نئے سال کی آمد اور چند اہم امور

حمد و ثناء کے بعد!

الوداع اے سال رفتہ ! خوش آمدید اے سال نو !

ہر سال کے آغاز پر اور نئے سال کا سورج روشن ہونے پر انفرادی و جماعتی سطح پر اپنے گریبان میں جھانکنے اور اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت پیش آ جاتی ہے تا کہ ماضی کا جائزہ لے کر اپنے حال کی اصلاح کی جا سکے اور صحیح منہج کے مطابق مستقبل کے لئے منصوبہ بندی کی جا سکے تا کہ اغراض و مقاصد پورے ہوں اور مفادات کا حصول ممکن ہو ، ہما ری امت اسلامیہ جو کہ ان دنوں نئے سال کا استقبال کر رہی ہے اور سابقہ سال جو اپنے دامن میں بہت ہی بڑے بڑے حوادث و واقعات لے کررخصت ہو گیا ہے اسے الوداع کہہ رہی ہے اسے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ وہ ان چیلنجز کا ڈٹ کر مقابلہ کرے اور ان خطرات کا پامردی سے سامنا کرے جو اسے درپیش ہیں ۔

اسی طرح امت مسلمہ کو اس بات کی بھی سخت ضرورت ہے کہ وہ صحیح موقف اختیار کرے، کامیاب علاج اور مفید تحفظ و پرہیز کو اپنائے اور یہ سب اصلاحی بنیادوں اور عملی طریقوں کے مطابق ہو جن کے قواعد اور اصول اس امت کے دین اسلام کے قواعد و ضوابط، اس کے عقیدہ کے ثوابت و امتیازات اور اس کے نبی سیدنا محمد ﷺکی سنت و طریقہ کے عین مطابق ہوں ۔

مسلمانوں ! بعض اہم امور ایسے بھی ہیں جن پر اپنی توجہ کو مرکوز کرنا ضروری ہے جبکہ ہم اس سال نو کے آغاز میں ہی ہیں ۔ اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمارے لئے اور پوری امت مسلمہ کے لئے اس سال کو خیر و برکت کا سال بنا دے۔

ان امور و مواقف کوہم ان نقاط کے تحت ذکر سکتے ہیں :

1 ۔ دنیا فانی اور محاسبۂ نفس :

مسلمانوں کا اپنی زندگی کے اس نئے سال کا استقبال کرنا ہی ایک بہت بڑا واقعہ ہے جو اس حقیقت کی یاددلاتا ہے کہ یہ شب و روز مراحل اور سواریاں ہیں جو کہ ہمیں اس دنیا سے دور لئے جا رہے ہیں اور ہمیں آخرت کے قریب کئے جا رہے ہیں ۔ قوم فرعون سے ایمان لانے والے شخص نے اپنی قوم سے مخاطب ہو کر جو بات کہی تھی اس کی حکایت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ اس نے کہا:

يَا قَوْمِ إِنَّمَا هَـٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ

المؤمن – 39

اے میری قوم ! یہ دنیا کی زندگی ( چند روز کے لئے ) فائدہ اٹھانے کی چیز ہے۔

کیا ہمارا یہ ایک سال کو الوداع کہنا اور دوسرے سال کا استقبال کرنا ہماری ہمتوں کو عالی اور ہمارے عزائم کو بیدار کرے گا ؟ صاحب توفیق وہ ہے جو اپنے حال کی اصلاح کے لئے کوشش کرے اور اپنی بقیہ زندگی کے دنوں میں کچھ کر گزرنے کی ٹھان لے تاکہ اس کا کل آج سے بہتر ہو اور اس کا آج گزشتہ کل سے افضل و اعلی ہو اور اس کا نیا سال اس کے گزشتہ سال سے اچھا ہو ۔ عقلمند وہی ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کر لے ، اپنے حسابات کی جانچ پڑتال کرے ، اعمال صالحہ کا توشہ جمع کر لے اور اپنے سابقہ گناہوں اور گزشتہ خطاؤں سے اپنے رب کی طرف توبہ نصوح کرلے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے :

فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ﴿٧﴾ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ

الزلزلة – 7/8

جس نے ایک ذرہ برابر بھی خیر و بھلائی کی ہو گی ( قیامت کے دن ) وہ اسے دیکھ لیگا ۔اور جس نے ذرہ بھر بھی برائی کی ہوئی وہ اسے بھی دیکھ لے گا ۔

سیدناابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے :

اے میرے بندوں ! میں تمہارے ان تمام اعمال کو گن گن کر تمہارے لئے محفوظ کروائے جا رہا ہوں اور پھر تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دیا جائیگا ۔ جسے بھلائی ملی وہ اپنے رب کا شکر ادا کرے اور جسے اس کے برعکس کچھ بھگتنا پڑا تو وہ اپنے آپ کے سوا کسی کو ملامت نہ کرے ۔( صحیح مسلم )

2 ۔ ہر فتنے کا جواب اور ہر چیلنج کا مقابلہ :

دوسرا اہم امر یہ ہے کہ ہما را گزشتہ سال تو گزر گیا ہے جبکہ امت اسلامیہ مصائب و مشکلات میں پھنسی ہوئی ہے ۔ طرح طرح کے فتنوں میں مبتلا ہے اسے بہکانے کی چیزیں عام ہیں وہ طرح طرح کے امتحانات سے دو چار ہے اور یہ سب اشیاء افراد امت سے اور ابناء اسلام سے فوری حل چاہتی ہے کہ وہ عزم صادق اور پختہ ارادہ کریں کہ انفرادی طور پر بھی ، معاشروں کی سطح پر بھی اور حکام و امراء کیا اور عوام و محکوم کیا ہر سطح پر اور ہر شخص اپنی اپنی اصلاح کرے گا اور یہ اس یقین کےساتھ کہ ہم میں سے کسی کواس بات میں کوئی شک نہیں کہ امت کی ناک میں دم کر دینے والوں ان بحرانوں اور تباہ کن حالات سے نجات کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم صاف ستھرے اور حقیقی اسلام کو لیں ، وہ خالص اسلام جو قرآن کی شکل میں نازل ہوا ہے جسے پوری کائنات کے سردار نبی اکرم ﷺلے کر آئے ہیں اور جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھا تھا ۔ جی ہاں ! صاف ستھرا اور حقیقی اسلام وہی ہے جو ہما ری زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے اور ہر شعبے کے لئے تعلیمات مہیا کرتا ہے، وہ شعبۂ سیاسیات ہو یا اقتصادیات ، اس کا تعلق کلچر و ثقافت سے ہو یا اجتماعیات و معاشروں سے ، اسے زندگی کے ہر شعبہ میں اپنایا جائے صرف علمی طور پر ہی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی ، حکمرانی و جہانبانی میں بھی اور اپنے متنازعہ امور میں ثالثی و فیصلے کروانے میں بھی۔ اور یہ مقاصد اسلام کی معرفت کی بنیاد پر ہو کہ اسلام مفید و صالح ، عالی تہذیب یافتہ و مھذب زندگی قائم کرنا چاہتا ہے۔ جو دنیا و آخرت میں اعلی ثمرات مہیا کرے ۔ اور اسلام اپنے ماننے والے کو وہ اعلی زندگی مہیا کرنا چاہتا ہے جس کے بارے میں اللہ کا ارشاد صادق آتا ہے جس میں اس نے فرمایا ہے :

وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا

النور – 55

 تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انھیں زمین کا حاکم بنادے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنا دیا تھا اور خوف کے بعد انھیں امن بخشے گا ۔ وہ میری عبادت کرینگے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائینگے ۔

آج جبکہ امت مسلمہ مختلف راستوں کے دوراہے بلکہ کئی راستوں کے جنکشن پر کھڑی ہے اس پر واجب ہے کہ وہ اس بات کا یقین کامل اور علم یقین حاصل کر لے کہ اس کی عزت و قوت اس کے اپنے دین کے ساتھ گہرے ربط و تعلق اور اپنی شریعت پر مکمل عمل اور اپنے نبی کی اتباع سنت میں پنہاں ہے ۔ یہی کار آمد و فعال اسلحہ ہے جو امت سے تمام خطرات کو دور کر سکتا ہے اور یہی وہ زبردست آہنی لباس ہے جس کے ذریعے اس سخت آویزش اور ان تباہ کن حملوں سے بچا جا سکتا ہے جو آج اس روئے زمین پر مختلف قوتوں کی طرف سے درپیش ہیں ۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے :

وَلِلَّـهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَـٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ

المنافقون – 8

 عزت تو اللہ کے لئے یا پھر اس کے رسول کے لئے اور اہل ایمان کے لئے ہے لیکن منافق لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے ۔

مسلمانوں پر واجب یہ ہے کہ وہ موجودہ ہر چیلنج کا ڈٹ کر مقابلہ کریں جو انھیں دیا جا رہا ہے اور جو ان کے دین پر کیچڑ اچھالنے کا سبب بن رہا ہے ۔

اسی طرح یہ بھی واجب ہے کہ منحرف افکار و نظریات ، گمراہ کن خیالات و مسالک اور بدصورت مشارب والے ان تمام لوگوں کی راہیں روکی جائیں اور ان کے لئے تمام دروازے بند کر دیئے جائیں جو کہ گدلے پانی میں شکار کھیلنے کی نیت بد لئے ہوئے ہیں ۔ اور ان تمام لوگوں کا بھی منہ بند کریں جو کہ ہر مسلمان کو زندگی کی صحیح ڈگر سے پھیر کر جو کہ ان کے دین سے حاصل شدہ ہے انھیں غلط راہوں پر چلانا جاہتے ہیں ۔ اور اس کے لئے بڑی ملمع سازی و بلندبانگ دعوے کئے جا رہے ہیں جو کہ جھوٹی چمک دھمک لئے ہوئے ہیں وہ جعلی اقوال اور احمقانہ افکار کو بروئے کار لا رہے ہیں ۔ ان سب کی راہیں روکنا مسلمانوں پر فرض ہے ۔

3 دشمنان دین کی اسلام پر الزام تراشیوں کا اپنے عمل و کردا سے دفاع :

تیسرا اہم امر یہ ہے کہ آج اسلام پر دشمنان دین اور اہل حقد و بغض معاندین طرح طرح کے الزامات لـگا رہے ہیں جن سے اسلام کا دامن سراسر پاک و بری ہے اور یہ الزام تراشیاں صرف اس لئے ہیں کہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکا جاسکے اور بنی بشر کو اسلام کے روشن و تابناک منہج سے دور ہٹایا جاسکے ۔ لہٰذا عالم اسلام کے تمام افراد سے اس دین کا یہ بھرپور مطالبہ ہے کہ وہ اپنی ڈگر کو صحیح اور اپنا قبلہ درست کر لیں تاکہ ان کی غلط روشوں اور کردار کی خامیوں کمزوریوں کو لیکر دشمنان دین ہمارے اسلام کا حلیہ تو نہ بگاڑ کر پیش کر سکیں اور بغض و حقد سے ابلتے سینوں کے مالک لوگ اسلام کے تابناک و ضیاء افشاں حقائق کو مسخ کرنے کے لئے ہما ری کوتاہیوں کو سیڑھی کے طور پر تو استعمال نہ کر سکیں ۔

مسلمانوں پر اپنے دین کی طرف سے یہ واجب ہے کہ وہ صدق نیت و توجہ اور پر امن مقاصد کو پوری دنیا کے سامنے ثابت کر دیں ۔ اپنے اہداف و مقاصد کی بلندی سے دنیا کو روشناس کرا دیں اور پورے عالم پر اصل و حقیقی اسلام کو واضح کر دیں ۔ وہ اسلام جو کہ وسیع معنوں میں رحم و کرم کا درس دیتا ہے ، تمام تر باریکیوں کے ساتھ عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے ، تمام تر شکلوں سے حسن سلوک کی تاکید کرتا ہے اور ہر ممکن طریقہ سے دین و دنیا اور دنیا و آخرت کی اصلاح کی فکر مہیا کرتا ہے۔

علماء و مفکرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ پیش آمدہ ہر مسئلہ پر گہری نظر ڈالیں اور اس مسئلہ کو خوب سمجھیں تا کہ اس کے ایجابی و مثبت پہلوؤں سے استفادہ کیا جا سکے وہ مثبت پہلو جو کہ ہماری شریعت کے مسلمہ امور اور ہمارے عقیدہ کے قواعد و اصول کے منافی نہیں اور نہ ہی امت اسلامیہ کے مفادات و مصالح کے مخالف ہیں ۔اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ تمام تر مساعی اور کوششیں باہم متفق ہو کر نہ کی جائیں گی اور کتاب و سنت سے حاصل کردہ صحیح فہم کے ساتھ اپنے مواقف میں باہم نظم و ضبط پیدا نہ کیا جائے ، مکمل ہوش و حواس کے عالم میں اصلاح کی صدق دل سے نیت نہ ہو اور اس عالم کا پورا پورا ادراک نہ ہو جو کہ آج ایسے ایسے تغیرات و انقلابات کا موجیں مارتا سمندر بنا ہوا ہے اور جس کے امن و استقرار کو نت نئے تغیر و تبدل کی آندھیاں تہہ و بالا کر رہی ہیں ۔ اس دنیا کا مکمل ادراک ایسے مضبوط قاعدے سے ہو جس میں کسی دینی قاعدے یا اصول میں کوئی کوتاہی نہ کی گئی ہو اور نہ ہی دین کے خصائص و امتیازات میں سے کسی سے دست برداری اختیار کی گئی ہو ۔ ارشاد الہی ہے :

وَلِلَّـهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَـٰكِنَّ وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ لَا يَعْلَمُونَ

الانعام – 153

اور بیشک میرا سیدھا راستہ یہی ہے ، اسی کی اتباع و پیروی کرو اور دوسری پگڈنڈیوں پر مت چلو وہ تمھیں اللہ کی راہ سے ہٹا دینگی ۔

آغاز سال اور صوم عاشوراء :

مسلمانوں ! اللہ کے مہینوں میں سے اس کا یہ حرمت والا ماہ محرم عظمت وحرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے ، اس کا مقام بڑا ہی بلند اور ا س کی حرمت و عزت بہت ہی زیادہ ہے ۔ نبی اکرم ﷺکا ارشاد ہے :ماہ رمضان کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والے روزے اللہ کے مہینے ماہ محرم کے دنوں کے روزے ہیں۔ ( صحیح مسلم )

اوراس ماہ محرم کے دنوں میں سے افضل ترین دن یوم عاشوراء ( 10 محرم ) ہے ۔صحیح بخاری و مسلم میں نبی اکرم ﷺکا ارشاد گرامی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے عاشوراء کا روزہ رکھا اور اس کا اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم بھی فرمایا اور صحیح مسلم میں ہے کہ نبی ﷺسے یوم عاشوراء کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :مجھے اللہ سے امید ہے کہ یہ ( یوم عاشوراء کا روزہ ) پچھلے پورے سال کا کفارہ ہو جائے گا۔

اور سنت یہ ہے کہ اس سے ایک دن پہلے 9 محرم کا بھی روزہ رکھا جائے کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ارشاد نبوی ہے : اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نو محرم کا روزہ ضرور رکھوں گا ۔ ( صحیح مسلم )

اگر 9 محرم کا روزہ رکھنا کسی وجہ سے ممکن نہ ہو تو اس کے ایک دن کا روزہ رکھ لیں اور مکمل شکل یہ بھی ہے کہ عاشوراء سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد روزہ رکھ لیا جائے ۔

و صلی اللہ و سلم علی نبینا محمد و علی آله و صحبه اجمعین۔

سبحان ربك رب العزۃ عما یصفون و سلام علی المرسلین و الحمد للہ رب العالمین

فضیلۃ الشیخ جسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ: آپ مسجد نبوی کے امام و خطیب ہیں، شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ کے خاندان سے ہیں، بنو تمیم سے تعلق ہے، آپ نے جامعہ محمد بن سعود الاسلامیہ سے ماجستیر کی ڈگری حاصل کی ، پھر مسجد نبوی میں امام متعین ہوئے اور ساتھ ساتھ مدینہ منورہ میں جج کے فرائض بھی ادا کررہے ہیں۔