رمضان! قرآن اور خود احتسابی کا مہینہ

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، جو زمین اور آسمانوں کا پروردگار ہے، وہ نعمتیں اور برکتیں دینے والا ہے، ہماری بندگی سے اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، اور ہماری خطائیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، نیکی اور بدی کا نفع اور نقصان اِنہیں کرنے والے کو ہی ہوتا ہے، اور اللہ تعالی تمام مخلوقات سے بے نیاز ہے، میں اپنے رب کی حمد خوانی کرتا ہوں اور اس کی نعمتوں پر اسی کا شکر گزار ہوں، اللہ تعالی کی ایسی نعمتیں جنہیں ہم جانتے ہیں یا نہیں ہر نعمت کے بدلے حمد و شکر اسی کے لیے ہے، میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، اس کے اچھے اچھے نام ہیں اور اس کی صفات عظیم ترین ہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے ، اور اس کے رسول ہیں، آپ کی براہین اور معجزوں کے ذریعے تائید کی گئی، یا اللہ! اپنے بندے ، اور رسول محمد ، ان کی اولاد اور نیکیوں کی طرف سبقت لے جانے والے صحابہ کرام پر اپنی رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

تقوی الہی اختیار کرو، اور اس کے لیے ایسے کام کرو جو اُسے راضی کر دیں، نیز اللہ تعالی کے غضب اور نافرمانی سے محفوظ کر دیں۔ صرف متقی ہی کامیاب ہوں گے اور مجرم لوگ ہی نقصان اٹھائیں گے۔

مسلمانوں!

محاسبہ نفس، عبادت کے لیے محنت، زیادہ سے زیادہ نیکیوں کا حصول ، اللہ تعالی کی توفیق سے کی جانیوالی نیکیوں پر دوام، عمل صالح کی توفیق اور نیکیوں کو ضائع کرنے والے اعمال سے اجتناب ؛ دنیا و آخرت میں عین سعادت مندی اور کامیابی کا باعث ہیں، فرمان باری تعالی ہے:

{وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى[40] فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى}

 اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا، اور نفس کو خواہشات سے روکا [40] تو بیشک جنت ہی اسکا ٹھکانا ہوگی[النازعات : 40-41]

ایسے ہی اللہ تعالی نے اہل جنت کے بارے میں فرمایا:

 {وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ (25) قَالُوا إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ (26) فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ}

 اور وہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال کریں گے [25] کہیں گے: اس سے پہلے ہم اپنے گھر والوں میں سہمے ہوئے رہا کرتے تھے۔ [26] پھر اللہ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں لو کے عذاب سے بچا لیا۔ [الطور: 25 – 27]

اسی طرح فرمایا:

 {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ}

اے ایمان والوں! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور اپنے اعمال ضائع مت کرو۔ [محمد: 33]

امام ابن کثیر رحمہ اللہ ، اللہ تعالی کے فرمان:

{وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ}

 اور ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کے لئے کیا بھیجا ہے [الحشر: 18]

کی تفسیر میں کہتے ہیں: “تم خود اپنا محاسبہ کر لو اس سے قبل کے تمہارا محاسبہ کیا جائے، یہ دیکھ لو کہ تم نے اپنے لیے کتنے نیک عمل کیے ہیں جو روز قیامت تمہارے لیے مفید ہوں اور تم اُنہیں اپنے رب کے سامنے پیش کر سکو” ختم شد

اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (عقلمند وہ ہے جو اپنے آپ کو پہچان لے، اور موت کے بعد کے لئے تیاری کرے، اور وہ شخص عاجز ہے جو چلے تو نفسانی خواہشات کے پیچھے لیکن امیدیں اللہ سے لگائے۔)یہ حدیث حسن ہے۔

بالکل اسی طرح بدبختی، ذلت اور رسوائی ؛ ہوس پرستی اور حرام کاموں کے ارتکاب میں ہے، ایسے ہی نیکیاں ترک کرنے یا نیکیوں کو تباہ کرنے والے اعمال بھی ذلت و رسوائی کا باعث بنتے ہیں۔

انسان کو بطور نقصان اتنا ہی کافی ہے کہ کوئی ایسی حرکت کرے جس سے اس کی نیکیوں کا ثواب کم ہو جائے۔

مسلمانوں!

تم دیکھ رہے ہو کہ دن اور رات کس تیزی کے ساتھ گزرتے جا رہے ہیں، سالہا سال بھی کس قدر سرعت کے ساتھ گزر رہے ہیں، کوئی بھی دن گزرنے کے بعد دوبارہ کبھی واپس نہیں آئے گا، اور زندگی شب و روز کے گزرنے کا نام ہی تو ہے۔ اس کے بعد موت آ جائے گی اور تمام کی تمام امیدیں ختم ہو جائیں گی، تب خواہشات کا دھوکا سب پر عیاں ہو جائے گا۔

اب تک خیر و برکت والے مہینے کا اکثر وقت بیت چکا ہے، چند ایام، راتیں اور رحمت بھری معمولی سی ساعتیں باقی رہ گئی ہیں، پیوستہ دنوں میں جس نے خوب اچھی محنت کی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرے کہ اللہ تعالی نے اسے نیکیاں کرنے کی توفیق دی اور ان کے لیے مدد بھی فرمائی، اسے چاہیے کہ اپنے اعمال کو ضائع کرنے والے امور سے بچائے، اور ثواب میں کمی کا باعث بننے والی چیزوں سے اجتناب کرے ، نیز ایسا کوئی کام نہ کرے جو اسے سزا کا مستحق بنا دے، گزشتہ دنوں میں کی ہوئی محنت کے بعد مزید بڑھ چڑھ کر محنت کرے۔

اور جو شخص گزشتہ دونوں میں کمی کوتاہی کا شکار رہا ہے تو وہ اب بھی کمر کس لے، اور بھر پور طریقے سے عبادت اور نیکیاں کرے تا کہ سابقہ کمی کوتاہی پوری ہو جائے؛ کیونکہ نتائج اختتام کے مطابق نکلتے ہیں۔

لیلۃ القدر پانے کی امید ابھی تک موجود ہے۔ گناہ جتنے بھی ہوں؛ اللہ تعالی کی رحمت ، مغفرت، حلم ، کرم اور معافی سے مٹ سکتے ہیں، ایک حدیث میں ہے کہ : (جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی امید سے قیام کرے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں) اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 {لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ}

شب قدر ہزار مہینے سے بھی افضل ہے۔ [القدر: 3]

مفسرین کہتے ہیں کہ: “اس رات کی عبادت ایسے ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے، جن میں لیلۃ القدر شامل نہ ہو”

ابو مصعب احمد بن ابو بکر زہری کہتے ہیں کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے بتلایا کہ ان تک یہ بات پہنچی کہ: (رسول اللہ ﷺ کو سابقہ لوگوں کی عمریں دکھائیں گئیں، تو آپ کو اپنی امت کی عمریں بہت کم محسوس ہوئیں اور یہ کہ آپ کی امت اتنے زیادہ عمل نہیں کر سکے گی جو سابقہ امتوں کے لوگ لمبی عمروں کی وجہ سے کر چکے ہیں، تو اللہ تعالی نے آپ کو لیلۃ القدر عطا فرمائی جو ہزار ماہ سے بھی بہتر ہے)

اللہ تعالی کے حکمت بھرے عظیم فیصلوں اور وسیع رحمت میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ تعالی نے امت اسلامیہ پر ماہ رمضان کے روزے فرض قرار دئیے اسی میں قرآن بھی نازل کیا گیا ، پھر رسول اللہ ﷺ نے ماہ رمضان میں قیام فرمایا، اور امت کو بھی قیام کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: (جو شخص رمضان میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی امید سے قیام کرے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں) اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

