جیسا کہ سب کو بخوبی علم ہے کہ ہم اس ماہ مبارک میں ہیں جو رجب کا مہینہ کہلاتا ہے۔ ماہِ رجب حرمت والا مہینہ ہے لیکن ہم میں سے اکثر لوگ ماہ رجب کی حرمت سے بے خبر ہیں، بلکہ آج کے دور میں زیادہ تر لوگ فضیلت والے مہینوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں ، چنانچہ وہ ان مہینوں کی برکات اور فضائل سے محروم رہتے ہیں ، درج ذیل سطور میں چند گذارشات پیش کرنے کی کوشش کریں گے کہ ماہِ رجب کی کیا حرمت ہے ؟ اور اس کی حُرمت کے تقاضے کیا کیا ہیں؟ اور وہ کون سے اعمال ہیں جن سے ماہ رجب اور حرمت کے دیگر مہینوں میں خصوصی طور پر اجتناب کرنا لازمی ہے اور اس کی کیا وجوہات ہیں ۔
’’رجب ‘‘ کا لغوی معنی
رجب عربی زبان کا لفظ ہے۔لفظ ” ترجیب” سے مشتق ہے۔اور اس کا معنی تعظیم وتکریم کرنا ہے1
رجب: من الترجيب، وهو التعظيم، ويجمع على أرجاب، ورِجَاب، ورَجَبات.
“رجب ”یہ ترجیب سے نکلا ہے ، جس کا معنی تعظیم ہے ، اس کی جمع أرجاب، ورِجَاب، ورَجَبات آتی ہے ۔2
’’رجب ‘‘ کی وجہ تسمیہ :
سمي به لأنهم كانوا يعظمونه ولا يستحلون فيه القتال.
اس مہینے کو’’رجب‘‘ ا س لیے کہا جا تا ہے کہ عرب کے لوگ اِس مہینے کی تعظیم کرتے تھے اور اِس میں جنگ و جدال کو حرام سمجھتے تھے۔3
ماہ رجب کے مختلف نام
1۔ شہر الأصم
قال المبرد: كانت الجاهلية تعظم البيت الحرام و الأشهر الحرم، كانوا يُسَمُّون رجباً: الاصم
زمانہ جاہلیت میں لوگ بیت اللہ اور حرمت والے مہینوں کی تعظیم کیا کرتے تھے ،اور ماہ ِ رجب کو ’’شھر الاصم ‘‘ بھی کہا کرتے تھے ۔’’الاصم ‘‘ کے معنی ’’بہرے ‘‘ کے ہیں ۔4
شہر الأصم کی وجہ تسمیہ
إنما كانوا يسمون رجبا الأصم لأنه كان لا يسمع فيه قعقعة السلاح
ماہ ِ رجب کو ’’شھر الاصم ‘‘ اس لیے کہا جاتا تھا کہ اس مہینے میں جنگ و جدال نہ ہونے کی وجہ سے ہتھیاروں کی آوازیں نہیں آتی تھی ، گویا کہ لڑائی جھگڑا نہ ہونے اور ہتھیاروں کی آوازیں سنائی نہ دینے کی وجہ سے لوگوں کی حالت بہروں کی طرح ہوجاتی تھی۔5
2۔ ”رجب مضر”
نبی رحمت ﷺ نے اپنے فرامین مبارکہ میں اس مہینے کو ’’رجب مضر‘‘ کہا ہے ۔
ورجب مضر الذي بين جمادى وشعبان
( صحیح البخاري:: 4662)
یعنی قبیلہ مضر کا رجب جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں پڑتا ہے ۔
”رجب مضر”کی وجہ تسمیہ
زمانہ جاہلیت میں اس ماہ کی تعظیم کے پیش نظر اس میں جدال و قتال منع تھا۔ قبیلہ مضر کے لوگ بطور خاص اس ماہ کی تعظیم کرتے اور قتل و غارت گری کو اس ماہ میں انتہائی معیوب جانتے تھے۔
وإنما قيل رجب مضر إضافة إليهم لأنهم كانوا أشد تعظيما له من غيرهم فكأنهم اختصوا به
’’مضر‘‘ دارالاصل عرب کے ایک قبیلے کا نام ہے ، یہ لوگ رجب کی بہت زیادہ تعظیم کرتے تھے ، اس لیے ان کی طرف نسبت کرتے ہوئے اس مہینے کو ’’رجب مضر‘‘ کہا گیا۔6
اور جب اسلام کا ظہور ہوا تو اسلام نے اس ماہ کی تعظیم و توقیر کو برقرار رکھتے ہوئے اسے حرمت والے مہینوں میں شامل کردیا اور فرمایا:
فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ
(التوبۃ: 36)
لہٰذا اس میں اپنے آپ پر ظلم نہ کرو۔
ماہ رجب کو مضر قبیلے کی طرف منسوب کرنے کا سبب
حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ”رجب مضر ” کہہ کر مضر قبیلے کی طرف نسبت یہ بتلانے کے لیے کی کہ اس قبیلے کے لوگ رجب کے بارے میں درست موقف رکھتے تھے ، جبکہ ربیعہ قبیلے کے لوگ رمضان کے مہینے کو حرمت والا سمجھتے تھے اور ماہ رمضان کو شعبان اور شوال کے درمیان والا رجب کہتے تھے ، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مضر قبیلے کے رجب کو حرمت والا قرار دیا نہ کہ ربیعہ خاندان کے رجب کو۔
ماہ رجب کی فضیلت
