ماہِ رمضان المبارک کیسے گزاریں؟

بحیثیت امت مسلمہ ہم پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے ہمیں ایک خاص مہینہے سے نوازا ہے جس میں رحمتوں اور برکتوں کا نزول دوسرے مہینوں سے زیادہ ہوتا ہے. نیکیوں کا یہ موسم بہار  سال میں ایک بار آتا ہے، لہذا ہر عقلمند کو چاہیے کہ اس کی رحمتوں اور برکتوں کے مختصر لمحات کو  غنیمت جانے. آپ ﷺ کا ارشاد ہے :

ورَغِمَ أنفُ رجلٍ دخلَ علَيهِ رمضانُ ثمَّ انسلخَ قبلَ أن يُغفَرَ لَهُ

(صحيح الترمذي: 3545)

ترجمہ : اور اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کی زندگی میں رمضان کا مہینہ آیا اور اس کی مغفرت ہوئے بغیر وہ مہینہ گزر گیا۔

روزہ داروں کے لیے اللہ تعالیٰ کی خاص مدد

اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں روزے کی عبادت کو بہترین طریقے سے انجام دینے کے لیے اپنے بندوں کی مختلف طریقوں سے بھر پور مدد فرمائی ہے، لہذا ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ خاص مدد سے استفادہ کرنا چاہیے ۔ ماہ رمضان میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہم ترین مدد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مقدس مہینے میں شیاطین اور سرکش جنوں کو زنجیروں میں جکڑ دیتا ہے۔ جیسا کہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے :

إذا كانَت أوَّلُ ليلةٍ من رمَضانَ صُفِّدتِ الشَّياطينُ ومَردةُ الجِنِّ

(صحيح ابن ماجہ: 1339)

ترجمہ : جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطان اور سرکش جن زنجیروں میں جکڑ دیے جاتے ہیں۔

شیطان مردود اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور  نیک اعمال میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ، ماہ رمضان کی برکت سے یہ  رکاوٹ راستے سے ہٹا دی گئی ہے اور جب اطاعت الہی میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہٹ جائے تو اعمال صالحہ انجام دینا آسان ہو جاتا ہے لہذا مومنوں کو اس مقدس مہینے میں نیکی کی طرف سبقت کرتے ہوئے زیادہ سے  زیادہ  نیک اعمال  بجا لانا چاہیے کیونکہ یہ ماہ نیکیوں کی مقدار  بڑھانے، اپنے آپ کو جہنم سے آزاد کرانے، گناہوں کی بخشش اور مغفرت کرانے اور دنیا و آخرت کی کامیابیاں سمیٹنے کا نادر موقع ہے ۔نیز  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت بھی دے رکھی ہے کہ:

مَن صامَ رَمَضانَ إيمانًا واحْتِسابًا غُفِرَ له ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِهِ

( صحيح البخاري : 2014)

ترجمہ : جو شخص رمضان کے روزے ایمان اور حصول اجر و ثواب کی نیت کے ساتھ رکھے، اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔

ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مَن قَامَ رَمَضَانَ إيمَانًا واحْتِسَابًا، غُفِرَ له ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِهِ

( صحيح البخاري: 37)

ترجمہ : جس نے ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ رمضان کا قیام کیا، اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے جائیں گے۔

اور اللہ تعالیٰ بھی ارشاد فرما رہا ہے :

وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ

( سورہ آل عمران :133 )

ترجمہ : اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جلدی کرو جس کی چوڑائی (وسعت) آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔

ماہ رمضان خیر و برکت اور رحمت و مغفرت کا مہینہ ہے. اس ماہ میں اعمال دو گنا ہو جاتے ہیں چنانچہ  مؤمن بندوں کو نیک اعمال کی طرف سبقت لے جانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ، درج ذیل سطور میں ماہِ رمضان کی مناسبت سے احادیث اور آثار صحیحہ پر مشتمل ایک قیمتی خزانہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں تاکہ آپ ماہِ رمضان المبارک سے خوب مستفیض ہوں اور اللہ کا مثالی بندہ  بن سکیں۔

1۔ نیت درست کر لیجئے

کوئی بھی عمل اس وقت تک شروع نہ کریں جب تک آپ کی نیت درست نہ ہو کیونکہ آپ کا عمل اس وقت تک قبول نہیں کیا جائے گا جب تک وہ خالص اللہ کے لیے اور شریعت کے مطابق درست نہ ہو۔ لہذا اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے پورے مہینے کے روزے رکھنے کا عزم کریں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إنما الأعْمَالُ بالنِّيَّةِ، ولِكُلِّ امْرِئٍ ما نَوَى 

(صحيح البخاري: 6689،و صحیح مسلم : 4927)

‏‏‏‏ ترجمہ : بلا شبہ اعمال کی قبولیت کا دار و مدار نیت کی درستگی پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی ۔

نیت کی درستگی اعمال کی روح  ہے مگر یہ انتہائی با مشقت اور مشکل کام ہے۔ بار بار ٹھیک کرو، بار بار خراب ہو جاتی ہے۔ عمل کرنا آسان جبکہ نیت میں خلوص پیدا کرنا اور پھر اسے قائم رکھنا چوٹی سر کرنے سے بھی زیادہ دشوار ہے۔ یہی نیت ہے جو معمولی سی نیکی کو پہاڑ بنا دے اور یہی نیت ہے کہ زرا سا فتور آیا تو انسان بلندیوں سے پٹخ دیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ہر کار خیر کے بار آور ہونے کے لیے درست اور خالص نیت کا ہونا ضروری ہے ورنہ خطرہ ہے کہ نہ صرف ثواب سے محروم ہونا پڑےگا بلکہ اللہ کے ہاں سخت سزا بھی ملے گی۔

2۔ توبہ کرنے میں جلدی کیجئے

ماہِ رمضان توبہ کرنے کا مہینہ ہے لہذا اپنے تمام گناہوں سےجلدی توبہ کیجئے. حضرت ابو موسی عبد اللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

إنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ يَبْسُطُ يَدَهُ باللَّيْلِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ النَّهَارِ، وَيَبْسُطُ يَدَهُ بالنَّهَارِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ اللَّيْلِ، حتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِن مَغْرِبِهَا

(صحيح مسلم: 2759)

