ماہ صفر اس وقت جاری ہے ، یہ وہ مہینہ ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے معمول کی عبادت کے علاوہ نہ کوئی خاص عبادت کی ہے اور نہ ہی ہمیں اس کا حکم دیا اور نہ ہی کسی خاص بلا سے بچنے کے لیے خبر دار کیا اور نہ ہی اس مہینے کے بارے میں کسی خاص توہم پرستی ، بد شگونی یا بد فالی کی تعلیم دی ہے مگر بد قسمتی سےمسلمانوں کا ایک مخصوص طبقہ اس مہینے کے تعلق سے عجیب وغریب غلط عقائد ونظریات، بدعات وخرافات اورتوہمات کا شکار ہے ، درج ذیل سطور میں ماہ صفر کی بد شگونی سے متعلق چند اہم حقائق اورنکات پیش کیے جاتے ہیں:
عربی میں نحوست یا بد شگونی کے لیے لفظ ” طیرۃ ” استعمال ہوتاہے جو طیر سے نکلا ہے جس کے معنی پرندے کے ہیں ۔چونکہ عرب فال لینے کے لیےپرندے اڑاتے تھے اس لیے لفظ طائر بد فالی اور بد شگونی کے لیے استعمال ہونے لگا۔
التَطَیُّرُ :
لغت میں پرندہ اُڑانا ، یعنی پرندے کواس مقصدکے لیے اڑاناکہ اگروہ دائیں جانب اڑے تواسے اپنے آئندہ کام میں اچھاسمجھاجائے اوراگربائیں جانب اڑے تواسے اپنے لیے بُراسمجھاجائے۔
شرعی اصظلاح میں کسی چیز، شخص، عمل، دن ،وقت یاسنائی دینے والی کسی آواز کو اپنے حق میں بُرا سمجھنا۔
وضاحت: دورِجاہلیت میں عربوں کے ہاں بد شگونی کا مشہورطریقہ یہ تھاکہ ان میں سے کوئی شخص سفر یا کسی کام کا ارادہ کرتا توکسی پرندے کو اُڑاتا اور دیکھتا کہ اگرپرندہ اس کے دائیں جانب اڑاہے تووہ اسے اپنے لیے اچھا سمجھتے ہوئے اپنےسفر یا کام کا آغاز کرتا اوراگروہ پرندے کوبائیں جانب اڑتے دیکھتا تواس سے براشگون لیتااورسفر یا کام سے باز آجاتا ۔ اسلام میں کوئی دن ، جگہ یا کوئی انسان منحوس نہیں بلکہ دراصل انسان کاوہ طرز عمل ، رویہ ، اخلاق اور طریقہ ہوتا ہے جواس کے لیے مختلف آزمائشوں کا سبب بن جاتا ہے ۔
بدشگونی کسی علم یاواقعہ کی بنیاد پرنہیں ہوتی ، بلکہ محض ضعف اور وہم پرستی کا نتیجہ ہوتی ہے ورنہ اس کا کیا مطلب کہ ایک عقل مندآدمی سچ مچ یہ خیال کرنے لگے کہ فلاں شخص یا فلاں جگہ ، یا فلاں دن منحوس ہے یا وہ کسی پرندے کی آواز سن کر یا آنکھوں کی حرکت دیکھ کر یا کوئی کلمہ سن کر گھبراہٹ محسوس کرنے لگے ،یہی بات نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمائی ہے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے عرض کیاکہ:
يا رَسولَ اللهِ، أُمُورًا كُنَّا نَصْنَعُها في الجاهِلِيَّةِ، كُنَّا نَأْتي الكُهّانَ، قالَ: فلا تَأْتُوا الكُهّانَ قالَ قُلتُ: كُنَّا نَتَطَيَّرُ قالَ: ذاكَ شيءٌ يَجِدُهُ أحَدُكُمْ في نَفْسِهِ، فلا يَصُدَّنَّكُمْ.
(صحيح مسلم: 537 )
اے اللہ کے رسول ! اس بار ے میں آپ کاکیاخیال ہے کہ دورِجاہلیت میں ہم کاہنوں کے پاس جایاکرتے تھے ؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ کاہنوں کے پاس نہ جایا کرو۔میں نے کہا کہ ہم بدشگونی بھی لیاکرتے تھے ؟آپﷺ نے فرمایا کہ یہ محض خیال ہے جودل میں پیداہوجاتاہے اوراس خیال کی بنیادپرکسی چیز سے پیچھے نہ ہٹاکرو‘‘۔
مشرکین عرب کے ہاں ماہِ صفر سے متعلق جو غلط توہمات اور تصورات پائےجاتے تھے اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عرب لوگ حرمت والے تین ماہ ذو القعدہ ، ذو الحجہ اور محرم میں جنگوں اور لڑائیوں سے بازرہتے اور انتطار کرتے رہتے کہ یہ پابندیاں ختم ہوں تو وہ گھروں سے نکلیں اور لوٹ مار شروع کریں ،چنانچہ ماہ ِصفر شروع ہوتے ہی وہ لوٹ مار ، رہزنی اور جنگ وجدل کے ارادے سے جب گھروں سے نکلتے تو ان کے گھر خالی رہ جاتے ،یوں عربی میں یہ محاورہ صَفَرَ المکان( گھر کا خالی ہونا )مشہور ہوگیا ۔
عربوں نے جب دیکھا کہ اس مہینے میں لوگ قتل ہوجاتے ہیں ، گھر برباد اور خالی جاتے ہیں تو انہوں نے اس ماہ سے یہ شگون لیا کہ یہ ماہ ہمارے لیے منحوس ہے ۔ان لوگوں نے گھروں کی بربادی اور ویرانی کی اصل وجہ پر غور نہ کیا اور نہ ہی اپنے عمل کی خرابی کا احساس کیا ، نہ لڑائی جھگڑے اور جنگ جدل سے اپنے آپ کو باز رکھا بلکہ ماہ صفر کو ہی منحوس قرار دے دیا ۔جبکہ نحوست کے بارے میں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنشُورًا
(سورۃ اسراء :13 )
اور ہر انسان کا شگون ہم نے اس کے گلے میں لٹکا رکھاہے اور قیامت کے روز ہم اس کے لیےایک کتاب نکالیں گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گا ۔
یہ آیت صاف بتلا رہی ہے کہ انسان کی نحوست کا تعلق اس کے اپنے عمل سے ہے جبکہ عموما ًانسان یہ سمجھتا ہے کہ نحوست کہیں باہر سے آتی ہے ، چنانچہ وہ کبھی کسی انسان کو ، کبھی کسی جانور کو ، کبھی کسی عدد کو اور کبھی کسی دن کو اور کبھی کسی مہینے کو منحوس قرار دینے لگتا ہے ۔ جبکہ اسلام میں نحوست اور بد شگونی حرام ہے، نبی کریم ﷺ نے بد شگونی کو شرک قرار دیاہے ،کیونکہ اللہ کے علاوہ کسی چیز کو نفع اور نقصان پہنچانے میں موثر سمجھنا شرک ہے ۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :
ولا طِيَرَةَ، ويُعْجِبُنِي الفَأْلُ الصَّالِحُ، الكَلِمَةُ الحَسَنَةُ.
(صحيح البخاري: 5756)
بدشگونی کی کوئی حقیقت نہیں، اور مجھے تو نیک فال، یعنی اچھا کلمہ سن کر نیک شگون لینا پسند ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے سے پہلےلوگ زمانہ جہالت کی جاہلانہ طور طریقوں اوراندھی گمراہی کے فریب میں رہتے تھے۔یہ لوگ اس قدر توہمات اور تصورات میں مبتلا تھے کہ ہر سنائی دینے والی آواز کو باعث نحوست جانتے اور اپنے کاموں سے رک جایا کرتے اور ہرپرندے کی آواز سے بد شگونی لیتے اور مستقبل کے ارادوں سے باز آجاتے ۔ یہ سلسلہ جب مشرکین ِعرب تک پہنچ گیا تو انہوں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بدشگونی لینا شروع کردیا حالانکہ نبی ﷺ توخیر وبرکت کا سرچشمہ تھا ۔چنانچہ جب ان مشرکین عرب پر مہنگائی، خشک سالی یا آفت آتی تھی تو یہ دعویٰ کرتے تھے کہ جو بھی مصیبت اور پریشانی انہیں پہنچی ہے وہ معاذ اللہ محمد ﷺ کی نحوست کی بناء پرہے۔جیساکہ ان مشرکین عرب کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِ اللہِ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِكَ
( سورۃ النساء ، آیت: 78 )
اور اگر انہیں کوئی بھلائی پہنچتی ہے، تو کہتے ہیں کہ’’یہ اللہ کی طرف سے پہنچی ہے‘‘ اور اگر کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تمہاری وجہ سے پہنچی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کارد کرتے ہوئے فرمایا کہ ان پر جوبھی پریشانی، عذاب اور مصیبتیں آتی ہیں وہ صرف اللہ تعالیٰ کی مرضی اور تقدیر اور ان کے گناہوں کی وجہ سے آتی ہیں۔جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ
( سورۃ النساء ، آیت: 79 )
اگر تجھے کوئی فائدہ پہنچے تو وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور کوئی مصیبت آئے تو وہ تیرے اپنے اعمال کی بدولت ہوتی ہے
اگلی آیت میں اللہ پاک نے اس بات کی مزیدوضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللہِ فَمَالِ هَٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا
( سورۃ النساء ، آیت: 78 )
آپ (ان سے) کہئے کہ :’’سب کچھ ہی اللہ کی طرف سے ہوتا ہے‘‘ آخر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔
زمانہ جاہلیت کی عادات میں سے ایک عادت جسے اسلام نے باطل قرار دیا ہے اور اسے اختیار کرنے سے امت مسلمہ کو تنبیہ کی ہے۔ وہ بد شگونی ہے ، رسول کریم ﷺنے زمانہ جاہلیت کی اس بد عادت کی نفی کرتے ہوئے فرمایا:
لَا عَدْوَی، وَلَا طِيَرَةَ، وَلَا هَامَّةَ، وَلَا صَفَرَ
(صحیح البخاری:5757)
کوئی بیماری متعدی نہیں، بدفالی اور بدشگونی کی بھی کچھ حقیقت نہیں۔ نہ الو کا بولنا (کوئی بُرا اثر رکھتا )ہے اور نہ ہی ماہ صفر(منحوس)ہے۔
اس حدیث میں زمانہ جاہلیت کی چاربڑی باتوں کی نفی ہے ۔
« لَا عَدْوَی »
پهلی بات جس كا حدیث میں منع كیا گیا ہے وه چهوت چهات ہے یعنی بیمار آدمی سے تندرست آدمی کی طرف مرض کا منتقل ہوجانا۔ زمانہ جاہلیت میں اہل جاہلیت کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور فیصلے کے بغیر بیماری خود سے پھیل جاتی ہے،اللہ تعالی کی قدرت اورتقدیر کو کوئی دخل نہیں ،حا لانکہ بیماریاں خود سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے پھیلتی ہیں۔ اس حدیث میں مرض کے متعدی ہونے کے بارے میں موجود بداعتقادی کا ردہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ بیماری خود سے متعدی نہیں ہوتی “، اور اس کے لئے آپ ﷺنے اپنے فرمان مبارکہ میں سب سے پہلے اونٹ کو کھجلی کی بیماری کیسے لگی ؟ کہہ کر سمجھایاکہ کسی بیماری کا لاحق ہونا اور اس بیماری سے شفاء یاب ہونا، یہ سب اللہ رب العالمین کے حکم سے ہے، وہی مسبب الاسباب ہے۔ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر سے ہوتا ہے، البتہ بیماریوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اسباب کو اپنانا مستحب ہے۔
« وَلَا طِيَرَةَ »
دوسری بات جس کا حدیث میں منع آیا ہے وہ بد شگونی ہے ، یعنی بعض دنوں، مہینوں، لوگوں، پرندوں، رنگوں اور اس طرح کی چیزوں کے سے بد شگونی اور بد فالی لینا۔ اسی طرح انسان کا بعض بُرے کلمات کو سن کر ان سے بدشگونی لیتے ہوئے اپنی حاجت سے رک جانا اور یہ اعتقاد رکھنا کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہوگا، مثال کے طور وہ کسی کو اے ہلاک ہونے والے!، یا اے برباد ہونے والے!یا اے خسارا اٹھانے والے! کہتے ہوئے سنے اور یہ سن کر وہ کام چھوڑ دے۔ یا کسی دکھائی دینے والی شے جیسے اُلو،کوا یا لنگڑا ، کانا شخص سے بدشگونی لینا، یا پھر کسی معلوم شے سے بدشگونی لینا جیسے بعض دنوں اور مہینوں سے ، یا ماہِ صفر سے بدشگونی لینا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ خیر یا شر کے واقع ہونے میں ان کا کوئی عمل دخل ہے۔ چنانچہ حدیث میں آپ ﷺ نےفرمایاکہ بد شگونی کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔
« وَلَا هَامَّةَ »
تیسری چیز جس کی نفی کی گئی وہ ہے «ھامہ» یعنی اُلّو کی نحوست ہے، ھامہ اُلّو پرندہ کو کہا جاتا ہے ، عرب لوگ اس کو منحوس جانتے تھے، اور گر گھروں کی چھتوں پر اُلوکھ لیتے تو اس سے بد شگونی لیتے ہوئے یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ یا تو وہ خود مرجائے گا یا اس کے خاندان میں سے کوئی مر جائے گا۔اور بعض یہ سمجھتے تھے کہ مقتول کی روح اُلّو بن کر پکارتی پھرتی ہے، جب اس کا بدلہ لے لیا جاتا ہے تو وہ اڑ جاتا ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
«قال القزاز: الهامة طائر من طير الليل كأنه يعني البومة، وقال ابن الأعرابي كانوا يتشاءمون بها إذا وقعت على بيت أحدهم يقول: نعت إلي نفسي، أو أحدًا من أهل داري
(فتح الباري، ابن حجر، 10/241)
علم نحو اور لغت کے امام محمد بن جعفر القزاز متوفي سنہ412 ھ کا کہنا ہے کہ ھامہ رات کو نکلنے والا اُلو پرندہ ہے۔اور لغت کے امام أبو عبد الله محمد بن زياد بن اعرابی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اُلّو کو منحوس جانتے تھے اور گر کسی کے گھر پر اُلو دکھائی دیتا تو اس سے بد شگونی لیتے ہوئے یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ یا تو وہ خود مرجائے گا یا اس کے خاندان میں سے کوئی مر جائے گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال کو باطل قرار دیا، اور فرمایا: کہ اُلّو پرندے میں كوئی نحوست نہیں ہے ۔
«ولا صَفَرَ»
چوتھی چیز جس کی نفی فرمائی وہ ماہِ صفر کے مہینے کے متعلق نحوست کا عقیدہ ہےیعنی صفر کے مہینے کو جاہلیت کے زمانے میں لوگ منحوس قرار دیتے تھے اور اس مہینے میں یہ لوگ سفر، تجارت یا شادی نہیں کرتے تھے۔ حالانکہ صفر یا کسی اور مہینے میں کوئی بدقسمتی، سعادت مندی یا نحوست نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی تدبیریں ہیں۔لیكن جاہل عوام اب تک اسے منحوس جانتے ہیں، یہ سراسر فضول بات ہے، صفر کا مہینہ اور مہینوں کی طرح ہے، کچھ فرق نہیں ہے۔ یہ بھی آتا ہے کہ عرب ماہ محرم کی جگہ صفر کو حرمت والا مہینہ بنا لیتے تھے، اسلام میں یہ بھی باطل، اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ عربوں کے اعتقاد میں پیٹ میں ایک سانپ ہوتا تھا جس کو صفر کہا جاتا ہے، بھوک کے وقت وہ پیدا ہوتا ہے اور آدمی کو ایذا پہنچاتا ہے، اور ان کے اعتقاد میں یہ متعدی مرض تھا، تو اسلام نے اس کو باطل قرار دیا۔1
ایک شبہ اور اس کا ازالہ
جیساکہ حدیث میں آیا ہے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كه رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لَا عَدْوَی، وَلَا طِيَرَةَ، وَلَا هَامَّةَ، وَلَا صَفَرَ
(صحیح البخاری:5757)
کوئی بیماری متعدی نہیں، بدفالی اور بدشگونی کی بھی کچھ حقیقت نہیں۔ نہ الو کا بولنا (کوئی برا اثر رکھتا )ہے اور نہ ہی ماہ صفر(منحوس)ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
فَرِّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ کَمَا تَفِرُّ مِنَ الْاَسَدِ
(صحیح البخاری :5707)
جذامی (یعنی کوڑھ والے) شخص سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو ۔
ان دونوں حدیثوں میں بظاہر تعارض معلوم ہو رہا ہے یعنی ایک طرف تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدشگونی اور توہم پرستی کی نفی فرما رہے ہیں کہ کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی اور دوسری طرف آپ ﷺ کوڑھی سے بھاگنے اور اس سے دور رہنے کی ہدایت فرما رہے ہیں ۔جس سے نہ صرف بیماری کے متعدی ہونے کا پتہ چلتا ہے بلکہ شگون لینا بھی درست معلوم ہوتا ہے۔
شارح صحیح بخاری امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ان دونوں حدیثوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بعض بیماریاں متعدی ہوتی ہیں ، یا مریض سے میل جول تندرست شخص کے بیمارہو جانے کا باعث بن جاتا ہے، بلکہ ان کامطلب صرف یہ ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تندرست آدمی کا اعتقاد بگڑ جائے وہ یہ سمجھنے لگے کہ میں بیمار آدمی کے ساتھ ملنے کی وجہ سے بیمار ہو گیا ہوں ، یعنی چھوت کا قائل ہو جائے،اس لیے ضعیف الاعتقاد لوگوں کا ایمان بچانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت جاری فرمائی۔2
شارح مسلم امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں ۔ ان میں کوئی تضاد نہیں ۔ پہلی حدیث میں جاہلیت کے اس عقیدہ و خیال کی تردید ہے کہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ بیماریوں کے پھیلنے میں اللہ کا کوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ وہ اپنے طور پر پھیلتی رہتی ہے۔لیکن اس میں اس بات کا انکار نہیں ہے کہ اللہ کے فیصلہ کے تحت متعدی امراض سے نقصان پہنچتا ہے۔ دوسری حدیث میں اللہ تعالیٰ کی مشیت اور فیصلہ کے تحت جن چیزوں سے بالعموم نقصان پہنچتا ہے ان سے بچنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ یہی جمہور علماء کا مسلک ہے اور اسی کو اختیار کیا جانا چائیے ۔3
خلاصہ کلام
مطلب یہ ہے کہ حدیث میں مرض کے متعدی ہونے کی نفی نہیں ہے۔ بلکہ مرض ہی کو حقیقی علت سمجھنے سے منع کیا گیا ہے۔ اسی لئے متعدی امراض سے دور رہنے کی ہدایت بھی ہے۔ لا عدویٰ والی حدیث کے سلسلہ میں یہی باتیں اور یہی تشریح معقول نظر آتی ہے۔ اس لئے کہ اس کی رو سے میڈیکل سائنس اور اسلام میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا ۔ اس لئے کہ آج کی میڈیکل سائنس کی بنیاد طب نبویﷺ پر ہی کھڑی ہے۔ اور میڈیکل سائنس انہی باتوں کو ریسرچ کر کے ہمارے سامنے پیش کر رہی ہے۔ جو صدیوں پہلے قرآن اور احادیث میں بیان کی جا چکی ہیں۔
اور حدیث میں جذام شخص سے بھاگنے کا اور طاعون والے علاقوں میں نا جانے کا حکم اس لیے دیا گیا تاکہ بیماری آگے نہ پھیلے۔ اس حدیث میں بھی بیماری کے متعدی ہونے کا اثبات مؤثر ہونے کی وجہ سے ہے، لیکن اس کی تاثیر کوئی حتمی امر نہیں ہے۔ کہ یہی علت فاعلہ ہے۔ لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجذوم سے بھاگنے اور بیمار اونٹوں کو تندرست اونٹوں کے پاس نہ لانے کا جو حکم دیا ہے، یہ اسباب سے اجتناب کے باب سے ہے، اسباب کی ذاتی تاثیر کی قبیل سے نہیں،جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ
(سورة البقرة،آیت: 195 )
اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔
لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عدویٰ کی تاثیر کا انکار فرمایا ہے کیونکہ امر واقع اور دیگر احادیث سے یہ بات باطل قرار پاتی ہے۔
پہلے اونٹ کو کس نے خارش لگائی تھی ؟
اسی طرح جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا عَدْوَى، ولا صَفَرَ، ولا هامَةَ. فقالَ أعْرابِيٌّ: يا رَسولَ اللہِ فَما بالُ إبِلِي، تَكُونُ في الرَّمْلِ كَأنَّها الظِّباءُ، فَيَأْتي البَعِيرُ الأجْرَبُ فَيَدْخُلُ بيْنَها فيُجْرِبُها؟ فقالَ: فمَن أعْدَى الأوَّلَ؟
(صحيح البخاري: 5717 )
کہ کوئی مرض متعدی نہیں ، ماہ صفر اور الو کی نحو ست کی کوئی حقیقت نہیں ،اس پر ایک اعرابی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! پھر میرے اونٹوں کو کیا ہو گیا ہےکہ وہ جب تک ریگستان میں رہتے ہیں تو ہرنوں کی طرح (صاف اور خوب چکنے) رہتے ہیں پھر ان میں ایک خارش والا اونٹ آ جاتا ہے اور ان میں گھس کر انہیں بھی خارش لگا جاتا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا :یہ بتاؤ کہ پہلے اونٹ کو کس نے خارش لگائی تھی؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ پہلے اونٹ کوخارش کس نے لگائی تھی؟اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مریض اونٹوں سے تندرست اونٹوں کی طرف مرض اللہ کی تدبیر کے ساتھ منتقل ہوا ہے۔ پہلے اونٹ پر بیماری متعدی صورت کے بغیر اللہ عزوجل کی طرف سے نازل ہوئی تھی ایک چیز کا کبھی کوئی سبب معلوم ہوتا ہے اور کبھی سبب معلوم نہیں ہوتا جیسا کہ پہلے اونٹ کی خارش کا سوائے تقدیر الٰہی کے اور کوئی سبب معلوم نہیں ہے، جب کہ اس کے بعد والے اونٹ کی خارش کا سبب معلوم ہے،اب اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اس (دوسرے اونٹ) کو خارش لاحق نہ ہوتی۔
بہر کیف ! ایک بندہ مؤمن کو یہی عقیدہ رکھنا چاہئے کہ آپﷺکے ارشادات برحق ہیں تو جو بھی بات آپﷺسے ثابت ہے اس میں کوئی تعارض نہیں ہے اور جو بھی تعارض آپﷺکے ارشادات و فرامین میں دیکھنے والے کو نظر آ گئی ہے تو وہ تعارض در حقیقت فہم و ذہن میں ہوتا ہے نہ کے احادیث میں اس لئے کہ احادیث تو سب الہامِ ربانی ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ، إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ
( سورۃ النجم، آیت : 4،3)
وہ اپنی خواہش نفس سے کچھ بھی نہیں کہتے جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ وحی ہوتی ہے جو ان پر نازل کی جاتی ہے۔
ماہِ صفر اور تیرہ تیزی
اب عام جاہل لوگوں کا یہ خیال بنا ہواہے کہ نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مہینہ کی پہلی تاریخ سے لے کر تیرہ تاریخ تک مرض لاحق تھا اورشدیدبخارمیں آپ مبتلاء تھے لہذا ماہ صفرکی یہ تیرہ تاریخیں تیزہ تیزی کے نام سے موسوم کردی گئیں اوریہ تیرہ دن انسانوں پر بہت تیز اور بیماریوں یا نقصانات اورغموں میں گذریں گے ۔
تیرہ تیزی کی حقیقت
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ ﷺ ماہ صفر کی ابتدائی ایام میں نہیں بلکہ صفر کی آخری دنوں میں بیمار ہوئے تھے۔ تاریخی طور 29 صفر بروز بدھ نبی کریم ﷺ کی بیماری کا آغاز ہوا اور بیماری کے تیرہویں دن بارہ ربیع الاول سنہ 11 ہجری بروز پیر آپ ﷺ اس کائنات سے رخصت ہوئے ۔اس کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ 29 صفر کو پیر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقیع قبرستان میں ایک جنازہ میں شرکت فرمائی اور جب آپ جنازے سے واپس تشریف لا رہے تھےتو راستے میں ہی آپ ﷺ کو سر میں شدیددرد شروع ہوگیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماری کی حالت میں گیارہ دن تک لوگوں کو نماز پڑھائی ، تقریبا تیرہ دن آپ ﷺ بیمار رہے۔
علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
تیرہ دن مدتِ علالت صحیح ہے، علالت کے پانچ دن آپ ﷺ نے دوسری ازواج کے حجروں میں بسر فرمائے، اس حساب سے علالت کا آغاز چہار شنبہ (بدھ) سے ہوتا ہے“۔ 4
مؤرخین کے مطابق یہودیوں نے اس دن یعنی 29 صفر کو نبی ﷺ کی بیماری کی خوشی میں ایک دوسرے کو دعوت کا اہتمام کیا تھا ۔ بہرحال یہ سب توہمات اور غلط نظریات ہیں جو مسلمانوں میں محض علم اورعلماء سے دوری اوردین اسلام وتعلیماتِ اسلام سے عدم واقفیت کانتیجہ ہے۔ان تمام تر فاسد خیالات یاباطل نظریات کا اسلام اورشریعت سے کوئی واسطہ اورتعلق نہیں ہے۔
بد شگونی كی بعض صورتیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو بد شگونی سے ممانعت اور تنبیہ کے باوجود بد شگونی کے بعض جاہلانہ عقائد آج بھی بہت سے لوگوں میں برقرار ہیں، مثلاً:
جانور یا پرندوں سے بد شگونی
بد شگونی کی صورتوں میں سے ایک صورت یہ ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں عرب لوگ پرندوں پر اعتماد کیا کرتے تھے، چنانچہ جب ان میں سے کوئی کسی کام کے لیے نکلتا تو اگر وہ پرندے کو دائیں طرف اڑتا دیکھتا تو وہ اس سے اچھا شگون لیتا اور اپنا سفر اور کام جاری رکھتا۔ اسی طرح کسی پرندے یا کسی جانور کی آ واز کو برا یا منحوس سمجھنا راستے میں کالی بلی کے گزرجانے سے راستہ کٹ گیا ،یہ عقیدہ رکھ کر جس اہم کام سے جارہے تھے اسے چھوڑ دینا ۔چنانچہ اسلامی شریعت نے آکر اس کی ممانعت کر دی اور اسے باطل قرار دیتے ہوئے اس سے منع کر دیا ۔
معذرور افراد سے بد شگونی
بدشگونی کی صورتوں میں سے ایک صورت معذرور افراد سے بد شگونی ہے،چنانچہ بہت سے لوگ اب بھی معذور لوگوں کو دیکھ کربد شگونی لیتے ہیں،کوئی اگر دُکان کھولتا ہے اور پہلے دن کوئی اندھا ،یا کانا یا لنگڑا دُکان پر آتا ہے تو بد شگونی کا شکار ہوکراپنی دکان بند کر کے اپنے گھر لوٹ جاتا ہے۔کسی کو سفر کے آغاز میں کوا، اُلّو یا دیگر کالے پرندے یاکالے جانورنظر آتاہے تو اپنے سفر سے واپس آتا ہے۔
اعداد اور ہندسوں سے بد شگونی
جیساکہ عیسائی تیرہ (13) کے عدد کو منحوس سمجھتے ہیں، عیسائیوں کا خیال ہے کہ اس عدد کا تعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب ہونے کے مبینہ واقعے سے ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی نفی كرتے ہوئے فرمایا:
وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ
(سورة النساء : 157)
حالانکہ انہوں نے اسے نہ تو قتل کیا اور نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ یہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ کردیا تھا۔
لوگوں سے بد شگونی:
بد شگونی کی ایک صورت یہ ہے کہ کسی شخص یا عورت یا کسی چیز یا گھر کو منحوس سمجھنا جیسے: فلاں کا چہرہ منحوس ہے، فلاں شخص باعث نحوست ہے ۔
حرکات سے بد شگونی
جیسے پلکوں کے چلنے یا کانوں کے بجنے سے بد شگونی یا بد فالی لینا ، یا انگلیوں چٹخنے، یا عقد نکاح کے وقت چراغ کا ٹوٹ جانا یا پیالہ گرنا، تو بعض لوگ اس قسم كی حرکتوں سے بد شگونی لیتےہوئے کہتے ہیں کہ یہ میاں بیوی کے درمیان جدائی اور مشکلات کا سبب ہے۔
قرآن پاک کھولنا
بد شگونی کی ایک صورت یہ ہے کہ سفر ، کاروبار یا كوئی دیگر کام کرتے وقت فال لینے كے غرض سے قرآن پاك کو کھولنا ، اگر اس كی نظركسی ایسی آیت پر پڑے جس میں جنت کا ذکر ہو تو نیك شگون لیتے ہوئے اس كام كو کرنے لگتے ہیں۔ اگر اس كی نظركسی ایسی آیت پر پڑے جس میں جہنم کا ذکر ہو تو وہ بدشگونی لیتے ہوئے اس كام كو کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
چنانچہ آج یہ تمام فاسد خیالات مسلمانوں میں داخل ہوچكےہیں ۔ان تمام نظریات سے بچنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے ۔کیونکہ ان تمام نظریات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ہندوؤں اور دیگر مذاہب سے پھیلے ہوئے نظریات ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں کتاب و سنت کی صحیح فہم عطاء فرماتے ہوئے عمل کی توفیق بخشے۔
شرکیہ شگون معلوم كرنے كا طریقہ
کسی شخص کو یہ کیسے معلوم ہوگا کہ فلاں شگون شرکیہ ہے اور فلاں شگون شرکیہ نہیں ہے تو اس کے جاننے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہر وه شگون جوانسان کو اپنی ضرورت پوری کرنے سے روکےتووہ شرکیہ شگون ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
مَنْ ردَّتْهُ الطِيَرَةُ عن حاجتِهِ فقدْ أشرَكَ
(أحمد في مسنده ( 2 / 220 ) وصححہ الألباني في الصحیحۃ : 1065 )
جو شخص بدشگونی کی وجہ سے اپنا کام چھوڑ دیا اس نے شرک کیا۔
بد شگونی سے بچنے كا طریقے
تقدیر پر ایمان
انسان کو دنیا میں جو بھی تکالیف اور پریشانیاں پہنچتی ہیں وہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے لکھ رکھا ہے ، محض کسی چیز کے دیکھ لینے سے ، یاکسی خاص دن یا مہینے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ، جیساکہ ارشاد گرامی ہے :
مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللہِ يَسِيرٌ
( سورۃ الحدید ، آیت :22 )
کوئی بھی مصیبت جو زمین میں آتی ہے یا خود تمہارے نفوس کو پہنچتی ہے، وہ ہمارے پیدا کرنے سے پہلے ہی ایک کتاب میں لکھی ہوئی ہے (اور) یہ بات بلاشبہ اللہ کے لئے آسان کام ہے۔
نماز استخارہ
استخارہ ایک دعا ہے جس میں انسان اللہ تعالی سے یہ گزارش کرتا ہے کہ اس کے لیے دو کاموں میں سے بہترین کا انتخاب فرما دے، نماز استخارہ میں ایک یا زیادہ حاجات کا ذکر کرسکتا ہے چنانچہ دعائے استخارہ کا ابتدائی حصہ پڑھنے کے بعد بندہ یوں کہے : اے اللہ اگر میری فلاں ، فلاں حاجت میرے لیے بہتر ہے تو انہیں میرے لیے آسان کر دے۔
نماز استخارہ کی فضیلت
پہلی بات: یہ کہ نماز استخارہ میں انسان اپنی حاجتیں صرف اللہ تعالی کے سامنے رکھتا ہے، اور اللہ کے علاوہ ہر چیز سے اپنا تعلق اور ناتا توڑ دیتا ہے، نیز صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالی پر توکل کرتے ہوئے تمام تر امور اسی کے سپرد کر دیتا ہے۔ یہ تمام امور عقیدہ توحید اور اسلام میں انتہائی اعلی مقام کے حامل ہیں ۔
دوسری بات: نماز استخارہ پڑھنے سے درست فیصلہ کرنے میں کامیابی ملتی ہے اور معاملہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے، نیز آگے بڑھنے کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے مدد ملتی ہے؛ کیونکہ اپنے تمام تر معاملات اللہ تعالی کے سپرد کرنے والے کے لیے اللہ تعالی کافی ہو جاتا ہے، اللہ تعالی سے صدق دل سے مانگنے والے شخص کی ضرورت پوری فرماتا ہے ، اس کی دعا مسترد نہیں فرماتا۔
تیسری بات: اللہ تعالی کے فیصلوں پر کامل رضا اور اظہار اطمینان ، اللہ تعالی کی دین پر مکمل قناعت بھی نماز استخارہ سے حاصل ہوتی ہے؛ کیونکہ استخارہ کرنے والا شخص کبھی بھی اپنے فیصلے پر نادم نہیں ہوتا، اس کے دل میں اتنا اطمینان اور یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ اسے اپنے کسی فیصلے پر کسی بھی قسم کا دکھ اور پریشانی لاحق نہیں ہوتی، یہ چیز نماز استخارہ کی وجہ سے حاصل ہونے والا سب سے بڑا فائدہ ہے۔
لہذا اگر وه سفر، شادی، نوکری یا تجارت جیسے کسی معاملے کا اراده ركهتا ہو تو اسے استخارہ کی نماز پڑھنی چاہیے۔استخارہ میں نہایت خشوع اور خضوع كے ساتھ یہ مشہور دعا پڑھنا مسنون ہے۔حضرت جابر رضی الله عنہ بیان كرتے ہیں کہ:
كانَ رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ في الأُمُورِ كُلِّهَا كما يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنَ القُرْآنِ؛ يقولُ: إذَا هَمَّ أحَدُكُمْ بالأمْرِ، فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِن غيرِ الفَرِيضَةِ، ثُمَّ لْيَقُل:
(صحيح البخاري: 1162)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو ہر مباح کام میں استخارہ کرنا سکھاتے تھے جس طرح آپ قرآن کی سورت سکھاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ جب تم میں سے کوئی کسی کام کا مقصد کرے تو اسے چاہئے کہ فرض کے سوا دو رکعت نفل نماز پڑھے، پھر سلام کے بعد یہ دعا کرے۔
اللَّهُمَّ إنِّي أسْتَخِيرُكَ بعِلْمِكَ، وأَسْتَقْدِرُكَ بقُدْرَتِكَ، وأَسْأَلُكَ مِن فَضْلِكَ العَظِيمِ؛ فإنَّكَ تَقْدِرُ ولَا أقْدِرُ، وتَعْلَمُ ولَا أعْلَمُ، وأَنْتَ عَلَّامُ الغُيُوبِ، اللَّهُمَّ إنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أنَّ هذا الأمْرَ خَيْرٌ لي في دِينِي ومعاشِي وعَاقِبَةِ أمْرِي – أوْ قالَ: عَاجِلِ أمْرِي وآجِلِهِ – فَاقْدُرْهُ لي ويَسِّرْهُ لِي، ثُمَّ بَارِكْ لي فِيهِ، وإنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أنَّ هذا الأمْرَ شَرٌّ لي في دِينِي ومعاشِي وعَاقِبَةِ أمْرِي – أوْ قالَ: في عَاجِلِ أمْرِي وآجِلِهِ – فَاصْرِفْهُ عَنِّي واصْرِفْنِي عنْه، واقْدُرْ لي الخَيْرَ حَيْثُ كَانَ، ثُمَّ أرْضِنِي بهِ ۔
”اے اللہ! میں تیرے علم کے ذریعے تجھ سے بھلائی طلب کرتا ہوں، اور تیری طاقت کے ذریعے تجھ سے طاقت طلب کرتا ہوں، اور تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں، تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا، تو علم والا ہے اور میں لا علم ہوں، تو تمام غیبوں کو خوب جاننے والا ہے، اے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے حق میں، میرے دین، میری روزی اور انجام کے اعتبار سے (یا آپ نے فرمایا: یا میری دنیا اور آخرت کے لحاظ سے) بہتر ہے، تو اسے تو میرے لیے آسان بنا دے اور مجھے اس میں برکت عطا فرما، اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے حق میں، میرے دین، میری روزی اور انجام کے اعتبار سے یا فرمایا میری دنیا اور آخرت کے لحاظ سے میرے لیے برا ہے تو اسے تو مجھ سے پھیر دے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے خیر مقدر فرما دے وہ جہاں بھی ہو، پھر مجھے اس پر راضی کر دے۔ آپ نے فرمایا:پھر اپنی حاجت کا نام لے۔
اورجب دو کاموں میں سے کسی ایک کام کے لیے آپ کا دل آمدہ ہوجائے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ نے اس کام کو آپ کے لیے پسند فرما لیا ہے۔
اللہ تعالی پر مضبوط توکل
ایك مسلمان كی علامت یہ ہے کہ وه الله پر بهروسہ اور اعتماد كرتے ہوئے مطمئن اورپُر سکون رہے کہ جب تک اللہ کا حکم نہ ہو کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ،جیساکہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللہُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا وَعَلَى اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
(سورۃ التوبۃ ، آیت: 51 )
آپ کہہ دیجئے : ہمیں اگر کوئی مصیبت آئے گی تو وہی آئے گی جو اللہ نے ہمارے مقدر کر رکھی ہے، وہی ہمارا سرپرست ہے اور مومنوں کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہئے۔
جب اللہ کے حکم کے بغیر دنیا میں کوئی پتا بھی حرکت نہیں کرسکتا تو پھرآپ کو ماہِ صفر ، کالی بلی، اُلّو اور دیگر چیزوں سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔
دین دارار لوگوں سے مشاورت
بد شگونی سے بچنے کے لئےاستخارہ کرنے کے ساتھ ساتھ دین دار، تجربہ كار اور قابل بهروسہ لوگوں سے مشورہ کرنا بھی سنت رسول باعثِ خیر و برکت ہے ۔
بد شگونی کاکفارہ
اگر کوءی بد شگونی میں واقع ہوگیا تو اس کے علاج کےلئے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ رَدَّتْهُ الطِّيَرَةُ مِنْ حَاجَةٍ فَقَدْ أَشْرَكَ ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا كَفَّارَةُ ذَلِكَ ؟ قَالَ:أَنْ يَقُولَ أَحَدُهُمُ : اللَّهُمَّ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُكَ، وَلَا طَيْرَ إِلَّا طَيْرُكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ
(مسند أحمد :7045 بإسناد صحيح، وصحيح الجامع: 6264 )
جو شخص بدشگونی کی بنا پر کسی کام سے رک گیا،تو اس نے شرک کا ارتکاب کر لیا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا ،اس کا کفارہ کیا ہے ؟آپﷺ نے فرمایا:اس کا کفارہ یہ دعا ہے:
اَللَّهُمَّ لاَخَيْرَ إِلاَّ خَيْرُكَ، وَلاَطَيْرَ إِلاَّ طَيْرُكَ، وَلاَ إِلهَ غَيْرُكَ۔
اے اللہ ! تیری بھلائی کے علاوہ کوئی بھلائی نہیں۔ اور تیرے شگون کے علاوہ کوئی شگون نہیں ۔ اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔
بد شگونی اور اس کے نقصانات
بد شگونی کا عقیدہ تقریبا ہر دور سے چلتا آرہا ہے ، جیساکہ علامہ ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وکثیر من الجہال یتشاءم بصفر وربما ینھی عن السفر فیه والتشاؤم بصفر ھو من جنس الطیرۃ المنھی عنھا5
بہت سے جاہل ماہِ صفر کو منحوس سمجھتے ہیں اور بسا اوقات وہ اس مہینے میں سفر کرنے سے رکے رہتے ہیں اور ماہِ صفر کو منحوس سمجھنا اصل بد شگونی ہے جس سے منع کیا گیا ہے ۔
بد شگونی توحید کے منافی ہے
بد شگونی دو وجوہات کی بنا پرتوحید کے منافی ہے :
1 ۔ بد شگونی لینے والے نے اللہ پر توکل وبھروسہ توڑدیاا اور اللہ کے علاوہ کسی اور پر بھروسہ کرلیا۔
2 ۔ بد شگونی لینے والے نےکسی ایسی چیز سے تعلق جوڑا جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ وہ ایک وہم اور خیال ہے۔
بد شگونی شرک ہے
بد شگونی شرک ہے ، رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے :
من ردّتهُ الطيرةُ ، فقد قارفَ الشركَ
(السلسلۃ الصحیحۃ : 1065 )
جو شخص بدشگونی کی بنا پراپنے کسی کام سے رک گیا،تو اس نے شرک کا ارتکاب کر لیا۔
نحوست بد اعمالی میں ہے
نحوست کی اصل وجہ زمانہ نہیں، نہ کوئی دن منحوس ہے اور نہ کوئی مہینہ، بلکہ نحوست اگر کسی چیز میں ہے تو انسان کے اپنے بُرے اعمال میں ہیں ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ
( سورۃ الشوریٰ ،آیت:30 )
اور تمہیں جو مصیبت بھی آتی ہے تمہارے اپنے ہی کرتوتوں کے سبب سے آتی ہےاور اللہ بہت سے گناہوں کو درگزر کردیتا ہے۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
( سورۃ الروم ۔ آیت:41)
خشکی اور تری میں لوگوں کی بد اعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا، تاکہ اللہ ان کو ان کے بعض بد اعمالیوں کا مزا چکھائے، شاید کہ وہ (اپنے رب کی طرف) رجوع کریں۔
اللہ تعالیٰ کی ذات منحوس نہیں
کسی دن یا مہینے کومنحوس کہنے کا مطلب یہ ہے کہ معاذ اللہ ہم اللہ تعالیٰ کو منحوس کہہ رہے ہیں ، کیونکہ دن اور مہینہ زمانہ کہلاتا ہے اور زمانہ کو برا کہنا در حقیقت اللہ کو بُرا کہنا ہے ، جیساکہ حدیث قدسی میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ، بِيَدِي الأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ
(رواه البخاري :4826، ومسلم :2246).
اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف دیتا ہے وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں میرے ہی ہاتھ میں سارے امورہیں۔ میں ہی رات اوردن کو بدلتا رہتا ہوں ۔
بد شگونی لینا گمراہ قوموں کا طریقہ
کسی دن ، مہینہ ، شخص ، پرندہ ، جانور، رنگ یا کسی اور چیز سے بد شگونی گمراہ قوموں کا کام ہے جیساکہ قوم فرعون کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هَٰذِهِ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا بِمُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ
(سورۃ اعراف، آیت : 131 )
جب انہیں کوئی بھلائی پہنچتی تو کہتے کہ ہم اسی کے مستحق تھے اور جب کوئی برائی پہنچتی تو اسے موسی علیہ السلام اور اس کے ساتھیوں کی نحوست بتلاتے۔
قوم ثمود نے بھی یہی کہا تھا:
قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَن مَّعَكَ
( سورۃ النمل ،آیت: 47 )
اے ثمود ! ہم نے تو تجھے اور تیرے ساتھیوں کو منحوس پایا ہے۔
اہل انطاکیہ نے حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں یہی کہا تھا :
قَالُوا إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ لَئِن لَّمْ تَنتَهُوا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ
( سورۃ یس ،آیت :18)
وہ کہنے لگے کہ : ہم تو تمہیں منحوس سمجھتے ہیں۔ اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں سنگسار کردیں گے اور ہمارے ہاتھوں تمہیں دردناک سزا ملے گی‘‘
بد شگونی لینے والا شریعت ِمحمدیہ سے خارج
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کے بازو میں پیتل کا چھلہ دیکھا تو پوچھا: یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: یہ کمزروی کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے کہا: اگر اس چھلہ کو پہنے ہوئے تجھے موت آ گئی تو تجھے اسی کے سپرد کر دیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ليس مِنَّا من تَطيَّرَ أو تُطُيِّرَ له ، أو تَكهَّنَ أو تُكُهِّن له ، أو سَحَرَ أو سُحِرَ له
(السلسلۃ الصحیحۃ : 2195)
جو فال نکالے یا جس کے لیے فال نکالا جائے، جو کہانت کا پیشہ اختیار کرے یا جو کاہن کے پاس جائے یا جو جادو کرے یا کروائے، وہ ہم میں سے نہیں۔
اس حدیث میں آپ ﷺ یہ فرما رہے ہیں کہ بدفالی لینے والا ہماری شریعت کا اتباع کرنے والوں میں سے نہیں۔ اس لئے کہ اس میں علمِ غیب کا دعویٰ کرنا ہے جو کہ اللہ کے ساتھ خاص ہے، اس میں عقائد اور عقلوں کا بگاڑ ہے،
بد شگونی سے بچنے کی فضیلت
بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخلہ
اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان اور پختہ توکل کرنے اور بد شگونی اور بد فالی سے بچنے کا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعٓلیٰ ایسے شخص کو بغیر کسی حساب وکتاب کے جنت میں داخل فرمادے گا۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے :
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھ پر سابقہ اُمتیں پیش کی گئیں تو ایک نبی گزرنے لگے جن کے ساتھ کثیر تعداد تھی، کسی نبی کے ساتھ گروہ تھا، کسی نبی کے ساتھ دس افراد تھے، اور کسی نبی کے ساتھ پانچ افراد تھے، اور کوئی نبی اکیلا ہی تھا، اُسی دوران میں نے ایک جمِ غفیر دیکھا تو پوچھا: جبرئیل! یہ میری اُمت ہے؟ اُس نے کہا: نہیں! بلکہ آپ آسمان کے کنارے کی طرف دیکھیں تو میں نے عظیم جمِ غفیر دیکھا۔ اس نے کہا: یہ آپ کی اُمت ہے۔ ان میں سے پہلے ستر ہزار افراد بغیر حساب و عذاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ میں نے کہا: کیوں؟ اس نے کہا:
كَانُوا لَا يَكْتَوُونَ وَلَا يَسْتَرْقُونَ، وَلَا يَتَطَيَّرُونَ، وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
(صحیح بخاری : 6541 )
یہ وہ لوگ ہیں جو نہ داغ لگوا کر علاج کراتے تھے، نہ غیر شرعی جھاڑ پھونک کراتے تھے، نہ بد شگونی لیتے تھے اور اپنے رب پر کاملاً توکل کرتے تھے۔
اس حدیث میں بغیر حساب وکتاب کے جنت میں جانے والوں کی صفات کا تذکرہ ہے کہ وہ کسی چیز کو منحوس نہیں سمجھتے اور وہ اللہ پر مکمل توکل کرتے تھے ۔
ماہ صفر کے آخری بدھ کی حقیقت
بر صغیر پاک وہند کے بہت سے مسلمان گھرانوں میں یہ روایت چلی آرہی ہے کہ وہ ماہ صفر کے آخری بدھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے “یوم غسل صحت” کے طور پر مناتے ہیں ، سیر و تفریح کو جاتے ہیں،پوریاں پکتی ہیں نہاتے دھوتے خوشیاں مناتے ہیں۔ اس روز صبح سویرے باغوں کی چہل قدمی کو اجر وثواب کا باعث سمجھتے ہیں ، اور اس خوشی میں بہت سی جگہ تعطیل بھی ہوتی ہے ، اب چند سالوں سے آخری بدھ کوجلوس بھی نکلتاہے ۔جبکہ ماہ صفر کی آخری بدھ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مرض کا آغاز ہوا تھا جس سے آپ ﷺ دوبارہ صحت یاب نہ ہوسکے تھے، اور ماہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو آپ دنیا سے رخصت ہوگئےتھے، جیسا کہ ذیل تاریخی حوالے سے واضح ہے ۔
ثم بدأ برسول الله صلى الله عليه وسلم مرضه الذي مات منه يوم الأربعاء، لليلتين بقيتا من صفر سنة إحدى عشرة في بيت ميمونة، ثم انتقل حين اشتد مرضه إلى بيت عائشة، رضي الله عنها، وقبض يوم الاثنين ضحى في الوقت الذي دخل فيه المدينة لاثنتي عشرة خلت من ربيع الأول.6
ترجمہ :” نبی کریم ﷺ کی اس بیماری کا آغاز جس میں آپ ﷺ کی وفات ہوئی ،سن 11ہجری کے اواخر صفر میں بدھ کے دن جب کہ ماہ صفر کی دوراتیں باقی رہ گئی تھیں حضرت ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ہو ا ، پھر جب آپ ﷺ کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ ﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر منتقل ہو گئے ، اور بارہ ربیع الاول بروز پیر بوقت چاشت جس وقت آپ ﷺمدینہ میں داخل ہوئے تھے آپ ﷺ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی”۔
مسلمانوں کے لیے عبرت کا مقام ہے کہ نبی ﷺ کی بیماری پر جشن منائیں۔
غسلِ صحت کی حقیقت
صفر کی آخری بدھ کو آپ ﷺ کا غسلِ صحت فرمانے کا واقعہ ایک منگھرٹ کہانی ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخی طور بھی خلاف واقعہ بات ہے کیونکہ سیرت اور تاریخ کی اکثر کتابوں میں میں یہ صراحت کی گئی ہے کہ آپ ﷺکی مرض الموت کا آغاز ماہ صفر کے بالکل آخر میں ہو ا ، جب ماہِ صفر کی صرف تین یا دو راتیں باقی رہ گئی تھیں۔ بعض مؤرخین کےمطابق بدھ کے روز آپ ﷺ بیمار ہوئے اور پھر بیمار بھی رہے ، یہاں تک کہ بارہ ربیع الاول سوموار کو دنیا سے رحلت فرما گئے.7
صفر کےمہینے میں رونما ہونے والے عظیم واقعات اور فتوحات:
1۔ ہجرت نبوی ﷺ
ماہ صفر کے آخر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا آغاز فرمایا اور ربیع الاول میں مدینہ منورہ پہنچے ۔.8
2۔ غزوہ ابواء
ماہ صفر سنہ 2 ہجری بمطابق اگست 623 عیسوی میں غزوہ ابواء واقع ہوا ۔یہ پہلی فوجی مہم تھی جس میں رسول اللہﷺ بذاتِ خود تشریف لے گئے تھے۔ اور پندرہ دن مدینے سے باہر گزار کر واپس آئے۔ مہم کا مقصد قریش کے ایک قافلے کا راستہ روکنا تھا۔ آپﷺ مقام وَدَّان تک پہنچے لیکن کوئی معاملہ پیش نہ آیا۔9
3۔ غزوہ خیبر
10ماہ صفر سنہ 7 ہجری میں مسلمانوں کو فتح خیبر نصیب ہوئی ۔4۔ لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی
ماہ صفرکی 27 تاریخ 11 ہجری میں نبی کریمﷺ نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کی قیادت میں لشکر ترتیب دیا، یہ آپﷺ کا ترتیب دیا ہوا آخری لشکر تھا۔ .11
5۔ وفد بنی عذرہ کا قبول اسلام
ماہ صفر9 ہجری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنی عذرہ کا بارہ افراد پر مشتمل وفد آیااور اسلام قبول کر لیا ۔.12
6۔ حضرت صفیہ رضی الله عنہاكی رسول الله ﷺ سے شادی
ماه صفر 7 ھ میں حضرت صفیہ بنت حییّ رضی اللہ عنہاکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی هوئی جس میں اسلام لانےکے بعد آزادی ان کا مہر قرارپائی۔
7 ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا كی رسول الله ﷺ سے شادی
ماہِ صفر میں حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کا نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا، یہ نکاح ماہ صفر کی پجیسویں تاریخ کے بعد انجام پایا ، اُس وقت آپ ﷺ کی عمر مبارک 26 برس تھی۔13
8۔ خاتونِ جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا كی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے شادی
ماہِ صفر پہلی ہجری میں سیِدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ اورخاتونِ جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکی شادی خانہ آبادی ہوئی۔.14
9۔ فتح مدائن
ماہ صفر کی 19 تاریخ 16 ہجری میں حضرت سعد ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ملک فارس کا دار الخلافہ مدائن فتح ہوا ۔ 15
10۔ مشہور صحابہ کا قبول اسلام
حضرت خالد بن ولید،حضرت عمرو بن عاص اور حضرت عثمان بن طلحہ عبدری رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے صفر المظفرآٹھ ہجری میں بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکراسلام قبول کیا۔ 16
لہذا ماہ صفر سے بد شگونی لینا باطل عقیدہ ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو ہر طرح کی بدعت، توہم پرستی، بدشگونی اور نحوست سے محفوظ رکھے اور سچا مومن بنائے۔اور ہمیں ہر طرح کے فتنوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…
کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…
اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…
اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…
قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…
فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…