پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے جسے چاہا اپنی ہدایت کی توفیق بخشی اور جسے چاہا اپنی اطاعت اور فرمانبرداری کی ہدایت عطا فرمائی، پرہیزگاروں سے عبادات کو قبول فرما کر انہیں اپنی خوشنودی سے نوازا ۔ ہم اسی کی حمد بجا لاتے ہیں جو حمد و ثنا اور نعمتوں کا وارث ، صاحبِ فضل اور جُود و کرم ہے۔ ہم اسی کی حمد بجا لاتے ہیں جو ہمارے لئے کافی ہے اور ہر طرح کی عذاب و آزمائش سے جائے پناہ اور ہر قسم کے دکھ ، پریشانیوں اور غموں سے بچاؤ کا مقام ہے۔ اُسی کی حمد بیان کرتے ہیں اور اسی سے استعانت طلب کرتے ہیں اور اُسی پر ہمارا توکل اور بھروسہ ہے۔ ہم اپنے نفس کی شرارتوں اور اعمال کی برائیوں سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے اُسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے وہ گمراہ کردے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لا شریک کے سوا نہ کوئی عبادت کے لائق ہے اور نہ کوئی سچا معبود ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے، رسول ، خلیل اور اُس کی پوری مخلوق میں سے اُس کے مصطفیٰ ہیں ۔ جنہوں نے پیغام پہنچا کر امانت ادا کرتے ہوئے امت کی خیر خواہی کی اور آخر دم تک اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے خوب محنت اور جد و جہد کی ۔ سو آپ پر اور آپ کی آل و اصحاب پر اور قیامت تک آنے والے ہر اُس شخص پر جس نے آپ ﷺ کے منہج کی پیروی کی اُس پر اللہ تعالیٰ کا دُرود و سلام نازل ہو۔
حمد و ثنا کے بعد!
بلا شبہ سب سے شاندار بات اللہ تعالیٰ کا کلام اور سب سے شاندار راہنمائی اللہ کے رسول ﷺ کا طریقہ ہے جبکہ دین میں نئی نئی چیزیں بد ترین امور ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم کا باعث ہے۔
اے اللہ کے بندوں ! میں تمہیں اور اپنے آپ کو اللہ عزوجل کے اُس تقوے کی نصیحت کرتا ہوں جو اگلے اور پچھلے تمام لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی وصیت ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ ۚ
النساء – 131
اور واقعی ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے تھے اور تم کو بھی یہی حکم کیا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔
اے اقوامِ مسلم ! جیسا کہ چند روز قبل ہی ہم نے ماہِ رمضان کو الوداع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ ہمیں کامیاب و مقبول بندوں میں شمار فرما لے گا اور ہمارے دل و اقدام کو راہِ راست پر گامزن رکھے گا اور اپنی اطاعت و فرمانبرداری پر ہماری مدد کرتے ہوئے ہمیں اپنے پسندیدہ بندوں میں شامل فرمالے گا۔
خیر و برکت پر مشمتل رمضان کا مہینہ اور اس کے بابرکت ایام گزر چکے اور اس کے اعمال لپیٹ دئے گئے ہیں ۔ کامیاب ہونے والے کامیاب اور محروم رہنے والے محروم رہ گئے۔ کاش مجھے کامیاب اور ناکام ہونے والوں کا علم ہوجائے تاکہ کامیاب ہونے والوں کو مبارکباد پیش کرسکوں اور ناکام ہونے والوں کے ساتھ افسوس کرسکوں ۔
اے لوگوں! ہمہ وقت اللہ تعالیٰ سے تجدیدِ عہد کرو اور رمضان کے بعد بھی اللہ تعالیٰ سے تعلق توڑنے سے بچو یقیناً وہ بہت قریب اور قبول کرنے والا ہے ۔ دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور ہر جگہ اور ہمیشہ ضررورتوں کو پورا کرتا ہے۔ اس کے خزانے اس قدر بھر پور ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوسکتے، اس کے دونوں ہاتھ آزادانہ خرچ کرنے والے ہیں۔ آسمان و زمین کی ہر مخلوق اُسی سے مانگتی ہے۔ اور ہر روز وہ ایک شان میں ہے اور وہ ایک ایسی حی و قیوم ہستی ہے جسے نہ نیند آتی ہے اور نہ اُونگ۔
