عبادات

رمضان اور قرآن

پہلا خطبہ :

ہر طرح کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو رحیم رحمان ہے، فضل و احسان والا ہے، اپنے بندوں کو رمضان تک پہنچا کر اس نے احسان کیا، ان کے لئے اس مہینے کو عام مغفرت سے مخصوص فرمایا، مؤمنوں کے دلوں کو قرآن سے منور فرمایا، انہیں صیام و قیام کی ہدایت دی اور ان کے لئے نیکی اوربھلائی کے دروازے کھولے۔ آرزؤوں تک پہنچنے اور بھر پور نعمتوں پر اسی کے لئے ہر طرح کی حمد اور شکر ہے۔

 ہم گواہی دیتے ہیں کہ ایک اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اپنی گواہی جس سے ہم سلامتی والے گھر سے سرفرازی کی امید کرتے ہیں، اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، جو مخلوق کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے۔

 اللہ تعالی ٰ کا درود و سلام نازل ہو آپ پر ، آپ کی آل و ازواج پر اور صحابہ کرام پر ، اور بہت زیادہ سلامتی نازل ہو جب تک رات و دن یکے بعد دیگرے آتے ہیں۔

اما بعد !

اے لوگو! میں اپنے نفس  کو اور آپ کو اللہ تعالیٰ کے تقوی کی وصیت کرتا ہوں، تقوی سب سے بہترین، عظیم ، روشن اور بلند وصیت ہے، تقوی نجات کا زینہ ہے، ہدایت کا چراغ ہے، زندگی کی سب سے پاکیزہ پونجی ہے، تو اب اس کے محرکات تم سے قریب ہو گئے اور اس کے اسباب تمہارے لئے مہیا ہو گئے:

يَأْيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

البقرۃ – 183

اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔

مسلمانو! دن ورات، صبح و شام سے گزر کر وقت کی چکی گھومتی رہتی ہے، جس کے نتیجے میں دہر و زمانہ پے در پے آتے رہتے ہیں۔ یہ غور کرنے والوں کے لئے عبرت ہے اور تدبر کرنے والوں کے لئے نصیحت ہے، اللہ رحمان و رحیم کا فرمان ہے:

وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِّمَنْ أَرَادَ أَن يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا

الفرقان – 62

” اور اسی نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا۔ اس شخص کی نصیحت کے لیے جو نصیحت حاصل کرنے یا شکر گزاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہو”۔

ہر سال معزز مہمان قیام کرتا ہے، ایک عظیم موسم سایہ فگن ہو تا ہے ، اور وہ اپنے ہمہ گیر خیر کے ساتھ رمضان ہے جو رحمان ورحیم کی جانب سے بھلائی اور احسان ہے۔ ہر سال اس کی آمد کے شوق میں کتنی ہی گردنیں اس کی طرف اٹھتی ہیں، نفوس اس کی عنایتوں کے خواہش مند ہوتے ہیں، نیکوکاروں کے دل اس کے جھونکوں کے مشتاق ہوتے ہیں، وہ اللہ کی رضامندی کی طلب میں اپنے بدن کو تھکاتے ہیں۔ رمضان قرآن کا مہینہ ہے، بھلائی کا مہینہ ہے، رضامندی کے حصول کا مہینہ ہے، اس مہینہ میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور جہنم کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں، سارے شیطان جکڑ دئے جاتے ہیں، یہ رحمت و مغفرت کا مہینہ ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا :

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

صحیح بخاری

جس نے رمضان کے روزےایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ رکھے اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔

یہ وہ ایام ہیں جن کی حفاظت ضروری ہے، اس لئے کہ یہ زمانہ کے سر پر تاج کی طرح ہیں، اللہ رحیم و رحمان نے اپنی محکم کتاب میں بیان فرمایا ہے:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ

البقرۃ – 185

” ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا”۔

مسلمانو! لو اس مہینہ کی پہلی تہائی ختم ہونے کے قریب ہے، عظمند و باشعور وہ ہے جو اسے پانے کے لئے پر عزم ہو، ابھی بھی اس مہینہ کا دو تہائی باقی ہے، اس کے لئے جو جنتوں میں مسابقہ ، خوشنودی کے درجات میں بلندی، رحمن کی مغفرت سے شاد کافی اور جہنم سے گلو خلاصی چاہتا ہے۔ تم اس مہینہ کے باقی ماندہ ایام کو نیکی کر کے غنیمت جانو ، اور اسے گناہوں سے الگ رکھو تا کہ وہ صرف نیکیاں ہی  رہیں، نیک اعمال میں جلدی کرو، اور چلنے میں مسابقہ کرو۔

