرار کو ارسال کیا جائے۔
یہ 14 سوالات بحث کو الجھانے ہی کا ایک حربہ تھاکیونکہ اس قسم کا ایک سوال نامہ جو دس سوالوں پر مشتمل تھا،سپریم کورٹ نے بھی مختلف علماء کو ارسال کیا تھا جس کا نہایت معقول اور مدلل جواب علماء نے دیا تھا۔اس کے بعد اس قسم کے سوالات کی قطعاََ ضرورت باقی نہیں رہ گئی تھی۔ان سوالات اور جوابات سے بحث کے نہایت اہم گوشے واضح ہوچکے تھے اور سپریم کورٹ کےشریعت اپیلیٹ بینچ نے ان کی روشنی ہی میں اپنا فیصلہ صادرکیا تھا۔
بہرحال ان 14 سوالات کے جوابات بھی وفاقی شرعی عدالت کو بہت سےاہل علم نے ارسال کر دیے تھے لیکن اس کے باوجود شرعی عدالت میں یہ مقدمہ زیر بحث نہیں آسکا۔اس دوران میں ایک دو مرتبہ بعض حضرات کی طرف سے کوششیں بھی کی گئیں لیکن ان میں کامیابی نہیں ہوئی۔
چوتھی مرتبہ شرعی عدالت میں اور ہوا کا رخ
اب اپریل 2017ء میں چوتھی مرتبہ وفاقی شرعی عدالت میں اس کیس کی سماعت شروع ہوئی اور پہلی سماعت کے بعد بحث غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی گئی ہے۔
معلوم نہیں اب اس کا دوبارہ آغاز کب ہوگا اور کس طرح ہوگا؟ہوا کا رخ تو کسی خطرناک طوفان کی نشاندہی کررہا ہے اور چیف جسٹس صاحب کے تیور اور سوالات کا انداز بھی اس کی غمازی کر رہا ہے۔اللہ خیر کرے۔
اخباری رپورٹ میں چیف جسٹس صاحب کے جو ریمارکس شائع ہوئے ہیں،وہ کسی طرح بھی شرعی عدالت کے چیف جسٹس کے شایان شان نہیں ہے۔ان میںایک بات یہ کہی گئی کہ نزول قرآن کے وقت کی معیشت آج سے مختلف تھی،آج اس کو کیسے نافذ کیا جاسکتا ہے؟
یہ بات تو وہ لوگ کہتے ہیں جو آج کے دور میں اسلام کو ناقابل عمل قرار دیتے ہیں اور ان کی دلیل بھی یہی ہوتی ہے کہ آج کا معاشرہ اور حالات اسلام کے ابتدائی بدوی معاشرے سے مختلف ہیں۔اسلام کی تعلیمات آج کے معاشرے میں نافذ نہیں ہوسکتیں۔کیا فاضل چیف جسٹس صاحب بھی یہی سمجھتے ہیں۔ان کے بیان سے تو ان کا یہی موقف واضح ہورہا ہے۔ اور یہ موقف اتنا کمزور،پھس پھسا اور بے بنیاد ہے جس سے پاکستان کا مقصد وجود ہی محل نظر قرار پاتا ہے اور آئین پاکستان میں جن دفعات میں قرآن و سنت کے نفاذ اور حکومت کو ان کا پابند بنایا گیا ہے وہ بھی بےمقصد اورمحض نمائشی قرار پاتی ہیں۔کیا یہ تاثر صحیح ہوگا؟اگر یہ صحیح ہےتو پھر شرعی عدالت کےقیام کا بھی کیا جواز ہے؟
دوسری بات فاضل موصوف نے یہ فرمائی کہ ربا،سود اور انٹرسٹ کی تعریف ہی متعین نہیں ہے،اس لئے پہلے ان کا معنی و مفہوم متعین ہونا چاہئے۔حالانکہ پہلے دو فیصلوں میں ان الفاظ کے معنی و مفہوم اور مصداق پر مفصل بحثیں ہوچکی ہیں جن میں یہ طے پاچکا ہے کہ اس کا مصداق ایک ہی ہے اور وہ ربا کی وہ صورت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حرام قراردیا ہے۔
ربا عربی زبان کا لفظ ہے اس کا ترجمہ متبادل لفظ فارسی میں سود ہے اور اردو میں بھی یہی لفظ ربا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے،انٹرسٹ انگریزی زبان کا لفظ ہےجو ربا کے ہم معنی ہی ہے،ایک لفظ کے مختلف زبانوں کے اعتبارسے الگ الگ الفاظ ایک دوسرے سے ہم معنی و مفہوم کے اعتبار سے مختلف تونہیں ہوتے،سب کا مفہوم و مطلب ایک ہی ہوتا ہے۔
یہ ریمارکس خلط مبحث یا اصل بحث سے گریزی کی ایسی صورت ہے،جو فاضل عدالت کے فاضل جج سے متوقع نہیں ہے علاوہ ازیں موصوف نے انٹرسٹ کا مفہوم بھی خود بیان فرما کر سود کے جواز کی طرف بھی اشارہ فرمادیا کہ انٹرسٹ کا مطلب موجودہ دور میں سود نہیں بلکہ نقصان کا ازالہ سمجھا جاتا ہے اگر فاضل موصوف کی اس بات کو درست سمجھ لیا جائے تو سودکےجواز اور عدم جواز کی بحث ہی ختم ہوجاتی ہے۔اوراگر موصوف اپنے اس موقف پر ہی قائم رہتے ہیں جو یکسرکہ غلط اور بے بنیاد ہےتو پھر اس بینچ کی طرف سے جو فیصلہ آسکتا ہے،وہ محتاج وضاحت نہیں۔
پس چہ باید کرد؟
اس صورت حال میں اہل دین کی کیا ذمہ داری ہےجو ملک کو سود جیسی لعنت سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے کوشاں بھی ہیں۔اس سلسلے میں پہلے قانونی و آئینی ماہرین سے مشاورت کرکےشرعی عدالت کے موجودہ بینچ کے بارے میں غور ہونا چاہئے کہ یہ بینچ آئینی ضابطے کے مطابق ہے یا نہیں؟ اگر نہیں ہے تو اس بینچ کواس مقدمے کی سماعت کا حق ہی حاصل نہیں ہے۔چہ جائیکہ اس کے فیصلےکو قانونی حیثیت حاصل ہو۔
شرعی عدالت کے بارے میں آئین کیا کہتا ہے؟
یہ مسئلہ اس لئے نہایت قابل غور اور بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہےکہ شرعی عدالت کے ابتدائی سالوں میں حد رجم کامسئلہ زیر بحث رہا تھا ۔اوراس وقت آفتاب حسین صاحب شرعی عدالت کے سربراہ تھے،اس وقت عدالت کے سر براہ کو چیف جسٹس نہیں بلکہ چیئرمین کہا جاتا تھا۔گویا جسٹس آفتاب حسین کی چیئرمینی میں مسئلہ حد رجم بحث ہوئی۔یہ صاحب بھی منحرف ذہن کے حامل تھے ،اس لئے عدالت نے فیصلہ دےدیا کہ اسلام میں رجم کی کوئی حد نہیں۔
ظاہر بات ہے کہ یہ فیصلہ متواتر احادیث اور اجماع امت کے یکسر خلاف تھا۔اس لئے اس فیصلے پر شدید احتجاج کیا گیاجس سے مجبور ہو کر صدر ضیاء الحق نے شرعی عدالت کےآئین میں یہ ترمیم کردی کہ عدالت میں دیگر ججوں کے تین علماء بھی شرعی عدالت میں بطور جج لازمی ہوں گےاور اس کےمطابق تین علماء کو جج نامزد بھی کیا گیا۔ ان میں ایک غالباََ شفاعت حسین قادری تھے،دوسرے پیر کرم شاہ ازہری اور تیسرے ڈاکٹر فدامحمد خان۔بعد میں مولانا تقی عثمانی صاحب بھی اس کے جج رہے۔اس نئے بینچ کی تشکیل کے بعد مسئلہ حد رجم پر دوبارہ بحث ہوئی جس میں راقم نے بھی بیان دیا تھا ،اور پھر فاضل عدالت نے نیا فیصلہ دیا جس میں رجم کو حد شرعی تسلیم کیا گیا۔
اس مختصر تفصیل سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ سب سے پہلے شرعی عدالت کے اس بینچ کی آئینی حیثیت پر غور کیا جائے جو اس مقدمے کی سماعت کے لئے بنا ہے،کہیں ایسا نہ ہو کہ دوبارہ حد رجم جیسا غیرشرعی فیصلہ سامنے آجائے۔
اگر بینچ میں تین علماء بطور جج شامل ہوں گے جیسا کہ آئینی تقاضا ہےتو امید ہے کہ بحث کا رخ صحیح ہوگا اور شریعت کے واضح احکام سے انحراف کا امکان بہت کم ہوجائےگا۔
فاضل عدالت سے گزارش
دوسری گزارش ہم فاضل ممبران سے کریں گےکہ اس مقدمے کا دومرتبہ ایسا فیصلہ ہوچکا ہے جو قرآن و حدیث کے واضح دلائل پر مبنی ہے اور پورے ملک میں اس کو سراہا گیا ہے۔اب اگر شوق اجتہاد میںاس سے انحراف کیا گیا تو ایک تو یہ ہےقرآن کی بیان کردہ تمثیل کی روشنی میں اس عورت کے کردار کی طرح ہوگا جو سوت کاتنے کے بعد خود ہی اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایسے کردار سے منع فرمایا ہے:
وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَاثًا
النحل – 92
ترجمہ:’’اور اس عورت کی طرح نہ ہوجاؤ جس نے اپناسوت کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کردیا‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے اس موجودہ بینچ کو ایک نہایت اہم موقع عطا فرمایا ہے۔وہ اس سے فائدہ اٹھا کر سابقہ فیصلوں کی توثیق کر کےایک بہت بڑی سعادت اورعظیم سرخروئی حاصل کرسکتے ہیں ،اوراگر ایسا نہ ہو اور جسٹس آفتاب حسین جیسا فیصلہ صادرہوا تو اہل پاکستان کے لئے وہ اسی طرح ناقابل قبول ہوگا جیسے فاضل عدالت کے حد رجم کی بابت غیر اسلامی فیصلےکو رد کر دیا گیا تھا۔
ہماری خواہش اوردعا ہے کہ فاضل عدالت کی طرف سےوہ مذکورہ حد رجم کی طرح کےفیصلے کا اعادہ نہ ہو بلکہ اسلامیان پاکستان کے جذبات کا اسی طرح آئینہ دار ہو جیسے سابقہ دونوں فیصلےتھے۔
وفقنااللہ وایاکم لما یحب ویرضیٰ۔ آمین
نوٹ:اس مضمون میں بہت سی معلومات حافظ عاطف وحید صاحب(تنظیم اسلامی)کے پمفلٹ انسداد سود کا مقدمہ سے بھی لی گئی ہیں۔
سپریم کورٹ شریعت اپیلیٹ بینچ کے سوالات کے جوابات[1]
سوال نمبر1:ربا کی حقیقت،تعریف اور معنویت کیاہے؟
جواب:رِبا عربی زبان کا لفظ ہےاور قرآن کریم میں بھی استعمال ہواہے۔اس کے لغوی معنی زیادتی،بڑھوتری،اضافےکے ہیں۔ لیکن شرعی اصطلاح میں اس سے مراد مطلق اضافہ اور زیادتی نہیں ہے،بلکہ ایک مخصوص قسم کی زیادتی ہےاور وہ ہے کہ ’’کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا۔۔’’مثلاََ کسی کو سال۴ یا چھ مہینے کے لیے 100 روپے قرض دئیے،تو اس سے یہ شرط کر لی کہ وہ 100 کے 120 روپے لے گا۔ مہلت کے عوض یہ20روپے جو زیادہ لیے گئے ہیں،یہ سود ہے۔ ورنہ انسان کاروبار کرتا ہے تو وہ سو روپے کے عموماََ 20،25روپے نفع کمالیتا ہے، یاکسی کو سو روپے قرضِ حسن کے طور پر دیتا ہے،دیتے وقت سوائے ہمدردی اور ثواب کے کوئی اور نیت نہیں تھی۔لیکن قرض لینے والا اپنے طور پر
هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ
الرحمٰن – 60
کے تحت 10،20 روپےزائد دےدیتا ہے تو یہ دونوں اضافے سود کی ذیل میں نہیں آئیں گے،کیونکہ کاروبار اور تجارت ایک جائز فعل ہے،اللہ نےاسے حلال اور مشروع کیا ہے،اور اس کا مقصد ہی نفع کمانا ہے۔اس لیے تجارت کے ذریعے سےجتنا اضافہ حاصل ہوگا بشرطیکہ اس میں کسی امرحرام کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو،وہ حلال اور جائزہوگا۔اسی طرح قرض دیتے وقت، قرض دینے والےنے زیادتی کی کوئی شرط عائد نہیں کی تھی،صرف اللہ کی رضا کے پیش نظر مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے کےلیے قرض دیا تھا،اب قرض لینے والا اگر اپنی مرضی سے کچھ رقم زائد دے دے،تو یہ بھی جائز ہے،کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے[2]یہ اضافہ بھی سود نہیں ہے۔
بہرحال سود کی تعریف میں وہ اضافہ آئےگا جو شرط کرکے لیا جائے۔اور وہ اضافہ بھی صرف مہلت کا عوض ہو۔یہ ربالنسيئة یا رباالجاھلیۃ کہلاتا ہے۔ اسے ربالنسيئةاس لیےکہا جا تا ہےکہ یہ ادھا رپر سود لیا جاتا ہے کہ اس کے معنی ہی ادھار کا سود ہیں۔اوراسلام سے قبل زمانہ ٔجاہلیت میں بھی اس کا چلن تھا ، اس لیے اسے رباالجاھلیۃ بھی کہا جاتا ہے۔اس کے علاوہ شریعت نےربا کی بعض مزید صورتوں کوبھی حرام کیا ہے۔رسول اللہﷺنے فرمایاہے:
’’الذھب بالذھب والفضة بالفضة والبر بالبروالشعیر بالشعیر والتمر بالتمر والملح بالملح مثلاً بمثل یدً بید،فمن زاد أواستزاد فقد أربی،الآخذ والمعطی فیه سواء‘‘
’’سونا سونےکے بدلے،چاندی چاندی کے بدلے،گندم گندم کے بدلے،جوجو کے بدلے ،کھجور کھجورکےبدلے،نمک نمک کے بدلے ،یہ برابر برابر ہوں اور ہاتھوں ہاتھ(نقد)ہوں۔(تب ان کا باہمی تبادلہ جائز ہے)جس نے زیادہ دیا یا زیادہ طلب کیا،تو اس نے سودی معاملہ کیا، لینےاور دینےوالا دونوں اس میں برابر ہیں‘‘۔[3][4]
اس حدیث کی رو سے(مثلاً)گندم کا تبادلہ گندم سے کرنا ہے،توایک تو وہ برابر برابرہو دوسرے ہاتھوں ہاتھ(نقد)ہونا بھی ضروری ہے۔اس میں کمی بیشی ہوگی تب بھی اور ہاتھوں ہاتھ (نقد) ہونے کی بجائےایک نقداور دوسری ادھار یا دونوں ہی ادھا رہوں ،تب بھی یہ سود شمار ہوگا۔تاہم ایک جنس کادوسری جنس سے کمی بیشی کے ساتھ بیچنا جائز ہے،بشر طیکہ دست در دست (ہاتھوں ہاتھ) ہو۔
غرض شریعت میں ربا کا اطلاق ‘‘بیع میں ایک جیسی دو چیزوں کے تبادلے میں کسی ایک چیز میں ہو یا قرض کی واپسی کے وقت اصل چیز یا رقم میں ہو‘‘۔پر ہوتا ہےاوراس کی دو صورتیں ہیں:
1ربالفضل:ایک جیسی دو چیزوں کے تبادلے کے وقت ایک چیزکے عوض میں زیادہ لینا۔[5]
2ربالنسيئة:ایک جیسی دومتبادل چیزوں میں سے کسی ایک کا زیادہ معاوضہ لینا،مگر ایک مقررہ مدت کے بعد۔
یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ سودی معاملے میں کسی قسم کا تعاون بھی لعنت اور غضب ِالٰہی کا باعث ہے۔اس شدت کی وجہ یہ ہےکہ اسلام ایسا معاشرہ تعمیر کرناچاہتا ہےجس کی بنیاد اُخوت،ہمدردی،ایثاروقربانی پر ہو۔کسی کو مال کی ضرورت ہو،تواصحابِ اموال ضرورت مندوں کی ضرورت فی سبیل اللہ،اللہ کی رضا کے لیے پوری کردیں یا پھر قرضِ حسن کے طور پر۔جب کہ سود کی بنیاد اس کے برعکس خودغرضی،دوسرے کے استحصال اور ظلم پر ہے۔اس میں اصحاب ِثروت کسی ضرورت مند سے اللہ کی رضا کے لیے تعاون پر آمادہ نہیں ہوتے۔انہیں صرف اپنے مفاد سے غرض ہوتی ہے،غریب کےخون کا آخری قطرہ تک نچوڑلینے کے باوجود ان کی حرص میں کمی نہیں ہوتی۔اس لیے شریعت نےہرقسم کےسود کو ممنوع اورحرام قرار دیا ہے۔ چاہے وہ ذاتی ضروریات پوری کرنے کے لیے دیئے گئے قرض پر وصول کیا جائے یا تجارتی مقاصد کے لیے حاصل کر دہ رقم پر۔
سوال نمبر2:کیا’’ربا‘‘کی اصطلاح کا بینکوں اور مالیاتی اداروں کے دئیے گئے قرضوں اور ان پر عائد کردہ سود پر بھی اطلاق ہوتا ہے؟{
جواب:یہ سوال اس لیے پیدا ہواہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ’’قرآن نے جس سود سے روکا ہے،وہ صرف وہ سود ہے جو ذاتی ضروریات کے لیے لیے گئے قرض پرلیا جائے۔لیکن جو قرض تجارت اور کاروبار کے لیےلیا جائے۔ اس پر لیا جانے والا سود اس کی ذیل میں نہیں آتا اور نہ وہ ممنوع ہی ہے،کیونکہ نزول ِ قرآن کے وقت تجارتی قرض کارواج ہی نہ تھا۔لیکن یہ دعویٰ بالکل بے دلیل ہے۔علماء نے بڑی وضاحت اور تفصیل سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی دونوں قسم کے قرضے لیے جاتے تھے ،ذاتی ضروریات کے لیے بھی اورکاروبار اور تجارت کےلیے بھی اور دونوں پر سود لیا اور دیا جاتا تھا اور قرآن کریم میں بغیر کسی قسم کی تفریق کے سود کو حرام قرار دیا گیا ہے،جس کا مطلب ہر قسم کے سود کی ممانعت اور حرمت ہے،چاہے قرض ذاتی ضرورت کے لیے لیا گیا ہو یا تجارت کے لیے۔
اور اس کی وجہ ظاہر ہےکہ دونوں صورتوں میں ظلم اور خود غرضی کا پہلو پایا جاتا ہے۔ذاتی ضرورت پر لیے گئےقرض پر سودکا ظلم تومسلّم ہے،لیکن تجارتی قرض پر سود میں بھی ظلم صریح اور بدترین خود غرضی کا پہلو پایا جاتا ہے۔مثلاً ایک شخص نے بینک سے یا کسی سا ہوکار سے کاروبار کے لیے قرض لیا،لیکن کاروبار نہ چل سکا یا کاروبار میں نقصان ہوگیا۔لیکن قرض دہندہ تو ہر صورت میں اپناسود کا مطالبہ جاری رکھے گا،حالانکہ وہاں اصل رقم بھی ڈوب گئی ہےچہ جائیکہ وہ اس کے منافع سے سود ادا کرے۔لیکن بینک یا سود خور مہاجن کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوگی،وہ اصل رقم کے ساتھ اپنا طے شدہ سود بھی ضرور وصول کرے گا۔اسلام اس ظلم اور خود غرضی کی اجازت کس طرح دے سکتا ہے؟اس لیے اسلام میں دونوں قسم کے قرضوں پر سود حرام اور ناجائز ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ عرب میں تجارتی مقاصد کے لیے قرض لینے اور دینے کا رواج ہی نہیں تھا صرف ذاتی ضروریات کے لیے ہی قرض لینے اور دینے کا معمول تھا۔اس لیے جو سود حرام کیا گیا ہے ،وہ صرف ثانی الذکرقسم کا سود ہے نہ کہ اول الذکر سود۔کیونکہ پہلی قسم کے سود کا تووہاں رواج ہی نہیں تھا۔اس بناپر وہ صنعت اور کاروبار کےلیےلیے ہوئے قرض پر سود کوجائز قرار دیتے ہیں۔اس کو وہ تجارتی سود سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کی بابت کہتے ہیں کہ یہ حرام نہیں ہے،اس سے تو لوگ کاروبار کرکے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اگر وہ اس فائدے میں سے تھوڑا سا فائدہ صاحب ِمال کو ایک سالانہ شرح کے حساب سے لوٹادیں،تو یہ کس طرح ناجائز ہوسکتا ہے؟یہ تو صاحب ِمال کا وہ حق ہےجو اپنے مال کی وجہ سے اسے ملنا چاہئے۔لیکن اوّل تو یہ دعویٰ ہی صحیح نہیں کہ عرب میں تجارتی قرض کا رواج نہیں تھا،عربوں میں تجارتی مقاصد کے لیے بھی قرض لینے دینے کا رواج تھا۔علاوہ ازیں صنعت و تجارت میں لگے ہوئے سرمائے کی بابت کوئی شخص یقین سےنہیں کہہ سکتا کہ وہ بہر صورت نفع دےگا،کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض دفعہ لاکھوں کروڑوں کا سرمایہ ڈوب جاتا ہے۔لیکن بینک یا ساہوکار کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔وہ ہر صورت میں اپنے دئیے ہوئے قرض پر سالانہ شرح سے سود وصول کرنا ضروری سمجھتا اور وصول کرتا ہے۔کیا یہ ظلم نہیں،خودغرضی نہیں،استحصال نہیں؟اگر نقصان نہ ہو تو یہ سودی قرض گرانی کا باعاعث بنتا ہے۔ایک صنعت کار جتنا سود اداکرتا ہےاسے وہ پیداواری لاگت میں شامل کر کے اپنی تیار کردہ اشیاء کی قیمت مقرر کرتا ہے،جس سے عوام کو وہ چیز نسبتاََمہنگے داموں خریدنی پڑتی ہے۔اس لیے اسلام نے ہر قسم کے سود کو حرام کر کے ظلم واستحصال اور گرانی کے ایک بہت بڑے ذریعے اور سرچشمے کو بند کردیا ہے۔
تجارت اور سود میں فرق
بعض لوگ کہتے ہیں کہ سودی قرض بھی تو ایک تجارت ہے،قرآن نے ان کا یہ قول ان الفاظ میں نقل کیا ہے:
قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ
البقرة – 275
ترجمہ:’’ بیع بھی تو مثل سود ہی کے ہے ‘‘۔
اللہ نے اس کے جواب میں فرمایا:یہ دونوں چیزیں کس طرح ایک ہوسکتی ہیں۔بیع کو تو اللہ نے حلال قراردیا ہےاور سود کو حرام؟
جس سے واضح ہے کہ یہ دونوں چیزیں ایک نہیں ہیں۔علاوہ ازیں تجارت میں تو نقدرقم اور کسی چیز کا آپس میں تبادلہ ہوتا ہے۔دوسرے اس میں نفع کااِمکان رہتا ہے۔جبکہ سود میں یہ دونوں چیزیں مفقودہیں،تیسرے ،تجارت باہم تعاون وتناصر کا نام ہےجبکہ سود خود غرضی ،بے رحمی اور سنگ دلی کا۔چوتھے تجارت میں رقم اور چیز کے تبادلےکے بعددونوں ایک دوسرے کے تبادلے کےمالک بن جاتے ہیںاوراس کے بعد ان کا آپس میں کوئی مطالبہ نہیں رہتا۔جبکہ سودمیں ایسا نہیں ہوتا،بلکہ صاحب المال کی طرف سے ہر سال زیادتی کا مطالبہ رہتا ہے جو سالہا سال تک بلکہ بعض دفعہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔ان وجوہ سے سوداور تجارت ایک دوسرے سے قطعاََ مختلف ہیں۔ایک حلال ہے ااور دوسراحرام۔
لیکن افسوس کی مسلمانوں میں مغرب کی نقالی میں معیشت کی ساری بنیاد سودی نظام پر قائم ہے اور اس سے بچنے کی کوئی سعی و کاوش اسلامی ملکوںکےمغرب زدہ حکمرانوں کی طرف سے نہیں ہورہی۔اس طرح مسلمان عوام میں بھی اب سود سے بچنے کاکوئی جذبہ نہیں رہا اور ان کی اکثریت بینک کے سودکو وصول کرتی اور کھاتی ہے اور سودی کھاتوں میں شریک ہوتی ہے۔
بنابریں بینکوں اور مالیاتی اداروں کے دئیے ہوئے قرضوں اور ان پر عائد کردہ سود پربھی ربا کا اطلاق ہوگا،کوئی بھی سودی قرضہ اس سے مستثنیٰ نہیں ہوگا۔
سوال نمبر3: پاکستانی بینک اور بعض مالیاتی ادارے اپنے گاہکوں،مارک اپ پر دوبارہ خریداری کے معاہدوں کی بنیاد پر رقم دیتے ہیں۔اس طریق کار کے تحت بینک کا گاہک یہ مراد لیتا ہے کہ وہ ایک مخصوص جنس بینک کو فروخت کرتا اور عین اسی وقت اس جنس کوموثر ادائیگی کی بنیاد پر زیادہ مدت کے عوض دوبارہ خرید لیتا ہے۔مارک اَپ کی کوئی شرح(فی صد سالانہ)کا اطلاق دوسری فروخت پر ہوتا ہے۔کیا یہ معاہدہ ’’ربا‘‘ کے زمرے میں آتا ہے؟
جواب:یہ بھی ایک حیلہ ہے جس کا مقصد سودی نظام کا نام بدل کر اسے جائز قراردینا ہے،اس میں بینک کا گاہک قطعاََ کوئی چیز بینک کو فروخت نہیں کرتا، صرف فرض کر لیا جاتا ہے جب کہ ایسا کرنا ممنوع ہے،کیونکہ جس چیز کا عملاًوجود ہی نہیں ہے،اُسے فروخت کرنے کے کیا معنی؟نبیﷺنے قبل القبض (اپنے قبضے میں لینے سے پہلے)کسی چیز کو فروخت کرنے سے منع کیافرمایا ہے۔جب قبل القبض ہی فروخت کرنا جائز نہیں ہے،تو ایک معاملے کو فرض کر کےاس پر بیع وشراء کے احکام کس طرح لاگو ہوسکتے ہیں؟
پھروہ گاہک(جو اصل میں بینک سے قرض لینے کا خواہش مند ہوتا ہے)بینک سے اپنی(فرضی)فروخت شدہ چیز بینک سے زیادہ مدت کے عوض دوبارہ خرید لیتا ہے(جس کا مطلب دراصل زیادہ رقم کا حصول ہے)اورپھر وہ گاہک بینک کا سود ادا کرتا رہتا ہے جس کا نام مارک اپ رکھا لیا گیا ہے۔اصل مقصد بینک سے تجارت کے لیے قرض لینا ہی ہے،لیکن سیدھے طریقے سے ناک پکڑنے کی بجائےہاتھ کو پیچھے سے گھما کر ناک پکڑنے کا کام کیا گیا ہے۔بہرحال یہ بھی ایک سودی حیلہ ہی ہےجس کا جواز تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔
سوال نمبر4:کیا ’’ربا‘‘ کی حرمت کے معاملے میں ایک مسلمان اور غیر مسلم کے مابین کوئی فرق ہے؟کیا ’’ربا‘‘کی حرمت کا دائرہ غیر مسلموں سے لیے گئے قرضوں یا ایسے مسلم ممالک جن کے قوانین اور قومی پالیسیاں بین الاقوامی مالیاتی قوانین اورپالیسیوں سے منسلک نہیں اور صدر مملکت پاکستان کے کنٹرول میں نہیں ہیں،تک بڑھایا جاسکتا ہے؟
جواب:’’ربا‘‘ کی حرمت میں مسلم اور غیر مسلم کےدرمیان کوئی فرق نہیں۔جس طرح ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ کوئی سودی معاملہ نہیں کرسکتا،اسی طرح ایک مسلمان کسی غیر مسلم کے ساتھ سودی لین دین نہیں کرسکتا۔جن لوگوں نے اس میں فرق کیا ہے ان کے پاس اس کی کوئی معقول دلیل نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے اس قول کوان کے اپنوں نے بھی تسلیم نہیں کیاہے۔
علاوہ ازیں اس کی حرمت کا دائرہ ان تمام مالیاتی قوانین اور پالیسیوں تک وسیع ہے جن پرسودی معاملات کا اطلاق ہوتا ہے،چاہے وہ قرضےغیر مسلموں سے حاصل کیے گئے ہوں یا مسلم ممالک سے،چاہے وہ پاکستان کے کنٹرول میں ہوں یا نہ ہوں۔ان چیزوں سے سود کی حرمت پر کوئی اثر نہیں پڑےگا۔اصل چیزسود کی وہ تعریف ہے جو پہلے گزری،جو بھی معاملہ اس کی زد میں آئےگااور اس تعریف کا مصداق قرار پائے گا،اس پر یقیناََ حرمت کا اطلاق ہوگا۔
سوال نمبر5:حکومتِ پاکستان اور اس کے زیر کنٹرول بعض ادارے بانڈز اور سرٹیفکیٹس وغیرہ جاری کر کےقرضےحاصل کرتے ہیںاور ایسے بانڈز کے حامل افراد کو مقررہ ہر مدت کے بعدمنافع ادا کرتے ہیں۔کیا یہ منافع’’ربا‘‘کی تعریف میں آتا ہے؟
جواب:یقیناًان پر ’’ربا‘‘کی تعریف صادق آتی ہےکیونکہ یہ قرضے ہیں،کوئی کاروباری شراکت نہیں ہے،اور حکومت یااس کے ادارےان پر ایک طے شدہ رقم منافع کے نام سے(فی صد سالانہ کےحساب)ادا کرنے کے پابندہوتے ہیں،جب کہ ان کی اصل رقم محفوظ ہوتی ہے،وہ جب چاہیں اپنی رقم لے سکتے ہیں، لیکن جب تک یہ رقم حکومت یا اداروں کے پاس رہے گی،وہ اس پر متعین منافع دیتے رہیں گے۔یہ وہی قرض کے بدلے میں مہلت کا معاوضہ وصول کرنا ہے،جو خالص سود ہے،اس کا نام منافع رکھ لیا گیا ہے،گویاشراب کی بوتل پر’’ روح افزاح‘‘ کا لیبل چسپاں کیا گیا ہے۔
سوال نمبر6:یہ امر واضح ہے کہ کاغذ کی کرنسی افراطِ زر کی صورت ِ حال میں اپنی قیمت کم کرنےکےرجحان کی حامل ہے۔ایک قرض دار جو پیپر کرنسی کی اپنی مخصوص رقم اگر بطور قرض حاصل کرتا ہے ،تو جب وہ یہ رقم ایک طےشدہ مدت کے بعد اپنے قرض خواہ کو لوٹاتا ہے،تو قرض خواہ افراطِ زَر کی وجہ سے نقصان اٹھا سکتاہے۔اگر قرض خواہ اپنے قرض دار سے اپنے نقصان کی تلافی کے لیے مزید رقم ادا کرنے کا مطالبہ کرتا ہے ،تو کیا یہ مطالبہ سود طلب کرنے کے مترادف قراردیا جاسکتا ہے؟
جواب:یہ مسئلہ نہایت اہم ہے،کیونکہ جو ملک اقتصادی اور سیاسی استحکام سے محروم ہیں،جن میں بدقسمتی سےپاکستان بھی شامل ہے،وہاں آئے روز افراطِ زَر کی صورت حال نمودار ہوتی رہتی ہے،جس سے کرنسی کی قدروقیمت مسلسل گھٹتی ہے۔اس لیے طویل المیعاد قرضوں پریقیناََ قرض خواہ کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔اب اس نقصان کی تلافی کےلیے قرض خواہ اپنے قرض دار سے مطالبہ کرسکتا ہے یا نہیں؟اگر کر سکتا ہے تو یہ سود کی ذیل میں تو نہیں آئےگا؟۔یقیناََ یہ قابل غور اور اجتہادی مسئلہ ہے اور اس قسم کے مسائل کے حل کے لیے اجتماعی اجتہادناگریز ہے،یعنی عالم اسلام کے جید علماءاور ماہرین معیشت مل کراس کے تمام پہلوں پر غور کریں اور اس کے لیے کوئی اصول اورضابطہ طے کریں تاکہ کسی فریق پر ظلم نہ ہوسکے۔کیونکہ جس طرح ظلم کرنا صحیح نہیں ہے ،اسی طرح کوئی دوسرا شخص یا فریق ظلم کا ہدف بن رہا ہو،تو اس کے ازالے کے لیے بھی سعی کرنا ضروری ہے۔قرآن کریم کے حکم
لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ
البقرة – 279
ترجمہ:’’خود ظلم نہ کرو،نہ تم پر ظلم کیا جائے‘‘۔ کا مفاد بھی یہی ہے۔
آج سے کئی سال قبل شرعی عدالت میں بھی اس قسم کا ایک کیس آیا تھا،جس میں کہا گیا تھا کہ شفعہ کا ایک مقدمہ20سال کے بعد انجام کو پہنچا ہے، جبکہ 20سالوں میں کرنسی کی قدرو قیمت بہت گھٹ چکی ہے۔اب قیمت کی ادائیگی وہی کی جائے جو20سال قبل لی گئی تھی،جو کہ گھٹتے گھٹتے برائے نام رہ گئی ہے،یا اب موجودہ حالات کے مطابق اس میں اضافہ کرکے ادائیگی کی جائے،تاکہ مالک کو بھی نقصان نہ ہو؟اس وقت جسٹس گل محمد(مرحوم)عدالت کے چیف جسٹس تھے،عدالت نے مختلف علماء سے استفسارکیا،راقم نے اس وقت فاضل عدالت کےسامنے جو رائے پیش کی تھی،مناسب معلوم ہوتا ہے،اسے علماء کی غور وفکر کے لیے یہاں دہرایا جائے۔یہ تحریر عدالت میں توشاید محفوظ ہوگی،لیکن کسی اور جگہ ابھی تک شائع نہیں ہوئی۔یہ حسب ِذیل ہے:
کرنسی کی قوت خرید میں کمی کا ادائیگی پر اثر:
چند سالوں سے کرنسی نوٹ اپنی مالیتی اعتبار سے جس غیر یقینی صورت حال سے دو چار ہے،اس کے پیش نظر ریرِ بحث مسئلہ فی الواقع سنجیدہ غور وفکر کا مستحق ہے۔علماءکو اجتماعی غور وفکر اور بحث و تمحیض کے ذریعے سے اس کا شرعی حل پیش کرنا چاہئے۔۔۔۔ اس سلسلے میں راقم کی رائے حسب ذیل ہے:
کرنسی نوٹ موجودہ دور میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔سونے چاندی کے سکوں کی بجائےاب یہی نوٹ اس کے متبادل بن گئے ہیں۔ لین دین اور مالی معاملات کی اساس بھی یہی نوٹ ہیں۔اس لیے بعض علماء تو اس کو عرفاََ ثمن تک کا درجہ دیتے ہیں،جس طرح کہ سونا چاندی اپنی اصل کے اعتبار سے ہی ثمن ہے۔لیکن کرنسی کی تمام تر اہمیت کے باوجود اسے بعینہٖ سونا چاندی کی طرح بطورِ ثمن سمجھ کر سونا چاندی والاحکم اس پر لاگو کرنا بعض علماء کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ سونا اور چاندی دونوں کا زکوٰۃ کے لیے نصاب متعین ہے جبکہ کرنسی نوٹوں کی زکوٰۃ کرنی ہو تو اس کے لیے کوئی متعین نصاب نہیں ہے،نہ ہی اس کا متعین ممکن ہے۔کیونکہ کرنسی نوٹوںکی زکوٰۃ کے لیے پہلے سو نے یا چاندی(بہ اختلاف علماء)کے متعین نصاب کی کرنسی کے اعتبار سے قیمت متعین کی جائے گی اور پھراس کے بعداس کےبعد اس کی زکوٰۃ ادا کی جائے گی،جس میں ہر سال کمی بیشی کا امکان ہی نہیں،ایک حقیقت اورواقعہ ہے۔
مثلاًاگر کرنسی نوٹوں کے لیے سونے کے نصاب کو بنیاد بنایا جائے(جیسا کہ علامہ یوسف قرضاوی وغیرہ علماء کا خیال ہے)تو ساڑھے سات تولےسونے کی قیمت کرنسی کے اعتبار سے ہوگی۔اتنی مالیت کے کرنسی نوٹ اگر کسی کے پاس زائد از ضرورت ایک سال تک موجود رہیں تو پھرڈھائی فی صد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے گی،مثال کے طور پراس وقت سونا 6000روپے فی تولہ ہے تو 45 ہزار کے کرنسی نوٹوں پر زکوٰۃ(شروطِ مقررہ کے مطابق)اس کے مالک پر عائد ہوگی،اس سے کم پر زکوٰۃ نہیں ہوگی،لیکن سال دو سال بعد سونا 6کی بجائے7 ہزار فی تولہ ہوجائے تو پھر45 ہزار روپے پر بھی زکوٰۃ عائد نہیں ہوگی۔ پھر یہ رقم اس سے بھی زیادہ ہوگی تب قابل زکوٰۃ ہوگی۔یوں سونے کے اُتار چڑھاؤ کے ساتھ کرنسی نوٹوں کی شرح نصاب میں بھی رد وبدل ہوگا۔(خیال رہے کہ اب 2017 میں سونا فی تولہ پچاس ہزارروپےہے)
یہی صورت حال کرنسی نوٹوں کی زکوٰۃ چاندی کے نصاب سے وابستہ کرنےکی صورت میں پیش آئےگی۔جیسا کہ پاک وہند کے علماء نے چاندی کے نصاب کو ہی کرنسی نوٹوں کی زکوٰۃ کے لیے بنیاد بنایا ہوا ہےاور اس اعتبار سے ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت اس کا نصاب ہے۔اگر اتنی چاندی 6ہزار کرنسی نوٹوں میں آتی ہے تو 6 ہزار کی رقم کرنسی نوٹوں کے لیے زکوٰۃ کا نصاب ہوگی۔اگر 7 ہزار میں ساڑھے باون تولہ چاندی آئے گی تو 7 ہزار روپے ہوگا،8 ہزار میں آئےگی تو8 ہزار نصاب ہوگا۔
اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سونے چاندی کی طرح کرنسی نوٹو ں کا کوئی متعین نصاب نہیں ہے،اس لیے شرعی طور پر یہ سونا چاندی کی طرح ثمنیت کے حامل نہیں سمجھے جاسکتے اورجب ان کی حیثیت بالکل سونے چاندی کی طرح نہ ہوئی تو اُصولی طور پر لمبے مالی معاہدات میں کمی بیشی کا جواز تسلیم کیا جانا چاہئےتاکہ کسی ایک فریق کو نقصان نہ اٹھانا پڑے۔
بنا بریں حکومت اگر کوئی ایسا قانون یا اُصول وضع اور متعین کرتی ہے کہ جس کی رو سے مالی معاہدات میں کرنسی کی قیمت کے اُتار چڑھاؤ کا اعتبار کیا جاسکےتو شرعاََاس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے کیونکہ ایک عرصہ گزر جانے کے بعد کرنسی کی قیمت میں خاطر خواہ کمی آجاتی ہے جس سے بعض دفعہ بہت سے لوگوں کو خاصا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔اسی طرح اندرون ملک عام لوگوں کو بھی خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے جب کہ کچھ دوسرے لوگوں کو خاص منفعت حاصل ہوجاتی ہے ظاہر بات ہے کہ یہ صورتحال ’’لاضرر ولاضِرار‘‘(مؤطا امام مالک،کتاب البیوع)کے خلاف ہے۔
اسلام کے اس اصول کا تقاضہ یہ ہے کہ جب کہ کرنسی کی قیمت مسلسل گر رہی ہے تو اس کے لیے حکومت کوئی ایسا اصول اور ضابطہ بھی تجویز کرےجس سے اس سے پیدا ہونے والےنقصان کی تلافی بھی باآسانی ہوسکے۔
مذکورہ بالا وضاحت سے رٹ گزار کے موقف کی اصولی تائید ہوتی ہے کہ 20 سال میں زمین کی قیمت میںسو فیصد ہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ اضافہ ہوگیاہے۔اس لیے قانونِ حق شفعہ کی زیربحث شق کو اس طرح تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جس سے خریدارکو نقصان نہ اٹھانا پڑے۔اس موقف میں بظاہر شرعاََ کوئی قباحت نظر نہیں آتی کیونکہ اس طرح ایک فریق کے نقصان کا ازالہ مقصود ہے جو مستحسن امر ہے۔تاہم یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ حکومت کی طرف سے جب تک اس کے لیےکوئی اصول اورضابطہ تجویزنہیں کر دیا جاتا،اس وقت تک عام لین دین معمول اور عرف کے مطابق کرنا ضروری ہےاور وہ عرف فی الحال یہی ہے کہ جتنی تعداد کےکرنسی نوٹوں میں سودا طے ہوا تھا یا معاہدہ ہوا تھا،اتنی ہی تعداد کے وصول کرنے کا فریق ثانی حقدار ہوگا۔کرنسی کی قیمت کی کمی کا اعتبارنہیں ہوگا،کیونکہ کسی اصول اور ضابطے کے بغیرمذکورہ اجازت مفاسدکثیرہ اور نزاعات کا باعث ہوگی۔تاہم عدالتیں خصوصی کیسوں میں مذکورہ شرعی گنجائش کی روشنی میں کرنسی کی قیمت میں کمی سے پیدا ہونے والے نقصان کے اِزالے کافیصلہ کر سکتی ہیں جیسا کہ زیربحث مقدمہ میں بھی اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔
سوال نمبر7:اگر سود یا مارک اَپ کی تمام اقسام اسلامی احکامات کے خلاف قرار دی جائیں تو آپ فنانسنگ کے کیاطریقہ ہائےکار تجویز کرتے ہیں:
(الف)تجارت اورصنعت کی فنانسنگ(ب)بجٹ کے خسارے کی فنانسنگ
(ج)بیرونی قرضوں کا حصول (د)اسی نوعیت کی دیگر ضروریات اور مقاصد
جواب:اس میں کوئی شک نہیں کہ سود یا مارک اپ کی تمام قسمیں حرام ہیں۔لیکن اس کے لیےمتبادل صورتیں کیا یا کیا اختیار کی جاسکتی ہیں؟یہ بہت تفصیل طلب مسئلہ ہے۔اسے یہاں بیان نہیں کیا جاسکتا،علاوہ ازیں علماء اس کی تفصیلات بھی کماحقہ بیان نہیں کرسکتے،کیونکہ یہ ان کا میدان نہیںہے،تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ علماء اور ماہرین معیشت باہم مل کر اس کا حل تلاش اور متبادل تجویز کرسکتے ہیں۔بلکہ بہت سے حل اور تجاویز پہلے بھی مرتب ہوچکی ہیں جو کتابوں اور رپورٹوں کی شکل میں موجود ہیں۔خود اسلامی نظریاتی کونسل نےبھی اس مسئلے کے حل کےلیےماہرین معیشت کے مشوروں سے ایک رپورٹ تیار کی تھی جو موجود ہے،اس کے علاوہ بھی اسلامی بینکاری یا اسلامی معیشت کے نام سے بہت سی کتابیں تحریر شدہ موجود ہیں،جن میں اسی مسئلے پر بحث کی گئی ہےکہ سود سے بچ کر کس طرح ہم اپنے اقتصادی ڈھانچے کو استوار کر سکتے ہیں؟
نیت اگر صاف ہو اور سود سے بچنے کا جذبہ اور داعیہ قوی ہو،تو ابتدائی طور پر ان خاکوں اور تجاویز کو سامنے رکھ کر غیر سودی نظام کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ ابتدا میں یقینامشکلات آئیں گی،صدیوں سے بنےبنائے نظام کی جگہ ایک نیا نظام قائم کرنا بلاشبہ جان جوکھوں کا کام ہے،لیکن جو قومیں عزم اور جذبے سے سر شار ہوتی ہیں ،وہ مشکلات کو خاطر میں نہیں لاتیں،بلکہ تیشہ فرہاد سے جوئے شیر نکال کر دکھادیتی ہیں۔ہم بھی اگر ابتدائی مشکلات سے گھبراتے اور ڈرتے رہے، جو یقیناََ پیش آئیں گی،تو کبھی بھی یہ معرکہ سر نہیں کر سکیں گے۔اس کے لیے پھر صدیاں بھی ناکافی ہوں گی،لیکن ہم اللہ پر بھروسہ کر کے اور ایمانی عزم وجذبہ سے سر شار ہوکر یہ تہیہ کرلیں کہ ہم نے اس سودی نظام سے نجات حاصل کرنی ہے۔تو یقیناََ چند سالوں میں بھی ہم اس میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا بھی وعدہ ہے کہ:
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ
العنكبوت – 69
’’جو ہماری راہ میں کوشش کرتا ہے ہم اس کے لیے راہیں کھول دیتے ہیں‘‘۔
تاہم اس میں کامیابی کے لیےدو محاذوں پر ہمیں سخت محنت اور جد و جہد کرنی پڑے گی۔ایک محاذ قوم کی اصلاح وتربیت اور کردار سازی کا ہے،جس سے ہمارے حکمران بالکل غافل ہیں۔حالانکہ اسلام کا پودا اسلام کی سرزمین پر ہی نشوو نماپاسکتا ہے،غیر اسلامی آب و ہوا میں ہر گز نہیںپنپ سکتا۔اس وقت ہماری قوم سچائی،امانت ودیانت اور دیگر اخلاقی خوبیوں سے یکسر محروم ہے،الا ماشاء اللہ۔اور اسلامی نظامِ معیشت کا پوداسچائی امانت اور دیانت کی سر زمین پرہی لگ سکتا ہے،جب تک قوم کے اندریہ وصف اور خوبی پیدا نہیں ہوگی،اس وقت تک غیر سودی نظام کا پودایہاں لگ سکتا ہےنہ نشوونما ہی پاسکتا ہے۔ اس کے لیے تعلیمی نصاب بدلنا ہوگا،تعلیمی اداروں میں اسلامی روح پھونکنی ہوگی،اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن ان سب کا قبلہ درست کرنا ہوگاان سب کا قبلہ اس وقت بالکل مخالف سمت میں ہے۔
دوسرے نمبر پراسلامی معیشت کے ُاصولوں پر اپنےبینکاری نظام کو استوار کرنا ہے،اس سلسلے میں اب تک فکرونظر کے دائرے میںجو کام ہوا ہے،اس سے استفادہ کیا اور اسے بنیاد بنایا جائے۔لیکن چونکہ عمل کا میدان،فکرونظر سے مختلف ہے۔ممکن ہے عمل کے میدان میں نئی صورتیں پیش آئیں،جن کا حل پہلی رپورٹوں اور خاکوں میں نہ ہو۔تو اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔دل میں اخلاص ہواور جذبہ صادق ہو،تو قدم قدم پر رہنمائی ملتی رہےگی، راستے میں پہاڑ آئیں گے تو وہ بھی راستہ دینے پر مجبور ہوں گے،سمندر آئیں گے تو انہیں بھی عبور کرنا مشکل نہیں ہوگا۔مخالفتوں کی بادِ تند بھی اپنا رخ بد ل لے گی اور اغیار کی سازشوں کے طوفان بھی آہنی عزم کی چٹان سے ٹکرا کر ختم ہو جائیں گے۔شرط صرف ایک ہی ہے،ایمان ،عزم اور قوت ِعمل سے سرشاری۔
وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
آل عمران – 139
سرماریہ کاری کی چند متبال صورتیں
ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ بینک موجودہ سودی طریقہ کر اگر نفع و نقصان کی بنیاد پر مضاربت کا طریقہ چھوڑ کراختیار کرتا ہے تو اس میں کامیابی کی کوئی اُمید نہیں۔کیونکہ اس طرح اکثر لوگ کاروبار میں نقصان ظاہر کرکےبینک کی ساری رقم ہڑپ کرجائیں گے۔
موجودہ حالات میں بینک والوں کی یہ بات ایسی نہیں کہ اسے اہمیت نہ دی جائے اور اسے یو ں ہی مذاق میں اُڑادیا جائے،بلکہ قومی اَخلاق کی پستی اور کردار کی زبوں حالی اس انتہا کو پہنچی ہوئی ہے کہ بینک والوں کی بات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔تاہم اس کے باوجود۔۔۔؟ عرض کریں گے کہ قوم کو اس اخلاقی پستی سے نکالنے کی ذمہ داری بھی توحکومت کی ہے،وہ اس طرف بھی توجہ دےتاکہ اقتصادومعیشت کی بنیادبھی صحیح ہوسکے۔
لیکن تعلیم و تربیت اور اصلاح،یہ وسیع المیعاد پروگرام ہے،اوّل تو اس کی طرف کسی کی توجہ ہے نہ مستقبل قریب میں بظاہر کسی حکومت سے اس بارے میں اچھی اُمید ہی وابستہ کی جاسکتی ہے۔اس لیے بینک کےلیے فی الحال کچھ متبادلات ہیں جن پر بینک سرمایہ کاری کر کے لاکھوں،کروڑوں کا نفع حاصل کر سکتا ہے۔
مثلاََ جس صنعت و کارخانےوغیرہ کے لیے بینک رقم مہیا کرے،تو بینک اس کی مؤثر نگرانی کے لیےاپنےچند آدمی بھی اس میں رکھوا سکتا ہے،یہ نگرانی اور بندوں کی تقرری معاہدے کا باقاعدہ حصہ ہو،توبینک کے ساتھ فراڈ کرنا ممکن نہیں رہے گا۔
(2)بینک قابل کاشت زمینیں خرید کر اس پر سرمایہ کاری کریں اور مزارعت یا نقد ٹھیکے پر وہ زمینیں کاشت کرنے والوں کو دیں۔یہ مزارعت اور نقد ٹھیکہ جائز ہے،بینک اس کاروبار کے ذریعے سے معقول آمدنی حاصل کرسکتے ہیں۔
(3)اسی طرح ملک میں زمینوں کا ایک بہت بڑا حصہ بیکار پڑا ہوا ہے،وہ زمینیں بنجر یا ریگستانی ہیں۔لیکن اگران پر سرمایہ کاری کی جائے، تو وہ قابل کاشت ہوسکتی ہیں۔بہت سے لوگوں نے ذاتی طور پر ایسا کیا ہے توواقعی اس کے بہت مفیدد نتائج سامنے آئے ہیں۔ابھی حال ہی میں ’’جنگ ‘‘کےایک کالم نگار جاوید چوہدری کا کالم بعنوان’’چولستان کے دکھ کون سنے گا‘‘ شائع ہوا ہے،چولستان بہاولپور کا ایک صحرائی اور ریگستانی علاقہ ہے۔ اس علاقے میں ایک صاحب نے چند مربع زمین لے کر اس میں جو جنت ِ ارضی بسائی ہے،وہ حکومت اور بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے والوں،دونوں کے لیے لمحہ فکریہ اور وعوتِ غور ہے۔چونکہ ہم نے یہ تجویز پیش کی ہے اوراس کی عملی مثال ہمارے سامنے آئی ہے،اس لیے اس کالم کا یہ متعلقہ حصہ ملاحظے کےلیے پیش خدمت ہے۔ کالم نگار لکھتے ہیں:
’’چولستان سے واپسی پر ایک عجیب منظر دیکھا۔ریت کے ٹیلوں،چھدری جھاڑیوں اور آوارہ بگولوں کے عین درمیان جنت کا ایک ٹکڑا تھا۔زمین پر سبزہ بچھا تھا،گھنے درخت آسمان کی طرف منہ اُٹھائے کھڑے تھے،کپاس بار تھی اور چھوٹی سی نہر ساتھ ساتھ بہ رہی تھی،ہم لوگ وہاں رُک گئے۔میں نے جنت کے رکھوالے سےمالک کا نام پوچھا،اس نے کو لہوں پر ہاتھ رکھ کر جواب دیا:’’یہ سیٹھ عقیل الرحمٰن کے مربعے ہیں‘‘۔یہ نا م میرے لیے جانا پہچانا تھا،میں نےاپنے ساتھیوں سے سیٹھ صاحب کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا سیٹھ عقیل الرحمٰن قومی اسمبلی کے رکن ہیں،حکام کی مہربانی سے چولستان سےساٹھ ستر مربع اراضی حاصل کی۔اسے ہموار کیا اور میلوں دور بہتی نہر کا پانی کاٹ کر ریت کو سونا بنالیا۔جب یہ داستان سنائی جارہی تھی تو میں سیٹھ عقیل الرحمٰن کا حوالہ یاد کرنے کی کوشش کررہا تھامجھےیوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میں ان سے واقف ہوں یا میں نے اُن کے بارے میں سن رکھا ہے۔ابھی داستان جاری تھی کہ میرے دماغ میں روشنی کا گولہ پھٹا اور میں نے اپنے ساتھی کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا:’’کہیں یہ سیٹھ صاحب وہی تو نہیں ہیں‘‘ ساتھی نے ہاتھ چھڑا کر جواب دیا:’’ ہاں وہی سیٹھ عقیل الرحمٰن ہیں جو وزیر اعظم کو ساتھ لے کر پہنچے،محکمہ آبپاشی کے افسر طلب کرائےاور انہیں پانی چوری کرانے کے جرم میں ہتھکڑیاں لگوادیں‘‘میں نے حیران ہو کر پوچھا:’’کیا ان کی زمینوں کو سیراب کرنے والا یہ پانی جائز ہے؟’’میرے ساتھی نے قہقہ لگایا اور ٹوپی سیدھی کرتے ہوئے بولا’’چوہدری صاحب! نا سمجھ بچوں جیسے سوال نہ کیا کریں۔!! سیٹھ عقیل الرحمٰن کی تشکیل کردہ جنت سے آگے نکل کر میں نے سوچا،اگر نہر سے پانی کی پتلی سی لکیر نکل کر صحراکے دوزخ میں فردوس کایہ ٹکڑا تخلیق کرسکتی ہےتو ایک ذراسی بڑی آبی لکیرپورے صحرا کو جنت کیوں نہیں بنا سکتی؟صدیوں سے جگہ بدلتے ٹیلوںاور برسوں سے بوندوں کو ترستےبگولوں نے سرگوشی کی’’بنا سکتی ہے،بنا سکتی ہے‘‘۔لیکن اس کے لیےایک دور تک سوچنے والا لیڈر چاہئے‘‘۔ میں نے کہا’’ہمارے پاس ایسا لیڈر ہے تو سہی’’ٹیلے قہقہہ لگا کر بولے’’نہیں نہیں جس لیڈرکے پاس مہر اقبال جیسےلوگوں کے زخموں پر پھائے رکھنے کاوقت نہ ہو ، وہ لاکھوں سال کی منتظر زمینوں کا دکھ سننے کے لیے فرصت کہاں سے لائےگا‘‘۔[6]
(4)اسی طرح کمپنیوں کے شیئرز ہیں۔اس میں بھی کاروباری شراکت کو جائز قراردیا گیاہے۔اس میں اصل خرابی سٹے کاجز شامل ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔اگر قانونی طور پر اس خرابی کو شامل ہونے سے روک دیا جائے،تو شیئر زکے کاروبار سے بھی بینک بہت منافع حاصل کرسکتے ہیں۔
یہ سرمایہ کاری کی چند مثالیں ہم نے اس لیے دی ہیںکہ اگر مضاربت میں کامیابی کا فی الحال امکان نہیں ہےتو سرمایہ کاری کا یہ واحد میدان نہیں ہے،بلکہ سرمایہ کاری کا میدان بہت وسیع ہےاور بہت سی جائز اور متبادل صورتیںسوچی اوراختیار کی جاسکتی ہیں۔اگر سود سے بچنے کا عزم قوی اور داعیہ سچا ہو،تو بہت سی راہیں نکل سکتی ہیں اور اس حرام کاری وحرام خوری سے قوم کو بچایا جاسکتاہے ورنہ
ع خوئے بدر احیلہ ٔ بسیار!
اس خوئےبد اور حیلوں بہانوں کا علاج کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔آپ متبادلات کا ڈھیر لگادیں،خاکوں پر خاکے اور رپورٹوں پر رپورٹیں تیار کر کے دے دیں،ان سے ردّی میں تو اضافہ ہوگا،عمل و اقدام کا کوئی جذبہ پیدانہیں ہوگا۔گویا ہمارا صل مسئلہ متبادل اساس کا نہیں ہے ،وہ تو موجود ہے اور اسے ہم اپنے عزم اورقوتِ عمل سے مزید بہتر اور سازگار بناسکتے ہیں۔ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اندر ایمانی عزم کی کمی ہےاور ہم حرام خوری سے بچنے کا کوئی جذبہ اور داعیہ ہی نہیں رکھتے۔
سوال نمبر8:اگر آپ کے خیا ل میں سود کی تمام اقسام شرعی طور پر حرام ہیں توحقیقت سے اس کے خاتمےکے لیے آپ کیا طریقہ کار تجویز کرتے ہیں،کیا آپ موجودہ اقتصادی نظام کو فوراََ ختم کردیں گے یا قومی معاشی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تدریجی عمل تجویز کریں گے؟اگرآپ تدریجی عمل کو ترجیح دیتے ہیں تو آپ اس مقصد کے لیےکیا حکمت عملی تجویز کرتے ہیںجوقرآن و سنت کے تقاضوں کے مطابق ہو؟
جواب:حکمت ِعملی کے طورپرتدریج کی اہمیت و ناگریریت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔لیکن تدریج کے نام پر عملی اقدامات سے گریز کی تائید بھی نہیں کی جاسکتی۔یہی تدریج مرحوم ضیاء الحق نےبھی اختیار کیے رکھی،جس سے قوم کو کچھ حاصل نہیں ہوا۔اس لیے تدریج ضروری ہے،تو کوئی نظام بھی راتوں رات نافذ نہیں ہو سکتا۔ایک بنے بنائے نظام کو،جس کی جڑیں بڑی گہری اور وسیع ہوں،اسے اکھیڑ کر ایک نیا نظام استوار کرنا،پھرا س کی نشو و نما اوراستحکام کے لیے آب وہوا بھی اس کے موافق بنانا(جیسا کہ پہلے اشارہ کیا گیا)ایک مناسب تدریج اور حکمت ِعملی کا تقاضا کرتا ہے۔لیکن اس کے لیے ہمہ جہتی اقدامات ، گو تدریج کے ساتھ ہوں،نہایت ضروری ہیں،اس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔کسی ایک شعبے میں جزوی یا نیم دلانہ اقدامات سے کچھ نہیں ہوگا،یہاں تو مکمل آپریشن اور سرجری کی ضرورت ہے،جب تک قوم اس عمل جراحی سے نہیں گزرے گی،کسی بھی شعبے میں کامیابی ممکن نہیں۔
سوال نمبر9:اگر تمام معاملات خلاف ِشرع ہیں تو ماضی میں کیے گئے معاملات اورمعاہدات کا کیا کیا جائےگا؟خاص طورپر حکومت پچھلے غیر ملکی قرضوں کے معاملے میں کیا طریق کار اختیار کرےگی؟
جواب:جہاں تک اندرونی معاہدات اور معاملات کا تعلق ہے،ان میں سود کا لینا اور دینا فوراََ ممنوع قرار دیا جائے۔تاہم کسی کی اصل رقم پر زَد نہ پڑے،وہ ہر صورت میں واپس کی جائے۔یا پھر یہ رقم مالکوں کی اجازت کے ساتھ غیر سودی معاملات میں شرعی طریقوں کے مطابق استعمال میں لائی جائےاور اس کے نفع نقصان میں ان کو شریک کیا جائے۔اگر حکومت نے غیر سودی نظام قائم کرنے میں اخلاص کا ثبوت دیا،تو قوم بھی اس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہوگی،کیونکہ قوم اپنی تمام تر کمزوریوں اور بد عملیوں کے باوجود اسلامی نظام کی خواہشمند اور اس کے لیے جذباتی وابستگی رکھتی ہے۔اس کی اکثریت میں اب بھی اسلام کے لیے قربانی کا جذبہ اور داعیہ موجود ہے،بدقسمتی سے اب تک کوئی حکمران بھی ان کےاس جذبے سے فائدہ نہیں اٹھاسکا،بلکہ سب نے ان کا استحصال ہی کیا ہے،اس لیے قوم حکمرانوں سے مایوس ضرور ہے،لیکن اللہ سے مایوس نہیں ہے ،وہ اب بھی کسی مسلمان مردِ غیب کی منتظر ہے-،جس مقتدر ہستی میں اب بھی ان کو امید کی کوئی کرن نظر آئے گی،وہ اس پر اپنا مال ہی نہیں بلکہ دل و جان بھی فدا کرنے کےلیے تیار ہوگی۔کاش کوئی مردے از عیب پیدا ہو اور’’ کارے بکند‘‘کےمصداق کچھ کر کےدکھائے۔
جہاں تک بیرونی قرضوں کا تعلق ہے،یہ ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہیں،جن کاسلسلہ تاحال جاری ہے۔ان قرضوں نےہم سےہماری خودی چھین لی ہے،ہماری آزادی کو گروی رکھ دیا ہے، اور ہمیں خوئے غلامی میں پختہ تر کر دیا ہے۔ان کا سلسلہ یکسر اور فوری طور پر ختم کرنا ضروری ہے۔تاہم ان کی بھی اصل رقم کی ادائیگی ضروری ہے اور سود کی عدم ادائیگی کا فوری اعلان کردینا چاہئے۔ہمارے سامنے کئی ملک ہیں جنہوں نے عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے قرضے دینے سے بالکل انکار کردیاہے،صرف سود ہی نہیں،بلکہ اصل رقم بھی دینے کے لیے وہ تیار نہیں ہیں۔جب دوسرے بعض ممالک اتنی جرأت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں،تو کیا ہمارے اندر اتنی جرأت بھی نہیں کہ ہم صرف سود ادا کرنے سے انکار کردیں جو سراسر ظلم ہےہم ظلم کے خلاف بھی لب کشائی نہیں کر سکتے؟اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہیں کرسکتے؟غیر ملکی قرضوں کی دلدل سے نکلنے کا یہی واحد طریقہ ہے کہ ہم ایک خودانحصاری کی پالیسی اپنائیں اور ایک پیسہ بھی قرض نہ لیںاور دوسرے،اس جرأتِ گفتار اور قوت ِکردار کا مظاہرہ کریں کہ سود دینے سے انکار کردیں۔اگر ہم نے اپنے اندر یہ جرأت اور قوت پیدا کر لی،توغیر ملکی طاقتیں ہمارا کچھ نہیں کرسکتیں۔ہمارا موقف عدل و انصاف کے مطابق ہوگا،اس لیے جیت ہماری ہی ہوگی،نہ کہ قرض دینے والی طاقتوںکی،جو در اصل ظالم اور کمزور قوموں کا خون چوس لینے والی ہیں۔
سوال نمبر 10:کیا قرض دینے والاقرض سے متعلق منافع حاصل کرنے کا وقت اور اس کی شرح مقرر کرسکتا ہے جبکہ قرض لینے والا یہ کہہ رہا ہو کہ وہ مطلوبہ روپیہ کمانے اور بروقت رقم لوٹانے کے قابل ان شاء اللہ ہو جائے گا اور اس کے بعدقرض لینے والا رقم کی ادائیگی میں تاخیر کرے تو گارنٹی دینے والا منافع،بونس یا تلافی کے لیے زائد رقم دے سکتا ہے۔اگر اس صورت حال میں انشورنس کا نظام متعارف کرایا جائے تو اس کی کیا صورت ہوگی اور اس کا جواز ہوگا؟
جواب: یہ سوال کئی سوالات کو متضمن ہے۔ اس میں پہلی بات تویہ ہے کہ قرض دینے والا قرض پر کوئی متعین منافع لے ہی نہیں سکتا،تو اس کی شرح مقرر کرنے کا کیا سوال؟البتہ قرض کی واپسی کے لیے وقت کا تعین کیا جاسکتا ہے،کیونکہ یہ تو قرض دینے والے کا حق ہے کہ وہ اپنی رقم کی واپسی کے لیے وقت کی تعیین اور تاکید کرے۔لیکن اس رقم پر چونکہ متعین منافع سود کی ذیل میں آتا ہے،اس لیے اس کی شرح کا تعین نہیں کیا سکتا،اگر کیا جائےگا تو یہ معاملہ سودی بن جائےگا۔
اسی طرح گارنٹی دینے والا بھی اصل رقم کی واپسی کی گارنٹی دیتا ہے تو ایسا کرنا جائزہے۔لیکن منافع کی گارنٹی دیتا ہے، تو یہ سود کی گارنٹی دینا ہےجو ناجائز ہے۔
