ملک و ملت کو درپیش خطرات سے آگاہی!!

پہلا خطبہ:

ہر طرح کی تعریف اللہ کے لئے ہے، ہم اسی کی حمد بیان کرتے ہیں ، اسی سے مدد طلب کرتے ہیں اور مغفرت چاہتے ہیں ، اے اللہ ، ہمارے رب ہم تیری ہی اتنی زیادہ حمد بیان کرتے ہیں، کہ سمندر بھر سیاہی بھی اس احاطہ نہیں کر سکتی۔ تیرے چہرے کی ثابت تئظیم کے بطور تیرے ہی لئے ہر طرح کی حمد ہے ، اور اس حمد کا تو ہی اے میرے معبود لائق و سزاوار ہے۔تیرے ہی لئے ہر طرح کی حمد ہے اے کبریائی والے، اور جس نے تیری حمد کرتے ہوئے شکر ادا کیا اسی نے شکر کا حق ادا کیا۔

اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس نے شر وفساد چاہنے والوں کو بدبختی اور محرومی کی وعید سنائی، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سردار محمد ﷺاللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ کی رحمت و محبت تمام جہانوں پر چھائی ہوئی ہے۔

 اللہ کا درود نازل ہو آپﷺ پر اور آپ ﷺکے آل و اصحاب پر جو تعمیر اور اصلاح کے قائد تھے، ترقی کے میدانوں مقدم رنجاں تھے، اور ان پر جو ان کے نقش قدم کی اچھی طرح سے پیروی کرے، اور بہت زیادہ سلامتی نازل ہو۔

اما بعد!

 اللہ کا تقوی اختیار کرو، اے اللہ کے بندو! اور برے انجام اور ہلاکت سے بچو، اور غفلتوں سے دور رہو کیونکہ وہ اطاعت کے لئے تباہ کن ہیں، آخرت کی تیاری کرو کیوں کہ وہ آنے والی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

حشر – 18

اے  لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو، اور ہر دیکھے کہ اُس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ یقیناً تمہارے اُن  سب اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔

مسلمانو! بحرانوں اور چیلنجوں کے مقابلہ میں معاشروں کی ہم آہنگی، استحکام، اور ان کے افراد اور جماعتوں کی یکجہتی، اہل خرد و اولو العزم کا مطمح نظر ہے اور جو بھی تاریخ اور اس کے اسباق کو کھنگالے گا اور اس کی گہرائیوں اور صحائف کا جائزہ لے گا وہ کہاوتوں اور ضرب المثلوں کے مجموعے میں ایک کامل بلا نقص واضح حقیقت پائے گا۔ اور وہ یہ ہے کہ کوئی بھی قوم کینہ پرورد شمن اور ٹوہ میں لگے حاسد سے خالی نہیں ہوئی۔ یہ واضح، ابدی اور روشن حقیقت ہے۔ اس کے واضح شواہد میں ہمارے جدِ امجد آدم علیہ السلام سے ابلیس کی دشمنی ہے اور دیگر انبیاء کا اپنی قوم کے ہاتھوں تکلیفیں برداشت کرنا ہے:

 اور ہم نے تو اسی طرح ہمیشہ شیطان انسانوں اور شیطان جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے جو ایک دوسرے پر خوش آیند باتیں دھو کے اور فریب کے طور پر القا کرتے رہے ہیں۔

اسی طرح قیامت تک ہوتا رہے گا۔

يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ

الصف – 8

یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

 مؤمنو! دین، ملکوں اور معاشروں کو نشانہ بنانا اللہ کے کائناتی سنتوں میں سے ایک سنت ہے۔ اور پچھلی صدیاں شیاطین، فساد پھیلانے والوں اور گمراہوں کی  فتنہ انگیزیوں سے نہ بچ سکیں، کہ انہوں نے عقائد کو نشانہ بنایا، اور شرک کی شکلوں نے اپنا دائرہ بڑھایا، اور توحیدوسنت کے خلاف اپنے جھنڈے پھیلا دیے۔ امام مسلم نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

وإنِّي خَلَقْتُ عِبَادِي حُنَفَاءَ كُلَّهُمْ، وإنَّهُمْ أَتَتْهُمُ الشَّيَاطِينُ فَاجْتَالَتْهُمْ عن دِينِهِمْ، وَحَرَّمَتْ عليهم ما أَحْلَلْتُ لهمْ، وَأَمَرَتْهُمْ أَنْ يُشْرِكُوا بي ما لَمْ أُنْزِلْ به سُلْطَانًا

 میں نے اپنے تمام بندوں کو توحید پر  یکسو کیا۔ پھر شیاطین ان کے پاس آئے اور انھیں ان کے دین سے دور کھینچ لیا اور ان (بندوں) کو حکم دیا کہ وہ میرے ساتھ شرک کریں جس کے لیے میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی تھی۔

 سبحان اللہ! اللہ کے بندو! کل کی رات آج سے کتنی متشابہ ہے۔ہم نے تکلیف دہ واقعات دیکھے ہیں۔ ان کی وحشت سے ہمارے جگر پھٹ رہے ہیں۔

گمراہی ، افواہ، کم عقلی، فتنہ، بے راہ روی، اور سیاہ غبار آلود سمجھ ہے۔ یہ متعصبانہ نعرے جو اسلامی معاشروں کو نشانہ بناتے ہیں ان کا  مقصد صرف ان معاشروں کو تباہ کرنا ان میں دراڑ پیدا کرنا اور ان کی سلامتی اور اس کام میں خلل ڈالتا ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ معاشروں کو آفات کی طرف لے جانے کے لیے جن شرعی اصطلاحات اور تصورات کا استعمال کرتے ہیں وہ ہر دیکھنے والے کے لئے واضح ہو چکے ہیں اور ان کا مقصد کھل چکا ہے۔ ان کے یہ گھٹیا کر توت، باتیں ان کے دلوں میں چھپی باتوں کو بے نقاب کرتی ہیں، اور ان کے رازوں کو ظاہر کرتی ہیں، کیوں کہ ان میں سے بعض نے اپنے سستے مقاصد کے لئے دین کو سواری اور ذریعہ اور اپنے گھناؤنے لالچی خواہشات اور گمراہی اور دھوکہ دہی کے لئے راستہ بنا لیا ۔

یہیں سے دین پر وطنوں اور معاشروں کو نشانہ بنانے کا خطرہ اس طرح مضمر ہے کہ اسے اعتدال و وسطیت، بلند و خوبصورت اسلامی اقتدار اور اعلی و عظیم شرعی اخلاق سے پھیر دیتا ہے، جو کہ صرف اہل اسلام کے درمیان ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں کے درمیان آپسی رحم اور عفو در گزر کی دعوت دیتے ہیں۔ تو پتہ چلا کہ نشانہ بنانا چیلنج ، کمزور کرنا،حد،تنقیص، بے راہ روی ، انحراف ، چال بازی، ظلم ، شورش ، بدامنی اور محبت و ہم آہنگی سے دوری ہے۔

تو اے عقلمند و ذہین انسان! اپنا شعور بیدار کرو اور نشانہ بنانے والوں کے خطرے سے بچو، اگر تم نشانہ پر ہو تو اپنے نفس، وطن اور معاشرے کو بچاؤ، کوئی شخص مخالفت سے خالی نہیں ہے خواہ وہ پہاڑ کی چوٹی پر گوشہ نشینی اختیار کرنے کی کوشش کرے۔

 بھائیو! وطن اور معاشروں کو نشانہ بنانے کا خطرہ صرف اسلامی تعلیمات کے فہم میں انحراف تک محدود نہیں ہے، بلکہ فکر و عمل تک پھیلا ہوا ہے، اور یہاں ایسا خطرہ چھپا ہوا ہے جو معاشرے بالخصوص اس کی سلامتی اور نوجوانوں کو اپنے لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ جب ان گروہوں کے دلوں میں انتہا پسندانہ اور منحرف خیالات گہرے ہوتے ہیں تو وہ ایسے جرائم میں تبدیل ہو جاتے ہیں جن سے وطن کو خطرہ ہوتا ہے اور گھروں کی تباہی کا ڈر رہتا ہے۔

اور یہ انہیں انتشار و دہشت گردی کے لیے ایندھن، اور بدعنوانی اور دہشت گردی کے لیے ایک جابر قوت بناتے ہیں، اور یہ قومی سلامتی کو غیر مستحکم کرنے اور نمایاں سماجی تانے بانے کو درہم برہم کرنے کا کام کرتے جس سے قوم کے اتحاد کو خطرہ لاحق ہوتا ہے، اور امت کو گمراہ جماعتوں، منحرف گروہوں، اور مشتبہ تنظیموں میں بانٹ دیتا ہے، جو فتنے کو ہوا دینے ، نعروں، عصبیتوں، انتشار، فرقہ بندی، اشتعال انگیزی اور تشویش شر و فتنہ کو بھڑ کانے کا کام کرتی ہے۔ اور یہ معا شرے کے سب سے مضبوط عنصر کو نشانہ بنانا ہے اور وہ ہے ان کی وحدت و یجہتی۔

امام مسلم نے سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سےروایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمايا:

إنَّ الشَّيْطانَ قدْ أيِسَ أنْ يَعْبُدَهُ المُصَلُّونَ في جَزِيرَةِ العَرَبِ، ولَكِنْ في التَّحْرِيشِ بيْنَهُمْ.

صحیح مسلم

شیطان اس بات سے نا امید ہو گیا ہے کہ جزیرہ عرب میں نماز پڑھنے والے اس کی عبادت کریں گے لیکن وہ ان کے درمیان لڑائی جھگڑے کرانے سے مایوس نہیں ہوا۔

 انوکھی باتوں میں سے جن میں اصحاب عقل حیران رہ جاتے ہیں،یہ  ہے کہ زہر آلود تیروں اور سلگتے تنگ دل والے اپنے منحوس تیروں سے ملک کے موتی، وحی کے اترنے کی جگہ اور ایمان کی پناہ گاہ، سرزمین حرمین شریفین، توحید وحدت اور قرآن و سنت کے ملک کو نشانہ بناتے ہیں، جسے اللہ  تعالیٰ نے لوگوں کے جمع ہونے اور امن پانے کی جگہ اور قبلہ بنایا، چنانچہ یہاں وہ اپنے افکار کو پھیلاتے ہیں، اور اس میں منشیات اور عقل بگاڑنے والے زہریلے مادوں کو پھیلاتے ہیں۔ آئیس اور اس جیسی خبیث چیزیں لگاتار بڑھ رہی ہیں، اور عقلوں کو نشانہ بناتی جارہی ہیں۔

 لیکن اللہ تعالیٰ  کے فضل سے پھر بیداری اور روک تھام کی وجہ سے عنقریب وہ شکست کھائیں گے اور ختم ہو جا ئیں گے۔ مملکت نے ، اللہ اس کی حفاظت کرے، منشیات اور ان کو فروغ دینے والوں کے خلاف قومی اور سلامتی مہم کا اعلان کیا، جو تمام لوگوں سے اس بات کا متقاضی ہے اس مبارک مہم کا ساتھ دیں اور مؤثر بنائیں۔

مملکت نے” بالمرصاد” (یعنی گھات میں ہے) مہم شروع کی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ مملکت نے منشیات کے خلاف کوئی سخت جنگ شروع کی ہو، بلکہ اس نے کئی سالوں سے اس خطر ناک آفت کا معتابلہ کیا ہے تاکہ معاشرے اور اس کے لوگوں کو ان زہریلے مادوں سے نشانہ بننے سے بچایا جا سکے جو دماغ کو تباہ اور انسانی زندگی کو بلاک کرد یتے ہیں، چنانچہ منشیات فروشوں اور سمگلروں کی اطلاع دے کر سیکورٹی حکام کے ساتھ تعاون کرنا ہمارا فرض ہے۔

نشانہ بنانے میں دین، جان، عقل، عزت اور مال کو نشانہ بنانا شامل ہے، جس میں بے گناہوں پر طرح طرح کا الزام لگا کر بہتان تراشی کرنا، اور ان کی عزت لوٹنا، ان کے راز کو عام کرنا، ان کی غلطیوں کو بڑا بنانا اور ان کے اچھے کاموں کو خفیہ طور پر اور گھات میں لگ کر بڑے مسکر اور انتقام اور نقصان پہنچانے کے ارادے کے ساتھ مٹانا ہے، اسی مرح اس میں بلیک میلنگ اور استحصال، خیانت ، خلط ملط ، تخریب اور تشدد کی شکلیں ہیں، بشمول پلیٹ فارمز اور جعلی پیغامات کے ذریعے فوری دولت ، تجارتی ہیراپھیری، اور مرضی شراکت کا پروپیگنڈہ کر کے مالی فراڈ کرنا، مختلف عام اور ڈیجیٹل طریقوں کے ساتھ ساتھ ہیکنگ، سازشی پروپیگنڈے، منی لانڈرنگ، انسانی اسمگلنگ، مالیاتی جرائم اور دہشت گردی کے ذریعہ لوگوں کے پیسے کو نشانہ بنانا اور فراڈ کرنا۔

نشانے کی سب سے خطر ناک قسم علامتوں اور رول ماڈلز کے خلاف اسٹریٹجک، نظریاتی اور منظم طریقے سے نشانہ بنانا ہے جس میں انہیں گرا نے اور اعتماد کو متزلزل کر نے کی کھلی کو شش ہوتی ہے۔

اے با برکت و توفیق یافتہ! نشانہ بنے کے مقابلے میں اپنے شعور کو بیدار کرو، اور نشانہ بنانے والے کے خطرے سے ہوشیار رہو، اگر تمہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے تو اپنے نفس معا شرے اور ملک کی حفاظت کرو اور خوشخبری مقبول کرو کہ اصحاب حق محفوظ ہیں اور غلبہ حاصل کرنے و الے ہیں، اور عیب جو دشمن ہی دم بریدہ اور شکست خوردہ ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:

وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ ۚ

الفاطر – 43

 اور بری تدبیروں کا وبال ان تدبیر والوں ہی پر پڑتا ہے۔

وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ

الانفال – 30

قوم کے نوجوانوں کو ان خطرناک اہداف کی گہرائیوں کا ادراک کرنا چاہیے اور اعتقادی، فکری اور برتاؤکے اثرات کے خلاف اپنے افکار کو مضبوط کرنا چاہیے۔

میڈیا اور کمیونیکیشن کے ذمہ دارو!اللہ کے لئے اپنے دین اور ملکوں کو نشانہ بنانے کی سنگینی کوسمجھیں یہاں خاندان ،گھر ،اسکول ،مسجد اور یونیورسٹی کے کردار پر زور دیا جاتا ہے۔ اور افواہ پھیلانے والے ،حوصلہ شکن جھوٹے نشانہ بنانےوالے عناصر کا  آلہ کار نہ بنیں۔

اور خاص طور سے بحرانوں کے وقت فتنوں کو ان کے آغوش ہی میں دفن کرنے، اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور ان کے سوتوں کو خشک کرنے کی کو شش کریں۔ تل کو تاڑ نہ بنائیں ، اشتعال انگیزی نہ کریں، اور تبصروں اور مباحث میں مبالغہ آرائی نہ کریں اور افواہ نہ پھیلائیں، اور تہذیبی مکالمے کے لئے علمی اسلوب اورعملی طریقہ کار پیدا کریں اور درست اقتدار اور روشن فضیلت کو پھیلائیں۔

مسلمانو! اور ان چیخوں کے آگے ہر اس شخص کے سامنے ایک صف میں کھڑا ہونا مرض ہے جو صفوں میں پھوٹ ڈالنے اور تفرقہ  ودراڑ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہم اپنے ارد گرد کی دنیا کو دیکھتے ہیں کہ اس کی حالت کہاں تک پہنچ گئی ہے، جہاں اسے فتنوں کی موجوں نے ڈھانپ لیا ہے، اوردنیا کے مختلف حصوں میں ہمارے بھائی تنازعات اور بحرانوں، فوائد اور صلاحیتوں کو کمتر سمجھے جانے اور حقوق و مقدسات کی پامالی کےشکار ہیں۔

اس کے بعد اے مسلمانو! یہ بات اب اہل بصیرت سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ہمارا مذہب اور ہمارے اقتدار ، وطن، معاشرے اور سلامتی و استحکام نشانہ پر ہیں،  تاہم اس نشانے کی سنگینی کے باوجود معاشروں کو ارتقاء و ترقی، بیداری، اعتماد ، صبر، استقامت بلندی و ثبات، ہم آہنگی، رجائیت خوشخبری اور امیدوں کے ساتھ جینا چا ہے۔

الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ‎﴿١٧٣﴾‏ فَانقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ

آل عمران – 173/174

وہ لوگ کہ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقا بلے پر لشکر جمع کر لئے ہیں، تم ان سے خوف کھاؤ تو اس بات نے انہیں ایمان میں اور بڑھا دیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے۔(نتیجہ یہ ہوا کہ) اللہ کی نعمت و فضل کے ساتھ یہ لوٹے، انہیں کوئی برائی نہ پہنچی، انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی پیروی کی، اللہ بہت  بڑے فضل والاہے۔

اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو قرآن وحدیث کے طریقے سے فائدہ پہنچائے، میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اللہ رب ذوالجلال سے اپنے لئے اور آپ کے اور تمام مسلمانوں کے لئے ہر طرح کے گناہوں سے مدت طلب کرتا ہوں ، آپ بھی اسی سےمغفرت طلب کرو اور توبہ کرو، بے شک وہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔

دوسرا خطبہ:

 ہر طرح کی تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے ہر امت کے لئے ایک شریعت کو مقرر کیا، ان کے لئے بھلائی کا طریقہ اور راستہ بنایا۔

 میں درود و سلام بھیجتا ہوں نبی مصطفی اور چنیدہ رسولﷺ پر، ان کے شریف الاصل اصحاب پر ، تابعین پر اور اچھے طریقہ سے ان کی پیروی کرنے والوں پر۔

اما بعد!

 اللہ کا تقوی اختیار کرو، اے اللہ کے بندو! جان لو کہ سب سے اچھی بات اللہ تبارک تعالی کی کتاب ہے، اور سب سے اچھا طریقہ محمد ﷺکا طریقہ ہے ، سب سے بری بات دین کے اندر نئی ایجادات ہیں، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ جماعت کو لازم پکڑو، کیوں کہ اللہ کا ہاتھ جماعت کے ساتھ ہے، جو جماعت سے الگ ہوا وہ جہنم میں جائے گا۔

مسلمانو! ان مبارک ایام میں جب کہ گردنیں جھانک رہی ہیں، اور تمام جہانوں سے دل کھنچے چلے آرہے ہیں، بایں طور کہ بیت اللہ الحرام کے حجاج کے تالے اور حاجیوں کے جتھے ان معزز مقامات کی طرف بڑھ رہے ہیں، جنہیں اللہ نے اپنے بندوں کے لئے تیار کیا ہے، اور انہیں مناسک کی جگہ کے طور پر منتخب کیا ہے، اس لئے اے حج کرنے والو! آپ کو بہترین مقامات اور معزز راستے میں خوش آمدید ! ہم آپ کی آمد سے خوش ہیں، اور آپ کی خدمت کو شرف سمجھتے ہیں۔ یہ دیکھور حمن کے مہمانوں کے ہر اول دستے ان معزز مقامات کو شرف بخش رہے ہیں ، تو ہم انہیں اھلا وسهلا مرحبا کہتے ہیں۔ اللہ کے مہمان حکومت کی توجہ کا مرکز ہیں۔

تابناک مکارم اور پختہ کارناموں سے پر اعمال میں سے اس مبارک ملک کے حکمرانوں کی طرف سے ملنے والا وہ بھرپور اہتمام اور خدمات وسائل اور امکانات کو مسخر کرنے کا روز افزوں سلسلہ ہے جس سے مشاعر مقدسہ عموما حرمین شریفین خصوصا آراستہ وپیراستہ ہے، خدمات کایہ ہمہ گیر سلسلہ حجاج و معتمرین اور زائرین کے لئے رحمت ہے جو بیت اللہ الحرام اور مسجد نبوی کا قصد کرتے ہیں، اور سعودی دالان اس مبارک ملک کے قائدانہ کردار کا لائق شرف نمونہ ہے جو اسے حرمین شریفین کی تعمیر و خدمت اور رحمان کے مہمانوں کی خدمت کے سلسلہ میں حاصل ہے۔ اللہ تعالی اس مبارک ملک کے سربراہوں کو ان درست کوششوں کا بہترین بدلہ دے جو وہ حرمین شریفین اور ان کے زائرین کی خدمت کے لئے پیش کرتے ہیں۔

ان مقامات کے زائرین کو چاہیے کہ ان کی سلامتی اور عام نظام کو کسی بھی طرح کی خلاف ورزی اور شرعی اور قانونی تعلیمات کے خلاف وہمی مہم سے نشانہ نہ بنائیں۔ اے اللہ اس گھر کی تعظیم ،شرف، عزت اور ہیبت کو بڑھا،ساتھ اُس شخص کی عزت اور ہیبت اور نیکی کو بھی بڑھا جو اس گھر کی  تعظیم کرے، اسے عزت بخشے ، اس کا حج و عمرہ کرے۔

جان لو ، اللہ آپ پر رحم کرے، تمہارا سب سے بہتر اور اللہ کے نزدیک پاکیزہ اور سب بلند درجہ عمل تمہارا اپنے نبی محمد بن عبد الله ﷺ پر سلام بھیجنا ہے، جس کا حکم آپ کے مولانے اپنی محکم کتاب میں دیا ہے ، اور وہ اپنے قول میں سچا ہے:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

 ” اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو”۔

اے اللہ !درود بھیج محمد ﷺپر اور آل محمدﷺ پر جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم علیہ السلام پر بھیجا تھا، اور برکت نازل فرما محمدﷺ پر اور آل محمدﷺپر جس طرح تو نے جہان والوں میں آل ابراہیم علیہ السلام  پر برکت نازل کی، تو بزرگی والاقابل تعریف ہے۔

اےاللہ !خلفاء راشدین اور ہدایت یافتہ اماموں ابو بکر و عمر ، عثمان و علی اور و تابعین اور ان کی اچھے سے پیروی کرنے والوں سے راضی ہو جا، اے سب سے بہتر در گزر کرنے والے اور معاف کرنے والے۔

اے اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا کر ، دین کے قلعے کی حفاظت فرما، اس ملک کو اور مسلمانوں کے بقیہ تمام ملکوں کو پر امن اور پر سکون،خوش حال و فارغ البال بنا۔

اے اللہ !ہمیں اپنے ملکوں میں امن سے نواز ، ہمارے سربراہوں اور حکمرانوں کو تو فیق یاب کر حق کے ساتھ ہمارے سربراہ اور حکمراں کی تائید کر ، اے اللہ !تو خادم حرمین شریفین ہمارے سر براہ اور ان کے ولی عہد کو اس کی توفیق دے جس میں اسلام کی عزت اور مسلمانوں کی بھلائی ہو اور جس میں ملک اور بندوں کی بھلائی ہو اور مسلمانوں کے تمام حکمرانوں کو اسی کی توفیق دے۔

 اے اللہ !ہمارے جوانوں اور خواتین کو دہشت گردی اور منشیات کے شر سے محفوظ فرما اور ان کو ان کے گھر والوں کے لئے سکون اور اپنے وطنوں کے لیے خوشی کا سامان بنا۔

 اے اللہ !ہمارے جوانوں اور خواتین کو دہشت گردی اور منشیات کے شر سے محفوظ فرما اور ان کو ان کے گھر والوں کے لئے سکون اور اپنے وطنوں کے لیے خوشی کا سامان بنا۔

 اے اللہ! ان کے شہیدوں کو قبول کر ، ان کے مریضوں کو شفا دے ، ان کے زخمیوں کو عافیت دے، ان کے نشانے اور رائے درست کر، ان کی تو اپنے اور ان کے دشمن کے خلاف مدد کر۔

اے اللہ!مسلم حضرات و خواتین کو بخش دے ، ان کے دلوں میں الفت ڈال ، ان کے مابین صلح و آشتی کرا دے، انہیں سلامتی کی راہوں پر چلا، انہیں ظاہر و باطن فتنوں سے بچا ، ان کے احوال درست کر ، ان کی جانوں کی حفاظت فرما اور ہر جگہ کمزوروں کے لیے تو ہو جا۔

 اے اللہ! غمزدوں کے غم دور کر ، پریشان حال لوگوں کی پریشانی ختم کر ، قرض داروں کے مرض ادا کر دے ، ہمارے اور مسلمانوں کے مریضوں کو شفا دے۔

 اے اللہ !مسلمانوں کے مقدسات کی، چال چلنے والوں کی چال، مکر کرنے والوں کے مسکر اور ظالموں کی زیادتی سے حفاظت فرما۔

 اے اللہ !انہیں تاقیامت بلند و معزز رکھ۔

اے اللہ !جو ہمارے ساتھ اور مسلمانوں کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے ، اسے خود ہی میں الجھا دے ، اس کے مکر کو اسی کی گردن میں لوٹا دے اور اس کی تدبیر کو اسی کی تباہی بنا دے، اے دعا کے سننے والے۔

 اے اللہ !کتاب و سنت  پر امت کو متحد کر دے، اے فضل و بخشش اور احسان و کرم والے۔

اے اللہ ! میں تجھ سے جلد بدیر ملنے والی ہر قسم کی خیر مانگتا ہوں، جس کا مجھے علم  ہے اور جس کا مجھے علم نہیں۔

 اے اللہ! میں جلد یا بدیر سے آنے والے ہر قسم کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں، جس کا مجھے علم ہے، اور جس کا مجھے علم نہیں، اور ہم تجھ سے نیک اعمال کرنے، برائیوں کو چھوڑنے اور غریبوں سے محبت کرنے کا سوال کرتے ہیں، ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما، تو اگر کسی قوم کو فتنہ میں مبتلا کرنے کا ارادہ کرے تو ہمیں فتنہ میں پڑے بغیر اٹھالے۔

خطبة الجمعة مسجدالحرام: فضیلة الشیخ الدکتورعبدالرحمٰن السُدیس حفظه اللہ
20ذوالقعدۃ بتاریخ 09 جون 2023

    فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن بن عبدالعزیز السُدیس حفظہ اللہ: آپ 10 فروری 1960ء کو پیدا ہوئے ۔ کعبہ کے ائمہ میں سے ایک ممتاز نام الشیخ عبدالرحمن بن عبدالعزیز السدیس حفظہ اللہ کا ہے ، جن کی آواز دنیا بھر میں گونجتی ہے اور یہ سعادت 1984ء سے آپ کو حاصل ہے ، کم و بیش دس سال سے زائد عرصے سے آپ مسجد حرام ، اور مسجد نبوی کےا مور کے رئیس بھی ہیں ۔