اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اللہ نے خیر و عافیت، صحت و تندرستی کے ساتھ ایک بار پھر رمضان المبارک کے مہینے میں پہنچا دیا ہے ۔ اور یہ بات کسی مسلمان پر مخفی نہیں ہے کہ اس کے دل میں رمضان المبارک کی کیا قدر و منزلت، مقام و مرتبہ اور توقیر و احترام ہے۔ اور کیسے نہ ہو آخر یہ رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات کا مہینہ ہے اور اس پورے مہینے میں اللہ کی طرف سےعنایات ، عطیات ، برکات اور احسانات کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ آیئے اس ماہ مبارک کی چند برکات و خصوصیات ملاحظہ فرمائیں ۔
ماہ رمضان کی خصوصیات
مبارک مہینہ
ماہِ رمضان کی ایک خصوصیت اور برکت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس کو برکت والا مہینہ قرار دیا ہے ، یعنی اس کے ہر حصے اور ہر لمحے میں برکت ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَتَاكُمْ رَمَضَانُ شَهْرٌ مُبَارَكٌ، فَرَضَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ1
تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آرہا ہے، یہ مبارک مہینہ ہے . اللہ نے تم پر اس کے روزے فرض کیے ہیں ۔
یہ بھی پڑھیں:روزے کی اہمیت و فضلیت
صبر کا مہینہ
ماہِ رمضان کی ایک خصوصیت اور برکت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس کو صبر کا مہینہ قرار دیا ہے ، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
صَوْمُ شَهْرِ الصَّبْرِ، وَثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، يُذْهِبْنَ وَحَرَ الصَّدْرِ2
کہ صبر کا مہینہ ( یعنی رمضان المبارک ) اور ہر مہینے کےتین روزے ( ثواب کے لحاظ سے ) زمانے بھر کے روزوں کے برابر ہیں ۔
صبر کی تین قسمیں ہیں ۔
1۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر قائم رکھنے والا صبر ۔
2 ۔ اللہ کی معصیت سے باز رکھنے والا صبر۔
3۔ تکلیف و مصیبت برداشت کرنے والا صبر۔
رمضان میں صبر کی تینوں قسمیں یکجا ہوتی ہیں ، اللہ کی اطاعت ، اللہ کی معصیت و محرمات سے اجتناب اور تکلیف و مصیبت برداشت کرنا، جیسے بھوک پیاس کی شدت اور جسم و جان کی کمزوری ، لہذا روزہ دار کا شمار ان صابرین میں ہوتا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ
(سورۃ الزمر، آیت:10)
بے شک صبر کرنے والوں کو ہی ان کا اجر پورا پورا دیا جاتا ہے ۔
لہذا ماہِ رمضان صبر کا موسم ہے بلکہ صبر کے سب سے بڑے موسموں میں سے ہے جس میں صبر کرنے والے روزہ داروں، عبادت گذاروں اور فرمانبرداروں کے لیے بڑے بڑے اجر و ثواب سے نوازے جاتے ہیں۔
نزولِ قرآن کریم
ماہ رمضان کی ایک خصوصیت اور برکت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس ماہ مبارک میں قرآن کریم نازل فرمایا. اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں :
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيَ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ
(البقرۃ:185)
یہ بھی پڑھیں:رمضان کا استقبال
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا۔
قرآن کریم ہی اس امت کا دستور ہے ، یہی صراط مستقیم ہے، اور یہی راہ ِ نجات بھی ہے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ
(البقرۃ:185)
جو لوگوں کو راہ راست دکھاتا ہے، اور جس میں ہدایت کے لیے اور حق و باطل کے درمیان تفریق کرنے کے لیے نشانیاں ہیں۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ .
(سورۃ ص: 29)
اے میرے نبی ! یہ ایک مبارک کتاب ہے جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور وفکر کریں، اور تاکہ عقل و کرد والے نصیحت حاصل کریں۔
دوسری جگہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
(الانعام:155)
اور یہ قرآن ایک مبارک کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے، پس تم لوگ اسی کی پیروی کرو، اور تقوی کی راہ اختیار کرو، تاکہ تم پر اللہ کی رحمت نازل ہو۔
اللہ تعالیٰ اس ماہِ مبارک میں تمام مسلمانوں کو قرآن پاک کی تلاوت ، حفظ ، تفسیر پڑھنے ، سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں
رمضان المبارک کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطانوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں ۔چنانچہ یہ شیاطین وہاں تک نہیں پہنچ پاتے جہاں تک رمضان کے علاوہ مہینوں میں ان کی پہنچ رہتی ہے اور نہ ہی اس نتیجے پر پہنچتے ہیں جو وہ پہلے حاصل کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أبْ وَابُ الجَنَّةِ، وغُلِّقَتْ أبْوَابُ جَهَنَّمَ، وسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ.
(صحيح البخاري: 3277)
سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب رمضان شروع ہوجائے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو زنجیروں میں باندھ دیا جاتا ہے۔
دوسری روایت میں سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا دخلَ رمضانُ ، فُتحَت أبوابُ الرَّحمةِ ، وغُلِّقت أبوابُ جَهنَّمَ ، وسُلسِلتِ الشَّياطينُ
(صحيح النسائي : 2104)
جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے تمام دروازے کھول دئیے جاتے ہیں جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔
ایک اور حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ فُتِّحَتْ أبْوَابُ السَّمَاءِ، وغُلِّقَتْ أبْوَابُ جَهَنَّمَ، وسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ.
( صحيح البخاري: 1899)
جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَعِبَارَته : فَتْحُ أَبْوَاب السَّمَاءِ كِنَايَة عَنْ تَنَزُّلِ الرَّحْمَة وَإِزَالَة الْغَلْق عَنْ مَصَاعِدَ أَعْمَال الْعِبَادِ تَارَةً بِبَذْل التَّوْفِيق وَأُخْرَى بِحُسْنِ الْقَبُولِ ، وَغَلْقُ أَبْوَابِ جَهَنَّمَ كِنَايَة عَنْ تَنَزُّه أَنْفُسِ الصُّوَّام عَنْ رِجْس الْفَوَاحِش وَالتَّخَلُّص مِنْ الْبَوَاعِثِ عَنْ الْمَعَاصِي بِقَمْع الشَّهَوَات3
آسمان کے دروازوں کا کھلنا رحمت کے نزول اور لوگوں کے اعمال کی بلندی میں حائل رکاوٹ کے ازالے سے کنایہ ہے۔ جو کبھی توفیق مہیا کرنے کے ذریعے اور کبھی حسنِ قبول کے ساتھ ہوتا ہے ۔ اور جہنم کے دروازوں کا بند کرنا روزہ داروں کی نفوس کو بے حیائی کی گندگی سے باز رکھنے اور خواہشات نفسانی کو دبا کر گناہ کے محرکات سے نجات دلانے سے کنایہ ہے۔
یکساں اجر و ثواب
ماہِ رمضان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ افطار کرانے والے اور افطار کھانے والے دونوں کو یکساں اجر وثواب حاصل ہوتا ہے ۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَن فطَّرَ صائمًا كانَ لَهُ مثلُ أجرِهِ ، غيرَ أنَّهُ لا ينقُصُ من أجرِ الصَّائمِ شيئًا
(صحيح الترمذي: 807)
جو کوئی کسی روزہ دار کو افطار کرا دے تو اس کو روزہ دار کے برابر ثواب ملے گا اور روزہ دار کے ثواب میں سے کوئی کمی نہیں ہو گی۔
لہذا افطاری بناتے وقت اس بات کا خیال کیجیے کہ آپ کے پڑوس میں ایسے کون لوگ ہیں جو افطاری کا انتظام کرنے سے قاصر ہیں ان کو افطاری میں اپنے ساتھ شامل کیجیے۔ سیدنا ابو ذررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے خلیل ﷺ نے مجھے وصیت کی :
إذَا طَبَخْتَ مَرَقًا فأكْثِرْ مَاءَهُ، ثُمَّ انْظُرْ أَهْلَ بَيْتٍ مِن جِيرَانِكَ، فأصِبْهُمْ منها بمَعروفٍ.
( صحيح مسلم : 2625)
’’ جب تم شوربے والا سالن پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ رکھو ، پھر اپنے ہمسایوں میں سے کسی ( ضرورت مند ) گھرانے کو دیکھو اور اس میں سے کچھ اچھے طریقے سے ان کو بھجوا دو ۔‘‘
اور ابن ماجہ کی روایت میں آتا ہے:
إِذَا عَمِلْتَ مَرَقَةً ، فَأَكْثِرْ مَاءَهَا ، وَاغْتَرِفْ لِجِيرَانِكَ مِنْهَا
(صحيح ابن ماجه.: 2726 )
جب تم سالن پکاؤ تو اس میں شوربا بڑھا لو، اور اس میں سے ایک ایک چمچہ پڑوسیوں کو بھجوا دو۔ نبی کریم ﷺ نے عام دنوں میں یہ تاکید فرمائی ہے تاکہ ایسا نہ ہو کسی پڑوسی کے گھر سالن کا خوشبو جائے اور اس کا دل للچائے۔ آپ اندازہ کیجیے کہ پڑوسیوں کو رمضان میں افطاری کرانے کا کتنا زیادہ ثواب ہوگا۔افطاری کا انتظام کرانے کو حتیٰ المقدور خالصۃلوجہہ اللہ کیجیے۔ اس میں ریا کاری اور دکھاوے سے پرہیز لازم ہے
لیلۃ القدر کی عظیم رات
اس ماہ مبارک کی ایک خصوصیت اور برکت یہ ہے کہ اس ماہِ مبارک کے اندر ایک ایسی عظیم رات ہے جو ایک ہزار سال سے افضل ہے ۔رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
وفيه ليلةٌ هي خيرٌ من ألف شهرٍ ، من حُرِمَ خيرَها فقد حُرِمَ
(صحيح الجامع : 55)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس ماہ میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے، جو اس (رات) کی خیر و برکات سے محروم کر دیا گیا وہ (ہر خیر سے) محروم کر دیا گیا۔‘‘
دوسرے لفظوں میں اس ایک رات کا عمل ان ہزار مہینوں کے عمل سے بہتر ہے جن میں شب قدر شامل نہ ہو جو کہ اسّی سال سے زیادہ ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مَن قَامَ لَيْلَةَ القَدْرِ إيمَانًا واحْتِسَابًا، غُفِرَ له ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِهِ،
( صحيح البخاري : 1901)
کہ جو کوئی شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے عبادت میں کھڑا ہو اس کے تمام اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔
گزشتہ گناہوں کی مغفرت
رمضان المبارک کی ایک خصوصیت اور برکت یہ ہے کہ اس ماہ مبارک میں گذشتہ گناہوں کی مغفرت ہے، چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَن قَامَ رَمَضَانَ إيمَانًا واحْتِسَابًا، غُفِرَ له ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِهِ.
( صحيح البخاري: 37)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی رمضان میں (راتوں کو) ایمان رکھ کر اور ثواب کے لیے عبادت کرے اس کے اگلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔
مَن صامَ رَمَضانَ إيمانًا واحْتِسابًا غُفِرَ له ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِهِ
(صحيح البخاري: 2014)
سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھا اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔
فرشتوں کا نزول
رمضان المبارک کی ایک خصوصیت اور برکت یہ ہے کہ اس ماہ مبارک میں اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کا نزول ہوتا ہے چناچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ ، سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ
( سورۃ القدر :4، 5)
اس رات میں فرشتے اور جبریل روح الامین اپنے رب کے حکم سے ہر حکم لیکر اترتے ہیں۔وہ رات سلامتی والی ہوتی ہے طلوع فجر تک۔
سحری كی بركت
رمضان المبارک کی ایک خصوصیت اور برکت یہ ہے کہ اس ماہ مبارک میں سحری کھائی جاتی ہےجو ہمارے روزوں کو پچھلی امتوں کے روزوں سے ممتاز کرتی ہےاور اس سحری میں اللہ تعالیٰ نے بڑی برکت رکھی ہے، جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
فَصْلُ ما بيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الكِتَابِ، أَكْلَةُ السَّحَرِ.
( صحيح مسلم: 1096)
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے اور اہل کتاب کے روزے میں سحری کھانے کا فرق ہے۔
ایک اور حدیث میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تَسَحَّرُوا؛ فإنَّ في السَّحُورِ بَرَكَةً.
(صحيح البخاري: 1923)
”سحری کھاؤ، سحری میں برکت ہے۔“
اسی طرح ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
“السَّحورُ أكْلُه بَرَكةٌ، فلا تَدَعوه، ولو أنْ يَجرَعَ أحَدُكم جُرْعةً من ماءٍ؛ فإنَّ اللهَ عزَّ وجلَّ وملائكتَه يُصلُّونَ على المُتَسحِّرينَ”4
سحری تمام تر برکت ہے لہذا اس کو نہ چھوڑوخواہ تم میں سے کوئی ایک گھونٹ پانی ہی پی لے کیونکہ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پہ رحمت بھیجتے ہیں۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ سحری کی برکت کی وضاحت یوں فرماتے ہیں ۔
اس میں سنت کی پیروی ہے۔اہل کتاب کی مخالفت ہے۔اس سے عبادت پر قوت حاصل ہوتی ہے۔چستی میں اضافہ ہوتا ہے۔بھوک کی وجہ سے متوقع بدخلقی سے نجات مل جاتی ہے۔اگر سحری کے وقت کوئی سائل آجائے تو صدقہ کرنے کا موقع مل جاتاہے۔قبولت دعاء کے اوقات میں ذکرودعاء کا موقع مل جاتاہے،شام کو کوئی روزہ کی نیت کرنا بھول گیا تو اسے نیت کرنے کا موقع مل جاتاہے۔5
عمرہ کا اجر حج کے برابر
رمضان المبارک کی ایک خصوصیت اور برکت یہ ہے کہ اس ماہِ مبارک میں كیے جانے والے عمرے كا ثواب نبی ﷺ كےساتھ حج کرنے کے برابر ہے ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
قالَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ: لاِمْرَأَةٍ مِنَ الأنْصَارِ ما مَنَعَكِ أَنْ تَحُجِّي معنَا؟ قالَتْ: لَمْ يَكُنْ لَنَا إلَّا نَاضِحَانِ فَحَجَّ أَبُو وَلَدِهَا وَابنُهَا علَى نَاضِحٍ وَتَرَكَ لَنَا نَاضِحًا نَنْضِحُ عليه، قالَ: فَإِذَا جَاءَ رَمَضَانُ فَاعْتَمِرِي، فإنَّ عُمْرَةً فيه تَعْدِلُ حَجَّةً.
