احادیث میں مدینہ طیبہ کی بڑی فضیلت مذکور ہے، یہاں کچھ احادیث لکھی جاتی ہیں ۔(1) امیرالمو ٔمنین علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہﷺسے قرآن اوریہ صحیفہ لکھا جس میں مذکور ہے کہ مدینہ دوپہاڑوں عیر سے ثور تک حرم ہے ۔پس جس نے بھی اس میں بدعت یا کسی اور برے عمل کا ارتکاب کیا یا کسی بدعتی کوپناہ دی تو اس پر اللہ ،اس کے فرشتوں اورتمام لوگوں کی لعنت ہے۔ اس کی کوئی فرضی یا نفلی عبادت قبول نہیں کی جائے گی۔[1]
(2)سیدناسعد سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ میں مدینہ کو دو پتھر یلی زمینوں کے درمیان حرم قرار دیتا ہوں اسکی حدود میں نہ درخت کاٹا جائے نہ شکارکیا جائے اگر لوگ جان جائیں تو مدینہ میں رہنا ان کیلئے بہتر ہے، اور جو مدینہ سے بے رغبتی اختیار کر کے منہ موڑتا ہے اور مدینہ چھوڑتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے بدلے اس سے بہتر آدمی لائے گا اورجواسکی مصیبتوں اورتکالیف پرصبر اورثابت قدمی کے ساتھ رہتاہے تو میں اس کیلئے سفارش کرنے والا اور گواہ ہوں ۔[2]
(3) سیدناابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ: سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے مکہ معظمہ کو حرم قرار دیااورمیں مدینہ کو دوپہاڑوں کے درمیان حرم قرار دیتا ہوں اس میں نہ خون بہا یا جائے نہ لڑائی کیلئے اسلحہ اٹھایا جائے اورنہ درخت کاٹا جائے مگر گھاس اورچارہ کاٹنے کی اجازت ہے ۔[3]
(4) ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺجب مدینہ آئے توسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنابلال رضی اللہ عنہ کو بخار تھا ۔تومیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی آپ ﷺ نے دعامانگی کہ یااللہ ! ہمیں مدینے کے ساتھ مکہ جتنا یااس سے بھی زیادہ پیار عطاکر اوراسکوصحت افزامقام بنا دے اور ہمارے نا پ تول کے پیمانے میں برکت عطاکر اور یہاں کی بیماری کو جحفہ کی طرف منتقل کردے ۔ [4]
(5)سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا مجھے ایسی بستی میں رہنے کاحکم ہواہے ،جوتمام گاؤں اور بستیوں پر غالب آنے والی ہے۔ لوگ اس کو یثر ب کہتے ہیں ۔اور وہ مدینہ ہے ۔یہ شہر لوگوں کو کفرسے اس طرح صاف کرتاہے جس طرح بھٹی لوہے کو صاف کرتی ہے ۔[5]
سیدناجابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ فرماتے ہوئے سناکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مدینہ کو طابہ (پاک اوربہتر )کانام دیاہے ۔[6]
(7)سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مدینہ کی گلیوں پر فرشتے ایستادہ ہیں تاکہ اس میں طاعون اوردجال داخل نہ ہو سکیں ۔[7]
(8)سیدناسعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ جو شخص اہل مدینہ کیلئےبری سوچ سوچے گا تووہ ایسے گل سڑ کر تباہ ہوجائیگا جس طرح نمک پانی میں گل جاتاہے ۔[8]
(9)سیدناانس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سفر سے واپسی پر جب رسول اللہﷺکی نظر مدینہ کی دیواروں پر پڑتی تو فرط ِ جذبات سے آپ ﷺسواری کو دوڑاتے اوراسکوتیزکر دیتے ۔[9]
(10)سیدناابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ مدینہ میں دجال کاخوف اوردبدبہ داخل نہیںہوسکے گا،اس وقت مدینہ کے سات دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر دو فرشتے ایستادہ ہوں گے۔[10]
