پہلا خطبہ :
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں وہی کرم اور رحم کرنے والا ہے، میں اللہ تعالی کی شان اور عظمت کے مطابق اس کی حمد بیان کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک ہمسر، مد مقابل اور فریق نہیں اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے اور رسول ہیں ، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی اولاد ، صحابہ کرام پر اعلی ترین درود و سلام نازل فرمائے، اور انہیں بلند مقام و مرتبے سے نوازے۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
مسلمانوں!
تقوی الہی اختیار کرو؛ کیونکہ تقوی عملی دنیا کی سب سے اعلی خوبی ہے آنیوالے کل کی امیدیں اسی سے وابستہ ہیں:
وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا
المزمل – 20
اور تم جو بھی بھلائی اپنے لیے بھیجو گے اسے اللہ کے پاس پا لو گے، [بلکہ] اس کا اجر اس سے بھی بہتر اور عظیم ہو گا۔
مسلمانوں!
شکر گزاری راہِ فراوانی اور تقوی کے ساتھ کامیابی کی علامت بھی ہے:
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ
إبراهیم – 7
اور جب تمہارے پروردگار نے اعلان کر دیا کہ: اگر تم شکر کرو گے تو میں لازماً اور زیادہ تمہیں دوں گا اور اگر تم نا شکری کرو گے تو بیشک میرا عذاب بھی بہت سخت ہے۔
ربیع بن انس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: ” اللہ تعالی ذکر کرنے والوں کو یاد رکھتا ہے، شکر کرنے والوں کو مزید نوازتا ہے اور ناشکروں کو عذاب سے دوچار کرتا ہے “۔
شَكَرْتُكَ إِنَّ الشُّكْرَ حَبْلٌ منَ التُّقَى وما كُلُّ مَنْ أَوْلَيْتَهُ نِعْمَةً يَقْضِي
یا اللہ!] میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں؛ کیونکہ شکرانہ تقوی کا جز ہے، جنہیں تو نوازے ان میں ہر کوئی شکر گزار نہیں ہوتا۔
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: ” رسول اللہ ﷺ نماز میں اتنا لمبا قیام کرتے کہ آپ کے قدم یا پنڈلیاں سوج جاتیں، جب آپ سے اس بارے میں عرض کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: (تو کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں!) “بخاری
لَكَ الْحَمْدُ يَا رَبِّ وَالشُّكْرُ ثَمَّ
لَكَ الْحَمْدُ مَا بَاحَ بِالشُّكْرِ فَمٌ
پروردگار! تیرے لیے حمد اور شکر ہے، جب تک زبانیں تیرا شکر کرتی رہیں تیرے لیے ہی تعریفیں ہیں۔
لَكَ الْحَمْدُ فِيْ كُلِّ مَا حَالَةٍ
فَقَدْ خَصَّنِيْ مِنْكَ فَضْلٌ وَعَمَّ
ہر حالت میں تیرے لیے ہی حمد ہے؛ کیونکہ میں ہر وقت تیرے فضل میں نہال رہتا ہوں۔
فَمِنْكَ لِيَ الْبَصَرُ الْمُقْتَفِيْ
وَسَمْعٌ وَذَوْقٌ وَنُطْقٌ وَشَمٌّ
تیری جانب سے مجھے قوت بصارت، سماعت، ذائقہ شناسی، قوت گویائی، اور قوتِ شامّہ ملی ۔
نَهَارٌ مُضِيْءٌ وَلَيْلٌ أَحَمّ
وَبَحْرٌ عَمِيْقٌ وَطَوْدٌ أَشَمّ
اسی طرح روشن دن اور تاریک رات، گہرے سمندر اور بلند و بالا پہاڑ بھی تیری نعمتیں ہیں۔
وَنَبْتٌ يَقُوْمُ عَلَى سَاقِهِ
وَآخَرُ لَا سَاقَ يُعْلِيْهِ ثَمَّ
تن آور اور بغیر تنے والی نباتات یہ سب تیرا ہی فضل ہے۔
مسلمانوں!
