سجدے کی اصطلاحی تعریف
وضع الجبهة على الأرض للعبادة ولا يكون هذا إلا لله تعالى1
ترجمہ : اسلامی شریعت کے مطابق سجدہ عبادت کی نیت سے پیشانی کو زمین پر رکھنا ہے اور یہ عمل صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں سب سے پہلے نازل ہونے والی سورت کے آخر میں ارشاد فرمایا:
وَاسْجُدْ وَاقْتَرِب2
سجدہ کرو اور (اپنے رب کا) قرب حاصل کرو۔‘‘
سجدہ ایک اہم عبادت ہے اور عبادات میں اس کا بلند مقام ہے لیکن نہایت افسوس کی بات ہے کہ بہت سے مسلمان سجدے کی فضیلت اور اس کے احکام سے ناواقف ہیں، خاص طور پر وہ احکام جو ان کے ایمان اور عقیدے کی سلامتی سے متعلق ہیں۔ اس نا واقفیت کا نتیجہ یہ ہے کہ بعض مسلمان اللہ کے علاوہ کسی اور کو سجدہ کرتے ہیں اور وہ اس عمل کے اپنے دین اور عقیدے پر پڑنے والے سنگین اثرات کو نہیں سمجھتے۔
حقیقی سجدے کی کیفیت
سجده کوئی رسمی فعل نہیں ہے بلکہ حقیقی سجده یہ ہے کہ ایک بنده شدّتِ احساس سے بے چین ہو جائے اور بے تابانہ طور پر وه اپنا سر زمین پر رکھ دے- ایسا سجده گویا کہ اپنے رب کے قدموں میں سر رکهنے کے ہم معنی ہوتا ہے- ایسا سجده تسلیم و رضا کی آخری صورت ہے- جب کوئی بنده اس طرح اپنے آپ کو آخری حد تک خدا کے آگے سرینڈر کر دے تو اللہ کی رحمت کا تقاضہ ہوتا ہے کہ وه اس کو معاف فرما کر اسے اپنی رحمتوں کے سائے میں لے لے- کیونکہ قربِ الہی صرف خالی سجده کرنے سے نہیں ملے گی ، بلکہ سجدے کے اندر وہ روح، بے چینی ، تڑپ ، خلوص ، عاجزی ، انکساری اور صدقِ نیت ہو جو سجدے کو رب کی بارگاہ میں قبولیت کے درجے پر پہنچا دے ۔ درج ذیل سطور میں سجدے کے فضائل اور بعض مسائل پیشِ خدمت ہیں۔
کائنات کی تمام مخلوق کا سجدہ
اس کائنات میں بسنے والی ہر مخلوق اللہ تعالی کی عظمت، جلال اور کبریائی کے سامنے سجدہ کرتی ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے :
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللہَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِّنَ النَّاسِ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ وَمَن يُهِنِ اللہُ فَمَا لَهُ مِنْ مُّكْرِمٍ إِنَّ اللہَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ3
ترجمہ: کیا تم دیکھتے نہیں کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، درخت، چوپائے اور لوگوں کی ایک کثیر تعداد اللہ کے حضور سر بسجود ہے اور بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں۔ اور جسے اللہ ذلیل و خوار کرے اسے کوئی عزت دینے والا نہیں اور اللہ وہی کچھ کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے ۔
فرشتوں کا سجدہ
تمام جاندار مخلوق کے ساتھ فرشتے بھی اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں ۔ ارشاد باری تعالی ہے :
وَلِلہِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ دَابَّةٍ وَالْمَلَائِكَةُ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ4
ترجمہ : آسمانوں اور زمین میں جتنی جاندار مخلوق ہے اور فرشتے بھی سب اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور کبھی تکبر نہیں کرتے ۔
چنانچہ مؤمنین اور فرشتے اللہ کے سامنے اپنی رضا اور اختیار سے سجدہ کرتے ہیں جبکہ کافر اللہ کے سامنے مجبوری اور ناپسندیدگی سے سجدہ کرتے ہیں۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالی ہے :
وَلِلہِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلَالُهُم بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ5
آسمانوں اور زمین میں جتنی بھی چیزیں ہیں چار و ناچار اللہ کو سجدہ کر رہی ہیں۔ (اسی طرح) ان کے سائے صبح و شام سجدہ ریز ہوتے ہیں۔
وہ کون ہے جو روزِ آخرت سجدہ نہیں کر سکے گا؟
جو دنیا میں تکبر کرتے ہوئے اللہ کے لیے سجدہ کرنے سے انکار کرے گا ، آخرت میں جب اسے سجدہ کے لیے بلایا جائے گا تو وہ رب کے سامنے سجدہ نہیں کر سکے گا۔ ارشادِ باری تعالی ہے :
يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ * خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ وَقَدْ كَانُوا يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سَالِمُونَ6
جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور انہیں سجدہ کرنے کو بلایا جائے گا تو یہ سجدہ نہ کرسکیں گے۔ ان کی نظریں جھکی ہونگی اور ان پر ذلت کی چادر پڑی ہوگی اور دنیا میں جب وہ صحیح سالم تھے تو انہیں سجدے کے لئے کہا جاتا تھا (لیکن وہ سجدہ نہیں کرتے تھے )
آیت کی تفسیر
اس آیت کا مطلب خود رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا ہے اور صحیح سند کے ساتھ آپ سے مروی ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ فَيَسْجُدُ لَه كُلُّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ وَ يَبْقٰی مَنْ كَانَ يَسْجُدُ فِي الدُّنْيَا رِيَاءً وَ سُمْعَةً فَيَذْهَبُ لِيَسْجُدَ فَيَعُوْدُ ظَهْرُه طَبَقًا وَاحِدًا7
ترجمہ: ہمارا رب اپنی پنڈلی کھولے گا تو ہر مومن مرد اور مومن عورت اس کو سجدہ کریں گے اور وہ شخص باقی رہ جائے گا جو دنیا میں دکھانے اور سنانے کے لیے سجدہ کرتا تھا، وہ سجدہ کرنے لگے گا تو اس کی پیٹھ ایک طبق ہو جائے گی (یعنی ان کی ریڑھ کی ہڈی کے منکے، تختے کی طرح ایک ہڈی بن جائیں گے جس کی وجہ سے ان کے لئے جھکنا ناممکن ہو جائے گا)
شیطان کا روتا ہوا بھاگ جانا
جب شیطان ابنِ آدم کو اللہ کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ اس جگہ سے ہٹ جاتا ہے اور رونے لگتا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: :
إِذَا قَرَأَ ابْنُ آدَمَ السَّجْدَةَ فَسَجَدَ، اعْتَزَلَ الشَّيْطَانُ يَبْكِي، يَقُولُ: يَا وَيْلَهُ، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي كُرَيْبٍ: يَا وَيْلِي، أُمِرَ ابْنُ آدَمَ بِالسُّجُودِ فَسَجَدَ، فَلَهُ الْجَنَّةُ، وَأُمِرْتُ بِالسُّجُودِ فَأَبَيْتُ فَلِي النَّارُ8
ترجمہ: جب ابنِ آدم سجدے کی آیت تلاوت کرکے سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتے ہوئے وہاں سے ہٹ جاتا ہے، وہ کہتا ہے: ہائے اس کی ہلاکت! (اور ابو کریب کی روایت میں ہے، ہائے میری ہلاکت!) ابنِ آدم کو سجدے کا حکم ملا تو اس نے سجدہ کیا، اس پر اسے جنت مل گئی اور مجھے سجدے کا حکم ملا تو میں نے انکار کیا، سو میرے لیے آگ ہے۔
غیر اللہ کے لئے سجدہ کرنے والا کون ہے؟
غیر اللہ کے لئے سجدہ وہی کر سکتا ہے جس پر شیطانوں کا غلبہ ہو جائے، کیونکہ شیطان کا کام ہی غیر اللہ کے لئے سجدہ کرنا اور کرانا ہے ۔ ارشادِ باری تعالی ہے :
إِنِّي وَجَدْتُ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ * وَجَدْتُهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ9
ترجمہ: میں نے دیکھا کہ ایک عورت ان پر حکمرانی کرتی ہے جسے سب کچھ عطا کیا گیا ہے اور اس کا تخت عظیم الشان ہے۔ میں نے (یہ بھی) دیکھا کہ وہ خود اور اس کی قوم اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے لئے ان کے اعمال کو آراستہ کرکے انھیں راہ (حق) سے روک دیا ہے، لہٰذا وہ راہ (حق) نہیں پا رہے۔
اورآج کتنے ہی لوگ ہیں جن پر شیطانوں کا غلبہ ہو چکا ہے اور وہ اللہ کو چھوڑ کر سورج، چاند، آگ، گائے اور دیگر چیزوں کو سجدہ کرتے ہیں۔
جہنم کی آگ سے نجات
سجدہ کرنے والے کی پیشانی کو جہنم کی آگ نہیں کھائے گی۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
تأكلُ النارُ ابنَ آدمَ ، إلا أثرَ السُّجودِ ، حرَّم اللهُ عزَّ و جلَّ على النَّارِ أنْ تأكُلَ أثرَ السُّجودِ10
ترجمہ: جہنم کی آگ ابنِ آدم کے سارے بدن کو کھائے گی سوائے سجدوں کے نشان کے، اللہ تعالیٰ نے آگ پر یہ حرام کیا ہے کہ وہ سجدوں کے نشان کو کھائے۔
جنت میں نبی ﷺ کی رفاقت
سجدہ کرنے والے کو جنت میں نبی ﷺ کی رفاقت نصیب ہوگی ۔ حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
كُنْتُ أبِيتُ مع رَسولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ فأتَيْتُهُ بوَضُوئِهِ وحَاجَتِهِ فَقالَ لِي: سَلْ فَقُلتُ: أسْأَلُكَ مُرَافَقَتَكَ في الجَنَّةِ. قالَ: أوْ غيرَ ذلكَ قُلتُ: هو ذَاكَ. قالَ: فأعِنِّي علَى نَفْسِكَ بكَثْرَةِ السُّجُودِ11
ترجمہ: میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آپ کے وضو اور آپ کی حاجت کا پانی لے کر آتا تھا، تو ایک بار آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو مانگنا ہو مجھ سے مانگو“، میں نے کہا: میں جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس کے علاوہ اور بھی کچھ؟“ میں نے عرض کیا: بس یہی، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو اپنے اوپر کثرتِ سجدہ کو لازم کر کے میری مدد کرو۔
نیکیوں میں اضافہ اور گناہوں سے چھٹکارا
سجدہ نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے، برائیوں کو مٹا دیتا ہے۔ چنانچہ سیدنا معدان بن أبي طلحہ يعمري رضي الله عنه بیان کرتے ہیں :
لَقِيتُ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ، فَقُلتُ: أخْبِرْنِي بعَمَلٍ أعْمَلُهُ يُدْخِلُنِي اللہُ به الجَنَّةَ؟ أوْ قالَ قُلتُ: بأَحَبِّ الأعْمَالِ إلى اللهِ، فَسَكَتَ. ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَسَكَتَ. ثُمَّ سَأَلْتُهُ الثَّالِثَةَ فَقالَ: سَأَلْتُ عن ذلكَ رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ، فَقالَ: عَلَيْكَ بكَثْرَةِ السُّجُودِ لِلَّهِ، فإنَّكَ لا تَسْجُدُ لِلَّهِ سَجْدَةً، إلَّا رَفَعَكَ اللَّهُ بهَا دَرَجَةً، وحَطَّ عَنْكَ بهَا خَطِيئَةً12
ترجمہ: میں رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام ثوبان رضی اللہ عنہ سے ملا تو میں نے کہا: مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جسے کروں تو اللہ اس کی وجہ سے مجھے جنت میں داخل فرما دے، یا انہوں نے کہا: میں نے پوچھا: اللہ کو سب سے زیادہ محبوب عمل کونسا ہے؟ تو ثوبان رضی اللہ عنہ نے خاموشی اختیار فرمائی (اور میری بات کا کوئی جواب نہ دیا) پھر میں نے دوبارہ ان سے سوال کیا، انہوں نے خاموشی اختیار کر لی، پھر میں نے ان سے تیسری دفعہ یہی سوال کیا تو انہوں نے کہا: میں نے یہی سوال رسول اللہ ﷺ سے کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا: ”تم اللہ کے حضور کثرت سے سجدے کیا کرو کیونکہ تم اللہ کے لیے جو بھی سجدہ کرو گے اللہ اس کے نتیجے میں تمہارا درجہ ضرور بلند کرے گا اور تمہارا کوئی گناہ معاف کر دے گا۔“ معدان نے کہا: پھر میں ابو درداء رضی اللہ عنہ سے ملا تو ان سے (یہی) سوال کیا، انہوں نے بھی مجھ سے وہی کہا جو ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا تھا۔
درجات میں بلندی