اے اقوامِ مسلم ! عبادت کرنے والوں کی عبادت کا ان پر ایک واضح اثر ہوتا ہے ۔ جیسے مثال کے طور پر نماز بے حیائی اور بُرائی کو روکتی ہے اور اسی طرح حالتِ بد کا خیر و بھلائی میں تبدیل ہونا بلا شبہ قبولِ عمل کی علامت اور نشانی ہے۔ وہ نیکی بھی کتنی شاندار ہوتی ہے جو کسی گناہ کے بعد کی جائے اور وہ اُس گناہ کو دھو ڈالے ۔ اور وہ نیکی اُس سے بھی کئی زیادہ اچھی ہوتی ہے نیکی کے بعد لگاتار نیکی ہو ۔ تو مرتے دم تک اللہ تعالیٰ سے لگاتار نیکیوں کی دُعا کرو اور دلوں کے بگڑنے اور نیکوں میں اضافے کے بعد اُن میں کمی سے اللہ کی پناہ مانگو۔
اے اللہ ! اے دلوں کے درہم برہم کرنے والے ہمارے دلوں کو دین پر گامزن رکھ۔ اور اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو بھی اپنی اطاعت کی طرف موڑ دے ۔
اے اللہ کے بندوں! اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ اس کی اطاعت اور فرمانبرداری پر ثابت قدمی کی دُعا مانگو۔جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ سے صحیح حدیث میں ثابت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص جنتیوں والے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اُس کے اور جنت کے مابین صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے پر اس پر تقدیر غالب آجاتی ہے اور وہ اہلِ نار کا عمل کر بیٹھتا ہے اور آگ میں گر جاتا ہے۔ جبکہ تم میں سے کوئی شخص اہلِ نار والے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ آگ اور اُس کے مابین صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ باقی رہ جاتا ہے اتنے میں تقدیر غالب آجاتی ہے اور وہ جنتیوں والا عمل کرلیتا ہے اور جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔1
اے اللہ کے بندوں ! مفلس اور کنگال ہونے سے اپنے آپ کو بچا کر رکھو ۔ قبولِ عمل پر بھرپور توجہ دو اور اجر و ثواب کو ضائع کرنے والے اعمال سے اجتناب کرو۔
ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے ؟ تو انہوں نے عرض کیا: جی ہاں۔ ہم میں سے مفلس وہ ہے جس کے پاس روپیہ پیسہ اورمال و متاع نہ ہو، تو آپ ﷺ نے فرمایا: میری امت کا وہ شخص حقیقی مفلس و کنگال ہے جو روزِ قیامت نماز، روزے ، زکاۃ کے ساتھ آئے گا اور اُس کے ساتھ ساتھ اُس نے کسی کو گالی بھی دی ہوگی اور کسی پر تہمت بھی لگائی ہوگی، کسی کا ناجائز مال کھایا ہوگا، کسی کا ناحق خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا پیٹا ہوگا چنانچہ اس مظلوم کو اُس شخص کی بعض نیکیاں دے دی جائیں گی اور دوسروں کو بھی اُس کی نیکیوں سے ہی بدلہ دیا جائے گا اور اُس کے ذمہ پائے جانے والے حقوق کی ادائیگی سے قبل اگر اُس شخص کی نیکیاں ختم ہوگئیں تو اُن مظوموں کی خطائیں اِس شخص کے کھاتے میں ڈال دی جائیں گی اور پھر اُسے جہنم رسید کردیا جائے گا۔2
ثوبان رضی اللہ تعالیٰ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں اپنی امت کے بعض ایسے لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہوں جو روزِ قیامت تہامہ کے سفید پہاڑوں کے برابر نیکیاں لے کر آئیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو ہوا میں اڑنے والے ذرات کے مانند بنا دے گا۔ تو ثوبان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ ہمیں ان کے اُوصاف بتا دیں تاکہ لاعلمی اور جہالت میں کہیں ہم اُن میں سے نہ ہوجائیں ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ہوں گے تو وہ تمہارے بھائی اور تمہاری قوم سے ہی اور رات کو عبادت بھی تمہاری طرح ہی کرتے ہوں گے لیکن وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب خلوت میں ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کو پامال کریں گے ۔3
اے مسلمانوں ! بلاشبہ خیر و بھلائی کے راستے تو بہت ہیں لیکن انہیں اختیار کرنے والے نہ جانے کہاں ہیں؟ اسی طرح ان کے دروازے تو کھلے ہیں مگر ان میں داخل ہونے والے نہ جانے کہاں ہیں۔ یقیناً حق کا راستہ تو بالکل واضح اور صاف ہے جو اس سے بھٹک گیا وہ پکا تباہ و برباد ہو جائے گا۔ لہٰذا اے اللہ کے بندوں ! ہر نیک کام سے کچھ نہ کچھ حاصل کرلو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
الحج – 77
اے ایمان والو! رکوع سجده کرتے رہو اور اپنے پروردگار کی عبادت میں لگے رہو اور نیک کام کرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
ہمیشہ استقامت اور ثابت قدمی پر صبرکرنا اور ڈٹے رہنا بہت بڑی نیکی ہے کیونکہ تسلسل اور ثابت قدمی ہی اخلاص و قبولیت کی دلیل ہے۔ جیسا کہ فرمانِ نبوی ﷺ ہے: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے کہ جس پر ہمیشگی کی جائے۔
اور خود رسول اللہ ﷺ کا عمل ہمیشہ دائمی ہی ہوتا تھا ۔چنانچہ اطاعت و فرمانبرداری بھی ہمیشہ ہمیشہ کی ہی ہونی چاہیئے اور نیکی پر استقامت بھی ہمہ وقتی ہونی چاہیئے اور عملِ صالح کا دائمی ہونا بھی باقاعدگی سے ہونا چاہیئے۔
اے اللہ تعالیٰ! ہماری دنیا و آخرت کی اصلاح فرما اور ہماری زندگی میں خیر و بھلائی کا اضافہ فرما۔ اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے اپنے، تمہارے اور تمام مسلمانوں کے لئے بخشش طلب کرتا ہوں تو تم بھی اُسی سے بخشش طلب کرو بے شک وہ غفور رحیم ہے۔
دوسرا خطبہ:
اللہ تعالیٰ کے انعامات کے برابر اُس کی تعریفات ہیں اور درود و سلام نازل ہو اس کے نبیوں پر اور اس کے رسولوں پر۔
اے اللہ کے بندوں ! سب کے سب مہینے عبادت کے مہینے اور موسم ہیں اگرچہ فضائل و وظائف میں کچھ فرق ہی کیوں نہ ہو جبکہ عمر بھی ساری کی ساری عمل اور نیکی کرنے کا ایک سنہری موقع ہے اور ہر ایک کے لئے وہی میسر ہوگا جس کے لئے اُسے پیدا کیا گیا اور ہر کوئی ہر صبح اپنے نفس کا سودا کرتا ہے تو اُسے آگاہ یا برباد کرلیتا ہے۔
اے اقوامِ مسلم! اللہ تعالیٰ کو شاندار قرض دو اور اپنے لئے خوب نفع بخش سامان آگے بھیجو اور اپنے نفسوں کے لئے جو بھی خیر و بھلائی تم آگے بھیجو گے اُسے اللہ کے ہاں پاؤ گے جیسا کہ ارشاِ باری تعالیٰ ہے:
مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۚ
البقرة – 245
ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دے پس اللہ تعالیٰ اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے۔
اور جان لو کہ روزہ گناہوں سے بچنے کی ڈھال ہے ۔ ویسے تو ابن آدم کے تمام اعمال ہی نفع بخش ہیں لیکن روزہ اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ترین ہے لہٰذا وہی اس کا اجر و ثواب بھی عطا کرے گا۔ اس لئے جو شخص شوال کے چھ روزے رکھنے کی استطاعت رکھتا ہو اُسے یہ ضرور رکھنے چاہیے کیونکہ یہ راہِ راست اور محمد ﷺ کی سنت ہے۔ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے بھی رکھ لئے تو وہ سال بھر روزے رکھنے کی مانند ہے۔4
وہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک نیکی کو دس نیکیوں کے برابر کیا ہے تو ایک مہینہ دس مہینوں کے برابر ہوا اور چھ روزوں کو دس گنا کرنے سے ساٹھ دن یعنی دو مہینے بنتے ہیں تو اس طرح یہ پورا سال بن جاتا ہے ۔ تو تم میں سے کوئی بھی ان چھ روزوں کو رکھنے سے بخل نہ کرے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ تمہارا نام بھی ان میں سے ہو جائے جنہوں نے سال بھر روزے رکھے اور یہ ایک ایسی عظیم غنیمت ہے جس کے حصول کے لئے جد و جہد اور لالچ بہت ضروری ہے اور ان چھ روزوں کے پے در پے یا الگ الگ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔
اے اللہ کے بندوں ! اللہ تعالیٰ کے احسانات ہم پر بے شمار اور اس کی مہربانیاں اس قدر زیادہ ہیں کہ جو حساب و کتاب سے بالا تر ہیں اور ان میں سے کسی ایک نعمت کا بدلہ چُکانہ بھی ناممکن ہے ۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ
النحل – 18
اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو تم اسے نہیں کر سکتے۔
چنانچہ اللہ کی نعمتوں اور اس کے احسانات پر اس کا شکر بجا لاؤ اور انہیں اس کی اطاعت اور عبادت پر صرف کر دو۔اور یاد رکھو اگر کوئی بندہ اپنی پیدائش سے لے کر اپنی زندگی کے آخری دن تک اپنے منہ کے بل سجدے میں گرا رہے اور اللہ کی رضا جوئی میں زندگی کو فنا کردے تو وہ اللہ کی نعمتوں میں سے کسی ایک نعمت کا بدلہ بھی ادا نہیں کرسکتا ۔ اور یہ ساری عبادت بروزِ قیامت اسے بالکل حقیر دکھائی دے گی ۔5
اے اللہ کے بندوں ! یاد رکھو! اللہ کی خاص رحمت و مہربانی کے بغیر محض نیکیوں کی بدولت کسی ایک کا بھی جنت میں داخل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص بھی اپنی نیکیوں کی بدولت ہرگز نجات نہیں پاسکے گا۔ تو ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول ﷺ ! آپ بھی اپنی نیکیوں کی بدولت نجات نہیں پاسکیں گے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں ! میں بھی تب تک نجات حاصل نہ کرسکوں گا جب تک اللہ کی رحمت مجھے نہ ڈھانپ لے لیکن تم افراط و تفریط کے درمیان میانہ روی پر ڈٹے رہو ۔6
کسی کو بھی اپنے عمل کے غرورمیں آنا نہیں چاہیئے اور نہ ہی اپنی عبادت کا احسان جتانا چاہیئے اور نہ ہی اپنے اعمال کو زیادہ سمجھے اور نہ ہی نیکی کرنے سے اکتائے کیونکہ نہ تو وہ اس کی قبولیت اور عدمِ قبولیت سے آگاہ ہے اور نہ ہی اُسے اپنے آخری انجام کا علم ہے ۔
اے لوگوں ! حتی المقدور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اپنے دین پر مضبوطی سے ڈٹے رہو اور اپنے پیارے نبی ﷺ کی سنت کو اپنے دانتوں کے ساتھ مضبوطی سے تھامے رکھو اور اپنی باہمی اصلاح کرو۔ اپنی اور اپنے وطن کے اتحاد کی حفاظت کرو اور دشمن کے خلاف ایک ہو جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ثابت قدمی اور توفیق کی دُعا کرتے رہو۔
اے اللہ ! اسلا م اور اہلِ اسلام کو عزت عطا فرما۔ اے اللہ ! اسلا م اور اہلِ اسلام کو عزت عطا فرما۔ اور اپنے اہلِ توحید بندوں کی مدد فرما۔
اے اللہ ! اس ملک کو دیگر تمام مسلم ممالک کو امن کا گہوارہ بنا ۔
اے اللہ ! ہر جگہ مسلمانوں کے حالات کی اصلاح فرما۔
اے اللہ ! مسجد اقصیٰ کی حفاظت فرما۔
اے اللہ ! مسجد اقصیٰ کی حفاظت فرما۔اور اُسے مسلمانوں کے قبضے میں لوٹا دے۔
اے اللہ ! مکاروں اور سازشی عناصر سے مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت فرما۔اور اُسے سازشوں سے محفوظ فرما۔
اے اللہ ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجاے۔اے اللہ ! تو اُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اور اپنی خوشنودی کے کاموں کی توفیق عطا فرما اور اُن پر استقامت دے۔
اے اللہ ! ہمارے روزوں او ر ہمارے قیام کو قبول فرما۔
اے اللہ ! اے دلوں کے پھیرنے والے ! ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت قدم فرما۔
اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت اور فرمانبرداری کی طرف موڑ دے ۔
اے اللہ! ہمارے دین کی اصلاح فرما جو ہماری پاک دامنی کا باعث ہے ۔
اے اللہ ! ہماری آخرت کی اصلاح فرما جس کی طرف ہماری واپسی ہے ۔اورہماری زندگی میں ہر نیکی کے کام میں اضافہ فرما۔ اے اللہ ! محمد مصطفیٰ ﷺ پر اوران کے اہلِ بیت پر اور ان کے اصحابِ کرام پر اور تابعین اور تبع تابعین پر رحمتیں اور برکتیں نازل فرما۔
خطبة الجمعة، مسجد نبوی
فضیلۃ الشیخ: عبداللہ البعيجان حفظہ اللہ تعالی
9 شوال 1442 بمطابق21 مئی 2021
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