نظام اشتراکیت باطل کیوں؟

اسلام دینِ عدل ہے اور ہر معاملے میں عدل و انصاف کا حامی ہے اللہ رب العالمین نے ہر معاملے میں ہماری بہترین رہنمائی فرمائی اور کسی بھی معاملے میں ایسا نہیں کہ ہمیں اسلامی نظریہ ٔحیات اور شرعی دستور زندگی کو چھوڑکر غیروں کی طرف دیکھنا پڑے۔مثلاًہم تجارت کے معاملات کو ہی دیکھ لیں،دیگر امور کی طرح شریعتِ مطہرہ نے اس معاملے میں بھی ہماری مکمل رہنمائی کی ہے،محدثین نے کتب حدیث، فقہاءنے فقہی ذخیروں میں احکام معیشت و تجارت کے متعلق ہر مسئلےپر سیر حاصل بحث کی ہے ،اتنی جامع و مانع بحث کے بعد کہیں اور سے نظریۂ تجارت ومعیشت کشید کر نے کی ضرورت نہیں مگر:

 ؂غلامی میں بدل جاتا ہے قومو ں کا ضمیر

کے مصداق کچھ احباب سرمایہ دارانہ نظام کا عذر لنگ تراش کر اشتراکیت کے دلدادہ ہو کر یہ نعرہ مستانہ لگاتے ہیں کہ ہمارے غموں کا علاج اور دکھوں کا مداوا اسی نظام باطل میں ہے۔

 بہانہ یہ ہے کہ سب کو مساوی تقسیم کر کے معاشرےسے غربت ختم کی جائے گی مگر جب اس کھوکھلے نعرے اور مغرب سے مرعوب ہو کر چھوڑے گئے شوشے کو گہرائی میں جا کردیکھا جاتا ہے تو زبانِ بے اختیار سے بے ساختہ نکل جاتا ہے کہ :غربت تو ختم نہیں ہوگی مگر اس سے ساری قوم ہی غریب ہو جائے گی۔

 زیر نظر مضمون میں عالم عرب کی ممتاز شخصیت علامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کی لاجواب تصنیف

الأدلةُ علی بُطلان الإشتراکية

سے چند مباحث کا ترجمہ کیا گیا ہے ۔جن کے مطالعے کے بعد خوانندگانِ محترم پر اس باطل نظام کی حقیقت واضح ہو گی اور قارئین کرام اس نظام کی خرابیوں کو سمجھ لیں گے۔ان شا ءاللہ

(1)نظامِ اشتراکیت کا وجود نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مسعود میں تھا اور نہ ہی خلفاءراشدین کے زمانے میں اور نہ ہی ان کے بعد حکومت اسلامیہ میں اس کا تصور پایاجاتا تھا،اس کے بعد تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ یا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ،آپ کے خلفائے راشدین ،نیز ان کے بعد ائمہ مسلمین حق پر ہیں یا نظام اشتراکیت کے یہ دلدادہ حضرات ،اور دوسرا خیال تو ہے ہی باطل کیونکہ اس کے اعتراف سے یہ کہنا پڑیگا کہ (معاذاللہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم ،آپ کے خلفاء راشدین نیز ان کے بعد ائمہ مسلمین گمراہی پر تھے اور انہوں نے اپنی رعایا پہ ظلم و ستم کئے حتیٰ کہ احباب ِاشتراکیت نے تیرہ سو سال بعد ۔۔۔لوگوں کی صحیح راہ کی طرف رہنمائی کی اور ایسی راہ جس کا نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ تھا،نہ ہی آپ کے خلفائے راشدین کو اور نہ ان کے بعد ائمہ مسلمین کو ۔

(2) فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:’’بلاشبہ میں ایک انسان ہوں ،تم میرے پاس اپنے جھگڑے لاتے ہو ،ممکن ہے تم میں سے بعض اپنے مقدمہ کو پیش کرنے میں فریق ثانی کے مقابلہ میں زیادہ چرب زبان ہوں اور میں تمہاری بات سن کر فیصلہ کردوں تو جس شخص کے لیے میں اس کے بھائی (فریق مخالف)کا کوئی حق دلادوں اسے چاہئے کہ وہ اسے نہ لے کیونکہ یہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے جو میں اسے دیتا ہوں۔[1]

اس حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ عوام الناس کے لئے یہ قطعی طور پر جائز نہیں ہے کہ اس بنیاد پہ کسی کے مال پہ قبضہ کریں کہ حکومت نے انہیں اس کی اجازت دی ہے ۔ بلکہ عوام کو چاہئے کہ ایسے ہر فیصلے کا بائیکاٹ کریں،اللہ سے ڈریں اور ان کے دل میں اللہ تعالی کے بنائے ہوئے قوانین کی اہمیت لوگوں کے بنائے ہوئے ہر قانون سے زیادہ ہو۔

(3)نظام اشتراکیت اللہ تعالی کے نظام قضاء و قدر اور اس کی حکمتوں کے برخلاف ہے ،کیونکہ اللہ تعالی نے اپنی حکمت و رحمت اور جانے کن کن عظیم اسرار و رموز کے تحت یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ اپنے بندوں کے مابین رزق کو تقسیم کرے اور بعض کو بعض پر فوقیت عطا فرمائے۔(ان حکمتوں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں۔)

ا: صاحب مال کو جب اللہ کی نعمتوں کا احساس ہوگا تو وہ اللہ کا شکر ادا کرے گا،اور تنگدست ،فقر وفاقہ کو اللہ کی طرف سے آزمائش سمجھتے ہوئے صبر کرے گا ۔

ب: اللہ رب العالمین کی ربوبیت تامہ کا اظہار ،کہ زمین و آسمان کے خزانے اور تمام امور کی باگ ڈور اللہ رب العالمین کے دست مبارک میں ہے۔

﴿يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾

الشوریٰ: 12

’’جس کی چاہے روزی کشادہ کردے اور تنگ کردے، یقیناً وہ ہرچیز کو جاننے والا ہے‘‘۔

ج: ایسی عبادات کی ادائیگی جو صرف امیر اور فقیر کی موجودگی ہی میں ادا کی جا سکتی ہیں۔مثلاً:زکوۃ وصدقات نیز کفارات اور نفقات وغیرہ ۔

(4)نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۰ھ میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن مبعوث کرتے ہوئے فرمایا تھا ’’تم انہیں اس کلمے کی گواہی کی دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔اگر وہ یہ بات مان لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ نے ان پر روزانہ پانچ وقت کی نمازیں فرض کیں ہیں ۔اگر وہ لوگ یہ بات بھی مان لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ نے ان کے مال پر کچھ صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالداروں سے لیکر انہی کے محتاجوں میں لوٹا دیا جائے گا ۔[2]

اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طبقات کا اثبات فرمایا ہے،امیر اور غریب ،لیکن ارباب اشتراکیت اس کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مالی معاملات میں صرف ایک طبقہ ہی ہونا چاہئے،یعنی سارے لوگ ہی فقیر و لاغر ہو کر ذلت کی زندگی بسر کریں ۔جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو ایسی کوئی نصیحت نہیں فرمائی ۔۔۔اور معاذ کو صرف اتنا ہی بتایا کہ زکوٰۃ ان کے امراءسے لیکر ان کے فقراءمیں تقسیم کر دی جائیگی اور یہی حق ہے جو مال میں واجب ہوگا۔اور اگر فقراء کو اغنیاء کے مال میں شریک کرنا واجب ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم معاذ رضی اللہ عنہ کو ضرور بیان کرتے کیونکہ

لا يجوز تاخير البيان عن وقت الحاجة

یہ ایک اصول فقہ کا قاعدہ ہے جس سے مراد ’’ بوقت ضرورت شرعی حکم کو مؤخر کرنا جائز نہیں ہوتا‘‘

