نیکی پر استقامت اور اس کی حفاظت

پہلا خطبہ

حمد و صلاۃ کے بعد:

کتاب اللہ بہترین  کلام ہے، اور سیدنا محمد ﷺ  کا طریقہ سب سے بہترین طریقہ ہے، دین میں شامل کردہ خود ساختہ امور بد ترین امور ہیں، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ۔

اللہ کے بندو میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں، اللہ تعالی نے پہلے گزر جانے اور بعد میں آنے والے سب لوگوں کو  اسی کی نصیحت فرمائی ہے:

وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ

النساء – 131

 اور یقیناً ہم نے تم سے پہلے کتاب دیئے جانے والے لوگوں کو اور تمہیں یہی نصیحت کی ہے کہ تقوی الہی اختیار کرو۔

مسلم اقوام!

وقت کا تیزی سے گزرنا عظیم نصیحت ہے، دنوں کا آ کر چلے جانا بہت بڑی تنبیہ ہے۔

إِنَّ فِي اخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَّقُونَ

یونس – 6

 بیشک رات اور دن کے آنے جانے  میں اور جو کچھ اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا کیا ہے ان سب میں متقی قوم کیلیے نشانیاں ہیں۔

اللہ کے بندوں!

ہم نے چند دن پہلے  مبارک مہینے ،نیکیوں  اور برکتوں کی عظیم بہار کو الوداع کہا ہے،  یہ مہینہ ہمارے لیے عنایتوں اور رحمتوں سے بھر پور ، مغفرت اور نوازشوں سے معمور ثابت ہوا، اس ماہ میں نیکی کیلیے حوصلے بلند تھے، آنکھیں اشکبار، دل بارگاہِ الہی میں بھجے  اور سہمے ہوئے تھے،  جسم نیکی کیلیے ہر وقت تیار رہتا، وعظ و نصیحت کی مجالس اور جنت نما کے باغیچے  ذکر و قرآن  سے  لبریز  نظر آئے، نیز ان پر سکینت نازل ہوتی اور رحمت گھیر لیتی تھی۔

اللہ تعالی نے اس مہینے میں دن کے وقت صیام اور رات کے وقت قیام  کی توفیق دے کر اپنے ہاں معزز بننے کا موقع فراہم کیا، ہمیں انواع و اقسام کی نیکیاں ، عبادات، اذکار، دعائیں اور صدقہ و خیرات کرنے ہمت بخشی، اس پر ہم الحمد للہ کہتے ہیں کہ یہ اسی کا احسان ہے،  ان نوازشوں پر اسی کا شکر ادا کرتے ہیں، یا اللہ! اب ہماری کاوشوں کو شرفِ قبولیت بھی نواز!۔

یہ مہینہ چند دنوں اور محدود گھڑیوں کا مہینہ تھا، جو گزر گیا اور بسر گیا۔ اس مہینے کی تھکن اور ماندگی ختم ہو چکی  لیکن ان شاء اللہ بدلہ اور صلہ باقی ہے۔

ماہِ رمضان ختم ہو چکا ہے ، رمضان میں نیکیوں کا کھاتہ بند ہو چکا ہے،  کامیاب ہونے والے اس میں کامیاب ہو گئے اور محروم  ہونے والے محروم ہو گئے ہیں۔ شرف قبولیت کسے ملا ؟  معلوم ہو جائے تو ہم اسے مبارکباد دیں اور جسے دھتکارا گیا اس کے ساتھ افسوس کریں!۔

اللہ کے بندوں!

عبادت کا عبادت گزار پر اثر ضرور ہوتا ہے،  فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ

العنکبوت – 45

 بیشک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔

قبولیت کی علامت یہ بھی ہے کہ انسان بہتری کی جانب گامزن ہو جاتا ہے: (بیشک [مقبول]نیکی جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے) جبکہ دوسری جانب نیکیوں کے مسترد ہونے اور دھتکارے جانے کی علامت یہ ہے کہ رمضان کے بعد انسان الٹے پاؤ پھر جائے، بد  سے بد ترین ہوتا جائے؛ کیونکہ برائی برائی کا باعث بنتی ہے۔

یہ اچھی بات ہے کہ بدی کے بعد نیکی  کریں اس سے بدی مٹ جاتی ہے، لیکن اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ نیکی کے بعد  بھی نیکی ہی کی جائے، وہ گناہ بہت ہی برا ہے جو نیکی کے بعد کیا جائے اور وہ نیکی کو ملیامیٹ کر دے۔

تو بہ کے بعد ایک گناہ توبہ سے پہلے والے ڈھیروں گناہوں سے  سنگین ہے۔ راہ راست سے پھرنا بہت ہی بھیانک  بلکہ مہلک  بیماری ہے اس لیے اللہ تعالی سے مرتے دم تک ثابت قدمی مانگو، دل کے پھرنے سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔ چستی کے بعد سستی سے پناہ مانگو۔

نیکی کے بعد بدی ذلت آمیز عمل ہے۔  قناعت پسندی کے بعد لالچ بد ترین فقر ہے۔

مسلمانوں!

نیکی کی راہیں تو بہت ہیں لیکن اس کے راہی کہاں ہیں؟  بھلائی کے دروازے تو کھلے ہیں لیکن اس میں داخل ہونے والے کہاں ہیں؟  حق بات واضح ہے  اس لیے گمراہ صرف ہلاک ہونے والے ہی ہوں گے۔

مسلمانوں تمہارے نصیب میں لکھی ہوئی ہر قسم کی نیکی  کر گزرو ؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

الحج – 77

اے ایمان والو! رکوع  اور سجدے کرو، اپنے پروردگار کی عبادت کرو اور ہر قسم کی نیکی بجا لاؤ، تا کہ تم فلاح پا جاؤ۔

نیکی کے کام کیلیے مداومت ، استقامت اور ثابت قدمی بہت بڑی نیکیوں میں شامل ہے، نیز دائمی اور تسلسل کے ساتھ نیکی اخلاص اور قبولیت کی نشانی بھی ہے: رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین عمل وہ ہے جو دائمی  ہو) اسی طرح  (رسول اللہ ﷺ جو بھی عمل کرتے اس پر ہمیشگی فرماتے تھے) لہذا اطاعت گزاری پر ثابت قدم رہو، نیکی پر ڈٹ جاؤ اور ہمیشہ اچھے عمل  کرو۔

اللہ کے بندوں!

اپنی نیکیوں کی قبولیت کیلیے بھی خوب کوشش کرو، نیکیوں کے ضائع ہونے یا ختم ہونے سے حتی الامکان بچو؛ کیونکہ یہ بہت بڑا نقصان ہے کہ  تمہاری خون پسینے کی نیکیاں دوسروں میں تقسیم کر دی جائیں، اور اصل مفلسی بھی یہی ہو گی۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث ہے کہ آپ ﷺ نے پوچھا: (کیا جانتے ہو مفلس کون ہے؟) صحابہ نے عرض کیا: ہمارے ہاں وہ شخص مفلس ہے جس کے پاس دولت اور ضروریات زندگی نہ ہوں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: (میری امت میں  وہ شخص مفلس ہے جو قیامت کے دن نمازیں، روزے اور زکاۃ لے کر آئے گا، اور [ساتھ میں]اس نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر تہمت لگائی ہو گی، کسی کا مال ہڑپ کیا ہو گا، کسی کا خون بہایا ہو گا، کسی کو مارا ہو گا، تو ان میں سے ہر ایک کو اس کی نیکیاں دی دے جائیں گی، پھر جب اس کی نیکیاں بھی ختم ہو جائیں گی اور ابھی حساب باقی ہو گا  تو دوسروں کے گناہ اس پر ڈال دئیے جائیں گے اور پھر اِسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا) مسلم

اللہ کے بندوں!

