شب معراج کی تاریخ :
معراج کے دو حصے ہیں ۔ پہلے حصے کو اسراء اور دوسرے کو معراج کہا جاتا ہے لیکن عرفِ عام میں دونوں ہی کو معراج کہا جاتا ہے۔ مؤرخین و سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ معراج کا واقعہ ہجرت سے پہلے ہوا ہے لیکن ہجرت سے کتنے پہلے ہوا ہے اس بارے میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے ۔اسی طرح شبِ معراج کے مہینے ، دن اور تاریخ کے تعین میں بھی اختلاف ہے ۔ علامہ صفی الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ نے ’’ الرحیق المختوم ‘‘ میں تاریخِ معراج کے حوالے سے مختلف سیرت نگاروں کے چھے اقوال نقل کیے ہیں لیکن کسی بھی قول کو راجح قرار نہیں دیا ہے کیونکہ کسی کی ترجیح کے حق میں واضح دلائل اور شواہد موجود نہیں تھے۔ البتہ آپ نے لکھا ہے کہ سورہ اسراء کے سیاق سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مکی زندگی کے بالکل آخری دور کا ہے۔1
شبِ معراج كی عبادت :
ماہِ رجب میں دیگر بدعات کی طرح 27 رجب کی شب کو جاگ کر عبادت اور دن کو روزے رکھنے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور اس کی نسبت واقعہ معراج کی طرف کی جاتی ہے ۔ حالانکہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں اس رات نہ کسی خصوصی عبادت کا اہتمام فرمایا اور نہ ہی نبی اکرم ﷺ کا کوئی قول یا عمل 27 رجب کی خصوصی عبادت یا عمل کے بارے میں آیا ہے ۔ آپ کے جان نثار صحابہ کرام اور ازواج مطہرات میں سے بھی کسی نے اس کا اہتمام نہیں کیا ۔ لہذا ایسے تمام طریقوں، کاموں اور رسموں سے بچنے کی ضرورت ہے جو دین کے نام پر نبی اکرم ﷺ کے بعد ایجاد کر لیے گئے ہوں۔
معراج کی تاریخ میں اختلاف سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صحابہ و تابعین اور سلف صالحین کے نزدیک اس رات کی وہ اہمیت نہیں تھی جو آج مسلمانوں کے بعض حلقوں میں اسے دے دی گئی ہے ۔چنانچہ اس شب کو خصوصی طور پر جشنِ معراج کے طور پر منایا جاتا ہے، چراغاں کیا جاتا ہے ، محفلیں منعقد کی جاتی ہیں اور عید کی طرح خوشیاں منائی جاتی ہیں ، شبِ قدر کی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اس کے فضائل و مناقب بیان کیے جاتے ہیں۔ اس میں مخصوص نمازیں اور دیگر خود ساختہ عبادتیں کی جاتی ہیں ۔ سوچنے کی بات ہے اگر اس رات ان سارے کاموں کی انجام دہی شریعت کا حصہ ہوتی تو اس رات کی تاریخ میں اس قدر شدید اختلاف ہرگز نہ ہوتا اور صحابہ و تابعین اس تاریخ کو خصوصی طور پر یاد رکھتے اور اس میں وہ سب کچھ کرتے جو دین و شریعت کا تقاضا ہوتا کیونکہ وہ لوگ ہر نیکی میں ہم سے آگے رہنے والے تھے اور انہیں اللہ و رسول ﷺ سے ہم سے کہیں زیادہ محبت تھی۔
پھر نبی کریم ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد تقریباً سو سال تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دنیا میں موجود رہے۔ اس پوری صدی میں کوئی ایک بھی واقعہ ثابت نہیں ہے جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے 27 رجب کو خاص اہتمام کر کے منایا ہو لہٰذا جو چیز حضورِ اکرم ﷺ نے نہیں کی اور جو چیز آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہیں کی اس کودین کا حصہ قرار دینا یا اس کو سنت قرار دینا یا اس کے ساتھ سنت جیسا معاملہ کرنا بدعت ہے۔
معراج جسمانی ہوا یا روحانی؟
اہلِ سنت والجماعت کے محقق علماء کرام کا فیصلہ ہے کہ معراج بیداری کی حالت میں جسم اور روح کے سمیت ہوا ہے اور یہی قول برحق ہے ۔ اس کے دلائل درج ذیل ہیں :
- اس واقعہ کے بیان کے لئے اللہ تعالیٰ نے تعجب کا صیغہ ’’ سبحان‘‘ استعمال کیا ہے۔ اگر یہ واقعہ صرف ایک خواب ہوتا تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں تھی کیونکہ خواب میں زمین و آسمان کی سیر ایک عام آدمی سے بھی ہو سکتی ہے۔
- اللہ تعالیٰ نے معراج کا ذکر کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ اللہ اپنے بندے کو لے گیا اور یہ بات معلوم ہے کہ بندہ جسم اور روح دونوں کے مرکب کا نام ہے۔ قرآن کی متعدد آیات میں لفظ ’’عبد‘‘ یعنی بندہ جسم اور روح دونوں کے مجموعے پر بولا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر سورہ طہ آیت (77) سورہ شعراء آیت (52) سورہ دخان آیت (33) اور سورہ بقرہ آیت (86) وغیرہ
- اسریٰ کا لفظ بھی بیداری کی حالت پر بولا جاتا ہے جیسا کہ حضرت لوط علیہ السلام کو ارشاد ہوتا ہے:
فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ وَاتَّبِعْ أَدْبَارَهُمْ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ وَامْضُوا حَيْثُ تُؤْمَرُونَ
الحجر – 15
اب تو اپنے خاندان سمیت اس رات کے کسی حصہ میں چل دے اور آپ ان کے پیچھے رہنا اور (خبردار) تم میں سے کوئی (پیچھے) مڑکر بھی نہ دیکھے اور جہاں کا تمہیں حکم کیا جا رہا ہے وہاں چلے جانا۔
- حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ کا حکم ہوتا ہے:
وَلَقَدْ أَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِي فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا لَّا تَخَافُ دَرَكًا وَلَا تَخْشَىٰ
طه – 77
ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی نازل فرمائی کہ تو راتوں رات میرے بندوں کو لے چل اور ان کے لئے دریا میں خشک راستہ بنا لے پھر نہ تجھے کسی کے آپکڑ نے کا خطره ہوگا نہ ڈر۔
- اور قاضی عیاض فرماتے ہیں :
لأنه لایقال فی النوم أسریٰ2
کہ یہ واقعہ معراج جسم کے ساتھ ہے کیونکہ اسریٰ کا لفظ خواب پر نہیں بولا جاتا۔
- اسی آیت میں وارد لفظ (عبد) كے بارے میں علامہ ابن كثیر رحمہ اللہ كہتے ہیں :
فان العبد عبارۃ عن مجموع الروح و الجسد3
عبد کا لفظ “روح مع الجسد” کو کہا جاتا ہے . یعنی جس روح کے ساتھ جسم نہ ہو اسے عبد نہیں کہتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ معراج جسمانی تھا۔
- اسی طرح سورۃ النجم میں ہے:
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ
النجم – 17
نہ تو نگاه بہکی نہ حد سے بڑھی۔
یعنی جو کچھ دیکھا بچشمِ جسم دیکھا ہے۔ یہ بھی دلیل ہے کہ معراج جسمانی تھا کیونکہ خواب یا کشف کا تعلق دماغ یا دل سے ہے نہ کہ آنکھ سے۔ اور لفظ “بصر” جسمانی نگاہ کے لئے آتا ہے خواب یا دل کے دیکھنے کو “بصر” نہیں کہتے۔
- پھر براق کی سواری کا لایا جانا اور اس سفید چمکیلے جانور پر سوار کراکر آپ کو لے جانا بھی اسی کی دلیل ہے کہ یہ واقعہ جاگنے کا اور جسمانی ہے ورنہ صرف روح کے لیے سواری کی ضرورت نہیں۔
- بخاری شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: ” لَمَّا كَذَّبَتْنِي قُرَيْشٌ، قُمْتُ في الحِجْرِ، فَجَلا اللهُ لي بَيْتَ المَقْدِسِ، فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عن آياتِهِ، وأنا أنْظُرُ إلَيْهِ.”