(5)نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل کو یمن کی طرف روانہ کرتے ہوئےفرمایا تھا:

’’ اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں تو ان کے عمدہ اموال (بطور زکوٰۃ لینے سے )پرہیز کرنا،اور مظلوم کی بددعا سے بچنا ،کیونکہ اس کی بد دعا اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا‘‘۔[3]

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے ڈرایا کہ بطور زکوۃ عمدہ اموال لئے جائیں اور یہ فرما کر کہ ’’مظلوم کی بد دعا سے بچو ‘‘اس بات کی طرف رہنمائی فرمائی کہ یہ ظلم ہے ،غور طلب بات یہ ہے کہ جب اموال ِزکٰوۃ میں سے عمدہ ترین مال لینا ظلم ہے تو زیادہ لینا ظلم کیوں نہ ٹھرا؟اس طرح بغیر کسی شرعی عذر کے لوگوں کا سارا مال ہی چھین لینا ظلم کیوں نہ ہوگا؟مگر اہل اشتراکیت اسے ظلم نہیں سمجھتے کیونکہ ان کے خیال میں تو لوگوں کے مابین معاشی کمی بیشی ظلم ہے ( والعیاذ باللہ ) جو کہ اللہ رب العالمین کے ارادہ شرعیہ اور احکام تقدیر پر مبنی ہے ۔

(6) نظام اشتراکیت میں انسان کا اللہ تعالی پہ توکل کمزور بلکہ معدوم ہو جاتا ہے کیونکہ جب تنگدست آدمی ایسے معاشرہ میں زندگی بسر کرے گا جہاں نظام اشتراکیت نہیں ہوگا تو ہمیشہ اللہ تعالی پہ توکل کرتے ہوئے اس سے رزق مانگے گا اور اس کی امیدوں کا محور و مرکز رب کریم کی ذات ہوگی اور جو ایسے معاشرہ میں زندگی بسر کرتا ہو گا جو نظام اشتراکیت میں آلودہ ہوگا ،اس کی امیدوں کا محور و مرکز لوگ ہوں گے وہ لوگوں پہ بھروسہ کرتے ہوئے انہی سے مانگے گا ،اور یہی اصحاب اشتراکیت چاہتے ہیں وہ تو چاہتے ہی ہیں کہ لوگوں کے دلوں میں امید و بیہم کی سی کیفیت پیدا کر کے ان پر راج کریں ،آپ دیکھیں گے کہ وہ کس طرح لوگوں کو اپنی تقدیس و تعظیم کی طرف دعوت دیتے ہیں ،اس کیلئے وہ باقاعدہ مہم سازی کرتے ہیں ،حتی کہ وہ اپنے لیڈروں کی تصاویر ہر جگہ پر آویزاں بھی کرتے ہیں تاکہ لوگ ان کی تصاویر سوتے جاگتے ،اٹھتے بیٹھتے بلکہ بازاروں اور عبادت گاہوں میں بھی آویزاں کریں ۔

(7) ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’فقراء،امراء سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہونگے۔ ‘‘[4]

اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طبقات کا اثبات فرمایا ہے (1)طبقہ فقراء (2)گروہ امراء ۔

نیز ان دونوں کے متعلق دو مختلف احکامات صادر فرمائے کہ ایک جنت میں پہلے داخل ہو گا اور دوسرا قدرے تاخیر سے۔

(8)ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’اک زمانہ مجھ پہ ایسا بھی تھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر اور عائشہ رضی اللہ عنھا کے حجرہ کے درمیان بے ہوش ہو کر گر پڑتا تھا اور گزرنے والا میری گردن پر یہ سمجھ کر پاؤں رکھتا تھا کہ میں پاگل ہو گیا ہوں ،حالانکہ مجھے جنون نہیں ہوتا تھا ،بلکہ صرف بھوک کی وجہ سے میری یہ حالت ہو جاتی تھی‘‘ ۔[5]

 ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کا حال عبدالرحمن بن عوف ،عثمان بن عفان جیسے (مالدار )صحابہ رضی اللہ عنھم سے کس قدر مختلف تھا ؟کیا اللہ کے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس بات کا پتہ نہیں تھا کہ صحابہ کرام کے مابین کس قدر فرق مراتب موجود ہے ؟آپ کو پتہ تھا مگر آپ قطعی طور پر یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ ارباب اشتراکیت کی طرح دوسروں کے حقوق غصب کریں ۔

I ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جو کوئی لوگوں کا مال قرض کے طور پر ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے تو اللہ تعالی اس کی طرف سے ادا کرے گا اور جو کوئی نہ دینے کے لئے لے تو اللہ اس کو تباہ کردے گا‘‘۔[6]

 اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اصحاب اشتراکیت لوگوں کے مال اسی نیت سے لیتے ہیں کہ واپس نہیں کریں گےاور ان کا ارادہ اتلاف مال کا ہوتا ہے ،تو پھر مذکورہ حدیث میں لوگوں کے مال زبردستی لینے کی صریح حرمت موجود ہے ۔

(9) فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :’’اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کیلئے وہ پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے ‘‘۔[7]

 ہم ان اشتراکیت زدہ احباب سے کہتے ہیں کہ : ہمیں معلوم ہے کہ تم اپنے مالدار بھائیوں سے ان کے مال چھین کر محبت کا اظہار نہیں کرتے بلکہ تم ان سے اس بنیاد پر حسد کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل سے نوازا ہے ۔ ( ذرا بتاؤ ) آگر تم مالدار ہوتے تو کیا تم یہ چاہتے کہ کوئی تمہارا مال غصب کرے یا پھر اس میں تمہارا شریک ہو ؟ بلکہ ہم نے تو مشاہدہ کیا ہے کہ تم قطعی طور پر یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہاری حکومت میں کوئی شریک ہو یا ایسی بات کہے جو تمہیں ناگوار ہو ۔

 اگر کوئی کچھ کہے بھی تو تم تمام اسباب ووسائل کو بروئے کار لاکر اس کو نشانہ عبرت بنا د یتے ہو ۔

 ( یہ وہ ابطالِ اشتراکیت کے دس دلائل ہیں جو ہر صاحب عقل شعور کو اپیل کرتی ہیں کہ معاشرے کیلئے بہتر وہی ہے جس کو رب اللعالمین نے بہتر قرار دیا اور جس نظام معاشرت ومعیشت پر شریعت کی مہر نہیں وہ نظام انسانیت کا دشمن ہے کیونکہ :

فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ

 وصلی اللّٰہ و سلم علی نبینا محمد و علی آلہ وصحبہ أجمعین


[1] صحیح بخاری: کتاب المظالم والغضب، باب اثم من خاصم فی باطل وھو یعلمہ، صحیح مسلم: کتاب الأقضیۃ، باب الکلم بالظاہر واللحن بالحجۃ

[2] صحیح بخاری:کتاب الزکاۃ، باب وجوب الزکاۃ،مسلم:کتاب الایمان، باب الدعا الی الشھادتین وشرائع الاسلام

[3] جامع ترمذی: کتاب الزکوٰۃ، باب ما جاء في كراهية أخذ خيار المال في الصدقة، یہ حدیث حسن صحیح ہے۔(امام ترمذی)

[4] جامع ترمذی:کتاب الزھد، باب ما جاء أن فقراء المهاجرين يدخلون الجنة قبل أغنيائهم ، یہ حدیث حسن ہے۔(ترمذی)

[5] صحیح بخاری : کتاب الاعتصام بالسنۃ، باب ما ذکر النبی صلی اللہ علیہ وسلم وحض على اتفاق أهل العلم.

[6] صحیح بخاری: كتاب في الاستقراض وأداء الديون …، باب من أخذ أموال الناس يريد أداءها أو إتلافها

[7] صحیح بخاری: کتاب الایمان ، باب من الایمان ان یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ

IslamFort: