الحمد للّٰه وحده و الصلوة و السلام علی من لانبي بعده أمّا بعد فاَعُوذُ بِا للّٰه مِنَ الشَّيطانِ الرّجِيم ،بسم اللّٰه الرحمن الرحيم ﴿ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَّا هُمْ ﴾
ص: 24
ترجمہ:’’اور اکثر شراکت دار ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایمان دار ہوں اور نیک عمل کرتے ہوں اور ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں ۔‘‘
یہ امر طے شدہ ہے کہ روپے پیسے میں اضافہ کرنے اور اسے بڑھانے کے لئے اسے کسی کاروبار میں لگانا ضروری ہے ۔ اگرکسی شخص کے پاس دس لاکھ روپیہ موجود ہو اور وہ اسے کسی کاروبار میں نہ لگائے تو وہ دس سال کے بعد بھی دس لاکھ ہی رہے گا ،اس کو دس لاکھ پچاس ہزار کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس سے کوئی کاروبارکیاجائے ۔
اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس دنیا میں بے شمار ایسے لوگ موجود ہیں جن کے پاس سرمایہ تو موجود ہے مگر وہ کاروبار کی صلاحیت نہیں رکھتے یا وہ کاروبار کرنا ہی نہیں چاہتے اور دوسری طرف ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو کاروبار کے ماہر تو ہوتے ہیں لیکن ان پاس سرمایہ نہیں ہوتا لہٰذا ایک ایسے نظام کی ضرورت تھی جس سے یہ مقصد حاصل ہوسکے، یعنی جن لوگوں کے پاس سرمایہ نہیں وہ ان لوگوں سے سرمایہ لے کر اس سے کاروبار کرسکیں یا اپنے پہلے سے جاری کاروبار کو ترقی دے سکیں جن کے پاس اپنی ضرورت سے زائد سرمایہ موجود ہو اور اس کا فائدہ سرمایہ کار کو بھی پہنچے۔ ظہورِ اسلام سے قبل عرب معاشرے میں اس کی دوصورتیں رائج تھیں۔
(1)سرمایہ دار ضرورت مند کو سرمایہ دے کر اس کا ایک طے شدہ کرایہ وصول کرتا ۔ اسلام کی نگاہ میں یہ طریقہ سرا سر باطل اور حرام ہے کیونکہ روپیہ پیسہ ایسی چیز نہیں جس کا کرایہ لیا جاسکے ،لہٰذا قرآن نے اسے سود قرار دے کر اس پر پابندی عائد کر دی ۔
(2)سرمایہ دار اس شرط پر سرمایہ دیتا کہ کاروبار سے جو منافع حاصل ہوگا وہ اس کے اور کاروباری فریق کے درمیان ایک طے شدہ تناسب (Ratio)سے تقسیم ہوگا ۔اس طریقِ کار کو مضاربہ کہاجاتا ہے جس کا لغوی معنی ہے ’’ سفر کرنا ‘‘اور اس کا نام مضاربہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ کاروباری فریق اپنی سفری کوشش اور محنت کے بدلے نفع کا حق دار بنتا ہے۔ مضاربہ میںچونکہ سرمایہ کار اپنے مال کا کچھ حصہ الگ کر کے دوسرے فریق کے حوالے کر دیتا ہے اس لئے بعض اہل علم اسے قراض یامقارضہ بھی کہتے ہیں جس کا معنی ہے ’’کاٹنا‘‘ ۔اسلامی شریعت نے بھی اس کو برقرار رکھااور بعض شرائط اور پابندیوں کے ساتھ اس کو جائز قرار دیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی بعثت سے قبل حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کے مال سے مضاربت کی بنیاد پر تجارت کی تھی اور بہت سے صحابہ کرام نے مضاربہ کی بنیاد پر کاروبار کئے۔
مضاربہ کے بارے میں روایات
کتب حدیث میں ہمیں مضاربہ کے متعلق درج ذیل روایات ملتی ہیں۔
(1)سنن ابن ماجہ میں سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ثلاَثٌ فِيهِنَّ الْبرکة الْبَيْعُ إِلَی أَجَلٍ وَالْمقَارَضة وَإِخْلاَطُ الْبربِالشَّعِيرِ لِلْبَيْتِ لا لِلْبَيْعِ
سنن ابن ماجه: كتاب التجارۃ،باب الشركۃ والمضاربۃ 2 سنن البيقي: كتاب القراض۔
ترجمہ:’’تین چیزوں میں برکت ہے۔ (1)معینہ مدت کے لئے ادھار فروخت کرنا۔ (2)مضاربہ کی بنیاد پر کسی کو مال دینا ۔(3)گھریلو ضرورت کے لئے گندم میں جو کی ملاوٹ کرنا البتہ فروخت کرنے کے لئے ایسا کرنا جائز نہیں ۔‘‘
(2)سنن بیھقی میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں کے بارے میں منقول ہے :
إذا دفع مالاً مُضاربةً اشترط علی صاحبه أن لا يسلُک به بحرًا ولا ينزل به واديا ولا يشتری به ذات کبدٍ رطبةٍ فإن فعل فهُو ضامنٌ فرُفع شرطه إلی رسُول اللّٰه صلی اللّٰه عليه وسلم فأجازه
سنن دار قطنی: کتاب البیوع،(یہ حدیث صحیح ہے)
’’جب کسی کو وہ مضاربت پر مال دیتے تو یہ شرط لگاتے کہ وہ یہ مال سمندر میں نہیں لے جا سکتا اورکسی وادی میں بھی نہیں لے جائے گا اور نہ اس سے جانور خریدے گا ۔ اگر اس نے ایسا کیا تو نقصان کا ضامن وہ خود ہوگا۔ ان کی یہ شرط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کی گئی تو آپ نے اس کی اجازت دے دی ۔‘‘
سند کے لحاظ سے یہ دونوں روایات ضعیف ہیں ۔
(3)سیدنا حکیم بن حزام بھی انہی شرائط کے ساتھ مضاربت پر مال دیا کرتے تھے ۔[1]
(4) سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی مضاربہ کی بنیاد پر مال دیاتھا ۔[2]
(5)سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبداللہ اور عبیداللہ ایک لشکر کے ساتھ عراق گئے ۔ جب وہ واپس آرہے تھے تو ان کی ملاقات بصرہ کے گورنر ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے ہوئی ،انہوں نے کہا میری یہ خواہش ہے کہ تمھیں کوئی فائدہ پہنچا سکوں ۔میرے پاس بیت المال کا کچھ مال ہے جو میں مدینہ منورہ امیر المؤمنین کی خدمت میں بھیجنا چاہتا ہوں ، میں وہ مال تمھیں بطور قرض دے دیتا ہوں تم یہاں سے کچھ سامان خرید لو اور مدینہ منورہ میں وہ سامان بیچ کر اصل سرمایہ بیت المال میں جمع کرا دینا اور نفع خود رکھ لینا ۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیالیکن حضرت عمررضی اللہ عنہ اس پر راضی نہ ہوئے اور انہوں نے اسے مضاربہ قرار دے کر اصل سرمائے کے علاوہ ان سے آدھا نفع بھی وصول کیا ۔[3]
(6) سنن بیھقی اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ے فرمایا :
’’مضاربہ میں ہر سرمایہ کار اپنے سرمائے کے تناسب سے نقصان برداشت کرے گا اور منافع طے شدہ تناسب کے مطابق تقسیم ہوگا۔‘‘
مضاربہ کے اصول وضوابط
پہلا اصول
مضاربہ میں دوفریق ہوتے ہیں ۔
(1) کاروبار کے لئے سرمایہ فراہم کرنے والاجسے رَبُّ المال کہاجاتا ہے ۔
(2)کاروبار کرنے والا فریق جسے مضارب کہتے ہیں۔
رب المال یعنی سرمایہ فراہم کرنے والا براہ راست کاروبار یا مینجمنٹ میں حصہ تو نہیں لے سکتا البتہ اسے کاروباری پالیسیوں کے متعلق اعتماد میں لینا ،حسابات کی تفاصیل معلوم کر نا اور کاروبار کی مناسب نگرانی کرناتاکہ مضارب بد دیانتی اور غفلت کامرتکب نہ ہو اس کا بنیادی حق ہے جس سے کسی عالم ،فقیہ اور مجتہد کواختلاف نہیںکیونکہ یہ دونوں کاروبار میں ایک دوسرے کے شریک ہیں کہ ایک کی محنت اور دوسرے کا سرمایہ شامل ہے لہٰذا انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ سرمایہ کار کو کاروبار کی نگرانی اور اس بات کو یقینی بنانے کااختیار دیاجائے کہ مضارب اپنا فرض پوری دیانت داری سے ادا کر رہا ہے یا نہیں اور اگر عقلی لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی ہے کہ ایک شخص نے خطیر رقم دی ہو اور اسے کاروبار سے بالکل ہی الگ تھلگ رکھاجائے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب امام مالک رحمہ اللہ یہ پوچھاگیا کہ ایک شخص نے دوسرے کو مضاربت پر مال دیا ،اس نے محنت کی جس کے نتیجے میں اسے منافع حاصل ہوا ۔اب مضارب یہ چاہتا ہے کہ وہ سرمایہ کار کی غیر موجودگی میں منافع سے اپنا حصہ وصول کر لے تو کیایہ درست ہے ؟ اس پرامام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا :
لا ينبغی له أن ياْخذ منه شَيْئًا إِلاَّ بِحَضْرة صَاحِبِ الْمالِ
مؤطا: باب المحاسبۃ في القراض
’’جب تک رَبُّ المال موقع پر موجود نہ ہو مضارب کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ منافع سے اپنا حصہ وصول کرے ۔‘‘
مروجہ اسلامی بینکوںمیں کرنٹ اکاؤنٹس کے علاوہ بقیہ تمام اکاؤنٹس عام طور پر مضاربہ کی بنیاد پر ہی کھولے جاتے ہیں یعنی بینک میں رقم رکھنے والے ربُّ المال اور بینک مضارب ہوتا ہے لیکن کسی بھی اسلامی بینک میں اس اصول پر عمل نہیں کیا جاتا بلکہ ہر اسلامی بینک کے اکاؤنٹ اوپننگ فارم میں یہ عبارت درج ہوتی ہے کہ :
’’بینک کی جانب سے متعین کردہ کوئی بھی رقم بطور نفع یا نقصان حتمی ہو گی اور تمام صارفین اس کے پابند ہوں گے ۔کسی صارف کو یہ حق حاصل نہیں ہو گا کہ ایسے نفع یا نقصان کے تعین کی بنیاد کے بارے میں سوال کرے ۔‘‘
بینک کی طرف سے اکاؤنٹ ہولڈر پر یہ پابندی عائد کرنا عدل وانصاف کے منافی اور ربُّ المال کی حق تلفی ہے۔اس ناروا شرط کا ہی نتیجہ ہے کہ اسلامی بینکوں کے منافع میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے مگر ڈپازٹر کے منافع کی شرح وہی ہے حتی کہ بعض اسلامی بینکوں کے منافع میں ایک سال کے دوران ایک سو چھ فیصد تک اضافہ ہوا ہے لیکن ڈپازٹر ز کے پرافٹ میں اس حساب سے اضافہ نہیں کیاگیا ،صرف ایک آدھا فیصد اوپر نیچے کیاجاتا ہے جو کہ سرا سر زیادتی ہے ۔یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مروجہ اسلامی بینک بد دیانتی کے مرتکب ہیں اور ان میں رائج مضاربہ حقیقی معنوں میں مضاربہ نہیں ہے ۔
دوسرا اصول
مضاربہ کے صحیح ہونے کا دوسرا اصول یہ ہے کہ فریقین بالکل شروع میں ہی منافع کے تقسیم کی شرح طے کر لیں یعنی یہ فیصلہ کر لیں منافع سرمایہ کار اور مضارب میں مساوی تقسیم ہوگا یا سرمایہ کار منافع کے ساٹھ فیصد اور مضارب چالیس فیصد کا حق دار ہو گا کیونکہ مضاربہ میں منافع ہی معقود علیہ ہوتا ہے اور اگر یہ مجہول ہو تو مضاربہ فاسد ہو گا ۔ چنانچہ المعاییر الشرعیہ میں مرقوم ہے :
يشترط في الربح أن تکون کيفية توزيعه معلومة علمانافيا للجهالة ومانعا للمنازعة
’’منافع میں یہ شرط ہے کہ اس کی تقسیم کی کیفیت اس طرح معلوم ہو کہ اس میں کوئی بے خبری اور نزاع کا امکان نہ ہو۔‘‘
جب کہ مروجہ اسلامی بینکوں میں اکاؤنٹ کھولتے وقت منافع کے تقسیم کی شرح بالکل واضح نہیں کی جاتی بلکہ بینک اس کااعلان مضاربہ شروع ہونے کے بعد کرتاہے ۔چنانچہ اسلامی بینکوں کے اکاؤنٹ اوپننگ فارم میں یہ عبارت درج ہوتی ہے :
’’بینک ڈپازٹر کے ساتھ کاروبار سے حاصل ہونے والے اجمالی نفع (Gross Income) میں اس شرح سے شریک ہوگا جس کااعلان بینک نے ہر مہینے یاعرصے کے آغاز میں کیاہوگا ۔ بینک کا حصہ وقتا فوقتا تبدیل ہوسکتا ہے اور اس کا بھی متعلقہ مہینے یاعرصے کے پہلے ہفتے کے اندر اندر اوزان کے ساتھ کیاجائے گا ۔‘‘
اس سے یہ ثابت ہوا کہ مروجہ اسلامی بینکوں میں مضاربہ شروع کرتے وقت منافع کے تقسیم کی شرح معلوم نہیں ہوتی بلکہ بعد میں بتائی جاتی ہے اور بینک جب چاہے اس کو تبدیل بھی کر سکتا ہے جس سے مضاربہ باطل ہوجاتا ہے ۔
تیسرا اصول
شرعی نقطۂ نظر سے مضاربہ ایگریمنٹ میں سرمایہ کارکا حق فائق ہوتا ہے یعنی وہ مضارب پر کسی مخصوص شخص یا کمپنی کے ساتھ لین دین کرنے یا کسی خاص جگہ پر کاروبار کرنے کی پابندی عائد کر سکتا ہے اور ان اشیاء کا تعین بھی کر سکتا ہے جن کے علاوہ تجارت نہیں کی جاسکتی اور اگر مضارب اس کی ہدایات پر عمل نہ کرے تو وہ سرمایہ کار کے سرمائے کا ذمہ دار ہوگا جیساکہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب وہ کسی کو مضاربہ پر مال دیتے تو یہ شرط عائد کرتے:
أن لاتجعل مالي فی کبد رطبة ولا تحمله فی بحر ولاتنزله به فی بطن مسيل ،فان فعلت شيئا من ذلک فقد ضمنت مالی
بلوغ المرام :باب القراض
’’ میرے مال سے جانور نہیں خریدوگے اور نہ اس سے سمندر اور کسی وادی میں تجارت کرو گے اور اگر تم نے ایسا کیا تو میرے مال کے نقصان کی ذمہ داری تم پر ہوگی ۔‘‘
مروجہ اسلامی بینکوں کے کھاتے داران اس حوالے سے بھی بے بس دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ان کا کام صرف رقوم جمع کرانا ہے ۔ ان رقوم سے کونسا کاروبار کرنا ہے یا بینک اس کو کہاں استعمال کرے گا یہ اس کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے،کھاتے دار اس کے بارے میں کوئی رائے نہیں دے سکتے ۔چنانچہ ہر اسلامی بینک کے اکاؤنٹ اوپننگ فارم میں یہ صراحت ہوتی ہے :
’’بینک بحیثیت مضارب اپنی صوابدید پر صارفین سے وصول شدہ رقم کی سرمایہ کاری و عدم سرمایہ کاری کسی بھی کاروبار ( کاروبار ، ٹرانزیکشن ،پروڈکٹ )میں کرسکتا ہے جو بینک کے شریعہ ایڈوائزر سے منظور شدہ ہو ۔‘‘
یہ درست ہے کہ سرمایہ کار مضارب کو یہ اختیار دے سکتا ہے کہ وہ جس کاروبار اور تجارت میں پیسہ لگانا چاہے لگاسکتا ہے یا جس علاقے میں مناسب سمجھے کاروبار کر سکتا ہے لیکن مضارب کی طرف سے سرمایہ کار کا یہ حق سلب کیاجانا غیر منصفانہ اقدام ہے جس کی تائید نہیں کی جاسکتی ۔
چوتھا اصول
مضاربہ میں سرمایہ کار یہ گارنٹی تو طلب نہیں کر سکتا کہ اسے اتنے فیصد منافع ہر حال میں ادا کیاجائے گا خواہ مضارب کوفائدہ ہو یا نقصان کیونکہ ایسا منافع سود کے زمرے میں داخل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوگا لیکن وہ مضارب سے یہ گارنٹی لے سکتا ہے کہ وہ اپنا فرض پوری دیانتداری اور تندہی سے ادا کرے گا اور ان شرائط کے مطابق ہی کاروبار کرے گا جو فریقین کے مابین طے ہوئی ہیں اور اگر معاہدے میں طے شدہ شرائط کی خلاف ورزی یا اس کی غفلت اور بے احتیاطی کی وجہ سے کوئی نقصان ہوا تو وہ اس کا ازالہ کرے گاجیسا کہ المعاییر الشرعیہ میں ہے :
يجوز لرب المال أ خذ الضمانات الکافية والمناسبة من المضارب بشرط أن لا ينفذ رب المال هذه الضمانات الا اذا ثبت التعدی أو التقصير أو مخالفةشروط عقد المضاربة
’’ربُّ المال مضارب سے کافی اور مناسب ضمانتیں لے سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ رب المال ان ضمانتوں کو اسی صورت نافذ کرے گا جب مضارب کی زیادتی یا کوتاہی یا عقد مضاربہ کی شرائط کی خلاف ورزی ثابت ہوجائے ۔‘‘
خود اسلامی بینک بھی سیکورٹی ڈپازٹ کے بغیر اپنے کلائنٹ کے ساتھ اجارہ وغیرہ کا معاملہ نہیں کرتے لیکن ایک بھی اسلامی بینک ایسا نہیں جو اپنے ڈپازٹر کو یہ گارنٹی دیتا ہو۔
پانچواں اصول
کتبِ فقہ میں مضاربہ کی بحث میں ایک اصول یہ بھی بیان ہوا ہے کہ مضاربہ کی بنیاد پر لئے گئے سرمائے سے صرف تجارت(Trading)ہی کی جاسکتی ہے ،تجارت کے علاوہ اسے کسی اور مقصد کیلئے استعمال نہیں کیاجاسکتا ۔چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عقد القراض يقتضی تصرف العامل فی المال بالبيع والشراء ، فإذا قارضه علی أن يشتری به نخلا يمسک رقابها ويطلب ثمارها لم يجز لانه قيد تصرفه الکامل بالبيع والشراء ، ولان القراض مختص بما يکون النماء فيه نتيجة البيع والشراء وهو فی النخل نتيجة عن غير بيع وشراء فبطل أن يکون قراضا ولا يکون مساقاة، لأنه عاقده علی جهالة بها قبل وجود ملكها، وهكذا لو قارضه علی شراء دواب أو مواشی يحبس رقابها ويطلب نتاجها لم يجز لما ذکرنا
المجموع:ج،14ص: 371۔
’’عقد مضاربہ کا تقاضا یہ ہے کہ مضارب خرید وفروخت کے ذریعے ہی مال میں تصرف کرے لہٰذا جب وہ اس طرح مضاربہ کرے کہ وہ اس مال سے کھجوروں کے درخت خریدے گااور ان سے پھل حاصل کرے گا تو یہ جائز نہیں ہوگا کیونکہ قید یہ ہے کہ کامل تصرف خریدوفروخت کے ذریعے ہو اور دوسری وجہ یہ ہے کہ مضاربہ ان معاملات کے ساتھ مختص ہے جہاں مال میں اضافہ خریدوفروخت کے نتیجے میں ہو جبکہ کھجوروں میں یہ اضافہ خریدوفروخت کے نتیجے میں نہیں اس لیے اس کا مضاربہ باطل ٹھہرا اور یہ مساقات کا معاملہ بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ اس صورت میں یہ کھجوروں کی ملکیت وجود میں آنے سے پہلے مجہول درختوں پر عقد ہوگا ۔اسی طرح اگر اس طرح مضاربہ کرلے کہ وہ جانور یا مویشی خریدے گا جو بذات خود تو اس کے پاس محفوظ ہوںگے مگر ان کی پیدا وار حاصل کر ے گا تو یہ بھی جائز نہیں ہوگا۔ وجہ وہی ہے جو ہم نے اوپر ذکر کی ہے یعنی یہ نفع خریدوفروخت کے نتیجے میںحاصل نہیں ہوا۔‘‘
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
لو قارضه علی أن يشتري الحنطة فيطحنها ويخبزها والطعام ليطبخه ويبيعه والغزل لينسجه ، والثوب ليقصره ، أو يصبغه ، والربح بينهما ، فهو فاسد … قارضه علی دراهم علی أن يشتري نخيلا أو دواب أو مستغلات ويمسک رقابها لثمارها ونتاجها وغلاتها وتکون الفوائد بينهما فهو فاسد لأنه ليس ربحاً بالتجارة بل من عين المال
روضۃ الطالبین:ج2، ص188
’’اس کامطلب یہی ہے کہ مضاربہ کا مال تجارتی سرگرمیوں کے علاوہ دوسری پیداوروں سکیموں میں استعمال نہیں ہو سکتا جیسے کوئی اس بات پر مضاربہ کر لے کہ وہ گندم خرید کر اسے پیسے گا اور روٹی پکا کر اسے بیچے گا اور نفع دونوں میں تقسیم ہو گا تو یہ مضاربہ فاسدہ ہو گا کیونکہ یہ نفع تجارت کے ذریعے حاصل نہیں ہوا بلکہ اس نے خود مال سے جنم لیاہے ‘‘
امام ابوالقاسم عبدالکریم الرافعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
لو قارضه على أن يشترى الحنطةفيطحنها ويخبزها والطعام ليطبخه ويبيع والربح بينهما فهو فاسد وتوجيه الملتئم من كلام الاصحاب أن الطبخ والخبز ونحوهما أعمال مضبوطة يمكن الاستئجار عليها وما يمكن الاستئجار عليه فيستغني عن الفراض إنما القراض لما لا يجوز الاستئجار عليه وهو التجارة التى لا ينضبط قدرها
فتح العزیزشرح الوجیز:ج12ص11
’’یعنی مضاربہ کے مال سے صرف تجارت کی جاسکتی ہے دوسرے نفع بخش کاموں میں لگانے کی اجازت نہیں کیونکہ مضاربہ وہاں ہوتاہے جہاں اجارہ نہ ہو سکے اور وہ تجارت ہے۔ جہاں اجارہ ہوسکے وہاں مضاربہ کی ضرورت نہیں ہوتی ۔‘‘
فقہاء حنفیہ کے نزدیک بھی مضاربہ کا مال صرف تجارت اور اس سے متعلقہ سرگرمیوں میں ہی لگایا جاسکتا ہے ،چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ میں ہے:
فينتظم العقد صنوف التجارة وماهومن صنيع التجار
ھدایۃ مع البنایۃ:ج10ص52
’’مضاربہ کا عقد تجارتی سرگرمیوں کو ہی شامل ہے جبکہ یہ ( ایک خاص مسئلہ کی طرف اشارہ)تاجروں کا کا م نہیں ہے۔ ‘‘
دوسری جگہ ایک مسئلہ کی وضاحت میں لکھتے ہیں :
’’ کہ یہ امام محمد اور امام ابو حنیفہ ;کے نزدیک اس لیے جائز نہیں کہ یہ تجارت میں شامل نہیں اور عقد مضاربہ کا مقصد صرف تجارت میں کسی کو ایجنٹ بنا نا ہے۔‘‘
مزید لکھتے ہیں:
’’جب یہ تجارت نہیں ہے تومضاربہ میں بھی شامل نہیں ہے‘‘۔[4]
علامہ زکریا انصاری رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
لَوْ قَارَضهُ عَلَی أَنْ يشْتَرِیَ بِالدَّرَاهم نَخْلًا لِيسْتَغِله ، وَالرِّبْحُ بَينهما ؛ لِأَنَّ مَا حَصَلَ لَيْسَ بِتَصرف الْعَامِلِ وَإِنَّماهوَ مِنْ عَيْنِ الْمَالِ
البھجۃ الوردیۃ :باب القراض ج11ص480
’’اگر کوئی اس طرح مضاربہ کر ے کہ وہ دراہم سے کھجوروں کے درخت خریدے گا تاکہ ان کی آمدن حاصل کر ے اور نفع دونوں کے درمیان تقسیم ہو تو یہ بھی جائز نہیں ہوگاکیونکہ اس صورت میں جو نفع حاصل ہوا ہے وہ مضارب کے تصرف کا نتیجہ نہیں ہے وہ تو خود مال کا کمال ہے۔‘‘
جب کہ اسلامی بینک مضاربہ کی بنیاد پر لیا گیا سرمایہ اجارہ وغیرہ میں بھی لگاتے ہیں جس سے اسلامی بینکوں میں رائج مضاربہ مشکوک قرار پاتا ہے ۔ چونکہ اس نقطہ نظر کے حق میں دلائل نہیں ہیں اس لیے اسلامی بینکاری کے حامی بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ بنیادی طور پر مضاربہ تجارت میں ہی ہو تاہے ۔
زرعی اور صنعتی منصوبوں میں اس کا استعمال اس کے مفہوم میں وسعت پیدا کر کے کیا جانے لگا ہے ۔ چنانچہ المعاییرالشرعیۃمیں ہے:
والمضاربة من الصيغ التی تستخدم غالبا فی التجارة ثم توسعت استخداماتها حتی شملت مجالات الاستثمار التجارية والزراعية والصناعية والخدمية وغيره
ایضًا۔ص232
’’مضاربہ ان طریقوں میں سے ہے جو زیادہ تر تجارت میں استعمال کیا جاتاہے پھر اس کے استعمال میں وسعت پیدا ہوگئی یہاں تک کہ تجارتی،زرعی اور صنعتی سرمایہ کاری وغیرہ کو بھی شامل ہوگیا۔‘‘
مضاربہ کے مفہوم میں یہ وسعت کس نے پیدا کی، کب کی اور کس بنیاد پر کی ؟ اسلامی بینکوں کے مفتیان کرام اس بارے میں بالکل خاموش ہیں ۔
چھٹا اصول
مضاربہ میں نفع کا صحیح اندازہ تب ہی ہوسکتا ہے جب مضاربہ کاروبار کے غیر نقد اثاثوں کو بیچ کر نقد میں تبدیل کر لیاجائے ۔اسی لئے ماہرین شریعت یہ کہتے ہیں کہ لیکویڈیشن سے پہلے منافع کی تقسیم درست نہیں ہے ۔چنانچہ معروف حنفی فقیہ جناب علامہ علاؤ الدین کاسانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ويشترط لجواز القسمة قبض المالک رأس المال ،فلاتصح قسمة الربح قبل قبض رأس المال
الموسوعۃ الفقہیۃ
’’مضاربہ میں نفع کی تقسیم کی شرط یہ ہے کہ ربّ المال اپنے رأس المال پر قبضہ کر لے ۔ چنانچہ اصل سرمائے کو قبضہ میں لینے سے قبل نفع کی تقسیم درست نہیں ہو گی ۔‘‘
اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر لیکویڈیشن کے بغیر منافع تقسیم کر دیاجائے اور بعد میں مال ضائع یا بازار میںمندی ہو جائے تو اس سے رب المال کو نقصان اٹھاناپڑے گا۔ کیونکہ اصول یہ ہے کہ اگر کسی کاروبار کو ایک مدت کے دوران نقصان اور دوسری مدت کے دوران منافع ہو تو پہلے اس منافع سے نقصان کو پورا کیاجائے گا اور اگر نفع کی کوئی رقم باقی بچ رہی ہو تو وہ ربُّ المال اور مضارب کے درمیان طے شدہ فارمولے کے مطابق تقسیم ہوگی۔ لیکویڈیشن سے قبل منافع کی تقسیم کی صورت میں چونکہ مضارب سابقہ مدت کے نفع سے اپنا حصہ وصول پا چکا ہوتا ہے جس کی واپسی کا مطالبہ فریقین کے مابین نزاع اور کشیدگی کا سبب بن سکتا ہے اس لئے لیکویڈیشن سے پہلے منافع کی تقسیم کاعمل درست نہیں ہو سکتا ۔
اسلامی بینکوں میں چونکہ رقمیں جمع کرانے اور نکالنے کی کوئی تاریخ متعین نہیں ہے کہ تمام اکاؤنٹ ہو لڈر اسی ایک تاریخ میں رقمیں جمع کرائیں اور نکالیں بلکہ یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے اس لئے منافع کی تقسیم سے قبل غیر نقد اثاثوں کو بیچ کر نقد میں تبدیل کرنے کی نوبت نہیں آتی ،صرف ان اثاثوں کی بازاری قیمت کااندازہ کیاجاتا ہے ،عملا کاروبار ختم نہیں ہوتا ۔یہ طریقہ علامہ کاسانی رحمہ اللہ کی بیان کردہ شرط کا تقاضا پورا کرتا ہے یہ غو ر طلب پہلو ہے جس کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔
وصلی اللّٰہ و سلم علی نبینا محمد و علی آلہ وصحبہ أجمعین
[1] سنن دار قطنی: کتاب البیوع،(یہ حدیث صحیح ہے)
[2] مؤطا امام مالک
[3] مؤطا امام مالک
[4] ھدایۃ مع البنایۃ:ج10ص87