مذکورہ بالا مفلسی کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ اللہ کی نافرمانی کو معمولی سمجھ بیٹھیں اور حرام کردہ چیزوں کا ارتکاب کریں، یہ ذلت، رسوائی اور مفلسی کا سب سے بڑا  سبب ہے، چنانچہ  سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (میں اپنی امت میں سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو روزِ قیامت تہامہ کے پہاڑوں جیسی چمکدار نیکیاں لے کر آئیں گے، لیکن اللہ تعالی انہیں اڑتی ہوئی دھول بنا دے گا) اس پر سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا: “اللہ کے رسول! ہمیں ان کے اوصاف واضح کر کے بتلائیں کہیں ہم ان لوگوں میں شامل نہ ہو جائیں اور ہمیں پتا بھی نہ چلے!” تو آپ ﷺ نے فرمایا: (وہ تمہارے بھائی ہیں اور تمہاری قوم سے ہیں، وہ بھی رات کو اسی طرح قیام کرتے ہوں گے جس طرح تم  کرتے ہو، لیکن [ان میں منفی بات یہ ہے کہ] وہ جس وقت تنہا ہوتے ہیں تو اللہ تعالی کے حرام کردہ کام کر بیٹھتے ہیں ) ابن ماجہ، اسے البانی نے صحیح کہا ہے۔

وہ روزے رکھتے تھے، نمازیں پڑھتے تھے بلکہ رات کو کچھ قیام بھی  کرتے تھے، لیکن خلوت میں اللہ کو اپنا نگران اور نگہبان نہیں سمجھتے تھے،  جب بھی انہیں تنہائی ملتی تو  اللہ کی حرمتوں کو پامال کر دیتے تھے، اس لیے اللہ تعالی نے بھی ان کے اعمال کو تباہ و برباد فرما دیا

 وَبَدَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ

الزمر – 47

 اور انہیں اللہ کی جانب سے وہ ملے گا جس کی انہیں توقع ہی نہیں تھی۔

إِذَا مَا خَلَوْتَ، الدَّهْرَ، يَوْماً، فَلَا تَقُلْ

خَلَوْتُ وَلَكِنْ قُلْ عَلَيَّ رَقِيبُ

کسی دن خلوت میں ہو تو یہ مت کہنا میں تنہا ہوں، بلکہ کہو: مجھ پر ایک نگران ہے۔

ولاَ تحْسَبَنَّ اللهَ يَغْفَلُ سَاعَةً

وَلَا أنَ مَا يُخْفَى عَلَيْهِ يَغِيْبُ

اللہ تعالی کو ایک لمحہ کیلیے بھی غافل مت سمجھنا، اور نہ یہ سمجھنا کہ اوجھل چیز اس سے پوشیدہ ہوتی ہے۔

اس لیے اپنے پروردگار کی اطاعت پر ثابت قدم بن جاؤ، اپنی زندگی کے تمام گوشوں میں اسی کے احکامات کی پاسداری کرو تو تم کامیاب ہو جاؤ گے اور فائدہ اٹھاؤ گے، خوشحال ہو جاؤ گے اور مراد پا جاؤ گے۔

أعوذ بالله من الشيطان الرجيم:

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (13) أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

الأحقاف – 13/14

 بیشک جو لوگ یہ کہہ کر ڈٹ گئے کہ: “ہمارا پروردگار اللہ ہے” ان پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ ہی وہ غم اٹھائیں گے [13] یہی لوگ ہیں جنت والے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے یہی ان کے کارناموں کا بدلہ ہے۔

اللہ تعالی میرے اور آپ کیلیے قرآن مجید کو بابرکت بنائے، ہمیں اپنے نبی کریم کی سنت اور آپ کی رہنمائی کے مطابق چلنے کی توفیق دے، میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور عظمت و جلال والے اللہ  سے اپنے اور سب مسلمانوں کیلیے تمام گناہوں کی بخشش طلب کرتا ہوں، اس لیے آپ بھی اسی سے بخشش طلب کرو، بیشک وہ بخشنے والا ہے اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں کہ اس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اس کی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد  اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، اللہ تعالی ان پر ، ان کی آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔

مسلمانوں!

تقوی الہی اختیار کرو۔ اپنی زندگی تمام ہونے سے پہلے نیک کام کرو لو۔ اپنی بات کو کردار سے ثابت کر کے دکھاؤ؛ کیونکہ انسان کی حقیقی زندگی تو وہی ہے جو انسان اللہ کی اطاعت میں گزارے۔ عقلمند وہی ہے جو اپنا محاسبہ خود کر لے اور موت کے بعد کی تیاری کرے، جبکہ ہوس پرستی  میں لگ کر اللہ سے امید لگانے والا لگنے والا شخص حقیقی ناتواں ہے۔

سال کے تمام مہینے ہی عبادت کیلیے بہار ہیں اگرچہ ان کی فضیلت مختلف ہے، اسی طرح ساری زندگی ہی نیکیاں کمانے اور بندگی  بجا لانے کا قیمتی موقع ہے۔ چنانچہ ہر کوئی اپنی جان کا سودا کرتا ہے کوئی اسے جہنم سے آزاد کروا لیتا ہے اور تو کوئی اسے تباہ کر لیتا ہے۔ ہر شخص کو اسی کی توفیق دی جاتی ہے جس کیلیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔

اس لیے ماہ رمضان کے ساتھ مکمل وفا کرنے والے!  ماہِ رمضان کے دوران گفتار و کردار   میں مٹھاس پیدا کرنے والے! اب ماہ شوال  میں بھی ثابت قدم رہنا تبدیل مت ہو جانا۔

اے پیچھے رہ جانے والے!

زندگی کی اکثر بہاریں گزار کر بھی سستی کا شکار رہنے والے!

تمہیں رمضان کا قیمتی موقع نہیں ملا اور فائدہ نہ اٹھا سکے!

اب بھی رحمت کے دروازے کھلے ہیں!

توبہ کی قبولیت جاری و ساری ہے!

قُلْ يَاعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

الزمر – 53

 آپ لوگوں سے کہہ دیں: اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں  پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اللہ یقیناً سارے ہی گناہ معاف کرنے والا ہے، کیونکہ وہ غفور رحیم ہے۔

مسلم اقوام!

سنت طریقہ اور رسول اللہ ﷺ کا عمل  یہ ہے کہ آپ شوال میں چھ روزے رکھتے تھے، چنانچہ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (جو شخص رمضان کے روزے رکھے اور پھر شوال کے چھ روزے بھی رکھے تو  یہ اس کیلیے پورے سال کے روزوں کے برابر ہوں گے) مسلم

کیونکہ اللہ تعالی ایک نیکی کا بدلہ دس گنا بڑھا کر دیتا ہے تو ایک مہینے کے روزے دس ماہ کے روزوں کے برابر ہوئے، اور چھ روزے  عید الفطر کے بعد دس گنا  یعنی ساٹھ دنوں کے برابر ہوئے تو اس طرح یہ پورے سال کے روزوں کے برابر ہو گئے۔

شوال کے چھ روزے الگ الگ   یا مسلسل رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اس لیے کوئی بھی یہ چھ روزے  رکھنے میں سستی اور کاہلی کا شکار نہ ہو؛ عین ممکن ہے کہ اللہ تعالی اسے سارا سال روزے رکھنے والوں میں شامل فرما لے، یہ بہت ہی فائدے کے روزے ہیں اس کیلیے خصوصی اہتمام اور کوشش کی ضرورت ہے۔

مسلمانوں!

دہشت گردوں کی جانب سے ماہ رمضان میں ، وہ بھی مکہ شہر کے اندر بلکہ کعبہ شریف کے قریب دہشت گردانہ عمل  شریعت اور عقل ہر اعتبار  سے مذموم عمل ہے، ان دہشت گردوں نے رمضان  تو کیا بیت اللہ الحرام کی حرمت کا بھی خیال نہیں رکھا، انہوں نے روزے دار مسلمانوں  کی جانوں کا بھی خیال نہیں رکھا، سو یہ واضح ہے کہ یہ اسلام دشمن لوگوں کی کاروائی ہے، اس بھیانک عمل کی زمین پر فساد بپا کرنے والے شدت پسند ہی جسارت کر سکتے ہیں۔

بیت اللہ کا رب اس کی حفاظت ضرور فرمائے گا، اللہ تعالی نے اس شہر کا تقدس پامال کرنے والوں کو سخت ترین وعید سنائی ہے

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ

الحج – 25

بیشک جو لوگ کافر ہیں اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں نیز مسجد الحرام سے بھی روکتے ہیں جسے ہم نے مقامی یا بیرونی تمام لوگوں کیلیے  برابر بنایا ہے، اور جو بھی اس میں الحاد اور ظلم کمانے کا ارادہ کرے گا ہم اسے درد ناک عذاب چکھائیں گے۔

اللہ تعالی ان کی عیاری انہی کی بربادی کا باعث بنائے، ان کی نسلیں تباہ و برباد فرمائے ، بیشک وہ بہت طاقتور اور غالب ہے۔

اللہ کے بندوں!

 اللہ تعالی نے آپ کو ایک عظیم عمل کا حکم دیا ہے اور وہ ہے نبی کریم ﷺ پر درود و سلام،  یا اللہ! ہمارے نبی اور سیدنا محمد پر رحمتیں، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

یا اللہ! خلفائے راشدین : ابو بکر، عمر، عثمان اور علی  سے راضی ہو، تمام صحابہ کرام اور آل نبی سے راضی ہو جا، یا اللہ! ان کے نقش قدم پر چلنے والے لوگوں سے بھی قیامت تک کیلیے راضی ہو جا۔

یا اللہ! ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جن کے روزے ، قیام  اور دیگر تمام اعمال قبول فرما لیے ہیں، یا اللہ! ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جن کے روزے ، قیام  اور دیگر تمام اعمال قبول فرما لیے ہیں۔

یا اللہ! ہمیں سالہا سال ماہ رمضان  نصیب فرما، یا اللہ! ہمیں سالہا سال ماہ رمضان  نصیب فرما، یا اللہ! ہمیں صحت، عافیت  اور امن و مان کے ساتھ سالہا سال ماہ رمضان  نصیب فرما۔

یا اللہ! ہمیں لمبی زندگی عطا فرما، ہمارا کردار اچھا بنا اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات سنوار دے، یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات سنوار دے،  یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمارے حکمران خادم حرمین شریفین کی حفاظت فرما، انہیں خصوصی تحفظ عطا فرما۔

یا اللہ!  انہیں اور ان کے ولی عہد کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، نیکی اور تقوی کے کاموں کیلیے ان کی رہنمائی فرما۔

یا اللہ! انہیں صرف ایسے کاموں کی توفیق دے جن  میں اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ ہو، ملک و قوم  کی بہتری ہو۔

یا اللہ! انہیں اچھے وزیر اور مشیر   عطا فرما جو ان کی مثبت انداز میں رہنمائی کریں اور خیر و بھلائی کیلیے معاونت کریں، یا رب العالمین!

اللہ کے بندو! تم عظیم و جلیل اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ  اور زیادہ دے گا ،یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالرحمٰن بعیجان حفظہ اللہ: آپ مسجد نبوی کے امام و خطیب ہیں، آپ ایک بلند پایہ خطیب اور بڑی پیاری آواز کے مالک ہیں۔جامعہ محمد بن سعود الاسلامیہ سے پی ایچ ڈی کی ، پھر مسجد نبوی میں امام متعین ہوئے اور ساتھ ساتھ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کلیۃ الشریعۃ میں مدرس ہیں۔