(10)سیدناا نس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے دعافرمائی کہ یااللہ ! مدینہ میں مکہ معظمہ سے دگنی برکت نازل فرما۔ [11]
مسجد نبویﷺکی فضیلت:
(1)سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا میری مسجد (نبوی ﷺ) کی ایک نماز بیت اللہ کے علاوہ دوسری تمام مسجدوں کی ایک ہزار نمازوں سے(اجر)میں زیادہ ہے[12]
(2)سیدناابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام میں سے دوآدمیوںکا اس مسجدکے بارے میں اختلاف ہوگیا جس کاذکر قرآن میں ہے کہ !”ا سکی بنیاد تقویٰ اورپرہیز گاری پرہے“۔(سورہ توبہ) ایک نے کہا اس سے مراد مسجد نبوی ہے، اور دوسرے نے کہا کہ مسجد قبا پھر ان دونوں نے رسول اللہﷺسے پوچھا آپﷺنے فرمایا کہ: اس سے مراد مسجد نبوی ہے۔ مسجد قبا میں بھی بہت سی بھلائیاں ہیں ۔
مدینہ طیبہ کی طرف مسجد نبوی ﷺ کی زیارت کی نیت سے جانا چاہیے:
(1)سیدناابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا تین مساجد کے علاوہ کسی اور طرف زیارت کی غرض سے نہیں جاناچاہیے۔
1 – مسجدحرا م 2 -مسجداقصیٰ 3 -میری مسجد (نبوی ﷺ) [13]
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،کہتے ہیں کہ میں بصرہ بن ابی بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے ملا انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ کہاں سے آرہے ہو؟میں نے کہا کہ طور پہاڑسے آرہاہوں!کہنے لگے کہ آپ کے وہاں جانے سے پہلے اگرآپ کی مجھ سے ملاقات ہوجاتی توشاید آپ وہاں نہ جاتے میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپ ﷺفرمارہے تھے: تین مقامات کے علاوہ کسی اورمقام کی زیارت کیلئے سواریوں کو نہ دوڑایا جائے۔(سفرنہ کیاجائے )
1 مسجد حرام (کعبہ) 2میری مسجد ( نبو یﷺ)3ا یلیاء (بیت المقدس)[14]
قارئین کرام! ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہواکہ قبروں،مزارات اور آستانوں کی زیارت کا قصدکرنا اور سفر کرکے وہاں جانا جائز نہیں ہے ۔یہ صرف ان تین مقامات تک محدود ومخصوص ہے لیکن علم حاصل کرنے کیلئے سفر کرنا ،اسی طرح صالح بندوں ، مسلمان بھائیوں اوردینداردوستوں کی زیارت کرنے اور ان کے ساتھ ملاقات کرنے کی ترغیب احادیث میں وارد ہے ۔لہٰذا یہ دونوں زیارتیں اورملاقاتیں اس حکم سے مستثنیٰ ہیں ۔
مسجدمیں داخل ہونے کے آداب
1سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا تم مسجد میں داخل ہوتے وقت یہ دعاپڑھاکرو۔{[15]
اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ
”یااللہ !میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے“۔
اورنکلتے وقت یہ دعاپڑھاکرو۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ
”یااللہ !میں تجھ سے تیری بھلائی کا سوال کرتاہوں “۔
بِسْمِ اللہِ وَالسَّلاَمُ عَلٰی رَسُوْلِ اللہِ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ وَافْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ
”اللہ کے نام کے ساتھ اورسلام ہواللہ کے رسول( ﷺ) پر یااللہ!میرے گناہوں کومعاف فرمادے اور میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔“
اور جب نکلتے تھے تویہ کلمات کہتے تھے ۔
بِسْمِ اللہِ وَالسَّلاَمُ عَلٰی رَسُوْلِ اللہِ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ وَافْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ فَضْلِکَ