ترجمہ : الله تعالی رات کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کو گناہ کرنے والا توبہ کرلے اور دن کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات کو گناہ کرنے والا توبہ کرلے۔ (یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا) جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو۔‘‘ 

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

إنَّ اللهَ يقبلُ توبةَ العبدِ ما لم يُغرغرْ

(صحيح الترمذي: 3537)

ترجمہ : اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ دم نکلنے سے پہلے پہلے تک قبول کرلیتا ہے۔

3۔ دل اور زبان کو پاک کر لیجئے

پورے انسانی جسم میں دو چیزیں بطور خاص ایسی ہیں اگر وہ درست سمت پر چلتی رہیں تو انسان کامیابی کی منزل تک ضرور پہنچ جاتا ہے. ان میں سے ایک دل اور دوسری چیز زبان ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:

قيل لرسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ أيُّ الناسِ أفضلُ قال كلُّ مخمومِ القلبِ صدوقِ اللسانِ قالوا صدوقُ اللسانِ نعرفُه فما مخمومُ القلبِ قال هو التقيُّ النقيُّ لا إثمَ فيه ولا بغيَ ولا غِلَّ ولا حسدَ

(صحيح ابن ماجہ: 3416)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول! کون سے لوگ افضل ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہر مخموم القلب اور سچی زبان والا۔“ صحابہ نے کہا: ہم سچی زبان والے کو تو پہچانتے ہیں، مخموم القلب سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ایسا دل جو اللہ سے ڈرنے والا اور صاف ہو، ا‏‏‏‏س میں گناہ، بغاوت، خیانت اور حسد نہ ہو ۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

تفتَّحُ أبوابُ الجنَّةِ يومَ الاثنينِ والخميسِ فيغفرُ فيهما لمن لا يشرِكُ باللہِ إلَّا المُهتَجرَينِ، يقال: ردُّوا هذينِ حتَّى يصطلِحا

(صحيح الترمذي: 2023)

ترجمہ: پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں، اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانے والوں کی اس دن مغفرت کی جاتی ہے، سوائے انکے جنہوں نے باہم قطع تعلق کیا ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ان دونوں کو اپنے حال پر چھوڑ دو جب تک  آپس میں صلح نہ کر لیں ۔

دل میں نفرت اور كینہ ركهنے والے الله کی مغفرت سے محروم

دل میں نفرت اور كینہ ركهنے والے كی الله مغفرت نہیں كرتا ،لہذا رمضان کے آغاز سے قبل ہی اپنے دل كو نفرت، بغض، حسد اور كینہ سے خالی كركے سب سے دل سے معافی مانگیں اور سب كو دل سے معاف كر دیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللہُ لَكُمْ  وَاللہُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

(سورۃ النور :22 )

ترجمہ: انہیں معاف کردینا اور درگزر کرنا چاہیے کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے؟ اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ معاف فرمانے اور رحم کرنے والا ہے۔“

4۔ ہر قسم کے گناہوں کو ترک کر دیجئے

رمضان المبارک میں سب سے اہم اور بنیادی چیز یہ ہے کہ ہم گناہوں سے مکمل پرہیز کریں، گناہوں کے ساتھ روزوں کی برکات اور رمضان کے انوار کا حقیقی لطف نہیں مل سکتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

والصِّيَامُ جُنَّةٌ، وإذَا كانَ يَوْمُ صَوْمِ أحَدِكُمْ فلا يَرْفُثْ ولَا يَصْخَبْ، فإنْ سَابَّهُ أحَدٌ أوْ قَاتَلَهُ، فَلْيَقُلْ: إنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ

. (صحيح البخاري: 1904، ومسلم :1151)

ترجمہ : روزہ ایک ڈھال ہے۔ پس جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو، تو فحش گوئی نہ کرے اور نہ شور و غل کرے۔ اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ کرے يا اس سے جھگڑا کرے تو کہہ دے: میں روزہ دار آدمی ہوں۔

اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ

(رواه البخاري :1804 ).

ترجمہ :  اگر کوئی شخص (روزہ رکھ کر بھی) جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔

ان احادیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روزے کی خاص فضیلتیں اور برکتیں ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہیں جو گناہوں اور ناپسندیدہ باتوں سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔

لہذا ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ جب اللہ تعالیٰ ہمارے روزوں کی حفاظت کے لیے سرکش شیاطین کو قید کردیتے ہیں، جہنم کے تمام دروازے بند کردیتے ہیں، یعنی شر کے تمام راستے بند کردیتے ہیں، جب اللہ کی طرف سے ہمارے روزوں کی حفاظت کا اتنا اہتمام ہے تو اگر ہم خود اپنے روزوں کو غلط چیزوں سے محفوظ نہ رکھ سکیں تو یہ کتنی بے غیرتی کی بات ہوگی۔

5۔ وقت کے ضیاع سے احتراز کیجئے

وقت اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے. وقت کی قدر کیے بغیر انسان جس طرح دنیا میں کامیاب نہیں ہوسکتا اسی طرح آخرت میں کامیابی نہیں مل سکتی ، وقت ضائع کرنے والا شریعت کی نظر میں بھی مجرم ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا جو عشاء کی نماز کے بعد بلا وجہ گفتگو میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں ۔

كانَ النَّبيُّ صلَّى اللہُ عليهِ وسلَّمَ : يكرَهُ النَّومَ قبلَ العِشاءِ ، والحديثَ بعدَها

(صحيح الترمذي : 168)

ترجمہ: نبی کریم ﷺ عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے تھے۔

عشاء سے پہلے سونا اس لیے ناپسندیدہ ہے کہ اس سے عشا ء فوت ہوجانے کا خدشہ رہتا ہے، اور عشاء کے بعد بات کرنا اس لیے ناپسندیدہ ہے کہ اس سے سونے میں تاخیر ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کے لیے تہجد یا فجر کے لیے اٹھنامشکل ہوجاتا ہے۔

وقت کا حساب ہوگا

ابو بَرزَہ نضلہ بن عبید اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لا تزولَ قدَما عبدٍ يومَ القيامةِ حتَّى يسألَ عن عُمُرِهِ فيمَ أفناهُ ؟ وعن علمِهِ فيمَ فعلَ فيهِ ؟ وعن مالِهِ مِن أينَ اكتسبَهُ ؟ وفيمَ أنفقَهُ ؟ وعن جسمِهِ فيمَ أبلاهُ ؟

(صحيح الترغيب : 126)

ترجمہ : قیامت کے دن کسی شخص کے قدم اس وقت تک اپنی جگہ سے نہ ہٹیں گے جب تک کہ اس سے پوچھ نہ لیا جائے: اس کی عمر کے بارے میں كہ اس نے اسے کن چیزوں میں گزارا ؟ اس کے علم کے بارے میں کہ اس نے اسے کن چیزوں میں خرچ کیا؟ اس کے مال کے بارے میں کہ اس نے اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کن چیزوں میں کھپایا؟۔

6۔ ٹی وی اور انٹرنیٹ سے احتراز کیجئے

ٹی وی اور انٹرنیٹ خرافات کا مجموعہ ہے. یہ دونوں بے حیائی و عریانیت پھیلانے ، فسق و فجور کے مناظر پیش کرنے کا سب سے بنیادی اور سستا ذریعہ ہیں. ان دونوں کے ذریعہ اخلاقی و دینی تباہی ، نوجوان مرد و خواتین کی بے راہ روی و گمراہی، شر و فساد کی وادیوں میں ان کی ہلاکت اور اسلامی اقدار و پاکیزہ روایات سے ان کی لاتعلقی عام ہوتی جارہی ہے۔جبکہ اسلام ہمیں پاکیزہ اور با حیا زندگی گزارنے کا درس دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔

وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ

(سورۃ الانعام : 15)

لہذا رمضان المبارک میں ان دونوں سے جان چھڑانے کی کوشش کریں۔

ترجمہ : اور بے حیائی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ، خواہ یہ کھلی ہوں یا چھپی ہوں۔

7۔ قیام اللیل مت چھوڑیے

قرآن و سنت میں نفلی عبادات جیسے نفلی نمازیں، ذکر و تسبیحات، تلاوت وغیرہ کی بڑی ہی فضیلت اور اہمیت بیان فرمائی گئی ہے، ان عبادات سے اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضاحاصل ہوتی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی تاکید کی جاتی ہے کہ نفلی عبادات کو معمول بنا لینا چاہیے، ان کی ادائیگی میں ہمیشگی کرنی چاہیے اور کوشش یہی کرنی چاہیے کہ جہاں تک ہوسکے ان میں ناغہ نہ ہونے پائے۔حضرت عبد اللہ بن ابی قیس رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ:

لَا تَدَعْ قِيَامَ اللَّيْلِ؛ فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَانَ لَا يَدَعُهُ، وَكَانَ إِذَا مَرِضَ أَوْ كَسِلَ صَلَّى قَاعِدًا

(صحيح أبي داود: 1307)

ترجمہ: تہجد نہ چھوڑیے کیوں کہ حضور اقدس ﷺ بھی اسے ترک نہیں فرماتے اور جب وہ بیمار یا تھکے ہوئے ہوتے تو بیٹھ کر ادا فرماتے۔

8۔ سنتِ مؤکدہ کا اہتمام کیجئے

سنتِ مؤکدہ وہ نمازیں کہلاتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ان کے پڑھنے کا بڑا اہتمام فرمایا. شدید کسی عذر کے بغیر کبھی بھی انہیں ترک نہیں فرمایا. یہ سنت مؤکدہ ہیں اور ان کی حدیث میں بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے. ان سنتوں کا بغیر کسی عذر کے چھوڑنا گناہ ہے. ان کا اہتمام کرنا ہر مسلمان کے ذمہ ضروری ہے،

جنت میں گھر کی بشارت

سنّتِ مؤکدہ کے اہتمام کرنے والے کے لیے جنت میں گھر کی بشارت ہے. امّ المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

ما مِن عَبْدٍ مُسْلِمٍ يُصَلِّي لِلہِ كُلَّ يَومٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً تَطَوُّعًا، غيرَ فَرِيضَةٍ، إلَّا بَنَى اللہُ له بَيْتًا في الجَنَّةِ

( صحیح مسلم : 728)

ترجمہ:  جو مسلمان بندہ دن رات میں فرض نمازوں کے علاوہ بارہ رکعتیں سنتیں ادا کرے گا، اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔

9۔ قرآن مجید کی تلاوت کیجئے

قرآن کریم کو رمضان المبارک سے خاص تعلق اور گہری خصوصیت حاصل ہے کیونکہ ماہ رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ لہٰذا اس ماہ میں کثرت سے تلاوتِ قرآن میں مشغول رہنا چاہیے کیونکہ قرآن کریم اور رمضان المبارک میں ایک اہم خصوصیت مشترک ہے اور وہ خصوصیت دونوں کا روز قیامت بندوں کے حق میں شفاعت ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:

الصيامُ والقرآنُ يشفعانِ للعبدِ يومَ القيامَةِ ، يقولُ الصيامُ : أي ربِّ إِنَّي منعْتُهُ الطعامَ والشهواتِ بالنهارِ فشفِّعْنِي فيه ، يقولُ القرآنُ ربِّ منعتُهُ النومَ بالليلِ فشفعني فيه ، فيَشْفَعانِ

(صحيح الجامع: 3882)

ترجمہ: روزہ اور قرآن کریم دونوں بندے کے لیے شفاعت کرتے ہیں۔ روزہ عرض کرتا ہے کہ: یااللہ! میں نے اس کو دن میں کھانے پینے سے روکے رکھا، میری شفاعت قبول کر لیجئے اور قرآن کہتا ہے کہ: یا اللہ! میں نے رات کو اس کو سونے سے روکا ، میری شفاعت قبول کر لیجئے، پس دونوں کی شفاعت قبول کرلی جائے گی۔‘‘

10۔ صدقہ کرنے کی عادت ڈالیے

حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا کہ:

مَنِ استطاعَ منكم أنْ يَسْتَتِرَ مِنَ النارِ ولَوْ بِشِقِّ تمرةِ فلْيَفْعَلْ

(صحيح مسلم: 2347، و صحيح الجامع: 6017)

ترجمہ:  تم میں سے جو شخص آگ سے محفوظ رہنے کی استطا عت رکھتا ہو ،چا ہے کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے سے کیوں نہ ہو تو وہ ضرور (ایسا) کرے۔

اللہ کی راہ میں صدقہ و خیرات کرنے کے دنیا و آخرت دونوں میں بے شمار فوائد ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے صدقہ و خیرات کے متعدد فوائد بیان کیے ہیں جن میں سے چند ذیل ہیں:

صدقہ کرنے والے کے لیے فرشتے مال میں برکت کی دعا کرتے ہیں1

صدقہ رب کے غصے کو بجھا دیتا ہے2

صدقہ تمام بیماریوں کے لیے علاج اور شفا ہے3

صدقہ  عزت اور وقار کی حفاظت کرتا ہے 4

صدقہ جہنم کی آگ سے محفوظ رکھتا ہے 5

صدقہ روزِ قیامت  صدقہ کرنے والے کے لیے سایہ بن جائے گا6

صدقہ رزق اور مال میں برکت کا باعث ہے 7

صدقہ دل کی سختی کو ختم کر دیتا ہے 8

صدقہ  قبر کی آگ کو بجھا دیتا ہے 9

صدقہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے10

صدقہ  بری موت سے بچاتا ہے11

رمضان المبارک میں صدقہ و خیرات کی فضیلت کا علم ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعدد احادیثِ مبارکہ سے ملتا ہے۔ حضرت عبد اللہ  بن عباس  رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ:

كانَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللہُ عليه وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ بالخَيْرِ، وَكانَ أَجْوَدَ ما يَكونُ في شَهْرِ رَمَضَانَ

(صحيح مسلم : 2308)

ترجمہ:  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیرات کرنے میں سب سے زیادہ سخی تھے اور ماہِ  رمضان میں آپ کی سخاوت کی تو کوئی حد ہی نہیں تھی۔

11۔ مسجد میں ٹھہرنے کی عادت ڈالیے

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

أَحَبُّ البِلَادِ إلى اللهِ مَسَاجِدُهَا، وَأَبْغَضُ البِلَادِ إلى اللهِ أَسْوَاقُهَا

( صحيح مسلم : 671)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب جگہیں اسکی مسجدیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ جگہیں بازار ہیں ۔

مسجد میں ٹھہرنا اللہ تعالیٰ کی رضامندی کا ذریعہ ہے۔

 حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

مَا تَوَطَّنَ رَجُلٌ مُسْلِمٌ الْمَسَاجِدَ لِلصَّلَاةِ وَالذِّکْرِ، إِلَّا تَبَشْبَشَ اللهُ لَهُ کَمَا یَتَبَشْبَشُ أَهْلُ الْغَائِبِ بِغَائِبِهِمْ، إِذَا قَدِمَ عَلَيْهِمْ

(صحيح ابن ماجہ: 659)

ترجمہ : جب كوئی مسلمان شخص نماز اور ذكر كے لیے مساجد میں پابندی کے ساتھ آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے ایسے خوش ہوتا ہے جیسے کسی غیر موجود شخص کی آمد پر اس کے اہلِ خانہ خوش ہوتے ہیں“

مسجد پرہیزگاروں کا گھر ہے

سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم  ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :

المسجدُ بيتُ كلِّ تقيٍّ ، وتكفَّلَ اللهُ لمَن كان المسجدُ بيتَهُ بالرُّوحِ والرَّحمةِ ، والجَوازِ على الصِّراطِ إلى رِضوانِ اللهِ ، إلى الجنَّةِ

(صحيح الترغيب: 330 ، حسن لغيره)

ترجمہ: مسجد ہر متقی کا گھر ہے اور جو شخص مسجد کو اپنا گھر بنائے، اللہ تعالیٰ اسے رحمت اور مہربانی کے باعث پل صراط سے گزار کر اپنی رضامندی اور پھر جنت تک پہنچنے کی ضمانت دیتے ہیں۔‘‘

مسجد وہ جگہ ہے جہاں اللہ کی عظمت سب سے ذیادہ نمایاں ہوتی ہے، جہاں کسی مخلوق کی کوئی عزت یا کسی بڑے کی کوئی خصوصیت نہیں۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں آقا و غلام، حاکم و محکوم، امیر و فقیر، سب مساوی نظر آتے ہیں۔ یہ رحمت الہی کے متوجہ ہونے اور برکتوں کے نازل ہونے کی جگہ اور خیر کا سر چشمہ ہے اور بلا شبہ مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح و راہنمائی کے مرکز کی حیثیت بھی اس کو حاصل رہی ہے۔ علم و ہدایت کے سر چشمے، اصلاح و ارشاد کی تحریکیں، جہاد و سر فروشی کی لہریں سب اسی مرکز سے اٹھتی رہی ہیں اور آج بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مساجد سے اپنے رابطے کو مضبوط کریں اور مسلم معاشرے میں ان کو دوبارہ وہی مرکزیت و اہمیت حاصل ہو جو پہلے تھی۔

12۔ بازار سے اجتناب کیجئے

بازار اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ جگہیں ہیں کیونکہ وہ بے حیائیوں کا سر چشمہ ہیں اور ناز و آرائش و زیبائش کے مظاہر ہیں۔ شیطان کو بہکانے کے ہزاروں مواقع میسر آتے ہیں اس لیے ان کو شیاطین کے اڈے بھی کہا گیا ہے خاص طور سے موجودہ زمانے کی منڈیوں اور بازاروں میں وہ کون سی برائی ہے جو نہ ہوتی ہو؟ لیکن عجیب بات ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر ماہِ رمضان بلکہ خاص طور پر طاق راتوں میں شاپنگ کی جاتی ہے جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ماہِ رمضان عبادت کا مہینہ ہے نہ کہ شاپنگ کرنے کا ۔ لہذا ایک مسلمان کو اپنا دل مسجد سے لگانا چاہیے اس لیے کہ وہ مسلمانوں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔

13۔ صلہ رحمی  یعنی رشتہ داروں سے تعلق جوڑ کر رکھئیے

قطع رحمی یعنی رشتے توڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔ قطع رحمی کی وجہ سے دعائیں قبول نہیں ہوتیں ، لہذا رمضان میں اس سنگین گناہ سے توبہ کریں اور رشتہ داروں سے معافی مانگیں اور صلہ رحمی کریں ۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں تقریبا 9 مقامات پر رشتہ داروں کو ان کا حق دینے یا انکے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالی نے اس کے لیے بیشتر مقامات پر یہ الفاظ استعمال کیے ہیں :” اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إنَّ الرَّحِمَ شِجْنَةٌ مِنَ الرَّحْمَنِ، فقالَ اللہُ مَن وصَلَكِ وصَلْتُهُ، ومَن قَطَعَكِ قَطَعْتُهُ

(صحيح البخاري: 5988)

ترجمہ:  نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ رحم کا تعلق رحمن سے جڑا ہوا ہے پس جو کوئی اس سے اپنے آپ کو جوڑتا ہے، اللہ پاک نے فرمایا کہ میں بھی اس کو اپنے سے جوڑ لیتا ہوں اور جو کوئی اسے توڑتا ہے میں بھی اپنے آپ کو اس سے توڑ لیتا ہوں۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

مَن سَرَّهُ أنْ يُبْسَطَ له في رِزْقِهِ، أوْ يُنْسَأَ له في أثَرِهِ، فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ

(صحيح البخاري: 2067) ومسلم:2557)

ترجمہ : جسے یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں فراوانی کی جائے اور اسکی عمر دراز ہو، تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔“

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ:

لقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لي: يا عقبة بن عامر! صِل من قطعك، وأعط من حرمك، واعف عمن ظلمك

(السلسلة الصحيحة: 6/859 )

ترجمہ: میں رسول اللہ ‌ﷺ‌ سے ملا تو آپ نے مجھے فرمایا: اے عقبہ بن عامر! جو تم سے تعلق توڑے اس سے صلہ رحمی کرو، جو تمہیں محروم کرے اسے عطا کرو، جو تم پر ظلم کرے اس سے در گزر کرو۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

ليسَ الواصِلُ بالمُكافِئِ، ولَكِنِ الواصِلُ الذي إذا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وصَلَها

( صحيح البخاري: 5991 )

ترجمہ : رشتہ جوڑنے والا وہ نہیں جو بدلے میں صلہ رحمی کرے، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جب ناتا توڑا جائے تو وہ اسے جوڑے۔

یعنی  حقیقی صلہ رحمی کرنے  والا  وہ شخص ہے، جو قطع رحمی کے باوجود صلہ رحمی کرے۔ یہاں تک کہ اگر لوگ اس کے ساتھ بُرائی کریں اور وہ برائی کے بدلے میں ان کے ساتھ بھلائی کرے تو یہ حقیقی صلہ رحمی کرنے والا ہوگا۔ لہٰذا انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں، پڑوسیوں اور دوستوں وغیرہ کی تکلیف پر صبر کرے اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھے۔ ایسے انسان کے لیے دوسروں کے خلاف اللہ کی طرف سے ہمیشہ ایک مدد گار ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ فائدے میں رہتا ہے اور اس کے معاندین خسارے میں ہوتے ہیں۔

صلہ رحمی میں کیا کیا شامل ہے؟

صلہ رحمی میں رشتہ جوڑنا، رشتہ داروں کے گھر جانا اور انکی خبر گیری کرنا ، ہدیہ و تحفہ دینا، مالی و بدنی مدد کرنا، ظلم و زیادتی کا دفاع کرنا، ان کے دکھ سکھ اور غمی و خوشی میں شرکت کرنا ، ان کے ساتھ محبت اور خیر خواہی کا جذبہ رکھنا ، ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا وغیرہ  بھی شامل ہے ۔

14۔ سگریٹ نوشی سے احتراز کیجئے

 سگریٹ ، پان اور دیگر نشہ آور چیزوں کا استعمال ابھی سے ترک کردیں اور کوشش کریں کہ ہمیشہ کے لیے ان سے جان چھڑا لی جائے تاکہ  روزے کی حالت میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔

سگریٹ نوشی ترک کرنے کا انعام

سیدنا ابو قتادہ اور ابو دھماء رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

إنَّكَ لنْ تَدَعَ شَيئًا للهِ عزَّ وجلَّ إلَّا بدَّلَك اللهُ به مَا هُوَ خَيرٌ لكَ منه

(السلسلة الصحيحة: 2/734)

ترجمہ: تم جس چیز کو بھی اللہ  تعالیٰ کے خوف سے چھوڑ دو گے اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے بہتر چیز عطا فرمائے گا۔

رمضان المبارک نشہ آور چیزوں سے جان چھڑانے کا بہترین موقع ہے اور اس میں ہمت ، حوصلہ اور اللہ کی مدد مانگتے ہوئے ان آفات سے باآسانی جان چھڑائی جا سکتی ہے ۔

15۔ چالیس دن تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں

ماہِ رمضان کے ساتھ ماہِ شوال کے دس ایام ملا کر  چالیس دن تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھئیے، اس عمل کی بڑی فضیلت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

من صلى لله أربعين يوما في جماعة ، يدرك التكبيرة الأولى ، كتبت له براءتان : براءة من النار ، و براءة من النفاق

(السلسلۃ الصحيحۃ : 2652)

ترجمہ: جس نے چالیس روز جماعت کے ساتھ نمازیں پڑھیں اور (امام کے ساتھ) تکبیر اولیٰ (یعنی تکبیر تحریمہ) پاتا رہا تو اس کے لیے دو آزادیاں لکھ دی جاتی ہیں: جہنم سے آزادی اور نفاق سے آزادی۔

16۔ نفلی نمازوں کا اہتمام کیجئے

پروردگار کی بندگی کا سب سے اعلی اظہار نماز سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ نفلی نمازوں کا بھی بکثرت اہتمام کیا کرتے تھے۔ نفل نمازوں کے چند فضائل ملاحظہ کیجئے۔

نفل نماز فرائض کی تکمیل

نفل نماز فرائض کی تکمیل ہے۔ روزِ قیامت اگر فرائض میں کمی ہوئی تو وہ نوافل سے پوری کردی جائے  گی۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

أوَّلُ ما يُحاسَبُ الناسُ بِهِ ، يَوْمَ القيامَةِ مِنْ أعمالِهمُ الصلاةُ ، يقولُ ربُّنا عزَّ وجلَّ لملائِكَتِهِ وهو أعلمُ : انظروا في صلاةِ عبْدِي أتَمَّها أَمْ نَقَصَها ؟ فَإِنْ كانتْ تامَّةً كُتِبَتْ لَهُ تَامَّةً ، وَإِنْ كان انتقصَ منها شيئًا ، قال : انظروا هل لعبدي مِنْ تطَوُّعٍ ؟ فإنْ كان له تَطَوُّعٌ قال : أتِمُّوا لعبدي فريضتَهُ ، ثُمَّ تُؤْخَذُ الأَعمالُ على ذاكم

(صححه الألباني في صحيح أبي داود :864)

قیامت کے دن لوگوں سے ان کے اعمال میں سے جس چیز کے بارے میں سب سے پہلے پوچھ تاچھ کی جائے گی وہ نماز ہو گی۔ ہمارا رب اپنے فرشتوں سے فرمائے گا حالانکہ وہ خوب جانتا ہے: میرے بندے کی نماز کو دیکھو وہ پوری ہے یا اس میں کوئی کمی ہے؟ اگر پوری ہو گی تو پورا ثواب لکھا جائے گا اور اگر کمی ہو گی تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا: دیکھو میرے بندے کے پاس کچھ نفل ہے؟ اگر نفل ہو گی تو فرمائے گا: میرے بندے کے فرض کو اس کی نفلوں سے پورا کرو، پھر تمام اعمال کا یہی حال ہو گا۔

نفل نماز جنت میں نبی ﷺ کی صحبت

نفل نماز جنت میں نبی ﷺ کی صحبت کا ذریعہ ہے ، حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

كنتُ أبيتُ مع رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فأتيتُه بوَضوئِه وحاجتِه، فقال لي: سلْ، فقلت: أسألُك مرافقتَك في الجَنَّةِ، قال: أو غيرَ ذلك؟! قلتُ: هو ذاك! قال: فأعنِّي على نفْسِكَ بكثرةِ السُّجودِ

(رواه مسلم :489)

میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات گزارتا تھا، آپ کو وضو اور حاجت کا پانی لا کر دیتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”مانگو مجھ سے“، میں نے عرض کیا: میں جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے علاوہ اور کچھ؟“، میں نے کہا: بس یہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا تو اپنے واسطے کثرت سے سجدے کر کے (یعنی نماز پڑھ کر) میری مدد کرو۔

یعنی میں تیری سفارش کروں گا کہ تو میرے ساتھ جنت میں رہے مگر کثرت عبادت ضروری ہے۔ سجدے بہت کیا کرو

 نفل نماز درجات کی بلندی اور گناہوں کی بخشش

نفل نماز درجات کی بلندی ، گناہوں کی بخشش اور دخولِ جنت کا ذریعہ ہے۔ معدان بن ابی طلحہ یعمری بیان کرتے ہیں کہ :

لَقِيتُ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ، فَقُلتُ: أخْبِرْنِي بعَمَلٍ أعْمَلُهُ يُدْخِلُنِي اللَّهُ به الجَنَّةَ؟ أوْ قالَ قُلتُ: بأَحَبِّ الأعْمَالِ إلى اللهِ، فَسَكَتَ. ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَسَكَتَ. ثُمَّ سَأَلْتُهُ الثَّالِثَةَ فَقالَ: سَأَلْتُ عن ذلكَ رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ، فَقالَ: عَلَيْكَ بكَثْرَةِ السُّجُودِ لِلَّهِ، فإنَّكَ لا تَسْجُدُ لِلَّهِ سَجْدَةً، إلَّا رَفَعَكَ اللَّهُ بهَا دَرَجَةً، وحَطَّ عَنْكَ بهَا خَطِيئَةً

(صحيح مسلم: 488)

ترجمہ : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ثوبان رضی اللہ عنہ سے ملا تو میں نے کہا: مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جسے کروں تو اللہ مجھے جنت میں داخل فرما دے یا انہوں نے کہا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہو تو ثوبان رضی اللہ عنہ نے خاموشی اختیار فرمائی ( اور میری بات کا کوئی جواب نہ دیا ) پھر میں نے دوبارہ ان سے سوال کیا، انہوں نے خاموشی اختیار کر لی، پھر میں نے ان سے تیسری دفعہ یہی سوال کیا تو انہوں نے کہا: میں نے یہی سوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا: ” تم اللہ کے حضور کثرت سے سجدے کیا کرو کیونکہ تم اللہ کے لیے جو بھی سجدہ کرو گے اللہ اس کے نتیجے میں تمہارا درجہ ضرور بلند کرے گا اور تمہارا کوئی گناہ معاف کر دے گا۔

نفل نماز تقربِ اور محبتِ الہی کا ذریعہ

اللہ تعالیٰ کا قرب اور محبت حاصل کرنے کا ذریعہ فرائض کے بعد نوافل ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیثِ قدسی مروی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

وما يزالُ عبدي يتقرَّب إليَّ بالنوافلِ حتَّى أُحبَّه

(رواه البخاري :6502)

ترجمہ : اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔

17۔ کثرت  سے اللہ کا ذکر کیجئے

ذکرِ الٰہی عظیم الشان نیکی ہے، دل اور روح کی غذا ہے، اطمینان قلب کا اہم ذریعہ ہے، اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ عبادت ہے، قرب الہی کا سبب ہے، اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پاکیزہ، اعلیٰ و ارفع اور افضل عمل ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا :

ألا أُنبِّئكم بخيرِ أعمالِكم، وأزكاها عند مليكِكم، وأرفعِها في درجاتِكم، وخيرٌ لكم من إنفاقِ الذهبِ والوَرِقِ، وخيرٌ لكم من أن تلْقَوا عدوَّكم، فتضرِبوا أعناقَهم، ويضربوا أعناقَكم؟ ذكرُ اللهِ

(صحيح الجامع: 2629 )

ترجمہ : کیا میں تمہیں ایسے عمل کے بارے میں نہ بتاؤں جو تمہارے اعمال میں سب سے بہتر، تمہارے آقا و مولی کے نزدیک سب سے زیادہ پاکیزہ اور تمہارے درجات میں سب زیادہ اضافہ کرنے والا اور تمہارے لئے سونا چاندی خرچ کرنے سے بھی بہتر اور اس سے بھی بہتر کہ تم اپنے دشمن سے مقابلہ کرو اور تم ان کی گردنیں مارو اور وہ تمہاری گردنیں ماریں؟ وہ عمل اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔

عذابِ الہی سے بچاؤ کا ذریعہ

ذکرِ الہی عذابِ الہی سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

ما شيءٌ أنجى مِن عذابِ اللهِ من ذكرِ اللهِ

(صحيح الترغيب: 1493)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے ذکر سے بڑھ کر کوئی چیز اللہ کے عذاب سے نجات نہیں دے سکتی۔

صبح و شام کے اذکار کو معمول بنا لیجیے

امام ابن الصلاح رحمہ الله فرماتے ہیں :

من حافظ على أذكار الصباح والمساء، وأذكار بعد الصلوات، وأذكار النوم، عُد من الذاكرين الله كثيراً

( الأذكار للنووي، ص: 10)

ترجمہ : جس نے صبح و شام کے اذکار، نماز کے بعد کے اذکار اور نیند کے اذکار پڑھنے کو معمول بنا لیا تو وہ اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرنے والوں میں شمار ہوگا۔

18۔ عمدہ اخلاق اپنائیے

مخلوقِ خدا کے ساتھ نرم خوئی، لطف و مہربانی، سہولت و آسانی اور کلفت و مشقت کو دور کرنا حسن اخلاق کہلاتا ہے۔ اسلام میں ایمان اور اخلاق دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ ایک مسلمان کی پہچان ہی اخلاق سے ہے ۔ اگر اخلاق نہیں تو مسلمان نہیں۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک مسلمان ایمان کا تو دعوی کرے مگر اخلاقیات سے عاری ہو۔ آپ ﷺ مکارمِ اخلاق کے اعلیٰ معارج کی تعلیم و تربیت اور درستگی کے لیے مبعوث فرمائے گئے ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إنما بُعِثْتُ لأُتَمِّمَ مكارمَ الأخلاقِ

(السلسلۃ الصحيحۃ: 45)

ترجمہ : مجھے تو صرف اس (‏‏‏‏مقصد) کے لیے مبعوث کیا گیا کہ اخلاقی اقدار کی تکمیل کر سکوں۔

ایمان و عبادت کی درستگی کی عملی نشانی اخلاق کی درستگی ہے بلکہ عبادات و تعلیماتِ اسلامی کا لبِ لباب اخلاق کو سنوارنا اور نکھارنا ہے جس کی تائید نبی کریم ﷺ کے  ارشاد گرامی سے ہوتی ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إنَّ أكملَ المؤمنين إيمانًا أحسنُهم خُلُقًا ، و إنَّ حُسْنَ الخلُقِ ليبلغُ درجةَ الصومِ و الصلاةِ

(صحيح الجامع : 1578)

ایمان کے لحاظ سے سب سے مکمل مومن وہ ہے جس کا اخلاق سب سے بہترین ہو‏‏‏‏ اور انسان اخلاقِ حسنہ کی بدولت روزہ دار اور نمازی کے درجے تک پہنچ جائے گا“۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:

إن المؤمنَ لَيُدْرِكُ بحُسْنِ خُلُقِه درجةَ الصائمِ القائمِ

( صحيح أبي داود: 4798)

بیشک مومن خوش اخلاقی کے سبب وہ درجہ و مرتبہ حاصل کرتا ہے جو (عبادت و ذکر الٰہی کے لئے) شب بیداری کرنے والے اور ہمیشہ دن میں روزہ رکھنے والے کو ملتا ہے۔

آج کا معاشرہ اگر اسلام کے مزاج کے مطابق ڈھل جائے تو یقیناً جنت کا منظر پیش کرے اور معاشرے کی تمام اخلاقی خرابیاں خود بخود ختم ہو جائیں اور معاشرہ امن و سلامتی، اخوت و بھائی چارگی، میل جول اور محبت و مودت کا گہوارہ بن جائے۔

20۔ اپنے آپ کو اللہ کی عبادت کے لیے وقف کر دیجئے

حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إنَّ اللَّهَ تعالى يقولُ يا ابنَ آدمَ : تفرَّغْ لعبادتي أملأْ صدرَكَ غنًى وأسدَّ فقرَكَ وإن لا تفعَل ملأتُ يديْكَ شغلاً ، ولم أسدَّ فقرَكَ

(صحيح الترمذي : 2466)

ترجمہ: حدیث قدسی ہے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی فرماتا ہے کہ آدم کے بیٹے تو میری عبادت کے لیے فارغ ہوجا، میں تیرے دل کو غنا سے بھر دوں گا اور تیرے فقر کو دور کردوں گا، اور اگر ایسا نہ کیا تو تیرے دل کو مشاغل سے بھر دوں گا اور تیرے فقر کو دور نہ کروں گا۔

اللہ تبارک و تعالی نے جن و انس کو محض اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے۔ باقی دنیا کی تمام چیزیں اس لئے بنائی گئی ہیں کہ بندہ عبادت کے کام میں ان سے مدد حاصل کرے۔ انسانی زندگی کا اصل مقصد صحت بنانا، مال جمع کرنا اور لہو و لعب نہیں ہے۔ اس لیے ہر بندے سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ہر لمحہ عبادتِ الہی میں گزارے۔ اس کی ساری فکر اور پوری سعی اسی مقصد کے لیے ہونی چاہیے جس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس فکر و سعی کی برکت سے اس کے تمام معاملات درست اور سارے امور قابل اطمینان رہیں گے۔

21۔ افطاری میں غریبوں کو بھی شامل کیجئے

افطاری بناتے وقت اس بات کا خیال کیجیے کہ آپ کے پڑوس میں ایسے کون لوگ ہیں جو افطاری کا نظم کرنے سے قاصر ہیں ان کو افطاری میں اپنے ساتھ شامل کیجیے۔ نبی ﷺ نے عام دنوں میں یہ تاکید کی ہے کہ سالن بناو تو اس میں شوربہ بڑھا دو تاکہ پڑوسیوں میں ایسا نہ ہو کسی کو خوشبوجائے اور اس کا دل للچائے۔ آپ اندازہ کیجیے کہ پڑوسیوں کو رمضان میں افطاری کرانے کا کتنا زیادہ ثواب ہوگا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مَن فطَّرَ صائمًا كانَ لَهُ مثلُ أجرِهِ ، غيرَ أنَّهُ لا ينقُصُ من أجرِ الصَّائمِ شيئًا

(صحيح الترمذي: 807)

ترجمہ: جو کوئی کسی روزہ دار کو افطار کرا دے تو اس کو روزہ دار کے برابر ثواب ملے گا اور روزہ دار کے ثواب میں سے کوئی کمی نہیں ہو گی۔

افطاری کا انتظام کرانے کو حتیٰ المقدور خالصۃ لوجہہ اللہ کیجیے۔ اس میں ریا کاری اور دکھاوے سے پرہیز لازم ہے۔

22۔ کثرت سے دعاؤں کا اہتمام کیجئے

رمضان المبارک  دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے۔ لہذا کثرت کے ساتھ دعاؤں کا اہتمام کریں۔ دعا كی اہمیت اور فضائل میں چند آیات اور احادیث پیشِ خدمت ہیں ۔

اللہ کے ہاں سب سے معزز چیز دعا ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

ليسَ شيءٌ أَكْرَمَ على اللہِ تعالى منَ الدُّعاءِ

(صحيح الترمذي: 337)

اللہ تعالی کے ہاں کوئی بھی چیز دعا سے بڑھ کر معزز نہیں ہے۔

دعا تقدیر کو بدل دیتی ہے

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا يزيدُ في العمرِ إلَّا البرُّ ولا يردُّ القدرَ إلَّا الدُّعاءُ …

( صحيح ابن ماجہ: 73)

نیکی ہی عمر کو بڑھاتی ہے اور تقدیر کو دعا کے علاوہ کوئی چیز نہیں ٹال سکتی ۔

دعا آنے والی مصیبت اور آئی ہوئی مصیبت دونوں کو دُور کرتی ہے

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ الدعاءَ يَنْفَعُ مِمَّا نزلَ ومِمَّا لمْ يَنْزِلْ ، فَعليكُمْ عِبادَ اللهِ بالدعاءِ

( حسنہ الألبانی في صحيح الترغيب: 1634، و صحيح الجامع: 3409)

ترجمہ: دعا اس مصیبت کو بھی دور کرتی ہے جو اتر چکی ہے اور اُس مصیبت کو بھی ٹال دیتی ہے جو ابھی آئی نہیں ، تو اے اللہ کے بندو ! تم اللہ سے برابر دعا کرتے رہو۔

دعا عبادت ہے

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

قال النبي ﷺ الدُّعاءُ هوَ العبادةُ

(صحيح الترمذي: 3247)

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: دعا ہی عبادت ہے۔

نیز یہ بھی ضروری ہے کہ رمضان سے قبل نبی کریم ﷺ سے منقول دعاؤں کا اہتمام کریں ۔ مسنون الفاظ پر مشتمل دعاؤں میں تاثیر بھی زیادہ ہوتی ہے اور قبولیت کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے ۔

23۔ دعوت و تبلیغ

رمضان المبارک کا مقدس و بابرکت مہینہ جب مؤمنوں پر سایہ فگن ہوتا ہے تو اپنی رحمتوں اور برکتوں سے زمانے بھر کو معطر کر دیتا ہے۔ اور سارا عالم اپنے رب کے حضور اس کی رحمتوں، برکتوں کی سوغات لینے کے لیے  کھڑا ہو جاتا ہے کیونکہ اس ماہِ مقدس کی برکت سے انسان کا دل گناہوں کی آلودگی سے کنارہ کش ہو کر روزہ پر استقامت، نماز کی ادائیگی، سنن و واجبات کی پابندی، جذبۂ اخلاص و ایثار، صبر و استقلال، تلاوت قرآن کریم، اوراد و وظائف اور اعمالِ خیر کی طرف راغب ہوجاتا ہے اور مومن کی ایمانی حرارت میں مزید تیزی آجاتی ہے۔ ایسے پر بہار موقع سے امت کے علمائے کرام و ائمہ عظام کے لیے بڑا بہترین موقع ہے کہ وہ اپنے فریضۂِ دینی یعنی دعوت و اصلاح، تبلیغ و ارشاد کے ذریعہ عوام الناس کو دین کی صحیح تعلیمات سے روشناس کرائیں اور دینی مراکز میں درسِ قرآن، درس حدیث اور فقہی مسائل جیسے حلقوں کا اہتمام کریں۔

رسول اللہ ﷺ كا ارشاد ہے :

إنَّ الدالَ على الخيرِ كفاعلِه

(صحيح الترمذي : 2670)

ترجمہ: جس نے بھلائی کا راستہ دکھا یا تو اسے اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا کہ اس کے کرنے والے کو ملتا ہے۔

دعوت و تبلیغ اور اشاعتِ دین کی ذمے داری اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی طرف سے ہر مومن و مسلم پر عائد ہوتی ہے اور اپنی حیثیت، صلاحیت اور استطاعت کے مطابق سب کو اس سلسلے میں اللہ کے حضور جواب دہ ہونا ہے۔ چونکہ علماء سب سے زیادہ جاننے اور سمجھنے والے ہوتے ہیں، وہ دین کے احکام و مطالبات سے بھی باخبر ہوتے ہیں اور عام انسان کی نفسیات اور تقاضوں سے بھی اور ان کے ذہن و مزاج سے بھی، اس لیے یہ ذمہ داری ان کے لیے زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور عام لوگوں کے مقابلے میں ان کی جواب دہی بھی سنگین ہوتی ہے۔ لہذا علمائے کرام، ائمہ مساجد اور داعیانِ اسلام اس رمضان المبارک کے پر بہار موقع سے اپنی اپنی مسجدوں میں بعد نمازِ فجر یا عصر مختصر دینی نشستوں کا انعقاد ضرور کریں تاکہ عوام الناس تک اسلامی تعلیمات اچھی طرح پہنچ سکے۔

  1. (صحیح البخاري :1442، ومسلم :1010)
  2. (السلسلة  الصحیحة: 1908)
  3. (صحيح الجامع 3358)
  4. (السلسلة  الصحیحة: 2795)
  5. (صحیح البخاري :1417، ومسلم :1016)
  6. (صحيح الترغيب: 872)
  7. (صحيح مسلم: 2588)
  8. (السلسلة  الصحیحة : 2735)
  9. (السلسلة  الصحیحة: 3484)
  10. (صحيح الترمذي: 2616 )
  11. (صحيح الجامع: 3796)
الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ: