اب ملاحظہ فرمائیں شوہر کے وہ حقوق جو عورت کے ذمے ہیں، یعنی جن کا ادا کرنا عورت کے فرائض میں داخل ہے۔ لیکن اس سے پہلے چند وہ حقوق بیان کیے جاتے ہیں جو مرد و عورت کے درمیان مشترک ہیں یعنی دونوں ہی کو ان کی پاسداری کرنی ہوتی ہے۔ مثلاً
(1)ایک حدیث نبوی ﷺ ہے کہ جس میں مرد کو عورت کے ساتھ گزارا کرنے کے لیے یہ گُر بتلایا گیا تھا کہ اس کی اگر ایک بات ناپسندیدہ ہوگی تو کچھ دوسری باتیں پسندیدہ بھی ہوںگی۔ مطلب اس حدیث کا یہ ہے کہ کمزوریوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کرکے اگر خوبیوں پر نظر رکھی جائے تو پھر نباہ آسان ہوجاتا ہے۔ حدیث میں یہ بات اگرچہ عورت کے حوالے سے بیان ہوئی ہے اور مخاطب مرد ہیں۔ لیکن اگر عورت بھی اس پر عمل کرے اور خاوند کی کوتاہیوں کو نظر انداز کرکے اس کی خوبیوں پر نظر رکھے تو اس کے لیے بھی مرد کے ساتھ نباہ آسان ہوجائے گا، یعنی یہ نسخۂ نبوی یا نباہ کرنے کا گر دونوں (میاں بیوی) کے لیے نہایت مفید اور کار آمد ہے۔ کاش مسلمان گھرانے اس پر عمل کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ
البقرۃ216
’’ تم کسی چیز کو اچھی سمجھو، حالانکہ وہ تمہارے لئے بری ہو ‘‘
(2)حسن معاشرت کے تقاضوں کو بیان کرتے ہوئے عرض کیا گیا تھا کہ مرد کسی بھی بات یا مسئلے کو انا اور وقار کا مسئلہ نہ بنائے۔ اسی طرح عورت کے لیے بھی یہی راستہ بہتر بلکہ مرد کے مقابلے میں زیادہ ضروری ہے۔ عورت کسی بھی مسئلے میں نہ اپنی رائے پر اصرار کرے اور نہ اسے انا کا مسئلہ بنائے۔ بلکہ خاوند کے قدم بہ قدم چلے۔ بالخصوص جب بچے جوان ہوجائیں تو ان کے رشتوں کے معاملے میں بعض دفعہ میاں بیوی کے درمیان اختلاف ہوجاتا ہے، عورت اپنے رشتے داروں میں اور مرد اپنے رشتے داروں میں رشتہ کرنا چاہتا ہے۔ ایسے موقعے پر کوئی بھی اسے اپنی انا کا مسئلہ بنائے، نہ رشتے داریوں کو دیکھا جائے بلکہ ایک تو شرعی معیار کو سامنے رکھا جائے، دوسرے بچے، بچی کے جذبات اور ان کی پسند کا خیال رکھا جائے۔
(3)خرچ کے معاملے میں عرض کیا گیا تھا کہ مرد نہ بخل کا ارتکاب کرے اور نہ فضول خرچی کا، بلکہ اعتدال اور میانہ روی کو اختیار کرے۔ عورت کو بھی ایسا ہی رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ اگر اخراجات اس کے ہاتھ میں ہوں تب بھی اور اگر خاوند کے ہاتھ میں ہوں تب بھی۔ اور وہ اس طرح کہ وہ مرد کو فضول خرچی یا بخل پر آمادہ نہ کرے۔ فضول خرچ عورت کے ناجائز مطالبات اکثر و بیشتر مردوں کو حرام ذرائع آمدنی اختیار کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ عام طور پر جو لوگ کہتے ہیںکہ تنخواہ میں یا حلال آمدنی میں گزارا نہیں ہوتا، اس لیے رشوت یا ملاوٹ کے بغیر چارہ نہیں۔ اس کے پیچھے ایمانی کمزوری کے علاوہ ایسی ہی بیویاں ہوتی ہیں جو شوہر کی آمدنی کو دیکھے بغیر آئے دن ایسے مطالبات کرتی رہتی ہیں جو غیر ضروری ہوتے ہیں اور جن کو صرف حلال آمدنی سے پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
ظاہر بات ہے اس حرام خوری اور لوٹ کھسوٹ میں جو مرد محض عورت کے مطالبات کی وجہ سے ملوث ہوتا ہے تو عورت بھی برابر کی شریکِ جرم ہوگی۔