تم اعلی ترین امن و امان میں عیش کر رہے ہو، تمہیں وافر رزق اور انتہائی آسودہ زندگی میسر ہے، خوشحالی اور پینے کا میٹھا پانی دستیاب ہے، حالانکہ تمہارے آس پاس کے لوگوں کو خاک میں ملانے والی فاقہ کشی اور قتل و غارت کا سامنا ہے، وہ قید و بند کی صعوبتوں سے نبرد آزما ہیں، انہیں غلام اور لونڈیاں بنایا جا رہا ہے۔
مصیبتوں اور وباؤں سے ان کا مقابلہ ہے، انہیں مہنگائی، در بدری اور تباہی در پیش ہے۔ ارد گرد نظر دوڑانے پر چیخ و پکار کرتے ہوئے بچے ، آہ و بکا کی وجہ سے گلے خراب کر لینے والی خواتین اور جنگ و جراح سے چور قومیں ہی نظر آئیں گی۔
اس لیے خوشحالی پر تکبر مت کرنا، مبادا نعمتوں کی فراوانی اور بہتات تمہیں شکرانِ نعمت سے غافل نہ کر دے؛ لہذا اللہ تعالی نے تم پر جو بھی نعمتیں کی ہیں انہیں دیکھو اور نعمتیں عطا کرنے والے کا حق پہچانو، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر کرتے ہوئے اس کے فرمانبرداروں میں شامل ہو جاؤ، نعمت کو معصیت کیلیے استعمال مت کرو، شیطان کے دھوکے میں مت آ جانا، اور نہ ہی اپنے دشمن سے دھوکا کھانا۔
تمہیں وافر رزق ،امن و امان، عافیت اور نعمتیں حاصل ہیں ان پر اِتراتے ہوئے علی الاعلان گناہ مت کرنا ۔ نعمتوں کا استعمال صحیح کرو گے تو موجودہ نعمتوں کو دوام حاصل ہو گا، بلکہ وہ نعمتیں بھی حاصل ہو جائیں گی جو ابھی تک حاصل نہیں ہوئیں!۔اگر نعمت دینے کے بعد چھین لی جائے ، یا نازل ہونے کے بعد اٹھا لی جائے ، یا عزت افزائی کے بعد رسوائی کر دی جائے اس کا سبب یہی ہوتا ہے کہ ان نوازشوں کا شکر ادا نہیں کیا گیا، یا پھر یہ بد اعمالیوں کا نتیجہ ہوتا ہے؛ چنانچہ نعمتوں کا شکر ادا کیا جائے تو دوام پکڑتی ہیں اور اگر نا شکری کی جائے تو زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔
سیاہ کاریوں کے رسیا! کفار، فاسق اور فاجروں کے ہم سفر اور ہم رکاب! تم اللہ تعالی کے حلم اور مہلت دینے کی وجہ سے دھوکے میں ہو! تم نے تو اپنا رستہ ہی الگ کر لیا، اور حقوق اللہ کو پس پشت ڈال دیا!۔
أَلَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ سَامِدٌ
كَأَنَّكَ لَا تَفْنَى وَلَا أَنْتَ هَالِكٌ
اے انسان توں بیوقوف ہے، توں یہ سمجھتا ہے کہ ہمیشہ رہو گے اور تمہیں موت نہیں آئے گی؟!۔
تکبر اور گھمنڈ کرنے والے ! فسق و فجور اور گناہوں میں ملوث شخص ! تم یہ سمجھتے ہو کہ مال و دولت فنا نہیں ہوں گے؟ نعمتیں واپس نہیں لی جائیں گی؟ تمہیں فوری سزا نہیں مل رہی تو تم مہلت اور فرصت کی وجہ سے دھوکے میں ہو!؟۔
اپنے غلط نظریے سے باز آ جاؤ؛ کیونکہ اللہ تعالی کسی بھی قوم پر اپنی پکڑ اسی وقت نازل کرتا ہے جب وہ مد ہوش، دھوکے میں پڑے ہوئے اور نعمتوں میں مگن ہوتے ہیں؛ اس لیے کتنی ہی ایسی قومیں ہیں جنہیں اللہ تعالی نے فراوانی کے ساتھ رزق اور نعمتوں سے نوازا تو انہوں نے اللہ تعالی کی طرف سے ملنے والی نعمتوں کو نافرمانی کیلیے استعمال کیا، انہیں حرام کاموں کا ذریعہ بنایا۔
انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اللہ تعالی کی طرف سے انہیں ملنے والی نعمتیں، ان کے بلند مقام، فضیلت، اور مرتبے کی وجہ سے ہے، حالانکہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے محض استدارج تھا۔
کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جنہیں نعمتیں دے کر ڈھیل دی گئی!؟۔
کتنے ہی لوگ خوشامدی کا شکار ہو جاتے ہیں؟!