رجب ہجری سال کا ساتواں مہینہ ہے ، اور اس کا شمار حرمت والے چار مہینوں میں ہوتا ہے ، ان مہینوں میں جنگ و جدال کوحرام قراردیا گیا ، یاد رہے کہ جنگ و جدال اور فتنہ و فساد تو ہر مہینے اور ہر وقت حرام و ممنوع ہیں ، لیکن ان چار مہینوں کی حرمت و تعظیم کی بناء پر خصوصی طور پر ان میں ظلم و فساد سے منع کیا گیا ، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللہِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
( سورۃ التوبۃ : 36)
ترجمہ : جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اسی دن سے اللہ کے زندیک اس کتاب میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے، ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں، یہی صحیح دین ہے، پس تم ان کے بارے میں اپنے آپ پر ظلم نہ کرو، اور تم مشرکوں سے اکٹھے ہو کر جنگ کرو، جیسے وہ تم سے اکٹھے ہو کر جنگ کرتے ہیں، اور جان لو کہ اللہ بے شک تقوی والوں کے ساتھ ہے۔
اور سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج میں خطبہ دیا تو فرمایا:
الزَّمانُ قَدِ اسْتَدارَ كَهَيْئَةِ يَومَ خَلَقَ السَّمَواتِ والأرْضَ؛ السَّنَةُ اثْنا عَشَرَ شَهْرًا، مِنْها أرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلاثَةٌ مُتَوالِياتٌ: ذُو القَعْدَةِ، وذُو الحِجَّةِ، والمُحَرَّمُ، ورَجَبُ مُضَرَ الذي بيْنَ جُمادَى وشَعْبانَ
(صحيح البخاري: 4406، ومسلم :1679)
ترجمہ : دیکھو زمانہ پھر اپنی پہلی اسی حالت پر آ گیا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ تین تو لگاتار یعنی ذی قعدہ، ذی الحجۃ اور محرم اور چوتھا رجب مضر جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں پڑتا ہے۔
حرمت کا مطلب ومفہوم
حرمت والے مہینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے اندر لڑائی، جھگڑے، فساد ، ظلم و زیادتی اور لوگوں کے حقوق کھانے کو حرام قرار دیا ہے ، ظلم و زیادتی تو ویسے بھی ہر جگہ اور ہر وقت حرام ہے لیکن اس مہینے میں ان چیزوں کی حرمت اور بڑھ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے چار مہینوں کو حرمت والا مہینہ قرار دیا ہے ، تین مہینے ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم، یہ تین ماہ متواتر ہیں ۔ حج کا مقدس فریضہ بھی انہی مہینوں میں ادا کیا جاتا ہے، یعنی حج کا موسم ذوالحجہ میں آتا ہے، فریضہ حج کی عظمت ، فضیلت اور برکت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ماہِ ذو الحجہ سے ایک مہینہ پہلے اور اس کے بعد کا ایک مہینہ حرمت والا قرار دیا ہے کیونکہ حج کی عبادت ایک عظیم عبادت ہے ۔
علامہ واحدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ومعنى الحرم: أنه يعظم انتهاك المحارم فيها، بأشد مما يعظم في غيرها، وكانت العرب تعظمها، حتى لو لقي الرجل منهم قاتل أبيه: لم يُهِجْه
“قرآنی آیت میں موجود لفظ “حُرُم” کا مطلب یہ ہے کہ ان مہینوں میں حرام کاموں کا ارتکاب دیگر مہینوں میں ارتکاب کرنے سے زیادہ سنگین جرم ہے، عرب ان مہینوں کا احترام کیا کرتے تھے، حتی کہ کوئی باپ کے قاتل کو بھی سامنے دیکھ لیتا تو اسے بھی کچھ نہ کہتا تھا۔7
ماہ رجب کی حرمت زمانہ جاہلیت میں
ماہ رجب کی حرمت زمانہ جاہلیت سے مشہور اور معروف تھی۔ نبی کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے زمانہ جاہلیت میں ان چار مہینوں کا بڑا احترام کیا جاتا تها اور دور جاہلیت میں عرب کے لوگ لوٹ مار، فتنہ و فساد اور چوری و ڈکیتی جیسی بُری عادات کے عادی ہونے کے باوجود ان ایام میں ان تمام قبیح اور بری عادات کو ترک کردیتے تهے ، وہ اس مہینے میں نہ کسی سے لڑتے، نہ ہی کسی سے بدلہ لیتے، حتی کہ اگر کوئی اپنے باپ یا بھائی کے قاتل کو بھی دیکھ لیتا تو بھی اس سے بدلہ نہ لیتا اور نہ ہی اسے دھتکارتا۔ ہر طرف امن و امان اور سکون و اطمینان کا دور دوره ہو جاتا تها پهر اسلام نے بهی ان مہینوں کی عزت و حُرمت کوباقی رکها اور ہر قسم کی فتنہ پردازی اور انسانیت دشمن سرگرمیوں کو ان چار مہینوں میں خصوصی طور پر حرام قرار دیا۔
ان مہینوں کو اشہر حُرم کہنے کی وجہ
1۔ ان مہینوں میں قتال کرنا حرام ہے، الا یہ کہ دشمن کی طرف سے حملہ کر دیا جائے۔
2۔ ان مہینوں میں حرام کاموں کے ارتکاب کی سنگینی دیگر مہینوں سے زیادہ ہے۔
اسی لیے اللہ تعالی نے ہمیں ان مہینوں میں حرام کاموں سے روکا ۔
مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ ”منھا أربعۃ حرم”کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”ان کو حرمت والا دو معنی کے اعتبار سے کہا گیا ہے، ایک تو اس لیے کہ ان میں قتل و قتال حرام ہے اور دوسرا اس لیے کہ یہ مہینے متبرک اور واجب الاحترام ہیں ۔ ان میں عبادات کا ثواب زیادہ ملتا ہے ۔ ان میں پہلا حکم تو شریعت ِاسلام میں منسوخ ہوگیا مگر دوسرا حکم احترام و ادب اور ان میں عبادت گزاری کا اہتمام اسلام میں ابھی باقی ہے۔‘‘8
اگر حرمت والے مہینوں میں کافر مسلمانوں پر حملہ کرے
اگر حرمت والے مہینوں میں کافر مسلمانوں پر حملہ کرنے میں پہل کریں تو مسلمان اپنا بھرپور دفاع کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
(البقرہ :194)
“حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے میں ہیں اور حرمت ادلے بدلے کی ہیں جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی طرح کی زیادتی کرو جتنی زیادتی تم پر کی گئی ہے اللہ سے ڈرتے رہا کرو جان لو کہ اللہ تعالی متقیوں کے ساتھ ہے”
حرمت والے مہینے اور اللہ تعالیٰ کی عظیم تنبیہ
حُرمت والے مہینوں کی عظمت و عزت کی تاکید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُم
(التوبۃ: 36)
ان مہینوں میں حرام کام کر کے اپنے آپ پر ظلم مت ڈھائیں۔
آیت کریمہ میں اس مہینے کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم تنبیہ موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ چونکہ ماہ رجب مقدس اور حرمت والے مہینوں میں شمار ہوتا ہے، لہذا اس مقدس مہینے میں انسان اپنے آپ پر مزید کوئی ظلم نہ کرے ۔ اور وہ انسان جس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہ کرکے پہلے ہی اپنے آپ پر ظلم کر رکھا ہے تو اسے چاہیے کہ اس مہینے میں کسی گناہ کا ارتکاب کرکے اپنے آپ پر مزید کوئی ظلم نہ کرے بلکہ اللہ سے توبہ و استغفار کرے کیونکہ حرمت والے مہینوں میں گناہ کا ارتکاب دوسرے مہینوں کے مقابلے میں بڑا جرم ہے ۔
ظلم کی تعریف
امام طبری، امام رازی اور امام قرطبی رحمھم اللہ فرماتے ہیں:
أصل الظلم وضع الشيء في غير موضعه
ظلم کا اصل معنی کسی شے کو غیر مناسب جگہ پر رکھنا ہے ۔9
حرمت والے مہینوں میں ظلم سے ممانعت کی حکمت
یاد رہے کہ جنگ و جدال اور فتنہ و فساد تو ہر مہینے اور ہر وقت حرام و ممنوع ہیں ، لیکن ان چار مہینوں میں خصوصی طور پرظلم وفساد سے کیوں منع کیا ؟ امام قتادۃ رحمہ اللہ حرمت والے مہینوں میں ظلم سے ممانعت کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
إن الظلم في الأشهر الحرم أعظم خطيئة و وزرا ، من الظلم فيما سواها ، وإن كان الظلم على كل حال عظيما ، ولكن الله يعظم من أمره ما يشاء . قال : إن الله اصطفى صفايا من خلقه ، اصطفى من الملائكة رسلا، ومن الناس رسلا، واصطفى من الكلام ذكره ، واصطفى من الأرض المساجد ، واصطفى من الشهور رمضان والأشهر الحرم ، واصطفى من الأيام يوم الجمعة ، واصطفى من الليالي ليلة القدر ، فعظموا ما عظم الله، فإنما تُعَظّم الأمور بما عظمها الله به عند أهل الفهم وأهل العقل.
حرمت والے مہینوں میں ظلم کا گناہ اور بوجھ دوسرے مہینوں کی نسبت کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور ظلم کا گناہ اگرچہ ہر وقت بڑا ہوتا ہے لیکن اللہ جس مہینے کو چاہے اس میں ظلم کا گناہ اور بڑا کر دے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے پسندیدہ مخلوق کا انتخاب فرمایا چنانچہ فرشتوں میں سے پسندیدہ فرشتوں کا انتخاب فرمایا ، انسانوں میں سے پسندیدہ لوگوں کو رسول منتخب فرمایا، کلام میں سے قرآن مجید کو پسند فرمایا، زمین میں سےمساجد کو پسند فرمایا۔اِسی طرح مہینوں میں سے ماہِ رمضان اور حرمت والے چار مہینوں کو پسند فرمایا۔ دِنوں میں سے یوم جمعہ اور راتوں میں سے لیلتہ القدر کو پسند فرمایا، لہذاتمہیں ان چیزوں کی عظمت کا لحاظ رکھنا چاہئے جنہیں اللہ نے عظمت دی ہے۔ امور کی تعظیم عقل مند اور فہیم لوگوں کے نزدیک اتنی ضروری ہے جتنی ان کی تعظیم اللہ تعالیٰ سبحانہ نے بتائی ہے۔10
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
فلا تظلموا فيهن أنفسكم أي: في هذه الأشهر المحرمة؛ لأنه آكد وأبلغ في الإثم من غيرها، كما أن المعاصي في البلد الحرام تضاعف. “
یعنی ان حرمت والے مہینوں میں تم خصوصی طور پر اپنے آپ کو ظلم سے بچاؤ؛ کیونکہ ان مہینوں میں ظلم سے بچاؤ دیگر مہینوں سے زیادہ11
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
( فلا تظلموا فيهن أنفسكم ) في كلهن ، ثم اختص من ذلك أربعة أشهر فجعلهن حراما ، وعظم حرماتهن ، وجعل الذنب فيهن أعظم ، والعمل الصالح والأجر أعظم.
فیھن سے مراد سال بھر کے کل مہینے ہیں۔ پس ان تمام مہینوں میں گناہوں سے بچو، خصوصاً ان چار مہینوں میں کہ یہ حرمت والے ہیں ان کی بڑی عزت ہے۔ کیونکہ ان میں برائی اور نافرمانی کا گناہ سزا کے اعتبار سے زیادہ ہوجاتا ہے اور نیکیاں اجر وثواب کے اعتبار سے بڑھ جاتی ہیں۔12
اسی طرح علامہ فخر الدين الرازی اپنی تفسیر میں کہتے ہیں:
وهي أن الطباع مجبولة على الظلم والفساد، وامتناعهم من هذه القبائح على الإطلاق شاق عليهم، فالله سبحانه وتعالى خص بعض الأوقات بمزيد التعظيم والاحترام، وخص بعض الأماكن بمزيد التعظيم والاحترام، حتى إن الإنسان ربما امتنع في تلك الأزمنة، وفي تلك الأمكنة، من القبائح والمنكرات، وذلك يوجب أنواعًا من الفضائل والفوائد۔
ترجمہ : انسانی مزاج میں ظلم اور فساد فطری طور پر موجود ہے، چنانچہ کلی طور پر ایسی چیزوں سے دور رہنا انسان کے لیے ناممکن بھی ہے، تو اللہ تعالی نے کچھ اوقات کو اضافی تعظیم اور احترام کے ساتھ خاص بنا دیا، پھر کچھ جگہوں کو اضافی تعظیم اور احترام کے ساتھ خاص بنا دیا، لہذا جب کوئی انسان ان جگہوں اور اوقات میں گناہوں اور برائیوں سے بچتا ہے تو اس عمل کی وجہ سے متعدد فضیلتیں اور فوائد حاصل کرتا ہے13 :
پہلی فضیلت:
ان اوقات میں گناہوں سے دوری شریعت میں مطلوب ہے؛ کیونکہ اس طرح سے جرائم اور گناہوں میں کمی آتی ہے۔
دوسری فضیلت:
ان اوقات میں گناہوں سے دوری کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ ہمیشہ کے لیے یہ گناہ تر ک کر دے۔
تیسری فضیلت:
انسان ان اوقات میں جب نیکیاں کرتا ہے اور برائی سے دور رہتا ہے تو ان اوقات کے گزر جانے کے بعد دوبارہ سے گناہوں کی دلدل میں لت پت ہو تو یہ عمل پہلے کی ہوئی نیکیوں کے ضائع ہونے کا سبب بن سکتا ہے، اب عقل مند شخص کبھی بھی اس بات کو اچھا نہیں سمجھے گا کہ اس کی ماضی میں کی ہوئی نیکیاں ضائع ہو جائیں، اس طرح ممکن ہے کہ وہ شخص دائمی طور پر گناہوں سے بچ جائے۔چنانچہ یہی وہ حکمتیں ہیں جن کی وجہ سے کچھ خطوں اور اوقات کو خصوصی اہمیت اور احترام دیا گیا ہے۔14
ظلم سے کیا مراد ہے ؟
1۔ شرک کرنا
یعنی عبادت میں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے شرک کوسب سے بڑا ظلم قرار دیا ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ
( لقمان: 13)
’’ یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘
وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ
(البقرة:254).
اور کافر لوگ ہی ظالم ہیں۔
2۔ گناہ کا ارتکاب کرنا
ظلم سے مراد گناہ کا ارتکاب کرکے خود اپنے اوپر ظلم کرنا بھی ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَٰكِن ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ
(سورۃ التوبۃ :101)
اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا تھا، بلکہ انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا تھا۔
وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ
( سورۃ الطلاق: 1)
اور جو شخص حدود الٰہی سے تجاوز کرے تو اس نے اپنے اوپر خود ظلم کیا۔
ظلم کی یہ نوعیت اللہ تعالیٰ پر منحصر ہے اگر وہ چاہے تو سزا دے یا چاہے تومعاف کر دے۔ البتہ گناہ سرزد ہونے کے بعد توبہ واستغفار کرلے تو معافی ممکن ہے۔جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللہَ يَجِدِ اللہَ غَفُورًا رَّحِيمًا
( سورۃ النساء:110)
اور جو شخص کوئی برا کام کر بیٹھے یا اپنے آپ پر ظلم کرلے پھر اللہ سے بخشش طلب کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کو بخشنے والا اور رحم کرنے والا پائے گا۔
3۔ دوسرے انسان پر ظلم کرنا
یہ ظلم کی تیسری قسم ہے جوحقوق العباد سے متعلق ہے، یعنی ایک آدمی کسی دوسرے آدمی پر کسی قسم کا ظلم کرے مثلا کسی کو اُس کا حق نہ دینا۔ کسی کو اُس کے حق سے محروم کر دینا۔یا کسی کو اُس کے حق سے کم دینا۔ یا اپنے حق سے زیادہ لے لینا۔کسی کو ذلیل اور رسوا کرنا۔ کسی کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنا۔ کسی پر تہمت لگانا اور اُس کو بدنام کرنے کی کوشش کرنا ،لوگوں کاناحق خون کرنا، کسی کاسامان چھین لینا یاچوری کرلینا، کسی کوگالی دینا، معصوم آدمی پر بہتان لگانا،لوگوں کا دل دکھانا، کسی کی غیبت اور چغلی کرنا، کمزوروں کو پریشان کرنا، علماء کی توہین کرنا ، ان کے لئے مشکلات پیدا کرنا اور مظلوم کے خلاف ظالم کی مدد کرنا وغیرہ ۔ اللہ تعالیٰ نے اسی ظلم کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا:
وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللہِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ
(سورة الشورى:40)
اور برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے۔ پھر جو کوئی معاف کردے اور صلح کرلے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ وہ ظالموں کو قطعاً پسند نہیں کرتا۔
اسی طرح دوسری آیت میں ارشاد فرمایا:
{إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ أُوْلَئِكَ لَهُم عَذَابٌ أَلِيمٌ}
(سورة الشورى 42)
ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔
لوگوں کی حق تلفی سنگین جرم
ظلم کی تینوں اقسام میں یہ وہ بھیانک جرم ہے جس کو اللہ معاف نہیں کرتا اور نہ ہی نماز وروزہ اور حج وعمرہ جیسی نیکی سے تلافی ہوتی ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
مَن كَانَتْ له مَظْلَمَةٌ لأخِيهِ مِن عِرْضِهِ أَوْ شيءٍ، فَلْيَتَحَلَّلْهُ منه اليَومَ، قَبْلَ أَنْ لا يَكونَ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ، إنْ كانَ له عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ منه بقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ، وإنْ لَمْ تَكُنْ له حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِن سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عليه
(صحيح البخاري:2449)
ترجمہ: اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو یا کسی طریقہ (سے ظلم کیا ہو) تو آج ہی، اس دن کے آنے سے پہلے معاف کرا لے جس دن نہ دینار ہوں گے، نہ درہم بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہو گا تو اس کے ظلم کے بدلے میں وہی لے لیا جائے گا اور اگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں ہو گا تو اس کے (مظلوم) ساتھی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔
موجودہ دور کی حالت
آج کی دنیا کا ہر انسان جانے انجانے میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی پرظلم ضرور کر رہا ہے۔ظلم کا مطلب ہے کسی کو اُس کا حق نہ دینا۔ کسی کو اُس کے حق سے محروم کر دینا۔یا کسی کو اُس کے حق سے کم دینا۔ یا اپنے حق سے زیادہ لے لینا۔کسی کو ذلیل اور رسوا کرنا۔ کسی کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنا۔ کسی پر تہمت لگانا اور اُس کو بدنام کرنے کی کوشش کرنا۔کسی کی مجبوری اور بے بسی کا ناجائز فائدہ اٹھانا۔کسی پر احسان کر کے اُس پر احسان جتانا۔ کسی سے نفرت کرنا۔ کسی کے لئے دل میں کینہ اور حسد رکھنا۔کسی کی ٹوہ میں لگے رہنا اور اُس کی جاسوسی کرتے رہنا۔ کسی کے عیب کو دیکھ کر اُس کو لوگوں میں مشہور کر دینا۔
ہر قسم کا ظلم حرام ہے
نبی رحمت ﷺ حدیث قدسی میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
يا عِبَادِي، إنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ علَى نَفْسِي، وَجَعَلْتُهُ بيْنَكُمْ مُحَرَّمًا، فلا تَظَالَمُوا
(صحيح مسلم: 2577)
اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے اور اسےتمہارے درمیان بھی حرام قرار دیا ہے۔ لہٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔
معافی اور سزا کے اعتبار سے ظلم کی اقسام
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الظلمُ ثلاثةٌ ، فظُلمٌ لا يغفرُهُ اللهُ ، وظلمٌ يغفرُهُ ، وظلمٌ لا يتركُهُ ، فأمّا الظلمُ الذي لا يغفرُهُ اللهُ فالشِّركُ ، قال اللهُ : إِنَّ الْشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ، وأمّا الظلمُ الذي يغفرُهُ اللَّهُ فَظُلْمُ العبادِ أنفسُهمْ فيما بينهُمْ وبينَ ربِّهمْ ، وأمّا الظلمُ الّذي لا يتركُهُ اللهُ فظُلمُ العبادِ بعضُهمْ بعضًا حتى يَدِينَ لبعضِهِمْ من بعضٍ
(حسنہ الألبانی فی صحيح الجامع3961)
1۔ ایک ظلم وہ ہے جس کواللہ کسی صورت معاف نہیں فرمائے گا ۔
2۔ ایک ظلم وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ بخش دے گا ۔
3۔ ایک ظلم وہ ہے جس کواللہ کسی صورت نہیں چھوڑے گا۔
جس ظلم کو کسی صورت معاف نہیں فرمائے گا ، وہ شرک ہے جسے اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ” یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔” اور جس ظلم کو معاف کردیا جائے گا وہ اللہ اور بندے کے مابین کیا ہوا ظلم ہے۔ اور وہ ظلم جس کواللہ کسی صورت نہیں چھوڑے گا وہ بندوں کا آپس میں ایک دوسرے پر کیا ہوا ظلم ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر صورت میں مظلوموں کو ظالموں سے قصاص دلوائے گا۔
امام مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أكثر ما يدخل الموحدين النار مظالم العباد
اہل توحید کی جہنم میں جانے کی سب سے بڑی وجہ حقوق العباد کی ادائیگی میں ظلم ڈھانا ہے۔15
معاشرے میں ظلم کی مختلف شکلیں
اگرآج ہم اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں تو ہمیں معاشرے میں ظلم وزیادتی کی دردناک واقعات ،داستانیں اور کہانیاں سننے ، دیکھنے اور پڑھنے کو ملیں گی ۔ ذیل میں ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی ظلم کی چند صورتیں اور اقسام درج کی جاتی ہیں ۔
1۔ دوسروں کی عزتوں سے کھیلنا۔
محترم ہستیوں اور معزز شخصیات کے بارے میں گالی گلوچ اور طعن و تشنیع کی زبان استعمال کرنا بھی ظلم ہے ۔ کیونکہ جان اور مال کے ساتھ ساتھ عزت کی بھی حرمت ہے ، لہذا دوسروں کی جان، مال، عزت و حرمت کا خیال رکھنا ہے۔کیونکہ دوسروں کی عزتوں سے کھیلنا، طعن و تشنع کرنا اور غیبت، چغلی، بدگمانی کرنا بھی ظلم میں شامل ہے ۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔
المسلمُ من سلم الناسُ من لسانه ويدهِ، والمُؤمنُ مَن أمِنَه النَّاسُ على دِمائِهم وأموالِهم
(صحيح النسائي: 5010)
مسلمان وہ ہوتا ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے اور مومن وہ ہوتا ہے جس کی طرف سے دوسروں کو اپنی جان اور مال کا امن ہو۔
2۔ یتیم کا مال ہڑ پ کر لینا
کسی یتیم کی زمین، مال ودولت پر ناجائز قبضہ کرنا بھی ظلم اور بہت بڑا گناہ ہے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا
(سورۃ النساء: 10)
جو لوگ ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں،وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں۔اور وہ عنقریب بھڑکتی آگ میں داخل ہوں گے۔
3۔ کسی کا مال ناجائز طریقہ سے حاصل کرنا
کسی کا مال ناجائز طریقہ سے حاصل کرنا بھی ظلم اور بہت بڑا گناہ ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :
مَن ظَلَمَ قِيدَ شِبْرٍ طُوِّقَهُ مِن سَبْعِ أرَضِينَ.
(صحيح البخاري: 3195)
جس شخص نے ناحق کسی زمین کا تھوڑا سا حصہ بھی لیا تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں تک دھنسا دیا جائے گا۔
4۔ کسی کی زمین پر قبضہ کرنا:
کسی کمزور یا غریب کو دبا کر اس کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنا بھی ظلم اور بہت بڑا گناہ ہے۔ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:
مَن أَخَذَ شِبْرًا مِنَ الأرْضِ ظُلْمًا، فإنَّه يُطَوَّقُهُ يَومَ القِيَامَةِ مِن سَبْعِ أَرَضِينَ
(صحيح مسلم: 1610)
اگر کسی شخص نے ایک بالشت زمین بھی کسی دوسرے کی ظلماً لے لی تو سات زمین کا طوق اس کی گردن میں پہنایا جائے گا ۔
5۔ بیٹیوں اور بہنوں کو جائداد سے محروم کرنا
ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا المیہ ہے یہ کہ ہم جہیز کے نام پہ بیٹیوں اور بہنوں کو زمین جائداد سے محروم کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے انہیں جہیز دے دیا ، لہذا ان کا حق ادا ہو گیا، جبکہ اللہ تعالی نے جہیز کا کوئی حکم نہیں دیا اور وراثت میں سے حصہ دینے کا پابند کیا ہے ۔بیٹیوں اور بہنوں کو جائداد سے محروم کرنا بھی ظلم ہے ، لہذا خود کو اس جرم سے بچائیں اور اپنی آخرت سنواریں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَن أَخَذَ مِنَ الأَرْضِ شيئًا بغيرِ حَقِّهِ خُسِفَ به يَومَ القِيَامَةِ إلى سَبْعِ أَرَضِينَ.
( صحيح البخاري: 2454)
”جس نے کسی کی زمین میں سے کچھ ناحق لے لیا تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔“
6۔ غیر مسلم پر ظلم کرنا
مسلمانوں کی طرح غیر مسلموں سے بھی انسانیت کی بنیاد پر ایک ہی جیسا برتاؤ کیا جائے گا۔ کسی غیر مسلم پر بھی ظلم کرنا حرام ہے۔ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:
ألا مَن ظلمَ مُعاهدًا، أوِ انتقصَهُ، أو كلَّفَهُ فوقَ طاقتِهِ، أو أخذَ منهُ شيئًا بغَيرِ طيبِ نفسٍ، فأَنا حَجيجُهُ يومَ القيامةِ
(صحيح أبي داود: 3052)
جو شخص ذمی (یعنی وہ غیر مسلم جو مسلمانوں کے ملک میں رہتاہے) پر ظلم وزیادتی کرے گا یا اس کی طاقت سے زیادہ اس سے کام لے گایا اس کی کوئی چیز بغیر اس کی رضا مندی کے لے گا تو اُس ذمی کی جانب سے اُس شخص کے ساتھ خصومت کرنے والا میں (نبی اکرمﷺ) خود ہوں گا۔
7۔ مزدور کو اجرت نہ دینا
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
ثَلَاثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ، وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ، وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُعْطِهِ أَجْرَهُ.
(صحيح البخاري: 2270)
ترجمہ : تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن کا قیامت میں میں خود مدعی بنوں گا ۔ایک وہ شخص جس نے میرے نام پر وعدہ کیا اور پھر وعدہ خلافی کی۔دوسراوہ شخص جس نے کسی آزادآدمی کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی ہو (اور اس طرح اس کی غلامی کا باعث بنا ہو) تیسراوہ شخص جس نے کسی کو مزدوری پر لیا ہو، پھر کام تو اس سے پورا لیا لیکن اس کی مزدوری نہ دی ۔‘‘
8۔ لوگوں سے قرض لیکر ٹال مٹول کرنا
سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَطْلُ الغَنِيِّ ظُلْمٌ.
( صحيح البخاري: 2400)
مالدار آدمی کا قرض کی ادائیگی پر قدرت کے باوجود قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے:
يُغْفَرُ لِلشَّهِيدِ كُلُّ ذَنْبٍ إلَّا الدَّيْنَ.
(صحيح مسلم : 1886 )
ترجمہ : شہید کے تمام گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں، مگر کسی شخص کاقرضہ معاف نہیں ہوگا۔
یعنی اگر کسی شخص کا کوئی قرض کسی کے ذمہ ہے تو جب تک ادا نہیں کردیا جائے، وہ ذمہ میں باقی رہے گا خواہ کتنا بھی بڑا نیک عمل کرلیا جائے۔
مشہور محدث امام نوویؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ :
ففيه تنبيه على جميع حقوق الآدميين ، وأن الجهاد والشهادة وغيرهما من أعمال البر لا يكفر حقوق الآدميين، وإنما يكفر حقوق الله تعالى
ترجمہ:( قرض کے سوا) یہاں ان تمام لوگوں کے حقوق کے متعلق ایک تنبیہ ہے کہ اللہ کے راستے میں جہاد اور شہید ہونے اور دیگر نیک کام کرنے سے حقوق اللہ تو معاف ہوجاتے ہیں، لیکن حقوق العباد معاف نہیں ہوتے ۔16
ظلم کا بدلہ لیا جائے گا
حقوق العباد کا معاملہ نہایت ہی سنگین ہے، اسے کسی صورت میں معاف نہیں کیا جائے گا۔ اگر صاحب حق معاف کر دے تو الگ بات ہے، بصورت دیگر اس کا بدلہ لیا جائے گا، جیسا کہ حدیث میں ہے:
لايَنبغِي لأحدٍ من أهلِ النارِ أنْ يدخلَ النارَ ولهُ عند أحدٍ من أهل ِالجنةِ حقٌ ؛ حتى أقُصُّه مِنه ، ولاينبغِي لأحدٍ من أهلِ الجنةِ أنْ يدخلَ الجنةَ ولِأحدٍ من أهلِ النارِ عِندَه حقٌ حتى أقُصُّهُ مِنه ، حتى اللطْمةَ قال : قُلنا : كيفَ ، وإنَّما نأتِي عُراةً غُرلًا بُهمًا ؟ ! قال : الحسناتُ والسيئاتُ
(رواہ أحمد: 16138، وصححہ الألباني في تخريج كتاب السنۃ: 514 )
ترجمہ : کسی جہنمی کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ جہنم میں جائے اور اس کا کسی جنتی پرحق ہو یہاں تک کہ میں اس سے اس کا بدلہ دلا دوں اورکسی جنتی کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ جنت میں داخل ہو اور اس کا کسی جہنمی پر حق ہو یہاں تک کہ میں اس سے اس کا بدلہ دلادوں، حتی کہ ایک طمانچے کا بدلہ کیوں نہ ہو۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی :اللہ کے رسول! ہم تو وہاں ننگے بدن اور برہنہ پاؤں حاضر ہوں گے تو تو یہ بدلہ کیسے دیا جائے گا؟ آپ نے فرمایا: برائیوں اور نیکیوں کے ذریعے سے حساب چکایا جائے گا ۔
کسی دوسرے پر ظلم و زیادتی کرتے وقت ہمیں اس حدیث کو ضرور پیش رکھنا چاہیےاور حقوق العباد کی ادائیگی میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔
روز قیامت سب سے مفلس انسان
روز قیامت ظالم انسان سب سے مفلس آدمی ہوگا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إنَّ المُفْلِسَ مِن أُمَّتي يَأْتي يَومَ القِيامَةِ بصَلاةٍ، وصِيامٍ، وزَكاةٍ، ويَأْتي قدْ شَتَمَ هذا، وقَذَفَ هذا، وأَكَلَ مالَ هذا، وسَفَكَ دَمَ هذا، وضَرَبَ هذا، فيُعْطَى هذا مِن حَسَناتِهِ، وهذا مِن حَسَناتِهِ، فإنْ فَنِيَتْ حَسَناتُهُ قَبْلَ أنْ يُقْضَى ما عليه أُخِذَ مِن خَطاياهُمْ فَطُرِحَتْ عليه، ثُمَّ طُرِحَ في النَّارِ.
(صحيح مسلم: 2581)
’’میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکاۃ (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو (ان حقوق کے بقدر) حقداروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کئے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دیئے۔
غور طلب بات
بہت سے لوگ اس بات کو دلیل بنا کر یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی بڑا رحیم و کریم ہے وہ معاف کر دے گا بیشک وہ بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے لیکن حقوق العباد جب تک وہ بندہ جس کی حق تلفی کی گئی ہو، چاہے وہ مسلمان ہو یا یا کافرنہیں چاہے گا تب تک معاف نہیں ہوں گے۔ ﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ:
أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ، وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ، وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ، ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَىٰ
(سورہ النجم 38 تا 41)
’’کوئی بوجھ اُٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا اور انسان کو (اُس دن) وہی ملے گا جس کے لیے اس نے محنت کی ہوگی۔ اور اس کی یہ محنت بہت جلد دیکھی جائے گی۔ پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔‘‘
یعنی اﷲ رب العزت اس بنیاد پر کسی کو بغیر سزا کے نہیں بخشے گا، جب تک کہ اس کے اعمال کی جانچ نہ کرلی جائے۔ خاص کر کے جب ان اعمال کا تعلق حقوق العباد سے ہو۔
افسوس ناک بات
افسوس کی بات ہے کہ ہم حقوق اﷲ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کو بھی نظر انداز کررہے ہیں۔ والدین، بہن بھائی، ہمسائیوں اور اپنے ماتحت کام کرنے والے لوگوں کی حق تلفی کرتے رہتے ہیں۔ والدین سے بدسلوکی، بہن بھائیوں کی مشکلات سے روگردانی، ہمسائیوں کو اذیت دینا اور اپنے ماتحت ملازمین کے ساتھ ناروا سلوک اور ان کے ساتھ ہمدردی سے پیش نہ آنا حقوق العباد کی صریحاً خلاف ورزی اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ لہذا ہمیں حقوق العباد کے معاملے میں بہت حساس ہونا چاہیے۔ یہی اس ماہ مقدس کی حُرمت کا تقاضا ہے ۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ و صحبہ وسلم تسلیما کثیرا
- (لسان العرب، مادہ ’’رجب ‘‘)
- تفسیر ابن کثیر: (195/7)
- ( التدوین في اخبار قزوین: 165/1)
- (الهداية إلي بلوغ النهاية: (1884/3)
- (فضائل الأوقات للبيهقي: (83/4)
- (لسان العرب لابن منظور: 411/1)
- (التفسير البسيط للواحدي :10/ 409)
- (معارف القرآن: 4/370تا372 )
- (تفسیر الطبری 272/1 ،تفسیر الرازی 214/8 ، تفسیرقرطبی 110/1)
- (تفسیر ابن کثیر، سورة التوبة، آیة: 36)
- (تفسیر ابن کثیر، سورة التوبة، آیة: 36)
- (تفسیر ابن کثیر، سورة التوبۃ: 36)
- (تفسیرالرازی : 16/ 41)
- (تفسیرالرازی : 16/ 41)
- (فيض القدير: 3/565)
- (شرح صحيح مسلم، ج 13/ص: 29)