حدیث شریف اور محدثین عظام

میں حدیث سمجھنا چاہتا ہوں مگر کیسے؟

نحمدہ ونصلی علی رسول الکریم اما بعد!

اللہ کا فرمان ہے:

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ

الحشر – 7

 اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ۔

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

اَلْیوْمَ أَکمَلْتُ لَکمْ دینَکمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیکُمْ نِعْمَتی وَرَضیتُ لَکُمُ الْإِسْلامَ دیناً

المائدۃ – 3

آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔

محترم ومعزز سامعین کرام!  مسلمانوں کے  جتنے بھی فرقے ہیں ان تمام کا اس بات   پر اتفاق ہے کہ قرآن مجیداللہ رب العزت کی آخری کتاب ہدایت ہے اور سید کائنات محمد رسول الله ﷺ آخری نبی ہیں۔ ہدایت کے لیے  جو آخری صحیفہ نازل کیا گیا ہے وہ قرآن مجید ہے اورجس  پر نازل کیا  گیا وہ محمد رسول الله ﷺ  ہیں۔ اور نازل ہی نہیں کیا گیا بلکہ الله رب العزت نے آپﷺ  پر سلسلہ نبوت  کا اختتام بھی فرمادیا ہے گویا آپ ﷺ  کے بعد نہ کوئی نبی ہے اور نہ ہی اب آپﷺ  کی امت کے بعد  کوئی اور امت ہے ۔

اللہ رب العزت نے فرمایا:

اَلْیوْمَ أَکمَلْتُ لَکمْ دینَکمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیکُمْ نِعْمَتی وَرَضیتُ لَکُمُ الْإِسْلامَ دیناً

المائدۃ – 3

آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔

اللہ تعالیٰ نے اسی مفہوم کو ایک اور مقام پر اس طرح بیان فرمایا :

تَمَّت كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدقًا وَعَدلاًلَّا مُبَدِّلَ لِكَلِمَـٰتِهِ

الانعام – 115

اور تمہارے پروردگار کی باتیں سچائی اور انصاف میں پوری ہیں اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں۔

 اللہ نے  قرآن میں فرمادیا ہے:

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا

الاحزاب – 40

محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔

اورنبی ﷺ نے بھی یہ بات ارشاد فرمادی ہے:

وأنا آخر الأنبياء، وأنتم آخر الأمم 

کہ میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت۔ رواه ابن ماجة (4077)

 مسلمانوں کے تمام فرقوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن آخری صحیفہ ہدایت ہے اور حضرت محمد ﷺ آخری نبی ہیں اور آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے بلکہ میں کہا کرتا ہوں کے الله سبحانہ وتعالیٰ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں  اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کے ہم اپنی جمع پونجی سنبھال کر چھپا کر بینکوں میں یا گھروں میں رکھتے ہیں اس طرح اللہ تعالیٰ  نے کسی چیز کا ذخیرہ نہیں کر رکھاکیونکہ اللہ رب العزت کو ذخیرہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ الله رب العزت اللہ کے پاس کُن کی ایسی چابی ہے کہ جب  یہ فرمادیتا ہے وہی چیز بن جاتی ہے۔

 إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ

یٰس – 28

جب اللہ چاہے کہ یہاں سے گیس نکل جائے یہاں سے سونا نکل آئے جب اللہ کُن کا لفظ فرمادے وہ چیز ہوجاتی ہے  اللہ کے خزانے ہر چیز کے اعتبار سے کس کے پاس ہے۔

لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ

الشوریٰ – 12

 زمین و آسمان کے خزانوں کی چابیاں الله کے پاس ہیں۔

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کے کہنے کے مطابق اللہ جہاں کُن کی چابیاں لگا دیتا ہے وہ چیز بن جاتی ہے۔ اللہ رب العزت کو خزانے سنبھال کر رکھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن دین کے نام کی کوئی چیز اللہ کے پاس اب نہیں ہے۔ دین کے نام کی ہر چیز اللہ تعالیٰ  نے اپنے پیغمبر محمد رسول الله ﷺ کو بتلا دی اور اللہ کے رسول ﷺ نے بھی وہ ساری باتیں جو الله نے آپ کو بتلائیں ہیں وہ ساری کی ساری بتمام و کمال امت تک پہنچادی اور آپ کو خبردار بھی کیا۔ قرآن میں الله نے فرمایا:

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ

المائدۃ – 67

اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی۔

اگر ایک بات بھی آپ ﷺ نے میری بتلائی ہوئی چھپالی، گویا آپ نے فریضہ رسالت ادا نہیں کیا ۔ یہ حکم کے طور پر اللہ نے نبی ﷺ سے یہ بات فرمائی۔ اس لیے دین  نام کی جتنی باتیں تھیں وہ سب کی سب اللہ نے آپ ﷺ پر نازل کردیں اور آپ ﷺ کو بتلادیں اور آپ ﷺ نے بھی دین کی جتنی بھی باتیں تھیں وہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سمجھادیں۔ حتی کے آپ ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی کہ: کوئی عمل جو اللہ کی رضاجوئی کا باعث ہو اور جنت کے حصول کا ذریعہ ہو ایسا نہیں ہے کہ میں تمہیں بتلا کے نہیں جارہا اور کوئی عمل ایسا نہیں ہے جس سے الله ناراض ہوتا ہو اور انسان کے  جہنم میں جانے کا  موجب بن جائے اور میں تمہیں اس سے خبردار کرکے نہیں جارہا۔ جتنی اللہ کی رضا کی باتیں ہیں وہ بھی تمہیں بتلا کہ جارہا ہوں اور جتنی اللہ کی ناراضگی کے اسباب ہیں ان سے بھی تمہیں آگاہ کرکے جارہا ہوں۔ 

اس لیے دین کے حوالے سے جتنی بھی باتیں تھیں اللہ رب العزت کی عبودیت کے حوالے سے ہیں سب کی سب محمد رسول اللہ ﷺ کو بتلائیں اور آپ ﷺ نے ان باتوں کو اپنے پاس مخفی نہیں رکھا بلکہ امت تک من و عن پہنچا دیا ہے۔ تفصیل میں جانا نہیں چاہتا۔ نبی ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حجۃ الوداع کے موقع پر گواہ بھی بنایا تھا کہ میں نے دین کی تبلیغ پہنچادی ہے اور صحابہ کرام نے بیک زباں ہوکر اس بات کی گواہی دی تھی کہ:

 بلغت الرسالة واديت الامانة

کہ آپ نے دین کو پہنچا دیا ہے اور آپ نے فریضہ رسالت کوادا کردیا ہے نبی ﷺ نے رب ذوالجلال یعنی آسمان کی طرف شہادت والی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے یہ بات عرض کی تھی:

أَللهم أَشْهَدْ

اے اللہ! یہ سارے گواہ ہیں کہ میں نے کوئی چیز اپنے پاس چھپا کر نہیں رکھی۔ جو کچھ اے اللہ تو نے مجھے بتلایا ہے میں نے ان کو بتلادیا ہے۔

ہدایت والی کتاب کونسی ہے وہ قرآن مجید ہے ہدایت کا ذریعہ کون ہے وہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ جس مالک نے آپ پر نازل کیا ہے یا جس ہستی نے آپ کو نبی بنایا ہے اسی ذات نے یہ فرمایا ہے :

مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ

النساء – 80

جو رسول کی اطاعت کرے، اس نے اﷲ کی اطاعت کی۔

وَمَآ اٰتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا

الحشر – 7

اور جو کچھ تمہیں رسول دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو۔

مالک نے کہا ہے جس نے نبی بنایا ہے، اسی قرآن میں ہے۔ اصل میں جھگڑا یا اختلاف یا صحیح رخ اس وقت بدلتا ہے جس وقت ہم قرآن کی اپنی پسند کی تاویلات کے درپے ہوجاتے ہیں۔ جب قرآن کو قرآنی اسلوب سے سمجھیں یا قرآن کو محمد رسول اللہ ﷺ سے سمجھیں، تب اس قسم کے گھپلےاور اس قسم کے  نضاعات پیدا نہیں ہوتے۔ ہم جب قرآن کو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی فقہ یا سوچ کے مطابق سمجھنا ہے تو اس وقت اختلاف رونما ہوتا ہے۔ اس وقت جھگڑا پیدا ہوتا ہے کہ ایک آدمی قرآن مجید کی ایک آیت کو کسی اور اسلوب سے سمجھتا ہے دوسرا کسی اور اسلوب سے سمجھتا ہے۔ پہلے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس آیت کا مفہوم اللہ رب العزت نے بتلایا ہے اور اس کے بارے میں رسول ﷺ نے فرمایا ہے۔ جب اللہ رب العزت نے یہ فرمایا ہے کہ یہ تمارے لیے صحیفہ ہدایت ہے۔ اسی صحیفے میں اللہ رب العزت نے یہ فرمایا ہے کہ جو میرا رسول دے اسے لے لو اور جس سے روکے اس سے رک جاؤ۔ اور اسی صحیفہ میں یہ بھی اللہ نے فرمایا ہے کہ جو میرے رسول کی اطاعت کرے اس نے میری اطاعت کی۔ وہ کوئی جدا اطاعت نہیں ہے۔ یہ مت سمجھنا کہ لا حکم الا للہ۔ حاکم اللہ ہے لہذا اطاعت بھی اللہ ہی کی ہے۔ اسی اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جو رسول ﷺ کی فرمانبرداری کرے گا ،اس نے اللہ کی فرمابرداری کی۔ جس حاکم نے اپنی حاکمیت کا اعلان کیا ہے اسی حاکم مطلق نے اپنے نبی ﷺ کے بارے میں فرمایا ہے:

وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَه فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا

الاحزاب – 71

اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔

 اسی کے مقابلے میں اللہ رب العزت نے یہ بھی فرمایا ہے کہ :

وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا

الاحزاب – 36

 اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو وہ صریح گمراہ ہوا۔

جس طرح ایک مسلمان کی کامیابی وکامرانی اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی اطاعت میں ہے اسی کے پہلو باپہلو اللہ رب العزت نے قرآن میں یہ بھی فرمایا ہے ۔

وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ

الجن – 23

اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے وہ کہاں جائے گا؟ جہنم میں جائے گا۔

 اللہ کی نافرمانی جس طرح جہنم میں لے کر جاتی ہے اسی طرح  اللہ کے رسول ﷺ کی نافرمانی بھی جہنم میں لے کر جاتی ہے۔ یعنی یہ نہیں کہ اللہ کی نافرمانی تو جرم ہے  اور رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کوئی جرم نہیں ہے۔ لہذا ہمیں قرآن کی تابعداری کرنی چاہیے کسی اور کی تابعداری نہیں کرنی چاہیے۔

یہ جو فکر بعض حضرات دیتے ہیں(انکار حدیث کی فکر)۔ قرآن مجید کے انہی نصوص کے یکسر مخالف اور منافی ہیں جن کی کتاب ہدایت کو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ پر نازل کیا اور جس اللہ نے آپ کو نبی بنایا ہے اسی مالک نے اپنے نبی ﷺ کا یہ منصب اور یہ مقام بھی بیان فرمایا ہے۔ بلکہ اگر گہری نظر سے دیکھا جائے اور سوچا جائے تو قرآن مجید کا ثبوت بھی نبی کریم ﷺ کی وضاحت کا مرحون منت ہے۔ اللہ نے قرآن عربی مبین میں نازل کیا ۔ نبی ﷺ کی زبان مبارک عربی مبین تھی۔  حضور ﷺ خود فرماتے ہیں:

انا افصح العرب

کہ اہل عرب میں میں فصیح اور بلیغ ہوں۔ مجھ سے زیادہ عرب میں کوئی فصاحت اور بلاغت کا مالک نہیں۔ بڑے بڑے فصیح اور بلیغ شعراء گزرے ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ فصاحت اللہ کے  کلام اور نبی ﷺ کے کلام میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کی طرح آپ ﷺ کے مختصر الفاظ میں پوری دنیا کی فلاح بیان ہوئی ہے کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ  :

أعطيت جوامع الكلم

صحیح المسلم

مجھے اللہ نے جوامع الکلم عطا فرمائے ہیں ۔

کلمات  تھوڑے ہوتے ہیں لیکن اس میں جامعیت اور معنویت اور گہرائی بڑی وسیع ہوتی ہے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ قرآن اللہ تعالی نے نازل فرمایا،جبرائیل لےکر آئے، جبرائیل نے قرآن کو بیت اللہ کی دیوار پر تو نہیں رکھا، وہ نبی ﷺ کو پڑھایا ہے،اب نبی بتاتے ہیں کہ یہ جو اب میں پڑھ کر سنا رہا ہوں کہ یہ اللہ کا کلام ہے، اللہ کا نازل کیا ہوا ہے۔ اب یہ  کہ قرآن کا اس اعتبار سے ثبوت کس کی بناء پر ہے؟؟ یقیناً نبی ﷺ کے فرمان کی بناء پر۔ یوں کہنا چاہیے کہ جب تک آپ کی حدیث کا اعتباراور اعتماد نہ کیا جائے اس وقت تک قرآن مجید کا ثبوت بھی محتاج دلیل بن کر رہ جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے یہ قرآن ہے یہ جبرائیل مجھ پر لے کر آئے ہیں۔ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو بلا کر اس کی کتابت کروائی ہے۔ یعنی اس کو لکھوایا ہے۔ یہ سارا کام آپ ﷺ  کی وجہ سے ہوا ہے۔ قرآن مجید کا ثبوت بھی آپ  کے بتلانے سے ہے۔ قرآن مجید نے تو خود بول کر نہیں کہا  یا جبرائیل علیہ السلام نے آکر تو کسی کو نہیں بتلایا جبرائیل علیہ السلام نے تو نبی ﷺ کو آکر بتلایا ہے۔

دوسری بات یہاں یہ سمجھیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ﷺ قرآن مجید کے الفاظ نازل کیے تو کیا قرآن مجید کے الفاظ یہی قرآن ہے یا اس کے مفاہیم وہ بھی اس میں شامل ہیں۔ قرآن کے الفاظ تو اللہ کا کلام ہے لیکن اس کا جو مفہوم ہے میں اپنی مرضی سے جو چاہوں اس کو منتخب کروں اور اس کی تعبیر جو چاہوں اختیار کروں۔ کیا یہ قرآن مجید کی تفہیم یا اس کی تعبیر درست ہوگی؟۔ اس قرآن کے مفاہیم یا اس کی تعبیر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو بتائی ہے یا نہیں؟؟ تو یہ دوسرا مسئلہ معلوم ہوتا ہے  کہ قرآن مجید کے صرف الفاظ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہیں بتلائے بلکہ قرآن کے الفاظ کی تعبیر، اس کی تفہیم، ان سب چیزوں سے بھی اللہ نے آپ کو آگاہ کیا ہے جس طرح  قرآن مجید میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ بیان فرماتے ہیں:

وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ

النحل – 44

کہ ہم نے قرآن آپ پر نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کو بیان کریں جس طرح ہم نے اس کو نازل کیا ہے۔

یا جس طرح قرآن مجید میں دوسرے مقام پر ہے کہ جب نبی ﷺ کے پاس جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آتے تھے تب نبی ﷺ ہر بات کو دہرانے کی کوشش کیا کرتے تھے  جس طرح استاد شاگرد کو پڑھاتا ہے اسی طرح شاگر سبق کی دہرائی کرتا ہے تاکہ الفاظ کی اسی طرح ادائیگی ہوسکے، اس کو سمجھا جاسکے، نبی ﷺ  بھی جبرائیل کے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے۔

اللہ رب العزت نے کیا فرمایا:

لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ‎﴿١٦﴾‏ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ‎﴿١٧﴾‏ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ‎﴿١٨﴾‏ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ

القیامة – 16/17/18/19

(اے نبی) آپ قرآن کو جلدی (یاد کرنے) کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔ اس کا جمع کرنا اور (آپ کی زبان سے) پڑھنا ہمارے ذمہ ہے۔ ہم جب اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں۔ پھر اس کا واضح کر دینا ہمارے ذمہ ہے۔

 گویا قرآن کو اللہ نے محفوظ کیا ہے اور جو بھی بیان کیا ہے وہ بھی اللہ نے ہی کیا ہے کہ اس کا مفہوم،تعبیر،تشریح گویا  قرآن کے الفاظ کے معنے نبی ﷺ نے سمجھائے ہیں۔  

دیکھیے عربی زبان کے مفہوم ہم عربی زبان کی لغات سے مقید کر سکتے ہیں لیکن کئی چیزیں ایسی ہیں جن کی تعلیم یا جن کی تعبیر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو خود عربی زبان کے ماہر تھے یعنی عربی زبان سے واقف تھے وہ بھی نہ سمجھ پائیں۔ قرآن مجید کے الفاظ کو اس کی تعبیر کو صحابہ بھی سمجھ نہ پائے اور انہوں نے نبی ﷺ سے پوچھا  کہ اس آیت کا مطلب کیا ہے۔ مثال کے طور پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:

 الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ

آل عمران – 82

جو مومن ہیں اور اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کا ارتکاب نہیں کرتے ان کے لیے امن ان کے لیےکامیابی ہے۔

صحابہ کرام کہنے لگے کہ یہ اللہ رب العزت نے فرمایا ہے۔ ہم میں کون ہے کہ جس سے اللہ کی نافرمانی نہ ہو۔ ہم ایمان لائے، نبی ﷺ کی فرمانبرداری بھی کی لیکن انسان ہیں، غلطی ہم سے ہوسکتی ہے اورغلطی ہوئی بھی ہے۔ قرآن مجید نے ہماری غلطیوں پر ٹوکا بھی ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ہم امن کے مستحق نہیں ہیں۔ پھر ہماری تو ہدایت ابھی تک مشکوک ہے کیونکہ اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور کسی پر ظلم نہیں کرتے بلکہ پکے رہتے ہیں نافرمانی نہیں کرتے یہی لوگ امن والے ہیں۔ تب نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہاں ظلم سے مراد عام گناہ نہیں ہے۔ اس سے مراد شرک ہے۔ یعنی ایمان لانے کے بعد لوگ پھر شرک کا ارتکاب نہیں کرتے  جس طرح قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا

حم السجدۃ – 30

جو کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے جو اس پر قائم رہتے ہیں  ۔

یہاں پر حضرت ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھا:

 ثُمَّ اسْتَقَامُوْا

کا کیا مطلب ہے؟ کہا گیا کہ جو نافرمانی نہیں کرتا۔ فرمایا کہ یہ نہیں معنی یہ ہے کہ وہ ایمان پر استقامت دکھاتا ہے یعنی وہ پھر کفر و شرک کی راہ پر نہیں چلتے۔ پتا یہ چلا کے ظلم سے مراد شرک ہے اور شرک کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ

لقمان – 34

بےشک شرک بہت بڑا ظلم ہے ۔

اب یہ آیت قرآن مجید کی ہے صحابہ کے سامنے نازل ہوئی اور اس آیت کے بارے میں  الجھاؤ پیدا ہوا۔ اب اس الجھاؤ سے نکالنے والے کون ہیں؟ وہ جناب محمد رسول اللہ ﷺ ہیں ۔

اسی طرح آپ دیکھیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ بات ارشاد فرمائی ہے:

وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰه فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ

التوبة – 123

اور جو لوگ خزانہ جمع کرتے ہیں، سونا چاندی سنبھال کر رکھتے ہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے فرمایا کہ انہیں عذاب الیم کی وعید سنادو کہ عذاب انہیں اللہ رب العالمین کی طرف سے پہنچے گا ۔

اب کنز کے معنیٰ سنبھالنا یعنی جمع کرنا ہے تو اس کا کیا مفہوم ہے کہ ہم کوئی پیسہ اپنے پاس نہ رکھیں؟ سارا پیسہ اللہ کی راہ میں خرچ کردیں۔ اگر تو سارا پیسہ خرچ کرنا فرض ہے تو جس شخص کے گھر میں کوئی جمع پونجی ہے تو وہ پھر اللہ کے عذاب سے گھر گیا۔ اب اس آیت کو سمجھنے کے لیے صحابہ کرام نے نبی ﷺ کی طرف رجوع کیا۔

اللہ کے رسول ﷺ کچھ فرمائیے کہ ہمارے پاس گھر میں کچھ نہ کچھ بچا ہوا رہتا ہے۔ ہر چیز تو ہم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کردیتے۔ اگر تویہی صورت ہے تو عذاب سے بچنے کا ذریعہ کیا باقی رہا؟ تو نبی ﷺ نے یہاں پر بھی اس آیت کے معنی ومفہوم کی وضاحت کردی کہ: جس مال کی زکوۃ ادا کردی جائے وہ صدقۃ الفطر نہیں رہتا۔ نبی ﷺ نے اس آیت کی بھی وضاحت کردی ہے۔ تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اس آیت کی وضاحت کو سمجھ نہ پائے تھے۔

صحابہ کرام تو یہ سمجھ رہے تھے کہ کنز کا معنی جمع کرنا اور انفاق فی سبیل اللہ، اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ کہ یہ دونوں مفاہیم آپس میں متضاد ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرات صحابہ کرام کو یہ بات سمجھا دی کہ کنز سے مراد وہ مال ہے جس کی زکوۃ نہ دی جائے ۔

ایک عام مثال اور دیکھ لیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْا اَیْدِیَهُمَا

المائدۃ – 120

چور مرد ہو یا عورت ہو تو دونوں کے ہاتھ کاٹے جائیں ۔

اب ہم کہتے ہیں کہ چوری ایک لاکھ کی بھی ہے اور ایک درھم کی بھی۔ چوری تو بہرحال چوری ہے کوئی ایک روپیہ بھی چوری کرتا ہے تو چوری ہی کہلائی گی یہ تو نہیں کہ وہ چور نہیں۔ تو اب قرآن مجید کی آیت کے تناظر میں یہ لازم آئے گا جس نے ایک پائی یا ایک روپیہ بھی چوری کر لیا اس کا بھی ہاتھ کاٹا جائے۔

اس مسئلے کہ بارے میں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے وضاحت چاہی تو نبی ﷺ نے فرمایا: ربع دینار تک اگر کوئی چوری کرتا ہے تب اس کے ہاتھ کاٹنا ہے  اگر اس سے کم کی چوری کرتا ہے تو وہ چور نہیں ہے ۔

افسوس کی بات ہے کہ کچھ لوگ اپنی مرضی سے قرآن کو سمجھتے ہیں، جناب محمد عربی ﷺ سے قرآن سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ جس طرح پہلے بیان کرچکا ہوں ان میں سے ایک گروہ نے اس آیت کا یہی معنی کیا کہ جو چور ہے اس کا ہاتھ کاٹا جائے۔ خارجیوں کا یہی موقف ہے کہ جس نے ایک درھم کی چوری کی یا ایک روپے کی یا ایک لاکھ کی لہذا یہ چوری ہے تو چور کی سزا اللہ رب العزت نے جو مقرر فرمائی ہے کہ چور کے ہا تھ کو کاٹا جائے۔ لیکن جب نبی ﷺ نے اس بات کی وضاحت کردی وضاحت کرنے کے بعد اس بات کا عموم مطلب لینا بلکل درست نہیں بلکہ غلط ہے۔

جس رب نے آپ پر یہ قرآن مجید نازل کیا ہے اسی ہستی نے آپ ﷺ کو نبی بنایا ہے، اسی ہستی نے آپ ﷺ کی یہ حیثیت متعین کی ہے کہ آپ ﷺ کی من و عن اطاعت کی جائے کہ جو آپ قرآن مجید کی تعبیر اور تاویل بیان کریں اس کو اعتراف یعنی اس کو تسلیم کرلیا جائے ۔

دیکھیں ایک بات کو سمجھیں کہ رسول کو رسول ماننے کا تقاضا کیا ہے؟؟ ایک ہے کہ رسول جاننا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور دوسرا کہ ماننا کہ آپ ہی اللہ کے رسول اور پیغمبر ہیں۔ ان دونوں معنوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے کہ رسول جاننا ضروری نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کو ماننا ضروری ہے جب تک اطاعت نہ کی جائے اس کو جاننے کا کوئی فائدہ نہیں ہے  ۔

ابو طالب نے کہا تھا :

قد علمت ان دین محمد
من خیر ادیان  البریة دینا

دنیا میں جتنے بھی دین ہے ان میں سے سب سے بہتر دین محمد عربی ﷺ کا ہے ۔

اب ابو طالب نے رسول اللہ ﷺ کے دین کو جانا تو ہے لیکن مانا نہیں ہے۔

  بلکہ یہودیوں کے بارے میں قرآن نے کہا ہے کہ وہ اللہ کے نبی کو جانتے تھے لیکن مانتے نہیں تھے۔

یَعْرِفُوْنَه كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُم

البقرۃ – 286

کہ جانتے ہیں اور پہچانتے ہیں اپنی اولاد کو۔

یعنی یہودی جس طرح اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ جم غفیر ہو اس میں یہ اپنی اولاد کو جس طرح جان لیتے ہیں اور پہچان لیتے ہیں اس طرح یہودی آپ کو اور آپ کی سچائی کو جانتے ہیں  ۔

بلکہ وہ عیسائی جس نے ایک سو شخصیات پر کتاب لکھی اس نے بھی تو سب سے پہلے عظمت اور اولیت کے اعتبار سے محمد رسول اللہ ﷺ کوفوقیت اور فضلیت دی۔

ہندوستان کے ایک بلورام نے بڑا عجیب جملہ کہا کہ :

محمد پہ مسلم کا کوئی ایجارہ تو نہیں ہے ہم بھی محمد کی عظمت کو مانتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں ۔

محمد ﷺ صرف مسلمانوں کے نہیں ہیں بلکہ ہمارے بھی ہیں۔

ایک چیز ہے جاننا، وہ ضروری نہیں ہے بلکہ اصل چیز تو ماننے کی ہے کہ اس کی تابعداری کی جائے بلکہ اس کی ہر چیز کو ماننا جائے اس پر عمل بھی کیا جائے  ۔

اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے فرمایا  ہے کہ :

فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي

ابراھیم – 36

جو میرا ہے وہ میرا تابعدار ہے۔

گویا نبی ﷺ کو تو وہ جو نبی کا تابعدار ہے دعوے تو یہودی بھی کرتے تھے عیسائی بھی کرتے تھے حتی کے مکہ کے مشرک بھی کرتے تھے کہ ابراہیم علیہ السلام ہمارا ہے ۔

اللہ نے کیا فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام کس کا ہے ۔

مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

آل عمران – 67

ابراہیم تو نہ یہودی تھے نہ نصرانی تھے بلکہ وه تو یک طرفہ (خالص) مسلمان تھے، وه مشرک بھی نہیں تھے۔

جو جانتا ہے کہ یہ نبی ہیں۔ خالی جان لینا نجات کا سبب نہیں بلکہ ان کو ماننا ہی نجات کا سبب ہے۔ اور نبی کا وہی ہے جو نبی کا تابعدار ہے، نبی کا فرمانبردار ہے نبی ﷺ نے بھی یہی بات ارشاد فرمائی ہے۔

صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ فرشتے آپ ﷺ کے پاس آگئے اور کچھ آپ ﷺ کے سر کے پاس کھڑے ہوگئے اور کچھ پاؤں کے پاس کھڑے ہوگئے اور آخر میں فرشتوں نے کہا۔

محمد فرق بین الناس

لوگوں کے درمیان فرق کرنے والے محمد ﷺ ہیں ۔

اللہ کے نبی ﷺ کو ماننا یہ مسلمانی ہے اور آپ کا انکار یہ غیر مسلمانی ہے۔ یعنی جس کو آپ جائز کہیں گے وہ جائز ہے جس کو آپ ناجائز کہیں گے وہ ناجائز ہے ۔

حلال و حرام کا پرکھنا کس سے ہے؟ وہ آپ ﷺ سے ہے۔ جو آپ ﷺ حلال بتائیں گے وہ حلال اور جو حرام  بتائیں گے وہ حرام ہے ۔

اللہ کے نبی ﷺ کا فرمان :

 من تبعنی فقد اطاع الله، ومن عصاني فقد عصى الله

جس نے محمد ﷺ کی اتباع کی گویا اس نے اللہ کی اتباع کی جس نے اللہ کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی گویا اس نے اللہ کی نافرمانی کی  ۔

یعنی نبی ﷺ کا کہنے کا بھی یہی مقصد تھا۔ بلکہ فرمایا:

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «كل أمتي يدخلون الجنة إلا من أَبَى». قيل: ومَنْ يَأْبَى يا رسول الله؟ قال: «من أطاعني دخل الجنة، ومن عصاني فقد أَبَى».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “میری امت کے سب لوگ جنت میں جائیں گے، ماسوا ان کے جنھوں نے انکار کیا”۔ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! انکار کرنے والے کون ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: “جس نے میری اطاعت کی، وہ جنت میں جائے گا اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے انکار کیا (یعنی وہ جنت میں نہیں جائے گا۔)” صحیح البخاری

دراصل میں عرض کر رہا تھا کہ اللہ کے رسول ﷺ کی پیروی کا حکم اللہ رب العزت نے دیا بلکہ یہ حیث، یہ مقام، آپ کوکسی امتی نے نہیں بلکہ اللہ رب العزت نے دیا ہے۔  امت نبی کریم ﷺ کو کیا مقام دے گی؟ وہ تو خود متبع ہے۔

رسول اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان واسطہ ہوتا ہے۔ جو بات اللہ رب العزت بیان کرتے ہیں من و عن وہی بات اللہ کے رسول اس کے بندوں تک پہنچادیتے ہیں۔ صرف الفاظ ہی نہیں پہنچاتے بلکہ اس کے مفاہیم اور اس کی تشریح اور اس کی توضیح اور محل استدلال بھی بیان فرماتے ہیں ۔

جس مالک نے آپ کو اتنا مقام اور منصب دیا اور آپ ﷺ پر قرآن اتارا اسی مالک نے ایک اور بات ارشاد فرمائی۔ اللہ رب العزت نے نبی کریم ﷺ کے پاکباز صحابہ کرام کے ایمان کے بارے میں یہ بات بیان فرمائی۔

فإن آمنوا بمثل ما آمنتم به فقد اهتدوا

اگر یہ اس طرح ایمان لے آئے کہ جس طرح صحابہ ایمان لائیں ہیں ۔

لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ

البقرۃ – 136

جس طرح عیسائی حضرت عیسی کے منکر اور یہودی حضرت موسی کے منکر اور مشرکین محمد عربی ﷺ کے منکر، اور ایمان کیا ہے؟ ایمان یہ ہے کہ  تمام رسولوں کو مانا جائے، تمام کتابوں پر ایمان لایا جائے،  تمام فرشتوں کو مانا جائے۔ ایک رسول کا انکار تمام رسولوں کا انکار،ایک کتاب کا انکار تمام کتابوں کا انکار۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے پچھلی قوموں کے متعلق فرمایا ہے جسطرح نوح علیہ السلام کی قوم کے بارے میں فرمایا ہے کہ :

كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ الْمُرْسَلِیْنَ

الشعراء – 105

قوم نوح نے بھی نبیوں کو جھٹلایا۔

جب کہ نوح علیہ السلام کی قوم نے تو صرف نوح علیہ السلام کا انکار کیا تھا ۔ اس لیے اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ایک رسول کا انکار تمام رسولوں کا انکارہے۔

ایمان کی شرط میں یہ شامل ہے کہ جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تمام انبیاء کو، رسولوں کو، تمام کتابوں کو اور فرشتوں کو مانا ہے اسی طرح ہمیں بھی ماننا ہے۔

دوسری چیز صحابہ کرام کے بارے میں اللہ رب العزت نے بیان فرمائی :

وَالسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّـذِيْنَ اتَّبَعُوْهُـمْ بِاِحْسَانٍ

التوبة – 100

وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ

النساء – 115

اب جہنم میں جانے کا ذریعہ اور سبب جو قرار دیا ہے اللہ نے اس آیت میں وہ کیا ہے  وہ دو چیزیں ہیں۔

  • ایک تو اللہ کے رسول ﷺسے انحراف
  • سبیل المؤمنین سے انحراف

اس کو سمجھانے کے لیے نبی ﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے پچھلی امتیں بھی گروہوں میں بٹ گئیں۔ میری امت بھی گروہوں میں بٹ جائے گی۔ اس میں سارے کے سارے گروہ جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے۔ صحابہ نے سوال کیا وہ ایک گروہ کونسا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا  :

