موسمِ سرما سال کے چار موسموں ميں سے ایک ہے۔ پاکستان میں موسم سرما کا آغا ماہ دسمبر سے ہوتا ہے۔ لیکن پہاڑی علاقوں میں نومبر کے مہینے سے ہی سردی شروع ہوجاتی ہے، اس موسم ميں دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہوجاتی ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں برف باری ہوتی ہے۔ جس طرح الله تعالی نے انسان كی طبیعت مزاج، رنگ ونسل ، شكل وصورت اورخاندان وقبیلے میں اختلاف ركھا ہے، اسی طرح سال کے موسموں میں بھی تبدیلی پائی جاتی ہے۔ ان موسموں کا بدلنا، درختوں کے پتوں کا رنگ بدلنا یا گر جانا ، یہ سب تبدیلی کی نشانی ہے۔ تغیر ہی اس کائنات کا راز ہے۔ موسموں کی تبدیلی ہمیں ایک سبق دے کر جاتی ہے کہ کائنات کی ہر شے کو بدلنا ہے جو آیا ہے اس نے جانا ہے۔ جس پر آج عروج ہے کل زوال ہوگا، قرآن مجید میں بھی اللہ نے فرمایا ہے کہ:
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ
آل عمران – 190
آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں یقیناً عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں۔
سردی كا سبب :
نبی ﷺ کی احادیثِ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سردی کا سبب یہ ہے کہ یہ جہنّم کے سانس لینے کی وجہ سے ہوتی ہے ، چنانچہ رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
قَالَتِ النَّارُ:رَبِّ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا، فَأْذَنْ لِي أَتَنَفَّسْ، فَاَذِنَ لَهَا بِنَفَسَيْنِ، نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ، وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ، فَمَا وَجَدْتُمْ مِنْ بَرْدٍ، أَوْ زَمْهَرِيرٍ فَمِنْ نَفَسِ جَهَنَّمَ، وَمَا وَجَدْتُمْ مِنْ حَرٍّ أَوْ حَرُورٍ فَمِنْ نَفَسِ جَهَنَّمَ
جہنم نے اللہ تعالیٰ کے حضور شکایت کرتے ہوئےکہا کہ اے میرے رب!میرا بعض حصہ بعض کو کھارہا ہے،لہذا مجھے سانس لینے کی اِجازت مَرحمت فرمائیے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اُسے دو سانس لینے کی اِجازت دیدی،ایک سانس سردی میں اور دوسری گرمی میں،پس تم لوگ جو سردی کی ٹھنڈک محسوس کرتے ہو تو وہ جہنم کے سانس لینے کی وجہ سے ہے اور جو گرمی کی تپش محسوس کرتے ہو وہ بھی جہنم کے سانس لینے کی وجہ سے ہے۔ 1
لہذا موسم کی تبدیلی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں چاہیئے کہ ہم لوگ جس طرح موسمِ سرما میں سردی سے اور موسم گرما میں گرمی سے بچنے کے لئے مختلف اسباب اور وسائل اختیار کرتے ہیں، اسی طرح آخرت میں شدت کی سردی اور گرمی سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے جہنم سے بچنے کے اسباب اختیار کریں۔
موسم سرما اور تعلیمات نبویﷺ
موسم کو برا مت کہو
چونکہ سردی وگرمی اللہ تعالی کی مخلوق ہیں ، ان میں سختی وگرمی اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے۔ لہذا انھیں گالی دینا یا برا بھلا کہنا جائز نہیں ہے، چنانچہ حدیث قدسی میں نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے :
يُؤْذِينِي ابن آدَمَ، يَسُبُّ الدَّهْرَ، وأنا الدَّهْرُ، بِيَدِي الأَمْرُ، أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ
آدم کا بیٹا مجھے دکھ دیتا ہے، وہ اسطرح کہ زمانے کو گالی دیتا ہے، حالانکہ میں خود (صاحب) زمانہ ہوں ، سب کچھ میرے ہاتھ میں ہے۔ رات ودن کو میں ہی پھیرتا اور تبدیل کرتا ہوں۔2
مذکورہ حدیث میں “دھر” سے مراد زمانہ اور وقت دونوں ہی ہیں، کیوں کہ زمانہ اور وقت قریباً ایک ہی ہیں، وقت لمحے بھر کو بھی کہا جاتا ہے، جب کہ زمانہ کچھ مدت وقت کے لیے استعمال ہوتاہے، گویا وقت زمانے کا ہی حصہ ہے۔
اس آیت کی تفسیر سے معلوم ہوا کہ زمانہ کو بُرا بھلا کہنا اور اپنی مشکلات اور دکھوں کو زمانے کی طرف منسوب کرکے اسے برا بھلا کہنا مشرکین عرب اور دھریہ کاکام ہے۔ زمانے کو برا بھلا کہنا در حقیقت اللہ تعالیٰ کو بُرا بھلا کہناہے۔
ہواکو بُرا مت کہو
جس طرح سردی وگرمی اللہ تعالی کی مخلوق ہیں، اسی طرح ہوا بھی اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ مخلوق ہے، لہذا اُسے گالی دینا ، لعنت کرنا اور برا بھلا کہنا جائز نہیں ہے، حدیث میں آتا ہے:
إِنَّ رَجُلًا نَازَعَتْهُ الرِّيحُ رِدَاءَهُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَعَنَهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَلْعَنْهَا فَإِنَّهَا مَأْمُورَةٌ وَإِنَّهُ مَنْ لَعَنَ شَيْئًا لَيْسَ لَهُ بِأَهْلٍ رَجَعَتِ اللَّعْنَةُ عَلَيْهِ
نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں ہوا نے ایک شخص کی چادر اڑا دی، تو اس نے اس پر لعنت کی، نبی اکرم ﷺنے فرمایا: اس ہوا پر لعنت نہ کرو، اس لیے کہ وہ (تو اللہ کے حکم کی) تابعدار ہے، اور جو آدمی کسی ایسی چیز پر لعنت کرے جس کی وہ حقدار نہ ہو تو وہ لعنت اسی کی طرف لوٹ آتی ہے ۔3
بھلائی کی دعا ،شر سے پناہ
تیز ہواؤں اور آندھیوں کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الرِّيحُ مِنْ رَوْحِ اللہِ فَرَوْحُ اللہِ تَأْتِي بِالرَّحْمَةِ، وَتَأْتِي بِالْعَذَابِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهَا، فَلَا تَسُبُّوهَا وَسَلُوا اللہَ خَيْرَهَا، وَاسْتَعِيذُوا بِاللہِ مِنْ شَرِّهَا
وا اللہ کی رحمت میں سے ہے تو کبھی وہ رحمت لے کر آتی ہے، اور کبھی عذاب لے کر آتی ہے، جب تم اسے دیکھو تو اسے برا مت کہو بلکہ اللہ سے اس کی بھلائی مانگو، اور اس کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔4
تیز ہواؤں کے وقت دعا
سردیوں میں جب تیز ہوائیں چلتی ہیں تو ہم جلدی سے گھر کے دروازے اور کھڑکیاں تو بند کر لتے ہیں لیکن ایسے موقعوں پر تعلیمات نبوی ﷺ بھول جاتے ہیں ، ام المؤمنیں عاشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب تیز ہوائیں چلتیں تو نبی کریم ﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا، وَخَيْرَ مَا فِيهَا، وَخَيْرَ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا، وَشَرِّ مَا فِيهَا، وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ
اے اللہ ! میں تجھ سے اس کی اور جو کچھ اس میں ہے اس ک خیر اور بھلائی کا سوال کرتا ہوں۔ اور جو کچھ اس کے ذریعے بھیجا گیا ہے اس کی خیر کا طلبگار ہوں اور میں اس کے شر اور جو کچھ اس میں ہے اور جو اس کے ساتھ بھیجا گیا ہے اس کے شر سے تیری پناہ چاہتاہوں۔ 5
بخار کو برا بھلا نہ کہو
موسم سرما میں سردی کی شدت کی وجہ سے لوگ مختلف بیماریوں مثلا نزلہ ، زکام اور بخار کا کثرت سے شکار ہوجاتے ہیں ، تو اکثر لوگ ان بیماریوں کو کوسنا شروع ہوجاتے ہیں اور برا بھلا کہنے لگ جاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ نے ان تکالیف میں کیا اجر وثواب رکھا ہے، کسی بھی تکلیف یا بیماری کو برا بھلا یا گالی نہیں دینا چاہئے کیونکہ حدیث میں آتا ہے۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أن رسول الله -ﷺ- دخل على أم السائب أو أم المسيب فقال: (مَا لَكِ يَا أُمَّ السَّائِبِ أَوْ يَا أُمَّ الْمُسَيِّبِ تُزَفْزِفِينَ؟) قالت: الحمى، لا بارك الله فيها، فقال: لَا تَسُبِّي الْحُمَّى، فَإِنَّهَا تُذْهِبُ خَطَايَا بَنِي آدَمَ كَمَا يُذْهِبُ الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ)
رسول اللہ ﷺ ایک انصاری خاتون حضرت ام سائب یا حضرت ام مسیب رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے، آپ ﷺ نے فرمایا: ام سائب یا ام مسیب ! تمہیں کیا ہوا؟ کیا تم شدت سے کانپ رہی ہو؟ انہوں نے کہا : بخار ہے، اللہ تعالیٰ اس میں برکت نہ دے ! آپ ﷺ نے فرمایا : بخار کو برا نہ کہو ، کیونکہ یہ آدم کی اولاد کے گناہوں کو اس طرح دور کرتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ کو دور کرتی ہے۔ 6
موسم سرما اور اعمال ِصالحہ
اللہ تعالیٰ نے ہمیں درجات كی بلندی اور گناہوں کی بخشش کیلئے وسائل اور اسباب سے نوازاہے، ان وسائل میں سے ایک انتہائی اہم وسیلہ نیک اعمال ہیں ، یعنی یہ اعمال صالحہ ہمارے گناه مٹا دیتے ہیں اور دنیا وآخرت میں اجر عظیم كے مستحق بناتے ہیں۔ چنانچہ الله كا ارشاد ہے :
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِينَ
ھود – 114
دن کے دونوں سروں میں نماز برپا رکھ اور رات کی کئی ساعتوں میں بھی، یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لئے۔
نفلی روزے
سردی کے موسم میں دن چھوٹے اورراتیں لمبی ہوتی ہیں لهذا روزے رکھنا بہت آسان ہے، اس لیے ان چھوٹے دنوں میں ایک مسلمان کے لیے نیکیاں اور ثواب کمانے کا ایک بہترین موقع ہے جس میں ذرا سی مشقت کو جھیل کر نہایت آسانی سے اپنی آخرت کے لیے بڑے بڑے ذخیرے جمع کیے جاسکتے ہیں ۔ چنانچہ حدیث میں آتاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الشِّتَاءُ رَبِيعُ الْمُؤْمِنِ قَصُرَ نَهَارُهُ فَصَامَ وَطَالَ لَيْلُهُ فَقَامَ
سردی مؤمن کے لئے بہار کا موسم ہے،(چنانچہ) اس کے دن چھوٹے ہوتے ہیں تو وہ روزہ رکھتا ہے اور راتیں طویل ہوتی ہیں جس میں وہ قیام کرتا ہے۔7
حضرت عامر بن مسعود جحمی رضی اللہ عنہ بیان كرتے ہیں:
قال رسول الله ﷺ: الصَّوْمُ فِي الشِّتَاءِ الْغَنِيمَةُ الْبَارِدَةُ
کہ نبی کریم ﷺ نے اِرشاد فرمایا: سردی میں روزہ رکھنا ٹھنڈی غنیمت ہے۔8
یعنی ایسی نیکی جو بغیرکسی جدو جہد اور مشقّت کے مفت میں حاصل ہوجاتی ہے کیونکہ سردی میں دن چھوٹے اور اس کی راتیں لمبی ہوتی ہیں۔
حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنہ فرماتے ہیں :
الشِّتَاءُ غَنِيمَةُ الْعَابِدِيْنَ
سردی کا موسم عبادت کرنے والوں کیلئے غنیمت کا موسم ہے۔9
مشہور تابعی عبید بن عمیر لیثی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كَانَ يَقُولُ إِذَا جَاءَ الشِّتَاءُ: يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ قَدْ طَالَ اللَّيْلُ لِصَلَاتِكُمْ وَقَصُرَ النَّهَارُ لِصَوْمِكُمْ فَاغتَنِمُوا۔
یعنی جب سردی کا موسم آتا تو فرماتے: اے اہل قرآن تمہاری نمازوں کے لئے راتیں لمبی ہوگئی ہیں اور تمہارے روزے رکھنے کے لئے دن چھوٹے ہوگئے ہیں تو تم اسے غنیمت جانو۔10
روزہ رکھنے کا عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ اس لیے اس کا اجر بھی بہت زیادہ ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے:
مَنْ صَامَ یَوْمًا فی سبیل اللهِ بَاعَدَ اللّٰهُ وَجْهَه عَنِ النَّارِ سَبْعِیْنَ خَرِیْفًا
جو ایک دن اللہ کے راستے میں روزہ رکھے اللہ تعالیٰ اسے ستر سال کی مسافت کے برابر جہنم کی آگ سے دور کر دے گا۔11
روزہ جنت کا راستہ ہے ۔ حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
يا رسولَ اللهِ ! فمُرْني بعملٍ أدخلُ به الجنَّةَ ؟ فقال: عليك بالصومِ ؛ فإنه لا مِثلَ له
کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! مجھے کسی ایسی چیز کا حکم دیجئے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ مجھے بہت فائدہ عطا فرمائے ۔ آپ نے فرمایا :’’ روزے کو معمول بنا کیونکہ اس جیسی کوئی چیز نہیں ۔‘‘12
رمضان کے فرضی روزوں کے علاوہ پورے سال کے مختلف اوقات میں نفلی روزے ركھنا نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے۔ نفلی روزوں میں ایام بیض کے روزے ، پیر اور جمعرات کا روزہ ، محرم کے روزے، ذی الحجہ كے دس دن كے روزے ، یوم عرفہ كا روزه ، شعبان كے روزے ،شوال كے چھے روزے آپ ﷺسے ثابت ہیں۔
پیر اور جمعرات کا روزہ
پیر اور جمعرات کے روزے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
تُعرَضُ الأعمالُ يومَ الاثنينِ والخميسِ فأحبُّ أن يُعرَضَ عملي وأنا صائمٌ
کہ ان دنوں میں بندے کے اعمال اللہ تعالی کے پاس پیش کیئے جاتے ہیں تو میں چاہتا ہوں کہ جب میرا عمل اللہ تعالی کے سامنے پیش ہو تو میں روزے سے ہوں ۔13
ایام بیض کے روزے
ایام بیض یعنی ہر اسلامی مہینے کی 13. 14 . 15 تاریخ کے روزوں کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
صومُ ثلاثةِ أيامٍ صومُ الدهرِ كلِّه
ایام بیض کے تین روزے پوری زندگی کے روزوں کے برابر ہیں۔14
صوم داؤدی
أَحَبُّ الصِّيَامِ إِلَى اللَّهِ صِيَامُ دَاوُدَ كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا ، وَأَحَبُّ الصَّلَاةِ إِلَى اللَّهِ صَلَاةُ دَاوُدَ كَانَ يَنَامُ نِصْفَ اللَّيْلِ وَيَقُومُ ثُلُثَهُ وَيَنَامُ سُدُسَهُ
اللہ تعالیٰ کے نزدیک روزے کا سب سے پسندیدہ طریقہ داؤد علیہ السلام کا طریقہ تھا۔ آپ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن بغیر روزے کے رہتے تھے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے نزدیک نماز کا سب سے زیادہ پسندیدہ طریقہ داؤد علیہ السلام کی نماز کا طریقہ تھا ‘ آپ آدھی رات تک سوتے اور ایک تہائی حصے میں عبادت کیا کرتے تھے‘ پھر بقیہ چھٹے حصے میں بھی سوتے تھے۔“
سردی میں وضو کی فضیلت
نبی کریم ﷺ نے اِرشاد فرمایا:
أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى مَا يَمْحُو اللهُ بِهِ الْخَطَايَا،وَيَرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتِ؟“”إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ، وَكَثْرَةُ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ“
کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتلاؤں جس کے ذریعے سے اللہ تعالی گناہ معاف کردے اور درجات بلند کردے؟صحابہ کرام نے عرض کیا : یارسول اللہ! ضروربتلائیے!آپ ﷺ نے اِرشاد فرمایا: (سردی وغیرہ کی) مشقت اور ناگواری کے باوجود کامل وضو کرنا ، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا اور مساجد کی طرف کثرت سے قدم بڑھا نا، پس یہی رباط (یعنی اپنے نفس کو اللہ کی اِطاعت میں روکنا) ہے۔15
وضو میں اعضاء مکمل دھونا
سردیوں کے موسم میں جب سردی کی شدت میں نہایت اضافہ ہوتا ہے تو بعض لوگ وضو میں سستی کرتے ہوئے پورے اعضاء کو ٹھیک سے نہیں دھوتے، یہ طریقہ نہایت خطرناک ہے کیونکہ اس بارے میں نبی کریم ﷺ کی سخت وعید آئی ہے، چنانچہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
تَخَلَّفَ عَنَّا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ سَافَرْنَاهُ فَأَدْرَكَنَا وَقَدْ حَضَرَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ فَجَعَلْنَا نَمْسَحُ عَلَى أَرْجُلِنَا فَنَادَى: «وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں ہم سے پیچھے رہ گئے ، کچھ دیر کے بعد آپ ﷺ نے ہمیں پالیا ، جب آپ ہمارے پاس پہنچے تو عصر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا ، ہم لوگ وضو کرتے ہوئے پاؤں کو ٹھیک سے دھونے کے بجائے پاؤں پر جلدی میں ہاتھ پھیرنے لگے تو آپ نے بلند آواز سے فرمایا :’’ (سوکھی رہ جانے والی) ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے ۔‘‘16
نمازیں مسجد میں ادا کرنا
سردی کی شدت کے باعث اکثر لوگ نماز باجماعت کی ادائگی کے لیے مسجد جانے میں سستی کر جاتے ہیں، خاص کر نماز عشاء اور فجر میں زیادہ کوتاہی کرتے ہیں، جس کے باعث لوگ مسجد جانے ، باجماعت نماز ، نماز عشاء اور فجر اور اندھرے میں مسجد جانے کی فضیلتوں اور اجر وثواب اجر وثواب کے عظیم نعمتوں سے محروم رہ جاتے ہیں ۔
مسجد جانے کی چند فضیلتیں
نورِ کامل کی بشارت
رسول کریم ﷺ نے اندھرے میں نماز کے لیے مسجد جانے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا :
بَشِّرِ الْمَشَّائِينَ فِي الظُّلَمِ إِلَى الْمَسَاجِدِ بِالنُّورِ التَّامِّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
رات کی تاریکیوں میں مساجد کی طرف کثرت سے جانے والوں کو قیامت کے دن کامل نور کی خوشخبری دے دو۔17
ہر قدم پر گناہوں کی بخشش اور درجات کی بلندی
مَنْ تَطَهَّرَ فِي بَيْتِهِ، ثُمَّ مَشَى إِلَى بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ لِيَقْضِيَ فَرِيضَةً مِنْ فَرَائِضِ اللَّهِ، كَانَتْ خَطْوَتَاهُ إِحْدَاهُمَا تَحُطُّ خَطِيئَةً، وَالأُخْرَى تَرْفَعُ دَرَجَةً
”جو اپنے گھر میں طہارت کرے پھر اللہ کے کسی گھر میں جائے تاکہ اللہ کے فرضوں میں سے کسی فرض کو ادا کرے تو اس کے قدم ایسے ہوں گے کہ ایک سے تو برائیاں اتریں گی اور دوسرے سے درجے بڑھیں گے۔“18
خیر وعافیت کی دعاء
موسمِ سرما کی ٹھنڈی ہواؤں اور ٹھٹھرتی راتوں میں یقیناً تکلیف تو ہوتی ہے ، پھر اِن سرد اور ٹھنڈی ہواؤں میں بسا اوقات نزلہ زُکام،کھانسی اور بخار وغیرہ بھی ہوسکتا ہے جس سے کئی قسم کی پریشانیوں کا سامنا ہوتاہے، ایسے میں اِنسان کو چاہیئے کہ دل و جان سے اللہ کے فیصلہ پر راضی رہے،صبر سے کام لے اور اللہ سے عافیت کی دعاء مانگتا رہے، کیونکہ یہی اُس کے دکھوں کا مداوا اور یہی اُس کی پریشانیوں اورمصیبتوں کی دَواء ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
مَن لم يسألِ اللهَ يغضبْ علَيهِ
جو اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے تو اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوتا ہے ۔19
حضرت عباس بن مطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:
قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلِّمْنِي شَيْئًا أَسْأَلُهُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: سَلِ اللَّهَ الْعَافِيَةَ، فَمَكَثْتُ أَيَّامًا، ثُمَّ جِئْتُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلِّمْنِي شَيْئًا أَسْأَلُهُ اللَّهَ، فَقَالَ لِي: يَا عَبَّاسُ يَا عَمَّ رَسُولِ اللَّهِ سَلِ اللَّهَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ
کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے عرض کی کہ مجھے کوئی ایسی چیز سکھائیے جسے میں اللہ رب العزت سے مانگتا رہوں، آپ نے فرمایا: ”اللہ سے عافیت مانگو“، پھر کچھ دن رک کر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جسے میں اللہ سے مانگتا رہوں، آپ نے فرمایا: ”اے عباس! اے رسول اللہ ﷺ کے چچا! تم اللہ سے دنیا و آخرت میں عافیت طلب کرو“۔20
صدقات و خیرات
احادیث میں صدقے کی بڑی فضیلت آئی ہے، اس کا اجرسات سو گنا تک ملتا ہے، پھر اگر صدقہ وخیرات لوگوں کی ضرورت کے موقع پرہو تو اسکی فضیلت اور بڑھ جاتی ہے، خاص کر سردی کے موسم میں جبکہ لوگ سردی سے بچنے کے لئے، کپڑے، گرم لباس اور لحاف وغیرہ اور آمدنی میں کمی کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزوں کے محتاج ہوتے ہیں تو ایسے ایام میں صدقہ کی فضیلت بڑھ جاتی ہے، اگر ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ ہمارے محلے میں، پڑوس میں اور ہمارے آس پاس کے علاقے میں کتنے ایسے لوگ ہیں جن کے پاس سردی سے بچنے کے لئے نہ کپڑے ہیں اور نہ لحاف اور نہ رضائی کا انتظام ، تو اہل ثروت ومخیر حضرات کیلئے ایسے نادار لوگوں کی مدد کرنا اجر وثواب کمانے کا بڑا موقعہ غنیمت ہے اور اس کے فضائل بھی کثرت سے وارد ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
السَّاعِي عَلَى الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ الله وَأَحْسِبُهُ قَالَ : كَالْقَائِمِ لَا يَفْتُرُ وَكَالصَّائِمِ لَا يُفْطِرُ
نبی ﷺ نے فرمایا: بیواؤں اور مساکین کی مدد کرنے والا ان پر خرچہ کرنے والا مجاہد فی سبیل اللہ کی طرح ہے یا وہ مسلسل قیام کرنے والے اور روزے رکھنے والے شخص کی طرح ہے۔21
توبہ و اِستغفار
اس وقت پوری دنیا کرونا وائرس کی لپیٹ میں ہے۔ ہرطرف موت کا خوف ہے ،ہر شہر اور گاؤں سے روزانہ کئی کئی موتیں ہو رہی ہیں، لوگوں میں خوف وہراس ہے ۔ اس کے علاہ پوری دنیا میں موسمی تغیرات کا شور برپا ہے، طوفانی بارشوں سے کئی کئی بستیاں اور دیہات صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔ آئے دن کے زلزلوں اور طوفانوں کی وجہ سے کس قدر بڑے اور وسیع پیمانے پر لوگوں کی جانوں اور مالوں کا نقصان ہونے لگا ہے۔ ان حالات سے نجات کے لئے ضروری ہے کہ ہم گناہوں پر ندامت اختیار کرتے ہوئے، توبہ واستغفار، رب سے مناجات اور خصوصی دعائوں کا اہتمام کریں۔کثرتِ استغفارمنہج نبوی ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ تُوبُوا إلى اللهِ، فإنِّي أَتُوبُ في اليَومِ إلَيْهِ مِئَةَ مَرَّةٍ
لوگو ! اللہ کی طرف توبہ کیا کرو کیونکہ ایک دن میں اللہ سے سو بار توبہ کرتا ہوں ۔22
موسم سرما كی طویل راتوں میں ہر طرف سکون، اطمینان اور فضا میں سناٹا طاری ہوتا ہے، تمام لوگ گہری نیند سو رہے ہوتے ہیں۔ اس پر سکون ماحول میں انسان ایک کمزور اوربے بس انسان کی حیثیت سے اپنے رب کی رحمت، فضل اور احسان طلب کرنے کے لیے اپنے ہاتھ اوپر کو اٹھا دیتا ہے تو اس وقت اللہ رب العزت توبہ و رحمت کے دروازے کھول کر اپنے بندوں کے قریب تر آجاتے ہیں ، گناہوں اور معصیتوں کے سمندروں میں ڈوبے ہوئے انسانوں کیلئے لمحۂ فکریہ ہے کہ ہم کس قدر توبہ واستغفار کے محتاج ہیں؟
غریبوں كی مدد
موسم سرما میں بہت سے ایسے نادار اور غریب لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ سردی سے بچاؤ کے لیے مناسب لباس خرید سکیں ، لہذا سردی کے موسم میںہمیں اُن نادار اور غریب بھائیوں کو نہیں بھولنا چاہیئے ، بلکہ نیکی کے اِس موقع سے فائدہ اُٹھاکر آخرت کے لیے ذخیرہ سامان کرنا چاہیئے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللَّهُ عنہ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ يَسَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی پریشانیوں میں سے کسی پریشانی کو دور کر دیا، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی پریشانیوں میں سے بعض پریشانیاں دور فرما دے گا، اور جس شخص نے کسی تنگ دست پر آسانی کی، اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس پر آسانی کرے گا۔23
قرآن وحدیث کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سردیوں کا موسم عبادت کا موسم ہے۔ لہذا زیادہ سے زیادہ نیک کاموں میں صرف کریں ، نفلی روزے رکھیں ۔ان دنوں میں رمضان کے قضا روزے بھی آسانی سے رکھے جا سکتے ہیں۔ صدقہ وخیرات کریں، راتیں بہت لمبی ہیں ۔ انہیں تہجد ، دعا واستغفار ،تلاوت قرآن پاک، ذکر واذکار ، اور درود شریف جیسی عبادات میں خرچ کریں۔
- صحیح مسلم:617، صحیح بخاری : 3260
- صحیح البخاری : 4826 بدء الخلق ، صحیح مسلم : 2246
- صحيح أبي داود الرقم: 4908
- صحيح أبي داود: 5097 والنسائي في الكبرى (10699 )، وأحمد (9288 )
- صحیح مسلم (899)
- صحيح مسلم: 2575
- السنن الکبریٰ للبیهقی:8456، مسند أحمد: ۱۱۷۱۶ ۔ حسن ۔
- صحيح الجامع. 3868. وصحيح الترمذي.: 797. والسلسلة الصحيحة (1922) ، مسند أحمد (18979 )
- رواه ابن أبي شيبة (34468) وأبو نعيم في الحلية 1/51 ) صحيح ؛
- الزهد للإمام أحمد 307 ، والمصنف لابن أبي شيبة: 9826، بسند صحیح ۔
- صحیح البخاری/الجہاد 36 (2840)، صحیح مسلم/الصوم 31 (1153)
- أخرجه أحمد (22249) ، وابن حبان (3425) واللفظ له ، صحيح الموارد: 769
- صحيح الترمذي: 747 ، صحيح أبي داود : 2436 ۔
- صحيح البخاري : 1979، صحيح الجامع: 7507 ،
- صحیح مسلم:251)
- صحیح مسلم :۵۷۲
- حيح أبي داود : 561 والترمذي (223)
- صحيح الترغيب. الرقم: 299. وأحمد (6599) واللفظ له، وابن حبان (2039)
- صحيح الترمذي: 3373
- صحيح الترمذي: 3514
- حیح بخاری : 6007)
- صحيح مسلم : 2702
- حيح الترمذي | الصفحة أو الرقم : 1930 أخرجه مسلم (2699)، وابن ماجه (225)، وأحمد (7427) وأبو داود (4946)،