احکام و مسائل

قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کریں

خطبہ اول:

یقیناً ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے، ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں، اس سے مدد مانگتے ہیں، اس سے مغفرت طلب کرتے ہیں، اور اپنے نفسوں کی برائیوں اور اپنے برے اعمال سے اس کی پناہ لیتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں، اور جسے وہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔

 اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اللہ درود و سلام نازل کرے آپ پر، آپ کے آل و اصحاب پر، اور بہت زیادہ سلامتی نازل کرے۔

اما بعد:

 اللہ کے بندو! اللہ کا تقوی اختیار کرو اور خلوت و جلوت میں اس کا خوف کھاؤ۔

 مسلمانو! اللہ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اسلام کو مضبوطی سے تھامیں اور اس کے تمام کڑے اور احکام کو پکڑ لیں۔ اسلام کے لیے ایسا ایمان ضروری ہے جو اسے ثابت کرے اور اس کی تصدیق کرے۔ اور ایمان کے چھ ارکان میں سے یوم آخرت پر ایمان ہے اور اسی میں سے ان تمام چیزوں پر ایمان ہے جن کی خبر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے جو موت کے بعد ہوں گی، جیسے قبر کا فتنہ، اس کا عذاب اور اس کی نعمتوں سے لے کر دوبارہ زندہ اٹھایا جانا۔

اس دنیا سے منتقل ہونے کے اولین مراحل میں موت کی آمد ہے۔

إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا مَلَكَانِ يُصْعِدَانِهَا قَالَ حَمَّادٌ فَذَكَرَ مِنْ طِيبِ رِيحِهَا وَذَكَرَ الْمِسْكَ قَالَ وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ رُوحٌ طَيِّبَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكِ وَعَلَى جَسَدٍ كُنْتِ تَعْمُرِينَهُ فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ يَقُولُ انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ قَالَ وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ قَالَ حَمَّادٌ وَذَكَرَ مِنْ نَتْنِهَا وَذَكَرَ لَعْنًا وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ رُوحٌ خَبِيثَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ قَالَ فَيُقَالُ انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَرَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَيْطَةً كَانَتْ عَلَيْهِ عَلَى أَنْفِهِ هَكَذَا1

مومن کے پاس آسمان سے سفید چہرے والے فرشتے نازل ہوتے ہیں جیسے کہ ان کے چہرے سورج ہوں، ان کے پاس جنت کے کفنوں میں سے ایک کفن ہوتا ہے اور جنت کی خوشبوؤں میں سے خوشبو ہوتی ہے، یہاں تک کہ وہ اس کے تا حد نگاہ بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر موت کا فرشتہ آتا ہے اور اس کے سرہانے بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے: اے پاکیزہ نفس! اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی کی طرف نکل۔ تو روح ایسے نکل جاتی ہے جیسے قطرہ مشکیزے کے منہ سے نکل جاتا ہے۔ جہاں تک کافر کی بات ہے تو اس کے پاس آسمان سے کالے چہرے والے فرشتے اترتے ہیں، ان کے ساتھ کھردرا لباس ہوتا ہے، وہ اس کے تا حد نگاہ بیٹھ جاتے ہیں، پھر موت کا فرشتہ آتا ہے اور اس کے سرہانے بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے: اے خبیث نفس! اللہ کے غضب اور ناراضگی کی طرف نکل۔ یہ سن کر اس کی روح جسم میں دوڑنے بھاگنے لگتی ہے اور ملک الموت اسے جسم سے اس طرح کھینچتے ہیں جیسے گیلی اون سے سیخ کھینچی جاتی ہے۔

الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ يَسْتَرِيحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْيَا وَالْعَبْدُ الْفَاجِرُ يَسْتَرِيحُ مِنْهُ الْعِبَادُ وَالْبِلَادُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ2

جب موت کا فرشتہ بدن سے روح کھینچتا ہے تو مومن بندہ دنیا کی مشقت اور اس کی تکلیف سے آرام پا کر اللہ کی رحمت میں چلا جاتا ہے اور فاجر بندے سے بندے، بستیاں، درخت اور جانور آرام پا جاتے ہیں۔

پھر وہ ایک دوسری دنیا کی طرف سفر کرتا ہے جو اس کی دنیاوی زندگی سے دراز ہوتی ہے، اور یہ برزخ کی زندگی ہے جو دنیا اور قیامت کے آنے کے بیچ میں ہے، اور قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے۔

جب میت اس میں رکھی جاتی ہے تو اپنے لوگوں کے جوتوں کے پڑنے کی آواز سنتی ہے جب وہ لوٹ رہے ہوتے ہیں، پھر قبر میں بندہ تین سوالات کرکے عظیم آزمائش سے دوچار کیا جاتا ہے جن کا جواب کم لوگ ہی دے پاتے ہیں۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 وَأُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَرِيبًا مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ

مجھ پر وحی کی گئی ہے کہ تم لوگ دجال کے فتنے کے قریب قبروں میں آزمائے جاؤ گے(صحیح بخاری:۷۲۸۷)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ فَيُقْعِدَانِهِ فَيَقُولَانِ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ فَيُقَالُ لَهُ انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنْ النَّارِ قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنْ الْجَنَّةِ فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا قَالَ قَتَادَةُ وَذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى حَدِيثِ أَنَسٍ قَالَ وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْكَافِرُ فَيُقَالُ لَهُ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ فَيُقَالُ لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ وَيُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ3

 اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اسے بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں: تمہارا رب کون ہے؟ تمہارا دین کیا ہے؟ اور تمہارے نبی کون ہیں؟ جسے اللہ ثابت قدم رکھتا ہے وہ کہتا ہے: اللہ میرا رب ہے، اسلام میرا دین ہے، اور محمد میرے نبی ہیں۔ اس سے کہا جاتا ہے: تم جہنم کی اپنی جگہ دیکھو، اس کے بدلے اللہ نے تمہیں جنت میں جگہ دی ہے۔ وہ ان دونوں کو دیکھتا ہے۔ جہاں تک کافر یا منافق کی بات ہے تو وہ کہتا ہے: مجھے نہیں معلوم، میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔ اس سے کہا جاتا ہے: تم نے نہیں جانا کہ حق کیا ہے اور نہ تم نے قرآن کریم کی تلاوت کی۔ پھر اس کے دونوں کانوں کے درمیان لوہے کے ہتھوڑے سے مارا جاتا ہے، وہ زور سے چیختا ہے جسے اس کے گرد و گرد تمام سنتے ہیں سوائے انس و جن کے۔

پھر اس آزمائش کے بعد یا تو نعمتیں ہوتی ہیں یا عذاب ہوتا ہے، تا آنکہ قیامت کبری قائم ہو جائے۔

 اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے: وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِّؐ النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ4

 اور فرعون والوں پر بری طرح کا عذاب الٹ پڑا۔ آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح شام لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی فرمان ہوگا کہ فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو۔” اسی طرح یہ امت بھی آزمائی جاتی ہے،

 اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 یہ امت اپنی قبروں میں عذاب کے ذریعے آزمائی جائے گی۔

ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا:

 زیادہ تر قبر والے عذاب دیے جائیں گے، کچھ ہی کامیاب ہوں گے۔

ایک دن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج غروب ہو گیا نکلے، آپ نے ایک آواز سنی اور فرمایا: “یہود اپنی قبروں میں عذاب دیے جا رہے ہیں۔”

آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں سے گزرے تو فرمایا:

 مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْرَيْنِ، فَقَالَ: «إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لاَ يَسْتَتِرُ مِنَ البَوْلِ، وَأَمَّا الآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ» ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً، فَشَقَّهَا نِصْفَيْنِ، فَغَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ فَعَلْتَ هَذَا؟ قَالَ: «لَعَلَّهُ يُخَفِّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا5

