مسلمانوں کی تذلیل! ہم اور ہمارا میڈیا

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، اس انسان کو پیدا کیا اور فضیلت سے نوازا، اللہ تعالی نے انسان کو عقل عطا کی جو کہ آلۂ ادراک اور مکلف بننے کا سبب ہے، نیز انسان کو آداب بھی سکھائے، بندے کو بولنے اور بیان کرنے کے لئے زبان دی اور علم عطا کیا، چنانچہ انسان کو کامل بنانے والی ذات پاکیزہ ہے، اور اللہ تعالی بہترین خالق ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں اس کا کوئی شریک نہیں، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں ، اللہ تعالی نے آپ کو ہدایت اور دین حق دے کر شاہد، مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا، آپ حق لے کر آئے اور حق کی تصدیق بھی فرمائی۔ اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلام نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد: سب سے سچا کلام قرآن مجید ہے، اعلی ترین طرزِ زندگی جناب محمد ﷺ کا ہے، بد ترین امور بدعات ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔

اللہ بندوں!

میں آپ سب کو تقوی الہی اپنانے کی نصیحت کرتا ہوں، یہ اللہ تعالی کی گزشتہ و پیوستہ سب لوگوں کو تاکیدی نصیحت ہے:

وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ

النساء – 131

ہم نے یقینی طور پر ان لوگوں کو بھی تاکیدی نصیحت کی جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور تمہیں بھی کہ تقوی الہی اختیار کرو۔

مسلم اقوام!

اعضا اور جوارح کے زخم متنوع تاثیر رکھتے ہیں، لیکن دلوں پر ان کی چوٹ انتہائی دیر پا اور با اثر ہوتی ہے۔

جَرَاحَاتُ السِّنَانِ لَهَا التِّئَامُ

َلَا يَلْتَامُ مَا جَرَحَ اللِّسَانُ

تیغ و تیر کے زخم تو بھر جاتے ہیں، لیکن زبان کے زخم کبھی نہیں بھرتے۔

زبان گفتگو اور بیان کا ذریعہ ہے، یہ مافی الضمیر کی ترجمان بھی ہے، زبان قد و قامت میں تو چھوٹی ہے لیکن اس کی اچھائی یا برائی بہت مؤثر ہوتی ہے، زبان سے ہی کفر اور ایمان واضح ہوتا ہے جو کہ گناہ یا اطاعت کے نتائج ہیں۔ جس طرح خیر کے کاموں میں زبان کا بہت وسیع میدان ہے اسی طرح برائی میں بھی اس کا بہت لمبا ہاتھ ہے:  تو زبان ہی سے الزامات اور پاک دامن مومن خواتین پر تہمت لگائی جاتی ہے۔ لڑائیاں اور جھگڑے پیدا ہوتے ہیں۔ زبان سے پردوں میں چھپی باتیں عیاں ہوتی ہیں۔ چادر اور چار دیواری کی حرمت تار تار ہوتی ہے۔ اسی زبان سے سینوں میں کینے، دکھ اور پریشانیاں بوئی جاتی ہیں، زبان سے ہی دشنام، چغلی، طعنے اور عیب جوئی کی جاتی ہے۔ افواہیں، لعن طعن، غیبت، تہمت، فحش گوئی، بد کلامی اسی کے کام ہیں۔ زبان حرکت کرنے سے نہیں تھکتی، اس کی باتیں بھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں، اس کے باوجود یہ سب کچھ لکھا جا رہا ہے، روزِ قیامت ان سب باتوں کا حساب ہو گا۔ اللہ کا فرمان ہے:

مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ

ق – 18

جب بھی کوئی لفظ اس کی زبان سے نکلتا ہے اسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود ہوتا ہے ۔

ایک بار : (نبی ﷺ نے اپنی زبان کو پکڑا اور کہا: معاذ! تم اسے روک کر رکھو!) تو اس پر سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے تعجب سے کہا: “کیا ہماری باتوں کا بھی احتساب ہو گا؟” تو آپ ﷺ نے فرمایا: (معاذ تیری ماں تجھے گم پائے! لوگوں کو آگ میں اوندھے منہ یا ناک کے بل یہی زبان کی کارستانیاں ہی تو گرائیں گی)۔

اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: (بندہ ایک بات کر کے بھی آگ میں اتنی دور جا گرتا ہے جتنا مشرق اور مغرب میں فاصلہ ہے)۔

ایک روایت میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: “احد کے دن ہمارا ایک نوجوان لڑکا اپنی جان کا نذرانہ پیش کر گیا، بھوک کی وجہ سے اس کے پیٹ پر پتھر بھی بندھا ہوا پایا گیا، تو اس کی والدہ نے لڑکے کا چہرہ صاف کیا اور کہہ دیا: “میرے بیٹے! تمہیں جنت مبارک ہو” اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (تمہیں کیا معلوم ممکن ہے کہ یہ لا یعنی باتوں میں مشغول رہتا رہا ہو؟!)”۔

ایک بار “سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ صفا پہاڑی پر چڑھے اپنی زبان کو پکڑا اور پھر کہا: زبان ! توں اچھی بات کرے گی تو تیرا فائدہ ہے، بری باتوں سے خاموشی اپنائے گی سلامتی پائے گی، وگرنہ تمہیں ندامت ہی ملے گی، پھر انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: (اولاد آدم کے اکثر گناہ زبان سے صادر ہوتے ہیں۔)”۔

اللہ کے بندوں!

(کسی شخص کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے، ہر مسلمان کی تمام مسلمانوں پر جان، مال اور آبرو حرام ہے)۔

مسلمان اپنے بھائی کو اس کی موجودگی یا عدم موجودگی میں دین، دنیا یا جسمانی اعتبار سے سب و شتم کا نشانہ بنائے تو اس کا ہر حال میں حکم یکساں ہے، کوئی مسلمان کسی مسلمان کے اخلاق، خِلقت، مال، اولاد، بیوی، لباس، یا حرکات و سکنات کو نشانہ بنائے، یا اس کے بارے میں بول کر ، اشارے سے ، کنایے سے، لکھ کر یا نقل اتار کر برائی بیان کرے تو یہ غیبت ہے، اور اگر وہ برائی سرے سے مسلمان میں موجود ہی نہ ہو تو پھر یہ غیبت بھی ہے، ظلم، بہتان اور افترا پردازی بھی ہے۔

اللہ کے بندوں!

سود کے بہتر درجے ہیں، اور کم تر درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی ماں سے غلط کاری کرے، سود کا ایک درہم بھی 36 بار زنا کرنے سے بد تر ہے، اور سب سے سنگین ترین ربا یہ ہے کہ انسان اپنے مسلمان بھائی کی نا حق ہتکِ عزت کرے۔

مسلم اقوام!

زبان کی تباہ اور سیاہ کاریوں میں سے شدید ترین یہ ہے کہ جھوٹی افواہیں پھیلائی جائیں، من گھڑت خبریں نشر کی جائیں اور من مانی باتیں بنا اور پھیلا کر مسلمانوں کا آپس میں اعتماد مخدوش کریں کہ سب ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگیں! باہمی اخوت اور وحدت گدلی ہو جائے، سب ایک دوسرے کا دست و بازو بننے کی بجائے دست و گریبان ہو جائیں۔

ان افواہوں نے کتنے معصوم لوگوں کو پریشان کیا!

کتنے بڑے بڑے حوصلوں کو پست کیا!

کتنے تعلقات میں دراڑیں ڈالیں!

کتنے جرائم ان افواہوں کی وجہ سے کیے گیے!

کتنی دوستیوں کو توڑ کر رکھ دیا!

کتنے معاشرے اور گھرانے ان افواہوں نے اجاڑ دیے!

کتنے پیاروں کو جدا کر دیا!

کتنا پیسہ ان کی وجہ سے ضائع ہوا!

کتنے دل ریزہ ریزہ ہوئے!

کتنے سینوں میں آگ بھڑکائی!

کتنے ہی لوگوں کو افسردہ کیا! اور یہ افواہیں کتنی ہی اقوام کی ترقی میں تاخیر کا سبب بنیں!