سجدہ نیکیوں میں اضافہ کرنے ، برائیوں کو مٹانے کے ساتھ ساتھ اللہ کے کے ہاں بندے کے درجات کو بھی بلند فرما دیتا ہے۔ سیدنا عبادة بن صامت رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ما من عبدٍ يسجدُ للہِ سجدةً إلَّا كتبَ اللہُ لَهُ بِها حسنَةً ومحا عنْهُ بِها سيِّئةً ورفعَ لَهُ بِها درجةً فاستَكثِروا منَ السُّجودِ13
ترجمہ: جو بھی بندہ اللہ کے لیے سجدہ کرتا ہے، اللہ اس سجدے کے بدلے اس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتا ہے، ایک گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے۔ لہٰذا کثرت سے سجدے کیا کرو۔
رحمتِ الہی اور قبولیتِ دعا کا مقام
سجدہ انتہائی فروتنی اور عاجزی کی دلیل ہے جس کے ذریعہ بندہ اللہ کے حضور اپنے فقر و احتیاج اور مسکنت کا اظہار کرتا ہے اس لیے اس حالت میں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور رحمت کا محل بنتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کا انتہائی قرب حاصل ہوتا ہے اس لیے یہ دعا کا بہترین محل ہے۔ سیدنا ابنِ عباس رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ألَا وإنِّي نُهِيتُ أنْ أقْرَأَ القُرْآنَ رَاكِعًا، أوْ سَاجِدًا، فأمَّا الرُّكُوعُ فَعَظِّمُوا فيه الرَّبَّ عزَّ وجلَّ، وأَمَّا السُّجُودُ فَاجْتَهِدُوا في الدُّعَاءِ، فَقَمِنٌ أنْ يُسْتَجَابَ لَكُمْ14
ترجمہ: خبردار رہو! بلاشبہ مجھے رکوع اور سجدے کی حالت میں قرآن پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، جہاں تک رکوع کا تعلق ہے اس میں اپنے رب عزوجل کی عظمت و کبریائی بیان کرو اور جہاں تک سجدے کا تعلق ہے اس میں خوب دعا کرو، (یہ دعا اس) لائق ہے کہ تمہارے حق میں قبول کرلی جائے۔
رب العزت کی قربت
سجده رب العزت کی قربت كا بہترین ذریعہ ہے كیونكہ بندہ سجدے کی حالت میں اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے ۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےارشاد فرمایا:
أَقْرَبُ ما يَكونُ العَبْدُ مِن رَبِّهِ، وهو ساجِدٌ، فأكْثِرُوا الدُّعاءَ15
ترجمہ: بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے، لہٰذا (سجدے میں) تم لوگ بکثرت دعا کیا کرو“۔
روزِ قیامت مؤمن کی نشانی
سجدہ روزِ قیامت مؤمن کی نشانی ہوگی ۔ سیدنا عبداللہ بن بسر مازنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ما من أمَّتي من أحدٍ إلَّا و أنا أعرفُه يومَ القيامةِ قالوا وَكيفَ تعرفُهم يا رسولَ اللَّهِ فى كثرةِ الخلائقِ قالَ أرأيتَ لو دخلتَ صيرةً فيها خيلٌ دُهمٌ بُهمٌ و فيها فرسٌ أغرُّ محجَّلٌ أما كنتَ تعرفُه منها قالَ بلى قالَ فإنَّ أمَّتي يومئذٍ غرٌّ منَ السُّجودِ محجَّلونَ منَ الوضوءِ16
ترجمہ: میں قیامت کے دن اپنے ہر امتی کو پہچان لوں گا، صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! مخلوق کے اتنے بڑے ہجوم میں آپ انہیں کیسے پہچانیں گے؟ نبی ﷺ نے فرمایا: یہ بتاؤ کہ اگر تم کسی اصطبل میں داخل ہو جہاں کالے سیاہ گھوڑے بندھے ہوئے ہوں اور ان میں ایک گھوڑے کی پیشانی روشن چمکدار ہو اور سفید ہو تو کیا تم اسے ان گھوڑوں میں پہچان سکو گے؟ انہوں نے جواب دیا کیوں نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی طرح اس دن میرے امتیوں کی پیشانیاں سجدوں کی وجہ سے روشن اور وضو کی وجہ سے ان کے اعضاء چمک رہے ہوں گے۔ (اس امتیازی علامت کی وجہ سے میں انہیں پہچان لوں گا)
فتح و نصرت کا ذریعہ
سجدہ فتح و نصرت کا ذریعہ ہے ۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
لمَّا كان يَومُ بَدرٍ قاتلْتُ شَيئًا من قِتالٍ، ثمَّ جِئتُ مُسرِعًا لِأنظُرَ إلى رَسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ما فَعَل، فجِئتُ فأجِدُه وهو ساجِدُ يَقولُ: يا حَيُّ يا قَيُّومُ لا يَزيدُ عَلَيها، فرَجَعتُ إلى القِتالِ، ثمَّ جِئتُ وهو ساجِدٌ يَقولُ ذلكَ، ثمَّ ذَهَبتُ إلى القِتالِ، ثمَّ جِئتُ وهو ساجِدٌ يَقولُ ذلكَ، فلم يَزَلْ يَقولُ ذلكَ حتَّى فَتَح اللهُ عليه17
ترجمہ: غزوہ بدر کے دن میں کچھ دیر لڑتا رہا، پھر میں تیزی سے رسول اللہ ﷺ کی طرف آیا تاکہ دیکھ سکوں آپ ﷺ کیا کر رہے ہیں ۔ میں آیا تو دیکھا آپ سجدے میں ہیں اور یہ پڑھ رہے تھے: يا حَيُّ يا قَيُّومُ !’ اور اس کے علاوہ کچھ نہیں پڑھ رہے۔ پھر میں واپس لڑائی کی طرف گیا، پھر آیا تو آپ سجدے میں تھے اور وہی دعا پڑھ رہے تھے، پھر دوبارہ لڑائی کی طرف گیا اور پھر آیا تو آپ سجدے میں وہی دعا پڑھ رہے تھے۔ آپ یہ کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو فتح عطا کی۔
رضائے الہی کا ذریعہ
سجدہ رحمٰن کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے ساتھ رضائے الٰہی کا ذریعہ ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں نبی ﷺ سے مروی ہے کہ جس وقت لوگ روزِ قیامت میدانِ محشر میں کھڑے ہوں گے اور شفاعت کے لئے کوشش کر رہے ہوں گے اور انبیائے کرام سے کہتے کہتے رسول اللہ ﷺ تک پہنچیں گے، کہیں گے: ’’اے محمد ﷺ! آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہماری کیا حالت ہے اور ہم کتنی تکلیف میں ہیں!‘‘ تو اس پر رسول اللہ ﷺ فرمائیں گے: ’’میں تمہاری سفارش کرتا ہوں۔‘‘ اس پر آپ ﷺ عرش کے نیچے سجدہ ریز ہو جائیں گے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: ’’میں اپنے پروردگار سے اجازت طلب کروں گا تو مجھے اجازت دی جائے گی اور میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے رب کی ایسی حمد بیان کروں گا جو میں ابھی نہیں کر سکتا، اللہ مجھے اسی وقت سکھائے گا، میں پھر اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤں گا تو مجھے کہا جائے گا: اے محمد(ﷺ)! اپنا سر اٹھائیے، کہیے! آپکی بات سنی جائے گی۔ مانگیے! عطا کیا جائے گا۔ سفارش کیجیے! آپکی سفارش بھی قبول کی جائے گی۔18
ہر پریشانی کا علاج
سجدہ ہر غم ، دکھ اور پریشانی کا علاج ہے۔ جب آپ پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں، جب آپ مشکلات میں گھر جائیں، جب آپ بھنور میں پھنس جائیں ، جب آپ غمزدہ ہو جائیں ، جب لوگ آپ کو بے جا تکلیف دینے لگیں تو فورا رب کے حضورسجدے میں گر جائیں، کثرت سے نماز، سجدے اور دعا کریں اور ہر بھلائی کی بشارت پائیں کیونکہ سجدہ ہر قسم کی پریشانی اورغم کا علاج ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے :
وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ * فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِنَ السَّاجِدِينَ19
ترجمہ: ہمیں خوب علم ہے کہ ان باتوں سے آپ کا دل تنگ ہوتا ہے۔ آپ اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بیان کرتے رہیں اور سجدہ کرنے والوں میں شامل ہو جائیں۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر پیش آنے والی مصیبت کا علاج اللہ کا ذکر، خصوصاً تسبیح و تحمید اور نماز ہے، ان کی برکت سے دل کو تسلی بھی ہوگی اور فکر و غم کے بادل بھی چھٹ جائیں گے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا عمل تھا کہ جب آپ کو کوئی معاملہ پیش آتا تو نماز میں مصروف ہو جاتے۔20
توبہ و استغفار کا دروازہ
سجدہ توبہ و استغفار کا دروازہ ہے ۔ جب آپ کو اپنے اعمال میں کمی اور کوتاہی محسوس ہونے لگے، آپ کو اپنے گناہوں اور نافرمانیوں پر ندامت کا احساس ہو اور جب آپ توبہ اور استغفار کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیں تو سجدے میں گر جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی داؤد علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمایا:
وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ21
ترجمہ: اور داؤد سمجھ گئے کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے، اسی لئے اپنے رب سے مغفرت طلب کرتے ہوئے سجدے میں گِر گئے اور پوری طرح رجوع کیا۔
رب کا پسندیدہ عمل
سجدہ رب کا پسندیدہ عمل ہے کیونکہ سجدے میں حد درجہ عبودیت اور تواضع و انکساری کا اظہار ہے۔ اس میں انسان اپنے بدن کے سب سے معزز اعضاء کو رب کے حضور مٹی پر رکھ دیتا ہے اور خود کو رب تعالیٰ کی عظمت و بلندی اور عزت و مرتبت کے آگے خاک میں ملا دیتا ہے اس لئے بندہ اس حالت میں رب کو سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے اور آدمی جتنا اس عمل میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے رب تعالیٰ کے ہاں با عزت اور بلند مرتبت ہوتا چلا جاتا ہے اور رب تعالیٰ کا محبوب بنتا چلا جاتا ہے۔
شرح صدر اور تلاشِ حق
“اور جسے حق واضح نہ ہو اور درست اور حق راستہ معلوم نہ ہو، اسے چاہیے کہ اللہ کے حضور سجدے میں گڑگڑاتے ہوئے دعائیں کرے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایسا کیا کرتے تھے۔
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ربما طالعت على الآية الواحدة نحو مائة تفسير، ثم أسأل الله الفهم؛ وأقول: يا معلم آدم وإبراهيم علمني، وكنت أذهب إلى المساجد المهجورة ونحوها، وأمرغ وجهي في التراب، وأسأل الله تعالى؛ وأقول: يا معلم إبراهيم فهمني22
“بسا اوقات میں ایک آیت کے بارے میں سو کے قریب تفسیریں پڑھتا، پھر اللہ سے سمجھنے کی دعا کرتا، اور کہتا: “اے آدم اور ابراہیم (علیھما السلام) کو تعلیم دینے والے! مجھے سکھا۔” میں ویران مساجد وغیرہ کی طرف جاتا، اپنا چہرہ مٹی پر رکھتا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا اور کہتا: “اے ابراہیم (علیہ السلام) کو سمجھانے والے! مجھے سمجھا۔”
قربِ الہی کا ذریعہ
بندے کے لئے سب سے بڑی چیز اللہ تعالی کی قربت ہے۔ یہ قربت نیک اعمال کے ذریعے ہی حاصل ہوگی۔ اور سجدہ قربِ الہی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔
حافظ ابنِ رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
السجود هو أعظم ما يظهر فيه ذلُّ العبد لربِّه عز وجل؛ حيث جعل العبدُ أشرَفَ ما له من الأعضاء، وأعزَّها عليه، وأعلاها حقيقة – أوضَعَ ما يمكنه، فيضعه في التراب مُتعفِّرًا، ويتبع ذلك انكسار القلب وتواضعه، وخشوعه لله عز وجل؛ ولهذا كان جزاء المؤمن إذا فعل ذلك أن يُقرِّبه الله عز وجل23
ترجمہ: سجدہ وہ عظیم عمل ہے جس میں بندہ اپنے رب کے سامنے سب سے زیادہ عاجزی اور انکساری کا اظہار کرتا ہے۔ بندہ اپنے جسم کے سب سے معزز اور محترم حصے کو زمین پر رکھ دیتا ہے، جس کے ساتھ دل کی عاجزی و انکساری اور اللہ کے سامنے خشوع بھی شامل ہوتا ہے۔ اس کے بدلے میں اللہ مؤمن کو اپنی قربت عطا کرتا ہے۔
سجدوں كے متعلق چند ضروری مسائل
1۔ صرف دعا کیلئے سجدہ کرنا
صرف دعا کے لیے محض سجدہ کرنا شرعی عمل نہیں ہے۔ شریعت میں سجدے کو عبادت و قربِ الہی کے لئے یا تو نماز میں بجا لایا جاتا ہے یا کسی مخصوص سبب کی بنا پر کیا جاتا ہے۔ مثلاً: سجدہ سہو، سجدہ تلاوت اور سجدہ شکر۔ چنانچہ صرف دعا کے لیے سجدہ کرنے کے بارے میں شریعت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جو اس کام کے جواز یا استحباب پر دلالت کرتی ہو، بلکہ نبی ﷺ سے متعدد و متواتر احادیث میں ثابت ہے کہ آپ دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا کرتے تھے اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے پر آپ نے ترغیب بھی دلائی اور فرمایا:
إِنَّ رَبَّكُمْ تَبَارَكَ وَتَعَالَى حَيِيٌّ كَرِيمٌ ، يَسْتَحْيِي مِنْ عَبْدِهِ إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا24
ترجمہ: بیشک تمہارا پروردگار با حیا، اور سخاوت والا ہے، وہ اپنے بندے کے اپنی بارگاہ میں اٹھے ہوئے ہاتھوں کو خالی لوٹاتے ہوئے حیا کرتا ہے۔
لہذا دعا کے لیے خصوصی طور پر سجدہ کرنا بدعت ہوگا؛ کیونکہ آپ ﷺ نے ایسا نہیں کیا، ایسے ہی سجدہ کرنے سے نبی ﷺ کی طرف سے ترغیب یافتہ سنت بھی ضائع ہوگی کہ آپ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے کی ترغیب دلائی ہے۔
علمائے کرام نے اس طرح کے اکیلے سجدے کی تردید کی ہے اور اس سے منع کیا ہے۔
امام شهاب الدين أبو شامہ المقدسی لکھتے ہیں:
جرت عادة بعض الناس بالسجود بعد الفراغ من الصلاة، يدعو فيه، قال: وتلك سجدة لا يعرف لها أصل، ولا نقلت عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم -، ولا عن أصحابه، والأولى أن يدعو بالصلاة لما روى من الأخبار فيه25
ترجمہ: “لوگوں کی عام عادت بن چکی ہے کہ نماز سے فراغت کے بعد سجدہ کرتے ہوئے اس میں دعا مانگتے ہیں، حالانکہ کہ اس طرح سجدہ کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے اور رسول اللہ ﷺ سے ایسی کوئی بات منقول ہے اور نہ ہی صحابہ کرام سے۔ چنانچہ بہتر یہی ہے کہ نماز میں ہی دعائیں مانگیں کیونکہ نماز میں یہ عمل احادیث سے ثابت ہے”
2۔ نماز کے بعد فورا سجدہ کرنا
سجدۂ شکر اس وقت مشروع ہے جب کوئی نئی نعمت حاصل ہو یا کوئی مصیبت دور ہو جائے، کیونکہ یہ ایک ایسا سجدہ ہے جو کسی خاص وجہ سے کیا جاتا ہے۔ جمہور علماء نے اسے مستحب قرار دیا ہے جب کوئی نعمت ملے یا کوئی مصیبت ٹل جائے۔
بخاری اور مسلم میں کعب بن مالک اور ان کے ساتھیوں کی توبہ کے واقعے میں روایت ہے کہ جب کعب کو بشارت ملی تو وہ سجدے میں گر گئے اور سمجھ گئے کہ نجات آ گئی ہے۔
اسی طرح ایک حدیث میں جو احمد اور حاکم نے روایت کی اور صحیح قرار دی، عبد الرحمن بن عوف سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک طویل سجدہ کیا، پھر سر اٹھایا اور فرمایا کہ جبریل میرے پاس آئے اور خوشخبری سنائی، اس پر میں نے شکرانے کا سجدہ کیا۔
بیہقی کی روایت میں بھی، جس کی اصل بخاری میں ہے، براء بن عازب سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت علی کو یمن بھیجا اور جب حضرت علی نے ان کے اسلام لانے کی خبر لکھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پڑھ کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدہ کیا۔”
لیکن ہر نماز کے بعد بغیر کسی خاص سبب کے سجدۂ شکر کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ یہ ایک بدعت ہے جو جائز نہیں، کیونکہ سنت میں جو سجدہ وارد ہوا ہے، وہ ہمیشہ کسی خاص سبب سے ہوتا ہے، جیسے کسی مصیبت کے ٹلنے یا نعمت کے ملنے پر۔ اصل عمل یعنی سجدہ جائز ہے لیکن یہ اس وقت بدعت بن جاتی ہے جب اسے بغیر کسی وجہ کے کسی خاص وقت پر ہمیشہ کیا جائے ۔ علماء نے بدعت کے لیے ایک قاعدہ مقرر کیا ہے:
كل عمل لم يعمله النبي صلى الله عليه وسلم مع وجود المقتضي له وعدم المانع من فعله؛ ففعله الآن بدعة26
ترجمہ: ہر وہ عمل جو نبی ﷺ نے نہیں کیا، حالانکہ اس کے کرنے کا موقع موجود تھا اور کوئی رکاوٹ نہیں تھی، تو اب اس عمل کا کرنا بدعت ہے۔’
علماء کے ہاں یہ بھی طے شدہ بات ہے کہ عبادات کا دار و مدار نصوص پر ہوتا ہے؛ یعنی اللہ کی عبادت اسی طریقے سے کی جائے گی جو اللہ نے اپنی کتاب میں یا اپنے رسول ﷺ کی زبان سے مقرر کی ہے۔ ہر وہ عمل جس کی کوئی شرعی نص نہیں ہے، اسے کرنا اور اس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرنا بدعت ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز پیدا کی جو اس میں سے نہیں ہے، وہ رد کی جائے گی۔27
امام شاطبی فرماتے ہیں :
ومنها يعني: البدعة الإضافية- التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته28
‘بدعتِ اضافی میں سے ایک یہ ہے کہ کچھ خاص عبادات کو خاص اوقات میں لازم کر لیا جائے جبکہ شریعت میں اس کا کوئی تعین نہیں کیا گیا، جیسے شعبان کی پندرہویں رات کا قیام یا اس دن کا روزہ لازم کر لینا۔
لہذا ہر نماز کے بعد سجدے کا معمول بنا لینا جائز نہیں، کیونکہ یہ بدعتِ اضافی میں شمار ہوتا ہے، جس سے بچنا ضروری ہے۔
علامہ إسماعيل حقی حنفی لکھتے ہیں:
وأما ما يفعل عقيب الصلاة فمكروه؛ لأن الجهال يعتقدونها سنةً أو واجبةً، وكل مباح يؤدي إليه فمكروه29
ترجمہ :”جہاں تک ہر نماز کے بعد کیے جانے والے سجدے کا تعلق ہے،تو وہ مکروہ ہے، کیونکہ جاہل لوگ اسے سنت یا واجب سمجھتے ہیں اور ہر مباح عمل جسے لوگ سنت یا واجب سمجھنے لگ جائیں ، وہ مکروہ ہے۔”