صحیح مسلم – 170
کہ جب کفارِ مکہ نے میرے اس سفر کو جھٹلایا اور مجھ سے بیت المقدس کے متعلق سوال شروع کر دیے تو اللہ تعالیٰ نے میرے سامنے بیت المقدس کر دیا میں اسے دیکھ کر بتاتا جا رہا تھا۔ یعنی کفار نے اس معراج کے جسم کے ساتھ ہونے کا ہی انکار کیا تھا ورنہ خواب کی بات کو جھٹلانے کا کوئی تک ہی نہیں تھا کیونکہ خوابوں میں کئی مرتبہ عام انسان بھی اپنے آپ کو پرواز کرتے اور آسمان پر جاتے ہوئے بھی دیکھ سکتا ہے۔ اس پر کوئی تعجب نہیں ہوتا۔ کفار کو تعجب تو تب ہوا جب آپ نے کہا کہ میں اس جسم کے ساتھ گیا تھا۔ کفار کا یہ رد عمل ہی اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جسم کے ساتھ معراج کا دعویٰ کیا تھا۔
کیا نبی کریم ﷺ نے معراج کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا؟
اغلب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہی نظریہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا۔ اس کے من جملہ دلائل میں سے چند درج ذیل ہیں:
ارشادِ باری تعالی ہے:
لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ
الانعام – 103
’’اسے آنکھیں نہیں پا سکتیں۔‘‘
تفسیر ابن کثیر میں اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مکتوب ہے:
لا تدركه في الدنیا وإن کانت تراه في الآخرة
کہ ’’دنیا میں یہ آنکھیں اللہ کو نہیں دیکھ سکتیں اگر چہ آخرت میں دیکھیں گی۔‘‘
ارشاد باری تعالی ہے :
وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ
الشوریٰ – 51
’’کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اس سے رو برو بات کریں اس کی بات یا تو وحی (اشارہ) کے طور پر ہوتی ہے یا پردے کے پیچھے سے ۔‘‘
سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے رؤیت کا سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لَنْ تَرَانِي
الاعراف – 143
’’تو مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکتا۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی شخص اللہ کو نہیں دیکھ سکتا۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَأَیٰ رَبَّهُ فَقَدْ کَذَبَ وَهُوَ یَقُولُ: لَا تُدْرِکُهُ الْأَبْصَارُ
صحیح البخاری – 7380
’’جو تمہیں یہ خبر دے کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو تحقیق اس نےجھوٹ بولا ۔ حالانکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اسے آنکھیں نہیں پا سکتیں۔‘‘
سیدنا ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ هَلْ رَأَیْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ: نُورٌ أَنَّیٰ أَرَاہُ
صحیح المسلم – 178
’’میں نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ فرمایا: (اس کا حجاب ) نور ہے ، میں کیسے دیکھتا؟
مسجد اقصٰی کا تعارف :
مسجدِ اقصیٰ کرۂ ارض پر مسلمانوں کا تیسرا مقدس مقام ہے۔ یہ تاریخی شہر میں واقع ہے اس کو احادیث اور تاریخ میں’ بیت المقدس‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مسجد کی پیمائش یوں ہے: جنوب کی طرف281 میٹر، شمال کی طرف 310 میٹر، مشرق کی طرف462 میٹر اور مغرب کی جانب491 میٹر ۔
مسجد اقصیٰ کا یہ احاطہ قدیمی شہر کا چھٹا حصہ بنتا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس مسجد کی حدود آج بھی وہی ہیں جہاں جائے نماز کے طور پر پہلے دن اس کی تعمیر ہوئی تھی۔ احاطہ کے چودہ دروازے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے جس وقت یہ مسجد آزاد کروائی اس کے بعد بعض وجوہات کے پیش نظر مسجد کے کچھ دروازے بند کر دیئے گئے۔ وہ دروازے جو اس وقت تک برقرار ہیں دس ہیں۔ مسجد اقصیٰ کے چار مینار ہیں۔ “باب المغاربہ” والا مینار جو کہ جنوب مغربی جانب ہے۔ “باب السلسہ” والا مینار جو کہ مغربی سمت باب السلسہ کے قریب واقع ہے۔ “باب الغونمہ” والا مینار جو کہ شمال مغربی سمت اور “باب الاسباط” والا مینار جو کہ شمالی سمت واقع ہے۔
واقعہ معراج سے حاصل ہونے والے دروس اور نصیحتیں :
ہر حال میں تسلیم و رضا
واقعہ معراج کو پڑھنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دین اسلام کی کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کا سمجھنا ہر انسان کی بس کی بات نہیں ہوتی. کچھ چیزیں عقل سے ماوراء ہوتی ہیں یعنی عام انسانوں کیلئے اس کا سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے اس کی سب سے بڑی مثال واقعہ معراج ہے ۔ معراج کا واقعہ اگر اسباب کی دنیا میں دیکھا جائے تو یہ ممکن نظر نہیں آتا اس لیے کہ اتنا طویل سفر کہ آپ ﷺ پہلے مکہ سے فلسطین تشریف لے جاتے ہیں (مکہ سے فلسطین کی مسافت اور فاصلہ 1300 تیرہ سو کلومیٹر ہے) پھر وہاں سے ساتویں آسمان تک چلے جاتے ہیں پھر واپسی کے سفر میں دوبارہ فلسطین اور پھر فلسطین سے مکہ مکرمہ تشریف لاتے ہیں ۔ یہ سارا سفر رات کے ایک مختصر وقت میں طے ہو جائے بظاہر یہ ممکن نظر نہیں آتا اور عقل اس چیز کو تسلیم نہیں کرتی ۔
اس واقعہ سے یہ درس ملتا ہے کہ جب شریعت کی کوئی ایسی بات، کوئی ایسا حکم، کوئی پیغام ہمارے سامنے آئے جو ہماری سمجھ سے باہر ہو تو ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اس کو اسی طرح تسلیم کریں جس طرح شریعت نے ہمیں بتایا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے واقعہ معراج سن کر کیا تھا ۔
تبلیغِ دین میں مداہنت نہ کرے
واقعہ معراج سے ایک درس یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ دین کے ایک داعی اور مبلغ کو دین کی بات آگے پہچانے اور بیان کرنے میں کسی قسم کی جھجھک کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیئے خواہ وہ بات بظاہر لوگوں کی عقل میں آتی ہو یا نہیں، چاہے لوگ اُسے قبول کریں یا نہیں، کسی کو وہ اچھی لگتی ہوں یا بری لیکن نرمی، حکمت، اور عقلمندی اور اچھے طریقے سے لوگوں کو بیان ضرور کرے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ :
ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
النحل – 125
اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلا اور ان سے اس طریقے کے ساتھ بحث کر جو سب سے اچھا ہے۔ بے شک تیرا رب ہی زیادہ جاننے والا ہے جو اس کے راستے سے گمراہ ہوا اور وہی ہدایت پانے والوں کو زیادہ جاننے والا ہے۔
اگر آپ نے شریعتِ محمدی (ﷺ) اور دینِ اسلام کی کوئی بات چھپا کر لوگوں کے سامنے پیش کی تو یہ مداہنت کہلاتا ہے اور اسلام میں مداہنت حرام ہے۔
فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ ٱلْمُشْرِكِينَ
الحجر – 94
لہذا واقعہ معراج یہ درس دیتا ہے کہ اسلام کا کوئی بھی حکم جو آپ کے خیال میں لوگوں کی عقل یا سمجھ میں نہیں آتا یا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ معلوم نہیں کہ لوگ اسے تسلیم کریں گے یا نہیں آپ نے اُسے لوگوں کے سامنے بیان کرنا ہے پھر چاہے وہ کسی کی عقل میں آئے یا نہ آئے، کوئی مانے یا نہ مانے۔
ناشکری سے اجتناب
واقعہ معراج سے حاصل شدہ دروس میں ایک درس یہ بھی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ :
أُرِيتُ النَّارَ فَإِذَا أكْثَرُ أهْلِهَا النِّسَاءُ، يَكْفُرْنَ قيلَ: أيَكْفُرْنَ باللَّهِ؟ قالَ: يَكْفُرْنَ العَشِيرَ، ويَكْفُرْنَ الإحْسَانَ، لو أحْسَنْتَ إلى إحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ، ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شيئًا، قالَتْ: ما رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ
صحیح البخاری – 29
مجھے جہنم دکھائی گئی۔ میں نے اس دن سے زیادہ خوفناک، ہیبت ناک منظر کبھی نہ دیکھا اور میں نے جہنم میں عورتوں کو کثرت سے دیکھا تو صحابہ کرام نے پوچھا کہ اللہ کے رسول اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ان کی کفر کی وجہ سے تو صحابہ کرام نے کہا کہ کیا عورتیں اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں! بلکہ اپنے شوہروں کی کفر کرتی ہیں اور ان کے إحسانات کی ناشکری کرتی ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم ساری زندگی عورت کے ساتھ احسان، بھلائی کرتے رہو اور کبھی غلطی سے تگ تمہاری طرف سے اس کے ساتھ کوئی برا سلوک ہو جائے تو عورت آگے سے کہتی ہے کہ میں نے اس گھر میں کوئی بھلائی، نیکی و خیر دیکھی ہی نہیں ہے۔
چنانچہ ان کے اس جملے کی وجہ سے اکثر عورتیں جہنم میں زیادہ تھیں جب سبب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ: عورتیں شوہر کی ناشکری کرتی ہیں اور اس کے إحسانات کی ناقدری کرتی ہیں۔ یہ اكثرعورتوں کا مزاج ہے، اکثر بیویاں شوہر کی احسان مند اور شکر گذار نہیں ہوتیں اور یہی ان کے جہنم میں جانے کا سبب ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ ساری بیویاں ایسی ہوتی ہیں۔ نیک اور شکر گذار بیویاں بھی ہوتی ہیں جو شوہر کی قدر کرتی ہیں، جو اپنے شوہر کی مدد کرتی ہیں، اور ان کے ساتھ تعاون کرتی ہیں، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ان کا کتنے اچھے الفاظ میں تذکرہ فرمایا ہے۔
اسی لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ: مردوں میں کامل لوگ بہت ہیں لیکن عورتوں میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ، حضرت آسیہ،حضرت عائشہ ،حضرت مریم كامل ہیں۔چنانچہ حدیث میں آتا ہے:
كَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ كَثِيرٌ، وَلَمْ يَكْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ: إِلَّا آسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ، وَمَرْيَمُ بنْتُ عِمْرَانَ، وإنَّ فَضْلَ عَائِشَةَ علَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ علَى سَائِرِ الطَّعَامِ
صحیح البخاری – 3411
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: “مردوں میں سے بہت سے لوگ مرتبۂ کمال تک پہنچے لیکن عورتوں میں سے صرف فرعون کی بیوی آسیہ اور مریم بنت عمران ہی مرتبۂ کمال تک پہنچیں اور عائشہ کو عورتوں پر وہی فضیلت حاصل ہے جو فضیلت ثرید کو سارے کھانوں پر حاصل ہے”۔
دوسری حدیث میں آتا ہے :
أفضل نساء أهل الجنة خديجة بنت خويلد ، و فاطمة بنت محمد ، و مريم بنت عمران ، و آسية بنت مزاحم ، امرأة فرعون
آپ ﷺ نے فرمایا: تمام جنتی عورتوں میں سے افضل خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد ﷺ، اور مریم بنت عمران اورآسیہ بنت مزاحم ہیں جو کہ فرعون كی بیوی تھیں۔4
يا مَعْشَرَ النِّساءِ، تَصَدَّقْنَ وأَكْثِرْنَ الاسْتِغْفارَ، فإنِّي رَأَيْتُكُنَّ أكْثَرَ أهْلِ النَّارِ وما لنا يا رَسولَ اللهِ، أكْثَرُ أهْلِ النَّارِ؟ قالَ: تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ، وتَكْفُرْنَ العَشِيرَ5
حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺعورتوں کے پاس سے گذرے تو فرمایا: صدقہ دیا کرو، اللہ سے استغفار مانگا کرو، اس لیے کہ میں نے تمہیں دیکھا ہے کہ جہنم میں تمہاری تعداد بہت زیادہ تھی ۔انہوں نے (خواتین نے) پوچھا: ایسا کیوں اے اللہ کے رسول ﷺ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: عورتیں لعن طعن زیادہ کرتی ہیں اور اپنے کنبے کی ناشکری کرتی ہیں۔
عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ بچہ اگر کبھی نہیں سو رہا ہے یا اس نے کوئی غلط حرکت کرلی یا گھر میں کوئی برتن ٹوٹ گیا تو عورتیں زبان سے بد دعا دینے لگتی ہیں اسی کو لعنت کہتے ہیں۔ یہ جو بد دعا ہے اسی کو عربی میں لعنت کہتے ہیں۔ لعنت کا اصل مطلب ہوتا ہے کہ اللہ کی رحمت سے دور ہو جانا۔ یہی لعنت ہے۔ جب بد دعا دیتے ہیں تو یہی مطلب ہے کہ اللہ کی رحمت سے دور ہو جائے ۔یہ ایسا خطرناک گناہ تھا کہ نبی کریم کو اس کا انجام معراج میں دکھایا گیا اس لیے دکھایا گیا تاکہ نبی کریم اپنی امت کو آگاہ کریں اور نبی کریم ﷺ نے امت کو بتا دیا۔ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ اس گناہ سے اپنے آپ کو بچایا جائے۔
شوہر سے بھی غلطی ہو سکتی ہے اور بیوی سے بھی غلطی ممکن ہے۔ اگر شوہر بیوی کی غلطیوں سے درگذر کرے اور بیوی شوہر کی غلطیوں سے در گذر کرے، شوہر بیوی کے احسانات کا شکریہ ادا کرے اور بیوی شوہر کے احسانات کا شکریہ ادا کرے تو گھر جنت بن جائے گا اور کبھی طلاق کی نوبت نہیں آئی گی ۔حدیث میں آتا ہے کہ:
مَنْ لَا يَشْكُرُ النَّاسَ لَا يَشْكُرُ اللَّهَ6
جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر کبھی ادا نہیں کرے گا۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ ناشکری ایک کبیرہ گنا ہے۔ لوگوں کے احسانات کی ناشکری اور نا قدری یہ صغیرہ گناہ نہیں بلکہ کبیرہ گناہ ہے اور انسان جہنم میں کبیرہ گناہوں کی وجہ سے جائے گا۔
جب اس حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ میری بیوی ایسی ہے حالانکہ نبی ﷺ نے یہ نہیں بتایا کہ بیویاں ایسی ہوتی ہیں بلکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا عورتیں ایسی ہوتی ہیں اور عورت میں والدہ، بیٹی، بہن اور بیوی سب شامل ہیں۔ یعنی ہم یہ کوشش کریں کہ خدانخواستہ ہماری والدہ، بہن، بیٹی یا بیوی کہیں اس خطرناک گناہ میں مبتلا تو نہیں۔ ہماری کوئی بھتیجی ، بھانجی یا کوئی رشتہ دار خاتون اس گناہ میں مبتلا تو نہیں اس لیے کہ یہ بھی عورت ہے کیونکہ آپ کی والدہ، بیٹی، بہن بھی کسی کی بیوی ہے۔ مقصد یہ تھا کہ ہمیں اس بات کی فکر ہونی چاہیئے کہ ہم اپنی بچیوں کو، اپنی گھر کی خواتین کو، اپنی والدہ، بیٹی، بہن اور بیوی کو اس گناہ کی سنگینی اور خطرناک انجام سے آگاہ کریں اور انہیں دین کی تعلیمات سمجھائیں ۔کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ:
أَلاَ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَ كُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَ هُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَ هُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَ وَلَدِهِ وَ هِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَ هُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ أَلا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَ كُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ
صحیح البخاری – 7138
آپ ﷺنے فرمایا:’’ تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا (حاکم سے مراد منتظم اور نگراں کار اور محافظ ہے) پھر جو کوئی بادشاہ ہے وہ لوگوں کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کا سوال ہو گا(کہ اس نے اپنی رعیت کے حق ادا کیے، ان کی جان و مال کی حفاظت کی یا نہیں؟) اور آدمی اپنے گھر والوں کا حاکم ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی اور بچوں کی حاکم ہے اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا اور غلام اپنے مالک کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کے متعلق سوال ہو گا۔ غرض یہ کہ تم میں سے ہر ایک شخص حاکم ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کا سوال ہو گا۔ ‘‘ لہذا اپنے گھر کی خواتین کو بھی اسلامی تعلیمات سے آراستہ کریں ورنہ کل قیامت کے دن ضرور پوچھا جائے گا۔
یہ واقعہ معراج کا سبق ہے۔
مسجد کی اہمیت :
سفرِ معراج میں نبی کریم ﷺ کو سب سے پہلے مسجد حرام لے جایا گیا وہاں پر شق صدر ہوا پھر مسجد حرام سے مسجد اقصی لے جایا گیا، آپ سے امامت کروائی گئی، مسجد اقصی سے آسمانوں کا سفر شروع ہوا، واپس آپ کو مسجد اقصی لایا گیا، پھر واپس مسجد حرام لایا گیا ۔ واقعہ اسراء و معراج سے مساجد کی اہمیت اور مسلم معاشرے میں مساجد کا کلیدی کردار سمجھ میں آتا ہے اس لئے کہ یہ سفر مسجد سے شروع ہوا اور مسجد ہی پر اختتام کو پہنچا۔ ایسا اس لئے کیا گیا تاکہ امت پر مساجد کی اہمیت کو اجاگر کیا جاسکے کیونکہ ایسا بھی ممکن تھا کہ آپ کو اپنے گھر سے سیدھا آسمانوں پہ لے جاتے اور پھر سیدھا واپس گھر لے آتے لیکن آپ کو بار بار مسجد لایا گیا جس کا مقصد امت مسلمہ کو یہ سمجھانا تھا کہ ایک مسلمان کی زندگی میں مسجد کی بہت بڑی اہمیت ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ :
سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ في ظِلِّهِ يَوْمَ لا ظِلَّ إلَّا ظِلُّهُ ۔۔ وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ في المَسَاجِدِ
صحیح البخاری – 6806
سات قسم کے لوگ ہیں کہ جن کو اللہ اپنا عرش کا سایہ نصیب کرے گا جس دن کوئی اور سایہ نہ ہوگا تو ان میں سے ایک شخص وہ ہے کہ جس کا دل مسجد کے ساتھ لگا رہتا ہے۔
یعنی جب مسجد سے نکلتا ہے تو اس نیت سے نکلتا ہے کہ اگلی نماز کا وقت ہوگا تو وقت پر نماز ادا کرنے مسجد میں آجاؤں گا ۔اور نماز پڑھ کر پھر اپنے کام میں لگ جاتا ہے لیکن اس کا دل اس فکر میں ہوتا ہے کہ کب اذان ہو گی تو میں مسجد چلا جاؤں اورجماعت سے نماز پڑھوں یعنی وہ بذاتِ خود مسجد میں موجود نہیں ہے لیکن اس کا دل مسجد میں ہے وہ اس انتظار میں ہوتا ہے کہ اذان ہو اور میں مسجد چلا جاؤں۔
اس عمل کا اتنا زیادہ ثواب ہے کہ قیامت کے دن عرش کا سایہ نصیب ہوگا. لہذا واقعہ معراج سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب بھی مسجد سے نکلیں تو یہ نیت اور ارادہ کرکے نکلیں کہ جب اگلی نماز کے لئے اذان ہو تو میں ان شاء اللہ بر وقت نماز پڑھنے کے لئے مسجد آجاؤں گا۔ اگر إتفاق سے کسی دن آپ نماز کے لئے کبھی مسجد نہ آسکے تو کم ازکم نیت کا ثواب تو ملے گا، آپ کا نام ان لوگوں کی فہرست میں ضرور شامل ہوگا جن کا دل مسجد سے لگا رہتا ہے تو یہ کیا کم عمل ہے کہ اس کی وجہ سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ عرش کا سایہ نصیب کرے گا ۔ حدیث میں آتا ہے کہ :
أَلا أدُلُّكُمْ علَى ما يَمْحُو اللَّهُ به الخَطايا، ويَرْفَعُ به الدَّرَجاتِ؟ قالُوا بَلَى يا رَسولَ اللهِ، قالَ: إسْباغُ الوُضُوءِ علَى المَكارِهِ، وكَثْرَةُ الخُطا إلى المَساجِدِ، وانْتِظارُ الصَّلاةِ بَعْدَ الصَّلاةِ، فَذَلِكُمُ الرِّباطُ
صحیح مسلم – 251
کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جس کے ذریعے سے اللہ گناہوں کو مٹاتا ہے اور درجات کو بلند کرتا ہے تو صحابہ کرام نے فرمایا ضرور بتائیں اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے فرمایا: ناپسندیدگی، تکلیف کی حالت میں مکمل وضو کرنا، مثلا سردی ہے، ٹھنڈا پانی ہے پھر بھی اچھے طریقے سے وضو کرتا ہے۔ پھر فرمایا: مسجد کی طرف زیادہ چلنا۔ یہ ایسا عمل ہے جو انسان کے گناہوں کو مٹاتا ہے اور درجات کو بلند کرتا ہے۔ پھر فرمایا: ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا۔ یہ وہ عمل ہے کہ جس سے انسان کے گناہ ختم ہوتے ہیں اور درجات بلند ہوتے ہیں۔
یہ بھی واقعہ معراج کا درس ہے کہ مسجد کی اہمیت کو انسان اپنے ذہن میں بٹھائے اور جو لوگ مسجد سے جڑے ہوتے ہیں اللہ تعالی ان کی زندگی بدل دیتا ہے۔ ویسے بھی مسجد اللہ کی رحمتوں کے نزول کی جگہ ہے حدیث میں آتا ہے کہ :
أَحَبُّ البِلَادِ إلى اللهِ مَسَاجِدُهَا.
صحیح مسلم – 671
اللہ کی نظر میں کسی شہر کی سب سے پسندیدہ جگہ اس شہر کی مسجد ہوتی ہے پھر مسجد میں نمازی کو نیک اور تہجد گذار لوگوں کی صحبت میسر آتی ہے اوران کے اثرات اُس میں منتقل ہوتے ہیں پھر مسجد میں بیٹھنے سے انسان کو ذکر و اذکار، نوافل، تلاوت قرآن پاک، دعاؤں اور مناجات کی توفیق بھی نصیب ہوتی ہے تو اس چیز کے لئے بھی اپنے آپ کو عادی بنانا چاہیئے ۔
تحیۃ الوضو کی اہمیت :
واقعہ معراج سے ایک اور اہم سبق ہمیں یہ ملتا ہے کہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بلا کر پوچھا کہ :
أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ قالَ لبِلالٍ عِنْدَ صَلَاةِ الفَجْرِ: يا بلَالُ، حَدِّثْنِي بأَرْجَى عَمَلٍ عَمِلْتَهُ في الإسْلَامِ؛ فإنِّي سَمِعْتُ دَفَّ نَعْلَيْكَ بيْنَ يَدَيَّ في الجَنَّةِ. قالَ: ما عَمِلْتُ عَمَلًا أَرْجَى عِندِي: أَنِّي لَمْ أَتَطَهَّرْ طُهُورًا، في سَاعَةِ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ، إلَّا صَلَّيْتُ بذلكَ الطُّهُورِ ما كُتِبَ لي أَنْ أُصَلِّيَ.
صحیح البخاری – 1149
اے بلال! مجھے وہ عمل بتادو جس عمل سے آپ کو اللہ سے سب سے زیادہ اس بات کی امید ہے کہ اللہ تمہیں بخش دے گا اس لیے کہ آج رات کو میں نے جنت میں تممارے قدموں کی آہٹ سنی ہے تم وہ کونسا عمل کرتے ہو کہ میں معراج کے وقت جنت میں داخل ہوا تو میرے آگے کسی کی چلنے کی آواز آرہی تھی۔ میں نے پوچھا تو بتایا گیا کہ بلال رضی اللہ عنہ ہیں تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میرا کوئی اور خاص عمل نہیں ہے صرف یہی ہے کہ میں جب بھی وضو کرتا ہوں تو دو رکعت نفل نماز ادا کرتا ہوں اور کوئی خاص عمل میرا نہیں ہے۔
یہ دو رکعت “تحیۃ الوضو” کہلاتی ہے ان دو رکعتوں کی اتنی اہمیت اور فضیلت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بلال رضی اللہ عنہ کے قدموں کی آہٹ جنت میں سنی ۔یہ واقعہ معراج کے موقع پر پیش آیا تھا۔ جیسا کہ دوسری احادیث میں صراحت ہے :
دخلتُ الجنةَ ليلةَ أُسْرِىَ بِي ، فسمعتُ في جانِبِها وجْسًا ، فقُلتُ : يا جبريلُ ما هذا ؟ قال : هذا بلالٌ المُؤذِّنُ7
غرور اور گھمنڈ سے اجتناب
واقعہ معراج کے دروس اور اسباق میں سے ایک سبق یہ بھی ہے کہ معراج کی شب نبی کریم ﷺ جنت تشریف لے گئے، جبریل علیہ السلام سے ملاقات کی، اللہ سے ملاقات کی، ایسے ایسے مناظر آپ ﷺ نے دیکھے جس کا انسان تصور نہیں کر سکتا۔ لیکن اس کے بعد جب آپ واپس تشریف لائے تو آپ کے رویے میں، طرز عمل میں اور تعامل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ بلکہ آپ کا رویہ پہلے کی طرح ہے، اپنی اہلیہ کی خدمت کر رہے ہیں، غلاموں کی خدمت کر رہے ہیں، مظلوموں کی مدد کر رہے ہیں، یتیموں اور بیواؤں کی بھی خدمت کر رہے ہیں۔ یعنی آپ کا رویہ اب بھی وہی ہے بلکہ آپ ﷺ پہلے سے زیادہ عاجزی، انکساری کا پیکر بن گئے، پہلے سے زیادہ لوگوں کیلئے مہربان اور شفیق ہوگئے۔
اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر اللہ نے کسی کو کوئی نعمت دی ہے وہ نعمت خواہ کسی بھی شکل میں ہو، مال و دولت ہو، شہرت و عزت ہو، اچھے روزگار یا کاروبار کی صورت میں ہو، زمین جائیداد، گاڑی، بینک بیلنس کی صورت میں ہو تو ان میں سے کسی بھی ایک چیز کا انسان کی زندگی پر یہ اثر نہیں ہونا چاہیے کہ اس کا رویہ لوگوں کے ساتھ تبدیل ہوجائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:
وَلَا تَمْشِ فِى الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا
الاسراء – 37
اور زمین میں اکڑ کر نہ چل کہ نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ لمبائی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتا ہے۔
وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ ﴿١٨﴾ وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ ۚ إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ
لقمان – 18/19
لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا اور زمین پر اترا کر نہ چل کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز پست کر یقیناً آوازوں میں سب سے بدتر آواز گدھوں کی آواز ہے۔
حضرت سلیمان نے اپنے بیٹے کو جو نصیحت کی تھی ان میں ایک نصیحت یہ بھی تھی کہ اپنے گال یا چہرے کو لوگوں کے لیے مت پھُلاؤ، جب انسان زیادہ غصے میں ہوتا ہے تو گال پھلاتا ہے ۔
لہذا اللہ تعالیٰ نے جو نعمت دی ہے اس پر رب کا شکر ادا کریں اور اس کی وجہ سے کسی کو حقیر نہ جانیں کیونکہ اللہ تعالی کسی کے حسن وجمال، مال و دولت، شکل و صورت کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے، تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے لہذا معراج بہت بڑا درس ہے کہ نبی کریم ﷺ ساتویں آسمان تک پھر سدرۃ المنتہی تک گئے، اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی، جنت کی سیر بھی کی لیکن جب واپس آئے تو لوگوں کے ساتھ وہی اخلاق حسنہ، وہی اچھا برتاو،اور وہی تواضع و انکساری، عاجزی کا نمونہ رہے جیسا معراج پر جانے سے پہلے تھے. آپ ﷺ نے اس اعزاز، شرف ومنزلت اور فضیلت کی بنیاد پر کسی کو بھی کم تر نہیں سمجھا۔ کیونکہ اپنے عہدے، منصب، عزت وشہرت یا کسی بھی نعمت کی وجہ سے کسی مسلمان کو کم تر سمجھنا یہ اللہ کی نعمتوں کی نا شکری ہے ۔ نبی کریم ﷺ جب اس دنیا سے رخصت ہورہے تھے تو آپ ﷺ نے دو وصیتیں فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
الصلاةَ الصلاةَ ! اتقوا اللهَ فيما ملكت أيمانُكم
صحیح ابی داؤد – 5156
کہ نماز کا خیال رکھنا اور اپنے ماتحت لوگوں کا خیال رکھنا ۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب انسان متکبر اور، خود پسند نہ ہو۔
معراج کی شب گھروں میں چراغاں کیا جاتا ہے یہ اسلام کا مزاج اور اس کی تعلیمات نہیں ہیں بلکہ اسلام کا تقاضا تو یہ ہے کہ شبِ معراج کو نبی کریم ﷺ سدرۃ المنتہی تک جاکر، اللہ سے ملاقات کرکے، جنت وجہنم کو دیکھ کر جو پیغام امت کے لئے لیکر آئے اس کو اپنانا ہے، نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنا ہے، یہ اہم دروس تھے جو ہمیں واقعہ معراج سے ملتے ہیں۔
- الرحیق المختوم : ص: 197
- الشفا بتعريف حقوق المصطفى، ص: 191
- تفسیرابن کثیر
- أخرجه أحمد، 1/ 316، إسناده صحيح، ورجاله ثقات: (تعليق شعيب الأرنؤوط)
- صحیح مسلم – 79 / صحیح ابن حبان – 3250
- صحیح الترمذی – 1954 / صحیح ابی داؤد – 4811
- صحیح الجامع – 3372 / مسندأحمد – 2324 / سنن البیھقی