الحمد للہ والصلاۃ والسلام علیٰ رسول اللہ وبعد!
کیا روزے دار رمضان کے بعد بھی اسی حالت پر رہتا ہے جس پر وہ رمضان المبارک میں تھا ؟
یا کہ وہ اس عورت کی طرح کرتا ہے جس نے سوت کاتا اورکاتنے کے بعد پھر اسے توڑ ڈالا ؟
توکیا وہ جورمضان المبارک میں روزہ دار ، اورقرآن مجید کا قاری اورتلاوت کرنے والا ، اورصدقہ و خیرات کرنے والا ، راتوں کوقیام کرنے والا اوردعوتی کاموں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لینے والا تھا ۔
کیا وہ رمضان کے بعد بھی اسی حالت پر رہے گا یا کہ کسی اورراہ یعنی شیطان کے راستے کا راہی بنتا ہوا معاصی وگناہوں کا ارتکاب کرنے لگے گا جواللہ ورحمن کے غضب کا باعث ہوں ؟
بلاشبہ رمضان کے بعد مسلمان کا اعمال صالح کرنے پرصبر کرنا اوراسی حالت پر باقی رہنا اللہ کریم ومنان کےہاں رمضان المبارک کے روزے قبول ہونے کی علامت ہے ۔
اوررمضان المبارک کے بعد اعمال صالحہ ترک کرنا اورشیطان کے راستوں پرچلنا ذلت ورسوائی اورحقارت ورذیل پنہ ہے ، جیسا کہ حسن بصری رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :
قول حسن بصری رحمہ اللہ
جن کی عزت اللہ کے یہاں ختم ہوجاتی ہے تووہ اس کی نافرمانی شروع کردیتے ہیں اوراگر وہ اللہ کے یہاں عزت والے ہوتے تو وہ انہيں نافرمانی سے بچا لیتا اورجب بندہ اللہ تعالی کے ہاں ذلیل ورسوا ہوجاتا ہے توکوئی بھی اس کی عزت نہیں کرتا۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
وَمَن يُهِنِ اللَّـهُ فَمَا لَهُ مِن مُّكْرِمٍ ۚ
الحج (18) ۔
جسے رب ذلیل کردے اسے کوئی عزت دینے واﻻ نہیں۔
تعجب تو اس بات پر ہوتا ہے کہ بعض لوگ رمضان المبارک میں روزے رکھتے قیام کرتے ہیں اوراللہ تعالی کے راستےمیں صدقہ و خیرات بھی کرتے ہیں اوررب العالمین کی اطاعت بھی بہت زيادہ کرتے ہیں لیکن جیسے ہی رمضان المبارک کا مہینہ گزرا تو ۔۔۔۔۔؟
ان کی فطرت بدل جاتی ہے اوراپنے رب کے ساتھ ان کااخلاق اورہی ہوجاتاہے آپ دیکھيں کہ وہ نہ تو نماز پڑھتا ہے اورنہ ہی اعمالِ صالحہ میں وہ کثرت اوررغبت رہتی ہے بلکہ ان میں قلت و کمی آجاتی ہےاوروہ ان سے بھاگنے لگتا ہے ۔
وہ معاصی اورگناہ کا ارتکاب کرنے لگتا ہے اوروہ کئی انواع واقسام میں اللہ تعالی کی معصیت ونافرمانی کرنے لگتا اور اللہ مالک الملک جوکہ قدوس السلام بھی ہے کی اطاعت وفرمانبرداری سے دوربھاگتا ہے ۔
’’اللہ کی قسم وہ لوگ توبہت ہی برے ہيں جواللہ سبحانہ وتعالی کوصرف رمضان المبارک میں ہی پہچانتےہیں‘‘ ۔
مسلمان پرضروری ہے کہ وہ رمضان المبارک کے بعد زندگی کاایک نیا صفحہ کھولے جس میں اللہ تعالی کی طرف توبہ ورجوع اورہروقت اورہر گھڑی میں اللہ تعالی کی اطاعت ومراقبہ کرتا رہے ، تواس طرح ہرمسلمان شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ مستقل طور پراللہ تعالی کی اطاعت کرتا رہے اورہرگناہ ومعصیت کے کام سے بچے اوررمضان المبارک میں جواطاعات واللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہااسے رمضان کے بعد بھی جاری رکھے ۔
اللہ جل جلالہ کا فرمان ہے :
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِينَ
ھود (114) ۔
دن کے دونوں سروں میں نماز برپا رکھ اور رات کی کئی ساعتوں میں بھی، یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لئے ۔
اورنبی مکرم ﷺ کا فرمان ہے :
اوربرائی ہوجائے تواُس کے فوراً بعدنیکی کیا کرو جواس برائی کو ختم کردے گی ، اورلوگوں سے حسن اخلاق سے پیش آيا کرو۔
اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ اللہ تعالی نے مخلوق کوجس مقصد کے لیے پیدا فرمایا ہے وہ صرف اورصرف اپنی وحدہ لاشریک کی عبادت ہے ، جوکہ ایک عظیم بلند اوراعلی مقصد ہے ، اوروہ یہی ہے کہ ہم عبودیت صرف اللہ عزوجل کی بجالائيں ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ رمضان المبارک میں یہ کام بہت اچھے اندازمیں ہوتا ہے اوردیکھتے ہیں کہ لوگ جوق درجوق اکیلے اورگروپوں میں مساجد کا رخ کرتے ہيں ، ہم نے یہ بھی دیکھا کے وہ فرائض کی ادائیگي میں بھی وقت کی پابندی کرتے اورصدقہ وخیرات کرنے پرحریص ہوتے ہیں ۔
نیکی وبھلائی اورخیر کےکاموں میں ایک دوسرے سے سبقت لےجانے کی کوشش کرتے اوران میں جلدی کرتے ہیں اوراسی چيزمیں سبقت لےجانےوالوں کو سبقت لے جانی چاہیے ، اورایسا کام کرنے والے ان شاء اللہ ،اللہ کے یہاں بڑے اجر و ثواب کے مستحق ہیں ۔
لیکن اب ایک چيز باقی ہے کہ اس نیکی اوربھلائی پر دنیا وآخرت کی زندگی میں کون ثابت قدم رہتا ہے اوراللہ تعالی کسے ثابت قدمی عطا کرتا ہے ، تورمضان المبارک کے بعد اللہ تعالی جسے اعمال صالحہ پر ثابت قدم رکھے اس کے لیے بہت بڑي کامیابی ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّـهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ ۚ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۖ وَمَكْرُ أُولَـٰئِكَ هُوَ يَبُورُ
فاطر – 10
جو شخص عزت حاصل کرنا چاہتا ہو تو اللہ تعالیٰ ہی کی ساری عزت ہے، تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے، جو لوگ برائیوں کے داؤں گھات میں لگے رہتے ہیں ان کے لئے سخت تر عذاب ہے، اور ان کا یہ مکر برباد ہوجائے گا۔
اوراس میں کوئی شک وشبہ نہيں کہ ہروقت اوردورمیں اعمال صالحہ اللہ تعالی کے قرب کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں ، پھریہ بھی ہے کہ جورب رمضان المبارک کا ہے وہی رب جمادی اورشعبان وذی الحجہ اورمحرم اورصفر اورباقی سارے مہینوں کا بھی ہے ۔
اس اس لیے کہ اللہ تعالی نے ہمارے لیے جوعبادت مشروع کی ہے وہ اسلام کے پانچ ارکان میں ہے جن میں رمضان المبارک کے روزے بھی ہیں جوایک وقتِ محدد میں آتے ہيں ، تواس طرح باقی ارکان حج زکاۃ ونماز وغیرہ میں بھی ہم اللہ تعالی کے سامنے جواب دہ ہيں ۔
لھذا ہمیں وہ بھی کما حقہ ادا کرنا ضروری ہیں تا کہ اللہ تعالی کی رضا حاصل ہو اورپھرہمیں اس کی کوشش کی کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی نے ہمیں جس مقصد کے لیے پیدا فرمایا ہے وہ بھی پورا ہو ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
الذاریات – 56
میں نے جنات اورانسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں۔
اورنبی ﷺ نےبھی اپنے صحابہ کرام کو نیکی اوربھلائی کے کاموں میں سبقت لےجانے اورایک دوسرے سے آگے نکلنے کی راہنمائی کرتے ہوئے کچھ اس طرح فرمایا :
کچھ درہم دینار سےبھی سبقت لےجاتے ہیں ۔۔۔۔ ۔
اورنبی ﷺ نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ:
اگر صدقہ کرنے والا صحت مند اورصحیح ہو اوراسے فقر کابھی کا خدشہ ہو تواس وقت کا کیا ہوا صدقہ اللہ تعالی کے ہاں بہت زيادہ وزن رکھتا ہے اوراس کے اعمال صالحہ میں وزن کا باعث ہوگا ۔
لیکن وہ جوصدقہ کرنے کوٹالتا رہتا اورکہتا ہے کہ میں عنقریب صدقہ کروں گا لیکن کرتا نہيں اورجب اسے بیماری آدبوچتی ہے تو کہتا ہے کہ فلاں کواتنا دے دو اورفلاں کواتنا اورفلاں کواتنا دے دو ، تو ایسے شخص سے اللہ بچائے کہ اس کے اعمال کورد کردیاجائے اوراس کے اعمال تباہ ہوجائيں۔
اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّـهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِن قَرِيبٍ فَأُولَـٰئِكَ يَتُوبُ اللَّـهُ عَلَيْهِمْ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿١٧﴾ وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّىٰ إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ ۚ أُولَـٰئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا
التوبة – 17/18
اللہ تعالیٰ صرف انہی لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو بوجہ نادانی کوئی برائی کر گزریں پھر جلد اس سے باز آ جائیں اور توبہ کریں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کی توبہ قبول کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بڑے علم واﻻ حکمت واﻻ ہے۔ ان کی توبہ نہیں جو برائیاں کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے تو کہہ دے کہ میں نے اب توبہ کی، اور ان کی توبہ بھی قبول نہیں جو کفر پر ہی مر جائیں، یہی لوگ ہیں جن کے لئے ہم نے المناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔
تواس لیے متقی مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالی سے ڈرتا رہے اس کا تقوی اختیارکرے اوراللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری پر حرص رکھے اورہروقت وہمیشہ کےلیے خير وبھلائی اوردعوتی کاموں امربالمعروف اورنہی عن المنکرمیں مشغول رہے ۔
مومن کے زندگی کے ایام و شب خزانے کی طرح ہیں وہ دیکھے کہ اس نے اس میں کیا کچھ اضافہ کیا اورجمع کر رکھا ہے اگر تواس نے ان ایام و شب کے اندرنیکی وبھلائی کے کام کرکے اپنے زخیرہ میں نیکیوں کا اضافہ کیا تویہ شب وروز اس کے حق میں گواہی دیں گے اوراگراس نے اس کے علاوہ کچھ اورکیا تووہ سب کچھ اس پر وبال ہوگا ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ مجھے اورآپ کوخسارہ ونقصان سے بچا کررکھے ۔ آمین ۔
پھرعلماء کرام رحمہم اللہ تعالی کا یہ بھی قول ہے کہ :
قبول اعمال کی علامت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نیکی اوراعمال صالحہ کے بعد اورنیکی کرنے کی توفیق دیتا ہے تواس طرح نیکی بہن بہن کی آوازیں لگاتی ہے اور اپنے دوسری نیکی کو دعوت دیتی ہے ، اوربرائی بھی بہن کی بہن کی آوازيں لگا کراپنی دوسری برائی کودعوت دیتی ہے اللہ تعالی برائی سے بچا کررکھے ۔
اس لیے جب اللہ تعالی بندے کی رمضان المبارک میں کی ہوئی عبادت کوشرف قبولیت بخشتا ہے اورانسان اس رمضانی مدرسہ اورورکشاپ سے مستفید ہوتا اوراللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری پر استقامت اختیار کرتا ہے توپھر وہ بھی اس قافلے میں شامل ہوتا ہے جن کی عبادت ودعا اللہ تعالی نے قبول فرمالی۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان کچھ اس طرح ہے :
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ﴿٣٠﴾ نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ
فصلت – 30/31
(واقعی) جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اسی پر قائم رہے ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو (بلکہ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعده دیئے گئے ہو ۔ تمہاری دنیوی زندگی میں بھی ہم تمہارے رفیق تھے اور آخرت میں بھی رہیں گے، جس چیز کو تمہارا جی چاہے اور جو کچھ تم مانگو سب تمہارے لیے (جنت میں موجود﴾ ہے۔
اورایک دوسرے مقام پر اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان کچھ اس طرح ہے :
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
الاحقاف – 13
بیشک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر جمے رہے تو ان پر نہ تو کوئی خوف ہوگا اور نہ غمگین ہوں گے۔
تواس طرح استقامت کا یہ قافلہ ایک رمضان سے لیکر دوسرے رمضان تک چلتا رہتا ہے اس لیے کہ نبی ﷺ نے بھی فرمایا ہے :
(ایک نماز دوسری نماز تک اوررمضان دوسرے رمضان تک اورحج دوسرے حج تک کے درمیان ( یہ سب کچھ صغیرہ) گناہوں سے کفارہ بن جاتی ہیں جب تک کبیرہ گناہوں سے بچا جاتا رہے ۔
اوراسی طرح اللہ سبحانہ وتعالی کابھی ایک مقام پر کچھ اس طرح فرمان ہے:
إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ
النساء – 31
اگر تم ان بڑے گناہوں سے بچتے رہوگے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے تو ہم تمہارے چھوٹے گناه دور کر دیں گے۔
اس لیے مومن کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے عاقل وبالغ ہونے کے پہلے دن سے لیکر اپنے آخری سانس تک استقامت کے قافلہ اورنجات کی کشتی میں سوار رہے ، تو اس طرح وہ لاالہ الا اللہ کےسایہ چلے گا اوراللہ تعالی کی نعمتوں کا سایہ حاصل کرے گا ۔
کیونکہ یہی دین حق ہے اوراللہ تعالی نے ہم پر رمضان المبارک میں استقامت اختیار کرنے کا احسان بھی کیا ہےاوروہی ہے جوہم پر اپنی عطا و فیض کا انعام اورفضل کرم کرتا اورہمیں عزت سے نوازتا ہے کہ ہم رمضان کے بعد بھی اس کی اطاعت وفرمانبرداری اورعبادت کرتے رہيں ۔
اس لیے ہمارے مسلمان بھائیوں!
آپ یہ مت بھولیں کہ اللہ تعالی نے آپ کورمضان المبارک میں اعتکاف اورصدقہ وخیرات اوررمضان کے روزے رکھنے کی توفیق دے کر احسان فرمایا اورآپ پریہ بھی احسان کیا کہ آپ اللہ تعالی سے دعا کرتے رہے اوراسے اللہ تعالی نے شرف قبولیت بخشا ۔
بھائی آپ یہ بھی نہ بھولیں کہ یہ نیکیاں اوریہ توفیق ایسی چيز ہے جس کا خیال رکھنا ضروری ہے اور اس کی حفاظت کرنا بھی نہ بھولیں اس لیے اس کی حفاظت کا حق ادا کریں لھذا ان نیکیوں کو برائيوں اورباطل اعمال کے ذریعے ختم نہ کریں، اس لیے آپ خیر و بھلائی کا بیج بونے کی کوشش کریں اورسعادت وفلاح و کامیابی کے راستے پرچلتے ہوئے استقامت اختیارکریں جس سے آپ کو اللہ تعالی کی رضا اورآخرت میں اللہ کی جنت حاصل ہوگی۔
تو پھر اس وقت آپ کو یہ کہا جائے گا کہ آپ اس جنت کے ساتھ خوش ہوجائيں جس کی چوڑائی آسمان وزمین کے برابر ہے اورجو متقی وپرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئ ہے ، اورپھر آپ اللہ تعالی کی اس منادی ميں شامل ہوں گے :
اے بھلائی اورخير کے کاموں سےدور بھاگنے والے واپس آجاؤ اس لیے کہ اللہ تعالی آگ سے چھٹکارا دے رہا ہے ، اوراے شروبرائی کرنے والے رک جا اوراسے ختم وکم کردے ۔
اورآپ نے نبی ﷺ کے اس قول پر بھی عمل کرلیا :
جس نے بھی رمضان المبارک میں ایمان اورثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے پہلے سب گناہ معاف کردیے گئے، اورجس نے بھی لیلۃ القدر کا ایمان اورثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے پہلے سب گناہ معاف کردیے گئے ۔
ہم اللہ عزوجل سے دعا گوہيں کہ جس نے ہم اورآپ پررمضان کے روزے اوراعتکاف اورعمرہ اورصدقہ وخیرات کرنے کی توفیق بخش کراحسان کیا اورہم پرایمان وھدایت اورتقوی کا بھی احسان کیا اورپھر احسان عظیم کرتے ہوئے ہمارے اعمال صالحہ بھی قبول فرمائے، ان اعمال پرہمیں استقامت کی توفیق بخشے اس لیے کہ اعمال صالحہ پراستمرار اورانہیں مستقل کرنا اللہ تعالی کی بہت ہی بڑي قربت ہے ۔
اوراسی لیے نبی ﷺ کےپاس ایک شخص آکر کہنے لگا : مجھے وصیت و نصیحت فرمائيں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا :(کہوکہ میں اللہ تعالی پر ایمان لایا اورپھر اس قول پر(عملی)استقامت اختیار کرو )۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم
اور ایک روایت میں ہے کہ :
کہو کہ میں اللہ تعالی پر ایمان لايا ، پھر اس پر جم جاؤ اوراستقامت اختیار کرو ، وہ کہنے لگا اے اللہ تعالی کے رسول ﷺ یہ تو سب لوگ کہتے ہیں ، نبی ﷺ نے فرمایا :تم سے پہلے لوگوں میں ایک قوم نے یہ کہا لیکن انہوں نے اس پر استقامت اختیار نہیں کی لہٰذا تم اس پر قولاً و عملاً استقامت اختیار کرو
مسند احمد ۔
تو اس لیے مومنوں پر ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالی کی اطاعت اوراستقامت پر قائم رہيں ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
يُثَبِّتُ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ اللَّـهُ الظَّالِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ اللَّـهُ مَا يَشَاءُ
ابراھیم – 27
ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی، ہاں ناانصاف لوگوں کو اللہ بہکا دیتا ہے اور اللہ جو چاہے کر گزرے۔
جواللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری پراستقامت اختیار کرتا ہے اسی کی وہ دعا بھی قبول ہوتی ہے جو ایک دن میں پچیس بارسے بھی زيادہ مرتبہ دھرائی جاتی ہے اوروہ دعا یہ ہے :
اھدنا الصراط المسقیم
کہ اے اللہ ہمیں صراطِ مستقیم پر ثابت قدم رکھ ، جوہم سورہ فاتحہ میں ہررکعت کی اندر پڑھتےہیں ۔
ہم اسے زبان سے کيوں ادا کرتے ہیں اوراس پر ہمارا اعتقاد جازم کیوں ہے اس لیے کہ جب ہم اس پر استقامت اختیار کریں گے تو اللہ تعالی ہمیں معاف فرما دے گا لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم اس کی عملی تطبیق میں سستی کرتے ہیں ، لھذا ہم پر ضروری ہے کہ ہم اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرتے ہوۓ اس پر عملی اوراعتقادی اورقولی طورپر تطبیق کریں ۔
اورپھر اس صراط مستقیم کے قافلے میں شامل ہوں اورہم ایاک نعبد وایاک نستعین کی راہ پر اھدنا الصراط المستقیم کی چھاؤں میں چلتے ہوئے آسمان وزمین جتنی چوڑی جنتوں کے مالک بن کر اس میں داخل ہوں اوراس جنت کی چابی لاالہ الا اللہ ہے اس (کے تقاضوں کو جانتے اور سمجھتے ہوئے اس) پر عمل کرکے جنت کی اس چابی کو ضرور حاصل کریں ۔
جب تک ہم اس کے معانی اورلوازمات پر عمل نہيں کرتے اس وقت تک جنت میں داخلہ ناممکن ہے اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمارا اورآپ کا خاتمہ خیر وبھلائی پر کرے آمین ۔
رمضان المبارک کے بعد لوگوں کی کئی اقسام وانواع بن جاتی ہیں جن میں سب سے بڑی دوقسمیں ہیں :
پہلی قسم :
آپ انہیں رمضان المبارک میں اللہ تعالی کی اطاعت کرنے میں مجتھد پائيں گے ، (رمضان میں )آپ انہیں جب بھی دیکھں وہ اللہ کی عبادت میں ہوں گےیا تووہ سجدہ میں ہوں گے اوریا پھر قیام کررہے ہوں گے یا پھر قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے پائيں گے، اوریا پھر آپ انہیں اللہ کے خوف سے روتا ہوا پائيں گے کہ آپ کوسلف کی عبادت یادآجائےگی۔
اورآپ ان کی شدتِ اجتھاد اورکوشش کی وجہ سے ان کے ساتھ شفقت وپیار اورمحبت کرنے لگيں گے ، لیکن جیسے ہی شرف وفضیلت کا مہینہ رمضان المبارک ختم ہوا تووہی لوگ اپنی معاصی اورگناہ کی زندگی کی طرف لوٹ آئیں گے گویا کہ وہ اطاعت کے قیدخانہ میں بند تھے (اور رمضان گزرتے ہی انہیں اُس سے آزادی مل گئی ہو) ۔
تواس طرح وہ شہوات ہفوات اور غفلت کی طرف واپس آ کریہ گمان کرتے ہیں کہ اس میں ہی ان کے ھم وغم اورپریشانی کا علاج ہے اوروہ مساکین یہ بھول جاتاہیں کہ معاصی اورگناہ ھلاکت، تناہی و بربادی کا سبب ہیں ۔
وہ بھول جاتےہیں کہ گناہ اورمعاصی زخم ہیں اورپھر ان میں سے کچھ ایسے زخم بھی ہيں جوانہیں قتل بھی کرسکتے ہیں ، تودیکھیں کتنے گناہ اورمعصیت ایسے ہیں جس کی بنا پربندہ موت کےوقت کلمہ لاالہ الا اللہ سے محروم ہوجاتا ہے ۔
وہ رمضان المبارک کا پورا مہینہ اطاعت وفرمانبرداری اورایمان و قرآن کی تلاوت اوراللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے والی سب عبادات میں گزارنے کے بعد دوبارہ پیچھے کی جانب اوندھے منہ جا گرتے ہیں (لا حول ولا قوة إلا بالله)۔
اورسالانہ ( فصلی بٹیرے کی طرح ) عبادت کرنے والے جنہوں نے صرف موسم میں ہی عبادت کرنی ہوتی ہو وہ صرف اللہ تعالی کواسی موسم میں جانتے ہیں اوراس کی اطاعت کرتے ہيں یا پھر کسی سزا کے ڈر سے، لیکن جب یہ موسم چلا جائے تو اطاعت و فرمانبرداری بھی ختم، افسوس ان کی یہ عادت توبہت ہی بری اورغلط ہے :
ایک شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے :
نمازی نے نماز صرف کسی مطلب کے لیے پڑھی جب وہ مطلب پورا ہوگیا تو نہ نماز رہی نہ ہی روزہ ۔
افسوس ! توبتائيں کہ جب رمضان المبارک کے بعد پھر اسی غلط کاموں اورشنیع حرکتوں کی طرف پلٹنا ہے توپھراس پورے مہینہ کی عبادت کا کیا فائدہ ؟
دوسری قسم :
رمضان کے بعد لوگوں کی دوسری قسم وہ ہے جنہیں رمضان المبارک کے جانے کا افسوس ہوتا اور انہیں تکلیف محسوس ہوتی ہے اس لیے کہ انہوں نے رمضان المبارک میں عافیت کی مٹھاس چکھی جس کی بنا پر ان کے صبر کی کڑواہٹ جاتی رہی ۔
اس لیے کہ انہوں نے اپنے آپ کی حقیقت کوپہچان لیا کہ وہ اپنے رب کی محتا ج ہے اوراس کی اطاعت کی بھی ، اسی لیے انہوں نے روزے بھی حقیقی روزے رکھے اوررمضان المبارک میں راتوں کا قیام بھی شوق سے کیا ۔
اس لیے رمضان المبارک کے وداع ہونے سے ان کے آنسو جاری ہوتے ہیں اوران کے دل دھل جاتے ہیں ، اوران میں گناہوں کا اسیر یہ امید رکھتا ہے کہ وہ آگ سے آزادی حاصل کرکے نجات حاصل کرلے گا ، اورقبولِ اعمال کے قافلہ میں شامل ہوگا ۔
میرے بھائی! آپ اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ آپ ان دونوں قسموں میں سے کس قسم کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں؟
اوراللہ کی قسم کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟؟؟ الحمد للہ ، بلکہ اکثر کوتو علم ہی نہیں ۔
اللہ تعالی کے مندرجہ ذیل فرمان کے بارہ میں مفسرین کا قول ہے کہ :
قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِ
الاسراء – 84
کہہ دیجئیے! کہ ہر شخص اپنے طریقہ پر عامل ہے۔
مفسرین کہتے ہیں کہ : اس کا معنی یہ ہے کہ ہر شخص اپنے پائے جانے والے اخلاق کے مماثل اعمال کرتا ہے ، اور اس میں کافرکی مذمت اورمومن کی مدح ہے۔
میرے بھائی! آپ کے علم میں ہونا چاہیےکہ اللہ تعالی کے ہاں محبوب اورپسندیدہ عمل وہ ہیں جوہمیشہ کیے جائيں چاہے وہ تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں۔
رسول اکرم ﷺ کافرمان ہے :
لوگو! جتنی بھی طاقت رکھتے ہو عمل کیا کرو اس لیے کہ اللہ تعالی کوملال نہيں ہوتا حتی کہ تم خود تنگ دل ہوکراکتاہٹ محسوس کرنے لگو ، اور اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین اعمال وہ ہیں جن پر ہمیشگی کی جائے چاہے وہ کم ہی کیوں نہ ہوں ، اورجب آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی عمل کرتے تو اس پر ہمیشگی اوردوام کرتے تھے
صحیح مسلم ۔
اورجب نبی ﷺ سے یہ سوال کیا گیا کہ اللہ تعالی کے ہاں سب سے محبوب اورپسندیدہ ترین اعمال کون سے ہیں ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان تھا : ( ہمیشہ کیا جانے والا اگرچہ وہ کم ہی ہو ) ۔
اورعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے سوال کیا گیا کہ نبی ﷺ کے اعمال کی کیفیت کیا تھی ؟ کیا وہ ایام میں سے کسی دن کوخاص کیا کرتے تھے ؟
توعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا نے جواب میں فرمایا :
نہیں ان کے اعمال توہمیشگی والے ہوتے تھے ، اورتم میں سے کون ہے جو یہ طاقت رکھے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح عمل کرسکے ۔
توعبادات کی مشروعیت ان کی شرائط اللہ تعالی کے ذکر کی طرح ہیں ، اورحج اور عمرہ اوران کےنوافل ، اور امربالمعروف(اچھائی کی ترغیب و تلقین کرنا) اورنہی عن المنکر(برائی سے روکنا) ، طلب علم ، جھاد فی سبیل اللہ ، اوراس کے علاوہ دوسرے اعمالِ صالحہ کرنے کی کوشش کریں اوران پر مداومت اورہمیشگی اختیارکریں ۔
اورحسبِ استطاعت عبادات کوبجالانے کی کوشش کریں ، اللہ تعالی ہمارے نبی محمد ﷺ ان کی آل اوران کے صحابہ کرام رضي اللہ تعالی عنہم پر رحمتیں نازل فرمائے ، آمین یا رب العالمین ۔ واللہ اعلم .
دیکھیں: مجلہ الدعوۃ ( عربی ) عدد نمبر ( 1774 ) صفحہ نمبر ( 12 ) ۔