کیا ہی خوش قسمتی ہے اس آدمی کی جس نے اپنے دنوں اور راتوں کو نیک کاموں میں لگایا۔ اس نے خوب محنت و کاوش کی اور صیام و قیام میں اس کے جسم نے جانفشانی کی، صدقہ دے کر اس کے ہاتھ دراز رہے، اس نے بھلائی اور خوش بختی پائی، اور کیا ہی خوش بختی ہے اس کے لئے جس نے اپنے وقت کے فضل کو جانا، اپنے نافرمانی کے صحیفے کو آنسؤوں اور گریہ وزاری سے مٹادیا، اس کا خوف اور اس کی امید بڑی ہوئی، چنانچہ وہ فرمانبرداری اور توبہ کرتے ہوئے آیا، اس امید کے ساتھ کہ اس کی گردن آزاد ہو جائے اور اس کار ہن چھوٹ جائے۔ تو اللہ سے مانگو، اور اللہ بہترین مدد گار ہے۔

مؤمنو! تمام مہینوں میں رمضان کی سب سے عظیم خصوصیت اور تاریخ کی پیشانی پر سب سے چمکتا تل وہ عظیم واقعہ ہے جس سے اللہ نے اس معزز مہینہ کو مشرف کیا، تو یہ نزول قرآن کا واقعہ ہے:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ

البقرۃ – 185

” ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں۔”

قرآنی بیان یہ ہے کہ یہ رات میں نازل ہوا اللہ تعالی کا فرمان ہے:

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ

الدخان – 3

” یقینا ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا ہے۔”

پھر اللہ نے مزید بیان کرتے ہوئے اس رات کی تعیین فرمادی اور فرمایا:

 إِنَّا أَنزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ

القدر – 1

 “یقینا ہم نے اسے شب قدر میں نازل فرمایا “۔

یہ قرآن نہایت واضح اور فصاحت و بلاغت والا ہے، پھر اللہ نے اس خاص رات کو مہم بنا دیا تا کہ عقل و خر دوالے لوگ فضل و انعام والے اللہ کی توفیق سے اس رات کی فضیلتوں کو حاصل کر سکیں۔

سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

الصِّيَامُ جُنَّةٌ فلا يَرْفُثْ ولَا يَجْهلْ، وإنِ امْرُؤٌ قَاتَلَهُ أوْ شَاتَمَهُ فَلْيَقُلْ: إنِّي صَائِمٌ

صحیح بخاری

روزہ گناہوں کی ایک ڈھال ہے، اگر کوئی روزے سے ہو تو اسے نہ فحش گوئی کرنی چاہئے اور نہ شور مچانا چاہیے ، اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا لڑنا چاہے تو اس کا جواب صرف یہ ہو کہ میں ایک روزہ دار آدمی ہوں”۔

اس مہینے میں اپنے اعمال کو ترازو سے تولو اور اپنی نجات کو کم یا زیادہ ہر قیمت پر خرید لو، اگر تم سے ہو سکے ۔تو مدد کرنے والےیہ شان و شوکت، عظیم فضل اور جمال ہے، ایک رسی ہے جو آسمان سے پھیلادی دی گئی ہے اور ایک روشنی ہے جو زمین پر پھیل گئی ہے تاکہ لوگوں کی رہنمائی کرے اور گمراہی سے بچائے۔ یہ ربوبیت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ بنی نوع انسان کے لیے ہدایت اور دلائل ہے، اس مقدس مہینہ کو اعزاز حاصل ہوا تا کہ اس کے نزول کا وقت اور اس کی جائے استقبال بن جائے۔ یہ ایسا موقع ہے جس کا معاملہ عظمت والا، اس کی شان معزز ہے، اللہ نے اس کی جانب ہماری رہنمائی فرمائی تاکہ ہم اس سے آگاہ ہوں اور اسے سمجھیں، اور اس کے اثرات سے روشناس ہو کر اس سے فائدہ اٹھائیں۔

اللہ کے بندو! اس کے دلائل پر غور کرو اور اس کے مقاصد کو سمجھنے کے لیے دلوں کو بیدار کرو،کیونکہ دلوں کو جب حکمتوں اور مقاصد کا علم ہوتا ہے تو وہ اچھا کام کرتے ہیں، جلدی کرتے ہیں اورسبقت لے جاتے ہیں اور جب یہ مقاصد ان سے غائب ہو جاتے ہیں تو وہ کو تا ہی وسستی کرتے ہیں اور ناکام ہو جاتے ہیں۔

اللہ کے بندو! اللہ تعالی نے جب اس مہینہ کو نزول قرآن کریم کے ساتھ خاص کیا تو اسے عبادت کی دوسری عظیم قسم روزہ کے ساتھ بھی خاص کیا، تاکہ دل اس کی قرآت کے لئے تیار ہوں، روزے میں اس کی آیات اچھے سے سمجھ میں آتی ہیں، اس کی تلاوت آسان ہوتی ہے، اس کی نشانیوں میں غور و فکر ہوتا ہے، شیطان کے راستے تنگ ہوتے ہیں، رحمان کے کلام کے استقبال کی تیاری ہوتی ہے، رمضان اور قرآن دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، لازم و ملزوم ہیں، الگ ہونے والے نہیں ہیں، جب رمضان کا ذکر ہو گا تو قرآن کا ذکر ہو گا، تقوی کی نشانیوں کے حصول میں دونوں شامل ہیں، اللہ تعالی نے صیام کے بارے میں فرمایا:

يايها الَّذِينَ ءَامَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

البقرۃ -183

“اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے ، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو”۔

دوسری جگہ قرآن کے بارے میں فرمایا:

الم ‎﴿١﴾‏ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ

البقرۃ – 1/2

 ” اس کتاب (کے اللہ کی کتاب ہونے) میں کوئی شک نہیں پر ہیز گاروں کو راہ دکھانے والی ہے”۔

تقوی روزے کے بلند مقاصد اور عظیم غایت میں سے ہے، روزے میں دنیاوی آلائشوں سے نفس کی تطہیر ہے، نفس کو گدلا کرنے والی چیزوں سے پاکی ہے، جب دل نیک اور پاک ہوں گے ، تقوی کی سیڑھیاں چڑھیں گے، اپنے رب کے کلام سے فائدہ اٹھائیں گے اور بلندی سے سرفراز ہوں گے۔ سیدنا  عثمان رضی اللہ عنہ کا قول ہے : ” اگر تمہارے دل پاک ہوتے تو تم اللہ عزوجل کے کلام سے سیراب نہیں ہوتے”۔ (اس حدیث کو احمد نے زہد میں اور ابو نعیم نےالحلیہ میں روایت کیا ہے)

مؤمنو! ہدایت و کامیابی، تقوی و درستگی کا میزان وہی ہے جس پر نبی اکرم ﷺتھے، آپ کے دونوں ہاتھ سخاوت میں ہواؤں سے مقابلہ کرتے تھے، صحیحین میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، انہوں فرمایا:

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ في كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم أَجْوَدُ بِالخَيْرِ مِنَ الريح الْمُرْسَلَةِ

رسول اللہ ﷺسب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں جب جبرئیل علیہ السلام آپ ﷺسے ملاقات کرتے تو آپ ﷺبہت ہی زیادہ جود و کرم فرماتے۔ جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ ﷺسے ملاقات کرتے اور آپ ﷺکے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے، غرض آنحضرت ﷺلوگوں کو بھلائی پہنچانے میں بارش لانے والی ہو اسے بھی زیادہ جو دو کرم فرمایا کرتے تھے “۔

 اس حدیث سے رمضان اور قرآن کے درمیان اس موقع کی عظمت کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اللہ تعالی نے رمضان کو انسانوں کے سردار اور فرشتوں کے سردار کے درمیان اپنے کلام کے دورہ کا موسم بنایا ہے، اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان میں قرآن کا دورہ کرنا اور اس کے لئے جمع ہونا مستحب ہے۔

بھائیو! اس امت کے سلف اس موقع کی عظمت کو جانتے تھے اور اسے پوری طرح سمجھتے تھے۔ چنانچہ جب رمضان آتا تو وہ قرآن کو اوڑھنا بچھونا بنا لیتے، اس کا مذاکرہ کرتے نیز صبح و شام اس کی تلاوت کرتے ، اس حال میں کہ ان کے دل لرزاں اور رونگٹے کھڑے ہوتے ، ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا، قرآن ختم کرنے کے لئے وہ بہت کوششیں کرتے ، جیسا کہ ثقہ ائمہ رحم اللہ نے بیان کیا ہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ وہ راتوں کو جاگتے اور ایک رکعت میں قرآن ختم کر دیتے تھے”۔ اسے عبد الرزاق اور ابن ابی شیبہ نے اپنی اپنی مصنف میں روایت کیا ہے۔

 یہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں جو ہر ہفتے قرآن ختم کرتے تھے اور جب رمضان شروع ہوتا تو ہر تین راتوں میں ایک مرتبہ اسے ختم کرتے تھے (اسے بیقی نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے)۔ اور قتادہ رحمتہ اللہ علیہ رمضان المبارک میں ہر تین راتوں میں ایک بار قرآن ختم کرتے تھے اور جب آخری عشرہ آتا تو ہر رات میں ایک مرتبہ ختم کرتے تھے (ابو نعیم نے اسے حلیہ میں روایت کیا ہے۔) اور اس تعلق سے سلف کے بہت سے واقعات ہیں، کیونکہ انہوں نے بلندی کی طرف سبقت کیا، اور ان میدانوں میں ان کا قد بہت اونچا ہے۔

تو اے اللہ کے بندو! ان کی پیروی کرو، اور قرآن کے ساتھ اسی طرح زندگی گزارو جس طرح وہ رمضان اور تمام وقتوں میں گزارتے تھے، اس تعلق سے تم اپنی تمام استطاعت اور حالت کے مطابق کوشش کرو۔

امام نووی رحمہ اللہ کا قول ہے: “(اکثر علماء کی رائے ہے کہ قرآن ختم کرنے کی گنتی کا حساب نہیں ہے، بلکہ یہ سب ان کی نشاط اور طاقت کے مطابق ہوتا تھا، مختلف حالات اور لوگوں کے مطابق یہ مختلف ہوتا تھا۔)لہذا اس سے گھر اور رہنے کی جگہ کو آباد کرو، دل اور سینوں کو معمور کرو، اور اسے اپنے بچوں اور اپنے گھر والوں کو سکھاؤ، تا کہ آپ کی اور ان کی زندگی منور ہو، اور قیامت کے دن آپ توفیق، ہدایت،خوشی اور فلاح و کامیابی حاصل کریں۔

 ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے  وہ کہتے ہیں:

إِنَّ الْبَيْتَ لَيَتَّسِعُ عَلَى أَهْلِهِ، وَتَحْضُرُهُ الْمَلَائِكَةُ، وَتَهْجُرُهُ الشَّيَاطِينُ، وَيَكْثُرُ خَيْرُهُ أَنْ يُقْرَأْ فِيهِ الْقُرْآنُ، وَإِنَّ الْبَيْتَ لَيَضِيقُ عَلَى أَهْلِهِ وَتَهْجُرُهُ الْمَلَائِكَةُ، وَتَحْضُرُهُ الشَّيَاطِينُ ، وَيَقِلُ خَيْرُهُ أَنْ لَا يُقْرَأْ فِيهِ الْقُرْآنُ.

” بے شک گھر میں قرآن کے پڑھے جانے سے وہ گھر اپنے اہل کے لئے کشادہ ہو جاتا ہے اور اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور شیاطین اس کو چھوڑ جاتے ہیں اور اس کی خیر وبرکت) بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ اور بیشک وہ گھر جس میں قرآن نہیں پڑھا جاتا وہ اپنے اہل کے لیے تنگ ہو جاتا ہے اور فرشتے اس کو چھوڑ جاتے ہیں اور اس میں شیاطین حاضر ہوتے ہیں اور اس گھر میں خیر و برکت) کم ہو جاتی ہے۔“ (اسے دارمی نے اسے اپنی سنن میں روایت کیا ہے۔ اور یہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے موقوفامروی ہے ، جیسا کہ ابن حجر نے الاتحاف میں بیان کیا ہے۔)

اللہ مجھے اور آپ کو اپنی کتاب کی برکتوں سے نوازے، مجھے اور آپ کو ان میں موجود نشانیوں اور حکیمانہ ذکر سے فائدہ پہنچائے، میں اپنی یہ بات کہ رہا ہوں اور اللہ سے اپنے لیے اور آپ کے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں، آپ اس سے مغفرت طلب کریں، بیشک وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

دوسرا خطبہ :

ہر طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ  کے لئے ہے جس نے اپنے بندوں کے لیے بڑی حکمتوں اور اسرار کی بنا پر احکام نازل فرمائے ، اور رمضان المبارک کے روزے اور قیام کو گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بنایا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، وہ بادشاہ اور بہت بخشنے والا ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺاللہ کے بندے اور رسول ہیں، جو چنیدہ و مختار ہیں ۔

اللہ تعالیٰ کا درود و سلام نازل ہو آپ ﷺپر ، آپ ﷺکے پاک باز آل و اصحاب پر اور قیامت تک ان کی اچھی طرح سےمتعلق پیروی کرنے والوں پر۔

 اما بعد !

مومنو! یہ قرآن ان لوگوں سے پوشیدہ نہیں ہے جو ہدایت کے خواہشمند ہیں اور تقویٰ کے ذریعہ راہ نجات کے متلاشی ہیں۔ کیونکہ ہدایت اسی سے ہے اور اس سے جڑے رہنے میں ہی نجات ہے۔ اس کا طریقہ واضح ہے، اس میں کوئی ابہام یا پوشید گی نہیں ہے۔ عمیق ربانی ہدایات اور دقیق جامع احکام کی شکل میں جو شریعت کے ان نشانات کے مکمل بیان اور جامع وضاحت پر مشتمل ہے جن کی لوگوں کو اپنی دنیا اور آخرت میں ضرورت ہے۔ اسی طرح اس میں سچی خبریں اور غیب سے اپیمانی بھائیو! قرآن کو غور و فکر کے ساتھ پڑھنے سے زیادہ کوئی چیز دل کے لیے مفید نہیں ہے۔

 لہذا جو شخص ایمان میں اضافہ اور قرآن سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے وہ اس کی تلاوت کرتے وقت اپنے دل کو حاضر رکھے، اسے غور سے سنے، اور اس شخص کی طرح دل و دماغ کو حاضر رکھے جیسے اللہ سبحانہ اسے مخاطب کر کے کلام کر رہا ہے۔ تو جب اثر کرنے والا پایا جائے جو کہ قرآن ہے، اور قبول کرنے والا مقام جو کہ زندہ دل ہے، اور شرط پائی جائے جو کہ غور سے سننا ۔ اور رکاوٹ ختم ہو جو کہ خطابی معنی سے دل کا غافل اور دور ہو کر کسی دوسری طرف متوجہ ہونا ہے تو اثر حاصل ہو گا جو کہ نفع اٹھانا اور نصیحت حاصل کرنا ہے۔

اس میں باتیں ہیں، بلیغ امثال اور نصیحتیں ہیں، اور بہترین قصے اور مثالیں ہیں۔ آسمان وزمین کے رب کا فرمان  ہے:

يَاأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ تَكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ

یونس – 57

” اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لیے شفا ہے اور رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لیے”۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبُ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ

ق – 37

” اس میں ہر صاحب دل کے لئے عبرت ہے اور اس کے لئے جو دل سے متوجہ ہو کر کان لگائے اور وہ حاضر ہو”۔

 مومنو! رمضان میں قرآن اور صیام جمع ہوتے ہیں، بندے کے لیے دو کوششیں اکٹھی ہو جاتی ہیں: ایک کوشش دن میں روزے کی ، اور ایک کوشش رات میں قیام کی ، چنانچہ مومن قیامت کے دن دو شفاعت سے شاد کام ہو گا، قیام کرنے پر قرآن کی شفاعت، اور روزہ رکھنے پر روزہ کی شفاعت سے۔ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:

الصَّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَقُولُ الصِّيَامُ: أَيْ رَبِّ، مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ، فَشَفَعْنِي فِيهِ، وَيَقُولُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ، فَشَفَعْنِي فِيهِ، قَالَ: فَيُشفَعَانِ.

روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے ، روزہ کہے گا اے میرے رب! میں نے اسے دن میں کھانے پینے اور شہوت کے کام سے روکے رکھا تھا، لہذا اس کے بارے میں میری شفاعت قبول فرما، قرآن کہے گا اے رب! ہم نے اسے رات میں سونے سے روکے رکھا تھا، لہذا اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما۔آپ ﷺنے فرمایا: اللہ تعالی ان دونوں کی سفارش قبول فرمالے گا۔ ( اس حدیث کو احمد نے روایت کیا ہے اور حاکم نے صحیح کہا ہے)

اے اللہ کے بندو، اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے روزوں کو اچھا بناؤ، اپنے رب کی کتاب کی طرف متوجہ ہو ، لہو و لعب میں مبتلا کرنے والی چیزوں سے منہ موڑو، اور عبادات کی طرف کمربستہ ہو کر دوڑو، اس مہینے میں جسے رب العالمین نے عزت بخشی ہے۔ لہذا آپ اپنے مہمان کی عزت کے ساتھ مہمان نوازی کریں اور استقامت کی راہ پر گامزن رہنے کے حریص نہیں تا کہ آپ قیامت کے دن کی ہولناکی سے بیچ جائیں اور آپ جنت جو کہ ہمیشگی کا ٹھکانہ اور قیام گاہ ہے سے سرفراز ہو جائیں۔

 اتنی بات ہوئی اور درود و سلام پڑھیں اللہ کے رسول ﷺپر، آپ کے رب نے آپ کو اپنی کتاب میں اس  کا حکم دیا ہے:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

 ” بیشک اللہ اور اس کے فرشتے اس نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی پڑھتے رہا کرو”۔

اے اللہ! تو درود و سلام اور برکت نازل فرما ہماے نبی محمد ﷺخاتم النبیین پر ، آپﷺ کے نیک پاکباز اہل خانہ پر ، آپﷺ کی بیویوں امہات المؤمنین پر۔

اے اللہ ! تو راضی ہو جا چاروں خلفائے راشدین سے ، تمام صحابہ سے، تابعین سے اور تاقیامت ان لوگوں سے جو ان کی اچھی طرح پیروی کریں اور ان کے ساتھ ہم سے اپنے عفو وجود اور احسان سے راضی ہو جا، یا اکرم الاکرمین۔

اے اللہ ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما دین کے احکام کی حفاظت فرما، اس ملک کو اور مسلمانوں کے بقیہ ملکوں کو پر امن و پر سکون اور خوش حال و فارغ البال بنا۔

اے اللہ! تو معاف کرنے والا ہے، معافی کو پسند فرماتا ہے ہمیں معاف فرما۔

 اے اللہ !تو ہمیں نیکیوں کی توفیق دے، ہماری برائیوں کو مٹا، اور ہماری ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے اور قیام پرمد د فرما، ہمای نماز، روزہ، دعا اور نیک اعمال قبول فرما، بلاشبہ تو سننے والا اور جاننے والا ہے۔

 اے اللہ !ہم تجھ سے جنت مانگتے ہیں، اور یہ کہ تو اس مکرم مہینہ میں ہم کو جہنم سے آزاد کر کے احسان فرما، تو اپنی رحمت سے اے عزیز رحمان۔

اے اللہ !قرآن کو ہمارے دل کی بہار سینوں کا نور اور ہمارے غموں کو ختم کرنے کا سبب بنا۔

اے اللہ !ہمارے غموں کو دور کر، پریشانیوں کو ختم کر ، ہمارے قرض کو ادا کر، ہمارے مریضوں کو شفا دے، ہمارے مردہ لوگوں پر رحم فرما، اور سرحدوں تعنیات ہمارے سپاہیوں کی مدد فرما۔

 اے اللہ ! ہمارے سر براہ خادم حرمین شریفین اور ان کے ولی عہد کو اپنی توفیق سے نواز ، ہماری اور مسلمانوں کی طرف سے انہیں بہترین بدلہ دے۔

 اے اللہ !ہماری طرف سے یہ دعائیں ہیں ، اور تو ہی ان دعاؤوں کو قبول کرنے والا ہے، ہم میں سے ہر دعامانگنے والے کو اس کی مراد سے نواز ، اور ہمیں تو بھلائی دے، اور مزید عطا کر۔

خطبہ جمعہ مسجدِ حرام : فضیلۃ الشیخ یاسر الدوسری حفظہ اللہ
9رمضان 1444ھ بمطابق 31 مارچ 2023

فضیلۃ الشیخ یاسر الدوسری حفظہ اللہ

Recent Posts

منہجِ سلف سے کیا مراد ہے؟

منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…

2 days ago

یا محمد ﷺ کہنا یا لکھنا کیسا ہے؟

کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…

3 days ago

ستاروں کی تخلیق کے تین مقاصد!؟

اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…

6 days ago

داتا اور مشکل کشا کون؟

اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…

7 days ago

مشکلات اور پریشانیوں کےحل کےلیے نسخہ؟

قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…

1 week ago

جنتی فرقہ کونسا ہے؟

فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…

2 weeks ago