(4)عدل و انصاف کا اہتمام جس طرح مرد کے لیے ضروری ہے جس کی ضروری تفصیل مردوں پر عورتوں کے حقوق کے ضمن میں گزر چکی ہے، اسی طرح عورت کے لیے بھی اس عدل کا اہتمام ضروری ہے، اس کو بھی قدم قدم پر اس کا خیال رکھنا ہے بالخصوص مشترکہ خاندان میں یہ نہایت ناگزیر ہے۔ عورت ایسا رویہ ہرگز اختیار نہ کرے کہ جس کی وجہ سے مرد اپنی ماں سے یا اپنی بہنوں سے یا دوسری بیویوں سے (ایک سے زیادہ بیویاں ہونے کی صورت میں) بد ظن ہوجائے اور وہ ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کا مرتکب ہونے لگے۔
مرد کی اس نا انصافی کی وجہ بالعموم عورت کا غیر منصفانہ رویہ ہی بنتا ہے خوفِ الٰہی رکھنے والی عورت کو اس سے دامن کشاں رہنا چاہیے اور گھر کے تمام افراد کے حقوق خوش دلی سے اورعدل و انصاف کے تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ادا کرنے چاہئیں۔
(5)جس طرح مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ بیوی سے بھرپور طریقے سے محبت کرے۔ اسی طرح عورت کا مستقبل بھی تب ہی خوش گوار ہوگا جب وہ ٹوٹ کر اپنے شوہر سے محبت کرے گی۔ اس کے لیے جو جو طریقے اختیار کرنے ضروری ہیں، وہ ان کو سامنے رکھے اورہر موقع پر انہیں اختیار کرے۔ ایسا رویہ ہرگز اختیار نہ کرے کہ جو خاوند کے دل میں اس کے لیے نفرت کی اور کسی اور عورت کے لیے محبت کی تخم ریزی کردے۔
(6)عورت مرد سے زیادہ مطالبات نہ کرے اور اس پر اتنا بوجھ نہ ڈالے جسے وہ اٹھا نہ سکے، اس سے بھی تعلقات میں ناخوش گواری پیدا ہوتی ہے جب کہ ضرورت زیادہ سے زیادہ خو شگوار ماحول پیدا کرنے اور اس کو ہر وقت بر قرار رکھنے کی ہے۔ اور ایسا تب ہی ہوسکتا ہے جب عورت بھی اپنی چادر کے مطابق ہی پائوں پھیلائے۔
(7)جس طرح مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ عورت کو عار نہ دلائے، جیسا کہ اس کی تفصیل گزری، اسی طرح عورت بھی مرد کو عار نہ دلائے اور دبی ہوئی چنگاری کو پھونکیں مار کر شعلہ نہ بنائے۔ اس سے اس کا اپنا گھر بھی بھسم ہوسکتا ہے۔
(8)عورت زیب و زینت اختیار کرنے کی مرد سے زیادہ دل دادہ ہوتی ہے اور اس کی ضرورت بھی اس کو مرد سے زیادہ ہے۔ اس لیے اس میں وہ ہرگز کوتاہی نہ کرے، بالخصوص جب شام یا رات کو خاوند کے گھر آنے کا وقت ہو تو وہ صاف ستھرے لباس اور مناسب سولہ سنگھار سے آراستہ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ خاوند جب بھی گھر میں آئے تو وہ گھر کی صفائی میں یا کھانا پکانے میں ایسی مصروف ہو کہ اس کو نہ اپنے لباس کا ہوش ہو اور نہ صفائی ستھرائی کا۔
تاہم زیب و زینت کے اختیار کرنے میں بھی اعتدال کو ملحوظ رکھا جائے اور آج کل زیب و زینت کے نام پر جس طرح اپنا حلیہ بگاڑ لیا جاتا ہے۔ یا سامان آرائش و زیبائش میں پانی کی طرح پیسہ بہایا جاتا ہے۔ یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں۔ اسی طرح میک اپ کے لیے بیوٹی پارلروں کا سہارالینے کا بھی کوئی جواز نہیں ہے۔ ان تمام فضولیات اور بے جا اخراجات سے دامن بچاتے ہوئے مناسب زیب و زینت (پرانے روایتی انداز سے) اختیار کر لینا کافی ہے جس میں نہا دھو کر یا ہاتھ منہ دھو کر صاف ستھرا لباس پہننا داخل ہے۔
(9)میاں بیوی کے درمیان راز کی باتیں اور خلوت کی پُر لطف سرگرمیوں کی تفصیل دوستوں کے سامنے بیان کرنا، جس طرح مرد کے لیے جائز نہیں اسی طرح عورت کے لیے بھی اس کا جواز نہیں ہے، عورت بھی اپنی سہیلیوں میں ان کی تفصیل بیان کرنے سے گریز کرے، یہ بہت بڑا گناہ ہے چاہے مرد کرے یا عورت۔ اس پر دنیا و آخرت میں عذاب الیم کی شدید وعید وارد ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
النور19
’’جو لوگ اہل ایمان میں بے حیائی کے پھیلنے کو پسند کرتے ہیں، ان کے لیے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے۔‘‘
(9)خاوند اگر دینی شعور سے بے بہرہ ہے اور عورت دینی تعلیم سے آراستہ ہے تو عورت بتدریج اس کو دینی تعلیمات سے آگاہ کرے، اس کو مساجد میں خطبات جمعہ سننے، علماء کے دروس و خطابات سننے کی ترغیب دے اور اس کو دینی لٹریچر بالخصوص قرآن کریم کی تفسیر اور سیرت کی کتابیں پڑھنے پر آمادہ کرے تاکہ دونوں مل کر گھر میں دینی ماحول پیدا کریں اور اپنی نسل نو کی دینی ماحول میں تربیت کریں۔
(10)دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کو دین پر عمل کرنے کی ترغیب دیں، ایمان و تقویٰ والی زندگی اختیار کرنے کی کوشش کریں اور دین کے حوالے سے جو کوتاہیاں اور کمزوریاں ہوں، وہ ایک دوسرے کو تبلیغ و تلقین کے ذریعے سے دور کریں۔ جیسے ایک حدیث میں ایسے میاں بیوی کے لیے یہ فضیلت وارد ہوئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’رَحِمَ اللّٰہُ رَجُلًا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ فَصَلّٰی، وَأَیْقَظَ اِمْرَأَتَہُ، فَإِنْ أَبَتْ نَضَحَ فِی وَجْھھَا الْمَاءَ، رَحِمَ اللّٰہُ امْرَأَۃً قَامَتْ مِنَ اللَّیْلِ فَصَلَّتْ وَأَیْقَظَتْ زَوْجَھَا فَإِنْ أَبٰی نَضَحَتْ فِی وَجْہِہِ الْمَاءَ‘۔[1]
(11)اس آدمی پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھتا ہے اور اپنی بیوی کو بھی اس کام کے لیے جگاتا ہے، اگر وہ نہیں اٹھتی تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارتا ہے (تاکہ اس کے لیے اٹھنا آسان ہوجائے) اس عورت پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھتی ہے اور اپنے خاوند کو بھی اٹھاتی ہے ، اگر وہ انکار کرتا ہے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارتی ہے (تاکہ وہ بیدار ہوجائے اور نماز پڑھے)۔‘‘
جب نفلی نماز کے لیے ایک دوسرے کو آمادہ کرنے کی یہ فضیلت ہے کہ اللہ کے رسول ان کے لیے دعائے رحمت فرما رہے ہیں تو فرضی نماز میں ایک دوسرے کو سستی نہ کرنے دینا اور اس کی پابندی کروانا اور اس طرح دیگر احکامِ الٰہیہ اختیار کرنے کی ترغیب دینا کتنا فضیلت والا عمل ہوگا؟
اور جب دونوں میاں بیوی اس طرح مل جل کر دین کی پابندی کریں گے تو پھر زندگی کے تمام معاملات میں ان کے لیے دین پر عمل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی، کیونکہ دونوں دین کے شناسا اور دین پر عمل کرنے کے جذبے سے سرشار ہوں گے۔ علاوہ ازیں پھر نوجوان اولاد کو بھی دین سے سرتابی کرنے کی اور رسم دنیا کو اہمیت دینے کی جرأت نہیں ہوگی۔ وَفَّقَنَا اللہُ وَإِیَّاکُمْ لِمَا یُحِبُّ وَیَرْضٰی۔
اپنے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام بھی دونوں میاں بیوی کی مشترکہ ذمے داری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے خطاب کرکے فرمایا ہے جس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں:
[يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا] [التحریم6]
’’اے ایمان والو! تم اپنے کو بھی اور اپنے اہل (گھر والوں) کو بھی آگ سے بچاؤ۔‘‘
اسی طرح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’أَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ‘
’’تم سب کے سب نگران اور رکھوالے ہو اور تم سب سے ان لوگوں کی بابت پوچھا جائے گا جن کے تم نگران اور رکھوالے ہو۔‘‘
اسی حدیث میں آگے فرمایا:
’’امام اعظم (خلیفۂ وقت) لوگوں کا رکھوالا ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے گھر والوں کا رکھوالا ہے، اس سے اس کی رعیت (اہل خانہ) کی بابت پوچھا جائے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر والوں پر نگران ہے اور اس سے ان کی بابت پوچھا جائے گا…۔‘‘[2]
قرآن کریم اور فرمان رسول کی رو سے جس طرح میاں بیوی دونوں کو اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانا ہے، اسی طرح دونوں کی یہ ذمے داری بھی ہے کہ اپنی اولاد کو بھی دین کا اور احکام شرعیہ کا پابند بنائیں تاکہ وہ بھی جہنم کا ایندھن بننے سے بچ جائیں۔
’’جس دن آگ میں ان کے چہرے الٹ پلٹ کیے جائیں گے تو وہ کہیں گے:اے کاش! ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی، اور ہم نے رسول کی اطاعت کی ہوتی۔ اور وہ کہیں گے:اے ہمارے رب! بے شک ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی اطاعت کی، تو انھوں نے ہمیں گمراہ کر دیا ۔ اے ہمارے رب! ان کو دو گنا عذاب دے اور ان پر بڑی سخت(اور زیادہ) لعنت کر۔‘‘
جو والدین اپنے بچوں کی دنیوی تعلیم کا ، ان کی پوشاک و خوراک کا، ان کی پر آسائش رہائش کا اور دیگر تمام ضروریات کا اپنی طاقت کے مطابق اہتمام کر تے ہیں جس کی وجہ سے وہ اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرکے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں یا تجارت و کارو بار میں کامیابیاں حاصل کرتے ہیں اور دنیا بھر کی آسائشوں اور سہولتوں سے بہرہ ور ہوجاتے ہیںلیکن وہ دین و شریعت سے نا آشنا اور احکام و فرائض اسلام سے بیگانہ اور غافل رہتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ ان کی دنیا کی چند روزہ زندگی تو آرام و راحت سے گزر جائے گی، لیکن ان کی آخرت کی دائمی زندگی جو برباد ہوجائے گی، اس کی ذمے داری سے والدین کو کس طرح بری قرار دیا جا سکے گا؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایسے بچے قیامت کے دن بارگاہ الٰہی میں یہ عرض کریں جس کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کھینچا ہے۔
[ يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُوْلُوْنَ يٰلَيْتَنَآ اَطَعْنَا اللّٰهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا 66 وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاۗءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِيْلَا 67رَبَّنَآ اٰتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيْرًا 68ۧ ][الأحزاب68-66]
(12)اسلام میں فرصت کے اوقات کو غنیمتسمجھتے ہوئے ان کو زیادہ سے زیادہ اللہ کے ذکر میں، تلاوت قرآن میں، نوافل میں اور اسی طرح کے دیگر نیکی کے کاموں میں صرف کرنے کا حکم ہے کیونکہ انسانی زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ ان لمحات کو لا یعنی مصروفیات میں، لغویات میں اور بے ہودہ لہو و لعب میں برباد کردینا کوئی دانش مندی نہیں ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا ہے:
’’دو نعمتیں ہیں جن کی قدرو قیمت کو نہ سمجھنے والے لوگ زیادہ ہوں گے اور پھر کفِ افسوس ملیں گے (وہ کون سی ہیں؟) صحت اور فرصت۔‘‘
نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِیہِمَا کَثِیرٌ مِنَ النَّاسِ، الصِّحَّۃُ وَالْفَرَاغُ
[3]
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا
فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَاِلٰى رَبِّكَ فَارْغَبْ
الم نشرح 7،8
’’جب آپ فارغ ہوجائیں تو محنت کریں اور اپنے رب ہی کی طرف رغبت کریں۔‘‘
فارغ سے مراد ہے۔ نماز سے، یا دعوت و تبلیغ سے، یا جہاد سے اور اسی طرح کے دیگر فرائض سے فارغ ہوجائیں تو نفلی عبادت اور ذکر و دعا میں اتنی محنت کریں کہ آپ تھک جائیں اورہر معاملے میں اسی کی طرف رجوع اور رغبت کریں۔
دوسرے مقام پر اللہ نے کامیاب ہونے والے مومنوں کی صفات میں ایک صفت یہ بیان فرمائی:
وَالَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ
المؤمنون:13
’’وہ لغو باتوں سے اعراض کرنے والے ہیں۔‘‘
ایک اور مقام پر عبادالرحمن (اللہ کے خاص بندوں) کی خاص صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا
الفرقان:72
’’اور جب کسی لغو کام پر ان کا گزر ہو تو وہ عزت ووقار (خاموشی) سے گزر جاتے ہیں اس میں شریک نہیں ہوتے۔‘‘
لغو کیا ہے؟ لغوہر وہ کام اورہر وہ بات ہے جس کا کوئی فائدہ نہ ہو،یا اس میں دینی یا دنیوی نقصان ہو۔ ان سے اعراض کا مطلب ہے، ان کی طرف التفات بھی نہ کیا جائے چہ جائیکہ انھیں اختیار اور ان کا ارتکاب کیا جائے یا ان میں شرکت کی جائے۔
ہمارے معاشرے میں لغویات یعنی بے فائدہ یا نقصان دہ چیزیں عام ہیں جن کو ہم اختیار کرتے ہیں یا ان میں شرکت کرتے ہیں۔
یہ سب تقاضائے ایمان کے خلاف ہیں۔ مومن مرد ہو یا عورت، بوڑھا ہو یا جوان، ان پڑھ ہو یا تعلیم یافتہ، سب کو ان سے اجتناب کرنا چاہیے اور وہی کام کرنے چاہئیں جن کا کوئی دینی یا دنیوی فائدہ اور شریعت میں ناپسندیدہ نہ ہو۔
علاوہ ازیں ٹیلی ویژن اس دور کی ایسی شیطانی ایجادہے جو متعدد خرابیوں اور نافرمانیوں کا مجموعہ ہے، ان سے معصوم بچوں کے اخلاق و کردار بھی بگڑتے ہیں، بچے دین سے دور ہوتے ہیں، ان کی پڑھائی میں اس سے بہت خلل پڑتاہے، بچوں کی آنکھیں بھی اس سے متاثر ہوتی ہیں، وقت کا ضیاع ہوتا ہے، اس کی وجہ سے راتوں کو دیر سے سونا اور صبح دیر سے اٹھنا معمول بن جاتا ہے جس سے نمازیں بالخصوص فجر کی نماز اکثر ضائع ہوجاتی ہے۔
کیبل اور انٹر نیٹ اور موبائل تو ٹی وی سے بھی زیادہ خطرناک اور مذکورہ خرابیوں کے مظہر ہیں۔ ان سب سے اپنی اولادوں کو بچانا میاں بیوی دونوں کا مشترکہ فریضہ ہے۔ اگر گھر ان لعنتوں سے پاک ہے تو نہ عورت کو ان چیزوں کو لانے اور گھر میں رکھنے کا مطالبہ کرنا چاہیے اور نہ مرد ہی کو بیوی یا بچوں کی خواہش پر ان کا انتظام کرنا چاہیے۔
دونوں کو مل کر بے حیائی کے اس طوفان سے، ایمان و اخلاق کے اس غارت گر سیلاب سے اور الحاد و زندقہ کے اس شیطانی جھکڑ سے اپنے گھر کو اور اپنی اولاد کو بچانے کی سعی کرنی چاہیے۔
موبائل فون بلا شبہ ایک ناگزیرضرورت بن گئے ہیں۔ لیکن موبائل کمپنیوں نے پیسے کمانے کے لالچ میں جو سستے پیکج عام کر دیے ہیں، جس کی وجہ سے چند روپوں ے آپ گھنٹوں باتیں کر سکتے ہیں۔ اس ارزانی نے نوجوان بچوں او بچیوں کے درمیان ناجائز مراسم اور رابطوں کو بہت آسان کردیا ہے۔ اس کے جو خطرناک معاشرتی نتائج نکل رہے ہیں، وہ محتاج وضاحت نہیں۔
بنا بریں نوجوان بچوں، بچیوں کو موبائل رکھنے کی اجازت کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت و نگرانی کا مؤثر انتظام کرنا بھی دونوں میاں بیوی کی نہات اہم ذمے داری ہے۔ اسی طرح کزنوں کے ساتھ اور تعلیمی اداروں میں ایک ساتھ پڑھنے والوں کے ساتھ بچیوں کے تعلقات پر بھی نظر رکھیں۔ ان سے تھوڑا سا میل جول اور معمولی سا ربط و تعلق موبائل کے ذریعے سے پروان چڑھتا ہے اور اس کے ذریعے سے باہم گفتگو اور پیغام رسانی فاصلوں کوکم کرتے کرتے قربتوں اور باہم عہدو پیمان کی راہیں ہموار کر دیتی ہے اور یوں معاملہ کورٹ میرج، سیکرٹ میرج (خفیہ شادی) اور لو میرج تک پہنچ جاتا ہے۔
اولاد کے اس صورت حال تک پہنچنے یا پہنچانے میں والدین ہی کی کمزوری، عدم توجہ اور اولاد کی طرف سے غفلت و بے اعتنائی ہی کا دخل زیادہ ہے اور اس سے وہ بالکل بریٔ الذمہ ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔
%صلہ رحمی کے تقاضے پورے کرنے کے بھی یکساں طور پر دونوں میاں بیوی ذمے دار ہیں۔ صلہ رحمی کا مطلب ہے، رشتے داروں کے حقوق ادا کرنا، ان سے اچھا رویہ اختیار کرنا، قطع رحمی کے باوجود رشتہ و تعلق برقرار رکھنا، حتی کہ بد سلوکی کے جواب میں بھی حسن سلوک کرنا۔ مرد کو چاہیے کہ وہ سسرالی رشتوں کو اور عورت بھی اپنے خاوند کے رشتے داروں سے تعلق کو اچھی طرح نبھائے۔ ان دو طرفہ رشتے داریوں کو تیرے میرے کی بھینٹ نہ چڑھنے دیا جائے، بلکہ دونوں خاندانوں کے ساتھ دونوں میاں بیوی محبت اور احترام کا تعلق قائم رکھیں اور کسی کو بھی شکایت کا موقع نہ دیں۔ اور چھوٹی موٹی باتیں ہوں تو ان کو نظر انداز کریں اور عفو و درگزر سے کام لیں۔
عورت جب نئے گھر میں آتی ہے تو یہاں خاوند کے والدین، اس کی بہنیں اور بعض دفعہ دوسرے بھائیوں کی بیویاں بھی ہوتی ہیں۔ اسی طرح خاوند کا معاملہ ہے جس گھرانے میں وہ بیاہا گیا ہے، اس گھرانے کے افراد سے بھی اس کا تعلق قائم ہوجاتا ہے مرد ہو یا عورت، جس جس سے بھی ان کا تعلق ہو، ان سے تعلقات کو حسب مراتب نبھانا اور حسن اخلاق کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے خوش اسلوبی سے ہر ایک کا حق ادا کرنا نہایت ضروری ہے۔ نہ کسی کی حق تلفی ہو ، نہ کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کا معاملہ اور نہ کسی کی توہین اور بے ادبی اور نہ کسی پر الزام اور بہتان تراشی ، نہ غیبت اور بد گوئی۔ ان سب کا تعلق حقوق العباد سے ہے جن میں کوتاہی اس وقت تک معاف نہیں ہوگی جب تک دنیا میں ان کاا ازالہ نہیں کر لیا جائے گا ورنہ روز قیامت ان کوتاہیوں کی تلافی آپ کی نیکیاں ان میں تقسیم کرکے کی جائے گی، پھر بھی نہیں ہوگی تو ان کے گناہ آپ کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے۔ اس کا جو نتیجہ ہوگا، وہ محتاج وضاحت نہیں ۔ اعاذنا اللّٰہ منہ
جس طرح مرد کے لیے ہم بیان کر آئے ہیں کہ عورت جس طرح شب و روز گھریلو معاملات سر انجام دیتی ہے اور صبح سے رات تک کام میں جتی رہتی ہے بلکہ رات کو خاوند کی خدمت اور خواہش پوری کرنے میں بھی خوش دلی سے تعاون کرتی ہے، مرد کو چاہیے کہ اس کی ان خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کرے، اس سے اس کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے اور مزید محنت سے گھر کو چلانے اور سنوارنے کا جذبہ بھی قوی اور توانا ہوتا ہے۔ اسی طرح عورت کو بھی چاہیے کہ مرد گھر کا انتظام کرنے اور گھریلو ضروریات پوری کرنے میں گھر سے باہر رہ کر جو محنت اور جدو جہد کرتا ہے، اس میں وہ اپنے آرام و راحت کی بھی پروا نہیں کرتا تاکہ گھر والوں کو آرام و راحت نصیب ہو، وہ مرد کی ان خدمات کا اعتراف کرے اور اس کے لیے جذباتِ تشکر کا اظہار کرے۔ یہ شرعاً بھی ضروری ہے اور دنیوی لحاظ سے بھی اس کے بڑے فوائد ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’مَنْ لَمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللّٰہَ‘
[4]
’’جس نے لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کیا، اس نے اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کیا۔‘‘
مذکورہ چند خصوصیات تو وہ ہیں جو مرد اور عورت دونوں میں ہونی چاہئیں۔ یہ گویا اقدار مشترکہ ہیں جن کا دونوں میں ہونا ضروری ہے۔ اب آئندہ صفحات میں ان صفات کا تذکرہ کیا جاتا ہے جو ایک نیک اور مثالی بیوی میں ہونی چاہئیں۔ یہ خوبیاں ہی ایک عورت کو صحیح معنوں میں عورت بناتی ہیں۔ ورنہ ان کے بغیر ایک حسین و جمیل بیوی بھی ایک آفت ہے کیونکہ و ہ حسنِ ظاہر سے تو آراستہ ہے لیکن سیرت و کردار کے حسن باطن سے محروم ہے۔ اور صفات جمیلہ سے مزین عورت، چاہے وہ ظاہری حسن و رعنائی سے محروم ہو، ایک رحمت ہے کیونکہ اس کا باطن اس کے ظاہر سے زیادہ اجلا ہے اور گھر میں اجالا حسن ظاہر سے نہیں، حسن باطن (حسن سیرت) ہی سے ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین دار عورت سے شادی کرنے کی ترغیب دی ہے کیونکہ دین دار عورت ہی ایمان و تقویٰ جیسی صفات سے متصف ہوتی ہے۔ اور یہ ایمان وتقویٰ ایسی خوبی ہے جو انسان کو بہکنے نہیں دیتی اور ایسا شخص نہ حقوق اللہ میں کوتاہی کرتا ہے اور نہ حقوق العباد میں۔ اور جس شخص کو ایسی صاحب ایمان و تقویٰ بیوی مل جائے، اس کو اپنی خوش قسمتی پر نازاں ہونا چاہیے اور اس کی قدر کرنی چاہیے، گو وہ حسن ظاہر سے محروم ہی ہو۔
[1]سنن أبی داود، حدیث: 1308
[2]صحیح البخاري، حدیث:ـ7138
[3]صحیح البخاري، حدیث: 6412
[4]جامع الترمذي، البر والصلۃ، حدیث: 1955
[1] سنن أبی داود، حدیث: 1308
[2] صحیح البخاري، حدیث:ـ 7138
[3] صحیح البخاري، حدیث: 6412
[4] جامع الترمذي، البر والصلۃ، حدیث: 1955
منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…
کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…
اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…
اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…
قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…
فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…