(صحيح مسلم : 1256)
اللہ کے رسول ﷺنےایک انصاری عورت( ام سنان رضی اللہ عنہا)سے پوچھا: تمہارے لیے ہمارے ساتھ حج کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟ اس نے جواب دیا “ہمارے پاس صرف دو اونٹ ہیں، ایک پر میرا بیٹا اور اس کا والد حج کرنے چلے گئے اور دوسرا ہمارے لیے چھوڑ دیا تاکہ ہم اس سے کھیتی کو سیراب کرنے کا کام لیں” آپ ﷺ نے فرمایا : جب ماہ رمضان آئے تو اس میں عمرہ کر لینا، کیونکہ رمضان میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے۔ ایک اورروایت میں ہے کہ :
فإنَّ عُمْرَةً في رَمَضَانَ تَقْضِي حَجَّةً -أوْ حَجَّةً مَعِي-
(صحيح البخاري: 1863)
”رمضان میں عمرہ کرنا ایک حج یامیرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے“۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
“وقال النبي صلى الله عليه وسلم: “إن عمرةً في رمضان تعدل حجةً”، أقول: سره أن الحج إنما يفضل العمرة بأنه جامع بين تعظيم شعائر الله واجتماع الناس على استنزال رحمة الله دونها، والعمرة في رمضان تفعل فعله، فإن رمضان وقت تعاكس أضواء المحسنين ونزول الروحانية6
حج عمرہ سے بڑھ کر ہے اس لیے کہ حج میں دو باتیں ہوتی ہیں: ایک شعائر اللہ کی تعظیم، اور دوسرا لوگوں کا اجتماعی طور پر اللہ کی رحمت کے نزول کو طلب کرنا۔ اور عمرہ میں صرف پہلی بات پائی جاتی ہے، لیکن رمضان میں عمرہ کرنے میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں، اس لیے کہ رمضان میں نیک لوگوں کے انوار ایک دوسرے پر پلٹتے ہیں اور روحانیت کا نزول ہوتا ہے، اس لیے رمضان میں عمرہ کو حج کے برابر قرار دیا گیا۔
گناہوں کا کفارہ
ماہ ِرمضان المبارک کی ایک خصوصیت اور برکت یہ ہے کہ یہ گناہوں اور خطاؤں کے کفارہ کاسبب ہے۔چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الصَّلَوَاتُ الخَمْسُ، وَالْجُمْعَةُ إلى الجُمْعَةِ، وَرَمَضَانُ إلى رَمَضَانَ، مُكَفِّرَاتٌ ما بيْنَهُنَّ إِذَا اجْتَنَبَ الكَبَائِرَ.
(صحيح مسلم: 233)
کہ پانچوں نمازیں اور جمعہ، جمعہ تک اور رمضان، رمضان تک کفارہ ہو جاتے ہیں ان گناہوں کا جو ان کے بیچ میں ہوں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے بچے۔
نماز تراویح کی برکت
ماہ ِرمضان المبارک کیایک خصوصیت اور برکت یہ ہےکہ ا س ماہِ مبارک میں نماز تراویح ہے، مسلمان، مرد اور عورتیں، اللہ کے گھروں میں نماز تراویح قیام اللیل کے لیےجمع ہوتے ہیں ، اور وہ اسے ادا کرنے کے لیے رمضان کے مہینے کے علاوہ کسی اور مہینہ میں جمع نہیں ہوتے ہیں۔ماهِ رمضان میں نماز تراویح کی بڑی فضیلت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو رمضان کی راتوں میں نماز پڑھنے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
مَن قَامَ رَمَضَانَ إيمَانًا واحْتِسَابًا، غُفِرَ له ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِهِ.
( صحيح البخاري: 37)
جس نے رمضان المبارک میں حصول ثواب کی نیت اور حالتِ ایمان کے ساتھ قیام کیا تو اس کے سابقہ (تمام) گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘
نیک اعمال کے اجر میں اضافہ
ماہِ رمضان کی ایک خصوصیت اور برکت یہ ہے کہ رمضان المبارک کی عظمت و شان کی وجہ سے اس مہینےمیں کیے ہوئے عمل کا اجر بھی بڑھا چڑھا کر دیا جاتا ہے، اس لیے ہر مسلمان کو یہ ماہ مبارک غنیمت سمجھتے ہوئے خوب نیکیاں ، عمل صالح بجا لانا چاہیئے اور گناہوں سے باز رہنا چاہیئے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلا يُجْزَى إِلا مِثْلَهَا وَهُمْ لا يُظْلَمُونَ
( الأنعام:160)
جو کوئی اللہ کے ہاں کوئی نیکی لے کر آئے گا تو اسے اس نیکی کا دس گنا ثواب ملے گا اور جو برائی لے کر آئے گا اسے اتنی ہی سزا دی جائے گی جتنی اس نے برائی کی تھی اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
اورسیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَن هَمَّ بحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْها، كُتِبَتْ له حَسَنَةً، ومَن هَمَّ بحَسَنَةٍ فَعَمِلَها، كُتِبَتْ له عَشْرًا إلى سَبْعِ مِئَةِ ضِعْفٍ، ومَن هَمَّ بسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْها، لَمْ تُكْتَبْ، وإنْ عَمِلَها كُتِبَتْ.
( صحيح مسلم: 130)
” جو شخص نیکی کاارادہ کرے اورپھر نہ کر سکے تو اس کے لئے ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ اور جو شخص نیکی کا ارادہ کرے اور اسے کر گزرے تو اس کیلئے دس سے سات سو نیکیوں تک لکھی جاتی ہیں۔ اور جو شخص برائی کا ارادہ کرے لیکن برائی سے باز رہےتو اس برائی کو نہیں لکھی جاتی اور جب برائی کرے توتب لکھی جاتی ہے۔“
نیکیوں میں اضافے سے متعلق شریعت میں کچھ اعمال اور اوقات کے بارے میں یہ وضاحت موجود ہے، مثال کے طور پرلیلۃ القدر کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ
(سورۃ القدر:3)
شبِ لقدر ہزار مہینے سے بھی افضل ہے
یعنی: اس رات میں کوئی ہوئی عبادت ہزار مہینے کی عبادت سے بھی افضل اور بہتر ہے۔
شیخ سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
أي : تعادل من فضلها ألف شهر ، فالعمل الذي يقع فيها ، خير من العمل في ألف شهر خالية منها ، وهذا مما تتحير فيه الألباب ، وتندهش له العقول ، حيث مَنَّ تبارك وتعالى على هذه الأمة الضعيفة القوة والقوى ، بليلة يكون العمل فيها يقابل ويزيد على ألف شهر ، عُمْرُ رجلٍ مُعَمِّرٍ عُمْرًا طويلا نيفا وثمانين سنة7
یعنی: اس رات کی فضیلت ہزار مہینے سے بھی بہتر ہے، چنانچہ اس رات میں کیا جانے والا عمل اس رات سے خالی ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے، یہ ایک ایسی فضیلت ہے جس کے بارے میں عقل دنگ اور حیران ہو جاتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے اس ضعیف امت کو ایسی طاقت و قوت سے نوازا ہےکہ ایک رات ایسی عنایت فرما دی جو کہ ہزار مہینوں کی عبادت سے بھی افضل ہواور یہ ہزار ماہ اسی سال سے بھی زیادہ بنتے ہوں”
اسی طرح رمضان میں عمرہ کرنے کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (رمضان میں ایک عمرہ حج کے برابر ہے یا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے) 8
کثرتِ صدقات و خیرات
ماہِ رمضان کی ایک خصوصیت اور برکت یہ ہے کہ اس مہینے میں لوگ باقی مہینوں کی نسبت بہت زیادہ سخاوت کا مطاہرہ کرتے ہیں اور کثرت سے صدقات وخیرات کرتے ہیں ، اور نبی کریمﷺ کی بھی یہی عادتِ مبارکہ تھی کہ آپ صدقات و خیرات کثرت کے ساتھ کیا کرتے ۔ آپ ﷺسخاوت کا یہ عالم تھا کہ کبھی کوئی سوالی آپ ﷺ کے در سے خالی واپس نہ جاتا۔جبکہ رمضان المبارک میں آپ ﷺ کی سخاوت سال کے باقی گیارہ مہینوں کی نسبت اور زیادہ بڑھ جاتی ۔ چنانچہ حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں:
كانَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ أجْوَدَ النَّاسِ، وكانَ أجوَدُ ما يَكونُ في رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وكانَ جِبْرِيلُ يَلْقَاهُ في كُلِّ لَيْلَةٍ مِن رَمَضَانَ، فيُدَارِسُهُ القُرْآنَ، فَلَرَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ أجْوَدُ بالخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ المُرْسَلَةِ
(صحيح البخاري: 3220)
کہ رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں جب آپ ﷺ سے جبرائیل علیہ السلام کی ملاقات ہوتی تو آپ کی سخاوت اور بھی بڑھ جایا کرتی تھی۔ جبرائیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ ﷺ سے ملاقات کے لیے تشریف لاتے اور آپ ﷺ کے ساتھ قرآن مجید کا دور کرتے۔ اس وقت رسول ﷺ خیر و بھلائی کے معاملے میں تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔
ہر رات اللہ کی طرف سے پکار
ماہِ رمضان کی ایک خصوصیت اور برکت یہ ہے کہ ایسا مہینہ ہے جس میں ہر رات اعلان ہوتا ہےکہ اے بھلائی کے چاہنے والے! بھلائی کے کام میں آگے بڑھ، اور اے برائی کے چاہنے والے! اپنی برائی سے رک جا :چنانچہ ابوہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا كانَت أوَّلُ ليلةٍ من رمَضانَ صُفِّدتِ الشَّياطينُ ومَردةُ الجِنِّ وغلِّقت أبَوابُ النَّارِ فلم يُفتَحْ منها بابٌ وفُتِحت أبوابُ الجنَّةِ فلم يُغلَقْ منها بابٌ ويُنادي منادٍ كلَّ ليلةٍ : يا باغيَ الخيرِ أقبلْ ، ويا باغيَ الشرِّ أقْصرْ ، وللهِ عتقاءُ من النارِ ، وذلك كلَّ ليلةٍ9
”جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطان اور سرکش جن زنجیروں میں جکڑ دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور اس کا کوئی بھی دروازہ کھلا ہوا نہیں رہتا، جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، اور اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیں رہتا، منادی پکارتا ہے: اے بھلائی کے چاہنے والے! بھلائی کے کام پہ آگے بڑھ، اور اے برائی کے چاہنے والے! اپنی برائی سے رک جا، کچھ لوگوں کو اللہ جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہے، اور یہ (رمضان کی) ہر رات کو ہوتا ہے۔
جہنم سے آزادی
ماہِ رمضان کی ایک خصوصیت اور برکت یہ ہے کہ اور اس مبارك مہینہ کی ہر رات کواللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کوجہنم سے آزاد فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إنَّ للهِ تعالى عند كلِّ فطرٍ عُتَقاءَ من النارِ ، وذلك في كلِّ ليلةٍ 10
ہر افطاری کے وقت اللہ تعالیٰ بہت سوں کو دوزخ سے آزاد فرماتے ہیں اور ایسا ہر شب ہوتا ہے ۔
ارکان اسلام کا عظیم رکن
ماہِ رمضان کی ایک خصوصیت اور برکت یہ ہے کہ ماہِ رمضان کے روزے رکھنا ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے اور اس کے بغیر اسلام مکمل نہیں ہوتا، لہٰذا جو اس کی فرضیت کا انکار کرے وہ کافر ہے۔جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
(سورۃ البقرۃ ، آیت: 183)
اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کردئیے گئے ویسے ہی جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم تقوی کی راہ اختیار کرو۔
اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بُنِيَ الإسْلَامُ علَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أنْ لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وأنَّ مُحَمَّدًا رَسولُ اللَّهِ، وإقَامِ الصَّلَاةِ، وإيتَاءِ الزَّكَاةِ، والحَجِّ، وصَوْمِ رَمَضَانَ.
( صحيح البخاري: 8)
اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پرمشتمل ہے ایک یہ کہ اللہ ہی کی عبادت کی جائے اور اس کے سوا (تمام جھوٹے معبودوں) کا انکار کیا جائے، دوسرے نماز پڑھنا، تیسرے زکوٰۃ دینا، چوتھے بیت اللہ کا حج کرنا، پانچویں رمضان کے روزے رکھنا۔“
نیکیوں کا مہینہ
ماہِ رمضان کی ایک خصوصیت اور برکت یہ ہے کہ اس ماہ میں اچھائی اور نیکی کے بہت سے کام سرانجام پاتے ہیں ، نیکی کرنے والے لوگوں کی تعداد میں بہت ہی اضافہ دیکھنے میں آتا ہے اور مساجد میں لوگوں کا ہجوم در ہجوم لوگوں کا اجتماعی اور انفرادی طور پر مساجد کی طرف راغب ہوتے ہیں۔یہ سب اس بابرکت مہینے کے علاوہ کسی اورمہینے میں نہیں ملتا،لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ رمضان میں تو مساجد میں بڑی تعداد میں ٹرن آؤٹ ملتا ہے لیکن رمضان کےبعد مسجدیں خالی اور ویران نظر آتی ہیں تو ایسی قومیں اور لوگ بیحد برے ہیں جو اللہ تعالی ٰکو صرف ماہ رمضان میں ہی یاد کرتے ہیں ۔
بد نصیب اور بدبخت انسان کون؟
اور اگر کوئی شخص ان خصوصیات اور برکات کے باوجود ماہِ رمضان میں اللہ کو یاد کرکےجنت میں اپنی جگہ نہ بنا سکے تو اس سے بڑھ کر بدبخت اور بد نصیب انسان دنیا میں کوئی نہیں ہے ۔اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ورَغِمَ أنفُ رجلٍ دخلَ علَيهِ رمضانُ ثمَّ انسلخَ قبلَ أن يُغفَرَ لَهُ .
