پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اُس اللہ رب العالمین کے لئے ہیں جو قیاُمت کے دن سب کو جمع کرنے والا ہےاور اپنے بندوں کے تمام مخفی اعمال کو جانتا ہے۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لاشریک کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی و سردار محمد ﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں۔ جو آپ ﷺ کی سنت کی پیروی کرے گا تو اُس نے اپنی نجات کا سامان پا لیا۔اللہ تعالیٰ آپ ﷺ اور آپ کی آل و اصحاب پر بے بہا صلوۃ و سلام نازل فرمائے۔

حمد و ثنا کے بعد!

اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو کیونکہ اہلِ تقویٰ ہی سعادت مند ہوں گے۔اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ تم اُسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہو۔

اے مسلمانو! بلاشبہ دنیا جدائی کا پیغام ہے اور بے شک آج تیاری اور کل مقابلے کا دن ہے اور عنقریب لوگ اس جھوٹے فانی گھر کو چھوڑ کر مستقل بدلے والے گھر کی طرف منتقل ہوجائیں گے۔ چنانچے تم اچھے اعمال کے ساتھ منتقل ہونا۔کیونکہ جہنم کی طرف دوڑ فرار اور جنت کی طرف دوڑ مقابلہ ہے تو اپنے لوٹنے کے دن کو یعنی حساب کے دن کو یاد رکھو۔آخرت ،روزِ قیاُمت   ِاُس کی خوفناکیوں ،زلزلوں اور اُس نفسا نفسی کے عالم کو ذہن نشین رکھو۔اوردیکھنا دنیا کہیں تمہیں اس دن سے غافل اور روزِ محشر سے بیگانہ نہ کردے اور یہ بھی یاد رکھو کہ قیاُمت  کا زلزلہ اہلِ زمین کو بری طرح جھنجھوڑ کراُن پر لرزہ طاری کردے گا۔زمین کے طول و عرض میں اُس کے کانپنے سے دنیا کا نظام درھم برھم ہوجائےگا۔لوگوں کے حواس چلے جائیں گے،عورتوں کے حمل گر جائیں گے، دودھ پلانے والی عورتیں اپنے بچوں سے غافل ہو جائیں گی۔گھبراہٹ میں لوگ پیٹ پھیر کر بھاگنا شروع کردیں گے مگر اُنہیں امرِ الٰہی سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔قیاُمت کی ہولناک شدت کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کو پکاریں گے۔

اندازہ کرو جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ زمین کو خالی کرنے اور اُس کے خاتمے کا اعلان کردے گا اور اسرافیل علیہ السلام  کو بےہوشی اور گھبراہٹ پیداکرنے اور مارے والے صور کو پھونکنے کا حکم دے گا۔چنانچہ وہ گھبراہٹ اور دہشت پیدا کرنے اور مارنے والا صور اتنا طویل ہوگا کہ اُس کے عظیم خوف سے دل پاش پاش اور نفس ڈر جائیں گے۔ لوگ حسبِ عادت ا پنے روزی روزگار میں ،بازاروں میں مشغول ہوں گے لڑ جھگڑ رہے ہوں گے نہ تو کسی وصیت کی مہلت ملے گی اور نہ ہی گھر کو واپس جا سکیں گے بلکہ ہوا کی شدت اور چیخ کی ہولناکی سے خوفزدہ ہوکر مر جائیں گے اور صور پھونک دیا جائے گا۔ اُس وقت آسمان و زمین والے سب لوگ بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے سوائے اُن کے جنہیں اللہ چاہے گا۔


یہ بھی پڑھیں: یومِ آخرت پر ایمان


دو آدمیوں نے کپڑا پھیلا رکھا ہوگا کہ اچانک قیاُمت  قائم ہوجائےگی۔تو وہ نہ تو اُسے بیچ سکیں گے اور نہ ہی لپیٹ سکیں گے۔ایک آدمی اپنی اونٹنی کا دودھ نکال کر ابھی پی بھی نہ پائے گا کہ قیاُمت برپا ہوجائے گی۔آدمی اپنے حوض کو تیار کر کے ابھی اُس میں پانی بھی نہ بھرپائے گا کہ اچانک قیاُمت قائم ہوجائےگی۔ اور تمہارا کوئی ایک شخص ایک لقمہ اپنے منہ کی طرف لے جائے گا اور ابھی اُسے کھا بھی نہ پائےگا کہ قیاُمت قائم ہوجائےگی۔ اور جس جگہ جو ہوگا اُسی جگہ بے ہوش ہوکر اُسی وقت مر جائے گا اور انسان کی ہر چیز گل جائے گی سوائے ریڑھ کی اُس آخری ہڈی کے جس سے روزِ قیاُمت تمام لوگ پیدا کئے جائیں گے۔

بڑی بڑی نشانیاں وقوع پذیر ہوں گی،پریشان کن ہولناکیاں اور خوفناک معاملات رونما ہوں گے۔آسمان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر ریزہ رزہ ہوجائے گا اور اُس کے کنارے گر جائیں گے، رنگ بدل جائیں گے اُس کا نقشہ بدل جائےگا،ستارے جھڑ جائیں گے اُن کی روشنی ختم ہوجائے گی۔ سورج لپیٹ لیا جائےگا، اس کی روشنی بجھ جائےگی۔پہاڑوں کو  مہین پیس کر اُڑا دیا جائےگا،اُن کی قوت و سلاطت ملیامیٹ ہوجائےگی۔ سمندر گرم ہوکر ابلنا اور کھولنا شروع کردیں گےاور اُن میں آگ لگ جائےگی اور اُن کاپانی خشک ہوجائےگا۔

اللہ رب العزت تمام آسمانوں کو لپیٹ کر اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑ لےگا اورفرمائےگا: میں ہوں بادشاہ۔ کہاں ہیں جبار ؟،کہاں ہیں متکبر؟۔ پھر زمین کو اپنے بائیں ہاتھ میں لپیٹ کر فرمائےگا: میں ہوں بادشاہ ۔کہاں ہیں جبار ؟ کہاں ہیں متکبر؟۔پھر اللہ تعالیٰ تمام زندوں کی روحوں کو قبض کرلے گا یہاں تک کہ سب سے آخر میں ملک الموت کی وفات ہوگی اور بس وہ ہی  اکیلا حی قیوم باقی رہے گا اور وہی حی قیوم ہمیشہ  باقی رہنے والا ہے۔اور پھر تین مرتبہ فرمائےگا: آج کس کی بادشاہی ہے؟ پھر فرمائے گا: فقط اللہ واحد قہار کی۔

صور میں پھونکی جانے والی اُن دو نفخوں کے درمیان اِتنا ہی وقت ہوگا جتنا اللہ رب العزت چاہےگا۔اور پھر جب وہ مدت پوری  ہوجائےگی جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کی ہوگی تو اللہ تعالیٰ شبنم کی مانند آسمان سے بارش برسائےگا۔اُس کے ہوتے ہی قبروں سے اجسام اُسی طرح پیدا ہوجائیں گےجس طرح پانی کے ذریعے مٹی سے دانہ اُگتا ہے۔اور فیصلہ کرنے کے لیے بکھری ہوئی اور گلی سڑی ہڈیوں اور پرآگندہ گوشت اور متفرق چمڑیوں کو جمع کیا جائےگااور جب جسم مکمل تیار ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ صور پھونکنے والے فرشتے کو حکم دےگا ۔جب فرشتہ صور پھونکے گا تو وہ مردے گلی سڑی ہڈیوں اور پرآگندہ گوشت ہونے کے باوجود پھر سے ودبارہ زندہ ہوکر کھڑے ہو جائیں گے۔ اور جب وہ روزِ قیاُمت   ہولناکیوں کا مشاہدہ کریں گےتو اُن کی آنکھیں چندھیاکرجھک جائیں گی اور مخلوقات ہولناکیوں کی شدت سے ذلیل و خوار اور ششدر ہوجائیں گے۔اور انسان اُس دن کہےگا کہ :

يَقُولُ الْإِنسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ

القیامة – 10

اس دن انسان کہے گا کہ آج بھاگنے کی جگہ کہاں ہے؟

اور اُس دن جس کی سب سے پہلے قبر کشائی ہوگی وہ ہمارے پیارے نبی کریم محمد ﷺ ہوں گے۔ اور سب لوگ حشر کے لئے منادی کرنے والے، بلانے والے کی پیروی کریں گے۔ اس زمین و آسمان کو دوسری زمین و آسمان کے ساتھ تبدیل کردیا جائےگا۔اورمخلوقات کو میدے کی روٹی مانند  فیصلے کےلئے زمین پر اکھٹا کیا جائےگا جس پر کسی کا کوئی نشان باقی نہیں ہوگا۔ تمام خلائق اللہ خالق و جبار کےلئے مطیع ہو جائیں گی۔ اور وہ اپنے خالق کے سامنے ذلیل ہوجائیں گے،اُن کی آواز پست اور چہرے جھک جائیں گے۔قدم رکھنے اور بولنے کی آہستہ آوازکے سوا کچھ بھی سنائی نہ دےگا۔اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کی اگلی اور پچھلی تمام اولاد کو میدانوں میں جمع کرے گا۔وہ سب اپنے رب کے سامنے ایک طرف نمایا ہوں گے تو اُن میں سے کوئی بھی اُس پر مخفی نہیں ہوگا۔وہ دن جس میں سب لوگ جمع کئے جائیں گےاور وہ ہ دن ایسا ہے جس میں سب حاضر کئے جائیں گے۔ وہ دن انتہائی ہولناک ،شدید گھبراہٹ اور شدید مصیبت و پریشانی کا دن ہوگا۔لوگ اپنی قبروں سے ننگے بدن اور ننگے پاؤں اور بغیر ختنے کے کھڑے ہوں گے۔اُس دن اُن میں سے ہر شخص کی ایسی حالت ہوگی جو اُسے دوسروں سے بے پرواہ بنادے گی۔اس اِنتہائی نازک ،مشکل ،تنگ و دشوار گھڑی کی وجہ سے جو کہ مجرموں پر گزرے گی اور اُن پر امر ِ الٰہی کا ایسا رعب طاری جائےگاجس سے حواس اور قوتیں گم ہوجائیں گی۔انبیاء، صدیقین  اور صالحین کو لبا س پہنادیا جائےگا۔روزِ قیاُمت  سب سے پہلے ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام کو لبا س پہنایا جائےگا۔

وہ دن ایسا  ثقیل و شدید اور مشکل  دن ہے جس میں نیک و بد،برہان و دلیل والے سب فرشتے بھی حاضر ہوں گے اور اُس دن  سب رسول بھی جمع ہوں گےاور اس میں جنوں ،انسانوں ،فرشتوں ،جنگلی جانوروں ،چوپایوں اور دیگر تمام مخلوقات کو اکٹھا کیا جائےگا۔اس دن کے سنگین حالات اور ہولناکیوں سے بچے بوڑھے ہوجائیں گے۔ یہ ہے روزِ جزا کا، حساب و کتاب کا دن۔سورج بندوں کے اتنا قریب ہوجائےگاکہ جیسے ایک سے دو میل کی دوری پر ہو۔چنانچہ سورج کی تپش لوگوں کو جھلساکر رکھ دے گی اور لوگوں کو حسبِ اعمال پسینہ آئےگا۔بعض کی ایڑیوں تک،بعض کے گٹھنوں اور بعض کی کمر تک پسینہ آئےگا اور لوگ اپنے ہی پسینہ میں ڈوبے ہوئےہوں گے۔

دوسری طرف مخلوق میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو اتنی شدید اور جلادینے والی گرمی  اعمال کے انجام کار کی ہیبت کے باوجود بالکل پرامن رحمٰن کے عرش کے سائے تلے ہوں گے جن میں سے ایک عادل حکمران ،دوسرا اپنے رب کی عبادت میں پل کرجوان ہونے والے نوجوان،تیسرا وہ جس کا دل ہر وقت میں مسجد مٰیں لگا رہے،چوتھے وہ  دوآدمی جو اللہ رب العزت کے لئے ایک دوسرے سے محبت کریں ،اُسی کے لئے جمع ہوں اور اُسی کے لئے جُدا ہوں اور پانچواں وہ آدمی جسے کوئی اعلیٰ نسب والی عورت دعوتِ گناہ دے اور وہ کہ دے کہ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں،چھٹا وہ آدمی جس کے دائیں ہاتھ نے جو صدقہ کیا وہ اُس کے بائیں ہاتھ کو پتہ نہ چلا اور ساتواں وہ آدمی جس نے خلوت میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیااور اُس کی آنکھوں سے آنسوں بہ گئے۔

روزِ قیاُمت  کی شدت میں سے ایک یہ کہ وہ دن   انتہائی طویل ہوگااور لوگوں کو کھڑا رہنا ہوگا،تکلیف ،شدید گرمی اور  شدت کی پیاس ہوگی۔اُس دن اللہ تعالیٰ میدانِ قیاُمت  میں اپنے  نبی کریم ﷺ کے لئے اُن کے حوضِ کوثر کوپیش کرےگا۔

جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: میرا حوض ایک مہینےکی مسافت پر ہوگا ،اُس کے چاروں کونے برابر ہوں گے،اُس کا پانی چاندی سے زیادہ سفید اورکستوری کی خوشبو سے زیادہ مہک دار ہوگا۔اُس پر رکھے گئے آپ خوروں کی تعداد آسمان کے ستاروں کےبرابر ہوگی۔جو اس میں سے ایک بار پئے گا اُسے کبھی پیاس نہیں لگے گی۔وہ حوض جس سے پینے کےلئے قیاُمت  کے روز میری اُمت  حاضر ہوگی۔اُس کے گلاس آسمان کے ستاروں کے برابر ہو ں گےاور اُن میں سے ایک بندے کو وہاں سے بھگادیا جائےگا،جس پر میں کہوں گے کہ یہ شخص تو میری اُمت  میں سے تھا۔ تو کہا جائے گا کہ آپ ﷺ نہیں جانتے کہ اس نے آپ کے بعد کون کون سی بدعت ایجاد کی۔متفق علیہ

ہر نبی پر اُن کا حوض پیش کیا جائےگاجس میں سےاُن کی اُمت  کے نیک لوگوں کو پانی پلایا جائےگا۔

اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے: قیاُمت  کے دن ہرنبی کے لئے ایک حوض ہوگا اور وہ آپس میں ایک دوسرے پر فخر کریں گےکہ کس کے حوض پر پانی پینے والے زیادہ آتے ہیں، اور مجھے امید ہے کہ میرےحوض پر سب سے زیادہ لوگ آئیں گے۔سنن ترمذی

پھر مصیبت ،تکلیف اور انتہائی تنگی ہوجائےگی،لوگوں کوبہت طویل وقت تک کھڑا رہنا پڑے گااور اللہ سبحانہ وتعالیٰ بھی اُن کی طرف نہیں دیکھے گا جس سے لوگوں کا غم اور تکلیف اس قدر بڑھ جائےگی کہ اُن کی طاقت ِ برداشت سے بالاتر ہوگی۔لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ کیا تم نہیں دیکھتے کہ تم کتنی مصیبت میں ہو۔تو تم کسی ایسے شخص کو کیوں تلاش نہیں کرتے جو تمہارے رب کے پاس تمہاری سفارش کرے ۔ تب بعض لوگ بعض سے کہیں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلتے ہیں ،یوں وہ پہلے آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے پھر ابرھیم علیہ السلام کے پاس پھر موسیٰ علیہ السلام کے  پاس جائیں گے تو  وہ کہیں گے کہ ہم اس کے اہل نہیں ہیں۔ پھر وہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے تووہ کہیں گے کہ میں اس کااہل نہیں ہوں البتہ تم محمد ﷺ کے پاس چلے جاؤ،چنانچہ وہ لوگ نبی کریم ﷺ کے پاس جائیں گےتاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے پاس سفارش کریں  کم از کم مخلوق کا حساب کتا ب تو شروع ہوجائے۔تو آپ ﷺ ہی بنی نوع کے مطلق سردار اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نزدیک سفارش کرنے والے  ہیں۔

نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ سب لوگ میرے پا س آئیں گے تو میں کہوں گا کہ  میں ہی اس بات کا مستحق ہوں۔ پھر میں اپنے رب کے سامنے پیش ہونے کی اجازت چاہوں گا جو مجھے مل جائےگی اور میری طرف کچھ تعریفی کلمات الہام کئے جائیں گے ۔میں اُن تعریفی کلمات سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حمد بیان کروں گا اورسجدے میں گر جاؤ گا تو اللہ رب العز ت فرمائےگا : اے محمدﷺ!  اپنا سر اُٹھاؤ ، جو دُعا مانگو گے قبول ہوگی، جو مانگو گے وہ عطا ہوگا،جو سفارش کروگے وہ قبول ہوگی۔تو میں التجا کروں گے اے میرے رب ! میری اُمت  کو بخش دے۔میری اُمت  کو بخش دے۔تو کہا جائےگا : اے محمدﷺ! اپنے اُمت  کے نیک لوگوں کو جنت کے داہنے دروازے میں داخل کردے جن پر کوئی حساب کتاب نہیں ۔ اور آپ ﷺ کی اُمت  جنت کےباقی دروازوں  سے داخل ہونے والوں کے ساتھ بھی شامل ہوگی۔اور یہ ہی سب سے پہلی اور سب سے بڑی شفاعت اور مقام ِ محمود ہے۔پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ جیسے چاہے گا فیصلہ کرنے کے لئےتشریف لائےگا۔ اور تمام فرشتے بھی اللہ جل جلالہ کے حضور صف بستہ حاضر ہوں گے۔

جب مخلوقات کا فیصلہ کرنے کے لئے اللہ رب العز ت جلوہ گر ہوگا تو زمین اپنے رب کے نور سے چمک اُٹھے گی۔پھر اعمال پیش کئے جائیں گے اور وہ کتاب لاکر رکھ دی جائےگی جس میں چھوٹا بڑا ،ادنامعمولی اور عمدہ و حقیر سب کے سب اعمال ہوں گے ۔پھر چھوٹے سے چھوٹا اور معمولی سے معمولی گناہ بھی شمار ہو گا ۔کوئی چیز شمار ہونے سے نہیں بچے گی ۔مخفی و پوشیدہ ہر چیز ظاہر ہوجائےگی اور روزِ حساب کے خوف سے ہر ملت اپنے گھٹنوں کے بل گری ہوئی دکھائی دے گی۔

روزِ قیامت اللہ سبحانہ و تعالیٰ بندے کو قریب کرے گا اور اُس کے تمام گناہوں کا اُس سے اعتراف کروائے گا یہاں تک کہ جب وہ بندہ سمجھے گا کہ وہ ہلاک ہوچکا ہے ،اللہ تعالیٰ اُسے کہے گا،دنیامیں میں نے تیرے  ان گناہوں پر پردہ ڈالااور آج میں اِن پر تجھے معاف کررہاہوں۔ پھر اُس کی نیکیوں والی کتاب اُس کے دائیں ہاتھ میں تھما دی جائےگی جس سے وہ سعادت مند اور انتہائی خوش ہوجائےگا۔اور جو بھی اُسے ملے گا اُسے کہےگا: لو میرا نامہ اعمال پڑھو ،مجھےتو کامل یقین تھا کہ مجھے اپنا حساب ملنا ہے ،پس وہ بلند و بالا جنت میں ایک من پسند مقام ہے۔اللہ اکبر!

اس کامیابی اور نعمتوں کے کیا کہنے ہیں ،من مرضی کی زندگی ،عالی شان جنت اور اُس کے بلند و بالا محلات و باغات ،حسین و جمیل حوریں،پر سکون گھر اور ہمیشہ ہمیشہ کی خوشیاں ہیں۔اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو ان تمام نعمتوں بھری جنت کے حصول میں کامیاب فرمائے۔

اسی پر اکتفا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگتا ہوں بلاشبہ وہی بخشنے والا مہربان ہے۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اُس اللہ رب العزت کی تعریفیں ہے کہ جس نے قیامت کا دن فیصلے کا دن بنایاہے۔میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ وحدہ لاشریک کے سواکوئی سچا معبود نہیں اور میں گواہی دیتاہوں کہ محمد ﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں۔جو کائنات میں حرضِ کامل نبی ہیں۔

اما بعد!

اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اُس کی اطاعت کرو،اور اُس کی نگرانی کو ذہن نشین رکھواور اُس کی نافرمانی سے بچو۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور نیک لوگوں کے ساتھ ہوجاؤ۔

اے مسلمانو! قیامت کے دن ایسے ترازوں رکھے جائیں گے کہ جن میں رائی کے برابر اعمال بھی تولے جائیں گے ۔ تو بندے کے اعمال کا وزن بھاری ہوگا یا ہلکہ اس کا فیصلہ تو تمام مخلوق کا حقیقی بادشاہ ہی کرے گا۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرمائےگا: جو دنیا میں جس کی اتباع کرتا تھا وہ اپس کے پیچھے قطار بنا لے۔ سور ج کے پجاری سور کے پیچے ،چاند کے پجاری چاند کے پیچھےاور طاغوتوں یعنی شیطان کے پجاری شیطان کے پیچھےقطار بنا لیں گے۔پھر وہ کہیں گے اے ہمارے رب ہمیں پیاس لگی ہے  تو ہمیں کچھ پانی پلادے۔تو اُنہیں اشارہ کیا جائے گاکہ تم یہاں سے پی لو ،اور اُنہیں جہنم کی طرف ہانکا جائے گا ۔ گویا کہ وہ سراب ہے کہ جس کا بعض اُس کے بعض کو کھارہا ہو گا۔پھر وہ انتہائی ہولناک اور دہکتی ہوئی جہنم میں گر جائیں گےیہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے نیک و بد کے علاوہ کوئی بھی باقی نہ رہے گا تو اُن کے پا س اللہ رب العالمین آئےگا اور بنڈلی کو منکشف کیا جائےگا۔اور جو بھی اپنی مرضی سے اللہ تعالیٰ کو سجدہ کیا کرتا تھا اُسے اللہ تعالیٰ سجدہ کرنے کی اجازت عطا فرمائےگا اور جو ریاکاری  اور دکھاوے کے لئے سجدہ کیا کرتا تھا تو اللہ تعالیٰ اُس کی کمر کو ایک سخت شاخ کی طرح بنادے  تو جب وہ سجدہ کرنا چاہے گا گُدی کے بل گرجائےگا۔

پھر جہنم پرپل رکھا جائےگا اور پل کی دونوں جانب لوگوں پر انتہائی سخت او ر سیاہ اندھیرا چھا جائےگا، اتنا شدید اندھیرا کہ لوگوں کو اپنا ہاتھ تک دکھائی نہ دیگا۔ جبکہ ایمانداروں کے عزت و بدلے کے طور پر بہت عظیم نور عطا کردیا جائےگا جو اُن کے لئے اُن کے اعمال کے  بقدر راستے کو روشن کردے گا۔اور منافق مرد و عورتیں ایمانداروں سے التماس کریں گے کہ ہمارا بھی انتطار کرو تاکہ ہم بھی تمہارے نورسے کچھ نور دیکھنے لائق حاصل کرلیں، تو انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر حسر ت و ندامت کے لئے کہا جائےگا :

ارْجِعُوا وَرَاءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا

الحدید – 13

تم اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور روشنی تلاش کرو۔

 تم پیچھے جاؤ اور اپنا نور تلاش کروچناچہ وہ پیچھے جائیں  مگر انہیں کچھ نہ ملے گااور وہاں اُن ہیں پتہ چلے گا اُنہیں بھی اُسی طرح دھوکہ دیا گیا ہے جس طرح وہ دنیا میں اللہ اور اُس کے رسول ﷺ اور مؤمنوں کو دھوکہ دیا کرتے تھے۔تب اُنہیں پورا یقین ہوجائےگا کہ اُن کے دھوکے کا وبال ذلت و رسوائی اور روزِ حساب کے خسارے کی صورت میں اُن کی طرف لوٹ چکا ہے ۔

پھر دونوں فریقوں کےدرمیان ایک رکاوٹ کھڑی کردی جائےگی جس میں ایک دروازہ ہوگا جس کی اندرونی جانب رحمت یعنی مؤمنوں کی طرف جنت ہوگی اور بیرونی جانب یعنی کافروں اور منافقوں کی طرف جہنم ہوگی،اِسی کی طرف انہیں ہانکا جائےگا اور اِسی میں وہ گریں گے۔اور صراطِ مستقیم سے صرف مؤمن ہی گزر سکے گا کیونکہ یہ راستہ اتنا دشوار اور  پُر خار ہوگا کہ جس پر کانٹوں جیسے  کونڈے ہوں گے اور وہ اتنے بڑے بڑے ہوں گے کہ جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ لوگ پھسلنے اور ٹھوکر کھانے سے گر رہے ہوں گے ۔اور جہنم پر مامور فرشتے بھی اُنہیں آنکڑوں سے گھسیٹ گھسیٹ کر جہنم میں گرارہے ہوں گے پھر کچھ گرنے والے جہنم کی آگ سے زخمی ہوکر نجات پاجائیں گے۔ وہ منظر کتنا بہانک اور خوفناک ہوگا،وہ چڑھائی کتنی مشکل ہوگی اور راستے کتنے تنگ ہوں گے۔

رسولوں میں جو سب سے پہلے اُسے پا ر کریں گے وہ ہمارے پیارے رسول ﷺ ہوں گے  اور آپ ﷺ کی اُمت ۔اور اُس دن نبیوں کے سوا کوئی بھی بولنے کی جسارت نہیں کرے گا۔اور اُس دن نبیوں کی پکار ہوگی: اے اللہ ! بچانا ۔ اے اللہ ! بچانا۔

جب مؤمن  پل صراط سے گزر کر، جہنم کی آگ سے بچ کر جنت کے دروازے پر پہنچ جائیں گے  تب جنت اور دوزخ کے درمیان قنطرہ کے مقام پر اُنہیں روک لیاجائےگااور پھر اُن کے درمیان دنیاوی مظالم کا قصاص ہوگایہاں تک کہ اُن کی پوری طرح کانٹ چھانٹ اور صفائی ہوجائےگی تب اُنہیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت دی جائےگی۔اور سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹ کھٹانے والی ہستی ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ ہوں گے۔ جنتیوں کے لئے انتہائی ادب و احترام سے جنت کے دروازے کھولے جائیں گے اور وہاں جنت کے خاص اور معزز فرشتے  خوشخبری، تعریف و صلواۃ کے ساتھ اُن کا استقبال کریں گے اور کہیں گے: تم پرسلامتی ہو، تم ان جنتوں میں ہمیشہ کے لئے انتہائی خوشی سے داخل ہوجاؤ۔ تو وہ کلام کتنا ہی شاندار، وہ سلام کتنا ہی باوقار ہوگا اور وہ مقام کتنا ہے عمدہ واعلیٰ ٹھکانہ ہوگا۔

تم ہادی و تمام کائینات کے شافع احمد ﷺ پر درود و سلام بھیجو۔کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے میں پر ایک مرتبہ درود بھیجا تواُس کے عوض اللہ تعالیٰ اُس پر دس مرتبہ درود و سلام  اور رحمتیں نازل فرمائےگا۔

اے اللہ ! تو محمد ﷺ پر اور اُن کی آل پر اسی طرح برکتیں نازل فرما جس طرح تو نے ابرھیم علیہ السلام پر اور اُن کی آل پر برکتیں نازل فرمائیں۔

 اے اللہ تو راضی ہوجاان کے چاروں خلفاء راشیدین جو ہدایت کے پیشوا و امام تھے۔  ابو بکر ،عمر ،عثمان ،علی   سےاورتمام صحابہ اور تابعین سے اور ان سے جو دُرست طریقے سے قیاُمت  تک اُن کی پیروی کریں ۔یاکریم  یا وہاب۔

اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو عزت و عظمت عطا فرما۔

اے اللہ ! تو اسلام کو غالب کردے اور مسلمانوں کی مدد فرما۔اور شرک و مشرکین کو ذلیل و رسوا کردے اور دین ِ اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔

اے اللہ ! تو اس ملک کو امن و اطمنان ، ہمدردی و سخاوت  ، اتحاد و بھائی چارے سے بھر دے اور اسی طرح باقی تمام مسلم ممالک کو بھی ۔

اے اللہ ! ہم تجھ سے سوائے خیر کے اورکسی چیز کا سوال نہیں کرے تو ہمیں خیر عطا فرما۔اور جس چیز کا تجھ سے سوال نہیں کرتے اس کی ابتلاء سے محفوظ فرما۔

اے اللہ ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجاے۔اےاللہ ! تو اُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اور اپنی خوشنودی کے کاموں  کی توفیق عطا فرما اور اُ ن پر استقاُمت  دے۔

اے اللہ ! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔ اے اللہ ! ہماری دُعاؤں کو سن لے  اور اُنہیں قبول و منظور فرما۔ یا عزیز ، یا کریم ،یارحیم

خطبة الجمعة مسجدِ نبوی ﷺ : فضیلة الشیخ  صلاح البدیر حفظه اللہ
تاریخ تاریخ 13جمادي الاول 1443هـ  بمطابق 17 دسمبر 2021

فضیلۃ الشیخ جسٹس صلاح بن محمد البدیر حفظہ اللہ

مسجد نبوی کے ائمہ و خطباء میں سے ایک نام فضیلۃ الشیخ صلاح بن محمد البدیر کا ہے جو متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں اور امام مسجد نبوی ہونے کے ساتھ ساتھ آپ جج بھی ہیں۔

Share
Published by
فضیلۃ الشیخ جسٹس صلاح بن محمد البدیر حفظہ اللہ

Recent Posts

نزول قرآن کے حوالے سے اہم معلومات

لیلۃ القدر میں قرآن مجید مکمل نازل ہونے کے ساتھ دوسرا اہم کام کیا ہوا؟…

3 days ago

فراغت کے لمحات کیسے گزاریں؟

عبادت کے حوالے سے قرآن مجید کی کیا نصیحت ہے؟ کیا چھٹیوں کے دن آرام…

3 days ago

عید الفطر کے مسنون اعمال

عید کی خوشی کیسے منائیں؟ عید کا چاند دیکھ کر نبی کریم ﷺ کیا کرتے…

1 week ago

فیشن اختیار کیجیے مگر۔۔۔۔!

کیا فیشن اختیار کرنے میں ہم آزاد ہیں؟ زینت، خوبصورتی یا فیشن اختیار کرنا شرعا…

1 week ago

فلسطین: ایک مرتبہ پھر لہو لہو!

غزہ کی حالیہ صورتحال کس قرآنی آیت کی عکاسی کرتی ہے؟ رمضان المبارک میں اہلِ…

2 weeks ago

ایسی مسجد میں اعتکاف نہ کریں!

رمضان المبارک میں نبی کریم ﷺ کی عبادت کیسی ہوتی تھی؟ نبی کریم ﷺ کا…

2 weeks ago