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ

الحجرات – 12

اے ایمان والو! بہت سے گمان سے بچو، یقیناً بعض گمان گناہ ہیں ۔

 ایسے ہی فرمایا:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ

الحجرات – 6

 اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم نادانستہ کسی قوم کا نقصان کر بیٹھو پھر تمہیں اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے۔

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ا نہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (جو شخص کسی مومن کے بارے میں ایسی بات کہے جو اس میں ہے ہی نہیں تو اللہ تعالی اسے ردغۃ الخبال میں ٹھہرائے گا، [ردغۃ الخبال] جہنمیوں [کے خون پیپ ] کا نچوڑ ہے)۔

سہل بن معاذ رضی اللہ عنہما اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (جس نے کسی مسلمان کی ہتک عزت کے لئے تہمت لگائی تو اللہ تعالی اسے جہنم کے پل پر روک لے گا یہاں تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے پاک ہو جائے) [حسن، ابو داود]

مسلم اقوام!

اللہ تعالی نے مسلمانوں کی عزت آبرو کی حرمت بھی ویسی ہی قرار دی ہے جیسے ان کی جان اور مال کی حرمت ہے، بلکہ عزت نفس کا دفاع کرنے کے لئے مال و جان لگانے کو بھی شرعا جائز قرار دیا، اس لیے مسلمانوں کی عزت نفس کو افواہوں سے داغ دار کرنا اور اس کی بے عزتی پھیلانا، شکوک ،خدشات اور من گھڑت باتوں کے ذریعے اسے نشر کرنا ، جھوٹ ،افترا پردازی ، بہتان بازی، اور مذاق اڑانا ۔ ذرائع ابلاغ اور سماجی رابطے کے ذرائع کو زہر پھیلانے اور فتنہ بپا کرنے کے لئے استعمال کرنا یہ سب کچھ مسلمان کی ہتک عزت ہے، اور یہ مہلک گناہوں میں سے ایک ہے، اس لیے مسلمان کے لئے ایسے کسی بھی اقدام سے بچنا ضروری ہے۔

چنانچہ ابو درداء رضی اللہ عنہ مرفوعا بیان کرتے ہیں کہ: (جس نے کسی مسلمان کی ہتک عزت کے لئے اس کے خلاف کوئی غلط بات مشہور کی تو اللہ تعالی پر حق ہو گا کہ اسے اس بات کی وجہ سے جہنم میں اس وقت تک پگھلائے یہاں تک کہ وہ غلط بات ختم ہو جائے)۔

یہ بھی غور سے سن لیں کہ بری بات پھیلانے والا اور اس کا موجد دونوں برابر ہیں، یہ بھی غور سے سن لیں کہ بری بات پھیلانے والا اور اس کا موجد دونوں برابر ہیں، دونوں کے حکم میں کوئی فرق نہیں، بری بات کے موجد پر ان تمام لوگوں کا بھی بوجھ ہو گا جو اسے پھیلاتے رہیں گے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: (کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کر دے) مسلم

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ

إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُمْ مَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمٌ

النور – 15

 جب تم اس [افواہ] کو اپنی زبانوں سے بیان کر رہے تھے اور اپنے منہ سے وہ بات کہہ رہے تھے جس کا تمھیں کچھ علم نہیں اور تم اسے معمولی بھی سمجھتے تھے، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی تھی۔

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کے لئے قرآن کریم کو بابرکت بنائے، اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو اس کی حکمت بھرئی نصیحتوں سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اسی نے اپنے دین کے ذریعے جان، مال اور عزت آبرو کو تحفظ بخشا، اور ان پر قولاً یا فعلاً حملہ کرنے والوں کو وعید سنائی، اللہ تعالی نے مومنوں کو بھائی بھائی بنایا اور ان میں مودت اور رحمت ودیعت فرمائی۔

مسلم اقوام!

کسی کی پگڑی اچھالنا اور عیب جوئی انتہائی سنگین مسئلہ اور بیماری ہے، اس عمل کا شمار بڑے گناہوں اور شدید فتنوں میں ہوتا ہے، اس کے نتائج ایمان میں کمزوری کی صورت میں بر آمد ہوتے ہیں، جیسے کہ ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (اے وہ لوگو! جو اپنی زبان سے تو ایمان لے آئے ہو لیکن ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا! مسلمانوں کی غیبت نہ کرو، نہ ہی ان کی عیب جوئی کرو؛ کیونکہ جو بھی مسلمانوں کی عیب جوئی کرتا ہے اللہ تعالی اس کے عیوب تلاش کرتا ہے، اور جس کے عیوب اللہ تلاش کرے تو اُسے اس کے گھر میں بھی رسوا فرما دیتا ہے۔) اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔

اس لیے اپنی عزت آبرو کی حفاظت کرو اور زبان کو لگام دو۔

اللہ کے بندوں!

مسلمان کا مقام اور مرتبہ بہت عظیم ہے، شریعت نے اسے مکمل تحفظ فراہم کیا ہے، مسلمان کی عزت پر ہاتھ ڈالنے والے کو وعید بھی سنائی ہے، اس لیے کوئی بھی مسلمان دوسرے مسلمان کی عزت پر زبان درازی نہ کرے، ہتک عزت میں ملوث نہ ہو۔ ایک بار “سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کعبہ کی جانب دیکھا اور کہا: کعبہ تیری کتنی عظمت ہے اور تیرا کتنا بلند مقام ہے، لیکن مومن کا مقام اللہ تعالی کے ہاں تجھ سے بھی زیادہ ہے”۔

مسلمان کا مقام اور مرتبہ بہت عظیم ہے، شریعت نے اسے مکمل تحفظ فراہم کیا ہے، مسلمان کی عزت پر ہاتھ ڈالنے والے کو وعید بھی سنائی ہے، اس لیے کوئی بھی مسلمان دوسرے مسلمان کی عزت پر زبان درازی نہ کرے، ہتک عزت میں ملوث نہ ہو۔ ایک بار “سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کعبہ کی جانب دیکھا اور کہا: کعبہ تیری کتنی عظمت ہے اور تیرا کتنا بلند مقام ہے، لیکن مومن کا مقام اللہ تعالی کے ہاں تجھ سے بھی زیادہ ہے”

ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے دسویں تاریخ کو منیٰ میں خطبہ دیا تو آپ ﷺ نے پوچھا: (لوگو ! تمہیں معلوم ہے آج یہ کون سا دن ہے؟) ہم نے عرض کی “اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں” آپ ﷺ اس پر خاموش ہو گئے اور ہم نے سمجھا کہ آپ ﷺ اس دن نام تبدیل کریں گے لیکن آپ ﷺ نے فرمایا : (کیا یہ قربانی کا دن نہیں) ہم بولے” جی بالکل” ، پھر آپ ﷺ نے پوچھا: ( یہ مہینہ کون سا ہے؟) ہم نے کہا: “اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں” آپ اس مرتبہ بھی خاموش ہو گئے اور ہمیں خیال ہوا کہ آپ ﷺ اس مہینے کا نام تبدیل کریں گے، لیکن آپ نے فرمایا: ( کیا یہ ذوالحجہ کا مہینہ نہیں ہے؟) ہم بولے: “بالکل”، پھر آپ ﷺ نے پوچھا: (یہ شہر کون سا ہے؟) ہم نے عرض کی: “اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں”، اس مرتبہ بھی آپ ﷺ اس طرح خاموش ہو گئے کہ ہم نے سمجھا کہ آپ اس شہر کا نام تبدیل کریں گے، لیکن آپ نے فرمایا کہ: (یہ حرمت والا شہر نہیں ہے؟ ) ہم نے عرض کیا: بالکل ، اس کے بعد آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: (بس تمہارا خون اور تمہارے مال تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے اس دن کی حرمت اس مہینے اور اس شہر میں ہے، تاآنکہ تم اپنے رب سے جاملو۔ کہو کیا میں نے تم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا؟) لوگوں نے کہا : “ہاں”۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ( یا اللہ ! تو گواہ رہنا! یہاں موجود افراد غیر حاضر افراد کو یہ پیغام پہنچا دیں کیوں کہ بہت سے لوگ جن تک یہ پیغام پہنچے گا سننے والوں سے زیادہ یاد رکھنے والے ثابت ہوں گے اور میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی [ناحق ] گردنیں مارنے لگو) بخاری۔

اللہ کے بندوں!

حرام اور گناہ کے کاموں سے بچاؤ نیکیوں اور اچھے اعمال سے زیادہ ضروری ہے؛ اس لیے کہ مفلس وہی ہے جو بڑی محنت اور تگ و دو کر کے عمل کرتا ہے اور نیکیوں کی جمع پونجی بناتا ہے لیکن اپنی بیوقوفی کی وجہ سے سب لٹوا لیتا ہے، جیسے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟) صحابہ نے کہا: ” ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ درہم ہو، نہ کوئی مال و متاع”۔ آپ نے فرمایا: (میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکاۃ لے کر آئے گا اور اس طرح آئے گا کہ [دنیا میں] کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر بہتان لگایا ہو گا، کسی کا مال کھایا ہو گا، کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا، تو اس کی نیکیوں میں سے ان سب کو دیا جائے گا، اگر حساب چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو اُن کے گناہوں کو لے کر اس پر ڈالا جائے گا، پھر اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا)۔

مسلم اقوام!

مملکت سعودی عرب، بلاد حرمین شریفین ہے، اس کی دھرتی پر وحی نازل ہوتی رہی، یہ مسلمانوں کا قبلہ بھی ہے، مسلمانوں کے دل اس کے ساتھ دھڑکتے ہیں، اللہ تعالی نے اس دھرتی کو اپنے دین کی نشر و اشاعت اور دعوت کے لئے منتخب فرمایا، یہ ملک فرزندان توحید کی آماجگاہ ہے، یہاں سے اسلام کا نور پھیلا، یہاں پر اعتدال اور سلامتی کے اصول و ضوابط پختہ ہوئے، علم اور ایمان کی آبیاری ہوئی، اس دھرتی نے یہاں پر آنے والے تمام مسلمانوں کو ماں کی مامتا کی طرح سینے سے لگایا، اس لیے اللہ تعالی یہاں کہ حکمرانوں کو بہترین بدلے سے نوازے۔

یہ بھی ذہن نشین کر لیں کہ اس ملک کے خلاف حاسدین اور کینہ پرور افراد کی جانب سے پھیلائی جانے والی افواہیں، بے بنیاد خبریں اور من گھڑت باتیں در حقیقت ہمارے دین دشمنوں اور اعدائے امت کی جانب سے بھڑکائی جانے والی آگ اور جنگ ہے، اس لیے ہم اللہ تعالی سے گڑگڑا کر دعا کرتے ہیں اور دشمنوں کی چالوں کے سامنے اسی کے ذریعے قوت حاصل کرتے ہیں۔

یا اللہ! اس ملک کی حفاظت فرما، اس ملک کا خصوصی خیال فرما، یا اللہ! اس ملک کو اور دیگر تمام اسلامی ممالک کو پر امن اور مستحکم بنا دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! جو بھی ہمارے بارے میں برے ارادے رکھے اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، اس کی مکاری اسی کی تباہی کا باعث بنا دے، یا قوی! یا عزیز!

یا اللہ! ہمارے حکمران خادم حرمین شریفین کو خصوصی توفیق سے نواز، ان کی خصوصی مدد فرما، یا اللہ! انہیں اور ان کے ولی عہد کو تیری رضا کے حامل کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا سمیع الدعاء!

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، اپنے موحد بندوں کی مدد فرما، یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات سنوار دے، یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات سنوار دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! تو نے ہمیں بھر پور بارشیں عطا کیں، اس پر ہم تیرا شکر ادا کرتے ہیں، یا اللہ! اب اس پانی کو ہمارے لیے قوت اور مفید بنا دے۔

اللہ کے بندو!

اللہ تعالی نے تمہیں نبی ﷺ پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الأحزاب – 56

 اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔

اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اَللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.

یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین : ابو بکر ، عمر، عثمان، علی اور دیگر تمام صحابہ سے راضی ہو جا؛ یا اللہ! اپنے رحم و کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالرحمٰن بعیجان حفظہ اللہ: آپ مسجد نبوی کے امام و خطیب ہیں، آپ ایک بلند پایہ خطیب اور بڑی پیاری آواز کے مالک ہیں۔جامعہ محمد بن سعود الاسلامیہ سے پی ایچ ڈی کی ، پھر مسجد نبوی میں امام متعین ہوئے اور ساتھ ساتھ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کلیۃ الشریعۃ میں مدرس ہیں۔