ما انا علیہ واصحابی الیوم

کہ آج جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں۔

یعنی اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جو انسان اللہ کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق عمل نہیں کرے گا تو وہ جنت میں نہیں جائے گا بلکہ سزا بگھتنے کے بعد جنت میں داخل ہوگا۔ لہذا ہمیں اللہ کے نبی ﷺ کی تعلیمات کو من وعن ماننا چاہیے اور تسلیم کرنا چاہیے ۔

عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ قرآن مجید نے ہمیں سبیل المؤمنین پرعمل کرنے کا بھی حکم دیا ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ہٹ کر کوئی راستہ یا طریقہ اختیار کرو گے تو نہ کوئی عمل قابل قبول ہوگا اور نہ ہی ایمان قبول ہوگا ۔ جس طریقے پر صحابہ نے عمل کیا من و عن ہم اسی طریقے تو اپنائیں گے تو ہمارا ایمان بھی قبول ہوگا اور عمل بھی۔ اس سے فرد واحد مراد نہیں ہے اور اصحابی کالنجوم والی حدیث صحیح نہیں ہے ایک ایک فرد مراد نہیں بلکہ سبیل المؤمنین مراد ہیں۔ قرآن مجید نے جس بات کی وضاحت کی ہے۔

یہی ایک بنیادی بات ہے کہ اللہ کے کلام کو سمجھنے کے لیے صراط مستقیم کو پانے کے لیے کہ دیکھنا ہے قرآن مجید کے ساتھ نبی ﷺ کی احادیث کو آپ کی توضیحات کو اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طرز عمل کو اپنانا ہوگا۔

اس فکر سے ہٹ کر نبی ﷺ کے انتقال کے بعد سب سے پہلا جو فتنہ رونما ہوا وہ انکار زکوۃ کا تھا،ارتداد کا فتنہ تھا۔ اورارتداد کے فتنے میں ایک گروہ تو زکوۃ کا منکر تھا، انہوں نے جو انکار کیا تھا زکوۃ کا ان کے بارے میں اس کا استدلال قرآن مجید سے تھا وہ کہتے تھے کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ:

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ

التوبة – 103

کہ اللہ نے نبی ﷺ کو حکم دیا ہے کہ ان سے صدقہ لیں اور زکوۃ لیں اور ان کے حق میں دعائے خیر بھی کریں اور آپ کی دعا ان کے لیے نجات کا سبب ہے۔

کہ اب اللہ کے رسول ﷺ اس دنیا میں نہیں رہے۔ لیکن انہوں نے اس کا مفہوم سبیل المؤمنین سے نہیں سمجھا یعنی انہوں نے اس کا انکار کیا تھا۔ سبیل المؤمنین یہ تھا جو مال صدقہ یا زکوۃ نکلے وہ بیت المال میں جمع کروانا تھا۔ ان کا انکار بیت المال پر جمع کروانے سے تھا۔ یعنی سبیل المؤمنین کا انکار کیا۔

اسی طرح آپ دیکھیں صحابہ کرام کے دور میں ہی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں جو دو جنگیں ہوئی ہیں۔ ایک جنگ جمل دوسری جنگ صفین۔ ان دو جنگوں کی وجہ سے  پھر جو امت میں اختلاف ہوا ہے، تاریخ کے کسی طالب علم سے مخفی نہیں ہے۔  لیکن جو میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ان جنگوں کے تناظر میں جو دو فکریں پیدا ہوئیں وہ یہ تھیں کہ بعض کہتے ہیں جناب یہ آپس میں قتال کرتے ہیں قرآن نے کیا کہا :

وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ

النساء – 93

قرآن میں یہ ہے کہ آپس میں یہ سب قتال کرنے والے سب  کے سب جہنمی ہیں۔

ایک گروہ نے کہا کہ جنگ صفین میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ان دونوں کے آپس میں جب مصالحت ہوئی تو حضرت عمروبن عاص رضی اللہ عنہ کو اور حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کو حکم بنایا گیا۔ تو دس ہزار افراد نے یہ کہا کہ قرآن میں تو اللہ رب العالین نے یہ فرمایا ہے کہ:

إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ

یوسف – 40

قرآن میں تو یہ ہے کہ حاکم تو اللہ ہے لیکن جناب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے تو جناب حضرت عمروبن عاص رضی اللہ عنہ کو حاکم تسلیم کرلیا اورعلی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کو حاکم مقرر کرلیا۔ معاذاللہ انہوں نے اللہ کے ساتھ شرک کیا۔ نعوذ باللہ علی،معاویہ ،عمروبن عاص،ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہم یہ سب مشرک ہوگئے۔ استدلال دونوں کا  قرآن مجید سے ہے۔ اب تعجب کی بات یہ ہے کہ جو آپس میں لڑتے ہیں وہ تو نہ ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں، نہ مشرک کہتے ہیں، نہ گمراہ کہتے ہیں۔ لیکن یہ اپنی سوچ کے مطابق اِن لڑنے والوں کے متعلق یہ فیصلہ کر رہے ہیں۔

صحابہ نے ایک دوسرے کو کافر کہا نہ گمراہ۔ بلکہ جب جنگ صفین سے واپس گئےتو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اللہ سے دعا کی: یا اللہ تو ہمیں بھی معاف فرما اور ان کو بھی معاف فرمادے۔  جب ان سے پوچھا گیا کہ جو ہم  میں سے مارے گئے ہیں یا ان میں سے مارے گئے ہیں؟ کہا کہ اللہ ہم دونوں کے مرنے والوں کو جنت میں جگہ دے گا ۔ان شاءاللہ

 جو اپنی سوچ سے قرآن کے مفہوم کو سمجھ کر ان پر گمراہ ہونے کا فتویٰ لگا رہے ہیں ان کی سوچ سبیل المؤمنین کی نہیں انہوں نے قرآن کی آیت کے مفہوم کو اپنی سوچ پر رکھ کر سمجھا جو اللہ کے نبی ﷺ نے ہمیں طریقہ سمجھایا اور بتلایا اس  کو نہ سمجھنے کا یہ نتیجہ ہے کہ اس طرح کے فتنے اور اختلافات رونما ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے:

وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ

النساء – 115

انہوں نے قرآن کو سمجھنے کی کوشش تو کی لیکن کسی اور راستے سے کی۔ اس راستے سے نہ کی جس کا طریقہ اللہ کے نبی ﷺ نے بتلایا۔ یہ لو گ گمراہ ہیں ان کا طریقہ غیر سبیل المؤمنین ہے۔

جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپس میں لڑتے ہوئے ایک دوسرے کو کچھ نہیں کہتے تو ہم کیوں آپس میں بیٹھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے بارے میں تبرا بازی کریں، ان کو برا بھلا کہیں۔

ایک دن حضرت علی رضی اللہ عنہ مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک خارجی آیا اور اونچی آواز سے یہ آیت پڑھنے لگا :

إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ

المائدۃ – 72

وہ خارجی کہتا ہے کہ اللہ نے فرمایا نعوذ باللہ کہ مشرک پر جنت حرام ہے ۔

(مطلب یہ ہے اس خارجی کا )علی! تم نمازیں پڑھتے رہوتم نے کون سا جنت میں جانا ہے؟؟( نعوذباللہ۔ اناللہ وانا الیہ راجعون) اس قدر گمراہی !!کس چیز کو چھوڑ کر؟؟ سبیل المؤمنین کو چھوڑ کرقرآن مجید کو اپنی سوچ اور اپنی فکر کے مطابق سمجھنے کے نتیجے میں ایسا ہوا اور عام طور پر ہر برے فرقے کی یہی بنیاد رہی ہے ۔

آپ دیکھیے!!  بعد کے دورمیں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے:

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ

القیامة – 22

اس روز بہت سے چہرے تروتازه اور بارونق ہوں گے۔

قیامت کے دن کچھ چہرے تروتازہ ہوں گے اور اللہ سبحانہ وتعالی کی زیارت کریں گے۔

تما م صحابہ کرام اس بات پر متفق ہیں کہ قیامت کے دن  اللہ کی زیارت ہوگی۔ نبی ﷺنے ارشاد فرمایا :

إنكم سترون ربكم كما ترون القمر لا تضامون في رؤيته ، فإناستطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وصلاة قبل غروب الشمس فافعلوا

صحیح البخاری، کتاب التوحید، حدیث رقم: 7434

نبیﷺ نے فرمایا کہ تم اللہ کو کل قیامت کے دن دیکھو گے جس طرح چودھویں کے چاند کو دیکھتے ہو۔

لیکن کچھ گروہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث خبر واحد ہے لیکن قرآن مجید کی آیت قطعی ثبوت ہے لیکن قطعی دلیل نہیں ہے۔ اب یہ خالص فقہی اصلاحات ہیں یعنی قرآن مجید قطعی تو ہےمگر

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ

القیامة – 22

کی دلالت استدلال کے حوالے سے قطعی نہیں اس میں احتمال ہے کہ

إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ

القیامة – 23

اس میں اللہ کی رحمت مراد ہے اللہ کا دیدار مراد  نہیں ہے۔ اب یہ تاویل قرآن و حدیث کی بات کو سمجھ کر خبر واحد سے اس کا انکار کرنا یہ کس کے خلاف ہے؟ یہ سبیل المؤمنین کے خلاف ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اور سب صحابہ نے یہ سمجھا، کسی ایک صحابی کا بھی اختلاف نہیں ہے کہ جنت میں اللہ رب العالمین کا دیدار نصیب ہوگا بلکہ ایک اللہ والے نے تو عجیب بات کہی :

ماطابت الدنيا إلا بذكرہ و ماطابت الآخرة إلا بعفوہ و ماطابت الجنة إلا برؤيته

دنیا میں کوئی فائدہ نہیں ہے اگر دنیا میں اللہ کا ذکر نہیں ہے اور آخرت کی کوئی خوشی نہیں ہے کہ اللہ ذوالجلال کی طرف سے معافی نہ مل جائے اگر محاسبہ شروع ہوگیا تو کون بچے گا ۔

ومَن نُوقِشَ الحِسابَ هَلَكَ

اگر مناقشہ شروع ہوگیا تو کون بچے گا؟ اگر اللہ نے پوچھ لیا یہ گناہ کیوں کیا تو ہم ہلاک ہوگئے ۔

اس سے بہتر یہ ہے کہ اللہ ہمیں معاف فرمادے۔ اور جنت میں جانے کا بھی اصل لطف تب ہی ہے جب اللہ کا دیدار ہو۔ یہ آنکھوں سے جو آنسو گرتے ہیں اور یہ صرف اللہ کے لیے ہی گرتے ہیں۔ یہاں بڑی ہی ایک دلچسپ بات ہے ہمارے ہاں جو لوگ صوفی ہوتے ہیں جو علم سے نا آشنا ہوتے ہیں۔ انہیں علم کا صحیح فہم حاصل نہیں ہوتا وہ کہتے ہیں:

اللہ سے اللہ کو مانگو، اللہ سے جنت کو نہ مانگو۔ اور مولوی صاحب مخلوق کے پیچھے پڑا رہا خالق کے پیچھے نہیں جارہا۔ خالق سے خالق کی محبت کو مانگو لیکن تم پھر بھی جنت کو مانگتے ہو یعنی تم مخلوق سے پیچھے ہی نہیں ہٹتے۔

شیخ الاسلام اما م ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

صوفی صاحب بات تو آپ نے بہت اونچی کہی لیکن علم نہیں تھا۔ اس نے اس لیے یہ بات کہی ہے کہ فرماتے ہیں: جنت اس لیے ہے کہ جنت محل دیدار محبوب ہے کیوں کہ محبوب سے ملنا ہے اس لیے جنت کی تڑپ ہے اور طلب بھی ہے۔ اور کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ ہمیں جنت نہیں چاہیے بلکہ ہمیں بغداد کی گلیاں چاہییں۔

اللہ کے نبی ﷺ نے ریاض الجنہ میں بیٹھ کر اللہ سے جنت کو مانگا:

اللهم إني أسألك الفردوس الأعلى من الجنة

اے اللہ میں تجھ سے جنت الفردوس کا سوال کرتا ہوں ۔

یعنی جنت کو مانگنا ہی چاہیے کیوں کہ جنت ملے گی تو ہم اللہ کا دیدار کریں گے۔ اس کے بغیر کیسے ممکن ہے؟ بلکل آپ کے علم میں ہوگا کہ کس طرح حضرت موسی علیہ السلام نے دنیا میں اللہ کا دیدار کرنے کی کوشش کی تھی لیکن دیکھ نہ سکے اس لیے دنیا میں تو نہ ممکن ہے بلکہ کل قیامت کے دن ممکن ہے۔

جب صاف صاف قرآن و حدیث میں اس بات کے واضح دلائل موجود ہیں صحابہ نے بھی اس کو تسلیم کیا لیکن بعد میں آنے والوں نے اس میں تاویل کی اور اس کا انکار کیا۔ ان کے انکار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے نہ قرآن کے مفہوم کو صحیح سے سمجھا نہ ہی حدیث کو صحیح سے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گمراہ ہوگئے ۔

اسی قسم کے اور بھی گروہ ہیں ان کا استدلال بھی قرآن سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا ہے کہ :

وَ ھُوَ مَعَکُم اَینَ مَا کُنتُم

الحدید – 4

جہاں کہیں بھی ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے  ۔

اللہ نے ہی فرمایا ہے:

مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ

المجادلة – 7

اگر تم سے ہو تین چوتھا وہ اگر پانچ ہو چٹھا اللہ ہوتا ہے۔

وہ ان آیات سے استدلال لیتے ہیں کہ اللہ نے کہا اللہ ہر جگہ موجود ہے۔ قرآن نے کہا وہ ان آیات کو دلیل بناتے ہیں۔

لیکن تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کو اللہ کے پیغمبرنبی ﷺ سے سمجھا ہے  کہ اس سے مراد اللہ کا علم ہے اللہ کی ذات مراد نہیں ہے اور اللہ خود عرش پر مستوی ہے اور اللہ کا علم ہر جگہ محیط ہے۔ انسان جہاں کہیں بھی  ہو اس کا اللہ کو علم ہے۔ اب ان لوگوں کی گمراہی کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے سبیل المؤمنین سے انحراف کیا ۔  انہوں نے اپنی سوچ کے مطابق ایک عقیدہ بنا لیا اور ایک نتیجہ نکال کر اپنا ذہن بنالیا اور وہ صحابہ کرام سے علیحدہ ہوگئے۔

اور قرآن مجید کے جتنے بھی مفاہیم ہیں اس میں جتنے بھی مسائل ہیں مثال کے طور  پر ایک مسئلہ نماز کا ہے ۔ صلاۃ کے معنی رحمت بھی ہے صلاۃ کے معنی دعا بھی  ۔غلام محمد پرویز نے صلاۃ کے معنی ٹریننگ بھی کیے ہیں۔ معاذ اللہ لغت کے اعتبار سے معنی دیکھ کر یہ کہنا کہ یہ تو فوجی ٹریننگ ہے نماز نہیں۔ جو مولویوں نے 05 وقت کی بنا کر رکھی ہے۔ اب نماز جس کا اللہ نے حکم دیا نبی ﷺ نے پڑھ کر دکھائی اور صحابہ نے اس پر عمل کیا اور آج پوری امت مسلمہ اس پر متفق ہے اور آج تک پڑھتی چلی آرہی ہے۔ پرویز نے جو اس کا انکار کیا ہے کہ اس نے قرآن کی آیت کا انکار کیا اور احادیث کا انکار اور سبیل المؤمنین کا بھی انکار کیا ہے ۔

اسی طرح آپ دیکھیے جو اسی فکر کو اپناتا ہے آپ دیکھیے کہ اللہ نے حضرت یونس علیہ السلام کو فرمایا ہے:

فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ ‎﴿١٤٣﴾‏ لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ

الصآفآت – 143/144

المسبحین کا معنی ہے تسبیح بیان کرنا جو لغت کا ترجمہ کریں گے (معاذ اللہ ثم معاذ اللہ)المسبحین کا معنی ہے تیرنا

یعنی اگر انسان لغت کے اعتبار سے معنی لے وہ تو گمراہ ہی ہوگا ۔صحابہ کرام نے اللہ کے نبی ﷺ اس کے مفہوم کو سمجھا ہے ۔

صحابہ فرماتے ہیں اگر انسان وہ دعا پڑھ لے جو حضرت یونس نے پڑھی تھی:

لا إله إلا أنت سبحانك إني كنت من الظالمين 

تو یونس علیہ السلام کی طرح اللہ ان کی مشکلات کو آسان کردے گا ۔

نبی ﷺ کی احادیث سے بھی مراد اور سبیل المؤمنین سے انحراف لغت کی بیناد پر۔

یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر قرآن مجید کو لغت کی زبان سے سمجھا جائے اپنے اصول اور اپنے ضوابط کے تناظر میں سمجھا جائے تو سوائے برائیوں کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ صراط مستقیم کا راستہ یہ ہے کہ قرآن کو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں سے سمجھا جائے۔ اگر قرآن کو اس طرح سمجھا جائے کہ جس طرح صحابہ کرام نے سمجھا پھر تو یہ راستہ صراط مستقیم والا ہے۔ اور اگر انسان اس سے ہٹ جائے اور اپنی زبان کی اصطلاحات سے سمجھے تو یہ صراط مستقیم نہیں ہے کیوں کہ ہر زبان کے مختلف معنی ہوتے ہیں۔

ایک مثال دیکھیں کہ خبرواحد کا مطلب لغت کے تناظر میں ہے ایک خبر اور اصطلاح میں معنی یہ ہے کہ خبرواحد متواتر کے مقابلے میں ہو۔ متواتر کے خلاف دو کی خبر   بھی خبر واحد ہے اور تین کی خبر بھی خبر واحد ہے اور چار کی خبر بھی خبر واحد ہے۔

اسی طرح حج ایک اصطلاح ہے۔ اسی طرح نما ز ایک اصطلاح ہے۔ اسی طرح  زکوۃ ایک اصطلاح ہے۔ اس طرح وضو ایک اصطلاح ہے۔

ان تمام اصطلاحات کو اسی طرح سمجھنا چاہیے جس طرح اللہ کے رسول ﷺ نے سمجھایا ہے۔  اگر ہم اس کو اس طرح  نہ سمجھیں گے اور رسول اللہ ﷺ کے طریقے کو چھوڑیں گے تو ہم کھلی گمراہی میں ہیں۔ لہذا ہمیں قرآن کو اس طرح سمجھنا چاہیے جس طرح اللہ نے نبی ﷺ نے ہمیں سمجھایا ۔

وآخردعوانا الحمد للہ رب العالمین

فضیلۃالشیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ

آپ 1948ء یا 1949 میں لیاقت پور رحیم یار خاں میں پیدا ہوئے ، معروف محقق ، مصنف اور خطیب ہیں ، آپ کی تصانیف کا دائرہ کافی وسیع ہے ، مجلس افتاء مرکزی جمعیت اہل حدیث کے نگران ، اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق رکن ہیں۔ادارہ علوم اثریہ کے ناظم ہیں۔

Recent Posts

منہجِ سلف سے کیا مراد ہے؟

منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…

5 hours ago

یا محمد ﷺ کہنا یا لکھنا کیسا ہے؟

کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…

1 day ago

ستاروں کی تخلیق کے تین مقاصد!؟

اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…

4 days ago

داتا اور مشکل کشا کون؟

اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…

4 days ago

مشکلات اور پریشانیوں کےحل کےلیے نسخہ؟

قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…

1 week ago

جنتی فرقہ کونسا ہے؟

فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…

1 week ago