یعنی ہر فرض نماز کے بعد سجدہ کرنے کی عادت بنا لینا درست نہیں ہے، کیونکہ اس طرح کا سجدہ احادیث میں کہیں ثابت نہیں ہے. ہر نماز کے آخر میں سجدہ کی عادت بنا لینے سے یہ شبہ پیدا ہو جاتا ہے کہ یہ سجدہ بھی نماز کا حصہ (یعنی سنت یا واجب) ہے؛ اس لیے فقہاءِ کرام نے فرض نماز کے آخر میں سجدہ شکر کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے، لہٰذا فرض نماز کے آخر میں سجدہ کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
نبی ﷺ کا نماز کے فورا بعد عمل
نبی کریم ﷺ نماز سے سلام پھیرنے کے بعد دعائیں پڑھا کرتے تھے ، جیسا کہ سیدنا علی بن طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا سلم من الصلاة قال اللَّهمَّ اغفِرْ لِي مَا قَدَّمتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ ومَا أعْلَنْتُ، وَمَا أَسْرفْتُ، وَمَا أَنتَ أَعْلمُ بِهِ مِنِّي، أنْتَ المُقَدِّمُ، وَأنْتَ المُؤَخِّرُ، لا إلهَ إلاَّ أنْتَ30
ترجمہ : نبی کریم ﷺ جب نماز سے سلام پھیرتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے
اللَّهمَّ اغفِرْ لِي مَا قَدَّمتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ ومَا أعْلَنْتُ، وَمَا أَسْرفْتُ، وَمَا أَنتَ أَعْلمُ بِهِ مِنِّي، أنْتَ المُقَدِّمُ، وَأنْتَ المُؤَخِّرُ، لا إلهَ إلاَّ أنْتَ
ترجمہ: اے اللہ! میرے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دے اور وہ تمام گناہ جنہیں میں نے چھپ کر اور کھلم کھلا کیا ہو، اور جو زیادتی کی ہو اسے اور اس گناہ کو جسے تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے، بخش دے۔ تو جسے چاہے آگے کرے، جسے چاہے پیچھے کرے، تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔
اسی طرح حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
أمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أقرأ بالمعوذات في دبر كل صلاة31
مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں ہر نماز کے بعد معوذات پڑھا کروں ۔
معوذات سے مراد تین سورتیں “قل ھو اللہ احد، قل أعوذ برب الفلق، اور قل أعوذ برب الناس” ہیں
علامہ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں :
ومن قال باستحباب سجود الشكر قرن الاستحباب بتجدّد نعمة ما، أو حصول مسرّة، أو اندفاع نقمة، سواء كان ذلك خاصّاً بالساجد نفسه، أو عامّة للمسلمين؛ أمّا السجود بلا سبب فهذا ممّا لا أصل له، والأكمل للمسلم صلاة ركعتين أو أكثر-يُسلم بين كل ركعتين-، إذا أراد شكر الله تعالى-؛ فهذا مشروع ولا حرج فيه، وهو من الأمور الطيّبة، أمّا السجود المُفرد فلا يُفعل بلا سبب؛ بل يتعيّن حصول السبب الموجب له؛ كسجود التلاوة، وسجود الشكر32
ترجمہ : جن لوگوں نے سجدہ شکر کو مستحب قرار دیا ہے، انہوں نے اس استحباب کو کسی نئی نعمت کے ملنے، خوشی حاصل ہونے، یا کسی مصیبت کے ٹلنے کے ساتھ مشروط کیا ہے، چاہے وہ سجدہ کرنے والے شخص کے لیے خاص ہو یا عام مسلمانوں کے لیے۔ لیکن سجدہ بغیر کسی وجہ کے کرنا درست نہیں ہے۔ مسلمان کے لیے بہتر یہ ہے کہ اگر وہ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہے تو دو یا زیادہ رکعتیں پڑھے — ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرے — یہ مشروع ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں، اور یہ ایک اچھا عمل ہے۔ البتہ، بغیر کسی وجہ کے صرف سجدہ کرنا جائز نہیں؛ بلکہ سجدہ کرنے کا کوئی واضح سبب ہونا ضروری ہے، جیسے سجدہ تلاوت یا سجدہ شکر۔”
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“أنكر من هذا ما يفعله بعض الناس من أنه يسجد بعد السلام سجدة مفردة ، فإن هذه بدعة ، ولم ينقل عن أحد من الأئمة استحباب ذلك . والعبادات مبناها على الشرع والاتباع ، لا على الهوى والابتداع ; فإن الإسلام مبني على أصلين : أن لا نعبد إلا الله وحده ، وأن نعبده بما شرعه على لسان رسوله صلى الله عليه وسلم ، لا نعبده بالأهواء والبدع33
ترجمہ : اس سے بد تر وہ عمل ہے جو کچھ لوگوں کی طرف سے سلام پھیرنے کے بعد الگ سے سجدہ کرنے کی صورت میں کیا جاتا ہے؛ بلاشبہ یہ عمل بدعت ہے اور ائمہ میں سے کسی نے اسے مستحب نہیں کہا، [اس کی وجہ یہ ہے کہ] عبادات کی بنیاد شریعت اور اتباع پر ہوتی ہے، خواہشِ نفس اور بدعات پر عبادات کی بنیاد نہیں ہوتی؛ کیونکہ اسلام کی بنیاد دو چیزیں ہیں: صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور اسی انداز سے عبادت کریں جس انداز سے رسول اللہ ﷺ کی زبانِ اقدس سے بیان ہوئی ہے، لہذا ہم اللہ تعالی کی عبادت خواہشِ نفس اور بدعات کے ذریعے نہیں کر سکتے”
3۔ احتراما صوفی مشائخ کے سامنے رکوع یا سجدہ کرنا
سلام کہتے ہوئے احتراما صوفی مشائخ کے سامنے رکوع یا سجدہ کرنا حرام ہے ۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
مَا يَفْعَلُهُ كَثِيرٌ مِنْ الْجَهَلَةِ مِنْ السُّجُودِ بَيْنَ يَدَيْ الْمَشَايِخِ .. ذَلِكَ حَرَامٌ قَطْعًا ، بِكُلِّ حَالٍ ، سَوَاءٌ كَانَ إلَى الْقِبْلَةِ أَوْ غَيْرِهَا ، وَسَوَاءٌ قَصَدَ السُّجُودَ لِلَّهِ تَعَالَى ، أَوْ غَفَلَ ، وَفِي بَعْضِ صُوَرِهِ مَا يَقْتَضِي الْكُفْرَ ، أَوْ يُقَارِبُهُ ، عَافَانَا اللَّهُ الْكَرِيمُ34
ترجمہ: بہت سے جاہل اپنے صوفی مشائخ کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔ یہ قطعی طور پر ہر صورت میں حرام ہے،چاہے قبلے کی جانب ہو یا کسی اور جانب، چاہے سجدہ اللہ تعالی کے لیے کرے یا بغیر کسی نیت کے، بلکہ بسا اوقات یہ عمل موجبِ کفر بھی بن جاتا ہے یا کفر کے قریب تر کر دیتا ہے، اللہ تعالی ہمیں محفوظ رکھے “
ایک اور مقام پر کہتے ہیں:
فإن نصوص السنة ، وإجماع الأمة : تُحرِّم السجودَ لغير الله في شريعتنا ، تحيةً أو عبادةً ، كنهيه لمعاذ بن جبل أن يسجد لما قدمَ من الشام وسجدَ له سجود تحية35
ترجمہ: احادیث کی نصوص اور اجماعِ امت دونوں ہی ہماری شریعت کی رو سے غیر اللہ کو سجدہ کرنا حرام ہے، چاہے وہ تعظیمی ہو یا عبادت کے لیے ہو، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو شام سے واپسی پر آپ ﷺ کو تعظیمی سجدہ کرنے سے منع فرمایا۔
امام قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وَهَذَا السُّجُودُ الْمَنْهِيُّ عَنْهُ : قَدِ اتَّخَذَهُ جُهَّالُ الْمُتَصَوِّفَةِ عَادَةً فِي سَمَاعِهِمْ، وَعِنْدَ دُخُولِهِمْ عَلَى مَشَايِخِهِمْ وَاسْتِغْفَارِهِمْ ، فَيُرَى الْوَاحِدُ مِنْهُمْ إِذَا أَخَذَهُ الْحَالُ ـ بِزَعْمِهِ ـ يَسْجُدُ لِلْأَقْدَامِ ، لِجَهْلِهِ ؛ سَوَاءٌ أَكَانَ لِلْقِبْلَةِ أَمْ غَيْرِهَا ، جَهَالَةً مِنْهُ ، ضَلَّ سَعْيُهُمْ وَخَابَ عَمَلُهُمْ36
ترجمہ: تعظیمی سجدہ کرنا ممنوع ہے؛ لیکن پھر بھی کچھ جاہل صوفیوں نے دورانِ سماع اسے اپنی عادت بنا لیا ہے، عام طور پر اپنے مشائخ کے پاس جاکر اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے وقت ایسا ہی کرتے ہیں، چنانچہ جب صوفی حضرات-ان کے مطابق- وجد میں آتے ہیں تو جہالت کی بنا پر قدموں میں آ کر سجدہ ریز ہو جاتا ہے ؛ چاہے قبلہ سمت ہو یا نہ ہو ، یہ اس کے جاہل ہونے کی وجہ سے ہے، ان کی کوششیں رائیگاں اور اعمال ضائع ہو چکے ہیں”
شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
” الانحناء عند السلام حرام ، إذا قصد به التحية ، وأَما إن قصد به العبادة فكفر37
“سلام کرتے ہوئے جھکنے سے مراد صرف سلام ہی ہو تو یہ حرام ہے اور اگر عبادت مقصود ہو تو پھر یہ کفر ہے”
4۔ پیر کے سامنے سجدہ كرنا
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ومن أنواعِ الشركِ: سُجودُ المُريدِ للشيخ، فإنه شركٌ من الساجدِ والمسجودِ له، والعَجَب أنهم يقولون: ليس هذا بسجودٍ، وإنما هو وضعُ الرأسِ قُدَّامَ الشيخ احتراماً وتواضُعاً، فيُقال لهؤلاء: ولو سميتُموه ما سميتُموه، فحقيقة السجود وَضع الرأس لمن يُسْجَد له، وكذلك السجود للصنمِ، وللشمسِ، وللنجمِ، وللحَجَرِ، كُلُّه وضْع الرأسِ قُدَّامَه38
ترجمہ: شرک کی اقسام میں سے ایک یہ ہے کہ مرید اپنے شیخ کو سجدہ کرے۔ یہ عمل سجدہ کرنے والے اور جس کو سجدہ کیا جا رہا ہے، دونوں کے لیے شرک ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ سجدہ نہیں، بلکہ شیخ کے سامنے صرف احترام اور عاجزی کے طور پر سر جھکانا ہے۔ ان لوگوں سے کہیں گے کہ چاہے تم اس عمل کو جو بھی نام دو، حقیقت میں یہ سجدہ ہی ہے، کیونکہ سجدے کی حقیقت سر کو جھکانا ہے، خواہ وہ کسی بت، سورج، ستارے یا پتھر کے سامنے ہو۔ یعنی سجدہ صرف اللہ کے لیے ہے اور کسی اور کو سجدہ کرنا شرک ہے، چاہے اس کی نیت کچھ بھی ہو۔ جبكہ ارشادِ باری تعالی هے كه :
فَاسْجُدُوا لِلہِ وَاعْبُدُوا39
پس تم لوگ اللہ کے سامنے سجدے میں گر جاؤ، اور اس کی عبادت کرو۔
5۔ دربار، قبر اور مزار وغیرہ کو چومنا یا سجدہ كرنا
قبر ، دربار اور مزار وغیرہ کو چومنا یا سجدہ تعظیمی كرنا بھی جائز نہیں ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دیا اور فرمایا :
وإنِّي أَعْلَمُ أنَّكَ حَجَرٌ، وَأنَّكَ لا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ قَبَّلَكَ ما قَبَّلْتُكَ40
میں خوب جانتا ہوں کہ تو صرف ایک پتھر ہے، نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع۔ اگر میں رسول اللہ ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھتا تو میں بھی کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ الفاظ كیوں كہے؟
علامہ طبری رحمه الله اس كے جواب میں لکھتے ہیں:
إنما قال ذلك عمر لأن الناس كانوا حديثي عهد بعبادة الأصنام فخشي عمر أن يظن الجهال أن استلام الحجر من باب تعظيم بعض الأحجار كما كانت العرب تفعل في الجاهلية فأراد عمر أن يعلم الناس أن استلامه اتباع لفعل رسول الله صلى الله عليه وسلم لا لأن الحجر ينفع ويضر بذاته كما كانت الجاهلية تعتقده في الأوثان۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اعلان اس لیے کیا کہ اکثر لوگ بت پرستی سے نکل کر قریبی زمانہ میں اسلام کے اندر داخل ہوئے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خطرے کو محسوس کرلیا کہ جاہل لوگ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ زمانہ جاہلیت کے دستور کے مطابق پتھروں کی تعظیم ہے۔ اس لیے آپ نے لوگوں کو آگاہ کیا کہ حجرِ اسود کا استلام صرف اللہ کے رسول کی اتباع میں کیا جاتا ہے ورنہ حجرِ اسود اپنی ذات میں نفع یا نقصان پہنچانے کی کوئی طاقت نہیں رکھتا، جیسا کہ عہدِ جاہلیت کے لوگ بتوں کے بارے میں اعتقاد رکھتے تھے۔
خلاصه:
سیدنا عمر رضی الله عنہ كی روایت سے صاف ثابت ہوا کہ قبروں کی چوکھٹ چومنا یا قبروں کی زمین چومنا یا خود قبر کو چومنا یہ سب ناجائز کام ہیں بلکہ بدعاتِ سیئہ ہیں۔ کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حجرِ اسود کو صرف اس لیے چوما کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چوما تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ سے کہیں منقول نہیں کہ انہوں نے قبر کو بوسہ دیا ہو۔ یہ سب کام جاہلوں نے نکالے ہیں اور شرک ہیں کیونکہ جن کی قبروں کو چومتے ہیں انہیں اپنے نفع و نقصان کا مالک گردانتے ہیں اور ان کے نام کی دہائی دیتے ہیں اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں۔ لہذا شرک ہونے میں کیا کلام ہے۔ کوئی خالص محبت سے چومے تو یہ بھی غلط اور بدعت ہوگا۔ اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنھم سے کہیں کسی قبر کو چومنے کا ثبوت نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قبر کو (تبرک کی نیت سے) ہاتھ لگانا، اس کے پاس نماز پڑھنا، دُعا مانگنے کے لیے قبر کے پاس جانا، یہ اعتقاد رکھنا کہ وہاں دُعا کرنا عام جگہوں پر دُعا کرنے سے افضل ہے اور قبر پر نذر و نیاز کا اہتمام کرنا وغیرہ ایسے کام ہیں جن کا دینِ اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ کام تو ان قبیح بدعات میں سے ہیں جو شرک کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھتی ہیں۔41
ایک اور جگہ شیخ موصوف فرماتے ہیں:
قبر کسی کی بھی ہو، اس کو (تبرک کی نیت سے) چھونا، بوسہ دینا اور اس پر اپنے رخسار ملنا منع ہے اور اس بات پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ یہ کام انبیاء کرام کی قبورِ مبارکہ کے ساتھ بھی کیا جائے تو اس کا یہی حکم ہے۔ اسلافِ امت اور ائمہ دین میں سے کسی نے ایسا کام نہیں کیا بلکہ یہ کام شرک ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِھَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَاسُوَاعًا وَّلَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا۔ وَقَدْ اَضَلُّوْا کَثِیْرًا42
قومِ نوح کے مشرکین کہنے لگے: تم کسی بھی صورت وَد، سُوَاع، یَغُوث، یَعُوق اور نَسْر کو نہ چھوڑو،اس طرح انہوں نے بے شمار لوگوں کو گمراہ کر دیا۔
یہ سب قومِ نوح کے نیک لوگوں کے نام تھے۔ ایک عرصہ تک یہ لوگ ان کی قبروں پر سجدے کرتے رہے۔ پھر جب لمبی مدت گزر گئی، تو انہوں نے ان نیک ہستیوں کی مورتیاں گھڑ لیں۔ قبروں کی یہ تعظیم اس وقت خصوصاً شرک بن جاتی ہے جب اس کے ساتھ ساتھ میت کو پکارا جانے لگے اور اس سے مدد طلب کی جانے لگے۔43
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
سلف صالحین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قبریں انبیاء کرام کی ہوں یا عام لوگوں کی، ان کو نہ بوسہ دینا جائز ہے ، نہ ان کو (تبرک کی نیت سے) چھونا۔ قبروں کے پاس نماز کی ادائیگی اور دعا کی قبولیت کی غرض سے جانا یا ان قبروں کے وسیلے سے دُعا کرنا مستحسن نہیں۔ یہ سارے کام شرک اور بت پرستی کا سبب بنتے ہیں۔44
خلاصہ کلام
سجدہ ایک ایسی عبادت ہے جو اللہ کے سوا کسی کے لیے بھی جائز نہیں اس کے پیچھے ایک مقصد یہ بھی ہے انسان اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے اپنی اہانت اپنے ہاتھوں نہ کرے۔ جب انسان اپنی پیشانی کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے سامنے جھکاتا ہے تو وہ عزتِ نفس مجروح کرتا ہے۔ شریعت نے واضح الفاظ میں ممانعت کی ہے۔ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسی عظیم ہستیاں اپنے محبوب پیغمبر سيد البشر صلى الله علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ نہیں کر سکتے تو ان دم فروش گدی نشین آستانہ پرستوں کی کیا حیثیت ہے جو لوگوں سے اپنے سجدے کروا رہے ہیں ۔
یہ ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات!
______________________________________________________________________________________________________________________
- (تفسير القرطبي: 1/293، و تاج العروس للزبيدي: 172/8)
- (سورۃ العلق:19)
- (سورۃ الحج: 18)
- (النحل: 49)
- (سورۃ الرعد: 15)
- (القلم: 43،42)
- (صحیح البخاري، کتاب التفسیر، باب : یوم یکشف عن ساق : 4919 )
- (مسلم: 244)
- (سورۃ النمل: 23، 24)
- (صحيح الجامع: 2905)
- (صحيح مسلم: 489)
- (صحيح مسلم: 488)
- (صحيح ابن ماجه: 1179)
- (صحيح مسلم: 479)
- (صحيح مسلم: 482)
- (السلسلة الصحيحة: 2836)
- (المستدرك على الصحيحين: 905)
- ( بخاری و مسلم)
- (سورۃ الحجر: 97، 98)
- ( أبو داؤد، التطوع، باب وقت قیام النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی اللیل : 1319۔ مسند أحمد : 5/388، ح : 23361)
- (ص: 24۔25)
- (العقود الدرية، ص: 42)
- مجموع رسائل ابن رجب
- (صححه الألباني في صحيح أبي داود: 1488)
- (الباعث على إنكار البدع والحوادث، ص: 61)
- (کتاب من أصول الفقه على منهج أهل الحديث، ص: 82)
- (صحیح مسلم)
- (الاعتصام: 1/ 51)
- (تفسير روح البيان: 6/ 172)
- (رواه أبو داود: 1509، و قال الشيخ الألباني: صحيح)
- (رواه أحمد: 17453، و صححه الألباني في صحيح أبي داود: 1523)
- ( فتاوى نور على الدرب لابن باز، ص471، جزء 10)
- (الفتاوى الكبرى: 2/242)
- (المجموع شرح المهذب: 4/69)
- (جامع المسائل: 1/25)
- (تفسير القرطبي: 1/294)
- (فتاوى و رسائل الشيخ محمد بن إبراهيم آل الشيخ: 1/109)
- (مدارج السالکین، ج: 1، ص: 352)
- (سورۃ النجم: 62)
- (صحیح بخاری: 1597)
- (مجموع الفتاوٰی : 321/24)
- (نوح: 24-23)
- (مجموع الفتاوٰی : 91/27۔92)
- (مجموع الفتاوٰی : 31/27)