پہلا خطبہ:
یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی اسی سے مانگتے ہیں، نفسانی اور بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے
حمد و صلاۃ کے بعد: اللہ کے بندو! اللہ سے کما حقّہ ڈور اور اسلام کو مضبوطی سے تھام لو۔
مسلمانو!
دن اور رات تیزی سے گزر رہے ہیں، ان کے پیچھے مہینے بھی چلتے جا رہے ہیں اسی اثنا لوگ اللہ کی جانب بڑھ بھی رہے ہیں، اور وہاں سب لوگ جلد ہی اپنی کارکردگی دیکھ لیں گے
یہ اللہ تعالی کا فضل و کرم ہے کہ لوگوں کے لیے نیکیوں کی بہاریں مقرر فرمائیں، اس ضمن میں کچھ ایام ، راتوں اور لمحات کو خصوصی مقام سے نوازا؛ صرف اس لیے کہ لوگوں کے جذبات کو مہمیز ملے اور بڑھنے والے مزید آگے بڑھیں۔
جب بھی ماہ رمضان کا چاند طلوع ہوتا ہے تو ہمارے لیے ہمیشہ بابرکت گھڑیاں لاتا ہے، مسلمان ماہ رمضان کا انتہائی مسرت اور خوشی کے ساتھ استقبال کرتے ہیں، ان کے دل فرحت سے معمور ہوتے ہیں، کیونکہ ماہ رمضان میں قبولیت کی گھڑی کسی بندے کو مل جائے تو وہ سعادت اور رضائے الہی کے بلند درجات پا لیتا ہے۔
اس وقت یہ معزز اور محترم ترین مہینہ شروع ہو چکا ہے، اللہ تعالی نے نیکیوں کی اس بہار کو خصوصی شرف اور فضیلت عطا کی ہے کہ اس مہینے میں رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی، اسی میں قرآن مجید نازل ہوا، اللہ تعالی نے اس کے روزے فرض فرمائے۔
ماہ رمضان کی ایک ایک گھڑی بابرکت ہے، اس مہینے کا ہر لمحہ خیر و بھلائی سے بھر پور ہے، اس مہینے میں خیرات کا تسلسل جاری رہتا ہے، برکتیں عام ہوتی ہیں، یہ دوسروں کے کام آنے اور صدقہ خیرات کرنے کا موسم ہے، یہ مہینہ حصول مغفرت اور گناہوں کو ختم کروانے کا مہینہ ہے، دن صیام میں اور رات قیام میں گزرتی ہے، یہ مہینہ قرآن اور نماز سے آباد ہوتا ہے، اس مہینے میں جنتوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے، اس مہینے میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے جو اس سے محروم ہو گیا وہی حقیقی معنوں میں محروم ہے۔
ماہ رمضان نیکیوں کی دوڑ میں آگے نکلنے کا وسیع میدان ہے، یہ مہینہ نفس کو ہمہ قسم کی آلائش اور بیماریوں سے پاک صاف کرنے کا مہینہ ہے، یہ انتہائی معزز مہینہ ہے اس مہینے میں اعمال کا اجر بڑھا دیا جاتا ہے، اس ماہ میں گناہوں اور خطاؤں کو معاف کر دیا جاتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (پانچوں نمازیں، ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک، ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک درمیان میں ہونے والے گناہوں کو مٹا دیتے ہیں، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے) مسلم
اس مہینے میں مسلمان اسلام کے ایک رکن کی ادائیگی کرتے ہیں، در حقیقت یہ مہینہ اس دین کی عظمت اور مسلمانوں کی باہمی یگانگت کی عملی منظر کشی کرتا ہے، اس مہینے میں واضح طور پر اللہ تعالی کا فرمان عملاً دیکھنے میں آتا ہے کہ:
إِنَّ هَـٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ
الأنبياء: 92
بیشک یہ ہے تمہاری امت جو ایک ہی امت ہے اور میں ہی تمہارا رب ہوں، اس لیے میری عبادت کرو۔
نیکیوں کی اس بہار کو غنیمت سمجھنا بھی اللہ تعالی کی طرف سے خصوصی توفیق ہوتی ہے، اللہ تعالی جسے چاہتا ہے اس توفیق سے نوازتا ہے، ماہ رمضان میں ساری کی ساری بنیادی عبادات یکجا ہو جاتی ہیں، چنانچہ نماز اللہ تعالی اور بندے کے درمیان ناتا اور رابطہ ہے ، مسلمان کی زندگی سے نماز کبھی بھی غائب نہیں ہوتی، مرد کے لیے باجماعت نماز ادا کرنا فرض ہے جو مرد کی گھر یا بازار میں ادا کی ہوئی نماز سے 27 درجے افضل ہوتی ہے، مسلمان کو کوشش کرنی چاہیے کہ روزے کے ساتھ نفل نمازوں کا بھی خصوصی اہتمام کرے اور رات کے وقت زیادہ سے زیادہ قیام کرے؛ کیونکہ: (جو شخص رمضان میں ایمان اور ثواب کی امید کے ساتھ قیام کرے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں) متفق علیہ
