سانحہ مری کا اصل ذمہ دار کون؟

اس سال مری اور گلیات میں شدید برفباری کا نیا ریکارڈ سامنے آیا اور صرف48 گھنٹوں میں پانچ فٹ برف باری ہوئی ۔3  جنوری سے 7 جنوری تک ایک لاکھ 62 ہزار گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں۔ 16 مقامات پر درخت گرنے سے ٹریفک بلاک ہوئی۔ ہزاروں کی تعداد میں سیاح  برف باری میں پھنس گئے جس کے نتیجے میں 7  بچوں سمیت22   قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔

دین ِاسلام سیروتفریح کی اجازت دیتا  ہے ۔سورہ یوسف میں آتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام سے اس کے بیٹوں نے کہا کہ ہم یوسف علیہ السلام کو اپنے ساتھ لیکر جاتے ہیں تو اس موقع پر حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے کہا تھا کہ:

یرتع ویلعب

کہ یہ گھومے گا اور کھیلے گا، لہذا سیر وتفریح کے لیے بچوں کو دنیا کی کسی بھی جگہ پر لے جا سکتے ہیں ۔لیکن اس کی چند شرائط ومقاصد ہیں ،اگر ان شرائط ومقاصد کو پورا نہیں کیا جاتا تو اسلام میں صرف سیر وتفریح کے لیے وقت و دولت کو ضائع کرنے سے روکا گیا ہے۔

اسلام ميں سیر وتفریح  كے مقاصد

عبرت ونصیحت :

اسلام ميں سیر وتفریح  یا سیاحت كے مقاصد میں سے ایک مقصد عبرت و نصيحت کا حصول ہے، قرآن مجيد ميں كئى ايك مقامات پر زمين ميں گھومنے پھرنے كا حكم ديا گيا ہے:  اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

قُلْ سِيرُواْ فِي الأَرْضِ ثُمَّ انظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ

الانعام – 11

 كہہ ديجئے كہ زمين ميں چلو پھر اور سير كرو، پھر ديكھو كہ جھٹلانے والوں كا انجام كيا ہوا۔

اور ايك دوسرے مقام پر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان كچھ اس طرح ہے:

قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ

النمل – 69

 كہہ ديجئے زمين ميں چلو پھرو پھر ديكھو كہ مجرموں كا انجام كيا ہوا۔

دعوت الى اللہ :

 اسلام ميں سیر وتفریح یاسياحت کے مقاصد میں سے سب سے عظيم مقصد اللہ کے دین کی دعوت و تبلیغ ہےجو نبى كريم ﷺ سے پہلے رسولوں اور انبياء کرام اور نبی کریم ﷺ کی سنت تھی اور نبی ﷺ كے بعد صحابہ كرام كا بھى يہى عمل تھا، ہمارے نبى محمد ﷺ كے صحابہ كرام روئے زمين پر پھيل گئے اور لوگوں كو خير و بھلائى كى تعليم دى، اور انہيں كلمہ حق كى دعوت دى۔

 غور و فكر اورتدبر :

 اسلام ميں سیر وتفریح اور سياحت کے مقاصد میں سے  ایک مقصد یہ ہے كہ اللہ تعالى كى مخلوقات ميں غور و فكر اور تدبر کیا جائے اور اس دنيا میں اللہ تعالی کی خوبصورت مناظر سے انسان کے ذہن اور دماغ کو تازگی ،اطمنان اور سکون  حاصل ہو،  اس کے ساتھ قدرت کی حسین وجمیل مناظر سےدل میں ايمانى قوت كا اضافہ ہو اور اللہ تعالى كى وحدانيت پر ايمان میں اضافہ کا باعث ہو، اور یہ چیزیں زندگى كے واجبات كى ادائيگى ميں ا معاون ثابت ہوں ۔

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللَّهُ يُنشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

العنکبوت – 20

 كہہ ديجئے كہ زمين ميں چل پھر كر ديكھو تو سہى كہ كس طرح اللہ تعالى نے مخلوق كى ابتداءً پيدائش كى، پھر اللہ تعالى ہى دوسرى نئى پيدائش كريگا، اللہ تعالى ہر چيز پر قادر ہے۔

ہلاکت کے امکان والی سیر و تفریح ،کتاب وسنت کی روشنی میں

نبی كریم ﷺ نے سفر كو

قطعة من العذاب

یعنی عذاب کا ایک ٹكرا كہا ہے ۔اورجس سیرو تفریح یا کھیل کے اندر ہلاکت کا امکان ہو، زندگی كو نقصان پہنچنے كا خدشہ ہو وہ سیریا تفریح نہیں ہے،بلكہ وہ مہم جوئی ہے ، اور مہم جوئی میں جان جانے کا خطرہ  ضرور ہوتا ہے۔  اور جس سیرو تفریح ، کھیل یا سیاحت میں زندگی اور جان كا خطرہ ہو ، تو یہ اسلام اور  دین کے خاطر تو درست ہے لیکن  انجوائمنٹ ، سیر وتفریح  یا شوق کو پورا کرنے کیلئے مہم جوئی  شریعت کے عمومی مقصد کے بھی خلاف ہے ۔مری میں جو حادثہ پیش آیا ہے ۔ اس کے لئے قرآن میں واضح حکم موجود ہے کہ:

وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ

البقرۃ – 195

اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو۔

سیاحت کے فروغ کے سلسلے میں حکومتی وزراء کے بیانات، اعلانات،تبدیلی کے نعروں اوریقین دہانیوں سے یہ گمان ہونے لگا تھا کہ شاید ہم سیاحت کے شعبے میں کچھ بہتری کی طرف جارہے ہیں مگر سانحۂ مری نے واضح کردیا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ پوری دنیا کے سیاحتی مقامات میں سیاحوں کے لیے دستیاب انتظامات کا جائزہ لیں تو یہ معلوم ہونا ذرا بھی مشکل نہیں کہ ہم نے پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے نعروں کو ابھی تک حقیقت میں نہیں بدلا ۔

شمالی علاقہ جات ، گلگت بلتستان اور مری ایک ایسا پہاڑی سلسلہ جو نہ صرف پاکستانی سیاحوں بلکہ پوری دنیا کے لیے کشش کا باعث ہے اور لوگ یہاں جانے کیلئے ہمیشہ بے چین رہتے ہیں،خاص طورپر برفباری کے دلفریب مناظر دیکھنے کے لیے ہرکوئی ملکہ کوہسار اور دیگر علاقوں کا رخ کرتے ہیں،عوام کے رش کے باعث ہماری انتظامیہ کو بھی ذمہ دار ہونے اور الرٹ رہنے کی ضرورت زیادہ  ہے۔ ملک کی بہتری اور حقیقی تبدیلی کیلئے صرف وزیراعظم نہیں بلکہ متعلقہ محکموں کے افراد کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ان کی کارکردگی جانچنے کی ضرورت ہے ۔ان میں احساس ذمہ داری جگانے کی ضرورت ہے ۔

برفباری جتنی بھی ہوکیایہ ناممکن ہے کہ ہیوی مشینری سڑکوں پرالرٹ رہے،اہلکارجاگتے رہیں اور برف کے ڈھیروں کو سڑکوں سے ہٹاتے رہیں،اگر ایساحقیقت میں ہوتااوریہ ناممکنات میں سے نہیں تھاتوقیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا،نہ سیاحوں کو پریشانی ہوتی۔

دنیا کے دیگر مختلف ممالک میں میں بھی برف باری ہوتی ہے مگرپاکستان کی صورتحال اور ان کے ہاں صورت حال میں واضح  فرق ہے، حالانکہ ان ممالک میں پاکستان کے مقابلے میں برفباری بھی بہت زیادہ  ہوتی ہے اور اس کا دورانیہ بھی کئی ممالک میں  پاکستان سےبہت زیادہ ہوتاہے مگر نہ وہاں ٹریفک جام ہوتی ہے،نہ سڑکیں بندہوتی ہیں اور نہ ہی اتنے بڑے سانحات ہوتے ہیں،وجہ ایک ہی ہے کہ وہاں کی انتظامیہ کو یہ معلوم ہے کہ انہوں نے اپنے شہریوں اور سیاحوں کو آسانی فراہم کرنی ہے،انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ انہیں جو ماہانہ تنخواہ ملتی ہے وہ اسی کام کی ملتی ہے کہ انہوں نے سڑکوں کو برف سے کلئیر رکھنا ہے،وہاں پٹرولنگ کرنے والوں،مانیٹرنگ کرنے والوں اور کنٹرول رومز کو پتہ ہوتاہے کہ موسم ایساہو تو پھر کیسے انتظامات کرنے ہیں لیکن ہم یہاں بھنگ کاشت کرکے خوش ہورہے ہیں کہ اب بہت فائدہ ہوگا،ہمارے وزراء اس اہم ایشو پر بھی اپوزیشن کی بجا تنقید کو بلاجواز تنقید کہتے نہیں تھک رہے۔

سانحہ مری کے دو ذمہ داران

اس سانحہ کی پہلی ذمہ داری خود مرنے والوں پر عائد ہوتی ہے  جو برف باری  دیکھنے چلے تھے، جس کو ارادی خود کشی کا نام دیا جا سکتا ہے جو لوگ اس سانحے میں برف باری کے ہاتھوں مارے گئے کیا وہ اَن پڑھ تھے؟ کیا ان کے گھروں میں ٹی وی نہیں تھا؟ کیا ان کی جیبیں سمارٹ فون سے خالی تھیں؟ اور کیا ان کے ساتھ ان کے جو اہل ِ خانہ اس سفرِ خود کشی پر نکلے تھے ان کی عقلوں کو کیا ہوگیا تھا ؟ برف باری دیکھنے کا شوق ایک طرف، برف کے گولے بنا بنا کر ایک دوسرے پر پھینکنے کا شغل بھی ایک طرف لیکن کیا ان کو برف باری کے خطرات کا علم نہیں تھا  ؟  لہذااس سانحہ کی پہلی ذمہ داری خود مرنے والوں پر عائد ہوتی ہے۔

اسلام قوانین کا دین ہے قرآن کریم میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:

وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ  وَأَحْسِنُوا  إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

البقرۃ – 195

‏ اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں مت ڈالو اور نیکی کرو بے شک اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کو پسند فرماتے ہیں۔

اس آیت کا عام حکم اور مفہوم بہت وسیع ہے ۔غور کیجئے، کہا گیا ہے کہ اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو.. ہر وہ چیز ہر وہ کام جو آپ کے لیے یا آپ کے اردگرد رہنے والوں کے لیے تکلیف اور پریشانی کا سبب بنے وہ منع ہے۔

ایک چیز مضر صحت ہے پھر بھی اسے استعمال کرنا خود کو ہلاکت میں ڈالنا ہے شراب، ہیروئین، چرس ہو یا پان، سگریٹ چھالیہ وغیرہ مختلف بیماریوں کا سبب بنتے ہیں، یہ سب حرام ہیں، اسی طرح بیماری کی صورت میں حلال چیزیں بھی حرام ہو جاتی ہیں. ایک شخص کو ہائی بلڈ پریشر ہے پھر بھی وہ نمک کھاتا ہے، ایک صاحب کو شوگر ہے پھر بھی وہ میٹھی چیزوں کا استعمال کرتے ہیں. یہ خودکشی ہے۔ اپنے ہاتھ سے اپنے آپ کو مارنے کے برابر ہے. جوا کھیلنا، لاٹری ٹکٹ کھیلنا، فضول پیسہ خرچ کرنا بھی اپنے ہاتھ سے خود کو برباد کرنا ہے. اسی طرح یہ  جانتے ہوئے کہ  بارشیں اور برف  باری بھی موت اور تباہی کا باعث بنتی ہیں ،لیکن محض شوق  اور تفریح کے لیے اپنی جان کو خطرات میں ڈالنا یقینا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔کوئی بھی ایسی حرکت جس سے خود یا عام لوگ تکلیف میں مبتلا ہو جائیں، از روئے شریعت حرام اور ناجائز ہے۔

بدقسمتی سےہمارے ہاں پبلک سیفٹی بالکل نہیں ہے، ہم اونچی اور بڑی عمارتیں بنا لیتے ہیں لیکن ان میں آگ بجھانے کا سسٹم نہیں لگاتے، ہمارے پاس فائر بریگیڈ ہے ہی نہیں، ہماری فیکٹریاں کارخانے روزانہ حادثات کا شکار ہوتے ہیں، تفریحی مقامات پر بھی سیفٹی کا کوئی نظام نہیں ۔

ہماری ریلوے کا شمار سب سے زیادہ حادثات کا شکار ہونے والی ریلویز میں ہوتا ہے، ہزاروں کراسنگ ایسے ہیں جن پر پھاٹک نہیں ہے اور اگر پھاٹک ہے تو اٹینڈینٹ نہیں ہیں، ہمارے لوگ ٹرین کے دروازے اور چھت پر سفر کرتے ہیں، ہم اپنی کشتیوں میں بھی گنجائش سے زیادہ لوگ بٹھا لیتے ہیں۔ یہ ہے ہماری سیفٹی اور سیکیورٹی کی حالت زار ۔۔۔

دوسری ذمہ دار مری کی ضلعی انتظامیہ تھی جو صوبائی انتظامیہ کے ماتحت ہوتی ہے اور وہ صوبائی انتظامیہ جو مرکزی انتظامات کے انڈر کمانڈ ہوتی ہے۔…… اس حوالے سے دیکھا جائے تو حکومت اس کی ذمہ دار ہے۔ کیونکہ تقریباً دس روز پہلے  میڈیا پر وزارتِ داخلہ کی طرف سے یہ بیان سامنے آ یا تھا کہ مری میں گاڑیوں کی پارکنگ کی گنجائش 50ہزار سے زیادہ نہیں۔اور ستم یہ ہے کہ ساتھ میں یہ ٹِکر بھی چل رہا تھا کہ اس وقت تک70 ہزار گاڑیاں مری میں داخل ہو چکی ہیں۔یہ20ہزار کاریں جو گنجائش سے زیادہ تھیں،کہاں پارک کی جائیں گی، کیا اس کے بارے میں کسی نے سوچا؟ مجموعی طور پر دیکھا جائے توسانحہ مری  پاکستان کی برسر اقتدار حکومت کی اجتماعی ناکامیوں کا ایک اور مظاہرہ ہے۔  اربابِ حکومت کو چاہئے کہ سانحہ مری کی ذمہ د اری قبول کریں اور ذمہ داران کو ”قرار واقعی“ سزا  دیں۔

کیا کمشنر، ڈپٹی کمشنر ، صوبائی انتظامیہ ، مرکزی وزیر داخلہ کا بس یہ کام رہ گیا ہے کہ وہ یہ بیان داغے کہ مری میں پارکنگ کی گنجائش 50 ہزار گاڑیاں ہیں اور اب تک وہاں 70 ہزار گاڑیاں داخل ہو چکی ہیں؟ کیا اسے پاکستانی عورتوں، مردوں، بچوں اور بچیوں کی جان کی کچھ پرواہ نہیں؟…… کیا اس کا کام صرف اور صرف میڈیا پر آ کر بیان جاری کرنا ہے؟ کیا وہ مری جانے والے راستے بند نہیں کروا سکتا؟……

موجودہ حکومت جو دن رات سیاحت کے فوائد گنواتی تھکتی نہیں ہے  ان کو اپنی ”رعایا“ کی جانوں کی کچھ پروا نہیں؟ ہمارے ارباب اقتدار واختیار جو ہر روزتبدیلی اور نئے پاکستان کا نعرہ لگاتے ہیں،انہیں اپنی عوام کی کوئی فکر نہیں؟… ایک طرف ارباب اختیار کا یہ نا روا سلوک ہے تو دوسری طرف ان کے عوام کی ”عقل ِ سلیم“ کا عالم یہ ہے کہ وہ پڑھے لکھے شہری ہونے کے باوجود انتہائی حماقت کا مظاہرہ کر کے کسی سیلابی ریلے میں کود جاتے ہیں۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ شفاف تحقیقات کرکے ذمہ دار چاہے جتنا بھی بڑا عہدیدارہو،سزادی جائے اور آپ نے اگرواقعی  پاکستان کوسیاحت کے لیے سازگار بنانا ہے تو پھر ملکہ کوہسار کاغم سمجھیں،ان علاقوں میں انتظامیہ کو الرٹ رکھیں،سڑکیں بہتر بنائیں اور ایمرجنسی سے فوری نمٹنے کی منصوبہ بندی کریں،بصورت دیگر سیاحت کا فروغ خواب ہی رہے گااور ہم خدانخواستہ ایسے سانحات کومزید دیکھیں گے۔

آخری بات :

مری میں ہونے والے واقعہ کو لے کر یہ کہنا کہ سیر وتفریح ہی شریعت میں منع ہے ، یہ درست نہیں ہے ۔ بلكہ اپنی عقل سے کام لیتے ہوئے، سارے معاملات اور حالات کا جائزہ لے کر سیر وتفریح كرنی چاہئے اور ایسی سیرو تفریح ، کھیل یا سیاحت جس میں جان كا خطرہ ہودور رہنا چاہیئے کیونکہ یہ دین اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے ۔لہٰذا سیر وتفریح ضرور کیجیئے لیکن احتیاط کے ساتھ، خطروں کا ادراک کرتے ہوئے ۔ اللہ تعالی ہمیں شریعت اور دین کے معتدل اور متوازن تعلیمات کے مطابق زندگی گذارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ: