اصلاحِ نفس و معاشرہ

نیا سال اور احتساب کا تقاضہ

پہلا خطبہ:

ہر قسم کی تعریف ایک زبر دست اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔وہ دن و رات کو اُلٹ پلٹ کرتا ہے،وہ پاک ہے اور اُسی کی حمد ہے۔ اُس نے کاموں کی مقدار اور عمروں کی میعاد مقرر کی ،اُس نے سورج و چاند کو مسخر کیا، دونوں ایک مقررہ حساب اور اندازے سے چل رہے ہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ رب العالمین کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں،وہ ایک ہے اُس کا کوئی شریک نہیں۔ سچائی ،یقین اور اقرار والی گواہی۔اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار و نبی اکرم محمد ﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں۔آپ کو آپ ﷺ کے رب نے ہدایت و رحمت کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ ﷺ نے اُمت سے بوج اور بیڑیوں کو ہٹایا۔

درود و سلام اور برکتیں نازل ہوں آپ ﷺ پراور آپ ﷺ کی پاک باز آل پر،آپ ﷺ کے نیک و کار اصحاب پر،تابعین پر اور جو دُرست طریقے سے اُ ن کی پیروی کرے اُن پر ۔اور بہت زیادہ تاقیامت سلامتی ہو۔

اما بعد!

لوگو! میں آپ کو اور خود کو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتاہوں۔اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے ،اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرواور جان لو کہ دنیا دین کے قائم ہونے سے ہی قائم ہوسکتی ہے۔اور صرف اللہ رب العالمین کے سامنے جھکنے سے ہی غلبہ حاصل ہوسکتا ہے اور اخلاص اور سید المرسلین کی پیروی سے ہی دین دُرست ہوگا۔نفس کا احتساب راہ ِ حق پرچلنے والوں کا راستہ ہے۔اور تقویٰ ہی مومنوں کا توشہ ہے،کامیاب ہونے والوں کی پونجی نیک عمل ہے۔ جس نے دنیا میں اپنے نفس کا محاسبہ کیا تو آخرت میں اُس کا حساب ہلکا ہوگا، سوال کے وقت جواب دُرست ہوگااور اُس کا انجام و ٹھکانہ اچھا ہوگا۔اور جس نے اپنے نفس کا محاسبہ نہیں کیااُس کی حسرتیں دائم ہوں گی،قیامت کے میدان میں اُس کا وقوف دراز ہوگا۔اور اُسے اُس کی خطائیں اور بُرائیاں گھیر لیں گی۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتًا لِّيُرَوْا أَعْمَالَهُمْ ‎﴿٦﴾‏ فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ‎﴿٧﴾‏ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ‎﴿٨﴾

الزلزال – 6/7/8

اس روز لوگ مختلف جماعتیں ہو کر (واپس) لوٹیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھا دیئے جائیں۔ پس جس نے ذره برابر نیکی کی ہوگی وه اسے دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذره برابر برائی کی ہوگی وه اسے دیکھ لے گا۔

اور ہر سال جو تو کرتا ہے وہ دنیا و گھروں سے دور اور آخرت  اور قبروں سے قریب کرتا جاتا ہے۔ اہل،اولاد اور مال کی لطف اندوزی  سے دور اور اعمال کے ساتھ تنہائی کے قریب کرتا جاتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلَاقِيكُمْ ۖ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ

الجمعة – 6

کہہ دیجئے! کہ جس موت سے تم بھاگتے پھرتے ہو وه تو تمہیں پہنچ کر رہے گی پھر تم سب چھپے کھلے کے جاننے والے (اللہ) کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور وه تمہیں تمہارے کیے ہوئے تمام کام بتلا دے گا ۔

مسلمانو! جو کوئی اپنے لئے خیر کا ارادہ رکھتا ہوتو اُس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے نفس کا احتساب و محاسبہ کرتے ہوئے سچا جائزہ لے۔ اللہ کی قسم تم ضرور مرجاؤ گے جیسے سوتے ہو اور ویسے ہی دوبارہ زندہ اُٹھائے جاؤ گے۔ جیسے نیند سے بیدار ہوتے ہو۔اور ضرور تمہیں یہ تمہارے کئے کا بدلہ دیا جائے گا ۔اطاعت گزاروں کے لئے جنت ہوگی اور نافرمانوں کے لئے جہنم۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

أَفَمَن يُلْقَىٰ فِي النَّارِ خَيْرٌ أَم مَّن يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ ۖ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

فصلت – 40

(بتلاؤ تو) جو آگ میں ڈالا جائے وه اچھا ہے یا وه جو امن و امان کے ساتھ قیامت کے دن آئے؟ تم جو چاہو کرتے چلے جاؤ وه تمہارا سب کیا کرایا دیکھ رہا ہے۔

اللہ کے بندو! زمانہ اور اُس کے خیر خواہ سب سےبہترین معلم ہیں۔ اور زمانہ و اُس کی مصیبتیں سب سےفصیح متکلم ہیں۔اُن کےبیدار ہونے سے متنبہ ہوجائیں اور اُن کے الفاظ سے عبرت پکڑیں۔

حدیث میں مذکور ہے کہ چار چیزیں بدبختی میں سے ہیں:

  • آنکھ کا خوشک ہونا
  • دل کی سختی
  • لمبی آرزو
  • اور دنیا کا لالچ۔ سنن البزار

جوانوں میں ایسے لوگ ہیں کہ جنہیں اُن کی جوانی نے دھوکے میں ڈال دیا ہے اور وہ ساتھیوں کے کھونے کو بھول گئے ہیں،اچانک غائب ہونے والی چیزوں کی سرعت و تیزی سے غافل ہیں۔آرزؤں سے معلق ہیں جب کہ آرزوئیں تو سست لوگوں کے اوہام اورغافلوں کے افکار ہیں۔اور اُن پر اعتماد کرنا تو صرف بیوقوفوں کا سامان اور مفلسوں کی پونجی ہے۔اور تمنائیں پالنا اور ٹال مٹول سے کام لینا ،حال اور مستقبل کو ضایع کرناہے۔

بھائیو! اہلِ علم میں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے علم حاصل کرنے میں کوششیں کیں اور عمل کے سلسلے میں ویسی کوششیں نہیں کیں۔ جب اُنہیں علوم عطا ہوئے تو اُنہوں نے پروپیگنڈوں ،مباحثوں اور ساتھیوں پر بُلند ہونے میں صرف کیا ۔ اپنے دین کو اپنی دنیا کے رفو کے لئے پھاڑتے ہیں،نہ تو غیبت سے بچتے ہیں اور نہ ہی حسد سے محفوظ رہتے ہیں۔اہلِ دنیا میں ایسے ہیں جنہوں نے اپنے مال کو شہوتوں اور حرام چیزوں میں صرف کیاہے۔ اُن میں سب سے بدبخت وہ ہیں کہ جنہوں نے مال کمایا اوراُس کمائی نے اُنہیں جہنم میں داخل کردیا۔پھر اُن سے اُن کے بعد اُس مال کو نیک لوگوں نے پایا تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ مال میں تصرف کیا اور جنت میں داخل ہوئے ۔

مسلمانو! اُس شخص کی حالت عجیب ہے جسے موت کا یقین اور پھر اُسے بھول جاتا ہے ،نقصان کو جانتا ہے پھر بھی اُسے انجام دیتا ہے۔لوگوں سے ڈرتا ہے جبکہ اللہ رب العزت اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اُس سے ڈرا جائے۔سحر سے دھوکہ کھاتا ہے اور بیماری کو بھول جاتاہے ،عافیت سے خوش ہوتا ہے لیکن درد و الم کو یاد نہیں کرتا،جوانی پر اتراتا ہے لیکن بڑھاپے سے غافل ہے، علم کا اہتمام تو کرتاہے لیکن عمل سے لاپرواہ ہے ، دینا کا حریص ہے لیکن آخرت سے بے فکر ہے۔اس کی عمر دراز ہورہی ہے اور اُس کے گناہ بڑھ رہے ہیں،بال سفید ہورہے ہیں اور دل سیاہ و بیمار،دلوں کا علاج مشکل ہوتا ہے اور جو آنکھیں حرام ہیں اُن سے رویا نہیں جاتا۔اور جب اعضاء شہوتوں میں ڈوب جائیں تو اُن پر ماتم کرنا حق ہے۔

بھائیو! جب بات ایسی ہی ہے تو بابصیرت شخص کو اپنے نفس سے اپنے نفس کے لئے ،زندگی سے موت کے لئے ،جوانی سے بڑھاپے کے لئے اور صحت سے مرض کے لئے توشہ لینا چاہیئے ۔اس لئے کہ موت کے بعد کوئی معافی نہیں اور دنیا کے بعد سوائے جنت و جہنم کے اور کچھ نہیں۔تو جس نے اپنے او اپنے رب کے درمیان کے معاملات دُرست کر لئے ،اللہ تعالیٰ اُس کے لئے اُس کے اور لوگوں کے درمیان کے معاملات کے لئے کافی ہوگیا۔جو اپنی خلوت میں اچھا ہوگا اُس کی جلوت اچھی ہوگی اور جو اپنی آخرت کے لئے عمل کرے گا تو اللہ تعالیٰ اُس دنیاوی معاملات کے لئے کافی ہوگا۔

مسلمانو! سچا احتساب وہ ہے کہ جس کے بعد علم ہو۔اللہ کے بندے! آپ کو چاہیئے کہ فوت شدہ کی تلافی اُس سے کریں جو باقی ہے۔اپنے حال میں جئیں اور ایسی ندامت و حسرت میں نہ پڑیں جو آپ کو عمل سے پھیر دے ۔ اور یاد رکھئے کہ جس نے بچے ہوئے کی اصلاح کرلی اُس کے گزرے ہوئے کو معاف کردیا گیا۔اور جس نے بچے ہوئے میں بُرائی کی تو گزرے ہوئے اور بچے ہوئے دونوں کے سلسلے میں اُس سے مؤاخذہ ہوگا۔موت تمہارے پاس اچانک آجائے گی اس لئے ہر لمحےکو اُس کا حق دواور ہر سانس کو اُس کی قیمت  کیونکہ دل سواری ہے، سانسیں قدموں کے چند فاصلے ہیں،نیکیاں جمع پونجی ہیں،فائدہ جناتِ عدن ہےاور نقصان بھڑکتی ہوئی آگ، جسے بد بخت ہی تاپے گا۔اور تم خود اپنے نفس کے محاسب ہو۔ اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے ،اللہ کا تقویٰ اختیار کرو،اپنی دنیا سے ایسا توشہ لوجس سے کل اپنے آپ کو بچاؤ ۔ جو اللہ کا تقویٰ اختیارکرے گا وہ اپنے نفس کے ساتھ خیر خواہی کرے گا،اپنی توبہ کو آگے بھیجے گا اور اپنی شہوت کا مقابلہ کرے گا۔

اللہ کے بندو! قبول کی اُمید ،اپنے رب اور اُس کی آیتوں پر ایمان رکھنے والے ،مخلص عبادت گزاراور ڈر و خوف رکھنے والے بندے کو ہی ہوتی ہے۔ جو اپنی عبادتوں  کو حقیر سمجھتا ہے ،اپنی اطاعتوں کو کم جانتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کے جلال وعظمت اور علم و ہیبت سے واقف ہوتا ہے اور اُس کے شعائر  و مشاعر کا محافظ ہوتا ہے۔ اللہ کے بندو! اپنے سلسلے میں اللہ سے ڈرو۔ نیک اعمال میں مطلوب یہ ہے کہ دلوں کے احتساب کی نگہداشت کی جائے اس لئے کہ باذن اللہ اخلاص ،حق و صبر اور مداومت و پابندی کا سبب ہوتا ہے اور اخلاص سے اللہ کا فضل بڑھتا ہے ،اُس کا اجر وثواب بڑ ا ہوتا ہے۔ بلکہ اخلاص تو مباح چیزوں کو اطاعت ،عبادت اور تقرب بنادیتا ہے۔اور یوں بندے کی ساری زندگی اللہ کے لئے ہوجاتی ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ‎﴿١٦٢﴾‏ لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ

الانعام – 162/163

آپ فرمادیجئے! بالیقین میں میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا و مرنایہ سب خالص اللہ کے لئے  ہی ہےجو سارے جہان کا مالک ہے ۔ اس کا کوئی شریک نہیں ۔۔

اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے جب تم نیکیوں کی تلاش میں ہو تو نیکیوں پر ہمیشگی برتنا مت بھولو۔صحیح حدیث میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے آپ فرماتی ہیں کہ اللہ نبی ﷺ سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل کون سا ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس پر ہمیشگی برتی جائے،ہر چند کہ وہ کم ہے۔ صحیح بخاری

اور آپ ﷺ کے اعمال ہمیشگی والے ہوتے تھے۔امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کم پر ہمیشگی برتنے سے نیکی جاری رہتی ہے۔ ذکر ،خشیت ،اخلاص اوراللہ تعالیٰ کی جانب متوجہ ہونے سے نیکی جاری رہتی ہے اور یوں ہمیشہ ہونے والی کم عبادت منقطع ہونے والی کثیر عبادت پر کئی گناہ بڑھ جاتی ہے ۔ ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: خیر کی پابندی کرنے والا اپنے آقا کی خدمت میں لگا رہتا ہے۔ اور جو کسی وقت دروازے پر رہے وہ اُس کی طرح نہیں ہوسکتا جو دن بھر دروازے پر رہےاور پھر ہٹے۔

ان باتوں کے بعد اللہ کے بندو! نیک عمل کی توفیق ،مخلص دل ، خالص توحید اور مضبوط قوتِ ارادی کے لوگوں کو ملتی ہے۔جو شریعت کے احکام کو پورا کرتے ہیں۔ غفلت اور خود غرضی سے دور رہتے ہیں، ایثار کی راہ چلتے ہیں، اللہ کی رحمت کی اُمید رکھتے ہیں، اُس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بلاشبہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے :

وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْآزِفَةِ إِذِ الْقُلُوبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كَاظِمِينَ ۚ مَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ وَلَا شَفِيعٍ يُطَاعُ ‎﴿١٨﴾‏ يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ ‎﴿١٩﴾‏ وَاللَّهُ يَقْضِي بِالْحَقِّ ۖ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا يَقْضُونَ بِشَيْءٍ ۗ إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ‎﴿٢٠﴾‏

غافر – 18/19/20

اور انہیں بہت ہی قریب آنے والی (قیامت سے) آگاه کر دیجئے، جب کہ دل حلق تک پہنچ جائیں گے اور سب خاموش ہوں گے، ظالموں کا نہ کوئی دلی دوست ہوگا نہ سفارشی، کہ جس کی بات مانی جائے گی ۔ وه آنکھوں کی خیانت کو اور سینوں کی پوشیده باتوں کو (خوب) جانتا ہے اور اللہ تعالیٰ ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے گا اس کے سوا جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وه کسی چیز کا بھی فیصلہ نہیں کرسکتے، بیشک اللہ تعالیٰ خوب سنتا خوب دیکھتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اپنی کتاب کی ہدایت سے فائدہ پہنچائے اور نبی اکرم ﷺ کی سنت پر چلنے کی توفیق دے ۔ میں اپنے لئے اور آپ کے لئے اور بقیہ تمام مسلمانوں کے لئے ہر طرح کے گناہ سےمغفرت طلب کرتا ہوں، تو تم بھی مغفرت طلب کرو۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا مہربان ہے۔

پہلا خطبہ:

ہر طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ کےلئے ہے۔اُس نے مخلوق کو اپنی ربوبیت اور اُلوہیت پر براہین بنایا ہے، میں اُس پاک ذات کی حمد بیان کرتا ہوں اور اُس کا شکر بجا لاتا ہوں۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، وہ ایک ہے اُس کا کوئی شریک نہیں۔ جس نے اُس کی توحید کی گواہی دی اور اپنے سامنے کے لئے تیاری کی وہ کامیابی و نجات سے ہمکنار ہوا۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار و نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ ہدایت کے نور ہیں اورتاریکی کے چراغ ہیں۔

درود و سلام نازل ہو آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کے آل و اصحاب پر اور جو دُرست طریقے سے اُن کی پیروی کرے اُن پر۔بہت زیادہ سلامتی کہ جب تک دن روشن رہے اور رات چھاتی رہے۔

اما بعد!

اے مسلمانو! زمانے کی مصیبتوں میں عبرتیں ہیں اور ایام کے حادثات میں نصیحت ہے ۔اوقات لپیٹے جاتے ہیں اور آبادی کو تباہ کرتے ہیں۔ ویرانے کو آباد کرتے ہیں۔ایک مرتبہ دیتے ہیں تو دوسری مرتبہ چھین لیتے ہیں۔ پس اُن کی گمراہ کن چمک دمک سے بچو۔ جو اُن سے زیادہ حاصل کرے گاوہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ دور ہوگا اور جو اپنے نفس کو حق میں مشغول نہ کرے تو اُس کا نفس باطل میں مشغول ہوجائےگا۔ اور اگر برتن میں پانی نہ ہوتو ہوا ہوگی۔ اس لئے جو باقی بچی چند گھڑیوں کی حفاظت کا عظم رکھتا ہواُسے سوائے محنتی اور کام کرنے والے نیک و کار ،بیدار و فرمانبردار اور صالح لوگوں کی صحبت اختیار کرنی چاہیئے۔ جواپنے اوقات کی حفاظت کے اُس سے زیادہ حریص ہوتے ہیں جتنا کہ بخیل اپنے درھم و دینار کا حریص ہوتا ہے ۔ محنت سے عمل کیجئے ،جو گزرچکا اُس سے سبق سیکھئے کیونکہ مواقع فوت ہوتے ہیں اور موت کا وقت متعین ہے،رہائش محدود ہے ،دن گنے چنے ہیں اور جب کسی کا مقررہ وقت آجاتاہے تو پھر اُسے اللہ سبحابہ وتعالیٰ ہر گز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہوں اُس سے اللہ تعالیٰ بخوبی باخبر ہے۔

اے مسلمان بھائیو! غفلت تمام بُرائیوں کی جڑ ہے۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نیکی دل کا نور اور بدن کی قوت ہے اور بُرائی دل کی تاریکی اور بدن کی کمزوری ہے اور معصیت کی تاریکی اطاعت کی روشنی کو بھجادیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے سنواللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو،ڈرو اوراپنا احتساب کرو۔ اُس کا کیا ہوگا جو اللہ تعالیٰ کو جانے اور اُس کا حق نہ ادا کرے اور اُس کا کیا ہوگا جو رسول اللہ ﷺ کی محبت کا دعویٰ کرے اور آپ ﷺ کی سنت کے مطابق عمل نہ کرے اور اُس کا کیا ہوگا جو قرآن پڑھے اور اُس پر عمل نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں رہے اور شکر گزاری نہ کرے۔ اُس نے شیطان کو دشمن بنالیا، جنت کے لئے عمل نہیں کیا، جہنم سے نہیں بھاگا، موت کی تیاری نہیں کی۔ لوگوں کے عیب میں لگا رہا اور اپنے عیب سے غافل رہا۔ یہ اور اِس جیسے لوگ بے خبری میں بھولے ہوئے ہیں، نعمتیں اُنہیں دھوکہ دے رہی ہیں، مالداری نے اُنہیں سرکش بنادیا ہے اور آرزؤں نے اُنہیں غافل کررکھا ہے۔ اُن پر شیطان حاوی ہوگیا ہے اور اُنہیں اللہ کا ذکر بھلادیا ہے اور وہ عنقریب پچھتائیں گے اگر اُنہوں نے توبہ نہیں کی۔ اور تب پچھتاوے سے کچھ فائدہ نہ ہوگا۔

اور درود وسلام بھیجو نبی اکرم ﷺ پر کہ اِس کا حکم اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنی کتاب میں دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادِ کریمی ہے:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔

یا اللہ! محمد اور آل محمد پر درود نازل فرما جیسے تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر درود نازل کیا ، بیشک تو تعریف کے لائق اور بزرگی والا ہے۔ یا اللہ! محمد اور آل محمد پر برکت نازل فرما جیسے تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر برکت نازل کی، بیشک تو تعریف کے لائق اور بزرگی والا ہے۔

 یا اللہ! محمد اور آل محمد پر درود نازل فرما جیسے تو نے آل ابراہیم پر درود نازل کیا ، اور محمد اور آل محمد پر برکت نازل فرما جیسے تو نے آل ابراہیم پر جہانوں میں برکت نازل کی، بیشک تو تعریف کے لائق اور بزرگی والا ہے۔

اے اللہ تو اپنی رحمتیں اپنی برکتیں سید المرسلین،امام المتقین خاتم النبین ،اپنے بندے اور رسول ﷺ پر نازل فرما جو خیر کے امام اور خیر کے قائد ہیں رسولِ رحمت ہیں۔

اے اللہ ! انہیں مقام ِ محمود سے نواز جسے سے اگلے اور پچھلے اُن پر رشک کریں۔

اے اللہ تو راضی ہوجا ان کے چاروں خلفاء راشیدین، ہدایت یافتہ سربراہان ابو بکر ،عمر ،عثمان ،علی رضی اللہ عنہم سے اورتمام صحابہ کرام اور تابعین عظام سے اور ان سے جو دُرست طریقے سے قیامت تک اُن کی پیروی کریں۔ یاکریم یا وہاب۔

اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو عزت و عظمت عطا فرما۔

اے اللہ ! تو اسلام کو غالب کردے اور مسلمانوں کی مدد فرما۔اور شرک و مشرکین کو ذلیل و رسوا کردے اور دین ِ اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔

اے اللہ! تو ہمیں ہمارے وطنوں میں امن عطا فرما۔

اے اللہ ! تو ہمارے امام کو توفیق عطا فرمااور اپنی توفیق سے اُن کی تائید فرما۔

اے اللہ ! تو ہمیں ہر طرح سے عافیت عطا فرما۔

اے اللہ! ہم تجھ سے کوڑ کی بیماری سے اور دوسری بُری بیماریوں سے پناہ مانگتے ہیں۔

اے اللہ ! تو بے نیاز ہے اور ہم تیرے محتاج ہیں ،ہم پر رحم فرما اور ہم پر بارش نازل فرما۔

اے اللہ ! ہم پر بارش نازل فرما۔

اے اللہ ! ہم تیری مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہیں ،ہمیں ہمارے گناہوں کی وجہ سے اپنی رحمت سے محروم نہ کر۔

اے اللہ ! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔

اے اللہ ! تو اس ملک کو امن و اطمنان ، ہمدردی و سخاوت  ، اتحاد و بھائی چارے سے بھر دے اور اسی طرح باقی تمام مسلم ممالک کو بھی ۔

اے اللہ ! ہم تجھ سے سوائے خیر کے اورکسی چیز کا سوال نہیں کرے تو ہمیں خیر عطا فرما۔اور جس چیز کا تجھ سے سوال نہیں کرتے اس کی ابتلاء سے محفوظ فرما۔

اللہ کے بندوں ! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے عدل و انصاف کا اور قریبی رشتہ داروں  سے صلہ رحمی کا اور ہر قسم کی بے حیائی اور نافرمانی سے بچنے کا ۔ اور سلامتی ہو بیغمبر علیہ السلام پر اور سب طرح کی تعریف اللہ  تعالیٰ کے لئے ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔

خطبة الجمعة مسجد الحرام: فضیلة الشیخ ڈاکٹر اسامہ خیاط حفظه اللہ
23 ذی الحجة 1443هـ  بمطابق 22 جولائی  2022

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر اُسامہ خیاط حفظہ اللہ

مسجد الحرام کے عظیم المرتبت خطباء میں ایک نام ڈاکٹر اسامہ خیاط کا ہے، آپ 12 فروری 1956ء کو پیدا ہوئے ۔ ام القریٰ یونیورسٹی مکہ المکرمہ سے پی ایچ ڈی کیا اور پھر یہیں تدریس بلکہ کتاب و سنت ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ بھی رہے ۔ آپ ایک بلند پایہ مصنف بھی ہیں اور رابطہ عالم اسلامی کے بنیادی رکن بھی ہیں۔

Recent Posts

منہجِ سلف سے کیا مراد ہے؟

منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…

7 hours ago

یا محمد ﷺ کہنا یا لکھنا کیسا ہے؟

کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…

1 day ago

ستاروں کی تخلیق کے تین مقاصد!؟

اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…

4 days ago

داتا اور مشکل کشا کون؟

اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…

4 days ago

مشکلات اور پریشانیوں کےحل کےلیے نسخہ؟

قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…

1 week ago

جنتی فرقہ کونسا ہے؟

فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…

1 week ago