قرآن و سنت نے اس مبارک مہینے میں ہمہ قسم کی نیکیاں کرنے کی ترغیب دلائی ہے، چنانچہ اس مہینے کے روزے فرض قرار دئیے، قیام کے لیے ابھارا، اور دیگر نیکیاں کرنے کی ترغیب دی؛ یہ سب کچھ قرآن کریم جیسی نعمت کے ملنے پر اللہ کا شکر ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کو جہان والوں پر رحمت کرتے ہوئے نازل فرمایا؛ کیونکہ قرآن کریم انتہائی عظیم ترین اور جلیل القدر نعمت ہے، یہ اللہ تعالی کا بے پناہ احسان ہے؛ قرآن کریم کے ذریعے روح کو غذا ملتی ہے، قرآن کریم امت اسلامیہ کے لیے اولین روحانی نعمت ہے، اس کے بعد ایمان کی نعمت کا درجہ ہے۔

چنانچہ اس امت میں سے جس شخص کو اللہ تعالی ایمان کی توفیق دے دے تو اسے اولین عمومی نعمت یعنی قرآن کریم اور اولین ذاتی نوعیت کی نعمت یعنی ایمان؛ دونوں ہی مل گئی ہیں۔

قرآن کریم اور نعمتِ ایمان کا حق یہ ہے کہ اللہ تعالی کا شکر ادا کریں۔ روزہ، قیام، اور دیگر انواع و اقسام کی نیکیاں بھی اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ہیں اور باعث قرب الہی ہیں۔

 نعمتوں پر شکر کرنا اللہ تعالی کا ہم پر حق ہے، اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے زبانی اور عملی ہر دو طرح سے کوشش کریں، اور نعمت عطا کرنے والے اللہ تعالی سے محبت بھی کریں، اس بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ (1) فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ

بیشک ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا کی [1] پس آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔[الكوثر: 1، 2]

 اور کوثر کا معنی ہے وسیع ،برکتوں والی مسلسل بھلائی ؛ اسی بھلائی میں نہر کوثر بھی شامل ہے۔ تو اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کی رہنمائی فرمائی کہ خیر و بھلائی حاصل ہونے پر اللہ تعالی کا حق ادا کرنے کیلیے نماز اور دیگر عبادت بروئے کار لائیں؛ تا کہ اس میں آپ ﷺ کا بھی فائدہ ہو اور شکر بھی ادا ہو ۔

نبی ﷺ نے بھی عبادت کے تمام درجات کا پورا حق ادا فرمایا، آپ ﷺ نے انہیں مکمل اور احسن ترین انداز میں انجام دیا، نیز اللہ تعالی نے آپ کی رہنمائی فرمائی کہ لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں، انہیں کھانا کھلائیں اور ہر طرح سے ان کے کام آئیں، تو آپ ﷺ نے اس پر بھی مکمل عمل فرمایا ، تو یہ ہے ہمارے نبی سیدنا محمد ﷺ کا نعمتوں کے لیے انداز شکر۔

اللہ تعالی نے بھی آپ ﷺ کو شکر گزار بننے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

 {بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ}بلکہ آپ صرف اللہ ہی کی عبادت کریں اور شکر گزاروں میں شامل رہیں۔ [الزمر: 66]

آپ ﷺ سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا تھا: “اللہ کے رسول! آپ اتنی لمبی نماز کیوں پڑھتے ہیں کہ آپ کے قدم سوج جاتے ہیں؟! حالانکہ اللہ تعالی نے آپ کی گزشتہ و پیوستہ ساری لغزشیں بھی معاف فرما دی ہیں!” تو آپ ﷺ نے فرمایا : (تو کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنو؟!) بخاری، مسلم

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ}

 اے آل داؤد! اس کے شکر میں نیک عمل کرو، میرے بندوں میں سے شکر گزار کم ہی ہوتے ہیں۔ [سبأ: 13]

اسی طرح اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کے لیے فرمایا تھا:

 { فَخُذْ مَا آتَيْتُكَ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ}

جو کچھ میں نے تجھے دیا اس پر عمل پیرا ہو اور میرا شکر گزار بن جا ۔[الأعراف: 144]

ایسے ہی اللہ تعالی مریم علیہا السلام پر ہونے والی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:

 {يَامَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ}

اے مریم! اپنے رب کی اطاعت کر، اور سجدہ کر، اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر۔ [آل عمران: 43]

اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں فرمایا:

 {تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ}

 تم انہیں رکوع و سجود کرتے ہوئے اور اللہ کے فضل اور اس کی رضا مندی کی تلاش کرتے ہوئے دیکھو گے ، سجدوں کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر علامات موجود ہیں۔ [الفتح: 29]

تو اس لیے رمضان المبارک میں عبادات؛ قرآن کی نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرنے کا ایک مظہر ہیں۔

قرآن کریم کا رمضان میں روح پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے، چنانچہ قرآن روح کی بھلائی کی جانب رہنمائی کرتا ہے، اسے ہمہ قسم کی برائی سے روکتا ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس وقت نفس امارہ روزے کی وجہ سے کمزور ہو جائے اور روح کو قرآن سے غذا ملے تو انسانی روح میں بہتری آتی ہے۔

اے مسلم!

اپنے آپ کو پرکھو، کیا تم نے رمضان میں توبہ کر لی ہے؟

کیا رمضان میں موت کے بعد والی زندگی کے لیے کچھ کیا ہے؟

کیا تم نے غصب شدہ مال واپس کر دیا ہے، اور آئندہ لوٹ کھسوٹ سے باز آ گئے ہو؟

کیا تم اپنی حرکتوں سے باز آ گئے ہو؟

کیا تم نے لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ شروع کر دیا ہے؟

کیا تم نے صلہ رحمی شروع کر دی ہے؟

کیا تم اپنے والدین سے حسن سلوک شروع کر چکے ہو؟

کیا تم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا شروع کر دیا ہے؟

کیا تم نے سود خوری اور حرام خوری سے اپنے آپ کو روک لیا ہے؟

کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور صحابہ و تابعین کے نقش قدم پر چلنا شروع کر دیا ہے؟ کہ وہ رمضان میں صاف ضمیر، اعلی کردار، ایمان میں اضافے اور پختہ یقین کی دولت سے سرفراز ہو تے تھے، [کیا تم بھی یہ دولت پا رہے ہو؟

اپنا نامہ اعمال دنیا میں خود ہی پڑھ لو ، اس سے قبل کہ تمہیں آخرت میں کہا جائے :

 {اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا}

 خود ہی اپنی کتاب پڑھ لے۔ آج توں خود ہی اپنا حساب لینے کو کافی ہے۔ [الإسراء: 14]

قرآن کریم اللہ تعالی کی عظیم ترین نعمت ہے، قرآن کریم کو اللہ تعالی نے رمضان میں نازل فرمایا، اور مسلمانوں کے حالات کی بہتری قرآن و سنت سے ہی ممکن ہے، دنیا جہان کے اول تا آخر تمام مفکرین، زندہ اور مردہ سب کے سب بھی کسی بحران کے حل کے لیے جمع ہو جائیں تو انہیں اس کا حل قرآن کے بغیر نہیں ملے گا، آپ اللہ تعالی کے بارے میں عقیدے کے مسائل ہی دیکھ لیں، اسما وصفات ، اللہ تعالی کے افعال ، اور عبادت سے متعلق اللہ تعالی کے حقوق ؛ ان سب امور کے متعلق آپ کو کتنے نظریات ملیں گے؟ انہیں شمار نہیں کیا جا سکتا ، تو ان تمام نظریات میں سے حق وہی ہے جو قرآن کریم نے کہہ دیا ہے۔

اسی طرح اقتصادی بحران نے بھی دنیا جہان کے مفکرین اور دانشوروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، اس کے متعلق بھی حق بات وہی ہے جو قرآن و سنت نے کہہ دی۔ تو مسلمانوں کے جتنے بھی مسائل ہیں ان کا حل قرآن کریم میں موجود ہے، جبکہ کچھ غیر مسلموں نے بھی اسلامی شریعت سے جزوی فائدہ اٹھایا ہے۔

اب یہ تو نہیں ہو سکتا ہے کہ سب کے سب لوگ ہی مسلمان ہو جائیں، تاہم مسلمانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خود کتاب و سنت پر مضبوطی سے عمل پیرا ہوں، جس وقت لوگ مسلمانوں کو -چاہے دنیاوی امور میں ہی سہی -عملی میدان میں بطور نمونہ دیکھیں گے تو وہ بھی مسلمانوں سے استفادہ کریں گے۔

آدم کی ساری اولاد خطا کار ہے، اور خطا کاروں میں سے بہترین وہ ہیں جو بہت زیادہ توبہ کرنے والے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 {إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا}

 یقیناً یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اور نیک عمل کرنے والے مومنوں کو اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔ [الإسراء: 9]

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین ﷺ کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو ۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کیلیے ہیں ، میں اسی کی حمد خوانی اور شکر بجا لاتا ہوں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اسکے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا اور یکتا ہے ، وہ بہت مضبوط اور قوت والا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے اور امانتدار رسول ہیں ، یا اللہ !اپنے بندے اور رسول محمد ، ان کی آل، اور صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی اور برکتیں نازل فرما

حمد و صلاۃ کے بعد:

تقوی الہی اپناؤ ، اللہ کے احکامات کی تعمیل کرو، جن امور سے روکا ہے ان سے رک جاؤ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى (14) وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى}

وہ کامیاب ہو گیا جس نے اپنا تزکیہ کر لیا، اور اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھی۔[الأعلى: 14، 15]

سیدنا عمر بن عبد العزیز سے مروی ہے کہ وہ لوگوں کو فطرانہ ادا کرنے کا حکم دیتے تو یہ آیت پڑھتے تھے۔

فطرانہ یا فطرہ ہر مسلمان پر واجب ہے، چنانچہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : (رسول اللہ ﷺ نے فطرانے کی مقدار ایک صاع گندم، یا ایک صاع جو، یا ایک صاع کھجور، یا ایک صاع پنیر، یا ایک صاع کشمش مقرر فرمائی) ایک صاع کی مقدار تین کلو سے کچھ کم ہے، تین کلو اناج دینا محتاط عمل ہے، فطرانے میں کوئی بھی علاقائی غذائی جنس دی جا سکتی ہے۔

فطرانہ ہر چھوٹے، بڑے، مرد، عورت پر فرض ہے، فطرانہ عید سے ایک یا دو دن پہلے تک دیا جا سکتا ہے، فطرانہ روزے دار کو لغویات سے پاک کرتا ہے اور دوران روزہ جو کچھ کمی کوتاہی ہوئی ہو اسے پورا کر دیتا ہے، جو شخص فطرانہ نماز عید سے پہلے ادا کر دے تو اس نے وقت پر ادا کر دیا، جبکہ نماز کے بعد ادا کرنے پر وہ عام صدقہ ہو گا۔

اللہ کے بندوں !

{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا}

 یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو [الأحزاب: 56]

 اور آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ: (جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا)

اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود پڑھو۔

اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد ۔

یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا،یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، اور علی سے راضی ہو جا، تابعین کرام اور قیامت تک ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہوجا، یا اللہ ! ان کے ساتھ ساتھ اپنی رحمت، اور کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین! یا اللہ ! ان کے ساتھ ساتھ اپنی رحمت، اور کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین! یا اللہ ! ان کے ساتھ ساتھ اپنی رحمت، اور کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما۔ یا اللہ! کفر اور کافروں سمیت شرک اور مشرکوں کو بھی ذلیل و رسوا فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! تیرے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما دے، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! دنیا و آخرت میں ہم تجھ سے عفو، عافیت، اور دائمی معافی کے طلب گار ہیں۔

یا اللہ! ہمارے سب معاملات کے نتائج بہتر فرما، اور ہمیں دنیا و آخرت کی رسوائی سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! توں نے جن نیکیوں کی ہمیں توفیق دی اور توں نے جن نیکیوں کو بجا لانے کے لیے مدد فرمائی ہے۔ یا اللہ! ہماری وہ تمام نیکیاں ہم سے قبول فرما، یا اللہ! ان نیکیوں کو ہم سب مسلمانوں کے لیے محفوظ بھی فرما لے، یا رب العالمین!

یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے ہماری سب خطائیں بھی معاف فرما دے، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے تمام مسلمان فوت شدگان کی بخشش فرما، یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان کی بخشش فرما۔ یا اللہ! ساری دنیا میں مسلمانوں کے حالات سنوار دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہم سب مسلمانوں کو ہدایت یافتہ بنا دے، یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے ہم سب مسلمانوں کو مغفرت عطا فرما، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! ہم جنت اور اس کے قریب کر دینے والے ہر قول و فعل کا تجھ سے سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہم تجھ سے جہنم اور اس سے قریب کر دینے والے ہر قول و فعل سے پناہ مانگتے ہیں۔

یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان اور شیطانی چیلوں اور شیطانی لشکروں سے محفوظ فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! مسلمانوں کو شیطان اور شیطانی چیلوں اور شیطانی لشکروں سے محفوظ فرما، یا ذالجلال والا کرام!

یا اللہ! ہم تجھ سے اپنے نفس اور برے اعمال کے شر سے تیری پناہ مانگتے ہیں، یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے تمام مسلمانوں کو ان کے نفسوں اور برے اعمال کے شر سے تیری پناہ عطا فرما۔ یا رب العالمین!

یا اللہ! ہر قسم کے فتنوں کا خاتمہ فرما دے، یا اللہ! ہر قسم کے فتنوں کو بھسم فرما دے، یا اللہ! مسلمانوں کو فتنوں سے بچا دے، یا اللہ! ہمیں اور تمام مسلمانوں کو گمراہ کن فتنوں سے محفوظ فرما دے، یا اللہ! ہمارے دلوں کو تیری اطاعت پر ثابت قدم بنا دے، یا اللہ! دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو تیری اطاعت کی جانب پھیر دے، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ ہماری فوج کی ظالموں کے خلاف مدد فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمارے ملک کی اور تمام اسلامی ممالک کی ہمہ قسم کے شر اور برائی سے حفاظت فرما، یا ذالجلال والا کرام! یا اللہ! تمام اسلامی ممالک کو گمراہ کن فتنوں سے محفوظ فرما، بیشک توں ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! تمام مسلمان مرد و خواتین اور مومن مرد و خواتین کے امور خود ہی سنوار دے، یا ذالجلال والا کرام!

یا اللہ! ایک لمحے یا اس بھی کم وقت کے لیے بھی ہمیں ہمارے اپنے رحم و کرم پر مت چھوڑنا۔

یا اللہ! اپنے بندے خادم حرمین شریفین کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! ان کی تیری مرضی کے مطابق رہنمائی فرما، اور ان کے تمام اعمال اپنی رضا کے لئے قبول فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! ہر نیکی کے کام کی انہیں توفیق دے، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے، اس کے ولی عہد کو بھی تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، اور ان کی تیری مرضی کے مطابق رہنمائی فرما۔ یا رب العالمین!

یا اللہ! ہم تجھ سے اس ماہ کے بہترین اختتام کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ اس مبارک مہینے کو ہم سب مسلمانوں کے لیے ماہ خیر و برکت بنا دے، یا اللہ! ہر ماہ رمضان کو ہم سب مسلمانوں کے خیر و برکت والا بنا دے۔ یا ارحم الراحمین!

اللہ کے بندوں !

{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ}

اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کا حکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو [النحل: 90]

اللہ کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اس کی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور اللہ تعالی جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔

   فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ: آپ ان دنوں مسجد نبوی کے امام ، قبل ازیں مسجد قباء کے امام تھے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ خوبصورت آواز میں بہترین لہجے میں قرات قرآن کی وجہ سے دنیا بھر میں آپ کے محبین موجود ہیں ، اللہ تعالیٰ تادیر آپ کی دینی خدمات کا سلسلہ جاری رکھے ۔آمین