یہ دونوں عذاب دیے جا رہے ہیں، انہیں کسی بڑی چیز کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا، ان میں سے ایک چغلخوری کیا کرتا تھا، اور جہاں تک دوسرے کی بات ہے تو وہ اپنے پیشاب سے نہیں بچتا تھا۔

جانور قبر کا عذاب سنتے ہیں۔

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 “انہیں ایسا عذاب دیا جاتا ہے جسے تمام جانور سنتے ہیں۔

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمت بیان کی کہ لوگ قبروں کا عذاب کیوں نہیں سنتے، فرمایا:

 أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ6

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اگر یہ خدشہ نہ ہوتا کہ تم (مردوں کو) دفن نہ کرو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تم کو عذاب قبر(کی آوازیں)سنوائے۔

نعمتیں اور عذاب روح اور جسم دونوں کو ہوں گے۔

 شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے فرمایا:

 اس بات پر تمام اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ نعمتیں اور عذاب جسم و روح دونوں کو ہوں گے۔

 اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن صحابہ کرام کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے فرمایا:

 فَقَالَ تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ7

“قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔” انہوں نے کہا: “ہم قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں حکم دیتے تھے کہ وہ ہر نماز میں قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگیں۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا تَشَهَّدَ أَحَدُكُمْ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللهِ مِنْ أَرْبَعٍ يَقُولُ: اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ8

 جب تم میں سے کوئی آخری تشہد سے فارغ ہو جائے تو چار چیزوں سے اللہ کی پناہ طلب کرے: جہنم کے عذاب سے، قبر کے عذاب سے، موت و حیات کے فتنے سے، اور مسیح دجال کے فتنے سے۔

اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو یہ دعا اسی طرح سکھاتے تھے جس طرح قرآن کریم کی کوئی سورۃ سکھاتے تھے۔

اور قبروں کی حرمت اور ان کا مقام ہے، نہ تو انہیں روندا جائے اور نہ ان پر بیٹھا جائے۔

 اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَأَنْ يَجْلِسَ أَحَدُكُمْ عَلَى جَمْرَةٍ فَتُحْرِقَ ثِيَابَهُ فَتَخْلُصَ إِلَى جِلْدِهِ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَجْلِسَ عَلَى قَبْرٍ9

“تم میں سے کوئی ایک انگارے پر بیٹھے جو اس کے کپڑے اور چمڑے کو جلا دے، یہ اس کے لیے بہتر ہے اس سے کہ وہ کسی قبر پر بیٹھے۔

 ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قبروں پر عمارت بنانا، اسے چونا گچ کرنا، قبر کو سجدہ گاہ بنانا اور اس کے پاس نماز کا قصد کرنا حرام ہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ، إِنِّي أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ10

“سنو! قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا، میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔

قبر میں مردے اس بات کے بہت حاجت مند ہوتے ہیں کہ کوئی ان کے لیے دعا کرے۔ مردوں سے ضرورتیں طلب کرنا، ان سے مدد مانگنا یا اللہ کے سوا ان کی طرف متوجہ ہونا دنیا میں شرک کی اصل و بنیاد ہے اور بنی آدم میں جو پہلے پہل شرک واقع ہوا، اسی سبب سے ہوا۔

ان تمام باتوں کے بعد اے مسلمانو! قبروں نے نصیحت کی، اس نے کسی واعظ کے لیے کوئی بات نہ چھوڑی۔

 عثمان رضی اللہ عنہ جب قبر کے پاس سے کھڑے ہوتے تو روتے یہاں تک کہ ان کی داڑھی تر ہو جاتی۔

نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطِيبًا فَذَكَرَ فِتْنَةَ الْقَبْرِ الَّتِي يَفْتَتِنُ فِيهَا الْمَرْءُ فَلَمَّا ذَكَرَ ذَلِكَ ضَجَّ الْمُسْلِمُونَ ضَجَّةً11

 اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بطور خطیب کھڑے ہوئے، آپ نے قبر کے فتنے کو ذکر کیا جس سے آدمی آزمایا جائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسے ذکر کیا مسلمان زار و قطار رونے لگے

اللہ کی توحید اور اس کے لوازم قبر کے عذاب سے نجات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أُقْعِدَ الْمُؤْمِنُ فِي قَبْرِهِ أُتِيَ ثُمَّ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ فَذَلِكَ قَوْلُهُ يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ12

 جب مومن کو اس کی قبر میں بٹھایا جاتا ہے تو اس کے پاس فرشتے آتے ہیں، پھر وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ یہی اس قول کا مصداق ہے: “ایمان والوں کو اللہ کی پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے۔” نیک عمل قبروں میں انسان کا ساتھی ہوتا ہے۔

 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کی قبر میں رکھے جانے کا حال کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: “اس کے پاس ایک خوبصورت چہرے، خوبصورت کپڑوں والا، خوشبو سے مہکتا ہوا شخص آتا ہے اور کہتا ہے: خوش ہو جا اس کام پر جو تیرے لیے خوشی کا باعث ہے، یہ وہ دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا تھا۔” تو وہ مومن اس سے پوچھتا ہے: “تم کون ہو؟ تمہارا چہرہ تو بھلائی لے کر آنے والے کا چہرہ ہے۔” وہ کہتا ہے: “میں تیرا نیک عمل ہوں۔” اسے احمد نے روایت کیا ہے۔ لہذا عقلمند شخص موت سے پہلے نیک اعمال کا ذخیرہ کرتا ہے کیونکہ اللہ کا وعدہ سچا ہے، موت آنی ہے اور زندگی خواہ کتنی ہی لمبی ہو، قبر سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ13

 “اے انسان! تو اپنے رب سے ملنے تک کی کوشش اور تمام کام اور محنتیں کرکے اس سے ملاقات کرنے والا ہے۔”

اللہ تعالی مجھے اور آپ کو عظیم قرآن میں برکت عطا فرمائے اور مجھے اور آپ کو اس کی آیات اور حکمت بھری باتوں سے نفع پہنچائے۔ میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اللہ سے اپنے، آپ کے اور تمام مسلمانوں کے ہر گناہ کی مغفرت چاہتا ہوں، تو اس سے مغفرت مانگو، بیشک وہی بخشنے والا، مہربان ہے۔

خطبہ ثانی:

تمام تعریف اللہ کے لیے اس کے احسان پر، اسی کے لیے شکر ہے اس کی توفیق و نوازش پر، میں اس کی شان کی عظمت بیان کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اللہ ان پر، ان کی آل پر، ان کے صحابہ پر کثرت سے درود و سلام نازل فرمائے۔

 مسلمانو! عمر مختصر ہے اور یہ بہت تیزی سے گزرنے والی ہے۔ دنیا بندے کو غفلت میں ڈال لیتی ہے اور قبریں آخرت کی یاد دلاتی ہیں۔

 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا فَإِنَّ فِي زِيَارَتِهَا تَذْكِرَةً14

 تم قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ وہ موت کی یاد دلاتی ہیں۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت اپنے صحابہ کو قبر کی یاد دلایا کرتے تھے:

ذَاتَ غَدَاةٍ مَرْكَبًا، فَخَسَفَتِ الشَّمْسُ، فَرَجَعَ ضُحًى،فَقَالَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، ثُمَّ أَمَرَهُمْ أَنْ يَتَعَوَّذُوا مِنْ عَذَابِ القَبْرِ15

اور جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سورج گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہونے کے بعد لوگوں سے جو کچھ اللہ نے چاہا فرمایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قبر کے عذاب سے پناہ مانگنے کا حکم دیا،

 لہذا قبر کے عذاب اور اس کے فتنہ سے اللہ کی پناہ مانگو، ان گناہوں سے بچو جو اس عذاب کا سبب بنتے ہیں اور اس سے سلامتی اور بچاؤ کے لیے ذرائع اختیار کرو۔ پھر جان لو کہ اللہ نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام بھیجنے کا حکم دیا ہے،

اللہ تعالی ارشاد فرمایا:

 إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا16

بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود اور خوب سلام بھیجا کیا کرو۔

 اے اللہ! ہمارے نبی محمد پر اپنی رحمت، سلامتی اور برکت نازل فرما۔ اے اللہ! خلفائے راشدین ابوبکر، عمر، عثمان اور علی سے راضی ہو جا جنہوں نے حق کے ساتھ فیصلہ کیا اور اسی کے مطابق انصاف کیا، اور تمام صحابہ کرام سے بھی راضی ہو جا اور ان کے ساتھ ہم سے بھی راضی ہو جا اپنے جود و کرم سے

اے سب سے زیادہ کرم فرمانے والے! اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، شرک اور مشرکوں کو ذلیل کر، دین کے دشمنوں کو تباہ و برباد کر، اے اللہ! اس ملک اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو امن، سکون اور خوشحالی عطا فرما۔

 اے اللہ! ہمارے حکمران اور ان کے ولی عہد کو ان چیزوں کی توفیق عطا فرما جو تجھے پسند ہوں اور جن سے تو راضی ہو، انہیں نیکی اور تقوی کی راہ پر چلا، ان دونوں کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کو نفع پہنچا، اے رب العالمین! اے اللہ! اے صاحب جلال و اکرام! مسلمانوں کے تمام حکمرانوں کو تیری کتاب پر عمل کرنے اور تیری شریعت کو نافذ کرنے کی تو انہیں توفیق عطا فرما۔

 اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

اے ہمارے رب! ہم نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم یقیناً نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

اے ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ایمانداروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ اور دشمنی نہ ڈال، اے ہمارے رب! بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔ بیشک اللہ انصاف، احسان اور قرابت داروں کو عطا کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ اور تم بزرگ و برتر اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا اور اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرو وہ تمہیں مزید عطا کرے گا، اور یقیناً اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو

۔خطبۂ جمعہ، مسجد نبوی
تاریخ: 16 جمادی الاول 1447 ہجری بمطابق 07 نومبر 2025 عیسوی۔
خطیب فضیلۃ الشیخ عبدالمحسن القاسم حفظه الله۔

  1. (صحیح مسلم:7221)
  2. (صحیح مسلم:2202)
  3. (صحیح بخاری:1374)
  4. (سورۃ مومن:45 تا 46 )
  5. (صحیح بخاری :218)
  6. (صحیح مسلم:7214)
  7. (صحیح مسلم:7213)
  8. (صحیح مسلم:1324)
  9. (صحیح مسلم:2248)
  10. (صحیح مسلم:1188)
  11. (صحیح بخاری:1373)
  12. (صحیح بخاری:1369)
  13. (سورۃ انشقاق:06)
  14. (سنن ابی داود:3235)
  15. (صحیح بخاری:105۰)
  16. (سورۃ الاحزاب:56 )
فضیلۃ الشیخ جسٹس ڈاکٹر عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ

آپ یعنی جناب عبد المحسن بن محمد بن عبد الرحمن القاسم القحطانی کو پیدا ہوئے۔ آپ نے جامعہ امام محمد بن سعود ریاض سے گریجویشن کیا اور المعہد العالی للقضاء سے ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی مسجد نبوی کی امامت و خطابت کے ساتھ ساتھ محکمۃ الکبریٰ مدینہ منورہ میں قاضی (جسٹس ) بھی ہیں ۔

Share
Published by
فضیلۃ الشیخ جسٹس ڈاکٹر عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ

Recent Posts

رسول اللہ ﷺ کے چند اہم معجزات!

معجزہ کسے کہتے ہیں اور اس کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ نبی کریم ﷺ سے…

5 hours ago

عدت کے شرعی احکام

https://flic.kr/p/2rBQBoa

7 hours ago