قرآنی تعویذ اور شیطانی تعویذ

بسم اللہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ و بعد!

ان تعویذات کے بارے میں کیا حکم ہے جس میں قرآن کریم کی آیات کو استعمال کیا جاتا ہے اور ان آیات کو اپنے جسم میں یا گھر میں یا اپنی گاڑی میں باندھ دیا جاتا ہے یا لٹکایا جاتا ہے؟ تو آج ہمارا فوکس ہوگاکہ قرآن مجید کے ذریعے سے جو تعویذ استعمال کیے جاتے ہیں ان کا شریعت نے کیاحکم بیان کیا ہے اور اس کا استعمال کرنا کیسا ہے ؟؟

قرآنی تعویذ کے حکم میں علماء کی آراء

تمام اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ وہ تعویذات جو شرکیہ ہیں اور شرکیہ کلمات پر مشتمل ہیں  وہ حرام ہیں اور شرک اکبر  کے زمرے میں آتے ہیں ۔لیکن ہمارے یہاں ایک رواج چل پڑا ہے کہ لوگ قرانی تعویذات کے نام سے تعویذ استعمال کر رہے ہیں تو کیا یہ تعویذ جائز ہیں یا ناجائز ہیں ؟اس حوالے سے اہل علم میں دو آراء پائی جاتی ہیں ۔

ایک رائے تو یہ ہے کہ بعض علما کہتے ہیں کہ چونکہ وہ قرآن ہے اور قرآن کو اللہ تعالیٰ نے شفا قرار دیا ہے تو اس کو لکھ کر باندھ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن یہ رائے صحیح نہیں ہے ۔جس کی وجوہات آئندہ صفحات میں مذکور ہیں۔

دوسری رائے کے مطابق اکثر علماء اور صحابہ کرام  رضوان اللہ علیھم اجمعین کی بڑی تعداد اس بات کی قائل ہےکہ ہر قسم کی تعویذجائز نہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ لٹکانے والی کوئی بھی چیز ہو ، خواہ وہ قرآن سے ہو یا اس میں اللہ تعالی کا کوئی نام لکھا ہوا ہو وہ شرعی طور پر جائز نہیں ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی پاک ﷺ نے جب تمیمہ کا ذکر کیا (تمیمہ عربی میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس کو لٹکایا جائے یا باندھا جائے) آپﷺ نے عمومی طور پر فرمایا کہ:

من تعلَّق شيئًا وُكِلَ إليه

(صحيح الترمذي: 2072)

جس شخص نے جو چیز بھی لٹکائی وہ اسی کے سپرد کر دیا گیا ۔

حدیث کی تشریح

اسلام دین ِتوحید ہے۔ اس لیے اس نے شرک کی طرف جانے والے ہر راستے کو بند کر دیاہے اور شرک کی طر ف لے جانے والےتمام اسباب وذرائع سے خبردار کیاہے۔چنانچہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: جو کوئی “کسی چیز کو لٹکائے” یعنی: کسی فائدہ  کے حصول یا نقصان کے ازالے کی نیت سےکوئی تعویذ وغیرہ اپنے اوپر لٹکائے ۔ تو اس کا معاملہ اسی کے حوالےکر دیاجاتا ہے جو کسی نفع ونقصان کا مالک نہیں ہوتا ۔یعنی جو کوئی شفاء کے خاطر کسی چیز سے چمٹ جائے اور یہ یقین رکھےکہ شفا اللہ کی طرف سے نہیں بلکہ اس چیز میں ہے ۔تو اللہ تعالیٰ کی طرف اس کوشفا نہیں ملے گی۔بلکہ اس کی شفاء اسی چیز کے سپرد کر دی جاتی ہے۔ اور پھر اس کی صحت یابی نہیں ہوتی۔کیونکہ کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی چیز فائدہ یا نقصان نہیں پہنچاتی۔

تعویذ کی حرمت احادیثِ رسول ﷺ کی روشنی میں

احادیث رسول ﷺ میں تعویذ اور گنڈے کی حرمت کی بے شمار دلیلیں موجود ہیں، بغرض اختصار چند دلائل ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:

پہلی حدیث:

عن عمران بن حصین رضی اللہ عنه أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ رأى رجلًا في يدِه حلقةٌ من صُفْرٍ فقال: ما هذا؟ فقال: مِن الواهنةِ – يعني: علقتها من أجلِ الواهنةِ – قال انزعها فإنها لا تزيدُكَ إلا وهنًا فإنك لو متَّ وهي عليك ما أفلحتَ أبدًا1

حضرت عمران بن حصین سے رضی اللہ عنہ سے  روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جس کے ہاتھ میں پیتل کا ایک کڑا تھا ، تو آپ ﷺنے پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: واھنہ(ایک بیماری جس سے کندھے یا بازو کی رگیں پھول جاتی ہیں)کے سبب ، آپ نے فرمایا: اسے نکال دو کیونکہ اس سے تمہاری بیماری میں اضافہ ہی ہوگا، اور اگراسی حالت میں تمہاری موت واقع ہو گئی تو کبھی کامیاب نہ ہوگا“۔


یہ بھی پڑھیں: مُعَوَّذَتین ، فضائل ، مسائل اور آداب


تعویذ لٹکانے والے کیلئے بد دعا

دوسری حدیث  :

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سےروایت ہےكہ نبی كریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

من تعلَّقَ تميمةً فلا أتمَّ اللهُ له ومن تعلقَ ودعةً فلا ودعَ اللهُ له2

جو تعویذ لٹکائے اللہ تعالیٰ اس کی مراد پوری نہ کرےاور جو گھونگھالٹکائے اللہ تعالیٰ اسے نہ چھوڑے

تعویذ لٹکانا شرک ہے

تیسری حدیث  :

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

أنَّهُ جاءَ في رَكْبِ عشرةٍ إلى رسولِ اللهِ فبايعَ تسعةً وأمسَكَ عن رجلٍ منهُم فقالوا ما شأنُهُ ؟ فقالَ : إنَّ في عضدِهِ تميمةً فقطعَ الرَّجلُ التَّميمَةَ فبايعَهُ رسولُ اللَّهِ ثمَّ قالَ : مَن علَّقَ فقَد أشرَكَ3

” ایک جماعت (‏‏‏‏بیعت کرنے کے لیے) نبی کریم ﷺ کے پاس آئی، آپ ﷺ نے نو (‏‏‏‏۹) افراد سے بیعت لے لی اور ایک سے نہ لی۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے نو (‏‏‏‏۹) افراد سے بیعت لے لی اور ایک کو ترک کر دیا (‏‏‏‏کیا وجہ ہے)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس نے تعویذ لٹکایا ہوا ہے۔ اس نے اپنا ہاتھ داخل کیا اورتعویذ کاٹ دیا۔ پھر آپﷺ نے اس سے بیعت لی اور فرمایا: ”جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا۔“

تعویذ اور جادو شرک ہیں

چوتھی حدیث  :

عن قيس بن السَّكَن الْأَسَدِيّ، قال: ” دَخَل عبد الله بن مَسْعَود رضی اللہ عنہ عَلَى امْرَأَةٍ فَرَأَى عَلَيْهَا حِرْزًا من اَلْحُمْرَة فَقَطَعَه قَطَعًا عَنِيفًا ثم قال: إِن آل عبد الله عن الشِّرْكِ أَغْنِيَاءَ وَقَال: كَان مِمَّا حَفِظْنَا عن النَّبِي  ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌أَن الرُّقَى وَالتَّمَائم  وَالتِّوَلَة مِنَ الشِّرْكِ “.

(السلسلة  الصحیحہ:  996)

” قیس بن سكن اسدی سے مروی ہے كہ عبداللہ بن مسعود‌رضی اللہ عنہ اپنی بیوی كے پاس آئے۔ توبخار سے بچاؤ كے لئے اس كے ہاتھ میں دھاگا بندھا ہوا دیكھا۔ انہوں نے سختی سے اسے كاٹ دیا۔پھر كہا: عبداللہ كے گھر والے شرك سے بری ہیں، اور كہنے لگے:ہم نے رسول اللہ  ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌سے جوبات یاد كی ہے وہ یہ ہے كہ (شركیہ) دم، تعویذ اورجادوشرك ہیں “ ۔

تعویذ شیطانی عمل ہے

پانچویں حدیث  :

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی بیوی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ میرے شوہر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے میری گردن میں ایک دھاگہ دیکھا ، پوچھنے لگے یہ دھاگہ کیسا ہے ؟میں نے عرض کی یہ دھاگہ مجھے دم کرکے دیا گیا ہے۔یہ سنتے ہی انہوں نے وہ دھاگہ میری گردن سے کاٹ پھینکا اور کہا تم عبداللہ کاخاندان ہو، تم شرک سے بے نیاز ہو۔ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:

” إنَّ الرُّقى، والتَّمائمَ، والتِّوَلةَ شِركٌ قالَت: قلتُ: لِمَ تقولُ هذا؟ واللَّهِ لقد كانَت عيني تقذفُ وَكُنتُ أختلفُ إلى فلانٍ اليَهوديِّ يرقيني فإذا رقاني سَكَنت، فقالَ عبدُ اللَّهِ: إنَّما ذاكَ عمَلُ الشَّيطانِ كانَ ينخسُها بيدِهِ فإذا رقاها كفَّ عنها، إنَّما كانَ يَكْفيكِ أن تَقولي كما كانَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ يقولُ: أذهِبِ الباسَ ربَّ النَّاسِ، اشفِ أنتَ الشَّافي، لا شفاءَ إلَّا شفاؤُكَ شفاءً لا يغادرُ سَقمًا “

(صحيح أبي داود: 3883 )

” بے شک جھاڑ پھونک تعویذ اور جادوکے اعمال شرک ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی کہنے لگیں ! آپ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ اللہ کی قسم !  میری آنکھ درد کی شدت سے باہر نکل آتی تھی اور میں فلاں یہودی کے گھر دم کرانے جایا کرتی تھی اس کے دم کرنے سے مجھے سکون ہوجایا کرتا تھا۔سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ شیطانی عمل ہے۔ وہی اپنے ہاتھ سے چبھن کرتا تھا اور جب دم کر دیا جاتا تو اپنا ہاتھ روک لیتا۔ لہٰذا تمھارے لیے اس طرح کہہ دینا کافی تھا جس طرح رسول کریم ﷺ پڑھا کرتے تھے کہ 

’’ أَذْهِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، ‏‏‏‏‏‏لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، ‏‏‏‏‏‏شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا ‘‘

‘‘”اے کائنات کے پروردگار تکلیف کو دور فرمادے اور تیری شفاء ہی دراصل شفاء ہے شفا عطا فرما  کیونکہ تو ہی شفابخشنے والا ہے ایسی شفا عطا فرما جس کے بعد کسی قسم کی تکلیف نہ رہے “ ۔

 ان تمام احادیث سے قطعی طور پر اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ تعویذ ، گنڈے، چھلے اور کڑے وغیرہ کسی بھی غرض سے لٹکانا جائز نہیں اور اگر ان تعویذ ات  میں غیراللہ سے مدد طلب کی گئی ہوگی تو یہ شرک اکبرہے۔

عیسی بن عبد الرحمن کا قول

عَنْ عِيسَى أَخِيهِ، قَالَ : دخَلتُ علَى عبدِ اللَّهِ بنِ حُكَيْمٍ وبِهِ حُمرةٌ، فقلت: ألا تعلِّقُ تَميمةً ؟ فقالَ:: نعوذُ باللَّهِ مِن ذلِكَ وفي روايةٍ الموتُ أقرَبُ من ذلِكَ، قالَ رسولُ اللَّهِ مَن علَّقَ شيئًا وُكِلَ إليهِ4

” عیسیٰ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں میں عبداللہ بن عکیم رضی اللہ عنہ کے پاس انکی عیادت کے لیے گیا تو انکو حمرہ یعنی پھوڑایاپھنسی کی بیماری تھی،تو میں نے کہا آپ کوئی تعویذ،گنڈا وغیرہ کیوں نہیں لٹکا لیتے؟ تو عبداللہ بن عکیم کہنے لگے کہ ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں اس چیز سے، اور ایک روایت میں ہے کہ عبداللہ بن عکیم نے کہا کہ موت زیادہ قریب ہے اس سے یعنی اس تعویذ گنڈے سے تو موت بہتر ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ وسلم نے فرمایا جس نے کوئی تعویذ وغیرہ لٹکایا تو وہ اسی کے سپرد کر دیا گیا “ ۔

’’حمرہ ‘‘  ایک قسم کا وبائی مرض ہے جس کی وجہ سے بخار آتا ہے، اور بدن پر سرخ دانے پڑ جاتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ جو چیزیں کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہیں وہ حرام ہیں، چنانچہ تعویذ گنڈا اور جادو منتر وغیرہ اسی طرح حرام کے قبیل سے ہیں، تعویذ میں آیات قرآنی کا ہونا اس کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتی، کیونکہ حدیث میں مطلق لٹکانے کو ناپسند کیا گیا ہے، یہ حکم عام ہے اس کے لیے کوئی دوسری دلیل مخصوص کرنے والی نہیں ہے۔

اس لئے جو بھی تعویذات کے راوی صحابہ ہیں عبداللہ بن مسعود، عقبہ بن عامر یا عبداللہ بن عکیم یہ تمام راویان ان احادیث کی یہی تشریح کرتے ہیں کہ اس سے تمام قسم کی تعویذات مراد ہیں۔ہاں یہ ہے کہ اگر کسی نے قرآنی تعویذ لٹکایا ہے تو اس کو ہم شرک نہیں کہہ سکتے ہیں۔البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے ایسا عمل کیا ہے جس کا شریعت نے ہمیں حکم نہیں دیا ہے۔

قرآنی تعویذات کی ممانعت کی ایک وجہ یہ ہے  کہ آپ ﷺ نے جب تعویذات کا ذکر کیا تو عمومی لفظ استعمال کیا ۔ اس میں قرآنی و غیر قرآنی دونوں تعویذات داخل  ہیں دوسری بات یہ کہ


یہ بھی پڑھیں: اپنے بیماروں کا علاج کتاب و سنت سے کیسے کریں؟!


تعویذ توكل علی الله كے خلاف ہے

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

” وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ  إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ  قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا “

(سورۃ الطلاق : 3)

اور جو اللہ پرتوکل کرتا ہے تو اللہ  اس کو کافی ہوگا، بے شک اللہ اپنا کام پورا کرکے ہی رہےگا ، اللہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کررکھا ہے ۔

اور عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سےروایت ہےكہ نبی كریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

” من تعلَّقَ تميمةً فلا أتمَّ اللهُ له ومن تعلقَ ودعةً فلا ودعَ اللهُ له “5

جو تعویذ لٹکائے اللہ تعالیٰ اس کی مراد پوری نہ کرےاور جو گھونگھالٹکائے اللہ تعالیٰ اسے نہ چھوڑے

کونسا دم جھاڑ جائز ہے ؟

‏‏‏‏ سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں

” كُنَّا نَرْقِي في الجَاهِلِيَّةِ، فَقُلْنَا: يا رَسولَ اللهِ، كيفَ تَرَى في ذلكَ؟ فَقالَ: اعْرِضُوا عَلَيَّ رُقَاكُمْ، لا بَأْسَ بالرُّقَى ما لَمْ يَكُنْ فيه شِرْكٌ “

( صحيح مسلم: 2200)

” ہم جاہلیت کے زمانے میں دم کیا کرتے تھے۔ ہم نے کہا: یا رسول اللہ! آپ کیا فرماتے ہیں اس بارے میں؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اپنے منتروں کو میرے سامنے پیش کرو۔ اس دم میں کوئی قباحت نہیں جس میں شرک نہ ہو۔“

یعنی جب آپ ﷺ کے سامنے دم کا ذکر کیا گیاتو آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ تم جو دم کرتے ہو وہ مجھے پڑھ کے سناؤ،جب پڑھ کر سنایا گیا تو پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر وہ دم جائز ہے جس میں شرک نہ ہو۔

مذکورہ حدیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوئی کہ آپ ﷺ نے دم کی دو قسمیں بتائیں ہیں :

1 ۔  شرکیہ دم ۔   2 ۔ غیر شرکیہ دم

شرکیہ دم:  وہ دم جھاڑ جو شرکیہ الفاظ پر مشمل ہو. اسے آپ ﷺ نے منع فرما دیا۔

غیر شرکیہ دم :  وہ دم جھاڑ جو شرکیہ الفاظ پر مشمل نہ ہو. اسے آپ ﷺ نے جائز کہا۔

لیکن تعویذ کی کوئی قسم آپ ﷺ نے الگ کر کے نہیں بتائی بلکہ اس کی ایک ہی قسم بتائی اور کہا کہ جس نے جو چیز بھی لٹکائی تو وہ اسی كے سپرد کر دیا جاتا ہے ۔

نیزاس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمیں صرف دَم پر اکتفا کرنا چاہیے۔جب رسول اللہ ﷺ نے دَم پر اکتفا کیا ہے تو ہمیں بھی اسی پر اکتفا کرنا چاہیے۔

تعویذ سے ممانعت کی وجوہات

پہلی وجہ :  تعویذ سے ممانعت کی وجوہات میں سے پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ عمل توکل علی اللہ کے خلاف ہے جیساکہ اوپر کے سطور میں گذر چکا ہے ۔

دوسری وجہ :  دوسری وجہ یہ ہے کہ نبی پاک ﷺ  کی سنت ہے۔ 1 ۔ قولی ، 2 فعلی ، 3 ۔ تقریری ہے

ان تینوں قسم کی سنتوں سے تعویذ لٹکانے کا ثبوت نہیں ملتا بلکہ آپ ﷺ سےاس کے منع کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔

یعنی آپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے کسی کو تعویذ لٹکانے کا حکم نہیں دیا ۔ اور نہ آپ ﷺ نے خود بھی تعویذ لٹکایااور نہ ہی کسی دوسرے کے گلے میں لٹکایا۔اور نہ ہی آپ ﷺ کے سامنے کسی نے تعویذ لٹکایا کہ آپﷺ نے اس پر خاموشی اختیار کی ہو۔

تو سنت کے ثبوت کے جو طریقے ہیں ان میں سے کسی ایک طریقے سے بھی ثبوت نہیں ملتاپھر یہ عمل کیوں کر جائز ہوسکتا ہے ۔

حالانکہ نبی پاک ﷺ پر قرآن نازل ہوا ہے اور آپ ﷺ قرآن کی بہترین تفسیر کرنے والے ہیں ۔تو قرآن کی شفا والی آیات سے مراد اگر قرآن کو باندھنا یا لٹکانا ہوتا تو آپﷺیہ عمل کرتے یا آپ  ﷺ اپنے صحابہ کو حکم فرماتے، یا آپ ﷺ کے سامنے یہ عمل کیا جاتا ۔لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا ۔

تیسری وجہ : تعویذ اس وجہ سے بھی جائز نہیں ہے کہ قرآنی تعویذات اور جادو اور شرکیہ تعویذات میں مشابہت نہ ہو جائے ۔

اب مثال کے طور پر کسی شخص نے جا کر کسی سے تعویذ لکھوا کر باندھ لیا۔ اب عام آدمی ہے وہ پڑھا لکھا نہیں اس کو کیسے پتہ چلے گا کہ یہ قرآن کا تعویذ لکھا ہوا ہے ؟ یا اُس  نے اِس میں  جنات شیطان فرعون ہامان سے مدد مانگی ہے؟

کیونکہ جتنے بھی ساحر اور کاھن ہیں یہ قرآن کے نام پر ہی کہتے ہیں کہ یہ قرآنی تعویذ ہے ہم قرآن پڑھ رہے ہیں۔ تو ایک عام آدمی کو معلوم نہیں ہوتا کہ یہ قرآن ہے یا کچھ اور ؟حتی کہ جب آپ ان کو کھولیں تو اس میں جبرائیل علیہ السلام سے مدد مانگی ہوتی ہے ،  جنات کے نام لکھے ہوئے ہوتے ہیں اوران سے مدد مانگی ہوتی ہے۔ شیطان فرعون ہامان سے مدد مانگی ہوتی ہے ۔ اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن ہے تو کیسے معلوم ہوگاکہ یہ قرآن ہے یا کچھ اور ہے ؟ تو یہاں ایک مشابہت بھی آجاتی ہے ۔اور یہ ایک خطرہ ہے کہ قرآنی تعویذغیر قرآنی تعویذ سے خلط ملط نہ ہوجائے ۔ اس وجہ سے بھی اس راستے کو روکنا انتہائی ضروری ہے ۔

چوتھی وجہ:  تعویذ سے ممانعت کی چوتھی وجہ یہ ہےکہ ان تعویذات کی وجہ سے قرآن کے احترام میں کمی آتی ہے،قرآن پاک کی توہین اور بے حرمتی کا پہلو نکلتا ہے  مثلاً آپ نے بچے کے گلے میں تعویذ لٹکا دیا لوگ گاڑیوں ، جانوروں پر لٹکا دیتے ہیں  یا پھر خواتین لٹکا دتی  ہیں ۔خواتین کبھی ایام (حیض ونفاس ) میں ہوتی ہیں ۔کبھی پاکی کی حالت میں اور کبھی ناپاکی کی  کس حالت میں ۔ اور قرآن کریم کو بیت الخلاء لے جانا ویسے ہی منع ہے ۔تو اس لحاظ سے قرآنِ کریم کی بے ادبی کا پہلو بھی بہت زیادہ ہے۔ لہٰذا یہ جائز نہیں ہے۔

خلاصہ کلام :  یہ بات ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ صحابہ کرام سے قرآن کریم لکھواتے تھے اور بعض اوقات احادیث بھی لکھواتے تھے ۔ چنانچہ لوگوں کے علاج اور صحت یابی کیلئے تعویذ لکھ کر دُور دراز  بسنے والے لوگوں کوبھیج سکتے تھے ۔ مگر آپ ﷺ نے ایسا نہیں کیا ، لہٰذا تعویذ جائز نہیں ۔

تعویذات کی حرمت میں نہی اور ممانعت کا عموم ہے اس عموم کو خاص کرنے والی کوئی چیز (دلیل) نہیں آئی ۔ اور یہ ایک اصولی قاعدہ ہے کہ عام اپنے عموم پر باقی رہتا ہے جب تک اس عام کو خاص کرنے والی کوئی دلیل نہ آئے ۔

قرآن کریم میں سے لکھے ہوئے تعویذات لٹکانا قرآن کریم کو حقیر اور کمتر سمجھنے کے مترادف ہے اور ا س کے ساتھ لہو و لعب ہے اس لئے کہ کبھی کبھار انسان نجاستوں کی جگہ آتا ہے یا ان جگہوں میں جاتا ہے جن جگہوں سے قرآن کریم کو ادبًا اور احترامًا منزہ کیا جاتا ہے ۔

اسباب کو روکنے کے لئے اس لئے کہ اگر قرآن کریم سے لکھے ہوئے تعویذات کی اجازت دی جائے تو یہ غیر قرآن کریم سے تعویذات لکھنے اور لٹکانے کا ذریعہ بن جائے گا ۔

اس طرح کا عمل سلف صالحین میں سے کسی ایک سے بھی ثابت نہیں ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرف سے اس طرح کی جو نسبت کی گئی ہے صحیح نہیں ہے ۔

پانچویں وجہ :اگر یہ تعویذ گنڈے مشروع اور جائز ہوتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو بیان کر دیتے اور اس عمل کی دلیل صحیح طور پر ہم تک پہنچ جاتی اس لئے کہ بیان ضرورت کے وقت پیچھے نہیں رہتا ۔

چھٹی وجہ :  تعویذ سے ممانعت کی ایک وجہ یہ ہےکہ یہ زمانہ جاہلیت کی ایک رسم ہے ۔زمانۂ جاہلیت میں یہ رسم بد جار ی تھی  لوگ جانوروں کو نظر بد سے محفوظ رکھنے کے لیے ان کے گلے میں پرانی تانت ڈال دیتے تھے۔ آفات وبلیات سے بچنے اور محفوظ رہنے کے لیے مختلف اقسام کے ہار، رسیاں اور تانتیں استعمال کرتے اور خود بھی آفات و مصائب سے بچائو کی خاطر دھاگے اور گھونگے وغیرہ لٹکاتے تھے۔ چنانچہ ابو بشیر انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

”أنَّهُ كانَ مع رَسولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ في بَعْضِ أسْفَارِهِ، قَالَ عبدُ اللَّهِ: حَسِبْتُ أنَّه قَالَ: والنَّاسُ في مَبِيتِهِمْ، فأرْسَلَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ رَسولًا أنْ لا يَبْقَيَنَّ في رَقَبَةِ بَعِيرٍ قِلَادَةٌ مِن وَتَرٍ، أوْ قِلَادَةٌ إلَّا قُطِعَتْ“.

(صحيح البخاري : 3005)

کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ایک قاصد کے ذریعہ پیغام بھیجا، لوگ اپنی خواب گاہوں میں تھے: ”کسی اونٹ کی گردن میں کوئی تانت کا پٹا( گنڈا)باقی نہ رہے، اور نہ ہی کوئی اورپٹا ہو مگر اسے کاٹ دیا جائے“۔

قَالَ مَالِكٌ:”أَرَى أَنَّ ذَلِكَ مِنْ أَجْلِ الْعَيْنِ“6

امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں:”میرا خیال ہے لوگ یہ گنڈا  اور پٹہ نظر بد سے بچنے کے لیے باندھتے تھے“۔

صحابہ،أئمہ اورعلمائے معاصرین کا موقف

سیّدنا ابن عباس ، ابن مسعود، حذیفہ، عقبہ بن عامر، ابن عکیم، ابراہیم نخعی، ابن العربی ، امام محمد بن عبد الوہاب  ، شیخ عبد الرحمن السعدی ،حافظ حکمی، شیخ محمد حامد الفقی، اور معاصرین میں سے محدث عصر علامہ ناصر الدین البانی اور مفتی عصر علامہ ابن بازرحمہم اللہ وغیرہم کے نزدیک بھی قرآن کریم اور ادعیہٴ ماثورہ کے تعویذ لٹکانا جائز نہیں۔ یہی فتوی سعودی عرب کی دائمی فتوی کمیٹی کا بھی ہے ۔چنانچہ فتاویٰ لجنہ وائمہ میں ہے  کہ

”والقول بالنهي أرجح لعموم الأحاديث ولسدِّ الذريعة“7   

” یعنی سلف صالحین، حضرات صحابہ وتابعین ، ائمہ و محدثین کرام اور دیگر اہل علم کی رائے کے مطابق یہی بات راجح اور صحیح ہے کہ تعویذ خواہ قرآنی ہو یا غیر قرآنی اس کا لٹکانا حرام ہے، تاکہ شرکیہ تعویذوں کی طرف جانے کا راستہ روکا جا سکے “  ۔

لیکن بہت افسوس کی بات ہے کہ آج کے بہت سے مسلمان ان شرکیہ اور حرام کاموں میں مبتلاء ہیں،اور ان میں مختلف طرح کے  کثرت سے تعویذوں کا رواج پایا جاتا ہے۔مثلا بچوں کو جنوں وشیاطین اورنظر بد وغیرہ سے حفاظت کے لیے، میاں بیوی میں محبت کے لیے ، اسی طرح اونٹوں، گھوڑوں، اور دیگر جانوروں کو نظر بدوغیرہ سے حفاظت کے لیے، اپنی گاڑیوں کے آگے یا پیچھے جوتے یا چپل، آئینوں پر بعض دھاگے اور گنڈے لٹکاتے ہیں، اسی طرح بعض مسلمان اپنے گھروں اور دوکانوں کے دروازوں پر گھوڑے کے نعل وغیرہ لٹکاتے ہیں، یا مکانوں پر کالے کپڑے لہراتے ہیں۔اسی طرح بعض لوگ بالخصوص عورتیں نظر بد وغیرہ سے بچاوٴ کے لیے بچوں کے تکیے کے نیچے چھری ،لوہا، ہرن کی کھال ، خرگوش کی کھال، اور تعویذ وغیرہ رکھتی ہیں یا دیواروں پر لٹکاتی ہیں، یہ ساری چیزیں زمانہ جاہلیت کی ہیں، جن سے اجتناب کرنا بے حد ضروری ہے۔سلف صالحین، حضرات صحابہ وتابعین ، ائمہ و محدثین کرام اور دیگر اہل علم کی رائے کے مطابق یہی بات راجح اور صحیح بھی ہے کہ تعویذ خواہ قرآنی ہو یا غیر قرآنی اس کا لٹکانا جائز نہیں۔

ھذا ما عندی والعلم عنداللہ

  1. (مسند احمد،4/445، وصححہ الحاکم، 4/216، و فتاوى نور على الدرب لابن باز : 1/383 ،  وقال إسناده جيد)
  2. ( أخرجه أحمد (17404)،وصححه ابن باز في فتاوی نور علی الدرب : 127/12  )
  3. (صححه الألباني في غاية المرام.: 294 ) والسلسلۃ الصحیحہ للألبانی، رقم/492)
  4. (حسّنه الألباني في صحيح الترغيب: 3456، وغاية المرام: 297)
  5. ( أخرجه أحمد (17404)،وصححه ابن باز في فتاوی نور علی الدرب : 127/12  )
  6. ( موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 432)
  7. ( فتاوى اللجنة الدائمة : 1 / 212)
الشیخ خالد حسین گورایہ حفظہ اللہ: آپ نے کراچی کے معروف دینی ادارہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی سے علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کی اورالمعہد الرابع مکمل کیا، بعد ازاں اسی ادارہ میں بحیثیت مدرس خدمات دین میں مصروف ہیں، آپ نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں گریجویشن کیا، اب دعوت کی نشر و اشاعت کے حوالےسے سرگرم عمل ہیں اور المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی میں نائب المدیر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