پہلا خطبہ :
تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے حسن سلوک، صلہ رحمی اور پڑوسیوں کی اکرام و تکریم کا حکم دیا اور جس نے ظلم وجور کو حرام قرار دیتے ہوئے خود سر اور ظالم و جابر لوگوں کو وعید میں سنائیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ یقینا حجر و شجر و اور بتوں کی پرستش کرنے والے ناکام و نامراد ہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی و سردار محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، جن کا عمدہ واعلی اور معزز حسب و نسب سے انتخاب کیا گیا۔
اللہ کی رحمت و سلامتی نازل ہو آپ ﷺ پر ، آپ ﷺ کی آل و اصحاب پر جن سے صرف اہل ایمان ہی محبت کرتے ہیں ، منافقین اور بے دین فاسق و فاجر لوگ ان سے بغض رکھتے ہیں۔
حمد و صلاۃ کے بعد!
مسلمانو! اللہ سے ڈرو، اپنی آخرت کے لیے توشہ و زادِ راہ اختیار کر لو اور دنیا سے دھو کہ مت کھاؤ، ارشاد باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
الحشر – 18
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر ایک کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کے لئے کیا سامان کیا ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو یقینا اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
مسلمانو! پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آنا اور ان کی تعظیم و تکریم کرنا ان بھلائیوں میں سے ہے جو بلندی اخلاق میں چودھویں کے چاند کی طرح بلند ہیں، مجد و شرافت میں اس بار کی طرح ہیں جس میں بکھرے موتی پرو دیے گئے ہوں اور اجر وثواب کی کثرت و وسعت میں سمندروں کی طرح ہیں۔ پڑوسی سے مراد ہر وہ شخص ہے جس کا گھر آپ کے گھر سے متصل ہو، یا جس کا گھر آپ کے گھر سے قریب ہو، اگر چہ متصل نہ ہو، یا جس کا گھر آپ کے گھر کے بالمقابل ہے ، در میان صرف راستہ حائل ہے ، یادونوں کی گلی اور راستہ ایک ہو، یا دونوں کی ملاقات مسجد میں ہوتی ہو وغیرہ وغیرہ یہ سب پڑوسی ہی ہیں۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کسی کے ساتھ ایک ہی محلے یا شہر میں رہنے والا بھی پڑوسی ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے منافقین کے بارے میں فرمایا:
ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا
الاحزاب – 60
پھر وہ چند دن ہی آپ کے ساتھ اس (شہر) میں رہ سکیں گے۔
(وجہ استدلال یہ ہے کہ) اللہ تعالی نے مدینہ میں ان کے ساتھ رہنے کو پڑوس وجوار سے تعبیر کیا۔ اللہ تعالی نے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک، احسان و بھلائی اور تعظیم و تکریم کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا ہے خواہ وہ نسب ورشتے داری کے لحاظ سے قریبی ہو یا نہ ہو، ارشاد باری تعالی ہے:
وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالجُنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالا فخُورًا
النساء – 36
اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ والدین سے اچھا سلوک کرو، نیز قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، رشتہ دار ہمسائیوں، اجنبی ہمسائیوں، اپنے ہم نشین اور مسافر، ان سب کے ساتھ اچھا سلوک کرو، نیز ان لونڈیوں اور غلاموں سے بھی جو تمہارے ماتحت ہیں۔ اللہ تعالیٰ یقینا مغرور اور خود پسند اختیار کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جبرائیل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے (حق کے ) بارے میں اس قدر وصیت کرتے رہے کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ وہ پڑوسی کو وارثت کا حصے دار بنادیں گے۔۔ ( بخاری و مسلم)۔
عبد اللہ بن عمرورضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کے ہاں قدر و منزلت کے اعتبار سے) سب سے بہترین دوست وہ ہے جو اپنے دوست کے لیے اچھا ہو اور اللہ کے نزدیک سب سے بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے اچھا ہو۔(سنن الترمذی، سنن النسائی ، ابن حبان)
