رمضان سخاوت غلبہ اور احسان کا مہینہ
پہلا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ ہم اس پاک ذات کی تعریف کرتے ہیں اور اس سے مدد اور مغفرت چاہتے ہیں۔ اس نے خصوصی طور پر ہمیں اطاعتوں کے موسم سے نوازا جو کہ بڑا خوشگوار راستہ ہے۔ جو اس کی طرف سبقت لے گیا وہ بدلہ دینے والے اللہ کی خوشنودیوں کی بلندی کو پہنچ گیا۔
اے اللہ! تیرے لیے ان نعمتوں پر لازوال حمد ہے جنہیں نہ شمار کیا جا سکتا ہے اور نہ وہ ختم ہونے والی ہیں اور ہم تجھ سے شکر ادا کرنے کی توفیق مانگتے ہیں۔ بے شک شکر معبود کی نعمتوں کو باقی رکھتا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، (ایسی گواہی جس کے بدلے ہم جنتوں میں اپنا ٹھکانہ بناتے ہیں) اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور اسوہ محمد (ﷺ) اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ آپ روزہ رکھنے اور قیام کرنے والوں میں سب سے بہتر ہیں، آپ فضیلت میں بے مثال ہیں۔ اے اللہ! ہمارے رب! تو درود نازل کر ان پر جو محمد و احمد ہے، ان کے پاک باز اہل خانہ پر جو تقوی کے مہینے میں عظمت و سربراہی کو پہنچے ہوئے ہیں، ان کے معزز صحابہ پر جنہوں نے رمضان رکوع و سجدہ کی حالت میں گزارا، تابعین پر اور ان لوگوں پر جنہوں نے سب سے خوشگوار انجام کی امید کرتے ہوئے ان کی اچھی طرح پیروی کی۔ اے اللہ! بہت زیادہ سلامتی نازل کر جب تک احسان کرنے والے صبح و شام احسان کرتے رہیں۔
اما بعد!
اللہ کے بندوں! اپنے رب کا تقوی اختیار کرو۔ تقوی روزے کا جوہر اور اس کا نچوڑ ہے، اس کا لبِّ لباب اور مقصد ہے۔ اللہ نے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ1
اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
اے انسانوں! تقوی کی طرف سبقت کرو اور بھلائی کی طرف جلدی چلو جب تک تمہیں مہلت حاصل ہے۔ تقوی کتنا خوبصورت ہے، اس کا راستہ کتنا سیدھا ہے، اس کے ذریعہ انسان اپنے عمل کو بلند کرتا ہے۔
اے مومنوں! آج جہاں ہماری امتِ مسلمہ اپنے مہینے کی لازوال خوشبو، اس کے بابرکت دنوں سے شاد کام ہو رہی ہے، شاندار پوشاکوں سے آراستہ، اس کے وسیع خیر کے سائے میں جی رہی ہے، اس کی خوشبو سے لطف اندوز ہو رہی ہے، اس کے چشمہ سے سیراب ہو رہی ہے، اس کے نور سے روشنی حاصل کر رہی ہے، اس کے پیارے چہرے کو غور سے پڑھ رہی ہے وہیں وہ جلد ہی خیر، سخاوت اور احسان کے مہینے کے نصف تک پہنچ جائے گی۔ یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اطاعتوں کی نہریں جاری ہو چکی ہیں ، بھلائی ونیکی کی کلیوں سے پھول کھل چکے ہیں، مسلمانوں نے بڑے شوق سے اس کے مقاصد و اسرار پر کام دھرا اور عاجزی کے ساتھ اس کے چھپے مقاصد اور خبروں کو کان لگا کر سنا۔ اس کے دن تقرب کے کاموں اور خوشیوں کے ساتھ رواں دواں ہیں، اس کی راتیں تلاوت کی جانے والی آیات اور روشنی سے منور ہیں۔ ایسا موسم جسے رحمان نے بابرکت بنایا اور قرآن نے لازوال کر دیا۔ ماہِ رمضان میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں۔
اے مسلمانوں! اللہ تعالی نے روزے کو مشروع کیا تاکہ مسلمان اپنی عبادت کی اور اچھی عادتوں کی تجدید کرے اور بھلائی میں اپنی معروف سرگرمی کو دوبارہ شروع کرے۔ یوں وہ ایمان کے مراتب طے کرے اور نیکی اور احسان کرنے والوں کی صفات سے سرفراز ہو۔