”اللہ کے نام کے ساتھ اورسلام ہواللہ کے رسول(ﷺ)پر یااللہ میرے گناہوں کومعاف فرمادے اور میرے لیےاپنے فضل کے دروازے کھول دے ۔“[16]
2ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنےفرمایا: (مسجد سے نکلتے وقت) جب تم میں سے کوئی مسجد کے دروازے پر کھڑا ہو تو یہ دعا پڑھے۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ اِبْلِیْسَ وَجُنُوْدِہُ
”یااللہ میں ابلیس اوراس کے لشکر سے تیری پناہ چاہتا ہوں “۔[17]
3 سیدناابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: تم میں سے جو شخص مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھے۔[18]
لہٰذا زیارت کرنے والے کوبھی مسجد نبوی ﷺمیں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے دورکعتیں تحیۃ المسجد پڑھنی چاہئیں ۔
بہشتی باغ
عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ(ﷺ) مابین بیتی ومنبری روضة من ریاض الجنة ومنبری علی حوضی
’’سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ(ﷺ) نے فرمایا میرے گھر اور میرےممبر کے درمیان کاحصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اورمیرا ممبر حوض کے اوپر ہے۔ ‘‘[19]
تشریح: اس حدیث سے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حصے کی خاص فضیلت معلوم ہوتی ہے ۔لہٰذا جتنا وقت ملے تو اس حصے میں بیٹھ کر اللہ کاذکر ،قرآن کی تلاوت اورنفلی عبادت کرنی چاہئے مگر یہاں اکثر رش ہوتا ہے اس لیے عوام الناس کو تنگ کرکے اپنے آپ کو تکلیف دیکر اور دھکے کھاکر اس طرح کرنا صحیح نہیں ہے ۔ اس طرح ثواب واجر کے بدلے گناہ کاخطر ہ ہے۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پوری مسجد عبادت اورتلاوت کیلئے بہترہے ۔اس حدیث سے ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ظاہر ہوتی ہے، اس لیے کہ یہ دونوں ایسی جگہ پر مدفون ہیں جس کے بارے میں رسول اللہﷺنے فرمایا ہے کہ یہ جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے ۔ یہ حدیث شیعہ کی مشہور ومعروف کتاب ”الفروع الکافی“ میں بروایت امام جعفر صادق مروی ہے ۔ جبکہ فروع الکافی کا مصنف ان کا ثقہ الاسلام ابو جعفر محمدبن یعقوب بن اسحاق کلینی رازی ہے ۔لہٰذا شیعہ حضرات کو بھی ان کے ایما ن ، تقویٰ اور ولایت میں شک نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ ان کاایمان اوراعلیٰ مرتبہ ایسی حدیث سے ثابت ہوتاہے جو سنی ہوں خواہ شیعہ ہوں دونوں کے نزدیک متفق علیہ ہے ۔
مسجدنبویﷺمیں چالیس نمازیں
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا جس نے میری مسجد میں مسلسل چالیس نمازیں پڑھیں اوراس سے ان کے درمیان کوئی نماز فوت بھی نہیں ہوئی تو اس کیلئے جہنم کی آگ، عذاب اورنفاق سے براءت لکھی جائی گی ۔ [20]
قارئین! یہ ایک فضیلت اوربھلائی ہے ہر مسلمان کواسے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے لیکن یہ عمل نہ تو فرض ہے اور نہ حج کے احکامات میں سے ہے۔بعض لوگ اس عمل کے رہ جانے پر حسرت کرتے ہیں یاحج میں شک کرتے ہیں تو یہ محض نادانی ہے،لہذا اگر کبھی وقت سفر قریب آجائےاورآدمی یہ چالیس نمازیں پوری نہ کرسکے تو اسے تنگ دلی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس سےحج اور زیارت میں کوئی فرق نہیں آتا، البتہ اگر بغیر تکلیف وپریشانی کے اس فضیلت کے حصول کا موقعہ میسر آجائے تواس بھلائی سے دریغ نہیں کرنی چاہیے۔
قبرمبارک کی طرف جانا
تحیۃ المسجد اداکرنے کے بعد قبر نبویﷺکی طرف زیارت کیلئے جانا چاہیے اوراسی طرح سلام کرنا چاہیے جیسے قبرستان میں کہنے کاحکم ہے ۔اس بارے میں دو حدیثیں درج ذیل ہیں۔
(1)سیدنابریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺصحابہ کو قبرستان جاتے وقت کی یہ دعاسکھاتے تھے ۔[21]
اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَاِنَّا اِنْ شَأْءَ اللہ بِکُم لاَحِقُوْنَ نَسْأَلَ اللہُ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَةِ
سلامتی ہوتم پر اے مؤمن اورمسلمان گھر والو ہم بھی ان شاء اللہ تم سے ضرور ملنے والے ہیں اورہم اپنے اورتمہارے لیئے اللہ سے خیر وعافیت مانگتے ہیں“۔
(1)سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺمدینہ طیبہ کے قبرستان کے پاس سے گزرے تو ان کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا( یعنی دعامانگی)۔ [22]
اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ یَغْفِرُاللہَ لَنَا وَلَکُمْ اَنْتُمْ سَلَفَنَا وَنَحْنُ بِالْاَثْرِ
”اے اہل قبور!تم پر سلامتی ہو ،اللہ تعالیٰ ہمیں اورتمہیں بخشے تم ہم سے پہلے جانے والے ہواورہم بعد میں آنے والے ہیں۔“
ان دونوں سلاموں میں سے جوسلام بھی پڑھے کافی ہے ،اوراگر دونوں سلام پڑہے تب بھی صحیح ہے۔
فصل: باربار قبر مبارک پر جانا مسنون نہیں ہے ،بلکہ پوری مسجد میں جس جگہ بھی درود اور صلوٰۃ زیادہ سے زیادہ پڑھا جائے تو اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا ۔ سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ تم اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ اورنہ میری قبر کو عید (بار بارآنے والی جگہ) بناؤ اور مجھ پر درود پڑھو کیونکہ تمہارا درود مجھے پہنچے گا ،تم جہاں بھی ہو ۔[23]
سیدناعلی بن حسین یعنی زین العابدین سے روایت ہے کہ انہوں نے کسی آدمی کو دیکھاکہ وہ رسول اللہﷺکی قبر مبارک کے پاس ایک کھڑکی سے داخل ہوکر دعامانگا کرتا تھا۔ سیدنازین العابدین نے اسے منع کیا اورکہا کہ میں تمہیں وہ حدیث نہ سناؤں جو میں نے اپنے والد سے سنی او رانہوں نے میرے دادا (سیدنا علی رضی اللہ عنہ ) سے سنی کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ: میری قبر کو عید نہ بناؤ اورنہ اپنے گھروں کوقبرستان بناؤمجھ پر درود وسلام پڑھتے رہاکرو۔کیونکہ تمہاراسلام مجھے پہنچتاہے چاہے تم کہیں بھی ہو۔ [24]
ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہواکہ بار بار قبرمبارک پرجانا اوردعاسلام پڑھنا مسنون طریقے کے خلاف ہے اور اسی معنی کی ایک حدیث سنن سعید بن منصور میں حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے مروی ہے ۔اس کے آخرمیں یہ الفاظ ہیں کہ:
ماانتم ومن بالاندلس الاسواء
باربار آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اگرتم یہاں درود پڑھو یا کہ شہراندلس میں پڑھو دونوں برابرہیں ۔[25]
لہٰذا ایک دفعہ جانا ہی کافی ہے باقی عورتوں کو تو قبرمبارک پر ہر گز نہیں جانا چاہیے کیونکہ عورت کے قبرپر جانے پر رسول اللہﷺ نے تنبیہ اورلعنت فرمائی ہے۔[26]
مسجدقباکی فضیلت
رسول اللہﷺہر ہفتے کے دن کبھی پیدل تو کبھی سوار مسجد قبا آتے تھے اوراس میں دورکعات ادا فرماتےتھے۔[27]
مدینہ طیبہ پہنچنے کے بعد وہاں کی مساجد کی زیارت کرنے سے کوئی ممانعت نہیں اسی طرح احدپہاڑ کی زیارت بھی کی جاسکتی ہے۔اس کے حوالہ سےصحیح بخاری میں حدیث ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتاہے اورہم اس سے محبت کرتے ہیں۔[28]
اسی طرح شہدائے احد اور بقیع الغرقد کے قبرستانوں کی زیارت کرنا ،وہاں سے نصیحت حاصل کرنا اور ان کے حق میں دعا کرنا بھی جائز ہے مگرمدینہ کے باہر سے خاص ان کی زیارت کاقصد کرکے جانا اوران کے لیئے سفرکرنا جائز نہیں ہے۔
اسی طرح شہدائے احد اور بقیع الغرقد کے قبرستانوں کی زیارت کرنا ،وہاں سے نصیحت حاصل کرنا اور ان کے حق میں دعا کرنا بھی جائز ہے مگرمدینہ کے باہر سے خاص ان کی زیارت کاقصد کرکے جانا اوران کے لیئے سفرکرنا جائز نہیں ہے۔
الغرض یہاں جتنا بھی وقت ملے وہ عبادت ،نیکی ،تلاوت اورنماز و درود وسلام میں گزار نا چاہیے۔ کچھ لوگ وہاں سے روضہ کی دیوار کے گرے ہوئے ٹکڑے ساتھ لے آتے ہیں اورمٹی کے بنے ہوئے ٹکڑے جن پر نقش بناہوتاہے ان کو خاک شفاکہتے ہیں یہ سب کام ناجائز اورشرکیہ کاموں میں داخل ہیں جن کا اسلام میں کوئی ثبوت نہیں ۔
وللہ الحمد حمد اکثیر طیباً مبارکا فیه مبارکا علیه کما یحب ربنا ویرضٰی
________________________________________
[1] بخاری :1870۔فضائل المدینۃ۔ باب حرم المدینۃ، مسلم:1370الحج۔ باب ۔فضل المدینۃ [2] بخاری :1870۔فضائل المدینۃ۔ باب حرم المدینۃ، مسلم:1370الحج۔ باب ۔فضل المدینۃ [3] بخاری :1870۔فضائل المدینۃ۔ باب حرم المدینۃ، مسلم:1370الحج۔ باب ۔فضل المدینۃ [4] بخاری :1870۔فضائل المدینۃ۔ باب حرم المدینۃ، مسلم:1370الحج۔ باب ۔فضل المدینۃ [5] بخاری :1870۔فضائل المدینۃ۔ باب حرم المدینۃ، مسلم:1370الحج۔ باب ۔فضل المدینۃ [6] بخاری :1870۔فضائل المدینۃ۔ باب حرم المدینۃ، مسلم:1370الحج۔ باب ۔فضل المدینۃ [7] بخاری :1870۔فضائل المدینۃ۔ باب حرم المدینۃ، مسلم:1370الحج۔ باب ۔فضل المدینۃ [8] بخاری :1870۔فضائل المدینۃ۔ باب حرم المدینۃ، مسلم:1370الحج۔ باب ۔فضل المدینۃ [9] بخاری :1870۔فضائل المدینۃ۔ باب حرم المدینۃ، مسلم:1370الحج۔ باب ۔فضل المدینۃ [10] بخاری :1889 فضائل المدینۃ ،مسلم:1376الحج باب الترغیب فی سکنیٰ المدینۃ الخ [11][11] بخاری :1870۔فضائل المدینۃ۔ باب حرم المدینۃ، مسلم:1370الحج۔ باب ۔فضل المدینۃ [12] بخاری :1870۔فضائل المدینۃ۔ باب حرم المدینۃ، مسلم:1370الحج۔ باب ۔فضل المدینۃ [13] بخاری :1189ایضاًومسلم:827 [14] مؤطامالک ص38،نسائی1/ 145 [15] مسلم،مشکوٰۃ ص 28 [16] ابن ماجہ :771اورترمذی :314الصلاۃ باب ماجاء مایقول عند دخولہ المسجد [17] بن سنی ،حدیث: 154 [18] بخاری :714صلاۃ المسافر ین باب استحباب تحیۃ المسجد یرکعتین مسلم ،مشکوٰۃ ص28 [19] بخاری 1196فضل الصلاۃ مکۃ ومدینۃ ،مسلم:1391 [20] رواہ احمد:3/155 والطبرانی فی الاوسط ورجالہ ثقات کمافی مجمع الزوائد4/ 8 [21] مسلم:974۔الجنائز باب مایقال عند دخول القبور…الخ [22] مسلم:974۔الجنائز باب مایقال عند دخول القبور…الخ [23] رواہ ابو داؤ باسنادحسن، رواتہ ثقات کذا فی کتاب التوحید للشیخ محمد بن عبد الوھاب ص: 56-257 مع شرحہ فتح المجید [24] الاحادیث المختارۃ:395 [25] فتح المجید ص258 [26] جامع ترمذی:294 [27] بخاری:1194 ،مسلم :1399)مشکوٰۃ ص68 [28] صحیح بخاری ، کتاب المغازی، باب احد یحبنا۔۔۔:3800