سندھ ہائی کورٹ نے شراب پر پابندی لگائی اور اس کے مثبت اثرات نظر آنے لگے لیکن پتہ نہیں کیوں ایسا لگتا تھا کہ شراب پر پابندی زیادہ دیر رہنے والی نہیں۔ ہم نے اس خدشے کا اظہار اپنے ایک کالم میں کیا جو روزنامہ جسارت میں شائع ہوا بہرحال یہ واقعتاً ایسی چیز ہے کہ جس پر پابندی لگائی جائے اور پھر اس کو مستقل طور پر قائم رکھا جائے۔ یہ بات بڑی قابلِ تعجب ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں شراب !! جبکہ شراب نوشی تو اس دور کا حصہ تھی جسے دورِ جاہلیت کہا جاتا ہے۔ اس دور میں لوگ شراب کے عادی تھے۔ اسلام نے آکر اسے ختم کیا اور ایسا ختم کیا کہ لوگوں نے شراب کے مٹکے توڑ دئیے ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
کُنْتُ سَاقِيَ الْقَوْمِ فِي مَنْزِلِ أَبِي طَلْحَةَ وَکَانَ خَمْرُهُمْ يَوْمَئِذٍ الْفَضِيخَ فَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنَادِيًا يُنَادِي أَلَا إِنَّ الْخَمْرَ قَدْ حُرِّمَتْ قَالَ فَقَالَ لِي أَبُو طَلْحَةَ اخْرُجْ فَأَهْرِقْھَا فَخَرَجْتُ فَھَرَقْتُھَا فَجَرَتْ فِي سِکَکِ الْمَدِينَةِ1
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ابو طلحہ کے مکان میں لوگوں کو شراب پلا رہا تھا۔ اس زمانہ میں لوگ فضیخ شراب استعمال کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ اعلان کردے ، سن لو ! شراب حرام کر دی گئی ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مجھ سے ابو طلحہ نے کہا: باہر جاؤ اور اس شراب کو بہا دو۔ چنانچہ میں باہر نکلا اور اس کو بہا دیا۔ اس دن مدینہ کی گلیوں میں شراب بہہ رہی تھی۔
اندازہ لگائیں کہ ادھر رسولِ اکرم ﷺ کا حکم ہے اور ادھر اس پر عمل ہے اور عمل کا منظر دیدنی ہے کہ شراب گلیوں میں بہہ رہی ہے۔ بلکہ جو زندہ ہیں انہیں گزرے ہوئے لوگوں کی فکر لاحق ہوگئی کہ وہ جو شراب نوش تھے ان کا کیا بنے گا؟؟ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر 93 کے ذریعے ان کی برأت کا حکم نازل ہوا۔
یقیناً شراب کئی ایک مفاسد والی چیز تھی (جیسا کہ آگے آرہا ہے ) اسی لئے اسلام میں حرام ٹھہری اور صحابہ نے حکمِ نبویﷺ سنتے ہی شراب کو گلیوں میں بہا دیا ۔
شراب جرائم کی جڑ:
شراب دراصل جرائم کی جڑ ہے۔ اس کے دلائل حسبِ ذیل ہیں:
۔احادیث میں حرمتِ شراب سے قبل شراب نوشی کے مفاسد کا تذکرہ ملتا ہے۔ مثلاً : ایک صحابی نے شراب پی کر اونٹنیوں کے کوہان کاٹ دئیے اور مزید ان کو زخمی کیا اور نبی اکرم ﷺ جب اس ماجرے کے مطلع ہونے پر وہاں دیکھنے گئے تو وہ صحابی ہوش میں نہ تھے ، ان کی آنکھیں سرخ تھیں بلکہ زبان سے بھی کچھ کلمات کہہ دئیے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ابھی یہ ہوش میں نہیں ہے۔ اور واپس چلے گئے۔2
اس صحابی نے شراب نوشی کی وجہ سے نہ کہ صرف دو اونٹنیوں کو زخمی بلکہ ہلاک ہی کردیا۔ معلوم ہوا کہ شراب نوشی کی وجہ سے انسان اس حد تک مخمور ہوسکتا ہے کہ وہ کسی کی جان لے سکتا ہے۔
2۔ شبِ معراج کے موقع پر نبی اکرم ﷺ کو دو پیالے دئیے گئے۔ ایک میں دودھ اور دوسرے میں شراب تھی۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا: دونوں میں سے جو چاہیں پی لیجئے۔ نبی اکرمﷺ نے دودھ لے کر پی لیا تو نبی اکرمﷺ سے کہا گیا کہ آپ نے فطرت کو اختیار کیا ہے۔ اگر آپ ﷺ شراب پی لیتے تو آپﷺ کی امت گمراہ ہو جاتی۔3
اس حدیث میں شراب کو گمراہی کے طور پر تعبیر کیا گیا۔
3۔ نبی اکرم ﷺ نے قربِ قیامت ہونے والے امور کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا: علم اٹھا لیا جائے گا اور جہالت پھیل جائے گی اور شراب کو پیا جائے گا اور زنا کی کثرت ہوگی۔4
اس حدیث کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قربِ قیامت ظاہر ہونے والے فتن اور برائیوں کے اسباب میں سے کچھ یہاں بیان ہوئے مثال کے طور پر جہالت۔ ظاہر سی بات ہے کہ جس کے پاس علم نہ ہو اور جاہل ہو وہ شعور کے کس درجے پر کھڑا ہوگا اور ایسے احمق قسم کے لوگوں کی حماقتیں ان کو فتنوں اور برائیوں میں مبتلا کردیں گی کیونکہ ان کے پاس علم نہیں۔
اسی طرح شراب نوشی جو ان کے عقل پر پردے ڈال دے گی۔ جب عقل مخمور ہوجائے تو پھر انسان کوئی بھی جرم کرسکتا ہے۔ ایک گناہ کا تو ساتھ ہی ذکر ہے کہ زنا عام ہوجائے گا۔ مے نوشی اور حسن پرستی دونوں آج یکجا جمع نظر آتے ہیں ۔ اور باقی جرائم کی اپنی داستان۔
4۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: شراب نہ پیو یہ ہر شر کی چابی ہے۔5
5۔ ایک حدیث میں اسے “اُمُّ الخَبَائِث” قرار دیا گیا۔6
6۔ ایک حدیث میں “رأس کُلّ فاحشۃ” قرار دیا گیا۔7
7۔ بنی اسرائیل کے ایک بادشاہ نے ایک شخص کو پکڑ کر چار میں سے ایک برائی کے کرنے کا حکم دیا، نہ کرنے پر قتل کی دھمکی دی۔ کہ وہ شراب پئیے یا کسی عورت کے ساتھ بدکاری کرے یا کسی کو قتل کرے یا خنزیر کا گوشت کھالے۔ اس نے شراب کو سب سے ہلکا جانتے ہوئے اس کے پینے کو اختیار کرلیا۔ جب اس نے شراب پی لی تو بد مست ہو کر اس نے بدکاری بھی کی، قتل بھی کیا اور خنزیر کا گوشت بھی کھایا۔8
اسی مفہوم کا ایک واقعہ ایک نیک شخص اور عورت کے بارے میں بھی ہے کہ ایک عورت ایک شخص پر فریفتہ ہوگئی اور بہانے سے گھر بُلوا لیا اور اسے بدکاری، بچے کے قتل اور شراب میں سے ایک کام کو اختیار کرنے کا کہا اور نہ کرنے پر دھمکی دی کہ وہ واویلا کرکے اس پر الزام لگائے گی۔ اس شخص نے عزت بچانے کے لیے سب سے ہلکا جانتے ہوئے شراب کو اختیار کیا اور شراب پی لی۔ نتیجتاً وہ بد مست ہو کر بقیہ گناہوں کا بھی مرتکب ہوگیا۔9
مشت از خروارے کے طور پر پیش کردہ ان ادلہ کی روشنی میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ شراب کئی ایک جرائم کا بڑا سبب ہے۔
اب حالتِ واقعی بھی پیش کئے دیتے ہیں کہ شراب نوشی کی وجہ سے کس قسم کے جرائم رونما ہو رہے ہیں۔
1۔بیوی نے بچوں کے سامنے شراب پینے سے منع کیا تو شوہر نے گولی مار دی۔10
2۔شراب پی کر لوگوں کو گالیاں دینے والا گرفتار۔11
3۔ شراب انسان تو انسان جانور پر بھی اثر انداز ہوتی ہے اور جانور بھی اسے پی کر وہی کرتا ہے جو انسان کرتا ہے۔12
4۔ شراب پی کر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل ۔13
5۔ نشہ کے عادی باپ نے پیٹ پیٹ کر بیٹی کو قتل کردیا۔14
6۔شراب نوشی کے دوران چچا نے بھتیجے کو قتل کر دیا۔15
7۔کم سن بچوں سے جنسی زیادتی کرنے والا شخص اس طرح کے جرم سے قبل شراب ضرور پیتا تھا۔16
یہ تو چند ایک نمونے ہیں جن سے یہ سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ اگر ہم جرائم کی روک تھام میں سنجیدہ ہیں تو ان اسباب کا بھی تعین کرنا ہوگا جو جرائم کی کثرت سبب بن رہے ہیں۔ ان میں سے ایک شراب نوشی ہے۔
شراب کی شناعت پر ایک طائرانہ نظر
رسول اللہ ﷺ گناہوں کی شناعت کو بیان کرتے تو اس میں شراب کا تذکرہ فرماتے۔ مثال کے طور پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ زانی مومن ہونے کی حالت میں زنا نہیں کرتا ہے اور نہ مومن ہونے کی حالت میں شراب پیتا ہے اور شراب پینے والا مومن ہونے کی حالت میں شراب نہیں پیتا اور ڈاکو جب ڈاکہ زنی کرتا ہے اور لوگ اس کو دیکھ رہے ہیں اس ڈاکہ زنی کے موقع پر بھی وہ مومن نہیں ہوتا‘‘۔17
اس حدیث کی رو سے معلوم ہوا کہ گناہوں سے ایمان میں کمی واقع ہوتی ہے اور جن گناہوں کا یہاں رسول اللہ ﷺ نے تذکرہ فرمایا اس میں ایک شراب بھی ہے۔ بلکہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کوئی ایسا کیس آجاتا کہ کسی نے شراب پی ہے تو رسول اللہ ﷺ صحابہ کو حکم فرماتے کہ اس کو ماریں اور اسے جوتیوں چھڑیوں وغیرہ سے مارا جاتا۔18
بلکہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں بھی کوڑوں سے سزا دی گئی۔19 بلکہ اس کی حد بھی مقرر ہے جوکہ چالیس کوڑے ہے۔
شراب پینے والے، پلانے والے، بیچنے والے، خریدنے والے، نچوڑنے والے، اسے تیار کروانے والے، منتقل کرنے والے اور جس کی طرف منتقل کی جارہی ہے (یہ سب) اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ملعون ہیں۔20
مسلمان کے لیے اس دسترخوان پر بیٹھنا بھی حرام ہے جس پر شراب پی جاتی ہو۔21
شراب پینے والے کی چالیس روز تک نماز قبول نہیں ہوتی۔22
قرآن مجید میں شراب کے لیے متعدد الفاظ یکے بعد دیگرے استعمال ہوئے جو اس کی حرمت کو مؤکد در مؤکد بنا دیتے ہیں۔
يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ
المائدة – 90/91
’’اے ایمان والو! یہ شراب اور یہ جوا، یہ آستانے اور پانسے سب گندے شیطانی کام ہیں لہذا ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاسکو ۔ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ تمہارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے تو کیا تم باز آتے ہو؟‘‘۔
مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے شراب کی حرمت کے لیے جو الفاظ استعمال فرمائے ان میں سے ہر لفظ انفرادی طور پر اس کی حرمت کے بیان کے لیے کافی ہے لیکن ان تمام الفاظ کا اجتماع اس کی حرمت کی تاکید میں بہت اضافہ کردیتا ہے۔
(1)’’ رِجْسٌ‘‘ یعنی گندے کام کا لفظ استعمال کیا۔ ہر ناپاک حرام ہوتا ہے۔
(2)’’مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ ‘‘ یعنی شیطانی اعمال سے ہیں۔اور ہر شیطانی کام حرام ہے۔
(3)’’ فَاجْتَنِبُوْهُ ‘‘ یعنی ان سے بچو۔ شریعت جس کام سے روک دے ، بچنے کا حکم دے وہ حرام ہوتا ہے۔
(4) ’’ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ‘‘ یعنی تاکہ تم فلاح پاؤ۔ شریعت نے جس کام کے ترک کے ساتھ فلاح کو معلق کیا اس کا کرنا حرام اور خسارہ والا عمل ہے۔
ّ(5)’’ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ ‘‘ یعنی شیطان چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے۔ ہر مضر چیز شریعت نے حرام قرار دی ہے اور مضر بھی ایسی کہ جو باہمی دشمنی کا سبب بن رہی ہو جو کہ اسلام کو کسی طور گوارا نہیں ۔
(6)’’وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ ‘‘ یعنی اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے۔ جو کام دین سے دوری کا سبب بنے وہ حرام ہوتا ہے۔
(7)’’فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ‘‘ یعنی : پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟۔ اتنے نقصانات بتلا کر استفہامیہ انداز جوکہ استفہام تقریر کے لئے ہے کہ تمہیں باز رہنا ہے۔
بیک وقت ان متعدد الفاظ کے ذریعے سے شراب کی حرمت کو بیان کیا۔ اس کے بعد بھی اس کی حرمت کو اور اس کی شرعی سزا کو محل خلاف سمجھنا عجب تر ہے۔
شراب کے طبی نقصانات:
شراب اس قدر بری چیز ہے کہ جب ایک شخص شراب پیتا ہے تو اسے برائی سے روکنے والا نظام خود ہی رک جاتا ہے۔ پھر وہ سب کچھ کرسکتا ہے جسے ہوش و حواس میں کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔یہی وجہ ہےکہ 1996 ء میں ایک سروے کے مطابق امریکہ میں روزانہ زنا بالجبر کے ہونے والے واقعات کی تعداد 2713 تھی۔ جن میں سے اکثر نشے میں مدہوش ہوتے تھے۔ بلکہ اعداد و شمار کے مطابق 8 فیصد امریکی محرمات سے مباشرت کرتے ہیں یقیناً ایسے واقعات کی وجہ شراب ہی ہے۔
شراب کی وجہ سے لاحق ہونے والی بیماریوں کی اگر فہرست بنائی جائے تو اس میں سرفہرست جگر کا سرطان، معدے کی نالی کا سرطان، بڑی آنت کا سرطان، معدے کی نالی، معدے ، لبلبے، جگر کی سوزش، بلڈ پریشر، دل کے عضلات کا تباہ ہونا، دل کی شریان کے خراب ہونے سمیت دیگر دلی امراض، دماغی فالج اور دیگر نفسیاتی بیماریاں، بیری بیری، ڈیلیریم ٹریمنس، اینڈو کرائن، خون سے متعلقہ بیماریاں، پھیپھڑوں کی بیماریاں، جلدی بیماریاں ہیں۔ الغرض جسم کا کون سا حصہ ہے کہ جس کے بارے میں یہ کہا جاسکے کہ وہ شراب کی وجہ سے متاثر نہیں ہوتا۔
ایک جرمن طبیب کا کہنا ہے:
اقفلوا لی نصف الحانات اضمن لکم الاستغناء عن نصف المستشفیات والملاجی والسجون23
تم شراب کی دوکانوں میں سے آدھی دوکانیں بند کردو میں تم کو آدھے شفاخانوں ، پناگاہوں اور جیل خانوں سے مستغنی کرنے کی ضمانت دیتا ہوں۔
اسی کتاب سے ماخوذ و ملخص بعض مغربی اطباء کی شہادتیں پیشِ خدمت ہیں:
انگلینڈ کے طبی بورڈ کی رپورٹ میں اس بات کا اعتراف ہےکہ شراب سے بدنی حرکات ، قوت عقلیہ کا نظام خراب ہوجاتاہے۔
سنوڈن جو کہتا ہے کہ میں جنگِ عظیم میں اس بورڈ کا رکن تھا جو شراب کے حوالے سے ریسرچ کر رہا تھا۔ وہ اعتراف کرتا ہے کہ شراب کی کوئی قسم نقصان سے خالی نہیں بلکہ ایک لکھنے والے نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ وہ تیز ہتھیار جو اہلِ مشرق اور مسلمانوں کا صفایا کرسکتا ہے وہ شراب ہے۔
ایک امریکی ڈاکٹر نے تو شراب کو بطور علاج کے استعمال سے بھی روک دیا۔
کچھ انگریز ڈاکٹروں نے تو لکھ ڈالا کہ ’’دماغی امراض کے ہسپتالوں یعنی پاگل خانوں میں داخلے کی سب سے بڑی وجہ شراب نوشی ہے۔ بہت سے حادثے اور خودکشی کی وارداتیں شراب نوشی کی وجہ سے ہوتی ہیں ۔ شراب نوشی مسلسل جسمانی اور دماغی تنزل کا باعث ہے۔ ‘‘
ذاتی طوپر تو یہ نقصانات ہیں ہی!! معاشرے پر بھی اس کے برے اثرات منتج ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ ایک مصنفہ لکھتی ہیں: ’’ڈیلی نیوز کراچی کی 19 جنوری 1970ء کی اشاعت میں اے پی پی خبر رساں کے حوالے سے ہےکہ نیشنل کونسل آف الکوہل ازم کی آخری رپورٹ کے مطابق انگلستان میں دو سو پچاس ملین پونڈ سالانہ کا نقصان شراب نوشی کی وجہ سے کام کرنے والوں کی غیر حاضریوں اور دوسرے مضر اثرات کی صورت میں ہوتا ہے۔ ہر پیر کو اڑھائی لاکھ آدمی اتوار کی شراب خوری کی وجہ سے غیر حاضر رہتے ہیں ۔ شراب نوشی کےعادی مزدور سال میں چالیس سے ساٹھ دن تک کا کام ضائع کردیتے ہیں۔ ‘‘
- (صحیح بخاری: 2464، صحیح مسلم: 1980)
- (صحیح بخاری: 4003)
- (صحیح بخاری: 3394، صحیح مسلم: 168)
- (صحیح بخاری: 80)
- (سلسلۃ الصحیحہ : 2798 )
- (سلسلہ الصحیحۃ: 1854)
- (ارواء الغلیل: 2026)
- (سلسلۃ الصحیحۃ : 2695)
- (سنن النسائی : 5666)
- http://urdu.pradesh18.com/news/north-india/wife-protested-against-drink-in-front-of-the-children-husband-shot-him-145113.html
- (http://www.nawaiwaqt.com.pk/crime-court/10-Feb-2015)
- (http://www.express.pk/story/376450)
- (http://m.dw.com/ur/a-18596441)
- (http://dailyaag.com/phase2/)
- (http://dunyanews.tv/print_news_urdu.php?nid=101998&catid=8&flag=d)
- (http://www.fikrokhabar.com/index.php/enlightenment-news-article/item/10868-kya-is-jisni-darinde-ko-kabhi-phansi-milegi)
- (صحیح بخاری: 2475)
- (صحیح بخاری: 2316)
- (صحیح بخاری: 6780)
- (سنن ابی داؤد: 3674)
- (جامع ترمذی: 2801، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا۔ )
- (سنن ابی داؤد: 3680 )
- (شراب و نشہ آور اشیاء کی حرمت و مضرت: 92)