پہلا خطبہ :

  ہر قسم کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے ۔ وہ بہت مہر بان نہایت رحم کرنے والا ہے۔اُس نے اپنے بندوں میں سے صاحبانِ تقویٰ و ولایت کو معیت و ولایت ،تکریم و احسان کے لئے خاص کیا۔ میں اُس پاک ذات کی حمد بیان کرتا ہوں وہ بہت کرم کرنے والا ،بہت رحم کرنے والا ہے۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کےسوا کئی معبودِ برحق نہیں وہ ایک ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ۔ ہر زمانے میں وہی عادت کا مستحق ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردا ر و نبی محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں۔وہ جنت کی راہ کے داعی اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے بُلند جنتوں کی طرف رہنمائی کرنے والے ہیں۔

اے اللہ ! درود و وسلام نازل فرما اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ پر،صاحبانِ تسلیم و رضا آل ِ محمد ﷺاور اصحابِ کرام  پر ،اور دُرست طریقے سے اُن کی پیروی کرنے والوں پرکہ جب تک صبح شام کا سلسلہ رہے اور بہت زیادہ سلامتی ہو۔

اما بعد !

اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو ،اور یاد رکھو کہ تم صرف اُس کی عبادت کے لیے پیدا کئے گئے ہو۔اسی لئے اُس کے لئے اپنی عبادت کو خالص کرو، عمل کو دُرست کرو۔ خوش بخت وہی ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کےدین کےلئے اپنی عبادت کو خالص کیا اور اللہ کے نبی اکرم محمد ﷺ کی پیروی کی یہاں تک  کہ اُس کی موت ہوگئی۔

مسلمانو! نیکوں کاروں کی اقداء،صالحین کی اتباع،پرہیز گار لوگوں کے نقشِ قدم کی پیروی،اُن کے راستوں پر چلنے اور اُن کی راہ اپنانے میں بڑی کامرانی،عظیم فائدہ ،بے نظیر سعادت اور بے حد اور بے انتہاکامیابی ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں چنیدہ لوگوں کی راہوں،اللہ تعالیٰ کےبندوں کے طریقوں اور نیکوں کاروں کے راستوں کی جو توجہ مبذول کرائی ہے،وہ اِس مقصد کو پورا کرتا اور اِس مُراد تک پہنچاتا ہے کہ وہی وہ مثال ہے کہ جس کی اقتداء کی جانی چاہیئے اور یہی وہ طریقہ ہے کہ جس کی پیروی ہونی چاہیئے۔ اِسی میں سے اللہ عزوجل کا یہ قول ہے:

وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا

الفرقان – 63

رحمٰن کے (سچے) بندے وه ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وه کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے۔

یعنی وہ لوگ زمین پر اُن مؤمنین کی طرح چلتے ہیں جن پر سکینت چھائی ہوئی ہوتی ہےاور وہ وقار سے آراستہ ہوتے ہیں۔ وہ نہ تو تکبر کرتے ہیں اور نہ زور قوت کا مظاہر کرتے ہیں۔ وہ نہ تو زمین میں برتری چاہتے ہیں اور نہ تو فساد ۔ اور جب نادان لوگ اُن پر بُرائی کے ساتھ زبان دراز کرتے ہیں تو وہ اُسی بُرائی سے مقابلہ نہیں کرتے بلکہ معافی، بخشش ،لغزشوں سے چشم پوشی اور خطاؤں پر درگزر سے کام لیتے ہیں۔وہ ایسے ہوتے ہیں کہ جیسا جنابِ حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا:  بُرد بار لوگ کہ نادانی نہیں کرتے اور اگر اُن کے ساتھ نادانی کی جائے تو وہ خود نادانی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ یہ اُن کے دل کا حال ہے۔

اللہ کے بندو! سوچو کہ اُن کی راتوں کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ اُن کی رات سب سے اچھی رات ہوتی ہے کئی قسم کی طاعت و فرمابرداری سے روشن سفید رات ہوتی ہے جن کے ذریعے وہ اپنے آقا کے قریب ہوتے ہیں۔ اور جو اپنے رب کے سامنے راتیں سجدے اور قیام کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں،پیروں کو سیدھا رکھتے ہیں،اشک بار ہوتے ہیں ،آہیں جاری رہتی ہیں،آخرت سے ڈر رہے ہوتے ہیں۔اور اُنہیں اپنے رب کی رحمت کی اُمید ہوتی ہے۔اور وہ آہو گریہ زاری کررہے ہوتے ہیں، کہ اے ہمارے پروردگار! ہم سے دوزخ کا عذاب دور ہی رکھ ۔ کیوں کہ اُس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے۔یعنی اس لئے کہ وہ دائمی ہلاکت و مستقل نقصان ہے۔

بے شک وہ ٹھہرنے اور رہنے کے لحاظ سے بد ترین جگہ ہے۔ اِس میں اُن کی وہ  تعریف و توصیف ہے جو مخفی نہیں ۔ وہ یہ کہ مخلوقات کے ساتھ بہترین معاملہ اور اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت میں خوب خوب محنت کرنے کے باوجود وہ اِس سے ڈرتے ہیں کہ کہیں اُن پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نہ نازل ہوجائے اور وہ اپنے تمام اعمال اور بڑی پونجی کی طرف التفات اور اُن کی پرواہ کئے بغیر اللہ تعالی سے دُعا کرتے ہیں کہ وہ عذا ب کو اُن کے آگے سے پھیر دے۔ جہاں تک خود پر اور اہلِ و عیال پر خرچ کرنے کی بات ہے تواُس میں سب سے معتدل اور سب سے سیدھے راستے پر چلتے ہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :

وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا

الفرقان – 67

اور جو خرچ کرتے وقت بھی نہ تو اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی، بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں۔

یہ راہ میانہ روی اور اعتدال کی راہ ہوتی ہے۔اُس میں نہ تو فضول خرچی ہوتی ہے اور نہ ہی بخل۔ یوں وہ نہ تواُن کی طرح فضول خرچی کرتے ہیں جو فقر وباہات کے رسیا ہوتے ہیں اور اُسی طرح وہ نہ تو اُن کی طرح بخیل ہوتے ہیں جو ضروری خرچ سے بھی خود کو رُوکے رکھتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو باندھے رکھتے ہیں۔ بھلائی میں بھی بخل سے کام لیتے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ نے اپنے جس فضل سے اُنہیں نوازاہےوہ اُس میں بخل کرتے ہیں۔اس لئے کہ اسراف سےمال غیر موضوع جگہ پر ختم ہوتا ہے اور یوں خرچ کا سلسلہ رُک جاتاہے۔اور اُس کی تازگی مرجھا جاتی ہے اور بخل سے مال کو روک لیا جاتا ہے۔اور مستحق بھی محروم رہ جاتاہے۔

رحمٰن  کے بندوں کے اوصاف میں سے بُرائیوں کو چھوڑ نااورشر سے دوری اختیار کرنا بھی ہے ۔اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرام کردہ جان کا قتل اور زنا سے بچتے ہیں۔ یہ اوصاف اللہ تعالیٰ کے اِس قول میں وارد ہوئے ہیں :

وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ

الفرقان – 68

اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کردیا ہو وه بجز حق کے قتل نہیں کرتے، نہ وه زنا کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرے وه اپنے اوپر سخت وبال لائے گا۔

یہ اللہ تعالیٰ کے لئے دین کو خالص کرنا ہے اور سب کو چھوڑ کر صرف اللہ تعالیٰ کے لئے تما م طرح کی دوسری عبادتوں کو پھیرنا ہے، یوں وہ مصیبتوں میں سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو نہیں پکارتے۔سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی سے مدد نہیں مانگتے،کسی سے فریاد رسی کی اُمید نہیں رکھتے اور کسی سے مدد طلب نہیں کرتے۔اوراپنے ہر معاملے میں سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی پر بھروسہ نہیں کرتے اورسوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور سے نہیں ڈرتے اور یہی توحیدِ خالص اور ایمانِ کامل ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے بہت سی قوموں کو سربُلند کیا اوراُنہیں خیر کا رہنما بنادیا ۔اوراِسی کے ذریعے بہت سی قوموں کو پست کیا، جنہوں نے اِسے چھوڑا اوراِسے اپنے پیٹ پیچھے رکھ دیا تو یوں اُن پر اللہ تعالیٰ کی وعید ثابت ہوگئی۔ یقین مانوکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرتا ہے،اللہ تعالیٰ نے اُس پر جنت حرم کردی ہے،اُس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے اور گنہگاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں۔

وہ جس طرح شرک سے بچے اِسی طرح وہ زمین میں فساد پھیلانے سے بچے جو حرام خون بہانے ،معصوم جانوں کو قتل کرنے اور زنا کے جرم کی شکل میں عزتوں کو لوٹ کرمعاشرے پر سرکشی کرنے میں ظاہر ہوتا ہے۔اس لئے کہ جو کوئی شرک کی گندگیوں میں ملوث ہوایا اللہ تعالیٰ کےحرام کردہ نفس کوقتل کیایا زنا جیسے قبیح عمل کاارتکاب کیاتو وہ اپنے گناہ اور جس بُرائی میں وہ مبتلا ہوا ہے اُس کا بدلہ قیامت کے دن ایسے تباہ کن عذاب کی شکل میں پائے گاجو جہنم کی آگ میں بڑھتاہی جائےگا۔الا یہ کہ پہلے ہی دُنیا میں اُسے سچی توبہ کی توفیق مل جائے اور وہ گناہوں سے رُک جائے،اپنی کوتاہی پر نادم ہو،گناہ نہ کرنے کا عزم کرلے،جو چیزیں ناحق لے لی ہیں اُنہیں واپس کردے اور حق والوں کو اُن کا حق لوٹائےاور نیک اعمال سے اپنے نفس کوپاک کرے ۔تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی توبہ قبول کرلیتا ہے ،اُسے بخش دیتا ہے ، اُس کے گناہوں سے درگزر کرتاہے ۔بلکہ اپنی رحمت ،سخاوت اوراپنے احسان و ثواب سے اُسے نوازتا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا

الفرقان – 70

سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے، اللہ بخشنے والامہربانی کرنے والاہے۔

ایک سچی توبہ سے ماضی  کی بُرائیاں اچھائیوں میں بدل جاتی ہیں اور یہ ایسے ہوتا ہےجیسے کہ امام ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: کہ وہ بندہ جب جب گزرے ہوئے گناہ کو یاد کرتا ہےتو پشیمان ہوتاہے ،انا للہ پڑھتا ہے اور مغفرت طلب کرتاہے۔اس اعتبار سے گناہ ٹاٹ میں بدل جاتے ہیں۔ جیسا کہ یہ سنت سے ثابت ہےاور سلف سے صحیح آثار میں وارد ہواہے۔

اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو۔ چنیدہ لوگوں کی اقتداء،نیکوں کاروں کی اتباع،اُن کے راستوں کو اپنانے ،اُن کے نقوش کی پیروی اور اُن کے اخلاق سے آراستہ ہونے کی کوشش کرو کہ وہ لوگ ہدایت اور سیدھے راستے پر تھے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے :

الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ

الزمر – 18

جو بات کو کان لگا کر سنتے ہیں۔ پھر جو بہترین بات ہو اس کی اتباع کرتے ہیں۔ یہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی ہے اور یہی عقلمند بھی ہیں۔

اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اپنی کتاب کی ہدایت اور نبی کریم ﷺ کی سنت سے فائدہ پہنچائے۔ میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اللہ عظیم و جلیل سے اپنے لئے ،آپ کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے ہر گناہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں ۔ بلاشبہ وہ بخشنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ :

بلاشبہ ہر قسم کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔ ہم اُس کی حمد بیان کرتےہیں،اُس سے مدد مانگتے ہیں اور اُس سے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ ہم اپنے نفسوں کی بُرائیوں اور اعمال کی خرابیوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے تو اُسے گمراہ کرنے والا کوئی نہیں اور جسے وہ گمراہ کردے تو اُسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں،وہ ایک ہے اُس کاکوئی شریک نہیں۔ اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں۔

اے اللہ ! درود و سلام نازل فرما، اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ اور اُن کی آل و اصحاب ۔

اما بعد !

اے اللہ کے بندو! اہلِ علم نے اِس صفات کو چار قسموں میں بانٹا ہے۔جن سے اللہ تعالیٰ نے اِس عظیم سورت “الفرقان” کے آخر میں رحمٰن کے بندوں کو متصف کیا ہے۔پہلی قسم کا تعلق دینی کمالا ت سے متصف ہونا ہے۔اور اِسی سے اِن اوصاف کی شروعات ہوئی ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا

الفرقان – 63

رحمٰن کے (سچے) بندے وه ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں۔

دوسری قسم کا تعلق اہلِ شرک کی گمراہیوں کو چھوڑنے سے ہےاور یہ اللہ تعالیٰ کے اِس قول سے معلوم ہوتاہے:

وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ

الفرقان – 68

اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے۔

پھر تیسری قسم کا تعلق احکامِ اسلام پر استقامت سے ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا

الفرقان – 64

اور جو اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام کرتے ہوئے راتیں گزار دیتے ہیں۔

اور فرمایا:

وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا

الفرقان – 67

اور جو خرچ کرتے وقت بھی نہ تو اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی ۔

مزید فرمایا:

وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ

الفرقان – 68

اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کردیا ہو وه بجز حق کے قتل نہیں کرتے، نہ وه زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔

اور فرمایا:

وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ

الفرقان – 72

اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔

چوتھی قسم کا تعلق اِس دنیا میں دُرستگی حال  کی مزید طلب سے ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا

الفرقان – 74

اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اوﻻد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا۔

اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو،اِن کریمانہ صفات اورعظیم خصائل پر خوب غور کرو ۔ہمیشہ اِن سے آراستہ ہونےاوراِن کے منافی اوصاف سے بچنے کی کوشش کرو کہ اِسی میں کامرانی ،کامیابی اور نجات ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

أُولَٰئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَامًا ‎﴿٧٥﴾‏ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا

الفرقان – 75/76

یہی وه لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے بدلے جنت کے بلند و بالاخانے دیئے جائیں گے جہاں انہیں دعا سلام پہنچایا جائے گا۔ اس میں یہ ہمیشہ رہیں گے، وه بہت ہی اچھی جگہ اور عمده مقام ہے۔

ہمیشہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے خاتم الرسل محمد بن عبداللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کا حکم اپنی معزز کتاب میں دیا ہے:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔

ہماری طرف سے نبی کریم ﷺ اور اُن کے اہلِ خانہ پر درودو سلام ہو ۔لاتعدا د و بے شمار کہ اگر گنا جائے تو ختم نہ ہوں۔جس کے سبب ہمارے مالک و خالق کے نزدیک ہمارے درجات بلند ہوتے ہیں  جہ کہ نجات ہے اور پیشانی پر تمغہ ہے ۔

یا اللہ! محمد اور آل محمد پر درود نازل فرما جیسے تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر درود نازل کیا ، بیشک تو تعریف کے لائق اور بزرگی والا ہے۔ یا اللہ! محمد اور آل محمد پر برکت نازل فرما جیسے تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر برکت نازل کی، بیشک تو تعریف کے لائق اور بزرگی والا ہے۔

یا اللہ! محمد اور آل محمد پر درود نازل فرما جیسے تو نے آل ابراہیم پر درود نازل کیا ، اور محمد اور آل محمد پر برکت نازل فرما جیسے تو نے آل ابراہیم پر جہانوں میں برکت نازل کی، بیشک تو تعریف کے لائق اور بزرگی والا ہے۔

 اے اللہ! تو راضی ہوجاان کے چاروں خلفاء راشیدین، ہدایت یافتہ سربراہان  ابو بکر ،عمر ،عثمان ،علی   سےاورتمام صحابہ اور تابعین سے اور ان سے جو دُرست طریقے سے قیامت تک اُن کی پیروی کریں ۔یاکریم  یا وہاب۔

اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو عزت و عظمت عطا فرما۔

اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو عزت و عظمت عطا فرما۔

اے اللہ ! تو اسلام کو غالب کردے اور مسلمانوں کی مدد فرما۔اور شرک و مشرکین کو ذلیل و رسوا کردے اور دین ِ اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔

اے اللہ ! تو اس ملک کو امن و اطمنان ، ہمدردی و سخاوت  ، اتحاد و بھائی چارے سے بھر دے اور اسی طرح باقی تمام مسلم ممالک کو بھی ۔

اے اللہ ! ہم تجھ سے سوائے خیر کے اورکسی چیز کا سوال نہیں کرے تو ہمیں خیر عطا فرما۔اور جس چیز کا تجھ سے سوال نہیں کرتے اس کی ابتلاء سے محفوظ فرما۔

اے اللہ ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجاے۔اےاللہ ! تو اُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اور اپنی خوشنودی کے کاموں  کی توفیق عطا فرما اور اُ ن پر استقامت دے۔

اے اللہ ! ہمیں تقویٰ دے اور ہمارے نفسوں کو تزکیہ عطا فرما، تو ہی ہمارے نفسوں کا مالک ہے۔

اے اللہ ! ہمارے دین کی اصلاح فرما جس میں ہماری آخرت ہے۔

اے اللہ ! تو ہماری آخرت سنوار دے۔

اے اللہ ! ہماری دنیا سنوار دے۔

اے اللہ ! ہمارے لئے ہماری زندگی کو بھلائی کا ذریعہ بنا اور ہماری موت کو ہر خرابی سے نجات کا ذریعہ بنا۔

اے اللہ ! ہم تیری نعمت کے ختم ہونے سے تیری پناہ چاہتےہیں۔

اے اللہ تیری ہر طرح کی ناراضگی سے پناہ چاہتے ہیں۔

اے اللہ ! تو ہمارے لئے کافی ہوجا۔

اے اللہ ! تو دشمنوں کے مقابلے میں ہمارے لئے کافی ہوجا۔

اے اللہ ! تو ہمیں اپنے فضل  مزید عطافرما ،ہمیں محروم نہ کر۔

اے اللہ ! ہم برص سے ،جذام سے اور بُری بیماریوں اور وباؤں سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

اے اللہ ! تو فلسطین کی اور اہلِ فلسطین کی کی مدد فرما ان کی نصرت فرما ان کی حفاظت فرما۔

اے اللہ ! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔ اے اللہ ! درود و سلام نازل فرما محمد ﷺ اور آل ِ محمد ﷺ پر جس طرح کہ تونے درود وسلام نازل کیا ابراھیم علیہم السلام اور آل ابراھیم علیم السلام پر، بلاشبہ تو قابلِ ستائش ہے۔

خطبة الجمعة مسجد الحرام: فضیلة الشیخ اُسامه خیاط حفظه اللہ 
25 جمادى الأخرى 1443هـ بمطابق 28 جنوری 2022

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر اُسامہ خیاط حفظہ اللہ

مسجد الحرام کے عظیم المرتبت خطباء میں ایک نام ڈاکٹر اسامہ خیاط کا ہے، آپ 12 فروری 1956ء کو پیدا ہوئے ۔ ام القریٰ یونیورسٹی مکہ المکرمہ سے پی ایچ ڈی کیا اور پھر یہیں تدریس بلکہ کتاب و سنت ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ بھی رہے ۔ آپ ایک بلند پایہ مصنف بھی ہیں اور رابطہ عالم اسلامی کے بنیادی رکن بھی ہیں۔

Recent Posts

منہجِ سلف سے کیا مراد ہے؟

منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…

7 hours ago

یا محمد ﷺ کہنا یا لکھنا کیسا ہے؟

کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…

1 day ago

ستاروں کی تخلیق کے تین مقاصد!؟

اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…

4 days ago

داتا اور مشکل کشا کون؟

اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…

4 days ago

مشکلات اور پریشانیوں کےحل کےلیے نسخہ؟

قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…

1 week ago

جنتی فرقہ کونسا ہے؟

فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…

1 week ago