(صحيح الترمذي: 3545)
اس شخص کی بھی ناک خاک آلود ہو جس کی زندگی میں رمضان کا مہینہ آیا اور اس کی مغفرت ہوئے بغیر وہ مہینہ گزر گیا۔
یہ ماہِ رمضان کی چند خصوصیات ،برکات اور کرم نوازیاں ہیں ۔ماہِ رمضان اپنے رب سے تعلق مضبوط کرنے اور اللہ تعالیٰ سے قریب ہونےکا مہینہ ہے۔ہمیں ماہِ رمضان کے اس نادر موقع سے حتی الامکان فائدہ اٹھانا چاہیے، اور اپنا وقت ایسے ثمر آور اور فائدہ مند کاموں میں لگانا چاہیئے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رحمت ، برکت، مغفرت اور خوشنودی حاصل ہو۔اللہ تعالیٰ اس ماہِ مبارک کو اس کے شایانِ شان گذارنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے لیے توشہ آخرت جمع کرنے کا ذریعہ بنائے ۔ آمین ،
اللهم أعزَّ الإسلام والمسلمين ، اللهم انصر من نصر دينك وكتابك وسنَّة نبيك محمدٍ صلى الله عليه وسلم . اللهم انصر إخواننا المسلمين المستضعفين في كل مكان ، اللهم آمنَّا في أوطاننا وأصلح أئمتنا وولاة أمورنا ، اللهم آت نفوسنا تقواها ، زكها أنت خير من زكاها ، أنت وليها ومولاها . اللهم إنا نسألك الهدى والتقى والعفاف والغنى . اللهم أصلح لنا ديننا الذي هو عصمة أمرنا ،وأصلح لنا دنيانا التي فيها معاشنا ، وأصلح لنا آخرتنا التي فيها معادنا ، واجعل الحياة زيادة لنا في كل خير ، واجعل الموت راحةً لنا من كل شر . اللهم يا ربنا إننا نتوجه إليك ونسألك بأسمائك الحسنى وصفاتك العليا وبأنك أنت الله لا إله إلا أنت أن تغنِّمنا أجمعين خيرات رمضان وبركاته العظام ، وأن ترزقنا أجمعين في هذا الموسم العظيم غفران الذنوب والعتق من النار ، وأن تعيننا فيه أجمعين على ذكرك وشكرك وحُسن عبادتك .وصلى الله وسلم وبارك على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين۔
- (رواه أحمد:9213، وصححه الألباني في صحيح النسائي:1992)
- (صحيح الترغيب: 1032 وصحّحه شعيب الأرناؤوط في تخريج المسند: 23070)
- (فتح الباري ، 4 / 114)
- (صححه شعيب الأرناؤوط في تخريج المسند : 11086 )
- فتح الباري لابن حجر 4/ 140
- (حجة الله البالغة :2/ 89)
- (تفسیر سعدی: 931)
- بخاری: (1863) مسلم: (1256)
- (صحيح ابن ماجه: 1339، وصحيح الجامع : 759)
- ( صحيح ابن ماجه: 1340 وصحيح الجامع : 2170)