اور اسی طرح فرمایا: (اور جو شخص امام کے ساتھ قیام کرے یہاں تک کہ وہ [نماز مکمل کر کے] چلا جائے، تو اس کے لیے رات بھر کا قیام لکھ دیا جاتا ہے) ترمذی
زکاۃ اور نفل صدقہ خیرات؛ دولت کو پاک کرتے ہیں اور ان میں اضافے کا باعث بھی بنتے ہیں، یہ دریا دلی اور دل کی صفائی کا ذریعہ ہیں، زکاۃ کی ادائیگی کا اثر شخصیت، دولت اور اولاد سب پر یکساں پڑتا ہے، زکاۃ بلاؤں کو ٹالتی ہے اور خوشیاں سمیٹتی ہے، اللہ کے بندوں پر جو سخاوت کرے تو اللہ تعالی اس پر سخاوت فرماتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (اللہ تعالی فرماتا ہے: ابن آدم، تم [میری راہ میں ]خرچ کرو میں تم پر خرچ کروں گا) متفق علیہ
روزِ قیامت ہر شخص اپنے صدقے کے سائے تلے ہو گا، اس لیے صدقہ لازمی کرو چاہیے معمولی ہی کیوں نہ ہو، صدقہ کرتے ہوئے خوشی سے دو اور غریبوں کے دکھ درد بانٹو، روزہ افطار کروانے والے کو اتنا ہی اجر ملے گا جتنا روزے دار کو ملتا ہے، آپ ﷺ کی سیرت مبارکہ تھی کہ آپ بہت زیادہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے تھے، آپ کو خرچ کرتے ہوئے غربت یا تنگی کا ڈر نہیں ہوتا تھا، کسی کو دیتے تو دریا دلی کے ساتھ دیتے اور کسی کو نوازتے تو کھل کر عنایت فرماتے تھے، آپ نے کبھی کسی سائل کو خالی واپس نہیں موڑا، آپ سے کچھ بھی مانگا گیا آپ نے کبھی انکار نہیں کیا، آپ ﷺ ماہ رمضان میں خصوصی جود و سخا کا مظاہرہ فرماتے، اسی لیے آپ ماہ رمضان میں تیز اندھیری کی طرح خرچ کیا کرتے تھے۔
روزہ اس فضیلت والے مہینے میں انتہائی عظیم عبادت ہے، اس مہینے میں مسلمان روزہ رکھ کر تقوی کی نعمت حاصل کرتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
البقرة: 183
اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے لکھ دئیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر لکھے گئے تھے، تا کہ تم متقی بن جاؤ۔
روزے کا ثواب بے حد و حساب ملے گا، اللہ تعالی کا حدیث قدسی میں فرمان ہے: (روزے کے علاوہ ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے؛ کیونکہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا) متفق علیہ
اسی طرح فرمایا: (جو شخص رمضان میں ایمان اور ثواب کی امید کے ساتھ روزہ رکھے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں) متفق علیہ
روزہ ؛ روزے داروں اور برائی کے درمیان حائل ہو جاتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (روزہ [گناہوں کے سامنے] ڈھال ہے) ترمذی
ماہ رمضان میں عمرہ بہت بڑی غنیمت ہے؛ کیونکہ آپ ﷺ کا فرمان ہے: (رمضان کا عمرہ [ثواب میں]حج کے برابر ہوتا ہے) متفق علیہ
قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے اور اللہ تعالی کی لوگوں پر حجت ہے، قرآن کریم سرچشمہ حکمت اور رسالت نبوی کی نشانی ہے، اللہ تعالی کی جانب قرآن کریم کے علاوہ کوئی راستہ نہیں جاتا، قرآن کریم کے بغیر ہمارے لیے نجات ممکن نہیں، یہ بصیرت اور بصارت دونوں کے لیے نور ہے، قرآن کے قریب ہونے والا صاحب شرف بن جاتا ہے، اس پر عمل پیرا شخص معزز ہو جاتا ہے، قرآن کریم کی تلاوت ثواب کے ساتھ رہنمائی بھی ہے، قرآن کریم کا مطالعہ علم اور ثابت قدمی کا باعث ہے، قرآن کریم پر عمل تحفظ اور امان کا باعث ہے، قرآن کریم کی تعلیم اور قرآن کی جانب دعوت نیک لوگوں کے سر کا تاج ہے، ماہ رمضان میں قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے، رمضان میں قرآن کریم کی تلاوت، تدبر، تعلیم و تعلم، اور اس پر عمل کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنا چاہیے؛ کیونکہ قرآن کریم کا نزول اسی مہینے میں ہوا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ
البقرة: 185
ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا قرآن لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور اس میں ہدایت کی حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں
جبریل علیہ السلام ہمارے نبی ﷺ کے ساتھ قرآن مجید کی ہر رمضان میں ایک بار دہرائی کرتے تھے، اور جس سال آپ ﷺ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے دو بار قرآن کریم کی دہرائی فرمائی۔
دعا ایک مستقل عبادت ہے، دعا سے مشقت کے بغیر فائدہ حاصل ہو جاتا ہے، دعا ایسا منافع ہے جس میں کبھی نقصان نہیں ہوتا، دعا کی بدولت خوشیاں ملتی ہیں، دعائیں بلائیں ٹالتی ہیں، دعا کرنے والا کبھی تباہ حال نہیں ہوتا، دعا کے ذریعے انسان اپنی تمنا اور مطلوب پا لیتا ہے، چنانچہ کس قدر ناممکن چیزیں بھی دعا کے ذریعے ممکن ہو گئیں! کتنی مشکل چیزیں آسان ہو گئیں! کتنی ہی مشکلیں رفع ہوئیں!؟
قبولیت کے قریب ترین ایسی دعائیں ہوتی ہیں جو رات کے آخری حصے میں مانگی جائیں، اگر کوئی بندہ اپنے پروردگار کے سامنے گڑگڑائے تو اللہ تعالی اس کی ضرورت پوری فرما دیتا ہے، جب انسان بھوکا ہو تو دل گداز اور صاف ہوتا ہے، نیز روزے دار کی دعا رد نہیں کی جاتی، ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں: “روزے دار دن ہو یا رات عبادت میں ہی رہتا ہے، روزے دار کی دعائیں دوران روزہ اور افطاری کے وقت قبول کی جاتی ہیں، روزے دار دن میں روزہ رکھ کر صبر کرتا ہے اور رات کو کھا پی کر شکر کرتا ہے” اس لیے کامیاب وہی ہے جو زیادہ سے زیادہ آسمان کا دروازہ کھٹکھٹائے، اور رمضان کے شب و روز میں اپنے لیے نیکیاں جمع کر لے۔
ذکر الہی بھی عظیم لیکن آسان ترین عبادت ہے، اللہ کا ذکر کرنے والے کو اللہ تعالی بھی یاد رکھتا ہے۔ نیز اگر انسان اپنی زبان کو ذکر الہی میں مشغول نہ رکھے تو اسے فضول یا گناہوں میں مشغول کر دیتا ہے۔
دین برتاؤ اور تعامل کا نام ہے، ساری مخلوقات میں سے اچھے سلوک کا حقدار وہ ہے جس کے حقوق اللہ تعالی نے اپنے حقوق کے ساتھ ملا کر بیان کئے ہیں، اس لیے والدین تمہارے لیے جنت بھی ہیں اور جہنم بھی، تمہارے حسن اخلاق پر تمہارے والدین کا سب سے زیادہ حق ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (اس شخص کا ستیاناس ہو جائے، اس شخص کا پھر ستیاناس ہو جائے، اس شخص کا پھر ستیاناس ہو جائے) “کہا گیا : کس کا؟ اللہ کے رسول!” آپ نے فرمایا: (جو اپنے والدین کو یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پائے اور جنت میں داخل نہ ہو پائے) مسلم
(رشتہ داری عرش کے ساتھ چمٹی ہوئی کہتی ہے: جو مجھے جوڑے اللہ اسے جوڑ دے، اور جو مجھے توڑے اللہ اسے توڑ دے) متفق علیہ
اسی طرح ایک اور حدیث ہے کہ: (جس شخص کو اچھا لگے کہ اس کے رزق میں فراخی کر دی جائے، یا اس کی عمر میں اضافہ کر دیا جائے تو وہ صلہ رحمی کرے) متفق علیہ
والدین کی کامل اطاعت میں یہ بھی شامل ہے کہ انہیں کسی بھی ایسی چیز سے مکمل تحفظ فراہم کیا جائے جن سے ان کی ہتک عزت ہو یا ان کا دل ٹوٹے۔
روزے دار کو اپنی عبادت کا سب سے زیادہ خیال ہوتا ہے، وہ روزے کو توڑنے والی تمام اشیا سے محفوظ بناتا ہے؛ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو بیہودہ باتیں مت کرے نہ ہی شو و غل مچائے، اور اگر کوئی اسے گالی گلوچ دے یا لڑے تو اسے کہہ دے: میرا روزہ ہے۔) متفق علیہ
سلف صالحین رحمہم اللہ جمیعا کی یہ عادت تھی کہ جب وہ روزہ رکھتے تو مسجدوں میں بیٹھے رہتے اور کہتے کہ: “اس طرح ہم اپنے روزے کا تحفظ کریں گے اور کسی کی غیبت بھی نہیں کریں گے”
امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: “روزے دار کو اپنی زبان کا خصوصی خیال رکھنا چاہیے، اور زبان درازی نہ کیا کرے”
ان تمام تر تفصیلات کے بعد، مسلمانو!
نیکی کی تکمیل اسی وقت ہوتی ہے جب محبت کے ساتھ ادا کی جائے، ایسی محبت جو انسان کو خلوص اور صدق دل پر ابھارے اور رسول اللہ ﷺ کی اتباع بھی کرے۔
کوئی بھی عمل اس وقت تک نیکی نہیں بن سکتا جب تک اس کی بنیاد ایمان نہ ہو بطور عادت یا خواہش کے کیا ہوا عمل عبادت نہیں ہوتا، اسی طرح شہرت اور ریا کاری کے لیے کیا گیا عمل بھی عبادت نہیں بنتا، عمل اسی وقت عبادت بنے گا جب حصول ثواب اور رضائے الہی اس کا ہدف ہو، چنانچہ جس وقت کسی بھی عمل میں ایمان اور ثواب کی امید یکجا ہو جائے تو وہ قبولیت کا درجہ پا لیتا ہے اور مغفرت کا باعث بنتا ہے۔
وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ
آل عمران: 133
اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے جو پرہیز گاروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو ذکرِ حکیم کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا، اسی کے شکر گزار بھی ہیں کہ اس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اس کی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں، سلامتی اور برکتیں نازل فرمائے۔
مسلمانو!
دنیا تو اپنی خوشیوں اور غموں کے ساتھ ختم ہو ہی جائے گی، عمریں لمبی ہوں یا چھوٹی یہ بھی گزر جائیں گی، پھر آخر کار سب اپنے پروردگار سے ملیں گے، اس وقت مال یا اولاد کچھ کام نہیں آئیں گے، ماسوائے اس شخص کے جو اللہ تعالی کے پاس قلب سلیم لے کر آئے گا؛ اس لیے ماہ رمضان کا استقبال سچی توبہ کے ساتھ کرو، ابھی سے عزم مصمم کر لو کہ اس کے اوقات و لمحات کو نیکیوں سے بھر پور رکھو گے؛ کیونکہ زندگی تو محدود سانسوں کا نام ہے، فضیلت والے ان اوقات کو غنیمت سمجھیں، نیکیاں کرتے چلے جائیں اور پر امید رہیں ۔
حقیقی دھوکا زدہ شخص تو وہ ہے جو رمضان تو پا لے لیکن اسے بخشا نہ جائے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (اس شخص کا ستیاناس ہو جائے جس کی زندگی میں رمضان آئے اور اسے پروانہ مغفرت ملنے سے پہلے چلا جائے) ترمذی
اسی طرح فرمایا: (جو شخص خلاف شریعت بات کہنے یا اس پر عمل کرنے باز نہ آئے تو اللہ تعالی کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔) متفق علیہ
اصلاح قلب کے لیے اللہ کا ذکر اور قرآن کریم کے ساتھ مضبوط تعلق مفید ترین وسائل ہیں، اسی طرح قیام اللیل اور نیک لوگوں کی صحبت بھی کارگر ثابت ہوتے ہیں۔
یہ بات جان لو کہ اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الأحزاب: 56
اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔
اللهم صل وسلم وبارك على نبينا محمد، یا اللہ! حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے والے خلفائے راشدین: ابو بکر، عمر، عثمان، علی سمیت بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہو جا؛ یا اللہ !اپنے رحم و کرم اور جو د و سخا کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا اکرم الاکرمین!
یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، یا اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، یا اللہ! اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو خوشحال اور امن کا گہوارہ بنا دے۔
یا اللہ! ہمارے روزے اور قیام قبول فرما، یا اللہ! ہمیں کردار اور گفتار میں اخلاص عطا فرما۔
یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! ظاہری اور باطنی ہمہ قسم کے فتنوں سے ہمیں محفوظ فرما۔
یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیری رہنمائی کے مطابق توفیق عطا فرما، اور ان کے سارے اعمال تیری رضا کیلیے مختص فرما، یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب پر عمل کرنے اور نفاذِ شریعت کی توفیق عطا فرما، یا ذالجلال والا کرام!
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
النحل: 90
اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں وعظ کرتا ہے تا کہ تم نصیحت پکڑو۔
تم عظمت والے جلیل القدر اللہ کا ذکر کرو تو وہ بھی تمہیں یاد رکھے گا، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ تمہیں اور زیادہ دے گا، یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے
ترجمہ: شفقت الرحمن مغل