مختصر مسائلِ قربانی

قربانی کی تعریف:

عید الاضحیٰ کے موقع پر جن جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے انہیں’’ اُضحِیَۃ ‘‘کہتے ہیں اور اس کی جمع ’’ اَضاحی ‘‘ ہے۔

اور قربانى: ایام عید الاضحیٰ یعنی دس ذو الحجہ، یوم النحر بعد نمازِ عید سے لیکر ایام التشریق یعنی14 ذو الحجہ عید کے چوتھے دن کی مغرب تک کے درمیان “بهيمة الأنعام” (اونٹ ، گائے ، بکرے، بیل، بھیڑ، دنبہ) میں سے کسی بھی جانور کو اللہ تعالی کا تقرب و رضا حاصل کرنے کے لیے ذبح کرنے کو قربانی کہا جاتا ہے۔1

قربانی کرنے کی مشروعیت:

قربانی دینِ اسلام کے شعائر میں سے ایک اہم شعار ہے۔ یہ انبیاء علیہم السلام کے والدِ محترم سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی نا صرف سنّتِ مطہّرہ ہے بلکہ اُن کی ملّت میں سے ہے جس کی اتباع و پیروی کا ہمیں حکم دیا گیا ہے لہٰذا اس کی مشروعیت (جائز و مسنون ہونا) کتاب اللہ اور سنتِ نبویہ ﷺ اور مسلمانوں کے اجماع و اتفاق سے ثابت ہے۔

قرآنِ مجید سے دلائل:

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:

فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ

الکوثر – 2

’’پس اپنے رب ہی کے لیے نماز ادا کر اور قربانی کر‘‘۔

ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی ٰنے کچھ اس طرح فرمایا:

قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ‎﴿١٦٢﴾‏ لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ

الانعام – 162/163

’’آپ( ﷺ) کہہ دیجیے یقینا ًمیری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا مالک ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں ‘‘۔

اور ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے اس طرح ارشاد فرمایا:

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۗ فَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا ۗ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ

الحج – 34

’’اورہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے تاکہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ تعالی کا نام لیں جو اللہ تعالی نے انہیں دے رکھے ہیں ، سمجھ لو! کہ تم سب کا معبود والہ برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہو جاؤ اور عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے‘‘ ۔

احادیثِ رسول ﷺ سے دلائل:

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے دو سیاہ وسفید مینڈھوں کی قربانی دی انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور( ذبح کرتے ہوئے ) ’’بسمِ اللہِ اللہُ اَکبَرُ ‘‘ کہا اور اپنا پاؤں ان کی گردن پر رکھا۔2

سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ: ’’ نبی کریم ﷺ نے مدینہ طیبہ میں دس برس قیام فرمایا اور آپﷺ ہر برس قربانی کیا کرتے تھے‘‘۔3

عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے مابین قربانیاں تقسیم کیں توعقبہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حصہ میں جذعہ (ایک سال کا جانور) آیا تو وہ کہنے لگے اے اللہ کے رسول ﷺ! میرے حصہ میں جذعہ آیا ہے تو نبی ﷺ نے فرمایا: تم اس کو ہی ذبح کر دو۔4

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالی ٰعنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے بھی نماز ( عید ) کے بعد ( قربانی کا جانور ) ذبح کیا تو اس کی قربانی ہوگئی اور اس نے مسلمانوں کی سنت پرعمل کرلیا‘‘۔5

معلوم ہوا کہ نبیِ کریمﷺ نے باقاعدگی سے ہر سال خود بھی قربانی کے جانور ذبح کیے اور اس کا حکم و ترغیب بھی دی اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم بھی باقاعدگی کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں بھی اور آپﷺ کی وفاتِ اطھر کے بعد بھی قربانی کا اہتمام کرتے رہے اور بزبانِ نبی کریمﷺ قربانی کرنا مسلمانوں کی سنت یعنی ان کا طریقہ ہے ۔

لہذا مسلمانوں کا ہر دور سے لیکر آج تک قربانی کی مشروعیت پر اجماع و اتفاق ہے جیسا کہ کئی اہلِ علم نے اس اجماع و اتفاق کو نقل بھی کیا ہے۔6

ہر سال قربانی رسول اللہﷺ کا اپنی امت کو حکم:

رسول اللہﷺ نے اپنی امت کو یہ تاکید فرمائی کہ وہ ہر سال قربانی کی سنت ادا کریں جیسا کہ مخنف بن سلیم سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اے لوگو ! ہر سال ہر گھر والے پر قربانی ہے۔7

بقرعید کے دن نمازِ عید کے بعد سب سے پہلا کام:

سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا :’’اس (بقرعید) دن ہم پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ نمازِ عید ادا کرتے ہیں پھر واپس آکر قربانی کرتے ہیں. جس شخص نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کو پالیا‘‘۔8

استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرنے والے:

رسول اللہﷺ نے استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں پر شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا :

من کان له سعة فلم یضح فلا یقربن مصلانا

 ’’جو آسودہ حال ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب تک نہ آئے‘‘۔9

قربانی کا حکم:

قربانی کے حکم میں اہلِ علم کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ قربانی واجب ہے یا سنّت مؤکّدہ؟۔ دلائل کی رُو سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کی استطاعت رکھنے والے کو قربانی نہیں چھوڑنی چاہیے کیونکہ رسول اللہﷺ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور ہر زمانہ میں اہلِ اسلام نے اس مبارک اسلامی شعیرہ پر پابندی کے ساتھ عمل کیا ہے اور جو قربانی کی طاقت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتا اُس کے لیے درجِ ذیل وعید ہے ۔

نبی ﷺ کا فرمان ہے : جو قربانی کرنے کی گنجائش رکھے اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔10 البتہ استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والے کو گناہ گار قرار دینے کے لیے صریح دلیل کا ہونا ضروری ہے۔ واللہ اعلم

قربانی کی حکمت اور مقاصد:

قربانی کرنا یہ ہمیں ہمارے اللہ کا حکم ہے اور انبیاء علیہم السلام کے والد سیدنا ابراہیم کی ملّت میں سے ہے جس کی اتباع و پیروی کے ہم پابند ہیں اور پھر یہ وہ مبارک عمل ہے جس پر ہمارے پیارے و عظیم پیغمبر جناب محمد رسول اللہﷺ نے ہمیشگی و مداومت کی اور پھر آپﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنھم اور پھر ہر زمانے میں مسلمانوں کا اس پر عملی اجماع رہا ہے لہٰذا قربانی کا اوّلین مقصد اللہ تعالیٰ ، اُس کے پیارے حبیب ﷺ کی اقتداء و پیروی کرنا ہے اور پھر یہ تمام مسلمانوں کا طریقہ رہا ہے۔ اس کے بعد قربانی کا مقصد اور حکمت خود میں اخلاص اور تقویٰ کا جذبہ بیدار کرنا ہے کہ ہمارے اندر محض اللہ کی رضاء و خوشنودی اور اُس کا تقرّب حاصل کرنے کے لیے ہمہ وقت اپنا سب کچھ، وقت، صلاحیت، مال و اولاد ، اپنی محبوب ترین شئ حتیٰ کہ اپنی ذات تک قربان کرنے کا احساس ناصرف پیدا و اجاگر ہو بلکہ خود کو عملی طور پر اس کے لیے تیار بھی کیا جائے۔

اس لیے یاد رہنا چاہیے کہ قربانی نمود و نمائش ، پیسہ یا دولت کے اظہار یا معاشرے و سوسائٹی میں اپنی حیثیت کی دھاگ بٹھانے کے لیے نہیں ہے اور نا ہی قربانی صرف جانور ذبح کرنے اور گوشت کھانے کا نام ہے بلکہ یہ ایثار و جاں نثاری ، تقوی و طہارت ،مومنانہ صورت و سیرت اور مجاہدانہ کردار اپنے اندر پیدا کرنے کا نام ہے۔ اس لئے قربانی کرنے والوں کو اپنی نیت خالص اور قربانی صرف لِوَجہِ اللہ کرنی چاہئے۔ اس کے مقاصد کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاۗؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ

الحج – 37

’’ اللہ تک تمہاری قربانیوں کا گوشت یا خون ہر گز نہیں پہنچتا بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔

اور اللہ تعالی کا فرمان ہے :

قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

الانعام – 162

’’ آپ(ﷺ) فرما دیجئے کہ بے شک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب خالص اللہ ہی کے لئے ہے جو سارے جہاں کا مالک ہے‘‘۔

اور نبی ﷺ کا فرمان ہے :

إنَّ اللَّهَ لا ينظرُ إلى أجسادِكُم ، ولا إلى صورِكُم ، ولَكِن ينظرُ إلى قلوبِكُم

صحیح مسلم : 2564

 ’’بے شک اللہ تمہارے جسموں اور تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے‘‘ ۔

لہٰذا جو قربانی اس مقصد کو پورا کرنے سے قاصر ہو وہ عند اللہ مقبول نہیں ہے ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں قربانی کا مقصد و حکمت سمجھنے اور اسے حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

قربانی کی فضیلت:

قربانی کی فضیلت کو سمجھنے کے لیے یہی کافی ہے کہ قربانی کے مقاصد بہت بلند مقام ہیں اور اس کی حکمتیں بڑی عظیم ہیں جنہیں تفصیلاً گذشتہ سطور میں ذکر کیا گیا لہٰذا جس عمل کے مقاصد و حکمتیں اتنی بلند و عظیم ہوں وہ عمل کتنا عظیم ہوگا ۔

 پھر قربانی ابو الانبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے اور اُن کی یہ سنّت اللہ کو اتنی محبوب ہے کہ اُس نے قیامت تک کے لیے اسے زندہ کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْاٰخِرِيْنَ

الصافات – 108

’’اور ہم نے اس (سنت) کو بعد والوں کے لئے باقی رکھا‘‘۔

 نیز اللہ کے سب سے عظیم و محبوب رسول جناب محمّدﷺ نے ناصرف اس سنّت پر عمل کیا بلکہ اس پر ہمیشگی اختیار فرمائی اور آج تک اہلِ اسلام پوری دنیا میں اس سنّت کو اجاگر کرتے ہیں۔

 اور پھر یہ بھی قابلِ غور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سال کے تمام دنوں میں اُس دن کو ہی سب سے افضل بنا دیا کہ جس دن اللہ کی رضا کے لیے اہلِ اسلام جانور کو قربان کرکے اُسکا خون بہاتے ہیں اور اُسے نام ہی ’’یوم النحر‘‘ قربانی کا دن دیا گیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو اس دن قربانی سے زیادہ کوئی عمل محبوب و پسندیدہ نہیں۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :

أعظمُ الأيامِ عند اللهِ يومُ النَّحرِ

صحیح الجامع: 1064

 ’’اللہ کے نزدیک سب سےعظیم دن یوم النحر(قربانی کا دن)‘‘ ہے۔

قربانی کرنے والے خیال رکھیں!!!

جو قربانی کا ارادہ کرے وہ یکم ذو الحجہ ، ذو الحجہ کا چاند نظر آنے سے لیکر قربانی کا جانور ذبح ہونے تک اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :

إذا دخل العَشْرُ ، وعندَهُ أضحيةٌ ، يريدُ أن يُضحِّي ، فلا يأخذَنَّ شعرًا ولا يُقَلِّمَنَّ ظفرًا

صحیح مسلم

 ’’جب ذو الحجہ کا عشرہ آجائے اور کسی کے پاس قربانی کا جانور ہو جو اس کی قربانی دینا چاہتا ہو تو اپنے (جسم کے کسی بھی حصے کے) بال اور ناخن نہ کاٹے۔

بعض اہلِ علم کے نزدیک: جو قربانی کرنے کی طاقت نہ رکھے اگر وہ بھی بال و ناخن کی پابندی کرے تو باذن اللہ قربانی کا اجر پائے گا۔ ان شاء اللہ ۔ نسائی، ابو داؤد، ابن حبان، دار قطنی، بیہقی اور حاکم سمیت متعدد کتبِ حدیث میں یہ حدیث موجود ہے ۔ سیدناعبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اضحیٰ کے دن کے متعلق حکم دیا گیا ہے کہ اسے بطورِ عید مناؤں جسے اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے خاص کیا ہے ۔ ایک آدمی نے کہا: فرمائیے کہ اگر مجھے دودھ کے جانور کے سوا کوئی جانور نہ ملے تو کیا میں اس کی قربانی کر دوں ؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں! بلکہ اپنے بال کاٹ لو، ناخن اور مونچھیں تراش لو اور زیر ناف کی صفائی کر لو ۔ اﷲ کے ہاں تمہاری یہی کامل قربانی ہو گی۔11

اگرچہ اس حدیث کو علّامہ البانی رحمہ اللہ نے ایک راوی عیسی بن ہلال صدفی کی وجہ سے ضعیف کہا ہے مگر دوسرے محدثین سے ان کی توثیق بھی ثابت ہے ۔ واللہ اعلم

نوٹ:

  • بال و ناخن کی پابندی سے متعلق یہ پابندی صرف قربانی کرنے والوں کی طرف سے ہے، گھر کے دوسرے افراد مستثنی ہیں لیکن سبھی پابندی کرنا چاہیں تو اچھی بات ہے ۔
  • دوسری بات یہ ہے کہ وہ آدمی جس نے غفلت میں چالیس دنوں سے بال و ناخن نہیں کاٹے تھے اور اس کو قربانی دینی ہے اس حال میں کہ ذوالحجہ کا چاند بھی نکل آیا ہے ایسا شخص واقعی بہت بڑا غافل ہے۔ اگر بال و ناخن تکلیف کی حد تک بڑھ گئے ہوں تو زائل کرلے۔ اللہ معاف کرنے والا ہے۔ وگرنہ چھوڑ دے۔
  • قربانی دینے والے نے بھول کر اپنا بال یا ناخن کاٹ لیا تو اس پہ کوئی گناہ نہیں لیکن جس نے قصداً بال یا ناخن کاٹا تو اسے اپنے اس عمل پر استغفار کرنا چاہیے۔ واللہ اعلم

قربانی کی شرائط :

قربانی کے لیے چھ شرائط کا مکمّل ہونا ضروری ہے:

پہلی شرط: وہ قربانی ’’بهيمة الأنعام ‘‘میں سے ہو جوکہ اونٹ ، گائے ، بھیڑ ،بکرے ہیں ۔

اس طرح 8/ قسم کے جانور’’بهيمة الأنعام ‘‘ میں سے ہیں جن کی قربانی جائز ہے۔ ان میں بکرا، بهیڑ، گائے اور اونٹ کا نر و مادہ شامل ہے۔

کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُواْ اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِّن بَهِيمَةِ الاَنْعَـامِ

الحج – 34

’’اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے تاکہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ تعالی کا نام لیں جو اللہ تعالی نے انہیں دے رکھے ہیں ‘‘ ۔

اورآیت میں : بهيمة الأنعام سے مراد اونٹ گائے بھیڑ بکرے ہیں۔ عرب کے ہاں بھی یہی معروف ہے اور سیدنا حسن، قتادہ رحمہما اللہ وغیرھما نے بھی یہی کہا ہے ۔

دوسری شرط: قربانی کا جانور شرعی محدود و متعیّن عمرکا ہونا ضروری ہے ۔

 وہ اس طرح کہ : بھیڑ کی نسل میں جذعہ ہونا چاہیے یعنی: جو کم از کم مکمل آدھا سال کا ہو چکا ہو ورنہ ایک سال مکمل ہو تو زیادہ بہتر ہے)۔

اور بھیڑ کے علاوہ دیگر جانوروں(اونٹ ، گائے ، بکرے) میں سے ثنیہ(مُسِنَّہ) ہونا ضروری ہے کیونکہ نبیﷺ کا فرمان ہے:

’’مُسِنَّہ ( یعنی دودانت والا ) کے علاوہ کوئی اور ذبح نہ کرو لیکن اگر تمہیں مسنہ نہ ملے تو بھیڑ کا جذعہ ذبح کرلو‘‘۔12

مُسِنَّہ: ثنیہ اور اس سے اوپر والی عمر کا ہوتا ہے اور جذعہ اس سے کم عمر کا ۔ لہٰذا:

 اونٹ: پورے پانچ برس کا ہو تو وہ ثنیہ کہلائے گا ۔

گائے: کی عمر دو برس مکمل ہو تو وہ ثنیہ کہلائے گی ۔

بکری : جب ایک برس کی مکمّل ہو تو وہ ثنیہ کہلائے گی ۔ اور جذعہ : (باختلاف العلماء) کم از کم آدھا ورنہ ایک سال مکمل کرنے والے جانور کو کہتے ہیں ۔

لہذا اونٹ گائے اور بکرے میں ثنیہ سے کم عمر کے جانور کی قربانی نہیں ہوگی اور اسی طرح بھیڑ میں سے جذعہ سے کم عمرکے جانور کی قربانی صحیح نہیں ہوگی۔ واللہ اعلم۔13

تیسری شرط: قربانی کا جانور چار عیوب سے پاک ہونا چاہیے:

قربانی کا جانور مندرجہ ذیل عیوب سے پاک ہونا چاہیے :

نبی کریمﷺ سے جب یہ پوچھا گیا کہ قربانی کا جانور کن عیوب سے صاف ہونا چاہیے تو نبی ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرکےفرمایا :

(قربانی کا جانور)چارعیوب سے (پاک ہونا چاہیے) : وہ لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن واضح ہو اور آنکھ کے عیب والا جانور جس کی آنکھ کا عیب واضح ہو اور بیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو اور وہ کمزور وضعیف جانور جس کا گودا ہی نہ ہو (ایسے جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے) ۔

اسے امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ نے موطا میں براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے ۔ اور دیکھیے: سنن ابی داود: 2802،صحیح، اور اسے امام البانی رحمہ اللہ نے “ارواء: 1148” میں صحیح کہا ہے)

آنکھ میں واضح اور ظاہرعیب :

 یعنی جس کی آنکھ بہہ، ضائع چکی ہو یا پھر بٹن کی طرح باہر نکلی ہوئی ہو یا پھر آنکھ مکمل اور ساری سفید ہو جو اس کے بھینگے پن پر واضح دلالت کرتی ہے۔ لہٰذا آنکھیں اچھی طرح دیکھ لی جائیں کہ کہیں آنکھیں کانی نہ ہوں جن کا کانا پن ظاہر ہو۔ورنہ قربانی جائز نہیں۔ (نیز کان بھی اوپر نیچے سے کٹا ہوا نہ ہو اور کان لمبائی میں بھی چرا ہوا نہ ہو ، نہ ہی کان میں گول سوراخ ہو۔اور کان اور سینگ آدھا یا آدھے سے زیادہ کٹا ہوا نہ ہو)۔14

واضح بیمار جانور :

 اس سے مراد وہ بیماریاں ہیں جو جانوروں پر ظاہر و واضح ہوتی ہیں مثلا: وہ بخار جس کی بنا پر جانور چرنا ہی ختم کردیتا ہے اور اس کے چرنے کی چاہت ہی ختم ہوجاتی ہے اور اسی طرح واضح اور ظاہری خارش جواس کے گوشت کو خراب کردینے والی ہو یا اس کی صحت پر بُری طرح اثر انداز ہو رہی ہو اور گہرا زخم جو اس کی صحت پر اثر انداز ہوتا ہو وغیرہ وغیرہ ۔ اس طرح کے جانور کی قربانی جائز نہیں۔

واضح طور پر پایا جانے والا لنگڑا پن:

وہ لنگڑا پن جو اسے سیدھا اور صحیح چلنے سے روکے اور مشکل سے دوچار کرے ۔ ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں۔

گودے کو زائل کرنے والی کمزوری :

جانور اتنا بوڑھا ہو جائے یا اس کو ایسی کمزوری لاحق ہو جائے جو اُس کی ہڈیوں کا گودا ختم کردے اور وہ جانور بہت زیادہ نحیف و کمزور ہو جائے۔ لہذا یہ چارعیب ایسے ہیں جن کے پائے جانے کی بنا پر قربانی نہیں ہوتی اور ان چارعیوب کے ساتھ اس طرح کے اور بھی عیوب ملحق ہوتے ہیں یا وہ عیوب جو اس سے بھی شدید ہوں تو ان کے پائے جانے سے بھی قربانی نہیں ہوتی. ہم انہیں ذیل میں ذکر کرتے ہیں:

(اندھا پن) وہ جانور جس کو سرے سے نظر ہی نہ آتا ہو ۔

وہ جانور جس نے اپنی طاقت سے زیادہ چر لیا ہو جس سے وہ پھول گیا ہو. اس کی قربانی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک وہ صحیح نہیں ہو جائے اوراس سے خطرہ نہیں ٹل جاتا ۔

وہ حاملہ جانور جسے جننے میں کوئی مشکل درپیش ہو جب تک اس سے خطرہ زائل نہ ہو جائے ۔

گلا گھٹ کر یا بلندی سے نیچے گِر کَر یا اسی طرح کسی اور وجہ سے زخم وغیرہ لگا ہوا جانور جس سے اس کی موت واقع ہونے کا خدشہ ہو، اس وقت تک ایسے جانور کی قربانی نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس سے خطرہ زائل نہیں ہو جاتا ۔

کسی آفت کی وجہ سے چلنے کی سکت نہ رکھنے والا جانور ۔

اگلی یا پچھلی ٹانگوں میں سے کوئی ایک ٹانگ کٹی ہوئی ہو ۔

جب ان چھ عیوب کوحدیث میں بیان کردہ چارعیوب کے ساتھ ملایا جائے تو ان کی تعداد دس ہوجائے گی ۔

چوتھی شرط: وہ جانور قربانی کرنے والی کی ملکیت ہو اور شرعی طور پر حاصل کردہ ہو۔

 لہذا جو جانور کسی کی ملکیت ہی نہ ہو یا شرعی طور پر اُسے حاصل بھی نہ ہو اس کی قربانی صحیح نہیں۔ مثلا: غصب یا چوری کردہ جانور اور اسی طرح باطل اورغلط دعوے سے لیا گیا جانور۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی معصیت و نافرمانی کے ساتھ اس کا تقرب حاصل نہیں ہوسکتا ۔

اور یتیم کے لیے اس کے مال سے اُس کے ولی کی جانب سے قربانی کرنا صحیح ہے جب عام طور پر ایسا ہوتا ہو اور نہ کرنے سے یتیم کی دل آزاری ہوتی ہو ۔

 اوراسی طرح وکیل کی اپنے موکل کے مال سے اُس کی اجازت سے قربانی کرنی صحیح ہوگی ۔

پانچویں شرط: اس جانور کے ساتھ کسی دوسرے کا حق مُعَلَّق نہ ہو لہذا گِروی رکھے گئے جانور کی قربانی صحیح نہیں ہے ۔

چھٹی شرط: قربانی کو مقررہ شرعی وقت کے اندر اندر ذبح کیا جائے:

 اور یہ وقت دس ذی الحجہ کو نمازِعید کے بعد سے شروع ہو کر ایامِ تشریق (13،12،11) کے آخری دن(13 ذو الحجہ، بقرعید کے چوتھے دن) کے سورج غروب ہونے تک باقی رہتا ہے تو اس طرح قربانی و ذبح کرنے کے چار دن ہیں۔ عید کے دن نمازِ عید کے بعد اور اس کے بعد تین دن یعنی گیارہ ، بارہ اور تیرہ ذو الحجہ کے ایام ۔

لہذا جس نے بھی مذکورہ وقت کے درمیان قربانی کی تو اُس کی قربانی صحیح ہوگی ۔

نمازِ عید سے پہلے یا تیرہ ذی الحجہ کوغروبِ شمس کے بعد قربانی کرنا:

اور جس نے بھی نمازِعید سے قبل ہی قربانی ذبح کرلی یا پھر تیرہ ذی الحجہ کوغروبِ شمس کے بعد قربانی کی تو اس کی یہ قربانی صحیح نہیں ہوگی ۔

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے: وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: “جس نے نماز (عید ) سے قبل ذبح کرلیا وہ صرف گوشت ہے جو وہ اپنے اہل وعیال کو پیش کر رہا ہے اور اسکا (عید کی مسنون) قربانی سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔15

لیکن اگر کسی کو ایامِ تشریق 13 ذو الحجہ سے قربانی کو تاخیر کرنے کا کوئی عذر پیش آجائے مثلا: اس کی قربانی کا جانور اس سے بھاگ گیا اور اس میں اس کی کوئی کوتاہی نہیں تھی اور وہ جانور ایامِ تشریق کے بعد واپس ملے یا اس نے کسی کو قربانی ذبح کرنے کا وکیل بنایا تو وکیل اسے ذبح کرنا ہی بھول گیا یا رہ گیا اور وقت گزر گیا تو اس عذر کی بنا پر وقت گزرنے کے بعد اُس کے لیے ذبح کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ نماز کے وقت میں سوئے ہوئے یا بھول جانے والے شخص پر قیاس کرتے ہوئے کہ وہ جب سو کر اٹھے یا جب اسے یاد آئے تو نماز ادا کرے گا ۔ واللہ اعلم

نمازِ عید سے قبل ذبح کرنے والا کیا کرے؟

سیدنا جندب بن سفیان البَجَلِی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبیﷺ کے پاس حاضر تھا تو انہوں نے فرمایا:’’جس نے نماز عید سےقبل ذبح کرلیا وہ اس کے بدلے میں دوسرا جانور ذبح کرے‘‘۔16

دن میں قربانی کا وقت:

وقتِ محددہ کے اندر دن یا رات میں کسی بھی وقت قربانی ذبح کی جاسکتی ہے البتہ قربانی دن کے وقت ذبح کرنا اَولی اور بہتر ہے ۔

 اور اسی طرح عید کے دنوں میں عید والے دن نمازِ عید کے خطبہ کے بعد ذبح کرنا افضل اور اولیٰ ہے اور پھر اس کے بعد والے یعنی دوسرے دن ، پھر تیسرے دن ، پھر چوتھے دن میں ۔یعنی جتنی جلدی ذبح کی جائے بہتراور افضل ہوگی کیونکہ اس میں خیر و بھلائی کرنے میں سبقت ہے۔ واللہ اعلم۔17

اور مستقل فتاوى كمیٹى كے فتاوى جات میں ہے: ’’اہل علم كے صحیح قول كے مطابق حجِ تمتع اور حجِ قِران كى قربانى كرنے كے چار دن ہیں۔ ایک عید والا دن اور تین ایام اس كے بعد اور قربانى كا وقت چوتھے روز كا سورج غروب ہونے پر ختم ہو جاتا ہے‘‘۔18

جانور کو غیر اللہ کے لیے ذبح کرنا:

جانوروں کو غیر اللہ کے لیے ذبح کرنا شرک و حرام ہے۔ خواہ وہ کسی نبی ، ولی ، پیر یا بزرگ ہی کے لیے کیوں نا کیا جائے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس آدمی پر لعنت کرے جو اپنے والد پر لعنت کرے اور اللہ تعالیٰ اس آدمی پر بھی لعنت کرے جو غیر اللہ کے لیے ذبح کرے”۔19

ایک فرد کی جانب سے ایک جانور کی قربانی پورے گھرانے کو کفایت کر جاتی ہے:

قربانی کا ایک جانور خواہ بکرا/بکری ہی کیوں نہ ہو ایک گھرانہ کے تمام افراد کی طرف سے کافی ہے۔20

 ایک گھرانے کا مطلب یہ ہے کہ گھر کےتمام افراد قربانی کرنے والے کے ساتھ ہی رہتے ہوں اور قربانی کرنے والا ان سب کے خرچہ کا ذمہ دار ہو نیز وہ سارے رشتہ دار ہوں۔ جس کا چولہا الگ ہو وہ الگ قربانی کرے گا۔

عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا: رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں قربانیاں کیسے ہوتی تھیں؟ انہوں نے کہا: ایک آدمی اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا، وہ لوگ خود کھاتے تھے اور دوسروں کو کھلاتے تھے یہاں تک کہ لوگ (کثرتِ قربانی پر) فخر کرنے لگے اور اب یہ صورت حال ہوگئی جو دیکھ رہے ہو۔21

گائے اور اونٹ کے حصے :

بڑے جانور گائے، بیل اور اونٹ میں ایک مکمل گھرانے کے لوگ ایک حصہ لے کر شریک ہوسکتے ہیں۔ گائے کی قربانی میں سات اور اونٹ کی قربانی میں دس افراد/گھرانے تک حصہ دار بن سکتے ہیں۔22

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھماسے رایت ہے کہ : ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ سفر میں تھے کہ (عید)اضحیٰ آگئی تو ہم گائے میں سات حصہ دار ہوگئے اور اونٹ میں دس۔23اونٹ میں دس افراد کے حوالے سے بعض روایات ہیں جو سنداً ضعیف ہیں لیکن شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔ نیز بخاری (حدیث: 5498) کی روایت اس مضمون کی مؤید ہیں۔ جس سے حدیث کی صحت کی جانب قوی ہوجاتی ہے۔

قرض لے کر یا جو مقروض ہو اس کا قربانی کرنا :

جس میں قربانی کی وسعت و طاقت ہو وہی قربانی کرے اور جو قربانی کی طاقت نہیں رکھتا اسے رخصت ہے. اس لئے قربانی کی خاطر قرض لینا ضروری نہیں ۔ جو ہمیشہ سے قربانی کرتے آ رہا ہو اچانک غریب ہوجائے یا قرضے میں ڈوب جائے اسے مایوس نہیں ہونا چاہئے اور قرض کے بوجھ سے قربانی نہیں کرنا چاہئے بلکہ فراخی و وسعت کے لئے اللہ سے دعا کرنا چاہئے۔ اگر کوئی معمولی طور پر مقروض ہو، قرض چکانے اور قربانی کرنے کی طاقت رکھتا ہو اسے قربانی کرنی چاہئے ۔اسی طرح اچانک عید الاضحی کے موقع پر کسی کا ہاتھ خالی ہوجائے اور کہیں سے پیسے آنے کی بھی امید ہو اور ایسے شخص کو بآسانی قرض مل جائے تو قربانی کرنی چاہئے کیونکہ اس کے پاس پیسہ ہے مگر ہاتھ میں موجود نہیں ہے ۔ واللہ اعلم

خصی جانور کی قربانی بلا کراہت جائز ہے :

 جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دو مینڈھے لائے گئے جو “أقرنين أملحين، عظيمين، موجوئين”. تھے’’یعنی مینڈھے سینگ دار، چتکبرے اور خصی تھے۔24۔ ثابت ہوا خصی جانور کی قربانی بلا کراہت جائز ہے‘‘

جانور کو ذبح کرنے کے آداب :

  • جانور ذبح کرنے والا عاقل و بالغ مسلمان ہو اور ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا ضروری ہے ۔
  • قربانی کے جانور کو گھسیٹ کر ذبح کرنے کی جگہ نہ لایا جائے۔اور اسے تیز چھری کے ساتھ ذبح کیا جائے۔ ذبح سے قبل اسے پانی پلانا۔ یہ امور صحیح مسلم ’’کتاب الصيد والذبائح‘‘ میں موجود روایت سے ثابت ہوتے ہیں۔ شداد بن اوس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم جانور کو ذبح کرو تو عمدگی سے ذبح کرو اور ذبح کرنے والا اپنی چھری کو تیز کرے اور اپنے جانور کو آرام پہنچائے۔25 نیزچھری وغیرہ جانور کو دِکھا کر تیز نہیں کرنی چاہیے۔26 جانور کو صرف کسی خون بہانے والے آلہ سے ہی ذبح کیا جائے. ذبح میں گلہ یعنی سانس کی نلی اور کھانے کی رگیں کاٹی جائیں۔
  • اونٹ کو کھڑا کر کے نحر کرنا چاہیے جبکہ دوسرے جانوروں کو لٹا کر اپنا قدم اس کے پہلو پر رکھ کر ذبح کرنا چاہیے. یہی سنت ہے۔27
  • جانور کو قبلہ ُرخ لٹانا سنت ہے۔28 البتہ اگرغیر قبلہ پہ ذبح کرلیا گیا ہو تو قربانی ہو جائی گی۔
  • ذبح کرتے وقت تکبیر ان الفاظ میں پڑھی جائے:’’بسم اللہ واللہ اکبر‘‘29

مندرجہ ذیل دعا بهی پڑھنا سنت سے ثابت ہے :

إنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَاْلأَرْضِ حَنِيْفًا وَمَآ أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ، إِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلهِ رَبِّ العَالَمِيْنَ، لَاشَرِيْكَ لَهُ وَ بِذالِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ ، بِاسْمِ اللهِ وَ اللهُ أَكْبَرُ۔أَللّٰهُمَّ هٰذَا مِنْكَ وَ لَكَ أَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّيْ (وَمِنْ أَهْلِ بَيْتِيْ)

اس حدیث کو شیخ البانی نے مشکوۃ کی تخریج میں صحیح قرار دیا ہے اور شعیب ارناؤط نے اس کی تحسین کی ہے۔

  • جانوروں کو خود ذبح کرنا افضل ہے۔30 البتہ اگر خود ذبح کرنا مشکل ہو تو کوئی بھی اس کی جگہ ذبح کرسکتا ہے۔
  • بے نمازی کی قربانی اور اس کے ذبیحہ سے متعلّق جواز و عدم جواز سے متعلق علماء میں اختلاف ہے۔ اتنا ضرور سمجھنا چاہیے کہ ترکِ نماز کفر ہے ۔ لہٰذا قربانی کرنے والا یا ذبح کرنے والا اپنے اس عمل سے پہلے توبہ کرے اور آئندہ پابندیِ نماز کا عہد کرے پھر قربانی کرے۔
  • خواتین بھی قربانی کا جانور ذبح کر سکتیں ہیں۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اپنی بیٹیوں کو حکم دیتے کہ وہ اپنی قربانیاں خود ذبح کریں‘‘۔31

قربانی و ذبح سے متعلقہ دیگر متفرّق احکامات:

  • ذبح کرنے والے کی اُجرت کھال یا قربانی کے گوشت کی صورت میں نہیں بلکہ اپنے پاس سے مال کی صورت میں دینی چاہیے کیونکہ نبی ﷺ نے کھال اُجرت پر دینے سے منع فرمایا ہے۔32البتہ تحفہ میں کچھ دینا ممنوع نہیں۔
  • قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے البتہ مستحسن ضرور ہے۔ قربانی کی “اصل” کهانا اور کهلانا ہے. قربانی کا گوشت خود بھی کھائیں، ذخیرہ و جمع کریں، عزیز و اقارب ، دوست و احباب کو ہدیہ بھی دیں اور غربا، مساکین و مستحقین میں صدقہ بھی کریں ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

فَكُلوا مِنها وَأَطعِمُوا القانِعَ وَالمُعتَرَّ‌

الحج – 36

 ’’پس ان (کے گوشت) سے کھاؤ اور نہ مانگنے اور مانگنے والے(دونوں ) کو کھلاؤ‘‘۔

  • قربانی کا گوشت محفوظ ( سٹور) و ذخیرہ جمع بھی کیا جاسکتا ہے۔ فرمانِ رسولﷺ ہے: میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت ذخیرہ کرنے سے منع کیا تھا لیکن اب جتنا ذخیرہ کرنا چاہو کرسکتے ہو‘‘۔33
  • قربانی کی کھال کا مصرف بھی گوشت کی طرح ہی ہے ۔
  • ہدیہ و تحفہ میں دیا گیا قربانی کا جانور یا پیسہ :

آج کل صاحبِ حیثیت و ثروت لوگ یا خیراتی ادارے جانور خرید کر یا اس کی قیمت مستحقین میں تقسیم کرتے ہیں تاکہ وہ بھی قربانی کرسکیں ایسی قربانی کا جانور یا پیسہ مستحقین کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے. اللہ کی توفیق سے ہدیہ کرنے والے اور قربانی کرنے والے دونوں کو اجر و ثواب ملے گا۔نبی ﷺ نے بھی صحابہ کو قربانی عطا فرمائی تھی۔ عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ:

نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ میں قربانی کے جانور تقسیم کئے ۔ سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ کے حصہ میں ایک سال سے کم کا بکری کا بچہ آیا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! میرے حصہ میں تو ایک سال سے کم کا بچہ آیا ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم اسی کی قربانی کر لو۔34

  • قربانی کے جانور کی فضیلت میں کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں ہے لہذا بالوں والے اور موٹے تازے جانوروں کی فضیلت والی احادیث ضعیف ہیں نیز پُلِ صراط پہ موٹا جانور کے تیزی سے گزرنے والی حدیث بھی ضعیف ہے۔
  • قربانی کرنے والے کے لیے صاحبِ نصاب ہونے کی قید لگانا کسی بھی صحیح دلیل سے ثابت نہیں ہے جبکہ نبی کریمﷺ کبھی بھی صاحبِ نصاب نہیں رہے لیکن قربانی رسول اللہﷺ باقاعدگی کے ساتھ ہر سال کیا کرتے تھے۔ بات بس اتنی ہے کہ قربانی کا جانور خریدنے کی طاقت ہو۔
  • عمومی طور پر قربانی کا جانور ذبح کرنے کی بجائے اس کی رقم صدقہ کرنے کا تصور بھی ہرگز صحیح نہیں ہے۔ یہ عمل ہرگز قربانی کا بدل نہیں ہوسکتا لہٰذا اس طرح کے تصورات پھیلا کر لوگوں کو قربانی نہ کرنے کی ترغیب دلانا ناجائز و قابلِ مذمّت عمل ہے۔ البتہ بَوَجَہِ عُذرِ شرعی و مجبوری مخصوص حالات میں ایسا کرنے کا جواز اہلِ علم دیتے ہیں ۔واللہ اعلم
  • فقیر و مسکین ہدیہ میں ملا گوشت بیچ سکتا ہے۔
  • قربانی کے جانور سے متعلق مختلف بدعات و خرافات ہیں۔ الگ الگ علاقہ میں الگ قسم کی بدعات رائج ہیں۔ کہیں جانور کو سجانا، کہیں جانور کی نمائش کرنا (اور یہ شہر و گاؤں ہر جگہ عام ہو رہا ہے) بلکہ ٹی وی اور اخبار پر اس کی خبریں شائع کرنا، ذبح کے وقت جانور کو وضو وغسل کرانا، اس کے خون کو متبرک سمجھ کر گھروں ، سواریوں اور بچوں کے جسموں پر لیپنا یا اسی جانور کے بالوں اور پیشانی پر مَلنا وغیرہ ۔ اس قسم کے کاموں کو ثواب کی نیت سے کرنا گناہ کا باعث ہے کیونکہ جو دین نہیں اسے دین بنا لینا بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے ۔
  • حاملہ جانور کے پیٹ میں موجود بچہ اُس کی ماں کو ذبح کرنے سے حلال ہو جائے گا۔35مذکورہ حدیث کی روشنی میں واضح ہوا پیٹ میں موجود بچہ ہر حال میں حلال ہے۔ نیز مذکورہ حدیث کی روشنی میں جانور کے حاملہ ہونے کے علم ذبح سے پہلے ہوجائے تو اُس کے بعد بھی اُس کی قربانی صحیح ہے۔ واللہ اعلم
  • معاملہ انفرادی قربانی کا ہو یا اجتماعی قربانی کا مندرجہ ذیل امور کا لحاظ رکھا جائے:

خصوصاً اجتماعی قربانی کے حوالے سے اس کا اہتمام کرنے والے لوگوں اور اداروں کو درجِ ذیل امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:

  قربانی کرنے والا صحیح العقیدہ ہو۔ نماز کا پابند ہو۔ حرام کاروبار نہ کرتا ہو یعنی اس کا ذریعہ معاش و کمائی حلال ہو۔

  • اجتماعی قربانی کی صورت میں: ذبح کرتے وقت حصہ دار شریک افراد کا نام لینا ضروری نہیں بلکہ نامزدگی ہی کافی ہے۔اور ان کی موجودگی بھی ضروری نہیں۔ اس سلسلہ میں ایک روایت جو نقل کی جاتی ہے کہ تمام شریک افراد ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑیں اور آخری ساتواں شخص چھری چلائے۔ یہ روایت سنداً صحیح نہیں ہے۔ بلکہ کئی روایات میں گائے میں سات افراد اور اونٹ میں دس افراد کی شرکت کا ذکر آیا ہے۔ ان روایات کا تقاضہ یہ ہے کہ نامزدگی کفایت کرجائے گی البتہ نام لینا مستحب ہے۔ والله أعلم بالصواب۔
  • قربانی سے قبل [بسم الله والله أکبر ] پڑھنا بھول گئے تو قربانی پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ان شاء اللہ۔ البتہ بَحُکمِ باری تعالی:

فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ

الانعام – 118

وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ

الانعام – 121

کے تحت ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر’’بسم اللہ واللہ اکبر‘‘ نہ پڑھنے سے قربانی نہیں ہوگی۔واللہ اعلم

  • مأکول اللحم ( وہ جانور جس کا گوشت کھایا جاتا ہے ) کی بعض چیزیں کھانے کے حوالے سے جنہوں نے بعض اشیاء پر کراہت کا حکم لگایا ہے۔ مثلاً: کپورے ، پِتہ، مثانہ، نر و مادہ کے پیشاب کی جگہ۔ ان مذکورہ اشیاء میں سے کسی کی کراہت قرآن وصحیح حدیث سے ثابت نہیں اس بارے میں جو روایت نقل کی جاتی ہے وہ انتہائی ضعیف ہونے کے سبب قابلِ استدلال نہیں۔
  • قربانی کے جانور کا خون کپڑے پر لگ جائے تو نماز ہوجاتی ہے:

اس بارے میں وہ واقعہ جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے باب “إذا ألقی علی ظهر المصلي قذرٌ أو جيفةٌ” کے تحت ذکر کیا ہے ۔عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بیت اللہ کے پاس نماز ادا کر رہے تھے اور ابو جہل اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور کہہ رہا تھا ’’ کاش کوئی آج بنو فلاں کے جو اونٹ نحر ہوئے ہیں ان کی بچہ دانی لاکر محمد ﷺ کی پیٹھ پر ڈال دے‘‘ (والعیاذ باللہ) بچہ دانی میں خون وغیرہ بھی ہوتا ہے۔ پھر ظالموں اور بدبختوں نے ایسا ہی کیا لیکن آپ ﷺ نے اپنی نماز مکمل کی۔

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا اثر مصنف ابن شیبہ، مصنف عبد الرزاق کے حوالے سے منقول ہے کہ :”عبد اللہ بن مسعود نے اونٹ نحر کیے اور اس کے خون و گوبر لگ جانے کے بعد بھی انہوں نے نماز ادا کی اور وضو نہیں کیا۔ اس حوالے سے یہ اثر موقوف ہے، راجح ہے۔

 رسالہ کے اختتام پرعرض ہے کہ جو کچھ اس کتابچہ میں حق و صحیح بات ہے وہ فقط مِن جانِبِ اللہ اور بتوفیق اللہ ہی ہے اور جہاں کہیں کوئی غلطی یا لغزش ہے اُس پر اللہ تعالیٰ سے معافی و درگزر کے طلبگار ہیں اور قارئین سے گزارش ہے کہ جہاں کہیں کوئی ایسی بات پائیں تو مطلع فرما کر عند اللہ مأجور ہوں ۔

 اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اس کتابچہ کے لکھنے والے، اس کے مواد کو جمع و مرتب کرنے والے، اس دوران جن جن اہلِ علم کی کتب، تحریروں اور فتاویٰ سے استفادہ کیا گیا ہے اور اس کتابچہ کی طباعت میں تعاون کرنے والے، اسے ڈیزائننگ و خوبصورتی سے آراستہ کرنے والے، جس ادارے سے اسے نشر کیا گیا ا ور اس سے کسی بھی طرح کا علمی و تربیتی و اصلاحی فائدہ حاصل کرنے والے، تمام لوگوں کے لیے رَبِّ تعالیٰ اُن کی حسنات میں اضافے، درجات کی بلندی اور دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی کا ذریعہ بنا دے اور اسے صدقہ جاریہ بنائے اور اللہ رب العزت ہم سب کو دین کو سمجھنے اور اس پر اخلاص کے ساتھ مَن وعَن عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

وآخرُ دعوانا ان الحمدُ للہ رب العالمین

(تصحیح و مراجع: الشیخ حماد امین چاولہ حفظہ اللہ)

  1. ( مغني المحتاج: 6/ 122، الإقناع: 2/ 277)
  2. (صحیح بخاری ، صحیح مسلم)
  3. (مسند احمد،سنن ترمذی)
  4. (صحیح بخاری)
  5. (صحیح بخاری )
  6. ( المغني 9/ 435)
  7. (صحیح سنن الترمذی: 932 ، صحیح النسائی :8863 )
  8. ( صحیح بخاری ،صحیح مسلم)
  9. (صحیح سنن ابن ماجہ : 1992)
  10. (ابنِ ماجہ)
  11. (سنن أبي داود: 2789)
  12. (صحیح مسلم: 1963)
  13. (أحكام الأضحية لشیخ ابنِ عثیمین اور فتاوى اللجنة الدائمة :11/377) (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے : “بدائع الصنائع” (5/70) ، “البحر الرائق” (8/202) ، “التاج والإكليل” (4/363) ، “شرح مختصر خليل” (3/34) ، “المجموع” (8/365) ، “المغني” (13/368)۔
  14. (سنن ابو داؤد: 2802،ابن خزیمہ: 2912، مستدرک:1؍468)
  15. (صحیح بخاری: 5545، صحیح مسلم: 1961)
  16. (صحیح بخاری: 5562)
  17. (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: قربانی اور ذبح کے احکام از: شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ)
  18. (فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء : 11 / 406)
  19. (صحیح مسلم: 5096)
  20. (صحیح ترمذی: 1216)
  21. (صحيح الترمذي: 1505)
  22. (سنن نسائی: 4392، ترمذی: 1553 )
  23. (مسند احمد: مسند عبدالله بن عباس رقم الحديث: 2484)
  24. (مجمع الزوائد ، مسند احمد، سنن ابی داود: باب ما يستحب من الضحايا رقم الحديث: 2795)
  25. ( صحيح مسلم: باب الامر باحسان الذبح والقتل رقم الحديث: 1955۔)
  26. (صحیح مسلم : 5024، حاکم: 23114، نسائی :4413)
  27. (صحیح بخاری: 1713 )
  28. (صحیح مسلم، بیہقی: 9؍258، موطأ: 1؍379)
  29. (صحیح مسلم:5063)
  30. (صحیح بخاری: 5558)
  31. (فتح الباری شرح صحیح بخاری: باب من ذبح ضحيۃ غيرہ)
  32. (صحیح بخاری ومسلم)
  33. (صحیح مسلم: 5077 سنن ابن ماجہ: باب ادخار لحوم الاضاحي رقم الحديث: 3160)
  34. (صحيح البخاري: 5547)
  35. (سنن الترمذی: باب ما جاء فی ذکاۃ الجنين رقم الحديث: 1476)
الشیخ محمد کامران یاسین حفظہ اللہ: آپ نے کراچی کے معروف دینی ادارہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی سے علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کی اورالمعہد الرابع مکمل کیا،بعد ازاں آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تعلیم حاصل کرتے رہے، اب دین کی نشر و اشاعت کے حوالے سے سرگرم عمل ہیں اور المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