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی تعظیم و توقیر کرے۔ (صحیح مسلم)
اور ایک روایت میں ہے کہ : ” اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان کا معاملہ کرے۔ لوگوں میں سے اہل ایمان ہی سب سے زیادہ پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے ہیں ، اور ان میں سب سے زیادہ پڑوسی کے حقوق کے محافظ ہوتے ہیں۔ میں نے بنو شیبان کی ہمسائیگی اختیار کی تو ان کی ہمسائیگی بڑی خوشگوار رہی۔
بے شک شریف لوگ پڑوسی کے لیے بہترین ثابت ہوتے ہیں۔ جس کا حسب و نسب اچھا ہوتا ہے تو ہمسائے کے ساتھ اس کا تعامل بھی اچھا ہوتا ہے۔ اور جو شخص اپنے ہمسایہ کے ساتھ احسان کا معاملہ کرتا ہے اس کے گھر پر برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔ وہ پڑوسی جو حد درجہ مشفق و مہربان، اور جو دوسخا کا پیکر ہو اور جس کے ہاں سے بخشش و خیرات کا دریا بہتا ہو ، اور وہ پڑوسی جو حد درجہ بخیل ، ناشکرا اور فضل واحسان کا منکر ہو دونوں کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔
پڑوسی کے اکرام کی مختلف صورتیں ہیں جیسے: اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اس کی امانت کی حفاظت کرنا، اس کی ستر پوشی کرنا، غلطی ولغزش ہونے پر معاف و در گزر کر دینا، اس کی غیبت کرنے والے کو روکنا، اور اس کی حرمت کا لحاظ رکھنا، اور عہد و پیمان کی حفاظت کرنا، ہمیشہ اس کی خیر خواہی کرنا، اس کی دعوت کو قبول کرنا، اور اس کے احسان کا بدلہ دینا، اس کی ضرورت کو پورا کرنا، اس کی مدد کرنا اور اسے اذیت و تکلیف پہنچانے اور دھوکہ دینے سے باز رہنا ۔ہمارے ہمسائے کبھی بھی ہماری طرف سے دھو کے کا خوف نہیں کھاتے اور ہم اسی روش پر قائم رہیں گے یہاں تک کہ مٹی میں دفن کر دیے جائیں۔
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قسم ہے اللہ کی اس شخص کا ایمان کامل نہیں ہے ، قسم ہے اللہ کی اس شخص کا ایمان کامل نہیں ہے، قسم ہے اللہ کی اس شخص کا ایمان کامل نہیں ہے، جب آپ نے بار بار یہ الفاظ فرمائے اور اس شخص کی وضاحت نہیں کی تو صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ! وہ کون شخص ہے جس کا ایمان کامل نہیں ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ شخص جس کے پڑوسی اس کی برائیوں اور اس کے شر سے محفوظ ومامون نہ ہوں۔“ (بخاری و مسلم)
در اصل ہمسائیگی ہمسایوں کے مابین ایک قیمتی رشتہ ہے لہذا اپنے پڑوسیوں کے ساتھ دوستی و محبت کے ساتھ رہو، ان کے فقرا، یتیموں، بیواؤں، اور مسکینوں کے ساتھ احسان کرو۔ کیوں کہ شریف و سخی لوگوں کے ساتھ رہنے والے پڑوسیوں کی اولاد پر بھی یقیمی یا تنگدستی ظاہر نہیں ہوتی ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”وہ شخص (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جو خود تو پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا ر ہے۔“ (صحیح بخاری)
ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم کوئی شور بے والی چیز پکاؤ تو اس میں پانی کچھ زیادہ ڈال لیا کرو اور اپنے ہمسائے کا بھی خیال رکھا کرو۔“ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)۔
جب بھی ہماری ہانڈی چولہے سے اترتی ہے۔۔۔۔ تو ایک ڈوئی ہمارے لیے ہوتی ہے اور دوسری ڈوئی پڑوسی کے لیے۔
لہذا آپ کے پڑوس میں جو فقرا و مساکین ، بے گھر اور پناہ گزیں افراد ہیں، انھیں یاد رکھو اور موسم سرما کے حملے، سرد ہواؤں کے جھونکوں، اوس، اولے اور برف باری کی شدت سے جن کے دانت تھر تھرا رہے ہیں، جن کی ہڈیوں کے جوڑ جوڑ کانپ رہے ہیں، جن کی انگلیاں شل ہو گئیں ہیں اور جن کے حلق خشک ہو گئے ہیں، انھیں مت بھولو۔ آپ کے گھر سے جس کا دروازہ سب سے قریب ہے، اس سے شروع کیجیے، پھر جو اس کے بعد قریب ہے اسی ترتیب سے دیکھئے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! میرے دو پڑوسی ہیں، ان میں سے کسے ہدیہ بھیجوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ان دونوں میں سے جس کا دروازہ آپ کے گھر سے زیادہ قریب ہو ۔ “ (بخاری)
دور سے آنے والا بخشش کا طلب گار بھی آپ کے جو دو سخا سے فیض یاب ہوتا ہے۔۔۔ اور پڑوسی بھی آپ کی سخاوت میں وافر حصہ پاتا ہے۔۔
مسلمانو! اثر انگیزی میں پڑوس کا بہت بڑا کردار ہے، کیوں کہ طبیعتوں میں جذب کرنے کی صلاحیت ودیعت کر دی گئی ہے اور نفس انسانی نقالی کا خوگر ہوا کرتا ہے، اس لیے پڑوسی باہمی مصاحبت، زیارت، انس و مودت اور ایک ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی وجہ سے ایک دوسرے کے اخلاق سے متاثر ہوتے ہیں، بسا اوقات ایک ہمسایہ دوسرے ہمسائے کے اوصاف سے متصف ہو جاتا ہے، اس کے اخلاق سے لیس ہو جاتا ہے اور بسا اوقات انسان اپنے پڑوسی کے نیک ہونے کی وجہ سے نیک بن جاتا ہے ، یا اس کے خراب ہونے کی وجہ سے خراب ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریف اور عقل مند لوگ گھر بنوانے سے پہلے اچھی ہمسائیگی اختیار کرتے ہیں جیسا کہ ابو تمام نے کہا: ہے کوئی جو یعرب کے تمام لوگوں کو یہ بتلادے کہ میں نے گھر بنانے سے پہلے پڑوسی کا انتخاب کیا ہے۔
اے عبد بن حبتر ! قوم کے پڑوسی کا خیال رکھو تم اس وقت تک راہ راست پر باقی نہیں رہ سکتے جب تک تمہارا پڑوسی اس پر باقی نہ رہے۔ پڑوسی و ہمسائے کے انتخاب میں اہل دانش و بینش کے بہت سے مشہور اقوال ملتے ہیں جیسے :
الجار قبل الدار
یعنی: گھر سے پہلے پڑوسی کو دیکھو۔
الرفیق قبل الطریق
یعنی: سفر سے پہلے رفیق سفر کا انتخاب کرو۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے:
أعرف جارك قبل أن تشتري دارك
اپنا گھر خریدنے سے پہلے اپنا پڑوسی پہچان لیجے، اور یہ بھی مشہور قول ہے کہ :
من ساء جارہ ساء قرارہ
یعنی: جس کا پڑوسی برا ہو گا اس کا مسکن بھی براہو گا۔ اور کہا جاتا ہے کہ : اچھے پڑوس کا انتخاب کرو، کیوں کہ درندے اور ہوا میں اڑنے والے پرندے بھی اپنے پڑسیوں کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں۔
جن کے پڑوس میں رہو گے پہلے ان کو تلاش کرو۔۔۔ کیونکہ جب تک پڑوسی اچھا نہیں ہو گا وہاں گھر بنانا مناسب نہیں رہے گا۔ اور کسی گھر کی سعادت میں سے یہ ہے کہ اس کا پڑوس اچھا ہو۔
نافع بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: ” مسلمان آدمی کی سعادت یہ ہے کہ اس کا آنگن وسیع ہو ، پڑوسی نیک ہو ، اور سواری اچھی ہو“۔ اور سب سے خوش نصیب لوگ اس شہر کے ہیں جس کے باشندے اپنے پڑوسیوں کے حسن اخلاق کی تعریف کریں۔
ابو الحجم عدوی کو بصرہ میں ان کے کسی گھر پر ایک لاکھ درہم کی آفر کی گئی تو انہوں نے لوگوں سے کہا ہے تم لوگ سعید بن عاص کے ہمسائیگی کو کتنی قیمت میں خریدو گے ؟ تو لوگوں نے کہا کیا کبھی کسی پڑوس کو بھی خریدتے ہوئے کسی نے دیکھا ہے؟ تو ابو جہم عدوی نے فرمایا: اللہ کی قسم میں ایسے گھر کو فروخت نہیں کر سکتا جس کے پڑوس میں ایک ایسا شخص رہتا ہو جو میرا اس قدر خیال رکھتا ہے کہ جب میں غائب رہتا ہوں تو میرے احوال دریافت کرتا ہے، اور میرے اہل و عیال کے بارے میرے حقوق یا درکھتا ہے، جب مجھے دیکھتا ہے تو میر اپر جوش استقبال کرتا ہے، اگر میں کوئی چیز مانگتا ہوں تو خوشی خوشی میری ضرورت کو پوری کرتا ہے، اور اگر میں سوال نہیں کرتا ہوں تو میرے ساتھ شفقت کا معاملہ کرتا ہے اور خود ہی پیش کش کرتا ہے، اللہ کی قسم اگر مجھے سونے کے برابر بھی اس گھر کی قیمت دی جائے پھر بھی میں اس کو اختیارنہیں کروں گا اور نہ ہی اس کو خاطر میں لاؤں گا۔
بے شک میں تمہارے پڑوسی پر رشک کرتا ہوں کہ جسے تمہارے جیسا پڑوسی ملا۔۔۔ اور وہ کس قدر خوش نصیب ہے جس کو تمہارا پڑوسی ہونے کی سعادت حاصل ہے۔
اور جب آپ دیکھیں کہ آس پاس کئی گھر بسے ہوئے ہیں، ان کے دروازے ایک دوسرے کا دیدار بھی کر رہے ہیں، لیکن ان کے دلوں میں نفرت ہے، اور نفوس میں کدورت ہے تو یہ جان لو کہ بخل و حرص، نزاع ، بغض و نفرت اور منافست نے ان کے دلوں کی رونق کو ختم کر دیا ہے۔ اگر دلوں میں ایک دوسرے کو در گزر کرنے کا جذبہ نہ ہو تو پڑوسی کا مطلب صرف دیواروں کی قربت رہ جاتی ہے۔
اے مسلمانو!ابر اپڑوسی تو حد درجہ نقصان دہ، مسلسل شقاوت کا باعث، فقر و فاقہ اور دائی شر و فساد، اور ابدی اذیت و تکلیف کا سبب ہے جو پڑوسی کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے، اس کی غلطیوں کو ڈھونڈھتا ہے، اس کے عیوب کو تلاش کرتا ہے ، رازوں کو افشا کرتا ہے ، اس سے دشمنی رکھتا ہے، نقصان پہنچاتا ہے، اس پر چیختا ہے ، شریف اور کمینے میں فرق نہیں کرتا ہے اور نہ دور میں رہنے والے اور پڑوسی میں فرق کرتا ہے ، فتنوں کی آگ بھڑکا تا ہے، شر پھیلانے کی کوشش کرتا ہے ، وہ بچھو کی طرح زہریلا، لومڑی کی طرح مکار اور گوہ کی طرح خبیث ہوتا ہے۔اور ہمسائے اس کی جھوٹی گواہیوں اور الزام تراشیوں سے محفوظ نہیں ہوتے ہیں۔ صعب بن عمر و نہدی سے جب نعمان نے سوال کیا کہ لاعلاج بیماری کیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا: بر اپڑوسی جس سے اگر بحث کرو تو تم پر بہتان باندھے ، اگر غائب رہو تو تمہاری عیب جوئی کرے اور خاموش رہو تو تم پر ظلم کرے۔
جو شیروں کے پڑوس میں رہے گا اس کے شر سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ شیر وں کو اپنے پڑوس کا کوئی پاس ولحاظ نہیں ہوتا۔ لوگ کہتے ہیں: سب سے بُرا پڑوسی وہ ہے جو اپنی آنکھ اور دل کا پہرا آپ پر لگائے رکھتا ہے ، اگر کوئی اچھائی دیکھتا ہے تو اس کو چھپاتا ہے اور اگر برائی دیکھتا ہے تو اس کو پھیلاتا ہے ، اور بُرا پڑوسی وہ ہے جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہیں ہو تا ، اگر چہ وہ اپنے کردار و گفتار میں احتیاط برتے لہذا آپ اس کے ساتھ نرمی اور مدارات کا سلوک کرو تا کہ اس کے شر سے بچ سکو اور اس کو چھوڑنے اور ترک کرنے کی نوبت نہ آئے لیکن احتیاط بر تو تاکہ اس کے مکر و فریب سے بچ سکو یہاں تک کہ اس گھر سے منتقل ہو جاؤ اور اس کے پڑوس سے فرار اختیار کرلو۔ بُرے پڑوسی کے ساتھ صبر کو لازم پکڑو۔ اور اگر صبر نہیں کر سکتے تو بہتر ہے کہ وہاں سے منتقل ہو جاؤ۔ اور درندوں سے زیادہ ایسے آدمی کے پڑوس سے بھاگنا چاہئے، کیوں کہ اہل و عیال میں در آنے والے کتنے ہی فتنے وفساد کی جڑ یہی خراب پڑوسی ہیں۔
بصرہ میں ابو الاسود کا ایک گھر تھا، جہاں ایک پڑوسی سے ان کو ہر وقت اذیت پہنچتی رہتی تھی، تو انہوں نے اپنے گھر کو بیچ دیا، تو ان سے کہا گیا کہ آپ نے اپنے گھر کو فروخت کر ڈالا، تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اپنے پڑوسی کی وجہ سے بیچا ہے۔ پڑوس میں رہنے والا آدمی اگر ہم مزاج و ہم مشرب نہ ہو ، اور گھر کا ماحول ساز گار نہ ہو تو ایسے گھر سے منتقل ہو جانا چاہئے۔ ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : کوئی بھی شخص جو اپنے پڑوسی پر ظلم کرتا ہے، اسے ستاتا ہے جس کی وجہ سے اس کا پڑوسی اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو اس شخص کے لیے ہلاکت ہے۔ (اس کو امام بخاری نے ادب مفرد میں صحیح سند سے روایت کیا ہے)۔ اگر تمہارے نزدیک تمہارے پڑوسی کی کوئی عزت نہیں ہے۔ اور نہ ہی تم جیسوں کے پاس رزق تلاش کیا جاتا ہے تو اپنے حسب و نسب کو بوسیدہ کپڑوں میں لپیٹ کر رکھ دو۔ کیوں کہ تمہارے اخلاق و کر دار نے اس کی خباثت کو ظاہر کر دیا ہے۔
اور ایک مسلمان کو چاہئے کہ اپنے گھر کو مشتبہ افراد ، اور فسق و فجور کے رسیا لوگوں کے گھروں سے دور رکھے اور اللہ سے ان کی شر سے پناہ مانگے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: “رہائش کی جگہ میں بڑے پڑوسی سے اللہ کی پناہ مانگو، کیوں کہ خانہ بدوش تو اپنی جگہ بدلتے رہتاہے ہیں“۔ (سنن النسائی)۔
امام ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر پڑوسی کبیرہ گناہوں کا مر تکب ہو تو وہ دو حال سے خالی نہیں ہوگا، یا تو ہ پر دہ میں یہ کام کرے اور اپنے دروازے کو بند رکھے تو ایسے آدمی سے اعراض کرے اور اگر ممکن ہو تو اس کو تنہائی میں وعظ و نصیحت کرے اور یہ زیادہ بہتر ہے، اور اگر فسق و فجور کا اعلانیہ مر تکب ہو تو اس سے اچھی طرح قطع تعلقی کرلے، اسی طرح اگر کوئی اکثر نمازوں کو ضائع کرنے والا ہو تو اس کو بار بار رفق و نرمی کے ساتھ نیکی کا حکم دو اور منکر سے رو کو، ورنہ اس سے اللہ کے لیے قطع تعلقی کر لو، شاید کہ وہ نصیحت پکڑلے اور اس قطع تعلقی کا اس پر اثر پڑے، لیکن اس کی وجہ سے اپنی گفتگو، اور سلام و کلام اور ہدایا و تحائف دینا بند نہ کرو، لیکن اگر دیکھو کہ وہ سرکشی پر مصر اور خیر سے دور ہے تو اس سے اعراض کرو اور کوشش کرو کہ اس کے جوار و پڑوس سے منتقل ہو جاؤ، اور اگر پڑوسی دیوث اور بے غیرت ہے، یا اس کی بیوی غلط راستے پر ہے تو اس جگہ کو چھوڑ دو، یا کوشش کرو کہ تمہاری بیوی اس کی بیوی سے دوستی نہ رکھے ، کیوں اس میں بہت بڑا فساد ہے اور اپنے آپ پر ڈرو اور اس کے گھر میں مت داخل ہو“۔
اے مسلمانو! انسان کے حال و احوال سے سب سے زیادہ اس کے اہل و عیال اور اس کے پڑوسی واقف ہوتے ہیں، اور خوش نصیب انسان وہ ہے جس کے بھروسے مند اور امانت دار پڑوسی کی زبان اس کی تعریف میں رطب اللسان رہے، کیوں کہ پڑوسی کی زبان آدمی کو پرکھنے کا معیار ہوتی ہے ، اور اس کی اچھائی یا برائی کی دلیل ہوتی ہے۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے فرمایا: میں نے اچھا کیا یابرا مجھے کیسے معلوم ہوگا؟ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر تم اپنے پڑوسی کو کہتے ہوئے سنو کہ تم نے اچھا کیا تو حقیقت میں تم نے اچھا کیا اور اگر تم نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ تم نے بُرا کیا تو واقعی تم نے بُرا کیا“۔ (احمد وابن ماجہ)
عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر آدمی کے اندر تین خصلتیں پائی جائیں تو اس کے نیک ہونے میں کوئی شک نہیں، اگر اس کے رشتہ دار، پڑوسی اور اس کے دوست اس کی تعریف کریں۔ اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو ان خوش نصیبوں میں شمار کرلے جنھیں مقبولیت حاصل ہوئی اور جن کی اپنے رب کے فضل سے ہر خواہش پوری ہوئی۔ آپ سب نے میری باتیں سنیں، اب میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں، آپ سب بھی اس سے مغفرت طلب کریں، بے شک وہ رجوع کرنے والوں کو معاف کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ :
تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے عطا و بخشش کی بارشیں کی، اور ہدایت کو اس قدر واضح کر دیا کہ تاریکیوں کے تانے بانے بکھر گئے اور شب دیجور کی ظلمتیں چھٹ گئیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، وہی مشرق و مغرب کا رب ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سردار محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اگلے پچھلے تمام لوگوں کے سردار ہیں، اگرچہ یہ بات جھوٹے سرکشوں کو ناگوار گزرے، وہ تو شریف لوگوں کی نسل سے پید اہونے والوں میں سب سے مکرم ہیں۔
اللہ کی رحمت و سلامتی نازل ہو آپ ﷺ پر ، آپ ﷺ کی آل و اصحاب پر جو فضائل و مناقب کے مجسم تھے، اور یہ رحمت و سلامتی اس وقت تک نازل ہوتی رہے جب تک پانی سے بھرے بادل موسلا دھار بارش برساتے رہیں اور آسمان ستاروں کی روشنیوں سے چمکتا دمکتا رہے۔
حمد و صلاۃ کے بعد !
مسلمانو! اللہ سے ڈرو، اس کی نگرانی کا احساس اپنے دل میں رکھو، اس کی اطاعت کرو، اور اس کی معصیت سے بچو۔ ارشاد باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ
التوبة – 119
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچ بولنے والوں کے ساتھ ہو جاؤ۔
مسلمانو! کسی کو بھی ناحق اذیت و تکلیف دینا حرام ہے، لیکن پڑسیوں کو تکلیف دینے کی حرمت زیادہ سخت ہے۔ پڑوسیوں کے حقوق بہت زیادہ ہیں لہذا انہیں تکلیف دینے سے گریز کیجئے۔۔۔اس پڑوسی میں کوئی خیر و بھلائی نہیں ہے جو ہمیشہ تکلیف دیتا رہتا ہے۔
ابو ہریرہ یا اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، تو اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے“۔ (بخاری و مسلم)۔
اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! فلاں خاتون کثرت سے نمازیں پڑھتی ہے، بہت زیادہ روزے رکھتی ہے اور بہت زیادہ صدقہ و خیرات بھی کرتی ہے، لیکن اپنی زبان سے ہمسایوں کو تکلیف پہنچاتی ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ جہنمی عورت ہے۔ اس (صحابی) نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ! اور فلاں عورت روزے کم رکھتی ہے اور نمازیں بھی کم پڑھتی ہے اور صدقہ و خیرات بھی کم کرتی ہے، پنیر کے چند ٹکڑے صدقہ کر دیتی ہے، لیکن اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو ایذا و تکلیف نہیں پہنچاتی؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ عورت جنتی ہے۔ (مسند احمد- صحیح ابنِ حبان)
کسی ادیب کا قول ہے کہ : ظلم وزیادتی کرنے والے کا کوئی پڑوسی نہیں بنتا، اور نہ ہی اس کا گھر آباد ہوتا ہے۔ اور جب کسی کے گھر میں کوئی درخت ہو جو لمبا ہو کر اس قدر پھیل جائے کہ اس کی شاخیں اور ٹہنیاں ساتھ رہنے والے پڑوسیوں کے گھر تک پہنچ جائیں، اور وہ اس سے تکلیف محسوس کریں تو انہیں کاٹ کر ہٹا دیا جائے، اور ایسا بنادیا جائے جس سے کسی کو تکلیف نہ ہو۔ اور ایسا کوئی کام بھی نہ کرے جس سے ایسی سخت اور مسلسل آواز پیدا ہو رہی ہو جس سے پڑوسی کو تکلیف ہو ، اور ہر ایسی چیز کو زائل کرنا بھی واجب ہے جس کی بد بو پرسیوں کو مسلسل اذیت پہنچا رہی ہو، مثلا: کوڑا کرکٹ، خار و خس اور گھاس پھوس وغیرہ، کیونکہ یہ کھلم کھلا پڑوسیوں کو اذیت و تکلیف میں مبتلا کرنے کا باعث ہے۔
رہائشی گھروں کی چھتوں پر کبوتروں کو پالنا بھی جائز نہیں ہے، کیونکہ اس سے بھی پڑوسیوں کو تکلیف ہوتی ہے، اسی طرح گھروں کی چھتوں پر چڑھنے سے پڑوسیوں کے گھروں اور ان کی محرمات پر نگاہ پڑتی ہے، اور اسی نگاہ کے ذریعے ان کے ستر اور پردے کی حرمت پامال ہوتی ہے، اسی طرح ان کبوتروں کے گھونسلوں، ان کی خشک لکڑیوں، اور کبوتروں کی بیٹ و گندگی سے بھی پڑسیوں کو تکلیف ہوتی ہے جو سراسران کے ساتھ زیادتی ہے۔ ہاں اگر پرندے اڑانے کی غرض سے نہیں ہیں بلکہ چوزوں کے لیے، یا انڈوں کے لیے، یا مانوسیت کے لیے، یا پیغام رسانی وغیرہ کے لیے رکھے ہیں جس میں لوگوں کو کسی طرح کی کوئی اذیت و تکلیف نہیں ہے، یا ایسے پرندے ہوں جن کے پر کاٹ دیے گئے ہوں، یا پنجروں میں بند، رکھے گئے ہوں، انہیں اڑانا مقصود نہ ہو تو پھر کوئی حرج نہیں ہے، ان کا اناج و دانے ، باقی بچا کھانا، اور کبوتروں کے پانی پینے کی نالیاں وغیرہ جیسی چیزوں کو لوگوں کے گھروں کے درمیان یار ہا ئشی محلوں کی سڑکوں پر پھیلانا بالکل جائز نہیں ہے کیوں کہ اس سے تعفن و گندگی پھیلتی ہے اور ہمسایوں کو تکلیف ہوتی ہے۔
اور جب وہ کسی بھی پھل دار درخت یا کھجور کے درخت پر پھل توڑنے کی خاطر چڑھے یا اپنی کسی ضرورت کے تحت اپنے گھر کی چھت پر چڑھے جس سے اس کے سامنے اپنے پڑوسی کے گھر کی اندونی چیزیں نمایاں ہونے لگیں یا یہ کہ چڑھتے وقت اس طرف جھانکنے کی نوبت در پیش ہو تو ایسی صورت میں اس پر واجب ہے کہ اپنے پڑوسی سے اجازت لے ، اچانک نہ چڑھے تاکہ اس کا ہمسایہ اپنی ان ساری چیزوں کا پردہ کرلے جنہیں وہ اس کے سامنے ظاہر کرنا پسند نہیں کرتا، چاہے وہ اس کا اہل خانہ ہو یا دولت ہو یا کوئی منظر یاد یگر کوئی دوسری چیز۔
پڑوسی کا پڑوسی پر حق یہ ہے کہ اس کی بیوی کے تعلق سے خیانت نہ کرے اور پڑوسی کی عورتوں اور دیگر حرمت کی جگہوں سے اپنی نگاہ کو دور رکھے۔اور زنا کی فحش ترین و بد ترین قسم یہ ہے کہ آدمی اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تو اللہ کا شریک بنائے حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ میں نے پوچھا کہ اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تو اپنے بچے کو اس ڈر سے مار دے کہ وہ تیرے ساتھ کھانے میں شریک ہو گا۔ میں نے پوچھا کہ اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تو اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے۔ (بخاری و مسلم)
اس حدیث میں ناحق کسی کا خون بہانے کے فوراً بعد دوسرا بڑا جرم و کبیرہ گناہ پڑوسی کی بیوی سے زنا کو قرار دیا گیا ہے، کیوں اس کے مفاسد و نقصانات بہت زیادہ ہیں جیسے نطفے کا اختلاط، مشکوک نسب، عزت پر بد نماداغ اور پڑوسی کو اذیت پہچانا وغیرہ وغیرہ ۔ پڑوسی کی بیوی کا تذکرہ کر کے پڑوسی کے عظیم حق کو واضح کیا گیا ہے کہ آدمی پر واجب ہے کہ جس طرح وہ اپنی بیوی پر غیرت کا مظاہرہ کرتا ہے بالکل اسی طرح اپنے پڑوسی کی بیوی کے زنا پر غیرت کا مظاہرہ کرے۔
مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب سے پوچھا زنا کی بابت تم کیا کہتے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا وہ حرام ہے اور وہ قیامت تک حرام ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں سنو ! انسان کا اپنی پڑوس کی عورت سے زنا کرنا دوسری دس عورتوں سے زنا سے بھی بد تر ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : چوری کی نسبت کیا کہتے ہو ؟ انہوں نے یہی جواب دیا کہ وہ حرام ہے اللہ اور اس کے رسول اسے حرام قرار دے چکے ہیں۔ آپ نے فرمایا : سنودس جگہ کی چوری بھی اتنی بری نہیں جیسی پڑوس کی ایک جگہ کی چوری ہے۔ (صحیح بخاری)
بعض لوگ بچوں کو ادب سکھانے میں لا پروائی برتتے ہیں، پھر یہ بچے شور و غوغا، چیخ و پکار ، تالیوں اور سیٹیوں سے آس پاس رہنے والوں کو پریشان کرتے ہیں اور شور و شغب، لڑائی جھگڑے اور فتنہ و فساد کے ذریعے مسافروں اور راہ گیروں کو اذیت پہنچاتے ہیں، بچوں کے جھگڑوں کی وجہ سے کتنے پڑوسیوں کے رشتے خراب ہو چکے ہیں، آپ دیکھیں گے کہ یہ بچے گھروں کے گوشے اور کونے میں انار کے دانوں کی طرح بڑی تعداد میں جمع ہو جاتے ہیں، ان کا مقصد صرف شور و شغب کرنا ہوتا ہے ، نہ طلوع فجر انھیں روک پاتی ہے اور نہ کسی کی نظر سے وہ شرماتے ہیں، وہ اذان سنتے ہیں، پر جواب نہیں دیتے ہیں، نماز کے لیے صف بندیاں ہو جاتی ہیں لیکن وہ کوئی پرواہ نہیں کرتے ، وہ کسی بزرگ کو دیکھ کر بھی نہیں شرماتے ، وہ چھیڑ چھاڑ، سرکشی اور مذاق و تمسخر ہی میں سر مست رہتے ہیں۔
لہذا اپنی اولاد کو ہمسایوں کو تکلیف پہنچانے سے باز رکھو۔ ان کے اخلاق کو سنوارو، فضائل اور اچھے اخلاق کے عادی بناؤ یہاں تک وہ بہترین اخلاق و آداب، سیدھے رخ، درست منہج اور مقبول شکل و صورت اپنالیں۔
راہ راست دکھانے والے، مخلوق کی سفارش کرنے والے احمد مجتبی ﷺ پر سب کثرت سے درود و سلام پڑھو، کیوں کہ جو ان پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل کرے گا۔
اے اللہ ہمارے نبی و سردار، رحمت و ثواب کی خوشخبری دینے والے، عذاب و عقاب سے ڈرانے والے محمد ﷺ پر درود و سلام نازل فرما، جو روز قیامت صاحب شفاعت ہوں گے، جن کی سفارش کو قبول کیا جائے گا، اے اللہ! اُن پر ، ان کی آل و اصحاب پر رحمتیں نازل فرما، اور ان کے ساتھ ساتھ ہم سے بھی راضی ہو جا۔ اے کریم اور بہت زیادہ عطا کرنے والے۔
اے اللہ ! اسلام و مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، شرک و مشرکین کو ذلیل ورسوا فرما، دین کے دشمنوں کو تباہ و برباد فرما، تمام مسلم ممالک اور ہمارے ملک مملکتِ سعودی عرب کو سازش کرنے والوں کی سازش، مکر و تدبیر کرنے والوں کے قریب، اور بغض و حسد رکھنے والوں کے بغض و حسد سے محفوظ فرما۔ اے تمام جہانوں کے پالنے والے۔
اے اللہ! ہمارے پیشوا، حاکم، خادم حرمین شریفین کو اپنے پسندیدہ کاموں کی توفیق عطا فرما، اور نیکی و تقوی کے کام کرنے کی توفیق عطا فرما، اے اللہ! اے تمام جہانوں کے پالنے والے! انہیں اور ان کے ولی عہد کو اسلام کی تقویت، اور مسلمانوں کی اصلاح کے کام سر انجام دینے کی توفیق عطا فرما۔
اے اللہ! ہماری فوج، اور ہماری سرحدوں کی حفاظت فرما، اے تمام جہانوں کے پالنے والے۔
اے اللہ! ہمارے بیماروں کو شفا عطا فرما، اور مصیبت زدہ لوگوں کو عافیت عطا فرما، ہمارے فوت شدگان کی مغفرت فرما، اور دشمنوں کے خلاف ہماری مدد فرما، اے تمام جہانوں کے پالنے والے۔
اے اللہ ! ہماری دعا کو شرف قبولیت عطا فرما، اور ہماری پکار کو منظور فرما، اے عزت والے، عظمت والے اور نہایت رحم کرنے والے۔
خطبة الجمعة مسجدِ النبوی ﷺ: فضیلة الشیخ صلاح البدیر حفظه اللہ
13جمادی الثانی 1444 ھ بمطابق 6 جنوری 2022