قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ

نام  و نسب :

آپ کا نام محمد سلیمان بن احمد شاہ بن باقی باللہ بن معز الدین ہے۔

ولادت :

 1867ء کو ریاست پٹیالہ کے قصبہ “منصور پور “میں پیدا ہوئے، اسی وجہ سے آپ کو منصور پوری کہا جاتا ہے ۔

آپ ایک بہت بڑے سیرت نگار، مقرر، مناطر، زاہد و عابد، بااخلاق اور باکردار انسان تھے۔

تعلیم و تربیت :

قرآن مجید اور عربی کی تعلیم اپنے والد گرامی سے لی، پھر مولانا عبد العزیز کوموی سے عربی میں بہت کچھ سیکھا، فارسی کی تعلیم مہندرا کالج پٹیالہ کے پروفیسر منشی سکھن لال سے حاصل کی، 1884ء میں اسی کالج کی طرف سے پنجاب یونیورسٹی میں منشی فاضل کا امتحان دیا اور یونیورسٹی بھر میں اول پوزیشن حاصل کی ۔

خدمات :

آپ نے سترہ سال کی عمر میں منشی فاضل کیا اور ساڑھے سترہ سال کی عمر میں بحیثیت سر رشتہ دار محکمہ تعلیم میں ملازم ہوئے، بعد ازاں مجسٹریٹ، پھر سول جج اور پھر سیشن جج کے عہدے پر فائز ہوئے

آپ کی تمام ملازمت دیانت، تقوی اور عدل و انصاف کی منہ بولتی تصویر ہے۔

آپ کو علوم اسلامیہ پر دسترس حاصل تھی، تورات و انجیل کے بھی مبصر عالم تھے، آپ نے اللہ تعالی کی عطا کردہ قابلیت، صلاحیت، اور علم کو اسلام کے لیے موثر طریقے سے استعمال کیا، اللہ تعالی کی وحدانیت اور رسول اللہ ﷺ سے انتہائی محبت و عقیدت کا اظہار آپ کی جملہ کتب سے بخوبی ہوتا ہے۔

تصانیف :  

آپ نے  بائیس کے قریب کتب تالیف فرمائی ، جن میں سے چند ایک یہ ہیں  :

رحمة للعالمين

سید البشر

اصحاب بدر

الجمال و الکمال

غایة المرام وغیرہ

آپ کی کوشش سے غازی محمود دھرم پال دوبارہ مسلمان ہوا تھا، جب اس کی بیوی گیان دیوی جو برہمن آریہ تھی، سے ان کی شادی کو ناجائز کہا گیا ،تب قاضی سلیمان نے دھرم پال کی راہنمائی کی، حمایت کے لیے آگے آئے، تسلی بخش جواب و پیار ملنے پر دھرم پال ان کے ہاتھ پر دوبارہ مسلمان ہوگیا ۔

وفات :

آپ اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے ۔

  تودہ خاک کو مت جانیو تربت میری

میرا مرقد میرے احباب کے سینے ہوں گے

آپ کی یہ پیش گوئی پوری ہوئی یکم محرم 1349ھ مطابق 30مئی 1930ء بروز جمعہ دوسری بار حج بیت اللہ سے واپس آتے ہوئے بحری جہاز میں انتقال فرمایا، احباب نے نماز جنازہ پڑھاکر سمندری لہروں کے سپرد کر دیا،رحمہ اللہ۔

الشیخ محمد ارشد کمال حفظہ اللہ: آپ جوان مگر متحرک اور درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں ، ابھی آُ پ نے ایک علمی رسالہ بھی جاری کیا ہے جس کا نام نور الحدیث ہے ، جو بہت کم عرصے میں اہل علم سے داد تحسین وصول کرچکا ہے ۔