اس میں تیسرامسئلہ انشورنس کے نظام کا ہے،انشورنس کی آج کل بے شمار قسمیں ہیں:قرض کے تحفظ کے لیے انشورنس کا کوئی نظام تجویز کیا جاتا ہے،تو ایسا کرنا جائز ہوگا بشرطیکہ اس کا طریق کار شریعت کےخلاف نہ ہو۔لیکن اگر اس کا مقصدسودی قرضوں کا تحفظ ہے تو یہ ناجائز ہوگا۔
نیز اس سوال سے اگر مقصدیہ ہے کہ قرضوں کی بروقت ادائیگی نہ کرنے سے دائن کو افراط ِزَر کی وجہ سے جو نقصان ہو سکتا ہے،اس کے اِزالے کے لیے کوئی ضابطہ بنایا جاسکتا ہے یا نہیں؟تو اس کا جواب اثبات میں ہے۔اس کے لیے یقینا ضابطہ بنایا جاسکتا ہے بلکہ بنایا جانا چاہئے۔کیونکہ ہمارے ملک میں قرضوں کی وصولی ایک نہایت سنگین مسئلہ ہے۔دائن تو ضرورت پرقرض دے کرایک احسان کرتا ہے،لیکن ہماری قوم سخت احسان فراموش ہے،وہ حسن قضاء کی بجائےقرضہ ہی ہڑپ کرجانے کی کوشش کرتی ہے،علاوہ ازیں دکانداروں اور سرمایہ داروں میں بھی قرضوں کی عدم ادائیگی کا رجحان عام ہے،اس عادتِ بد کی وجہ سے بہت سے صنعت وحرفت سے وابستہ افراد،جو محدود سرمائےکے حامل ہوتے ہیں،اپنا کاروبار ہی بند کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔اس لیےقرضوں کی بروقت ادائیگی کے لیے اگر کچھ اصول اورضابطے تجویز کر لیے جائیںتو ان سے یقیناََ ان خرابیوں کےازالےمیں مدد مل سکتی ہے۔اس کے لیے ایک تو تحریری معاہدہ ضروری قرار دیا جائےجیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
دوسرے بروقت ادائیگی نہ کرنے میں جو نقصان ہوسکتا ہے،اس کا ازالہ افراطِ زَر کی روشنی میں کیا جائے یا قرضوں کو کسی مستحکم چیز سے وابستہ کردیا جائے،مثلاً چاندی یا سونےکی قیمت سےیا کسی مضبوط کرنسی سے۔مثلاََکسی نے پچاس ہزار روپے چھ مہینے یا سال کے وعدے پر لیے،تو اس کے لیے ضابطہ بنایا جاسکتا ہےکہ جس تاریخ کو قرض دیا گیا،اس روز پچاس ہزار اتنے تولے سونے کی مالیت کے حامل تھے،یااس کے اتنے ڈالر یاپونڈآتے تھے،ادائیگی کے وقت اتنے ہی تولےسونے کی رقم یا اتنے ہی ڈالرپونڈ کی شکل میں وصولی کی جائے۔کاروباری قرضوں پر بالخصوص ان ضابطوں کا اطلا ق کیا جائے،تاکہ کاروباری لوگ بلاوجہ محدود سرمایہ رکھنے والےلوگوں کو پریشان کرنا چھوڑ دیں اور بروقت رقم کی ادائیگی کردیں اور ادھا ر بھی کرنا ہو تواسےزیادہ لمبا نہ کریں۔
اس ضابطے سے یقیناََ قرضوں کے ڈوب جانے کے امکانات میں بھی کمی آئے گی اور چھوٹے موٹے کاروباریوں کی مشکلات بھی کم ہوں گی۔اس کے لیے پھر ایک عدالت کا قیام بھی ناگریز ہوگا،جہاں ان معاملات کا فیصلہ ہوسکے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
[1] یہ مضمون آج سے تقریباََ 18،19 سال قبل کا تحریر کردہ ہے
[2] صحیح البخاری:باب حسن القضاء
[3] صحیح المسلم،کتاب المساقاۃ،باب الصرف بیع والذھب بالورق نقدأ
[4] صحیح المسلم:حدیث نمبر:1584
[5] رباالفضل کی مختلف صورتیں:ہر مال کا ایک وصف عام ہوتا ہے ،اس اعتبار سے اسے جنس کہا جاتا ہے اور ایک وصف خاص ہوتا ہے جسےصنف(قسم)سے تعبیر کیا جاتا ہے۔جیسے غلہ جات ہیں،یہ اپنے وصف عام (کہ ان کو کھایاجاتا ہے)کے اعتبار سے ایک جنس ہیں۔یعنی کھانے والی جنس۔لیکن وصف خاص کے اعتبار سے غلہ جات کی کئی صنفیں(قسمیں)ہیں۔جیسے چاول،جو،گندم،مکئی جوار وغیرہ۔ یہ سب وصف عام کے اعتبار سےایک جنس ہیں۔جنس مطعومات،لیکن اپنے اپنے خاص اوصاف کے اعتبار سے یہ الگ الگ قسمیں ہیں۔چاول ایک قسم ہے،گندم ایک قسم،جوار ایک،مکئی ایک،منقیٰ ایک اور نمک ایک وغیرہ۔ہر کھانےوالے چیز کو اس پر قیاس کر کے اس میں شامل کیا جاسکتا ہےچاہے وہ ماپ کر فروخت ہوتی ہو یا تول کر۔۔۔ایک مال کی قسم وہ ہے جسے ثمن کہا جاتا ہے جیسے سونا،چاندی ہے اور اسی پر آج کل قیاس کیا جاسکتاہے:سکے،کرنسی نوٹ،چیک اور کمپنیوں کے شیئرز(حصے)وغیرہ کو۔
شریعت میں ان دونوں قسموں کی بابت اَحکام وارد ہیں ۔حدیث میں جن چھ چیزوں کا ذکر ہےوہ ان دونوں قسموں کو حاوی ہیں:سونا،چاندی،گندم،جو،کھجور اور نمک۔بعض ائمہ نے سودی معاملات کو صرف ان چھ چیزوں تک محدود رکھا ہے۔باقی دیگر چیزوں میں وہ کمی بیشی کو سود قرار نہیں دیتے۔جب کہ دیگرائمہ و فقہاء نے قیاس کرکے دوسری چیزوں کو بھی شامل کیا ہے۔مثلاً جو کھانےوالی چیزیں ہیں چاہے کَیلی(ماپی جانے والی)ہو ں یا وزنی(تولی جانے والے)یاجن میں(سونےچاندی کی طرح) ثمنیّت پائی جاتی ہے،یا بعض نزدیک جن کو ذخیرہ کیا جاسکتا ہو۔اس حساب سے ایک جنس وزنی چیزوں کی ہےیعنی جنہیں تول کربیچا اور خریدا جاتاہے۔دوسری جنس کَیلی چیزوں کی ہے جنہیں پیمانوں سے ماپ کر بیچا جاتا ہے اور ایک جنس ان چیزوں کی ہے جنہیں ذخیرہ کیا جاسکتا ہو اور ایک جنس وہ ہے جو ثمن بننے کی صلاحیت رکھتی ہے،جیسے سونا،چاندی،سکے،کرنسی نوٹ وغیرہ، ان اَموال میں سودی اور غیر سودی صورتیں حسبِ ذیل ہونگی۔
(1)جب دونوں تبادلوں والی چیزیں جنس اور قسم کے اعتبار سے ایک ہوں گی۔مثلا ًگندم کا گندم سے،چاول کا چاول سےتبادلہ ہو، تواس میں کمی بیشی بھی حرام ہوگی اور اُدھار بھی۔ان کا برابر ہونا بھی ضروری ہے اور مجلس عقد میں قبضہ بھی ضروری ہے۔
(2) دونوں تبادلوںوالی چیزیں جنس کے اعتبار سے ایک ہوں،البتہ قسم کے اعتبار سے مختلف ہوں تو ان میں کمی بیشی جائز ہوگی تاہم اُدھار ناجائز۔جیسے ایک کلوچاندی کا تبادلہ ایک یادو گرام سونےکے ساتھ ،ایک کلو جو کا سودا آدھا کلوگندم کے ساتھ۔ایک دینار کا تبادلہ تین چار ریالوں کے ساتھ۔اگر یہ سودا نقد ہوگا تو جائزہے۔اس میں ادھار کرنا صحیح نہیں ہے۔
(3)جب دونوں تبادلوں والی چیزیں جنس کے اعتبار سے بھی ایک نہ ہوں اور قسم کے اعتبار سے بھی مختلف ہوں تو ان میں کمی بیشی بھی جائزہےاورادھا رکرنابھی جائز۔جیسے (مثلاً)ایک کلو گندم کاایک گرام سونےسے تبادلہ۔ایک کلو کھجورکا سودا دس یا بیس تولہ چاندی کے ساتھ،ان میں کی بیشی بھی جائز ہےاور ادھارکرنا بھی جائز۔
[6] روزنامہ جنگ،لاہور،4 ستمبر 1999ء
لیلۃ القدر میں قرآن مجید مکمل نازل ہونے کے ساتھ دوسرا اہم کام کیا ہوا؟…
عبادت کے حوالے سے قرآن مجید کی کیا نصیحت ہے؟ کیا چھٹیوں کے دن آرام…
عید کی خوشی کیسے منائیں؟ عید کا چاند دیکھ کر نبی کریم ﷺ کیا کرتے…
کیا فیشن اختیار کرنے میں ہم آزاد ہیں؟ زینت، خوبصورتی یا فیشن اختیار کرنا شرعا…
غزہ کی حالیہ صورتحال کس قرآنی آیت کی عکاسی کرتی ہے؟ رمضان المبارک میں اہلِ…
رمضان المبارک میں نبی کریم ﷺ کی عبادت کیسی ہوتی تھی؟ نبی کریم ﷺ کا…