پریشانیاں اور دکھ دور کرنے کے وسائل و اسباب

پہلا خطبہ

ابتدا ہو یا  انتہا تمام  تعریفیں اللہ کے لئےہیں ،  میں گواہی دیتا ہوں کہ دنیا ہو یا آخرت کہیں بھی اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں محمد  -ﷺ-اللہ کے بندے  اور چنیدہ رسول  ہیں، یا اللہ! ان پر، ان کی آل، اور وفا دار صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں قیامت تک نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد: مسلمانوں!

میں تمام سامعین  اور اپنے آپ کو تقوی سمیت ظاہری و باطنی ہر اعتبار سے اطاعت الہی کی نصیحت کرتا ہوں، کیونکہ یہی سب سے بڑی سعادت مندی  اور عظیم کامیابی ہے۔

اہلیانِ اسلام!

اسلام میں عبادات کے بہت عظیم اہداف اور مقاصد ہیں، چنانچہ  فریضہِ حج بھی بہت اہم اہداف اور مقاصد  اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، لہذا حج بیت اللہ کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ لوگ عقیدہ توحید پر ڈٹ کر شرک سے پاک ہو جائیں؛ کیونکہ آیاتِ حج میں اللہ تعالی فرماتا ہے:

حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ

الحج – 31

 اللہ کے لئےیک سو ہوں اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک مت بنائیں۔

 یعنی: حجاج تمام گمراہ ادیان سے کٹ کر دینِ حق  کی جانب یکسو ہونے والے ، اللہ تعالی کے لئےمخلص اور غیر اللہ کی عبادت سے بالکل بری  ہونے والے ہوتے ہیں۔

اسلامی بھائیوں!

مناسکِ حج مسلمان کو  یہ سکھاتے ہیں کہ اس کے تمام اقوال، افعال، کام کاج اور چال چلن سمیت سب کچھ  ظاہری و باطنی طور پر اللہ تعالی کے لئےہو،

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا

الحج – 34

 ہم نے ہر امت کے لیے مناسک ادا کرنے کا ایک طریقہ  مقرر کر دیا ہے تاکہ ہمارے عطا کردہ جانوروں پر وہ اللہ کا نام لیں، اور تمہارا الٰہ صرف ایک ہی الٰہ ہے لہذا اسی کے فرمانبردار بن جاؤ۔

حج کا سب سے بڑا شعار اور نعرہ تلبیہ ہے، جسے لگاتے ہوئے جسمانی اور روحانی ، قولی و فعلی ہر اعتبار سے مسلمان اقرار کرتا ہے کہ کامل ترین تعظیم ، مکمل عاجزی و انکساری ، انتہا درجے کی محبت  صرف اللہ تعالی کے لئےہے، عبادت بھی صرف اسی کے لئےہے، اسی کے احکامات کی تعمیل ہوتی ہے نیز اسی کی شریعت  کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتے ہیں۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حجرِ اسود کو بوسہ دیتے ہوئے فرمایا تھا: “اللہ کی قسم! میں جانتا ہوں کہ توں ایک پتھر  ہے جو نفع دے سکتا ہے اور نہ ہی نقصان ، اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی نہ چومتا” یہ حقیقت میں سب کچھ اللہ تعالی  کے احکامات ماننے کی عملی صورت ہے۔

اسی طرح سفرِ حج دل میں  اللہ تعالی کے لئےاخلاص، اطاعت، محبت، خشیت اور اسی سے ثواب کی امید ٹھوس بناتا جاتا ہے، اس طرح حج دلوں میں ایمان کی تجدید کرتا ہے، روح میں عقیدہ توحید پختہ کرتا ہے، چنانچہ ہر حاجی اپنے رب سے ہی لو لگاتا ہے، صرف اسی سے مانگتا ہے، اسی سے دعائیں کرتا ہے، کیونکہ حاجی کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ  حاجت روائی اور مشکل کشائی صرف اللہ تعالی ہی کر سکتا ہے۔

اللہ کے بندوں!

حج کا اہم ترین عنصر یہ ہے کہ  پورے حج میں آپ  ذکرِ الہی اور ثنا خوانی  میں مشغول رہیں، حج کے کسی بھی رکن کو ادا کرتے ہوئے اللہ تعالی کے سامنے عاجزی اور انکساری  کا اظہار کریں، اس طرح جو بھی حاجی واپس لوٹتا ہے وہ صرف اللہ تعالی کا تعلق ساتھ لے کر جاتا ہے، اپنا سب کچھ اللہ کے سپرد کر دیتا ہے، اپنی پوری زندگی میں اللہ تعالی کی ہر بات تسلیم کرنے کا اقرار کرتا ہے اور تمام معاملات تعلیماتِ الہیہ کی روشنی میں بجا لانے کی کوشش کرتا ہے،  فرمانِ باری تعالی ہے:

فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ

البقرۃ – 198

 جب تم عرفات سے واپس آؤ تو مشعر الحرام [مزدلفہ] پہنچ کر اللہ کو اس طرح یاد کرو جیسے اس نے تمہیں ہدایت دی ہے۔

  اسی طرح فرمایا: 

ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

البقرة – 199

پھر وہاں سے واپس آؤ جہاں سے سب لوگ لوٹتے ہیں اور اللہ سے بخشش مانگتے رہو، اللہ تعالیٰ یقینا بڑا بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:

فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا

البقرة – 200

 پھر جب تم ارکانِ حج ادا کر لو تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جس طرح تم اپنے باپ دادا کا ذکر کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ اللہ کا ذکر کرو۔

اسی طرح عقیدہ توحید کے سب سے بڑے معلّم ﷺ کا فرمان ہے: (افضل ترین حج  وہ ہے جس میں عج اور ثج [قربانی]ہو)  یہ حدیث اہل علم کے ہاں حسن ہے، اور “عج” بلند آواز میں تکبیرات اور عقیدہ توحید پر مشتمل تلبیہ پر بولا جاتا ہے۔

اسی طرح نبی ﷺ نے فرمایا: (بیت اللہ کا طواف  ، صفا مروہ کے درمیان سعی  اور جمرات کی رمی ذکر الہی کے لئےہی شریعت میں شامل کی گئی ہیں)  اسے ترمذی اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے اور  امام ذہبی نے امام حاکم کی موافقت کی ہے۔

اہلیانِ ایمان!

حج ایک بہت عظیم شعار ہے جو کہ پوری امت کو  اللہ تعالی کے ہاں معزز اشیا کی عظمت  یاد دلاتا ہے، شریعتِ الہی پر کار بند رہنے  اور اسی پر چلنے کی تلقین کرتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ

الحج – 32

 اور جو بھی شعائرِ الہی کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کے تقوی سے تعلق رکھتی ہے۔

اس لیے اے امت محمدیہ!

امت کو موجودہ حالات سے نجات  بھی صرف اسی صورت میں ملے گی جب  ہم مذکورہ شرعی اقدار اپنی زندگی میں لاگو کر لیں گے، جب اپنے تمام معاملات میں صحیح نظریات، درست منہج   اور اچھے طریقہ کار پر چلیں گے، تبھی  امت کو غلبہ، رعب،  عالی شان رتبہ اور خوش حالی حاصل ہو گی۔

امت اسلامیہ!

عبادتِ حج سے  پوری امت کو یہ بات سیکھنی چاہیے کہ  تمام دینی عبادات کا سب سے بڑا مقصد مشرق سے مغرب تک کے تمام مسلمانوں کے مابین ایمانی وحدت اور اسلامی اخوت کا قیام ہو، اس اخوت میں قوم ، نسل اور علاقائیت  کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی بلکہ اخوت  کی وجہ سے دینی و دنیاوی امور بہترین انداز سے سنور سکتے ہیں

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ

الحجرات – 10

 یقیناً تمام مومنین آپس میں بھائی ہیں۔

امت اسلامیہ کے سپوتوں کو یہی بات یاد کرواتے ہوئے آپ ﷺ فرماتے ہیں: (تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئےوہی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے کرتا ہے) متفق علیہ

یہاں سے بات واضح ہوتی ہے کہ اس امت کے چند افراد کا کردار دینِ اسلام سے میل نہیں کھاتا اور نہ ہی دینی اقدار  ان کی تائید کرتی ہیں؛ کیونکہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک مسلمان اپنے ہی بھائی کو کافر قرار دے، اس کا خون بہائے؟ آبرو ریزی اور لوٹ کھسوٹ کرے؟!  حالانکہ سب کے سب لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ  پڑھنے والے ہیں!؟

امت اسلامیہ کے سپوتوں!

کیا اب بھی اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی بات تسلیم نہیں کرو گے؟!  کیا اب بھی آپ شرعی مقاصد اور اسلامی اقدار کے مطابق عمل پیرا ہونے کے لئےتیار نہیں ہوں گے؟! آپ سب حج سے ایسی تربیت حاصل کریں جن کی وجہ سے دشمنانِ اسلام کی تمام منصوبہ بندیاں غارت ہو جائیں، یہ انہوں نے امت کا شیرازہ بکھیرنے ، اس کا وقار خاک میں ملانے ، امت کو ٹکڑوں میں بکھیرنے ، اور صفوں میں انتشار پیدا کرنے کے لئے کی ہیں، انہی منصوبہ بندیوں کی وجہ سے سنگین آزمائشیں اور لمبی چوڑی خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں۔

شیطان کے بہکاوے میں آنے والے امت محمدیہ کے لوگو! موسمِ حج  سے کچھ سیکھو، اس حج پر اللہ تعالی سے توبہ مانگ لو، اور وقت ہاتھ سے نکلنے سے پہلے راہِ راست پر آ جاؤ، اس سے پہلے کہ تمہیں اللہ تعالی کے سامنے پیش کر دیا جائے!

مسلم اقوام!

سعودی حکومت حجاج کی خدمت کا شرف حاصل کرتی ہے، اور اسے اپنے لیے دینی فریضہ اور دنیاوی اعزاز سمجھتی ہے، اور اس فریضے کی ادائیگی میں ہر قیمتی اور نفیس  چیز خرچ  کرتی ہے صرف اس لیے کہ رحمان کے مہمان اور مسجد نبوی کے زائرین  کو ہمہ قسم کی راحت و سکون میسر ہو۔

اللہ تعالی کی عظمت کا اقرار کرنے والے تمام مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان مقدس مقامات  کی تعظیم کریں، اور کتاب و سنت و اجماعِ امت سے ثابت شدہ  ان کے احترام کو پامال مت کرے، مسلمانوں کو اپنے دیگر بھائیوں کی سلامتی  کا خیال بھی ضروری کرنا چاہیے؛ کیونکہ ضیوف الرحمن کو اذیت پہنچانا ، یا ان کے بارے میں منفی سوچ رکھنا یا اذیت پہنچانے کا ارادہ کرنا انتہائی کبیرہ  اور مہلک ترین گناہ ہے

وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ

الحج – 25

 اور جو بھی اس میں کسی قسم کے ظلم کے ساتھ کسی کج روی کا ارادہ کرے گا ہم اسے درد ناک عذاب کا  مزہ چکھائیں گے۔

مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ:

ہر ایسے نظام کی پاسداری کریں جن سے مسلمانوں کے لئےمقاصدِ حج حاصل کرنا آسان ہو یا جن کے ذریعے مسلمانوں کو نقصان  سے بچایا جا سکے، چنانچہ اسی نظام میں  حج کے لئےاجازت نامہ حاصل کرنا بھی شامل ہے، اس نظام کی پاسداری کی دلیل یہ ہے کہ نیکی اور تقوی کے کاموں میں باہمی تعاون  واجب ہے،  نیز جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ تعالی کے ہاں بھی اچھی ہوتی ہے، اس لیے کسی بھی مسلمان کے لئےاجازت نامے کے معاملے میں ہیرا پھیری یا سستی کوتاہی سے کام لینا صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ اجتماعی مفاد کو انفرادی مفاد پر ہمیشہ ترجیح  دی جاتی ہے، حتی کہ نفل عبادات میں بھی  اجتماعی مفاد کو ترجیح حاصل ہو تی ہے، اور مقاصد شریعت بھی اس کی تائید کرتے ہیں، مسلم علمائے کرام نے بھی اسی رائے کو قلم بند کیا ہے۔

اسلامی بھائیوں!

حج انسانی روح کے لئےتہذیب، بری صفات سے  دوری اور مسلمان کے لئےدین و دنیا میں نقصان کا باعث بننے والی چیزوں  سے پاکیزگی کا ذریعہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ

البقرة – 197

 جو بھی ان مہینوں میں حج کا پختہ ارادہ کر لے تو  حج میں بیہودگی ، فسق اور لڑائی جھگڑا نہ کرے۔

اور آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جو شخص اس گھر کا حج کرے اور اس میں کسی بیہودگی یا فسق  کا ارتکاب نہ کرے  تو وہ گناہوں سے پاک صاف ہو کر ایسے لوٹتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے آج ہی جنم دیا ہو)

چنانچہ تمام مسلمانوں کو اس عبادت کے مقاصد سیکھنے چاہییں، نیز اپنی زندگی  کو انہی مقاصد کی روشنی میں استوار کریں۔

اللہ تعالی ہمیں توفیق دے اور رضائے الہی کے کام کرنے کے لئےہماری رہنمائی فرمائے۔

دوسرا خطبہ

میں اپنے رب کی حمد بیان کرتا ہوں اور اسی کا شکر بجا لاتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں  کہ اللہ علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اُسکے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر رحمتیں ، برکتیں، اور سلامتی نازل فرمائے۔

امت اسلامیہ!

امت اسلامیہ کامیابی  اور کامرانی اسی وقت پا سکتی ہے، خوشحالی، فلاح و بہبود اور امن و امان  اسی وقت حاصل کر سکتی ہے جب شریعتِ الہی پر گامزن ہو گی، جب کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ  کو دستور، آئین اور زندگی کے تمام شعبوں کے لئےقانون بنائے گی، اس لیے امت اسلامیہ نبی ﷺ کے حجۃ الوداع  کے خطبہ کو  سیاست و تعلقات ، معاشیات سمیت تمام امور کے لئےمشعل راہ بنائے، تبھی یگانگت پیدا ہو گی ، خوشحالی آئے گی ، تعمیر و ترقی کے زینے عبور ہوں گے، وگرنہ امت اسلامیہ نے لوگوں کے بنائے ہوئے قوانین اور خو د ساختہ دستوروں کا نفاذ کر کے تجربہ کر ہی لیا ہے کہ ان کی وجہ سے امت ہمیشہ خسارے ، گھاٹے، تکلیفوں اور آزمائشوں میں گھری رہے گی۔ اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق دے۔

اللہ تعالی نے ہمیں بہت ہی عظیم کام کا حکم دیا ہے اور وہ ہے نبی کریم پر درود و سلام پڑھنا، یا اللہ! ہمارے سربراہ اور نبی محمد -ﷺ- پر رحمتیں، برکتیں، سلامتی اور نعمتیں نازل فرما،  یا اللہ! خلفائے راشدین  ، تمام صحابہ کرام اور تابعین کرام سے یوم قیامت تک راضی ہو جا۔

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کی غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! مسلمانوں کو صرف تیری رضا کا باعث بننے والے کام کرنے کی توفیق عطا فرما ، یا اللہ! مسلمانوں کو صرف تیری رضا کا باعث بننے والے کام کرنے کی توفیق عطا فرما ، یا اللہ! مسلمانوں کو صرف تیری رضا کا باعث بننے والے کام کرنے کی توفیق عطا فرما ۔

یا اللہ! حجاج اور معتمرین کی حفاظت فرما، یا اللہ! انہیں اپنے اپنے علاقوں میں صحیح سلامت اور ڈھیروں اجر و ثواب کے ساتھ واپس پہنچا۔

یا اللہ! ہمارے حکمرانوں کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! مملکت حرمین اور دیگر تمام مسلم ممالک کی حفاظت فرما، یا اللہ! فلسطین، یمن، شام، عراق، کشمیر، برما، لیبیا اور پوری دنیا میں ہمارے بھائیوں پر رحمت فرما،  یا اللہ! ان پر اپنا خصوصی کرم فرما، یا اللہ! ان کی مشکلات ختم فرما دے، یا اللہ ! ان کی جانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ ! ان کی جانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ ! ان کی جانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! ان کی پریشانیاں چھٹ دے،  یا اللہ! ان کے تمام معاملات آسان فرما دے۔

یا اللہ! اسلام دشمنوں پر اپنی پکڑ نازل فرما، وہ تجھے عاجز نہیں کر سکتے، یا اللہ! ان میں پھوٹ ڈال دے، یا اللہ! انہیں تباہ  برباد فرما دے، یا اللہ! انہیں عبرتناک علامت  بنا دے، یا اللہ! انہیں ان کی آنے والی نسلوں کے لئےعبرتناک علامت  بنا دے، یا ذو الجلال و الاکرام!یا اللہ! ان پر اپنا عذاب اور پکڑ نازل فرما، یا اللہ! ان پر اپنا عذاب نازل فرما۔

یا اللہ! مسلمانوں سے تمام مصائب کے چھٹ جانے کا حکم جاری فرما، یا اللہ! یا ذو الجلال  والاکرام! مسلمانوں سے تمام مصائب کے چھٹ جانے کا حکم جاری فرما، یا ذو الجلال و الاکرام!

یا اللہ! تمام مسلمان مرد و خواتین، تمام مؤمن مرد و خواتین کو بخش دے، فوت شدگان اور بقید حیات تمام کی مغفرت فرما دے۔ اللہ کے بندو! اللہ کا ڈھیروں ذکر کرو، اور صبح و شام اسی کی تسبیح بیان کرو، ہماری آخری دعوت بھی یہی ہے کہ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئےہیں۔

فضیلۃ الشیخ جسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ: آپ مسجد نبوی کے امام و خطیب ہیں، شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ کے خاندان سے ہیں، بنو تمیم سے تعلق ہے، آپ نے جامعہ محمد بن سعود الاسلامیہ سے ماجستیر کی ڈگری حاصل کی ، پھر مسجد نبوی میں امام متعین ہوئے اور ساتھ ساتھ مدینہ منورہ میں جج کے فرائض بھی ادا کررہے ہیں۔