تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں، اور درود و سلام نازل ہوں اللہ کے رسول ﷺ پر، ان کی آل واصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اور ہر اُس شخص پر جو ان سے محبت کرے۔
حمد و صلاۃ کے بعد !
صحیح بخاری و مسلم میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”راستوں میں بیٹھنے سے پر ہیز کرو۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ: اے اللہ کے رسول ﷺ ان مجلسوں کے بغیر تو چارہ نہیں، کیوں کہ ہم ان میں ہی ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم بیٹھنے پر مصر ہی ہو تو پھر راستے کو اس کا حق دو۔ صحابہ کرام نے سوال کیا کہ: راستے کا حق کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نگاہ نیچی رکھنا، کسی کو ایذا نہ دینا، سلام کا جواب دینا، اچھی بات کی تلقین کرنا اور بری بات سے روکنا۔“۔
اسلام نے ہر ایک کو اس کا حق عطا کیا ہے، یہاں تک کے راستوں میں بیٹھنے کے بھی آداب مقرر کیے ہیں جیسے راستے کے آداب، ملاقات کرنے واکٹھا ہونے کے آداب اور مشترکہ حقوق کے آداب۔
راستوں پر بیٹھنے کے اصناف وانواع میں دور حاضر میں سامنے آنے والے سوشل نیٹ ورک پر ہونے والی ورچوئل مجلسیں بھی ہیں، جو جغرافیائی سرحدوں اور قلعوں کو عبور کر چکی ہیں اور جن کے اثرات ہمہ گیر شکل اختیار کر چکے ہیں۔ یہاں ہر شخص کی اپنی دلچسپی کا سامان موجود ہوتا ہے۔ خبریں یہیں سے لی جاتی ہیں، اسی کے ذریعے آپس میں بات چیت اور رابطے قائم کیے جاتے ہیں، آن لائن میٹنگ روم میں لوگ آپس میں تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ ان ذرائع سے بعض کا تعلق تو اس قدر مضبوط ہو گیا ہے کہ نشے کی حد تک پہنچ گیا ہے۔ بلکہ وہ ایسا محسوس کرتا ہے کہ ان کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا اور اس کی زندگی ان کے بغیر خوشگوار ہو نہیں سکتی۔ اس طرح سے انسان اپنی ذات کو فراموش کر بیٹھا ہے اور سماجی بندھن ڈھیلا اور خاندانی رشتے کمزور پڑ گئے ہیں۔ سب سے بری بات تو یہ ہے کہ اُس اللہ رب العالمین کے حق میں کو تاہی برتی جاتی ہے جو نعمتیں عطا کرنے والا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ ۚ
الحشر – 19
اور ان کی طرح نہ ہوں جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا ، پھر اللہ نے بھی ان کو (ایسا کر دیا) کہ وہ اپنے آپ ہی کو بھول گئے۔
ان نیٹ ورک ذرائع میں علم و عرفان اور خیر کی مجلسیں بھی دستیاب ہیں جو ذہن کو تقویت دیتی ہیں، روح کی پرورش کرتی ہیں، اورعلم و معرفت کو فروغ دیتی ہیں۔ عقلمند لوگ جب ان کا رخ کرتے ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے ، ان کے اخلاق بلند ہوتے ہیں اورعلم و معرفت پر وان چڑھتی ہے۔ وہاں ایسی مجلسیں بھی ہیں جو عقیدے کو متزلزل اور ایمان کو کمزور کرتی ہیں، جہاں حرمت والی چیزوں کی پامالی ہوتی ہے۔ اخلاق آلودہ اور شرافت و فضیلت داغ دار ہو جاتی ہے۔ اس کی بے شمار شکلیں اور صورتیں ہوتی ہیں انھیں شمار کرنے کے لیے یہ وقت کافی نہیں، اس کی بعض صورتیں یہ ہیں: دوسروں کی عزت و حرمت پر حملہ کرنا، ان کے عیوب ٹٹولنا، ان کی عزتیں اچھالنا اور فوٹو گرافی وغیرہ کے ذریعے ان کے ساتھ برا سلوک کرنا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تمہاری جانیں، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تمہارے لیے ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارے اس شہر میں اور اس مہینے میں تمہارے اس دن کی حرمت ہے۔ (صحیح البخاری)
گھروں کے راز افشا کرنا، پرائیویٹ زندگی کو سامنے لانا، نعمتوں کا مظاہرہ کرنا، سواری، کھان پان یا لباس کو فخریہ انداز میں پیش کرنا، اپنی شخصی زندگی کو شئیر کرنا اور اس کے ذریعہ جھوٹی شہرت کے پیچھے بھاگنا، اور اپنی اقدار اور اصول و نظریات کو پس پشت ڈال کر سنسنی پیدا کرنے کی کوشش کرنا بھی اس کی بعض مذموم صورتیں ہیں۔ اور آدمی اس وقت تک اپنے دین کے معاملے میں عافیت اور وسعت میں ہوتا ہے جب تک وہ اپنی پر دہ پوشی کرتا ہے، اور اعلانیہ معصیت سے دور رہتا ہے۔
جاہلی عصبیتوں کو ہوا دینا، اور دیگر قوموں اور قبائل کی تنقیص کرنا بھی اسی قبیل سے ہے، یہ عمل جہاں اخوت و بھائی چارگی کے منافی ہے، وہیں اس سے ملکی رشتوں کے تانے بانے کمزور ہوتے ہیں، دلوں میں بغض و حسد پیدا ہوتا ہے، اور عداوتیں جنم لیتی ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے
إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ
الحجرات – 13
اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل عزت وہی ہے جو تم میں سے زیادہ پر ہیز گار ہو۔
انہیں میں وہ عمل بھی ہے جو کسی منصوبہ بند جھوٹ کی تشہیر، یا لوگوں کے درمیان برائیوں اور بگاڑ وفساد کی نشر واشاعت کا باعث بنے، یہاں تک کہ بعض لوگوں کا مقصد ان چیزوں پر تنقید کرنا ہوتا ہے، لیکن وہ غیر شعوری طور پر اس جھوٹ، یا برائی کی ترویج واشاعت کی مہم کا حصہ بن جاتے ہیں۔
انہیں میں سے امن و امان کو ختم کرنے کے لیے لوگوں کو اکسانا، جھوٹی و سنسی خیز افواہیں عام کرنا، اور گمراہ کن خبریں پھیلانا ہے۔ انہیں میں ایسی چیز بھی ہے جو دینی احکام کے منافی ہے جیسے سستی آرٹ اور حرام تصویروں کے ذریعے دو جنسوں کے درمیان اختلاط کا منظر پیش کرنا، یہ سب مجلس کے آداب کے منافی ہیں، اور ان میں شرکت کرنے والا حرام کام اور گناہ و سرکشی میں تعاون کا مر تکب ہو تاہے۔
سوشل میڈیا کے استعمال میں کسی بھی طرح کی غفلت ولا پرواہی بڑے شر اور برائی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے، جیسے کسی خوابیدہ فتنے کی آگ کو بھڑکانا، یا کسی بری سنت کو رواج دینا جس پر بعد کے لوگ عمل کرنے لگے، اور اپنے عمل کے گناہ کے علاوہ، اس کی زندگی میں اور اس کی موت کے بعد جب کہ وہ قبر میں ہو، اس پر عمل کرنے والے کے گناہ بھی اس پر جاری رہے، جب تک وہ بری سنت نسل در نسل چلتی رہے اور اس گناہ کا سلسلہ اس وقت تک منقطع نہ ہو جب تک لوگ اس سے باز نہ آجائیں۔
چنانچہ ایسے گناہ جو متعدی ہوں وہ ان گناہوں سے زیادہ خطر ناک ہیں جن کا اثر ذات تک محدود رہے، کیوں کہ متعدی گناہ کا نقصان گناہ گار کو ہوتارہتا ہے کیوں کہ وہ دوسروں تک جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتے ہیں، جب کہ جو غیر متعدی گناہ ہیں، گناہ کرنے والے کی موت کے ساتھ دفن ہو جاتے ہیں۔ یہیں سے سوشل میڈیا کی اس ٹکنالوجی کی خطرناکی کو سمجھا جا سکتا ہے، اس لیے ایک عقلمند انسان ہزار بار سوچتا ہے کہ وہ کوئی ایسی بات تو نہیں کہہ رہا ہے جو شر کے دروزے کو کھول دے، اور وہ پوری دنیا میں پھیل جائے، اور لوگ اس پر عمل اور اس کی پیروی شروع کر دیں، پھر اس کے بعد اس کے تدارک کے لیے اس کے سامنے کوئی راہ باقی نہ رہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
لِيَحْمِلُوا أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۙ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُم بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ
النحل – 25
اس کا نتیجہ ہو گا کہ قیامت کے دن یہ لوگ اپنے پورے بوجھ کے ساتھ ہی ان کے بوجھ کے حصے دار ہوں گے جنہیں بے علمی سے گمراہ کرتے رہے۔ دیکھو تو کیسا برا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔
نیز ارشاد باری تعالی ہے:
وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ ۚ
یٰس – 13
اور ہم لکھ رہے ہیں جو عمل انھوں نے آگے بھیجے اور ان کے چھوڑے ہوئے نشان بھی۔
ان وسائل کی برائیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اگر قلب وعقل محفوظ رہ بھی جائے، مگرغیر مفید امور میں قیمتی اوقات اورعمر کا ضیاع ضرور ہوتا ہے۔ اورعمر، زندگی اور تمام مصالح وقت کی ہی پیداوار ہے، لہذا جو اپنے قیمتی اوقات کو ضائع کرتا ہے اس کی زندگی کے مصالح ضائع ہو جاتے ہیں اور اگر وقت ضائع ہو جائے تو پھر کبھی وہ اس کا تدارک نہیں کر سکتا۔
اور سب سے زیادہ خطر ناک معاملہ یہ ہے کہ ایک انسان، غفلت شعار، ہوا پرست، اہل بدعت وشبہات کی مجلسوں میں بیٹھے اور یہ حجت پیش کرے کہ وہ ان کے باطل افکار پر رد کرے گا، لیکن ہوتا یہ ہے کہ چند دنوں کے اندر وہ خود ہی فتنے کا شکار ہو جاتا ہے اور ان کی چالوں میں پھنس جاتا ہے، ان کی گفتگو سے مانوس ہونے لگتا ہے، پھر اس کے دل میں زیغ وضلالت گھر کرنے لگتی ہے، جس کی وجہ سے وہ ہلاکت و بربادی کی وادیوں میں گر جاتا ہے، اور بسا اوقات وہ کفر کے گڑھے میں جاگرتا ہے، اور معاملہ اللہ کی آیتوں کا استہزاء اللہ کے وجود کے انکار تک پہنچ جاتا ہے اور معاذ اللہ وہ الحاد کی راہ پر چل پڑتا ہے۔ جو شخص ایسی جگہ پر اپنی رضامندی کے ساتھ بیٹھا جہاں اللہ کی آیات کے ساتھ کفراوراستہزا کیا جارہاہو، یا وہاں دین کی بے حرمتی کی جارہی ہو تو ایسا شخص انہیں کا شریک کار سمجھا جائے گا، تو اس لیے اس قسم کی مجلسوں سے اعراض کرنا نہایت ضروری ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
الانعام – 68
اور جب آپ دیکھیں ان لوگوں کو جو ہماری آیات میں نکتہ چینی کر رہے ہوں تو ان سے منہ موڑ لیں یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور بات میں لگ جائیں، اور اگر آپ کو شیطان بھلا دے تو آپ یاد آنے کے بعد ظالم قوم کے ساتھ نہ بیٹھیں ۔
اہل بصیرت و معرفت بخوبی جانتے ہیں کہ ان مجالس کے روحِ رواں ایسے جاہل و نالائق لوگ ہوتے ہیں جو اس کے اہل ہی نہیں ہوتے ، بلکہ اپنے فن سے ہٹ کر دوسرے شعبوں میں دخل اندازی کر رہے ہوتے ہیں، اور دوسروں کے مقام و مرتبے پر دست درازی کر رہے ہوتے ہیں، چنانچہ کوئی بغیر علم کے فتوے دے رہا ہوتا ہے، تو کوئی علم طب حاصل کیے بغیر لوگوں کے لیے علاج تشخیص کر رہا ہوتا ہے، اور کوئی بڑے بڑے مسائل پر گفتگو شروع کر دیتا ہے، اور نہایت قابل افسوس بات یہ ہے کہ آج بہت سے بہکے ہوئے لوگوں کے حصولِ علم کا مرجع و منبع یہی مجالس بن چکی ہیں ، ان مجالس کی خرابی کے لیے ان میں پائی جانے والی برائیاں) غیبت، چغلی ، فسق و فجور اور بہتان بازی ہی کافی ہیں۔ سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو بیان کر دے“۔ صحیح مسلم
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی روایت سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”رات میرے پاس دو آنے والے آئے اور انہوں نے مجھے اٹھایا اور مجھ سے کہا کہ ہمارے ساتھ چلو۔۔(طویل حدیث)، جس میں آپ ﷺ نے یہ بھی بیان فرمایا: ”ہم ایک ایسے شخص کے پاس پہنچے جو پیٹھ کے بل لیٹا ہوا تھا اور ایک دوسرا شخص اس کے پاس لوہے کا آنکڑا لیے کھڑا تھا اور یہ اس کے چہرہ کے ایک طرف آتا اور اس کے ایک جبڑے کو گدی تک چیرتا پھر وہ دوسری جانب جاتا ادھر بھی اسی طرح چیرتا جس طرح اس نے پہلی جانب کیا تھا۔ وہ ابھی دوسری جانب سے فارغ بھی نہ ہو تا تھا کہ پہلی جانب اپنی صحیح حالت میں لوٹ آتی۔ پھر وہ دوبارہ اسی طرح کرتا جس طرح اس نے پہلی مرتبہ کیا تھا“۔ اس حدیث کے آخر میں ہے کہ ان دو آدمیوں نے آپ ﷺ سے کہا کہ : ” یہ وہ شخص ہے جو صبح اپنے گھر سے نکلتا اور جھوٹی خبر تراشتا جو دنیا بھر میں پھیل جاتی“۔ صحیح البخاری
ایک مسلمان کو ایسے برے عزائم رکھنے والوں سے بچنا چاہیے جو اپنے مذموم مقاصد اور فساد کے لیے اسے استعمال کرنا چاہتے ہیں، اور اس کے ذریعے خبروں کو نشر کرنا چاہتے ہیں، جو صرف ایک کلک کی دوری پر ہوتی ہیں، اور پل بھر میں پھیل جاتی ہیں۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ۖ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
البقرۃ – 281
اور اس دن سے ڈرو جس میں تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں، اور درود و سلام نازل ہوں اللہ کے رسول ﷺ پر، ان کی آل واصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اور ہر اُس شخص پر جو ان سے محبت کرے۔
حمد و صلاۃ کے بعد !