شارع حکیم نے روزے اور اس کی ظاہری شکلوں پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے روح کی بلندی، نفس کے عروج، اس کی حفاظت، اعضاء و جوارح کو پاک کرنے اور انہیں مادی کھائی سے اٹھا کر ایمانی بلندی اور رفعت پر پہچانے كو توجہ دی۔ اسی لیے اللہ نے دوسری عبادتوں کی بہ نسبت اس عبادت کو اپنے لیے خاص کیا جیسا کہ صحیحین میں ہے:
عن أَبی هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ، إِلَّا الصِّيَامَ، هُوَ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ2
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا: ابن آدم کے تمام اعمال اس کے لئے ہیں سوائے روزے کے۔ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔
ایسا مہینہ جسے عرش کے الہ نے اعزاز بخشا۔ اللہ اس شخص پر رحم کرے جس پر راستے تنگ ہو گئے ہیں۔ وہ ہم پر مہربان ہے۔ کیا ایسا پُر امید شخص ناکام ہے جو رحم کرنے والے معبود سے شرمسار دل کے ساتھ دعا کرتا ہے۔
اے مومنوں! یہ مبارک ایام اچھا موقع ہے کہ نفس کا جائزہ لیں، عمل کی اصلاح کریں، اختلافات و تفرقے کو چھوڑ دیں ، عقل اور مکالمے کی زبان کو فیصل بنائیں ، نیکی و تقوی پر تعاون کریں کیونکہ اس معزز مہینے میں بھلائیوں اور نیک کاموں میں باہم سبقت کرنے کے عظیم اسباب موجود ہیں۔
اللہ نے فرمایا:
فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ3
تم بھلائیوں میں باہم سبقت کرو
امام ابن القیم رحمہ اللہ نے کہا:
اس مہینے میں آپ ﷺ کا طریقہ کامل ترین طریقہ تھا، حصولِ مقصد کا سب سے عظیم ذریعہ تھا، وہ نفس پر سب سے آسان تھا۔
ماہِ رمضان میں آپ ﷺ کے طریقے میں سے تھا کہ آپ مختلف انواع کی عبادت بکثرت کیا کرتے، جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ آپ قران کا مذاکرہ کرتے، آپ اس میں بکثرت صدقہ و احسان، تلاوتِ قرآن، نماز، ذکر اور اعتکاف کیا کرتے اور اس میں ایسی عبادتیں کرتے جو دوسرے مہینوں میں نہیں کرتے تھے۔
اللہ کے بندوں! آپ اپنے پختہ ارادے کو مہمیز دیں، اپنے عزم کو مضبوط کریں، اپنی طرف سے اللہ کو بھلائی دکھائیں، اپنے دلوں کو خیالات کے خواب سے بیدار کریں، اپنی نظروں کو حرام چیزوں سے روکیں۔ سعادت مند وہ ہے جو اطاعت کی زینت سے آراستہ ہوا اور جماعت کے چراغ سے اس نے روشنی حاصل کی۔ روزہ داروں! قیام کرنے والوں! خرچ کرنے والوں! اللہ کا فرمان ہے:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ4
یقینا تمہارے لیے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ ہے۔
آپ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے ، رمضان میں سب سے زیادہ سخاوت کیا کرتے تھے ، آپ صدقہ کرنے میں تیز ہوا سے بھی بڑھ کر تھے لہذا بابرکت مہینے میں خوب خرچ کرو، سخاوت سے کام لو، سنو! اے معزز اور سخی لوگوں! اللہ نے تم پر جو فیض کیا ہے اس سے خوب سخاوت کرو، ہاتھوں کو نوازش و بخشش کے ساتھ بڑھاؤ تاکہ اس سے تم قرضداروں کی پریشانی، محتاجوں کی ناداری، پریشان حال لوگوں کی خستہ حالی کو ختم کر سکو اور ان قیدیوں کو رہا کر سکو جو تمہاری بخشش و نوازش کے منتظر ہیں اور جو تمہارے احسان اور سخاوت کے مشتاق ہیں۔
اللہ کا فرمان ہے:
وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ5
تم جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اللہ اس کا (پورا پورا) بدلہ دے گا اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔
صحیحین میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ہر صبح کو دو فرشتے (آسمان سے) اترتے ہیں ان میں سے ایک یہ کہتا ہے: اے اللہ! ہر خرچ کرنے والے کو اس کے خرچ کرنے کا نعم البدل عنایت فرما۔ اور دوسرا یہ کہتا ہے: اے اللہ! ہر بخل کرنے والے کے مال کو تباہ و برباد فرما دے۔6
لوگ یا تو رحم کیے جانے والے توفیق یافتہ ہیں یا محروم کیے جانے والے بخیل، تم دوسروں کو نفع پہنچانے کے لیے اپنے ہاتھوں کو خیر کے ساتھ بڑھاؤ۔ تمہارا رفاہی کام محفوظ پلیٹ فارم اور قابلِ اعتماد ادارے کے تحت ہونا چاہیے اور شاہ سلمان مرکز براہِ امداد و انسانی اعمال اور احسان پلیٹ فارم برائے رفاہی کام اس بابرکت ملک کے کارناموں اور رفاہی و انسانی اعمال کی حمایت کے لیے اس ملک کے سربراہان کی کوششوں کے روشن نمونے ہیں۔ یہاں احسان پلیٹ فارم سے رفاہی کام کی قومی مہم و سربراہان ( حفظھم اللہ) کی طرف سے سخاوت سے پُر امداد کو سراہا جاتا ہے۔ اس ملک کی تاسیس سے ہی رفاہی عمل کی حمایت اور اس کے فروغ کے تئیں اس بابرکت ملک کے اہتمام کا یہ عملی مظہر ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ ملک کے دینی و تعلیمی، اجتماعی و امدادی ، طبی و رفاہی، عالمی، انسانی و تہذیبی پیغام کو پہنچانے میں مدد کی جائے۔
اسی طرح اس سے گداگری کا مظہر بھی رکے گا جس سے بھکاری اور دینے والے دونوں اذیت محسوس کرتے ہیں اس کی برائی ظاہر ہے، اس کی اذیت واش گاف ہے اور یہ جرم کا پیش خیمہ ہے اور عمل اور پیہم سعی کے منافی ہے۔ اسی طرح یہ رائج نظام عام اعداد، تہذیبی سلوک و برتاؤ کے بھی خلاف ہے اور یہ سستی و بیکاری پر ابھارتی ہے، سماج میں اقدار کی خوبصورتی کو مسخ کرتی ہے۔ ان بابرکت ایام میں صدقہ اور اور فرض زکوۃ ادا کرنا کیا ہی اچھی عبادت اور تقرب کا کام ہے۔
اللہ کا فرمان ہے:
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ7
آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجیے جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک و صاف کردیں اور ان کے لئے دعا کیجیے بلاشبہ آپ کی دعا ان کے لیے موجبِ اطمینان ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سنتا ہے جانتا ہے۔
اور کیا ہی اچھی بات ہو کہ خوب نوازش کی جائے ، خوب خرچ کیے جائیں، رفاہی کاموں میں وقف، وصیت اور اوقاف کے فن پر توجہ دی جائے اس لیے کہ وہ پائدار اور نظام کے تحت ہوتے ہیں۔ ان میں شفافیت اور صداقت ہوتی ہے۔ عام مصالح کو پورا کرنے والے امور پر توجہ دی جائے، جیسے شفا خانے اور ڈائیلائسز سینٹرز، راستے بنانا، گھرمہیا کرنا، کنواں کھودنا، پانی پلانا، توحید پر مبنی نفع بخش علم نشر کرنا ، قرآنی حلقات کو مدد دینا ، مصحف اور سنت و احکام کی کتابیں وقف کرنا اور صدقہ جاریہ کرنا جن سے عام منفعت حاصل ہوتی ہےاورترقی کے مجالات پیدا ہوتے ہیں۔
اس سلسلے میں تاجروں، خوشحال لوگوں اور کاروباری حضرات کو نمونہ ہونا چاہیے۔ کبھی کبھی صدقہ کو ظاہر کرنا اور اس کا اعلان کرنا زیادہ اچھا ہوتا ہے تاکہ دوسرے لوگ بھی اقتداء کریں جس سے اجر بڑے اور اثر باقی رہے۔
اللہ کا فرمان ہے:
وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ8
تم جو کچھ مال خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدلہ تمہیں دیا جائے گا اور تمہارا حق نہ مارا جائیگا
اللہ کے بندوں! اعمال کا رختِ سفر باندھ لو جب تک زندگی میں وسعت ہے اور اس مہینے کے باقی بچے قیمتی اوقات کو غنیمت جانو بطور خاص آخری عشرے کو کیونکہ اجر بڑا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ9
رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ہدایت کی اور (حق و باطل میں) فرق کرنے کی واضح دلیلیں ہیں تو تم میں سے جو اس مہینے میں حاضر ہو وہ اس کا روزہ رکھے اور جو بیمار ہو یا کسی سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے۔ اللہ تمھارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اور تمھارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا اور تاکہ تم گنتی پوری کرو اور تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو، اس پر جو اس نے تمھیں ہدایت دی اور تاکہ تم شکر کرو۔
دعا
اللہ مجھے اور آپ کو برکتوں سے نوازے اور قرآن و سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہے، ہم روزے کے ذریعے اس کی طرف رجوع کرتے اور دوڑتے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، وہ یکتا ہے ،اس کا کوئی شریک نہیں، ہم اس سے امید کرتے ہیں کہ وہ برائی کو پوری طرح دور کردے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمدﷺ اللہ کے بندےاور اس کے رسول ہیں، جو تمام مخلوقات میں جہانوں کے لیےسب سے زیادہ نفع بخش ہے، اللہ ان پر رحمتیں برکتیں اور بہت زیادہ سلامتی نازل کرے، ان کے اہل بیت اور صحابہ پر جو ان میں سب سے بہتر ہے ،جن کے اخلاق و فطرت کو روزہ نے نکھارا اور تابعین پر اور اچھے طریقے سے ان کی پیروی کرنے والوں پر ،جب تک رمضان توبہ کرنے والوں کی آنکھوں سے آنسو بہائے۔
اما بعد!
اللہ کے بندو : اللہ سے ڈرو اور رحمت ،مغفرت اور احسان کے اس مہینے میں بکثرت نیک اعمال کرو اور ان کے قبول ہونے کی امید رکھو ، پھر ان کے بعد احسان کرنے والے اللہ کا مسلسل شکر ادا کرو ،تم خشنودی سے سرفراز ہو گے اور نعمتوں سے مالا مال ہو جاؤ گے ۔
اللہ کے بندوں! رمضان محنت، جدوجہد اور عمل کا مہینہ ہے ،یہ فتوحات اور کامیابیوں کے حصول کا مہینہ ہے ،اسی رمضان میں ہجرت کے دوسرے سال مسلمان کو اپنی پہلی بری جنگ غزوہ بدر میں فتح حاصل ہوئی ،پھر اس کے بعد مشرق و مغرب میں مسلمانوں کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا، جن میں سے بہت سی اسی مبارک مہینے میں ہوئی، چنانچہ اللہ کے بندوں! سستی کاہلی کمزوری کو اپنے سے دور پھینکو ،کامیابی اور کامرانی کے اسباب یعنی توکل اور جدوجہد کو اپناؤ اور اپنے نبی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے مضبوط عزم و ارادے کے ساتھ آخری عشرہ کا استقبال کرو۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، مَا لَا يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهِ10
رسول اللہ ﷺ آخری عشرے میں ایسے محنت کرتے تھے جو دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے۔
صحیح بخاری کی روایت ہے کہ:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ، شَدَّ مِئْزَرَهُ، وَأَحْيَا لَيْلَهُ، وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ11
جب (رمضان کا) آخری عشرہ آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا تہبند مضبوط باندھتے (یعنی اپنی کمر پوری طرح کس لیتے) اور ان راتوں میں آپ خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے۔
پس اے لوگوں! اپنی کمر کس لو ،اس کی راتوں کو زندہ کرو ،تمہاری آنکھ ندامت کے آنسو بہائے، میرا رب بخشنے والا ،مہربان ،محبت کرنے والا، بردبار ،کریم اور بے شمار نعمتوں والا ہے۔
روزہ رکھنے اور قیام کرنے والوں! تمہیں یہ چند بابرکت دن مبارک اور خوشگوار ہوں، فرائض اور نوافل کے ذریعے اپنے رب کا تقرب حاصل کرو، جو عظیم اعمال تم سے رہ گئے ہیں ان کی تلافی کرو ،تقرب کی چاشنی سے لذت امیز قیام اعتکاف گریہ وزاری اور دعا کے ساتھ لطف اندوز ہو،ابھی موقع باقی ہے، تجارت نفع بخش ہے، خاص طور پر ان کے لیے جنہوں نے رمضان کے دنوں کو ضائع کر دیا ،برباد کر دیا اور اپنی جان کو کوتاہی کے راستوں پر ڈال کر ہلاک کر دیا ،اس عظیم اور باب رحمت والے مہینے میں اچھی دعاؤں سے زبان کو تر رکھو ۔
اللہ تعالی نے روزے کی آیات کے ضمن میں دعا کا ذکر کر تے ہوے فرمایا :
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ12
’’ جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں (١) اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔‘‘
لہذا اپنے ہاتھوں کو عاجزی کے ساتھ اٹھاؤ، اپنے لیے، اپنے اہل خانہ کے لیے ،اپنے وطن کے لیے، اپنی امت کے لیے، اللہ سبحانہ و تعالی سے اسرار کے ساتھ دعا کرو، اس کے سامنے اپنی فریاد اور پکار پیش کرو، کہ وہ ہر جگہ کے کمزور مصیبت زدہ مظلوم بھائیوں کی مدد فرمائے، ان کی تکلیفوں، پریشانیوں ،مصیبتوں اور غموں کو دور کرے ،بے شک وہ سننے والا اور دعا قبول کرنے والا ہے ۔
اے مومنوں :اللہ تم پر رحم فرمائے، درود و سلام بھیجو ،رحمت و ہدایت والے نبیﷺ پر ،جو روزے داروں میں سب سے افضل اور قیام کرنے والوں میں سب سے معزز ہیں ۔جس کا تمہیں تمہارے رب العالمین نے حکم دیا۔ چنانچہ وہ سب سے سچا فرمانے والا فرماتا ہے :
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا13
’’اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو ۔‘‘
اور صحیح حدیث میں آیا ہےکہ آپ ﷺ نے فرمایا:
صَلُّوا عَلَيَّ ، مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى الله عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا14
مجھ پر درود بھیجو کیونکہ جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے
دعا
اے میرے رب! نبیﷺ پر درود اور رحمتیں نازل فرما جب تک سحر اور رات کی تاریکی میں ستارے چمکتے رہیں اور ان کی آل اور تمام صحابہ پر بھی جو فضل اور اعلی حسنِ سیرت کے حامل ہیں۔
اے اللہ! درود و سلام نازل فرما ہمارے نبی محمد (ﷺ) اور ان کے پاکیزہ آل و اولاد پر ، ان کے روشن صحابہ پر اور ان کے خلفائے راشدین ابوبکر و عمر ، عثمان و علی پر ، ان سے اور تمام صحابہ و تابعین سے راضی ہو جا اور ان لوگوں سے جنہوں نے روزے جزاء تک اچھی طرح سے ان کی پیروی کی اور ان کے ساتھ ہم سے بھی راضی ہو جا اپنے سخاوت کرم سے اے اکرم الاکرمین ۔
اے اللہ! ہمیں متقی اور نیک لوگوں کے راستے پر چلا۔ ہمیں اپنے چنیدہ اور بزرگ لوگوں میں شامل فرما اور ہم سب کو اپنی رحمت کے ساتھ جہنم سے آزادی عطا فرما ۔
اے عزیز و غفار! اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا کر، دین کے قلعہ کی حفاظت کر، اس ملک کو اور مسلمانوں کے بقیہ ملکوں کو پُرامن، پُرسکون ، سخاوت والا اور خوشحال بنا۔ اے اللہ! ہمیں ہمارے ملکوں میں امن عطا فرما، ہمارے ساتھ حکمرانوں کو توفیق یاب کر اور حق و درستی کے ساتھ ہمارے امام و سربراہ کی تائید فرما ۔
اے اللہ! ہمارے سربراہ خادمِ حرمین شریفین اور ان کے ولی عہد کو اس اس کی توفیق دے جس میں اسلام کا غلبہ اور مسلمانوں کی بھلائی ہو ، جس میں بندوں اور ملکوں کی بھلائی اور درستگی ہو ۔
اے اللہ! انہیں بہترین بدلہ عطا فرما ان عظیم خدمات اور اعلی دیکھ بھال کے بدلے جو کچھ انہوں نے حرمین شریفین، ان کے زائرین اور معتبرین کے لیے پیش کیا ہے اور کر رہے ہیں۔
یا رب! مسلمانوں کے تمام حکمرانوں کو توفیق یاب کر ، اے اللہ! ہمارے امن کے محافظوں اور ہماری سرحدوں کے نگہبانوں کو توفیق یاب کر۔
اے اللہ! جو ہمارے ساتھ، اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اسے خود اس کے نفس میں الجھا دے، اس کی چال کو اسی پر پلٹ دے ، اس کی سازش کو اس کی تباہی بنا دے، اے دعاؤں کے سننے والے! اے اللہ! امت کو کتاب و سنت پر متحد کر دے ۔
اے نوازش و فضل و احسان والے رب! اے اللہ! تیرا لشکر شکست نہیں کھاتا ، تیرے وعدے کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ، تُو ہر جگہ کے کمزور مسلمانوں کونجات دے، فلسطین میں ہمارے بھائیوں کی مدد فرما اور مسجدِ اقصی کو قیامت کے دن تک معزز اور بلند و بالا و محفوظ رکھ ۔
اے اللہ! جیسے تُو نے اپنے اولیاء کی بدر ( فرقان ) کے دن مدد فرمائی ویسے ہی ہر زمانے اور ہر جگہ میں ہمارے بھائیوں کی مدد فرما۔ اے اللہ! ان کے دشمنوں کو تباہ کر دے، ان کی جماعت کو منتشر کر دے، انہیں لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دے ۔
اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے، معافی کو پسند کر ہے ،لہذا ہمیں معاف فرما دے ، اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں عطا فرما آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچائے ۔
اے ہمارے رب! ہماری دعائیں قبول فرما۔ بے شک تُو سننے والا، خوب جاننے والا ہے۔ ہماری توبہ قبول فرما۔ بے شک تُو توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ ہمیں، ہمارے والدین، ان کے والدین اور تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کو بخش دے چاہے وہ زندہ ہوں یا وفات پا چکے ہوں، بے شک تُو سننے والا، قریب اور دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے۔
سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔
خطبہ جمعہ، مسجد حرام
14 رمضان المبارک 1446ھ بمطابق 14 مارچ 2025
فضیلۃ الشیخ: عبدالرحمان بن عبدالعزیز السدیس حفظہ اللہ
____________________________________________________________________________________________________________________
لیلۃ القدر میں قرآن مجید مکمل نازل ہونے کے ساتھ دوسرا اہم کام کیا ہوا؟…
عبادت کے حوالے سے قرآن مجید کی کیا نصیحت ہے؟ کیا چھٹیوں کے دن آرام…
عید کی خوشی کیسے منائیں؟ عید کا چاند دیکھ کر نبی کریم ﷺ کیا کرتے…
کیا فیشن اختیار کرنے میں ہم آزاد ہیں؟ زینت، خوبصورتی یا فیشن اختیار کرنا شرعا…
غزہ کی حالیہ صورتحال کس قرآنی آیت کی عکاسی کرتی ہے؟ رمضان المبارک میں اہلِ…
رمضان المبارک میں نبی کریم ﷺ کی عبادت کیسی ہوتی تھی؟ نبی کریم ﷺ کا…