اور کتنے ہی لوگ ہیں جو عیب پوشی کی وجہ سے پارسا سمجھے جاتے ہیں!؟۔
مسلمانوں!
گناہوں کے ارتکاب اور ان میں ملوث ہونے سے بچو، اسلامی آداب اور عقیدہ توحید پر عمل پیرا ہونے میں سستی کا شکار مت بنو، شرعی اور دینی حدود و قیود کا بھر پور خیال رکھو، حرام کاموں کے قریب بھی مت جاؤ، بلکہ حرام کاموں کے اسباب اور ذرائع سے بھی دور رہو تا کہ اللہ تعالی کی ڈھیروں نعمتوں اور رحمتوں کا شکر ادا ہو سکے۔
مخلد بن حسین رحمہ اللہ کہتے ہیں: ” کہا جاتا تھا کہ گناہ ترک کر دینا شکر ہے۔”
مسلمانوں!
شیطانی چیلوں اور دم چھلوں سے بچو وہ تمہیں دھوکا دہی سے گمراہ اور کج رو بنانا چاہتے ہیں۔ ان کے باطل ہتھکنڈوں اور گمراہ کن طریقوں سے بچو، ان کی دعوت سے منہ پھیر لو، ان کے ساتھیوں سے اپنی راہ الگ کر لو، ان کی ڈگر پر مت چلو بلکہ ان کے رجحانات اور خواہشات کی جانب جانے سے بھی بچو، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ كَفُورًا
الإنسان – 24
اور آپ ان میں سے کسی گناہگار یا ناشکرے کی بات مت مانیں۔
اسی طرح فرمایا:
وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا
الكهف – 28
اور آپ اس کی بات مت مانیں جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا اور وہ ہوس پرستی میں لگ گیا ہے نیز اس کا معاملہ حد سے بڑھا ہوا ہے۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
فَأَعْرِضْ عَنْ مَنْ تَوَلَّى عَنْ ذِكْرِنَا وَلَمْ يُرِدْ إِلَّا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا
النجم – 29
آپ ان سے اعراض کر لیں جس نے ہمارے ذکر سے منہ موڑا اور وہ صرف دنیا کی زندگی کا ہی طلب گار ہے۔
صاحب بصیرت شخص اچھے برے میں تفریق کرنا جانتا ہے ، اسے آب اور سراب میں فرق معلوم ہوتا ہے، خالص اور ملاوٹ شدہ چیزوں کو جدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اسے معلوم ہے کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی اور نہ ہی ہر کالی چیز کھجور ہوتی ہے۔ ہر قسم کا پانی پیاس بجھانے والا نہیں ہوتا؛ کچھ بارش کا پانی تو کچھ شوریلی زمین کا کھارا ہوتا ہے، ماہر صرّاف کھرے اور کھوٹے سکوں کو فوری پہچان لیتا ہے:
أُعِيذُها نَظَراتٍ مِنْكَ صادِقَةً
أن تحسَبَ الشّحمَ فِيْمَن شَحْمُهُ وَرَمُ
میں دل سے تمہاری آنکھوں کو اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں کہ کہیں سوجن کو مضبوط پٹھے نہ سمجھ بیٹھے۔
وَمَا انْتِفَاعُ أخي الدّنْيَا بِنَاظِرِهِ
إذا اسْتَوَتْ عِنْدَهُ الأنْوارُ وَالظُّلَمُ
اور دنیا دار کو اپنی قوت بصارت کا کیا فائدہ؟ جب اسے اندھیرا اور اجالا یکساں نظر آئے!۔
مسلمانوں!
شرعی احکام کو غیر مؤثر بنانے کیلیے حیلے بہانے مت تلاش کرو، گھٹیا قسم کے حرام کاموں تک رسائی کیلیے چالبازی مت کرو؛ کیونکہ حیلے بہانے تلاش کرنا شکر گزار توحید پرستوں کا کام نہیں ہے، بلکہ یہ فاسق اور فاسد لوگوں کا کام ہے۔
محمد بن حسن رحمہ اللہ سے بیان کرتے ہیں کہ: ” مومنوں کا اخلاق اس سے کہیں بالا ہے کہ وہ احکاماتِ الہیہ سے بچنے کیلیے ایسے حیلے استعمال کریں جن سے حق غیر مؤثر ہو کر رہ جائے” الکافی، از نسفی۔
اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو ان لوگوں میں سے بنائے جو خوشحالی میں شکر گزار اور اپنے دین پر بغیر کسی ہچکچاہٹ کے قائم دائم رہتے ہیں۔
دوسرا خطبہ:
اَلْحَمْدُ لِلَّه ِذِي الْآلَاءِ وَالنِّعَمِ
وَمُبْدِعِ السَّمْعِ وَالْأَبْصَارِ وَالْكَلِمِ
ہمہ قسم کی حمد اللہ تعالی کیلیے ہے وہ نعمتیں اور انعامات عطا کرنے والا ہے، اسی نے سماعت، بصارت اور بولنے کی صلاحیت دی۔
مَن يَحْمَدِ اللهَ يَأْتِيْهِ الْمَزِيْدُ وَمَنْ
يَكْفُرْ فَكَمْ نِعَمٍ آلَتْ إِلَى نِقَمِ
اللہ کی حمد خوانی کرنے والے کو اور زیادہ ملے گا اور کفر کرنے والے کیلیے نعمت بھی زحمت بن جائے گی۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں اور سلامتی نازل فرمائے۔
حمدو صلاۃ کے بعد:
مسلمانوں!
تقوی الہی اختیار کرو، اور اسے اپنا نگہبان جانو، اسی کی اطاعت کرو، اور نافرمانی مت کرو۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ
التوبة – 119
اے ایمان والو! تقوی الہی اختیار کرو، اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔
مسلمانوں!
معمولی مقدار پر بھی راضی ہونا شکر گزاروں کی امتیازی صفت ہے، وہ اللہ تعالی کی کسی نعمت کو حقیر نہیں سمجھتے چاہے نعمت کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو! کسی بھی دنیاوی چیز کا حصول ان کیلیے مشکل ہو جائے تو وہ اس سے کمتر پر قناعت کر کے راضی ہو جاتے ہیں؛ کیونکہ قناعت میں عزت اور حسرت میں ذلت کے سوا کچھ نہیں۔
کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے نصیب اور رزق پر راضی نہیں ہوتے، وہ ہر وقت ذہنی تناؤ اور ناراضی کا شکار رہتا ہے، اس کی ہر وقت دوسروں کی عزت، دولت اور حالت پر نظر رہتی ہے، اور کسی کہنے والے نے کیا ہی خو ب کہا ہے:
صَغِيْرٌ يَطْلُبُ الكِبَرَا
وَشَيْخٌ وَدَّ لَوْ صَغُرَا
بچہ بڑا ہونا چاہتا ہے اور بڑا بچپن چاہتا ہے۔
وَخَالٍ يَشْتَهِيْ عَمَلًا
وَذُوْ عَمَلٍ بِهِ ضَجِيْرًا
بے روزگار کو ملازمت کی فکر ہے اور ملازم اپنی ملازمت پر خوش نہیں۔
وَرُبَّ الْمَالِ فِيْ تَعْبٍ
وَفِيْ تَعْبٍ مَنِ افْتَقَرَا
مالدار بھی تھک ہار چکا ہے اور فقیر کا بھی یہی حال ہے۔
وَذُو الْأَوْلَادِ مَهْمُوْمٌ
وَطَالِبُهُمْ قَدَ اِنْفَطَرَا
صاحب اولاد ہر وقت پریشان ہے اور بے اولاد بھی اولاد کیلیے پریشان ہے۔
وَيَشْقَى الْمَرْءُ مُنْهَزِمًا
وَلَا يَرْتَاحُ مُنْتَصِرَا
انسان اگر ہار جائے تو افسردہ ہو جاتا ہے اور اگر جیت بھی جائے تو خوش نہیں ہوتا۔
وَيَبْغَى الْمَجْدَ فِيْ لَهْفٍ
فِإِنْ يَظْفَرْ بِهِ فترا
انسان افسردگی میں شان و شوکت کا متلاشی ہے اور اگر مل بھی گئی تو حاصل کرنے میں کاہلی کرتا ہے۔
رزق اللہ تعالی نے اپنی حکمت و تدبیر کی بنیاد پر لوگوں میں تقسیم کر دیا ہے وہ لوگوں کے بارے میں زیادہ بہتر جانتا ہے، اس لیے اللہ تعالی کے دئیے ہوئے پر لوگوں سے حسد نہ کرو، انہیں جو کچھ مال و اہل ملا ہے اس کے چھن جانے کی خواہش مت کرو، بلکہ اللہ تعالی سے اپنے لیے برکت مانگو؛ کیونکہ اللہ تعالی کے خزانے ختم ہونے والے نہیں!
کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنی تجوریاں بھرنے کیلیے مسجد اور لوگوں کے مجمع کے پاس جمعہ اور رمضان جیسے با برکت اوقات میں ہاتھ پھیلا کر مانگتے ہیں، بلکہ لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کیلیے اپنے اہل خانہ اور معصوم بچوں کو ساتھ لا کر انہیں بھی گداگری سکھاتے ہیں ، تا کہ لوگ معصوم بچوں کو دیکھ کر ہی کچھ نہ کچھ دے دیں۔
حالانکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (اپنا مال زیادہ کرنے کیلیے جو شخص لوگوں سے مانگتا ہے تو وہ انگارے جمع کرتا ہے، [اب اس کی مرضی] انگارے تھوڑے جمع کر ے یا زیادہ!) مسلم
مسلمانوں!
مال و دولت فضول خرچ کرنا، فخر، شہرت، تکبر اور گھمنڈ کیلیے اڑانا بھی شکر کے منافی ہے۔
رمضان میں لوگوں کو کھانا کھلانا، افطاری کروانا بھی بہت بڑی عبادت اور عظیم نیکی ہے، اس کا اہتمام کامیاب لوگ ہی کرتے ہیں، تاہم اس میں بھی ہم فضول خرچی سے خبردار کرتے ہیں کہ بلا ضرورت دستر خوان مت بچھائیں اور اس پر بغیر ضرورت کے کھجوریں، روٹیاں اور کھانے پینے کی چیزیں مت رکھیں، کہ آخر میں وہ بچ جائیں اور انہیں کوڑے میں پھینک دیا جائے۔
اپنے ان بھائیوں کو ہمیشہ یاد رکھو جو بالکل غریب ہیں، مصیبت زدہ ہیں، خشک سالی، بھوک، پیاس ، لڑائی جھگڑے اور جنگوں میں گھرے ہوئے ہیں۔
جہاں تک ممکن ہو سکے شرعی احکامات کی پابندی کرو اور اعلی ترین انداز میں نیکیاں کماؤ؛ کیونکہ اللہ تعالی اعلی اور بہترین انداز سے نیکیاں کمانے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
احمد الہادی، شفیع الوری ، نبی ﷺ پر بار بار درود و سلام بھیجو، (جس نے ایک بار بھی درود پڑھا تو اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے)
یا اللہ! ہمارے سربراہ اور نبی محمد پر درود و سلام نازل فرما، آپ رحمت و ثواب کی خوش خبری دینے والے، عذاب و عقاب سے ڈرانے والے ہیں، حساب کے دن آپ کو شفاعت کا حق دے کر آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی، یا وہاب! تمام اہل بیت ،صحابہ کرام اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں سے راضی ہو ، ان کے کیساتھ ساتھ ہم سے بھی راضی ہو ، یا کریم! یا رحیم! یا تواب!
