یہ اللہ رب العزت کا احسان، فضل اور مہربانی ہے کہ نیکیوں کا ایک موسم گزر جاتا ہے تو دوسرے موسم کا آغاز ہو جاتا ہے اور عالمِ اسلام اور مسلمانوں کو ایک عبادت کے بعد دوسری عبادت کا سنہرا موقع میسر آتا ہے تاکہ مؤمن اور متقی بندوں کا رشتہ اپنے خالقِ حقیقی سے ہمیشہ قائم و دائم رہے۔ رمضان المبارک کے روزوں کی ادائیگی کے بعد ایک مؤمن اور مسلمان کے لیے سنت، مستحب اور افضل ہے کہ اللہ کی رضا و خوشنودی اور اصلاحِ نفس و تزکیہ کے لیے شوال کے چھ روزے رکھے۔ رحمتِ عالم ﷺ نے خود ان روزوں کا اہتمام فرمایا اور اپنے اصحاب و ازواج مطہرات کو بھی رکھنے کی ترغیب دی اور کئی ایک فضائل بیان فرمائے۔ نبی کریم ﷺ نے جہاں شوال کے روزوں کے فضائل بیان فرمائے ہیں، وہیں مشہور ائمہ و علماءِ کرام نے ان شش روزوں کے فوائد اور حکمتیں بیان کی ہیں۔ درج ذیل سطور میں شوال کے شش روزوں کی بابت ائمہ و علماءِ کرام کے بیان کردہ فوائد، حکمتیں اور چند مسائل قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔
ماہِ شوال کا لغوی معنی
1۔ اوپر اٹھانا
لفظ شوال عربی لفظ ’’شول‘‘ سے مشتق ہے اور ’’ شول ‘‘ کے معنی ’’ اوپراٹھنا، اٹھانا، بلند ہونا اور بلند کرنا ‘‘ کے ہیں ۔
عربی میں کہا جاتا ہے
’’ شالت الإبل بأذنابها للطراق‘‘1
یعنی نر اونٹ نے جفتی کرنے لیے اپنی دم اوپر اٹھالی۔
امام ابنِ کثیر رحمہ اللہ فر ماتے ہیں:
و شوال من شالت الإبل بأذنابها للطراق2
ترجمہ : لفظ ” شوال ” شالت الإبل بأذنابها للطراق‘‘ سے مشتق ہے کیونکہ اس مہینے میں نر اونٹ مادہ اونٹ سے جفتی کرتے اور مستی میں اپنی دم اٹھا لیتے تھے تو اس مناسبت کی وجہ سے اس ماه کو شوال کہا گیا۔
2۔کم ہونا
لفظ ’’ شوال‘‘ ’’ تشویل‘‘ سے مشتق ہے اور ’’ تشویل‘‘ کا معنی ’’ اونٹ کا دودھ کم ہونا ‘‘ کے ہیں ۔
عربی میں کہا جاتا ہے :
شوّلت الناقة و شوّلت المزادۃ3
یعنی اونٹی کا دودھ اور مشکیزے کا پانی کم ہوگیا۔
علامہ ابن منظور لکھتے ہیں کہ:
شوال: سمي بتشويل لبن الإبل4
ماہِ شوال کو شوال اس لیے کہا گیا کہ ’’ شوال ‘‘ کے مہینے میں اونٹنیوں کے دودھ میں کمی ہو جاتی تھی۔
3۔ مکان خالی کرنا
و شالَتْ نَعامَةُ القوم : إذا خَفَّتْ مَنازلُهم منهم و مَضَوْا ، و النعامة : الجماعة5
ترجمہ : شوال ” شالت نعامۃ القوم ” سے مشتق ہے اور ” شالت نعامۃ القوم ” کا معنی ہے ’’ مکان لوگوں سے خالی ہوگئے اور کوچ کر گئے‘‘۔ چونکہ اس مہینے میں عرب لوگ سیر و سیاحت اور شکار کے لیے اپنے مکانات خالی چھوڑ کر نکل جاتے تھے اس لیے اس مہینے کو ’’ شوال ‘‘ کہا گیا۔
علامہ ابنِ عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وإنما سمي شوال لأنه يشول الذنوب كما تشول الناقة ذنبه6
اس ماہ کو شوال اس لیے کہا گیا ہے کہ اس مہینے میں لوگوں کے گناہ اٹھا لیے جاتے ہیں جس طرح نر اونٹ جفتی کرنے لیے اپنی دم اوپر اٹھا لیتا ہے۔
ماہِ شوال کے شش روزوں کے فوائد
روزہ ایک عظیم عبادت ہے جس کے ذریعے بندہ اپنے ربِّ کریم کا قرب حاصل کرتا ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی فضیلت اور ترغیب میں نصوص وارد ہیں اور اس بات کی وضاحت اور تفصیل موجود ہے کہ اللہ تعالی نے روزے داروں کے لیے کیا اجرِعظیم اور خیرِ کثیر تیار کیا ہے۔
علامہ ابنِ رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
1۔ أن صيام ستة أيام من شوال بعد رمضان يستكمل بها أجر صيام الدهر كله7
ترجمہ : رمضان المبارک کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ شوال کے چھ روزے رکھنے سے پورے سال کے روزے رکھنے کا اجر و ثواب ملتا ہے۔
2۔ أن صيام شوال و شعبان كصلاة السنن الرواتب قبل الصلاة المفروضة و بعدها فيكمل بذلك ما حصل في الفرض من خلل و نقص فإن الفرائض تجبر أو تكمل بالنوافل يوم القيامة كما ورد ذلك عن النبي صلى الله عليه وسلم من وجوه متعددة، و أكثر الناس في صيامه للفرض نقص و خلل فيحتاج إلى ما يجبره و يكمله من الأعمال8
ترجمہ : شوال اور شعبان کے روزے فرض نمازوں سے پہلے اور بعد والی مؤکد سنتوں کی طرح ہیں، جس سے فرض نمازوں میں ہونے والی کمی اور کوتاہیوں کی تکمیل ہو جائے گی کیونکہ قیامت کے دن فرائض میں نقص اور کمی کو نوافل سے پورا کیا جائے گا جیسا کہ متعدد احادیث میں اس کا ذکر آتا ہے۔چونکہ اکثر لوگوں کے فرض روزوں میں کوتاہیاں یا خرابیاں ہوتی ہیں، اس لیے انہیں ایسے اعمال کرنے چاہیے جو ان کی اصلاح کر کے مکمل کریں۔
3۔ أن معاودة الصيام بعد صيام رمضان علامة على قبول صوم رمضان فإن الله إذا تقبل عمل عبد وفقه لعمل صالح بعده كما قال بعضهم: ثواب الحسنة الحسنة بعدها فمن عمل حسنة ثم اتبعها بعد بحسنة كان ذلك علامة على قبول الحسنة الأولى، كما أن من عمل حسنة ثم أتبعها بسيئة كان ذلك علامة رد الحسنة وعدم قبولها9
ترجمہ : رمضان کے بعد شوال کے روزے رکھنا اس بات کی نشانی ہے کہ رمضان کے فرض روزے قبول کر لیے گئے ہیں کیونکہ احادیثِ مبارکہ سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالی جب کسی بندے کے نیک عمل کو قبول فرماتا ہے تو اس کو مزید نیک عمل کی توفیق عطا فرماتا ہے۔ جیسا کہ بعض علماءِ کرام فرماتے ہیں کہ ایک نیکی کے بعد دوسری نیکی کرنا پہلی نیکی کی قبولیت کی علامت ہے۔ جس طرح اگر کوئی شخص نیک عمل کرنے کے بعد پھر گناہ کے کام کرنے لگے تو اس کا نیک عمل اللہ تعالی کے نزدیک مردود اور غیر مقبول ہونے کی نشانی ہے۔
4۔ أن صيام رمضان يوجب مغفرة ما تقدم من الذنوب كما سبق ذكره، وأن الصائمين لرمضان يوفون أجورهم في يوم الفطر وهو يوم الجوائز فيكون معاودة الصيام بعد الفطر شكرا لهذه النعمة فلا نعمة أعظم من مغفرة الذنوب كان النبي صلى الله عليه وسلم يقوم حتى تتورم قدماه فيقال له: أتفعل هذا وقد غفر الله لك ماتقدم من ذنبك وما تأخر؟ فيقول: “أفلا أكون عبدا شكورا”(صحیح البخاری: 4836، وصحیح مسلم:2819 )10
رمضان کے روزے گذشتہ گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَن صامَ رَمَضانَ إيمانًا واحْتِسابًا غُفِرَ له ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِهِ”
(صحيح البخاري : 2014)
ترجمہ : جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور خالص ثواب کی نیت سے رکھے اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔
اور روزے دار عید کے دن بے حساب اجر و ثواب سے نوازے جائیں گے۔ اس دن کو انعام کا دن (یوم الجوائز) بھی کہا گیا ہے۔ اب عید الفطر کے بعد پھر روزہ رکھنا اس نعمت و اجر پر شکر گزاری کی دلیل ہے۔ واضح رہے کہ گناہوں کی مغفرت سے بڑھ کر انسان کے لیے کوئی نعمت نہیں ہو سکتی۔ اللہ کے رسول ﷺ عبادات و قیام اللیل کا اس درجہ اہتمام فرماتے کہ آپ ﷺ کے دونوں قدم لمبے قیام کی وجہ سے سوج جاتے اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتیں کہ اے اللہ کے رسول ! آپ اتنی مشقت کیوں برداشت کرتے ہیں جبکہ اللہ تعالی نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دیے ہیں ؟ تو آپ ﷺ ارشاد فرماتے: کیا میں اللہ کا ایک شکر گزار بندہ نہ بنوں؟‘‘
5۔ وقد أمر الله سبحانه وتعالى عباده بشكر نعمة صيام رمضان بإظهار ذكره وغير ذلك من أنواع شكره فقال: وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (البقرة: 185) فمن جملة شكر العبد لربه على توفیقه لصيام رمضان وإعانته عليه ومغفرة ذنوبه أن يصوم له شكرا عقب ذلك11
ترجمہ : اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو صومِ رمضان کی ادائیگی کی نعمت و توفیق پا لینے پر ذکرِ الٰہی ، تکبیر و تسبیح وغیرہ کے ذریعے اپنی شکر گزاری کا حکم فرمایا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
” تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکرگزار بنو۔ ‘‘ (البقرة: 185)
لہٰذا رمضان کی توفیق پا لینے اور گناہوں کی مغفرت پر شکر گزاری میں یہ بھی شامل ہے کہ اس کے بعد چند روزے رکھے جائیں۔
6۔ كان بعض السلف إذا وفق لقيام ليلة من الليالي أصبح في نهاره صائما ويجعل صيامه شكرا للتوفيق للقيام12
بعض سلفِ صالحین كی یہ عادت تهی کہ اگر انہیں كوئی ایک رات بهی قیام اللیل كی توفیق مل جاتی تو وہ قیام اللیل کی توفیق ملنے پر شکرانے کے طور پر اُس دن روزہ رکھ كر گزار دیتے تهے۔
7۔ أن الأعمال التي كان العبد يتقرب بها إلى ربه في شهر رمضان لا تنقطع بانقضاء رمضان بل هي باقية بعد انقضائه ما دام العبد حيا13
رمضان کے مہینے میں بندہ اپنے رب کا قرب حاصل کرنے کے لیے جو اعمال کرتا تھا وہ اعمال رمضان کے چلے جانے سے ختم نہیں ہوتے بلکہ ماہِ رمضان کے گزر جانے کے بعد بھی وہ اعمال اس وقت تک باقی رہتے ہیں جب تک بندہ زندہ رہتا ہے۔
چند مزید فوائد
8۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ
(الحجر: 99 )
ترجمہ: اور مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہو۔
9۔ شوال کے نفل روزوں میں یہ پیغام ہے کہ عبادات اور نیک اعمال کے لیے کوئی مہینہ یا دن مخصوص نہیں بلکہ نوافل، صدقہ و خیرات اور ذکر و اذکار کے ذریعے ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے رہنا چاہیے۔
10۔ شوال کے شش روزوں میں یہ پیغام ہے کہ ماہِ رمضان المبارک میں روزہ ، قیام اللیل ، صدقہ و خیرات ، ذکر و ذکار ، توبہ و استغفار اور نوافل کے ذریعے جو روحانی تربیت حاصل کی تھی اس پرعمل کرنے کا آغاز ماہِ شوال سے ہوتا ہے اور اسے سال کے باقی گیارہ مہینوں تک لے کر چلنا ہے کیونکہ ہمیں صرف رمضان المبارک اور شوال کے مہینے میں ہی نہیں بلکہ سال کے دیگر مہینوں اور ایام میں بھی روزہ رکھنے کی ترغیب دلائی گئی ہے تاکہ ہم زندگی کا کوئی بھی قیمتی لمحہ کسی بھی غفلت اور لا پرواہی کا شکار ہو کر نہ گزار دیں بلکہ روزے کے روحانی اثرات سے وقتاً فوقتا مستفید ہوتے رہیں۔
11۔ مسلمان رمضان المبارک میں کثرت سے قرآنِ مجید کی تلاوت کا اہتمام کرتا ہے۔ ماہِ شوال کے نفلی روزے مسلمانوں کو اس بات کی یاد دلاتے ہیں کہ قرآنِ مجید صرف رمضان المبارک میں پڑھی جانے والی کتاب نہیں ہے بلکہ اس کی تلاوت سارا سال جاری رکھنا ہے پھر صرف تلاوت پر اکتفا نہیں کرنا بلکہ اس کے احکامات کو سمجھنا ہے اور اس کی تعلیمات پر عمل بھی کرنا ہے ۔
12۔ رمضان المبارک میں ہم صدقات و خیرات اور لوگوں پر خرچ کرتے ہیں تو یہ عمل صرف رمضان کے ساتھ خاص نہیں کہ اگلا ماہِ رمضان آئے گا پھر راہِ خداوندی میں خرچ کیا جائے گا۔ نہیں ! بلکہ حسبِ استطاعت اس سلسلے کو سارا سال جاری و ساری رکھنا ہے۔
13۔ رمضان المبارک میں مسلمان قیام اللیل کا اہتمام کرتے ہیں تو یہ عمل صرف رمضان کے ساتھ خاص نہیں کہ اگلا ماہِ رمضان آئے گا تو قیام اللیل کریں گے بلکہ قیام اللیل کو سارا سال جاری و ساری رکھنا ہے۔
رمضان المبارک کے بعد دوبارہ روزے میں پہل کرنا بندے کی نیکی میں دلچسپی، روزہ رکھنے کی خواہش اور اس سے تنگ یا بوجھل نہ ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور یہ پیغام بھی ہے کہ رمضان کے اختتام کے ساتھ ہی نیک اعمال ختم نہیں ہوتے۔
حضرت وہیب بن الورد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وكان وهب بن الورد يسئل عن ثواب شيء من الأعمال كالطواف ونحوه؟ فيقول: لا تسألوا عن ثوابه ولكن اسألوا ما الذي على من وفق لهذا العمل من الشكر للتوفيق والإعانة عليه14
حضرت وہیب بن الورد رحمہ اللہ سے اگر کسی نیکی پر مرتب ہونے والے ثواب کے بارے میں پوچھا جاتا تھا تو فرماتے کہ نیک عمل کے اجر و ثواب کے بارے میں مت پوچھو بلکہ یہ جاننے کی کوشش کرو کہ اس عمل کی ادائیگی پر شکریہ کیسے ادا کیا جائے کہ اللہ رب العزت نے تمہیں اس کی توفیق اور مدد عطا فرمائی۔
شوال کے چھ روزوں کی حکمتیں
امام ابنِ رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أفضل التطوع ما کان قريبا من رمضان قبله و بعده و ذلك يلتحق بصيام رمضان لقربه منه و تکون منزلته من الصيام بمنزلة السنن الرواتب مع الفرائض قبلها و بعدها، فيلتحق بالفرائض في الفضل و هي تکملة لنقص الفرائض و کذلك صيام ما قبل رمضان و بعده، فکما أن السنن الرواتب أفضل من التطوع المطلق بالصلاة فکذلك صيام ما قبل رمضان و بعده أفضل من صيام ما بعد منه15
رمضان سے پہلے اور رمضان کے بعد سب سے بہتر نفل وہ ہے جو ماہِ رمضان کے بالکل قریب ہو۔ رمضان سے قریب تر ہونے کی وجہ سے انہیں رمضان کے روزوں کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے اور انہیں رمضان کے روزوں کے فورا بعد ہونے کی وجہ سے فرائض کے پہلے و بعد والی سنتوں کا مقام دیا گیا، لہٰذا افضلیت میں یہ فرائض کے ساتھ ملا دی گئیں اور یہ فرائض کی کمی پوری کرنے والی ہو ں گی اور رمضان سے پہلے اور بعد روزہ رکھنا بھی اسی طرح افضل ہے جس طرح فرض نمازوں کے پہلے و بعد والی سنتیں مطلق نوافل پڑھنے سے بہتر ہیں۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والسر في مشروعيتها أنها بمنزلة السنن الرواتب في الصلاة16
ان چھ روزوں کی مشروعیت کا راز یہ ہے کہ یہ چھ روزے بھی روزوں کے سنن و نوافل کے قائم مقام ہیں جس طرح نماز کے سنن و نوافل ہوتے ہیں جن سے نماز کا فائدہ مکمل ہوتا ہے۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَقَالَ آخَرُونَ : لَمَّا کَانَ صَوْم رَمَضَان لَا بُدّ أَنْ يَقَع فِيهِ نَوْع تَقْصِير وَتَفْرِيط ، وَهَضْم مِنْ حَقِّهِ وَوَاجِبِهِ نَدَبَ إِلَي صَوْم سِتَّة أَيَّام مِنْ شَوَّال ، جَابِرَةٍ لَهُ ، وَمُسَدِّدَة لِخَلَلِ مَا عَسَاهُ أَنْ يَقَع فِيهِ ، فَجَرَتْ هَذِهِ الْأَيَّام مَجْرَي سُنَن الصَّلَوَات الَّتِي يُتَنَفَّل بِهَا بَعْدهَا جَابِرَة وَمُکَمِّلَة ، وَعَلی هَذَا : تَظْهَر فَائِدَة اِخْتِصَاصهَا بِشَوَّال17
بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ رمضان کے روزوں کے حقوق و واجبات میں کچھ نہ کچھ کوتاہی و کمی ہو ہی جاتی ہے اس لیے شوال کے چھ روزے مستحب قرار دیے گئے ہیں تاکہ ان کوتاہیوں اور کمیوں کی تلافی ہوسکے گویا کہ یہ روزے فرض نمازوں کے بعد والی سنتوں کے قائم مقام ہیں جو نمازوں میں واقع کمی و کوتاہی کو دور کرنے کے لیے ہوتی ہیں اسی سے ماہ شوال ہی کے ساتھ شش عیدی روزوں کی تخصیص کا فائدہ ظاہر ہوتا ہے۔
علامہ مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وخصّ شوال لأنه زمن يستدعي الرغبة فيه إلي الطعام لوقوعه عقب الصوم، فالصوم حينئذ أشق، فثوابه أکثر18
چھ روزوں کے لیے ماہِ شوال کو اس لیے خاص کیا گیا کیونکہ یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں لوگ کھانے پینے کی طرف زیادہ راغب ہوتے ہیں کیونکہ وہ ابھی ابھی رمضان کے روزوں سے فارغ ہو چکے ہوتے ہیں لہٰذا جب کھانے کا شوق و خواہش شدت پر ہو اور اس حالت میں روزہ رکھا جائے تو اس کا ثواب بھی زیادہ ہوگا”
امام ابنِ مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هُوَ حَسَنٌ هُوَ مِثْلُ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ19
شوال کے چھ روزے ركهنا اچھا عمل ہے، یہ ہر ماہ تین دن کے روزوں کی طرح ہیں۔
ماہِ شوال کے روزوں کے چند مسائل
شوال کے چھ روزں کا حکم
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
يستحب صومُ ستة أيام من شوال20
شوال کے چھ دنوں کے روزے رکھنا مستحب ہے۔
امام شمس الدين محمد بن مفلح المقدسي حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ويستحب إتْبَاع رمضان بستٍّ من شوال21
رمضان المبارک کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا مستحب ہے ۔
الشیخ صالح المنجد حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
صيام ست من شوال بعد فريضة رمضان سنّة مستحبّة وليست بواجب22
رمضان المبارک کے روزوں کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا واجب نہيں بلکہ مستحب ہیں۔
فقہاءِ امت کا مسلک
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما، امام طاؤس، ابن المبارک، امام شافعی، امام احمد، اسحاق اور اکثر حنفی علماء وغیرہ کا یہی مسلک ہے۔
دلیل
اور ان کی دلیل ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ
(صحیح مسلم :1164)
جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ہمیشہ روزے رکھنے (کے ثواب) کی طرح ہیں “
شوال کے روزے کیسے رکھیں ؟
شوال کے ان چھ روزوں کو عید کے بعد فورا رکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح درمیان میں اور اخیر میں بھی رکھ سکتے ہیں۔ نیز ان روزوں کو مسلسل بھی رکھ سکتے ہیں اور الگ الگ ناغہ کر کے بھی رکھ سکتے ہیں کیونکہ حدیث میں کسی بھی قسم کی کوئی تقیید و تعیین نہیں آئی ہے۔
علامہ ابن ِقدامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
إذا ثبت هذا فلا فرق بين کونها متتابعة أو مفرقة في أول الشهر أو في آخره لأن الحديث ورد بها مطلقا من غير تقييد23
حدیث میں شوال کے چھ روزے کی فضیلت مطلقا وارد ہوئی ہے ۔ یہ روزے مسلسل ایک ساتھ رکھے جائیں یا الگ الگ ناغہ کر کے رکھے جائیں یا آخری دنوں میں رکھے جائیں – ہرطرح جائزہیں – کیونکہ حدیث بغیرکسی تقیید کے مطلق وارد ہوئی ہے”
شیخ عبداللہ بنِ باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
صيام ست من شوال سُنة ثابتة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ويجوز صيامها متتابعة ومتفرقة ، لأن الرسول صلى الله عليه وسلم أطلق صيامها ولم يذكر تتابعاً ولا تفريقا24
ترجمہ : شوال کے چھ روزے رسول اللہ ﷺ کی سنت سے ثابت ہیں، ان کو مسلسل اور متفرق دونوں طرح رکھنا جائز ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ان روزوں کا مطلقاً ذکر فرمایا ہے اور اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ انہیں مسلسل رکھا جائے یا الگ الگ۔
امام ابنِ مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إِنْ صیَامَ سِتَّةَ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ مُتَفَرِّقًا فَهُوَ جَائِزٌ
(سنن ترمذي: 759)
اگر شوال کے چھ روزے الگ الگ دنوں میں رکھے تو یہ جائز ہے۔
امام احمد بنِ حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لَا بَأْسَ بِصِیَامِھَا إِنَّمَا قَالَ النَّبِيُّ ﷺ سِتّة أَیَّامٍ مِنْ شَوَالٍ ۔ فَإِذَا صَامَ سِتّةِ أَیَّامٍ مِنْ شَوَالٍ لَا یُبَالِيْ فَرَقَ أَوْ تَابِعَ25
ان روزں کے رکھنے میں کوئی حرج نہیں نبی کریم ﷺ نے ’’ شوال کے چھ روزوں‘‘ سے متعلق فرمایا ہے، لہٰذا جب شوال میں چھ روزے رکھے تو کوئی مضائقہ نہیں الگ الگ رکھے یا اکٹھے پے در پے رکھے۔
معلوم ہوا کہ اس میں وسعت ہے اور ماہِ شوال کے کسی بھی حصے میں یہ روزے رکھے جا سکتے ہیں۔
دائمی فتوی کمیٹی میں ہے:
لا يلزمه أن يصومها بعد عيد الفطر مباشرة، بل يجوز أن يبدأ صومها بعد العيد بيوم أو أيام، وأن يصومها متتالية أو متفرقة في شهر شوال حسب ما يتيسر له، والأمر في ذلك واسع، وليست فريضة بل هي سنة26
ترجمہ : یہ روزے عید کے بعد فورا ہی رکھنے ضروری نہیں ہیں بلکہ عید کے ایک دن بعد یا چند دنوں کے بعد بھی اسے رکھا جا سکتا ہے اور شوال کے مہینے میں کبھی بھی مسلسل یا ناغہ کر کے جس طرح بھی سہولت ہو رکھ سکتے ہیں۔ اس معاملے میں وسعت ہے نیز یہ مسنون روزے ہیں فرض اور واجب نہیں۔
پہلے شوال کے روزے رکھیں یا رمضان کے فوت شدہ روزے؟
اگر شرعی عذرکی بنا پر کسی شخص کے رمضان کے کچھ روزے چھوٹ گئے تو یہ شخص پہلے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرے گا پھر شوال کے روزے رکھے گا اس لیے کہ شوال کے ان چھ روزوں کی فضیلت جس حدیث میں وارد ہے اس میں یہ صراحت ہے کہ:
مَن صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ کَانَ کَصِيَامِ الدَّهْرِ
(صحیح مسلم :1164)
ترجمہ :جس نے رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے اسے ہمیشہ روزہ رکھنے کا ثواب حاصل ہوگا۔
اگر نفلی روزوں کے وقت کے نکلنے کا ڈر ہو
لیکن اگر کوئی شخص رمضان کے روزوں کی قضا پہلے نہ کر سکے اور مخصوص نفلی روزوں کے وقت کے نکلنے کا ڈر ہو تو وہ پہلے نفلی روزے رکھ لے پھر بعد میں رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضا کرلے تو اس کے دونوں روزے صحیح ہوں گے.27
شوال كے روزوں کی قضاء دوسرے مہینوں میں
اگر کوئی شخص کسی عذر وغیرہ کی بنا پرشوال میں شش عیدی روزے نہ رکھ سکے تو وہ شوال کے علاوہ دیگر ماہ میں ان کی قضاء نہیں کرسکتا،
شیخ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولا يشرع قضاؤها بعد انسلاخ شوال ؛ لأنها سنة فات محلها سواء ترکت لعذر أو لغير عذر28
یعنی شوال کا مہینہ گزر جانے کے بعد ان کی قضاء مشروع نہیں ہے خواہ وہ عذر کی وجہ سے چھوٹے ہوں یا بغیر عذر کے اس لیے کہ یہ روزے سنت ہیں اور ان کا وقت گزر چکا ہے۔
شوال میں رمضان کے روزوں کی قضاء
ماہِ شوال میں رمضان کے روزوں کی قضاء فوری طور پر واجب نہیں ہے بلکہ کسی بھی ماہ میں رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضاء کی جا سکتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں عورتیں حتی کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن اپنے رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضاء عموما گیارہ ماہ بعد ماہِ شعبان میں کیا کرتی تھیں جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے ۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اس عظیم الشان مہینے کی برکتوں سے خوب مالا مال فرمائے اور اس مہینے کی قدر کرنے اور اس میں خوب عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
- (قاموس الوحید، ص:899)
- (تفسیر ابن کثیر: 196/7)
- (قاموس الوحید، ص: 900)
- (لسان العرب 11/277 مادة شوال)
- ( تاج العروس للزبیدي : 397/14)
- (تاریخ دمشق لابن عساکر: 335/45، ط: دار الفکر، و کنز العمال: 24284، 588/8، ط: مؤسسة الرسالة)
- (لطائف المعارف: 220-224)
- (لطائف المعارف: 220-224)
- (لطائف المعارف: 220-224)
- لطائف المعارف: 220-224)
- (لطائف المعارف: 220-224)
- (لطائف المعارف: 220-224)
- (لطائف المعارف لابن رجب: 220-224)
- (لطائف المعارف: 220-224)
- (لطائف المعارف :1381)
- (حجۃ اللہ البالغۃ :176)
- (تہذیب سنن أبی داود وایضاح مشکلاتہ:4901)
- (فیض القدیر:1616 )
- (سنن ترمذي: 759)
- (المجموع:6/ 227)
- (الفروع :5/84)
- (موقع الإسلام سوال وجواب)
- (المغنی :1123)
- (مجموع فتاوى ومقالات الشيخ عبدالعزيز بن باز: 15/391)
- (مسائل الإمام أحمد: 2/ 662 رقم: 895)
- (فتاوی اللجنة الدائمة: 1/391)
- (فتاوی رمضان، ص:80،81)
- (مجموع فتاوی بن باز: 15/389)