ان مختلف پلیٹ فارم اور سوشل میڈیا پر اس طرح کی مجلسوں کا ہدف وطن کے مستقبل، امت کے جگر گوشے نوجوان لوگ ہوا کرتے ہیں کیوں کہ وہ بڑے جو شیلے ہوتے ہیں اور بہت ہی جلد متاثر ہو جاتے ہیں، اور یہ فتنے ایسی دلربا و دلکش صورت میں پیش کیے جاتے ہیں کہ نفوس ان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں، جیسے چیلنجز پر مبنی کام اور انٹرنیٹ سے جڑی ایسی ٹیم جن کے ذریعے نوجوانوں میں فکری انحراف، اخلاقی انار کی اور عقلی کمزوری سرایت کرتی ہے۔
لہذا ہمیں چاہیے کہ دعوتی و اصلاحی مہم کے ذریعے ان پلیٹ فارم کا مقابلہ کریں، جس سے لوگوں کے دلوں میں اللہ رب العزت کی نگرانی و مراقبے کا شعور بیدار ہو ، دینی حمیت میں مضبوطی آئے، اخلاقیات کو فروغ حاصل ہو، نیز ان پلیٹ فارم کے ذریعے برائی اور شر کا پر چار کرنے والی کمپنیوں اور مشکوک اداروں کا بائیکاٹ کریں۔
اے اللہ ! تو اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما۔
اے اللہ ! تو اسلام اور مسلمانوں کی مدد فرما۔
اے اللہ! ہم تجھ سے جنت کا سوال کرتے ہیں، اور ایسے قول و فعل کی توفیق کا سوال کرتے ہیں جو ہمیں جنت سے قریب کر دے۔
یا اللہ ! ہم جہنم کی آگ سے تیری پناہ چاہتے ہیں، اور ہر ایسے قول و فعل سے بھی جو ہمیں جہنم کے قریب کر دے۔
اے اللہ ! ہم تجھ سے ہر بھلائی کا سوال کرتے ہیں خواہ وہ جلد ملنے والی ہے یا دیر سے، اسے ہم جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔ اور ہر اس برائی سے تیری پناہ مانگتے ہیں، جو جلدی آنے والی ہے یا دیر سے ، اسے ہم جانتے ہیں یا نہیں جانتے، اے اللہ ! ہم تجھ سے خیر و بھلائی کی ابتد او انتہا، اس کی جامع چیزیں، اور اس کے اول و آخر ، ظاہر و باطن کا سوال کرتے ہیں اور جنت میں بلند درجات کا سوال کرتے ہیں۔
اے میرے رب ! ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ کرنا، ہماری تائید و نصرت فرما، ہمارے خلاف کسی کی تائید و نصرت نہ کرنا،ہمارے حق میں تدبیر فرما، ہمارے خلاف تدبیر نہ کرنا۔ ہماری رہنمائی فرما اور ہدایت کو ہمارے لیے آسان کر دے۔ اور جو ہمارے خلاف بغاوت کرے اس کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔
اے اللہ تو بہت زیادہ بخشنے والا ہے اور معافی کو پسند کرنے والا ہے ، لہذا ہمیں بھی معاف فرما۔ اے اللہ ! ہمارے فوت شدگان پر رحم فرما۔ ہمارے بیماروں کو شفا عطا فرما، ہمارے مصیبت زدگان کو عافیت عطا فرما، اور ہم تیری نعمت کے زائل ہونے سے، تیری دی ہوئی عافیت کے پھر جانے سے، تیری ناگہانی گرفت سے ، اور تیری ہر قسم کی ناراضی سے پناہ مانگتے ہیں۔
اے ہمیشہ سے زندہ رہنے والی ذات ! اے ہر چیز کو قائم رکھنے والی ذات ! ہم تجھ سے تیری ہی رحمت کا واسطہ دے کر مدد طلب کرتے ہیں، ہمارے سارے معاملات سنوار دے، اور آنکھ جھپکنے کے برابر بھی ہمیں اپنے نفسوں کے سپردنہ کر۔
خطبة الجمعة مسجد النبوی ﷺ : فضیلة الشیخ عبدالباري بن عواض الثبیتی حفظه اللہ
3ربیع الثانی 1444ھ بموافق 28 اکتوبر 2022
منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…
کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…
اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…
اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…
قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…
فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…