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! شرک اور مشرکین کو ذلیل و رسوا فرما، دین کے دشمنوں کو تباہ و برباد فرما، یا اللہ! تمام اسلامی ممالک سے فتنوں، خانہ جنگی اور لڑائی جھگڑوں کا خاتمہ فرما دے۔
یا اللہ! ہمارے بھائیوں پر اپنا خصوصی رحم فرما، یا اللہ! یمن ،شام ، لیبیا، برما اور فلسطین میں ہمارے بھائیوں پر اپنا خصوصی رحم فرما۔
یا اللہ! یا رحیم! فتنوں کے انگارے بھجا دے، یا اللہ! انہیں اپنے ملک میں امن و استحکام عطا فرما، یا کریم!
یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیرے پسندیدہ اور تیری رضا کا باعث بننے والے کام کرنے کی توفیق عطا فرما، اور نیکی و تقوی کے کاموں کیلیے ان کی رہنمائی فرما، یا اللہ! انہیں اسلام اور مسلمانوں کیلیے بہتر اقدامات کرنے کی توفیق عطا فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہماری سرحدوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! سرحدوں پر مامور ہمارے فوجیوں کی حفاظت فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! زخمیوں کو شفا یاب فرما، بیماروں کو شفا یاب فرما، اور جانثاروں کو شہدا میں قبول فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! تمام بیماروں کو شفا یاب فرما، مصیبت زدہ لوگوں کی مصیبتیں رفع فرما اور قیدیوں کو رہائی نصیب فرما، فوت شدگان پر رحم فرما، اور ہم پر ظلم و زیادتی کرنے والوں کے خلاف ہماری مدد فرما۔
یا اللہ! ہمیں ماہ رمضان نصیب فرما، یا اللہ! ہمیں ماہ رمضان نصیب فرما، یا اللہ! ہمیں ماہ رمضان میں تیری رضا اور مغفرت پانے والوں میں شامل فرما، یا اللہ! ہمیں گناہوں کی غلامی سے آزادی عطا فرما، یا اللہ! ہمیں نفسانی برائیوں سے محفوظ فرما، یا اللہ! ہمیں ہمارے گناہوں سے دور کر دے، یا اللہ! ہمیں شیطان مردود سے محفوظ فرما، اے بہت زیادہ معاف کرنے والے! اے بہت زیادہ معاف کرنے والے! اے وسیع مغفرت والے! اے بے کنار رحمت والے! یا اللہ! ہم تجھ سے سب کی مغفرت کا سوال کرتے ہیں! یا اللہ! ہم سب کو معاف فرما دے، یا اللہ! ہم سب کو معاف فرما دے، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! تمام طلبا اور طالبات کو تعلیمی امتحانات میں کامیاب فرما، یا اللہ! ان کیلیے تمام مشکلات آسان بنا دے، یا اللہ! ان کیلیے تمام مشکلات آسان بنا دے، یا اللہ! انہیں صحیح جواب دینے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! انہیں اعلی نمبروں میں پاس فرما، یا اللہ! انہیں خوشحال زندگی عطا فرما، یا اللہ! انہیں نفسانی شر، برے دوستوں کے شر اور شیطانی شرارتوں سے محفوظ فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہماری دعاؤں کو قبول فرما، یا اللہ! ہماری دعاؤں کو اپنی بارگاہ میں بلند فرما، یا سمیع! یا قریب! یا مجیب!