رب کی رضامندی کی سات نشانیاں

سات نشانیاں آپ کو بتاتی  ہیں کہ اللہ تعالیٰ  آپ سے راضی ہے۔

اعمال کی قبولیت کے لیے رضائے الٰہی اور اخلاصِ نیت نہایت ضروری ہے۔ اگر انسان کے پیشِ نظر اللہ کی خوشنودی نہیں ہے اور وہ محض اپنی ذات کو شہرت کی بلندی تک پہنچانے کے لئے اور مقبولیت کا مقام حاصل کرنے کیلئے ہر جائز و ناجائز طریقے اپناتا ہے تو اللہ رب العزت کی نگاہ میں وہ مردود ہو جاتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی ملاقات کی نہ امید رکھتا ہے نہ شوق، ان کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

 اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا وَ رَضُوْا بِالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ اطْمَاَنُّوْا بِهَا وَ الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ اٰيٰتِنَا غٰفِلُوْنَ ، اُولٰٓىِٕكَ مَاْوٰىهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ

( یونس : 7۔ 8)

بے شک وہ لوگ جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے اور وہ دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے اور اس پر مطمئن ہو گئے اور وہ لوگ جو ہماری آیات سے غافل ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے، اس کے بدلے جو وہ کمایا کرتے تھے۔‘

سب سے بڑی کامیابی

رب کی رضامندی سب سے بڑی کامیابی  ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللہِ أَكْبَرُ  ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

( سورة التوبة :72)

اور اللہ کی رضامندی سب سے بڑی چیز ہے۔ یہی زبردست کامیابی ہے۔

جنت کی سب  سے بڑی نعمت

جنت کی تمام نعمتوں سے بڑی نعمت اللہ کی رضامندی ہے۔ اللہ کی رضامندی جنت کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے۔ یہی بڑی کامیابی ہے کیونکہ اسی نعمت کی بدولت ان کا ہر مطلوب و مقصود حاصل ہوگا۔ اسی نعمت کی بدولت ان سے ہر خوف دور ہوگا اور  ان کے تمام معاملات خوبصورت اور خوشگوار ہوں گے۔ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

إنَّ اللہَ تَبارَكَ وتَعالَى يقولُ لأهْلِ الجَنَّةِ: يا أهْلَ الجَنَّةِ، فيَقولونَ: لَبَّيْكَ رَبَّنا وسَعْدَيْكَ، فيَقولُ: هلْ رَضِيتُمْ؟ فيَقولونَ: وما لنا لا نَرْضَى وقدْ أعْطَيْتَنا ما لَمْ تُعْطِ أحَدًا مِن خَلْقِكَ؟ فيَقولُ: أنا أُعْطِيكُمْ أفْضَلَ مِن ذلكَ، قالوا: يا رَبِّ، وأَيُّ شَيءٍ أفْضَلُ مِن ذلكَ؟ فيَقولُ: أُحِلُّ علَيْكُم رِضْوانِي، فلا أسْخَطُ علَيْكُم بَعْدَهُ أبَدًا

( صحیح البخاری: 7518، ومسلم : 2829)

’’اللہ تعالیٰ جنت والوں سے فرمائے گا : ’’اے جنت والوں! کیا تم خوش ہو گئے؟‘‘ وہ عرض کریں گے : ’’اے ہمارے پروردگار! ہم خوش کیوں نہ ہوں، تو نے ہمیں وہ کچھ عنایت فرمایا جو اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیا۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ’’کیا میں تمھیں ان تمام نعمتوں سے بڑھ کر ایک اور نعمت نہ دوں؟‘‘ وہ عرض کریں گے : ’’اب اس سے بڑھ کر اور کون سی نعمت ہو سکتی ہے؟‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ’’میں تمھیں اپنی خوشنودی سے نوازتا ہوں، اب کبھی تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔

’’ رِضْوَانٌ ‘‘

میں تنوینِ تقلیل اللہ تعالیٰ کی رضا کی عظمت بیان کرنے کے لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تھوڑی سی تھوڑی رضا مندی بھی جنت کی نعمتوں اور جنتِ عدن کے پاکیزہ مکانوں سے بہت ہی بڑی ہے، یہی تو بہت بڑی کامیابی ہے۔

علامہ محمد أنور شاه ہندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

هذا الحديث دليلٌ على أن مقام الرضا من الله تعالى على العبد المؤمن فوقَ جميع المقامات1

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ  بندے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رضامندی کا شرف و مقام تمام مقامات سے اونچا و بالاتر ہے۔

رب کی رضامندی کی سات نشانیاں

اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور خوشنودی کے حصول کے بہت سے اسباب اور ذرائع ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضامندی مسلمان کا عظیم ترین مقصد ہے ، جو بھی مسلمان اللہ تعالیٰ  کو دل و جان سے اپنا رب مان لیا ہو ، اسےاللہ تعالیٰ کی رضامندی اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے طریقے جاننے ، سمجھنے اور اپنانے کا اہتمام اور فکر کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور خوشنودی کی سب سے بڑی علامت اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار اور سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی ہے۔ چند نشانیاں ایسی ہیں جو  آپ کو بتاتی ہیں کہ اللہ آپ سے راضی ہے۔ درج ذیل سطور میں چند نیک اعمال کا تذکرہ کیا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی نشانی اور اس کی خوشنودی کی علامت ہے ۔ ان نشانیوں سے یہ معلوم ہوگا کہ ہمارا رب ہم سے راضی ہے یا نہیں۔

پہلی نشانی ۔ الحمد للہ کہنا

سب سے بڑی بنیادی علامت جو آپ کو بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہے وہ  آپ کا ہر حال میں الحمد للہ پڑھنا ہے یعنی  اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرنا۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی زندگی میں مختلف مسائل، حادثات ، بیماریوں سے دوچار ہوتا ہے لیکن جب آپ بیمار ہوتے ہیں یا کوئی چیز کھو دیتے ہیں یا کوئی لاعلاج مسئلہ درپیش ہوتا ہے یعنی اس کا علاج مشکل ہوتا ہے، کیا آپ اس  مشکل وقت میں  الحمد للہ کہتے ہیں؟ کیا آپ اپنے آپ کو لاشعوری طور پر الحمد للہ کہتے ہوئے پاتے ہیں؟ یہ کلمہ قرآن مجید میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد پہلی آیت ہے۔ اسی کلمہ الحمد للہ سے سورہ فاتحہ کا آغاز ہوتا ہے ۔ نبی کریم ﷺ ہر نماز کے بعد 33 بار الحمد للہ پڑھا کرتے تھے ۔ آپ ﷺ ہر وقت اللہ کا شکر ادا کرتے رہتے تھے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

 لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ

( سورہ ابراہیم :7)

اگر تم شکر کرو گے تو تمہیں اور زیادہ دوں گا۔

اگر آپ  کو الحمد للہ کہنے کی عادت ہے ، اگر آپ کی زبان اکثر اوقات اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتی ہے  یعنی آپ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہتے  ہیں تو جان لیں کہ آپ ایک خوش نصیب انسان ہیں کہ وہ ذات جس نے آپ کو ہر لمحہ الحمد للہ کہنے کی توفیق دی ہے وہ آپ سے راضی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس وقت تک الحمد للہ کہنے کی توفیق نہیں دیتا جب تک کہ وہ اس سے راضی نہ ہو۔

  الحمد للہ کی تین فضیلتیں ملاحظہ کیجئے۔

الحمد للہ : رب کا پسندیدہ کلمہ

الحمد للہ رب کا پسندیدہ کلمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کو الحمد للہ کہنا بے حد پسند ہے۔ سیدنا اسود بن سریع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:

كنت شاعرا، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت‏:‏ يا رسولَ اللهِ ألا أنشُدُك محامدَ حمَدتُ بها ربّي قال إنَّ ربَّك يحبُّ الحمدَ

(صحيح الأدب المفرد :660).

میں شاعر تھا چنانچہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو میں نے کہا: کیا میں آپ کو شعر نہ سناؤں جن کے ساتھ میں نے اپنے رب کی حمد بیان کی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ تیرا رب تعریفوں کو پسند کرتا ہے۔

الحمد للہ : بہترین دعا ہے

الحمد للہ بہترین دعا ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

أَفْضَلُ الذِّكْرِ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَفْضَلُ الدُّعَاءِ: الْحَمْدُ لِلَّهِ

(صحيح الترمذي :2694).

سب سے بہترین ذکر لاالہ الا اللہ ہے اور سب سے بہترین دعا الحمد للہ ہے ۔

الحمد للہ : میزان کو بھر دیتا ہے

الحمد للہ میزان کو نیکیوں سے بھر دیتا ہے۔ ابو مالک حارث بن اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ، وَالْحَمْدُ لِلہِ تَمْلَأُ الْمِيزَانَ

 (صحیح مسلم :223).

پاکیزگی نصف ایمان ہے اور الحمدللہ میزان کو بھر دیتا ہے۔

دوسری نشانی ۔ رفاہی خدمات

دوسری نشانی جو آپ کو بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہے وہ رفاہی کام ہیں ۔ یعنی دکھی انسانیت کی خدمت آپ کو اللہ کا محبوب بنا دیتی ہے۔ کیا آپ کو فلاحی کام کرنا پسند ہے؟ کیا آپ فلاحی کام کرنے میں جلدی کرتے ہیں؟ کیا آپ لاشعوری طور پر محتاجوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ کیا آپ کے دل میں ضرورت مندوں کی مدد کرنے کا خیال آتا ہے؟ اگر آپ کو معلوم ہوجائےکہ ایک غریب آدمی ہے، اسے مدد کی ضرورت ہے تو آپ لاشعوری طور پر اس کی مدد کرتے ہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو  یہ  نہایت عمدہ صفت ہے کیونکہ یہ انبیاء کی صفات میں سے ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ

(الأنبياء : 90).

یہ سب لوگ بھلائی کے کاموں کے طرف لپکتے تھے۔

اگر آپ  فقیروں ، محتاجوں ، ضرورت مندوں اور غریبوں کی مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں تو اس بات کا یقین کیجیے کہ اللہ پاک آپ سے راضی ہے کیونکہ  اگر اللہ  آپ سے راضی نہ ہوتا تو وہ آپ کو رفاہی کاموں کی توفیق کبھی نہ دیتا۔

رفاہی کام کی تین فضیلتیں ملاحظہ کیجیے

رفاہی کام کرنے والا سب سے افضل انسان

مذہبِ اسلام میں سب سے زیادہ افضل انسان اسے کہا گیا ہے جو اپنی دین داری کے ساتھ لوگوں کے لیے زیادہ مفید اور کار آمد بھی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

أَحَبُّ الناسِ إلى اللهِ أنفعُهم للناسِ ، وأَحَبُّ الأعمالِ إلى اللهِ عزَّ وجلَّ سرورٌ تُدخِلُه على مسلمٍ ، تَكشِفُ عنه كُربةً ، أو تقضِي عنه دَيْنًا ، أو تَطرُدُ عنه جوعًا

(صحیح الترغیب : 2623)

لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب اللہ کے ہاں وہ شخص ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ نفع دینے والا ہے اور اللہ کو سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ خوشی ہے جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو دے یا اس سے مصیبت دور کرے یا اس کا قرض ادا کرے یا اس کی بھوک ختم کرے۔

رفاہی کام بری موت سے بچاتا ہے۔

دکھی انسانیت کی خدمت برے انجام اور بری موت سے بچاتی ہے ، مصائب اور پریشانیوں کو آپ تک پہنچنے سے روکتی ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

صَنائعُ المعروفِ تَقِي مَصارعَ السُّوءِ

(صحیح الجامع : 3796)

رفاہی کام بُری موت، آفت اور ہلاکتوں سے بچاتے ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت

رفاہی کام نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔ آپ ﷺ انسانی خدمت کے لیے ہمیشہ متحرک رہتے تھے۔ بعثت سے قبل کے دور میں بھی آپ ﷺ ہی تھے جو دُکھی لوگوں کی دست گیری کرتے تھے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کا تعارف ان سنہرے اور جامع الفاظ میں کرایا ہے۔

کَلَّا وَاللہِ لَا یُخْزِیَكَ اللہُ اَبَدًا اِنَّك لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِیْ الضَّیْفَ وَ تُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ

(صحیح البخاری : 3)

ترجمہ : اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو کبھی رنج نہ دے گا ، آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں ، آپ ناتوانوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ، آپ ناداروں کے لیے کماتے ہیں ، آپ مہمان نوازی کرتے ہیں ، آپ حوادث کے زمانے میں متاثرہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔

تیسری نشانی ۔ دعا

تیسری نشانی جو آپ کو بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہے وہ دعا ہے۔ یعنی دعا کی کثرت آپ کو اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے کیونکہ دعا کرنا عبادت ہے بلکہ دعا عبادت کا مغز ہے ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا

 (الأنبياء:90).

یہ لوگ ہمیں شوق اور خوف سے پکارتے تھے۔

دعا کی تین فضیلتیں ملاحظہ کیجیے

اللہ کے ہاں سب سے معزز چیز دعا ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

ليسَ شيءٌ أَكْرَمَ على اللَّهِ تعالى منَ الدُّعاءِ

(صحیح الترمذی : 337)

اللہ تعالی کے ہاں کوئی بھی چیز دعا سے بڑھ کر معزز نہیں ہے۔

دعا تقدیر کو بدل دیتی ہے

لا يزيدُ في العمرِ إلَّا البرُّ ولا يردُّ القدرَ إلَّا الدُّعاءُ

(صحیح ابن ماجه : 73)

دعا آنے والی مصیبت اور آئی ہوئی مصیبت دونوں کو دُور کرتی ہے

دعا مصائب کو ٹال دیتی ہے

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ الدعاءَ يَنْفَعُ مِمَّا نزلَ ومِمَّا لمْ يَنْزِلْ ، فَعليكُمْ عِبادَ اللهِ بالدعاءِ

(صحیح الترغیب: 1634 ، وصحیح الجامع: 3409)

دعا اس مصیبت کو بھی دور کرتی ہے جو اتر چکی ہے اور اُس مصیبت کو بھی ٹال دیتی ہے جو ابھی آئی نہیں تو اے اللہ کے بندوں! تم اللہ سے برابر دعا کرتے رہو۔

اگر آپ کثرت سے دعاؤں کا اہتمام کرتے ہیں، اگر آپ صبح و شام کے اذکار پابندی سے پڑھتے ہیں، اگر آپ سوتے وقت کی دعائیں پڑھتے ہیں، اگر آپ بیت الخلا میں داخل ہوتے ہوئے دعا پڑھتے ہیں، اگر آپ ہر لمحہ اور ہر گھڑی دعائیہ کلمات مثلا : اے رب! مجھے معاف کر دے۔ اے رب مجھے بخش دے ۔ اے رب مجھ پر رحم فرما. اے رب! میرا نقصان دور کر.. اےرب.. اےرب ؟ وغیرہ پڑھتے ہیں، یعنی  اگر آپ کی  زبان ہر وقت دعا کرتی رہتی ہے، تو اس بات کا یقین کیجیے کہ اللہ پاک آپ سے راضی ہے کیونکہ اگر اللہ  آپ سے راضی نہ ہوتا تو وہ آپکو ان دعاؤں کا الہام کبھی نہ کرتا ۔

چوتھی نشانی ۔ نماز میں خشوع و خضوع

خشوع و خضوع کا مطلب نماز کے ہر رکن کو پورے اطمینان اور سکون سے ادا کرنا ہے جسے تعدیلِ اَرکان کہا جاتا ہے۔ یعنی تعدیلِ اَرکان بھی نہایت ضروری ہے۔ بہت سے لوگ نماز پڑھتے ہیں لیکن بدقسمتی سے صرف گنتی کے چند لوگ ہی خشوع و خضوع کی لذت حاصل کر پاتے ہیں۔ حالانکہ خشوع و خضوع  نماز کی روح ہے۔ ایک مسلمان کو نماز پڑھنے کا فائدہ اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب وہ خلوصِ نیت اور نہایت خشوع و خضوع اور تعدیلِ ارکان کے ساتھ نماز ادا کرے۔ آج مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پابندی کے ساتھ نماز پڑھتی ہے لیکن ساتھ ساتھ برائیوں اور گناہوں میں بھی مبتلا ہوتی ہے حالانکہ نماز کے متعلق اللہ کا ارشاد ہے:

وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ

(سورۃ العنكبوت:45)

اور نماز قائم کیجیے۔ نماز یقیناً بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔

نماز پڑھنے کے باوجود برائیوں اور گناہوں کا عادی کیوں؟

آخر کیا وجہ ہے کہ لوگ نماز پڑھنے کے باوجود برائیوں اور گناہوں میں ملوث رہتے ہیں؟ اسکا جواب نہایت واضح ہے کہ ایسے لوگوں کی نماز خشوع و خضوع سے خالی ہوتی ہے۔ وہ نماز تو پڑھ رہے ہوتے ہیں ، ان کا جسم تو مسجد میں ہوتا ہے لیکن ان کا دل و دماغ کسی اور وادی میں بھٹک رہا ہوتا ہے، ان کے ذہن میں مختلف خیالات و وساوس گردش کر رہے ہوتے ہیں، یہ لوگ نہ  نماز کے ارکان ٹھیک سے اداکرتے ہیں اور نہ ٹھیک سے رکوع و سجود کرتے ہیں، نہ تسبیحات  اطمینان سے پڑھتے ہیں، نہ قرأت غور سے سنتے ہیں۔ بھلا ایسی نمازیں اس قابل کیوں کر ہو سکتی ہیں کہ وہ برائیوں اور بے حیائیوں سے روکیں۔

خشوع و خضوع مومن بندے کی کامیابی کی علامت 

اللہ رب العزت نے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنے والے مومنوں کو کامیابی و کامرانی کی بشارت دی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ، الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ

(سورۃ المؤمنون : 2،1 )

ترجمہ : یقیناً وہ مومن لوگ کامیاب ہوگئے جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں۔

خشوع و خضوع گناہوں کی معافی

خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھنے والوں کے لیے گذشتہ گناہوں کی معافی ہے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ما مِنَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ تَحْضُرُهُ صَلاةٌ مَكْتُوبَةٌ فيُحْسِنُ وُضُوءَها وخُشُوعَها ورُكُوعَها، إلَّا كانَتْ كَفَّارَةً لِما قَبْلَها مِنَ الذُّنُوبِ ما لَمْ يُؤْتِ كَبِيرَةً وذلكَ الدَّهْرَ كُلَّهُ

(صحیح مسلم: 228)

ترجمہ : جس مسلمان کی فرض نماز کا وقت آ جائے پھر وہ اس کے لیے اچھی طرح وضو کرے ، اچھی طرح خشوع کے ساتھ اسے ادا کرے، بہترین طریقے سے رکوع کرے تو وہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ بن جائےگی جب تک کہ وہ کسی گناہِ کبیرہ کا ارتکاب نہ کرے اور یہ فضیلت ہمیشہ کے لیے رہتی ہے ۔

خشوع و خضوع  کے ساتھ نماز پڑھنے والا جنتی

خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھنے والا جنتی ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ما مِن مُسْلِمٍ يَتَوَضَّأُ فيُحْسِنُ وُضُوءَهُ، ثُمَّ يَقُومُ فيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، مُقْبِلٌ عليهما بقَلْبِهِ ووَجْهِهِ، إلَّا وجَبَتْ له الجَنَّةُ

(صحيح مسلم: 234)

ترجمہ : جو بھی شخص اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر نہایت یکسوئی اور توجہ کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کرتا ہے تو اسکے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔

یہ دو رکعتیں تحیۃ الوضو کی نماز ہیں جن کو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیے جانے پر جنت کی بشارت مل رہی ہے۔ تو بھلا فرائض کو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنے پر انسان جنت کا مستحق کیوں نہیں ہوگا۔ لہذا نماز میں خشوع و خضوع بہت ضروری ہے۔

اگر آپ اپنی تمام عبادات ہمیشہ خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں تو جان لیں کہ اللہ پاک آپ سے راضی ہے کیونکہ  اگر اللہ آپ سے راضی نہ ہوتا تو وہ آپ کوخشوع و خضوع کی توفیق کبھی عطا نہ فرماتا۔

پانچویں نشانی ۔ تواضع و انکساری

پانچویں نشانی جو آپ کو بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہے وہ تواضع  و انکساری ہے۔ تواضع کا مطلب ہے: اپنے منصب اور مرتبہ و مقام کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کسی کی عزت کرنا اور جاہ و مرتبہ میں اپنے سے کمتر کی بھی دل سے تکریم کرنا تواضع  و انکساری کہلاتا ہے ۔

تواضع کی بنیاد

امام يحيى بن كثير رحمہ الله فرماتے ہیں :

رَأْسِ التَّوَاضُعِ ثَلاثَةٌ: أَنْ تَبْدَأَ مَنْ لَقِيتَ بِالسَّلَامِ ، وَأَنْ تَرْضَى بِالدُّونِ مِنْ شَرَفِ الْمَجْلِسِ ، وَتَكْرَهَ الْمِدْحَةَ وَالسُّمْعَةَ وَالرِّيَاءَ بِالْبِرِّ2

تواضع کی بنیاد تین چیزوں پر  ہے کہ جس سے ملو اس سے پہلے سلام کرو اور محفل میں کم درجہ کی نششت کو پسند کرو اور کسی  نیکی  پر یہ نہ چاہو کہ کوئی تمہاری تعریف و توصیف کرے ۔

تواضع  بلندی کا ذریعہ

تکبر بربادی اور ذلت لاتا ہے جبکہ عاجزی انسان کو بلند کرتی ہے۔ انسان تواضع اختیار کیے بغیر عروج، بلندی، قدر و منزلت حاصل نہیں کرسکتا۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے

وما تَواضَعَ أحَدٌ للہِ إلَّا رَفَعَهُ اللہُ

(صحیح مسلم : 8852)

جو بھی رضائے الٰہی کی خاطر تواضع اختیار کرتا ہے اللہ عزوجل اسے رفعت و بلندی عطا کرتا ہے۔

تواضع اللہ کے محبوب بندوں کی علامت

غرور و تکبر شیطان اور شیطانی صفت لوگوں کی عادت ہے جبکہ رحمان کے بندے عجز و انکساری کے حامل ہوتے ہیں ۔ یہ رب تعالیٰ کے محبوب بندوں کی علامت ہے جسے پروردگارِ عالم نے یوں سے بیان فرمایا:

(وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُونَ عَلَی الْاَرْضِ هَوْنًا)

(الفرقان : 63)

”رحمان کے بندے تو زمین پر انتہائی انکساری سے چلتے ہیں“۔

سیدنا عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

وإنَّ اللَّهَ أَوْحَى إلَيَّ أَنْ تَوَاضَعُوا حتَّى لا يَفْخَرَ أَحَدٌ علَى أَحَدٍ، وَلَا يَبْغِي أَحَدٌ علَى أَحَدٍ

(صحيح مسلم : 2865 )

”بیشک اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی ہے کہ تم تواضع اختیار کرو تاکہ کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور نہ کوئی کسی پر ظلم کرے ۔

تواضع رسول الله كی سنت

سیدنا ابو ہریرہ اور ابو ذر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ

كان رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَجْلِسُ بينَ ظهرَيْ أصحابِه ، فيجيءُ الغريبُ ، فلا يدري أيُّهم هو ، حتى يسألَ

(صحيح أبي داود : 4698)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے درمیان اس طرح بیٹھتے تھے کہ اجنبی آتا تو آپکو پہچان نہیں پاتا جب تک پوچھ نہ لیتا۔

متواضع انسان جنتی لباس كے حقدار

عاجز اور متواضع طبیعت والے لوگوں كو روزِ قیامت جنتی لباس پہنایا جائے گا۔ حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

من ترَكَ اللِّباسِ تواضعًا للہِ وَهوَ يقدرُ عليْهِ دعاهُ اللہُ يومَ القيامةِ على رؤوس الخلائقِ حتَّى يخيِّرَهُ من أي حللِ الإيمانِ شاءَ يلبسُها

(صحيح الترمذي: 2481، والسلسلة الصحیحة : 817)

جو شخص الله كے حضور تواضع اختیار کرتے ہوئے قیمتی لباس چھوڑ دے، حالاںکہ وہ اسے پہن سکتا ہو تو روزِ قیامت اللہ اسے یہ اختیار دینے کے لیے سب کے سامنے بلائے گا کہ وہ جنتی لوگوں کے لباس میں سے جس لباس کو چاہے پہن لے۔

تواضع انسان کے اندر موجود کبر و غرور کی ضد ہے۔ تواضع کے عمل سے انسان کے اندر موجود کبر و غرور کی سرکشی اور باغی صفت دم توڑتی ہیں۔ اگر آپ کے اندر یہ صفت پائی جاتی ہے تو جان لیں کہ اللہ پاک آپ سے راضی ہے کیونکہ  اگر اللہ آپ سے راضی نہ ہوتا تو وہ آپکے اندر صفتِ تواضع و انکساری کبھی پیدا نہ فرماتا۔

چھٹی نشانی ۔ راست گوئی ۔ سچ بولنے کی عادت

چھٹی نشانی جو آپ کو بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہے وہ راست گوئی ہے۔ یعنی ہمیشہ سچ بولنا کیونکہ اللہ تعالی کسی صورت میں کسی جھوٹے انسان سے راضی نہیں ہوسکتا اور مؤمن کی نشانی یہ ہے کہ وہ جھوٹ نہ بولے۔ انسانی معاشرے کا امن و سکون، راحت و چین اور اسکی تعمیر و ترقی کی بنیاد سچائی  پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں اس کو اپنانے کی بہت تاکید آئی ہے۔

سب سے نا پسندیدہ ترین عمل

رسول اللہ ﷺ کے نزدیک سب سے نا پسندیدہ و مبغوض ترین عمل جھوٹ تھا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

ما كانَ خلقٌ أبغضَ إلى رسولِ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ منَ الكذبِ ولقد كانَ الرَّجلُ يحدِّثُ عندَ النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ بالكذبةِ فما يزالُ في نفسِه حتَّى يعلمَ أنَّهُ قد أحدثَ منها توبةً

(صحيح الترمذي : 1973 )

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک جھوٹ سے زیادہ مبغوض کوئی خصلت نہ تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ سے نفرت کی وجہ سے جھوٹے سے اس وقت تک اعراض فرماتے جب تک کہ وہ توبہ نہ کرلے۔

کیا آپ اپنے کاروبار میں… اپنی زندگی میں… اپنے معاملات میں … اپنے رشتوں میں بہت زیادہ جھوٹ بولنے كے عادی ہیں؟ تو آپ الله کی رضا کے دائرے سے باہر ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

فَلَوْ صَدَقُوا اللہَ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ

(محمد:21)

ترجمہ : اگر وہ اللہ کے آگے سچے رہیں تو ان کے لیے بہتر ہے۔

سچ بولنا اللہ کا حکم ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ

( سورۃ التوبة: 119)

ترجمہ : اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور سچ بولنے والوں کے ساتھ ہو جاؤ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

علَيْكُم بالصِّدْقِ، فإنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إلى البِرِّ، وإنَّ البِرَّ يَهْدِي إلى الجَنَّةِ، وما يَزالُ الرَّجُلُ يَصْدُقُ ويَتَحَرَّى الصِّدْقَ حتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللهِ صِدِّيقًا، وإيَّاكُمْ والْكَذِبَ، فإنَّ الكَذِبَ يَهْدِي إلى الفُجُورِ، وإنَّ الفُجُورَ يَهْدِي إلى النَّارِ، وما يَزالُ الرَّجُلُ يَكْذِبُ ويَتَحَرَّى الكَذِبَ حتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللهِ كَذّابًا

(صحيح مسلم: 2607)

ترجمہ : تم صدق پر قائم رہو کیونکہ صدق نیکی کے راستے پر چلاتا ہے اور نیکی جنت کے راستے پر چلاتی ہے۔ انسان مسلسل سچ بولتا رہتا ہے اور کوشش سے سچ پر قائم رہتا ہے حتی کہ وہ اللہ کے ہاں سچا لکھ لیا جاتا ہے اور جھوٹ سے دور رہو کیونکہ جھوٹ کج روی کے راستے پر چلاتا ہے اور کج روی آگ کی طرف لے جاتی ہے۔ انسان مسلسل جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کا قصد کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسے جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے۔

ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ لوگ جھوٹ بولنے کو عام معمول کی بات سمجھنے لگے ہیں۔ اسٹیج ڈراموں، میلوں ٹھیلوں اور مختلف تقریبات میں جھوٹ کو ضروری تصور کر لیا گیا ہے حالانکہ  آپ ﷺ نے فرمایا:

ويلٌ للذي يحدِّثُ بالحديثِ ليُضحكَ به القومَ فيكذبُ، ويلٌ له ويلٌ له

( صحيح الترمذي : 2315

 جو شخص لوگوں کو ہنسانے کیلیے جھوٹ بولے تو اسکے لیے ہلاکت ہو، اسکے لیے ہلاکت ہو۔

آج کل جھوٹ ایک فیشن بن چکا ہے اور جو جس قدر جھوٹا اور فراڈ کرنے والا ہوتا ہے لوگ اسے اتنا ہی سمجھ دار سمجھتے ہیں ۔ معاشرے سے صدق و سچائی کی اہمیت کم جبکہ جھوٹ کی زیادہ ہو رہی ہے۔ لوگوں کے دلوں میں اس گناہ کا احساس مر چکا ہے حالانکہ یہ ایسا عمل ہے جس سے پورا معاشرہ بے سکونی اور رزق کی تنگی میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے۔

اگر آپ کے اندر سچائی کی صفت پائی جاتی ہے تو جان لیں کہ اللہ پاک آپ سے راضی ہے کیونکہ  اگر اللہ  آپ سے راضی نہ ہوتا تو وہ آپ  کے اندر  یہ صفت کبھی پیدا نہ فرماتا  ۔

ساتویں نشانی ۔ اللہ سے ملاقات کا شوق

آخری اور انتہائی اہم مسئلہ جس پر لوگ کم ہی توجہ دیتے ہیں: اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق۔ اگرچہ دینِ اسلام کے بہت سے احکامات اور نواہی ہیں۔ مثلا : نماز، زکوٰۃ، صدقہ وغیرہ لیکن ان سات چیزوں پر خاص توجہ اس لیے ضروری ہے کہ آج اکثر لوگوں میں یہ چیزیں ناپید ہوچکی ہیں اور یوں زیادہ تر لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا سے محروم ہو چکے ہیں۔

جو شخص اللہ سے ملاقات پسند نہیں کرتا، جس کو اللہ سے ملاقات یاد نہ ہو اللہ اس سے کیسے راضی ہو سکتا ہے؟ حالانکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

مَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ اللہِ فَإِنَّ أَجَلَ اللہِ لَآتٍ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ، وَمَن جَاهَدَ فَإِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ  إِنَّ اللہَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ

(العنكبوت : 5-6)

ترجمہ : جو کوئی اللہ سے ملاقات کی توقع رکھتا ہے اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آنے ہی والا ہے۔ اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ جو شخص کوشش کرتا ہے دراصل وہ اپنے ہی لیے کرتا ہے۔ یقینا اللہ دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔

موت کے بعد اللہ تعالی سے ملاقات کے متعلق صحیح بخاری میں حدیث وارد ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں باب باندھا ہے کہ جو شخص اللہ تعالی سے ملاقات کرنا پسند کرتا ہے تو اللہ تعالی بھی اس سے ملاقات کرنا پسند کرتا ہے۔ اس کے بعد مندرجہ ذیل حدیث درج فرمائی ہے: عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ أحَبَّ لِقَاءَ اللهِ أَحَبَّ اللهُ لِقَاءهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللهِ كَرِهَ اللهُ لِقَاءهُ» فقلتُ: يا رسولَ اللهِ، أكَراهِيَةُ المَوتِ، فَكُلُّنَا نَكْرَهُ المَوتَ؟ قال: «لَيْسَ كَذَلِكَ، ولكِنَّ المُؤْمِنَ إذَا بُشِّرَ بِرَحْمَةِ اللهِ وَرِضْوَانِهِ وَجَنَّتِهِ أَحَبَّ لِقَاءَ اللهِ فَأَحَبَّ اللهُ لِقَاءهُ، وإنَّ الكَافِرَ إذَا بُشِّرَ بِعَذابِ اللهِ وَسَخَطهِ كَرِهَ لِقَاءَ اللهِ وكَرِهَ اللهُ لِقَاءهُ»

(صحيح البخاري: 6507)

ترجمہ : “جو شخص الله سے ملاقات کو پسند کرتا ہے، اللہ بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ سے ملنا ناپسند کرتا ہے تواللہ بھی اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے” میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا اس سے مراد موت کو ناپسند کرنا ہے؟ ہھر تو ہم سب ہی موت کو ناپسند کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ مطلب نہیں بلکہ (وقتِ نزع) مومن کو جب اللہ کی رحمت، اسکی رضامندی اور اسکی جنت کی خوش خبری دی جاتی ہے تو وہ اللہ کی ملاقات کو پسند کرنے لگتا ہے تو اللہ بھی اس سے ملنا پسند کرتا ہے۔ اور جب کافر کو (نزع کے وقت) اللہ کے عذاب اور اسکی ناراضی کی خوش خبری دی جاتی ہے تو وہ اللہ سے ملاقات کو ناپسند کرنے لگتا ہے اور اللہ بھی اس سے ملنے کو پسند نہیں کرتا۔

خوش بختی اور فلاح و کامرانی یہ ہے کہ موت کے وقت اللہ کی ملاقات کا شوق غالب ہو اور ترکِ دنیا کا غم نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس کیفیت کے ساتھ موت نصیب کرے، آمین۔

نیک میت کا مطالبہ

دنیا سے رخصت ہونے والی نیک میت اپنے جنازے کو اٹھانے والوں سے مطالبہ کر رہی ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد اسے قبر تک پہنچائیں کیونکہ اسے اللہ کی ملاقات اور  نعمتوں کا شوق ہوتا ہے جبکہ بد کار آدمی واویلا کر رہا ہوتا ہے کہ اسے کہاں لے کر جا رہے ہیں؟ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:

إذَا وُضِعَتِ الجِنَازَةُ، فَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ علَى أعْنَاقِهِمْ، فإنْ كَانَتْ صَالِحَةً قالَتْ: قَدِّمُونِي، قَدِّمُونِي، وإنْ كَانَتْ غيرَ صَالِحَةٍ قالَتْ: يا ويْلَهَا، أيْنَ يَذْهَبُونَ بهَا؟ يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شيءٍ إلَّا الإنْسَانَ، ولو سَمِعَهَا الإنْسَانُ لَصَعِقَ

(صحيح البخاري : 1380)

ترجمہ : جب میت چارپائی پر رکھی جاتی ہے اور لوگ اسے کاندھوں پر اٹھاتے ہیں اس وقت اگر میت نیک ہو تو وہ کہتی ہے کہ مجھے جلد آگے بڑھائے چلو لیکن اگر نیک نہیں ہوتی تو کہتی ہے کہ ہائے بربادی! مجھے کہاں لے جا رہے ہو۔ اس کی یہ آواز انسان کے سوا اللہ کی ہر مخلوق سنتی ہے۔ کہیں اگر انسان سن پائے تو بے ہوش ہو جائے۔

موت کے بعد اللہ سے ملاقات کی دعا

سیدنا قیس بن عباد کہتے ہیں کہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے لوگوں کو نماز پڑھائی، اور اسے ہلکی پڑھائی تو گویا کہ لوگوں نے اسے ناپسند کیا تو انہوں نے کہا: کیا میں نے رکوع اور سجدے پورے پورے نہیں کیے ہیں؟ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں، ضرور کیا ہے، پھر انہوں نے کہا: سنو! میں نے اس میں ایسی دعا پڑھی ہے جس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے وہ یہ ہے

اللَّهمَّ بعِلمِكَ الغيبَ وقدرتِكَ على الخلقِ أحيني ما علمتَ الحياةَ خيرًا لي وتوفَّني إذا علمتَ الوفاةَ خيرًا لي وأسألُكَ خشيتَكَ في الغيبِ والشَّهادةِ وَكلمةَ الإخلاصِ في الرِّضا والغضبِ وأسألُكَ نعيمًا لاَ ينفدُ وقرَّةَ عينٍ لاَ تنقطعُ وأسألُكَ الرِّضاءَ بالقضاءِ وبردَ العيشِ بعدَ الموتِ ولذَّةَ النَّظرِ إلى وجْهِكَ والشَّوقَ إلى لقائِكَ وأعوذُ بِكَ من ضرَّاءٍ مُضرَّةٍ وفتنةٍ مضلَّةٍ اللَّهمَّ زيِّـنَّا بزينةِ الإيمانِ واجعَلنا هداةً مُهتدين

(صحيح النسائي: 1305)

ترجمہ : اے اللہ! میں تیرے علمِ غیب اور تمام مخلوق پر تیری قدرت کے واسطے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک تو جانے کہ زندگی میرے لیے باعث خیر ہے اور مجھے موت دیدے جب تو جانے کہ موت میرے لیے بہتر ہے۔ اے اللہ! میں غیب و حضور دونوں حالتوں میں تیری خشیت کا طلب گار ہوں اور میں تجھ سے خوشی و ناراضگی دونوں حالتوں میں کلمہِ اخلاص کی توفیق مانگتا ہوں اور میں تجھ سے ایسی نعمت مانگتا ہوں جو ختم نہ ہو اور میں تجھ سے ایسی آنکھوں کی ٹھنڈک کا طلبگار ہوں جو منقطع نہ ہو اور میں تجھ سے تیری قضاء پر رضا کا سوال کرتا ہوں اور میں تجھ سے موت کے بعد کی راحت اور آسائش کا طلبگار ہوں اور میں تجھ سے تیرے دیدار کی لذت اور تیری ملاقات کے شوق کا طلبگار ہوں اور پناہ چاہتا ہوں تیری اس مصیبت سے جس پر صبر نہ ہو سکے اور ایسے فتنے سے جو گمراہ کر دے۔ اے اللہ ! ہم کو ایمان کے زیور سے آراستہ رکھ ، اور ہم کو راہنما و ہدایت یافتہ بنا دے“۔

درج بالا دعا کے الفاظ میں ذیل کے الفاظ رب سے ملاقات کے شوق کی دعا ہے:

 اَللّٰهُمَّ أَسْأَلُكَ لذَّةَ النَّظرِ إلى وجهِك الكريمِ ، والشَّوقَ إلى لقائِك

(صحيح النسائي: 1305)

ترجمہ: اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے چہرے کے دیدار کی لذت کا سوال کرتا ہوں اور تیری ملاقات کے شوق کا طلب گار ہوں۔

تمام اچھے اعمال اللہ تعالیٰ  سے ملاقات کے لیے

اگر ہم اپنی دنیاوی زندگی پر نظرکریں تو اللہ کی اطاعت میں کیا جانے والا ہمارا ہر نیک عمل اللہ تعالیٰ  سے ملاقات کے لیے ہے۔ اللہ کی بندگی بھی اسی لیے کرنی ہے کہ اللہ سے ملنا ہے اور اپنی زندگی کے بارے میں جواب دینا ہے۔ اچھے اخلاق بھی اسی لیے اختیار کرنے ہیں۔ نماز، روزہ  اور اللہ کی راہ میں جہاد بھی اسی لیے ہیں ۔ اگر موت کے بعد اللہ تعالیٰ سے ملاقات نہ کرنا ہوتی اور ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ زندگی موت پر ختم ہو جائے گی تو کوئی وجہ نہ ہوتی کہ ہم اللہ کی بندگی کرتے، نماز پڑھتے، سخت سردی میں وضو کرکے نماز ادا کرتے۔ کوئی وجہ نہ ہوتی کہ ہم سچ بولتے، وعدہ پورا کرتے، دوسروں کے حقوق ادا کرتے اور کسی پر ظلم نہ کرتے۔ کوئی وجہ نہ ہوتی کہ ہم دین کی خدمت کے لیے، اللہ کی راہ میں وقت اور مال لگاتے یا دعوت کا کام کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سارے نیک اعمال اس لیے کرتے ہیں کہ اللہ سے یقیناً ملاقات کرنی ہے اور اپنی زندگی کے بارے میں جواب دینا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے ملاقات آخرت کی یاد دہانی

اللہ سے ملاقات پر یقین اور اسکے لیے تیاری ہی وہ قوت اور روشنی ہے جو اللہ کی راہ پر چلنے کے لیےعزم و ارادہ عطا کرتی اور طاقت بخشتی ہے اور زندگی کی راہیں روشن کرتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کے بل پر اچھے اعمال، پاکیزہ اخلاق اور دینی جدوجہد کی گاڑی رواں دواں رہتی ہے۔ انبیائے کرام علیھم السلام اور خود ہمارے نبی ﷺ کو جب اس کام کی ذمہ داری دی گئی کہ وہ اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلائیں تو انہوں نے سب سے پہلے اللہ سے ملاقات کے لیے تیاری کرنے کی دعوت دی۔ دُنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی دائمی زندگی کا یقین دلایا۔

قرآن مجید میں وہ آیات بہت کثرت سے موجود ہیں جو آخرت کا ذکر کرتی ہیں، اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی یاد دلاتی ہیں اور اس سے ملاقات کی تفصیلات بیان کرتی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللہِ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

(البقرہ :281)

اس دن سے ڈرو، جس دن تم اللہ کی طرف لوٹائے جائو گے۔ پھر ہر ایک کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا اور کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہوگی۔‘‘

رب سے ملاقات کے شوق کی نشانی

جو شخص اللہ سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے اس کا رویہ دنیا میں آپ کو مختلف نظر آئے گا۔ یعنی وہ غافل لوگوں سے مختلف ہوگا۔ جو شخص اللہ سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے آپ اسے یہ سوچتے ہوئے پائیں گے کہ موت کے بعد کیا ہوگا۔ جو شخص رب سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے اس کے لیے نیکیوں کے دروازے مکمل طور پر کھل جائیں گے اور وہ ان تمام نیک اعمال کو اپنائے گا اور ان پر عمل کرے گا جن سے اللہ تعالیٰ خوش ہوں تاکہ اس سے ملاقات کے لیے مکمل تیار ہو سکے۔ سورۂِ کہف کی آخری آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی ارشاد فرمایا :

فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا

(الکہف : 110)

پس جو شخص اپنے رب کی ملاقات کی امید رکھتا ہو تو لازم ہے کہ وہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔‘‘

خلاصہ کلام

خلاصہ کلام  یہ ہے کہ اللہ کا محبوب ہونے اور اعمال کی قبولیت کے لیے ہر نیک عمل میں رضائے الٰہی کی نیت ہی کافی ہے۔ جو لوگ نام و نمود کی خواہش لئے پھرتے ہیں اُنہیں نام و نمود حاصل ہوجائے تب بھی وہ نقصان ہی میں رہیں گے اگر اُن کا مقصد رضائے الٰہی نہیں ہوگا۔

اپنے آپ کو پرکھیے

اب آپ ان سات نشانیوں پر خود کو پرکھیں ۔ کیا یہ علامات آپ میں موجود ہیں؟ اگر یہ نشایاں اور علامات  آپ میں پائی جاتی ہیں تو رب کا شکر کیجیے اور اگر آپ میں موجود نہیں ہیں تو آج سے ہی ان اعمالِ صالحہ کو اپنانے کی کوشش کیجیے۔ اگر آپ کے اندر رب سے ملاقات کا شوق  ہے تو جان لیں کہ اللہ پاک آپ سے راضی ہے کیونکہ  اگر اللہ  آپ سے راضی نہ ہوتا تو وہ آپ  کے اندر یہ شوق کبھی پیدا نہ فرماتا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہم سے اور آپ سے راضی ہو اور ہمیں ان لوگوں میں شامل فرمائے جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا:

رَضِيَ اللہُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ

(البينة : 8)

اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ ،یہ اجر اس کے لیے ہے جو اپنے پروردگار سے ڈرتا رہا۔

  1. (فيض الباري على صحيح البخاري ، ج6، ص: 288).
  2. (التواضع لابن أبي الدنيا، ص : 154، رقم : 118)
الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ: